اک دن بچوں کے نام

از قلم محمد وجیہہ نصرت اشرفی

 

انسان چاہے جتنا بڑا بھی ہوجائے۔ نام کے اعتبار سے یا عمر کے اعتبار سے۔۔ لیکن بچوں کے ساتھ  بچے بننا اور بچوں کے ساتھ گزرا وقت ، خوشگوار    لمحات مہیا کرتا ہے۔۔

بچوں کی تربیت میں انہیں وقت دینا اک نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ کیونکہ۔تربیت کا مطلب یہ نہیں کہ کتاب کاپی اور قلم۔کے ذریعے کردار سازی کی جائے۔ بلکہ محض ان کے ساتھ وقت گزار لینا  بھی،بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔وہ اس لیے کہ بچے جب اپنے تربیتی مراحل میں ہوتے ہیں تو وہ اپنے آس پاس ہونے والی ہر چیز کو اپناتے ہیں۔  یا یوں کہا جائے کہ ماحول ان پر اثر انداز ہوتا ہے۔

اگر گھر کا ماحول کچھ اس طرح ہو کہ لڑائی جھگڑا تلخ کلامی اور ذہنی اذیت کا۔ماحول۔ہو تو یہ ماحول بچے پر منفی اثرات پیدا کرتے ہیں جیسے کہ بچے کی ذہنی نشونما رک جاتی ہے۔۔مزاجاً وہ بچہ چڑ چڑا اور ضدی بن جاتا ہے۔

بچوں کے ساتھ بچہ بننے میں کوئی برائ نہیں۔۔ ہر وقت رعب اور غصیلہ مزاج بچوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ گویا کہ ہمیں بھی یہی کرنا ہے۔۔  پھر وہ اپنے انداز میں اسی عمل کو اپنانے لگتے ہیں اور ضدی اور چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔

بچوں کے ساتھ بچہ بن کر انھیں یہ سکھایا جائے کہ اس وقت اس عمر میں انھیں کیا کرنا ہے۔ تو بچہ فریش ذہن کے ساتھ اسی عمل کو اپنانا ہے۔

بچوں کی تربیت کا 80سے 90 فیصد کردار وہ ہوتا ہے جو وہ اپنے آس پاس ہوتے دیکھتا ہے۔ چاہے آس پاس اس کے بھائ بہن ہوں یا ماں باپ۔۔

اور ماں باپ بھی اگر اپنے مقام سے اتر کر بچے نہ بنیں اور اپنا مقام اور رعب قائم رکھتے ہوئے سخت مزاج ہی رکھیں تو بچہ یا تو اسی تربیت کو اپنائے گا۔ یا آپ سے دور ہو جائے گا اور کوئی اور ذریعہء تربیت اپنائے گا۔۔۔ کیونکہ بچہ اپنی ہر حس کو بھرپور استعمال کرتا ہے اور اس حس کا استعمال کرنا سیکھتا ہے۔۔ اگر  مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات معلوم ہوگی کہ جب بھی کوئ نئی بات یا نیا عمل اپناتا ہے تو حیرت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل کو بار بار دھراتا ہے۔۔ اب چاہے وہ اس عمل سے اسے تکلیف پہنچے یا آرام۔۔۔

اک اور بہت اہم بات ، بچوں کی حس کو ابتداء دینا بھی بڑوں کے اختیار میں ہوتا ہے۔۔ کچھ تو جینیاتی طور بچوں کو حاصل ہوتی ہے۔ اور باقیہ حصول اس کے حسیات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔

مثلاً اگر بچہ بولنا شروع نہی کرتا ، تو اگر اسے اردو زبان کا ماحول دیں تو وہ اردو سیکھتا ہے ۔۔ انگریزی دیں تو انگریزی ۔۔۔ گویا اس نے یہ سیکھ لیا اس کے منہ سے نکلنی والی آواز سے کس طرح الفاظ بنتے ہیں۔۔ اگلا مرحلا ان الفاظ کا استعمال ہے۔

مثلا اگر اسے عام بول چال کا ماحول دیا جائے تو وہ عام بول چال سیکھے گا ، اگر اسے نعت خوانی کا ماحول دیا جائے تو بچپن ہی اپنی آواز کو ترنم میں ڈھال دے گا۔۔

اہل تشیع کے بچے اسی طور ذاکر بنتے ہیں کہ ہوش سنبھالتے ہی انھیں اسی ماحول۔کا عادی بنا دیا جاتا ہے۔

الغرض کہ ہماری آواز ہمارے الفاظ ہماری باتیں ہمارا چلنا پھرنا سونا اٹھنا ہماری ذھانت ہمارا انداز گویا ہر اک عمل ، غیر ارادی طور پہ بچوں کی تربیت کرتا رہتا ہے۔

گویا بچوں کی تربیت زبان سے نہی ہوتی۔۔ بلکہ ہم جو کرتے ہیں ، ہماری افعال بچوں کی تربیت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔۔

اور پھر زندگی کا کوئ شعبہ ہو اور میرے سردار میرے پیارے آقا علیہ السلام کی پر نور زندگی میں کوئی مثال موجود نہ ہو ایسا ممکن ہی نہی۔

اپنی مقام اور عمر سے اتر کر بچوں کے ساتھ بچوں کا ساتھی و دوست بننے کی نمایاں مثال یہ کہ اک مرتبہ کائنات کے سردار کو دیکھا گیا کہ آپ علیہ السلام اپنے ہاتھ اور گھٹنوں کے بل زمین پر جلوہ فرما ہیں اور حسنین آپ کی پشت پر سوار گویا حضور کو اپنا ساتھی محسوس کرتے ہوئے لطف اندوز ہوریے ہیں۔۔

 

المختصر یہ کہ بچوں کی تربیت کاتعلق ہمارے  کردار  سے ہوتا ہے۔۔ ہم گونگے ہو کر بھی بچوں کو اعلی اخلاق و  اطوار سے مزین کر سکتے ہیں۔۔

بات کا خلاصہ یہ کہ بچوں کی تربیت کے لیے کسی وقت اور کچھ وقت  خود بطور بچہ بننا اور ان کا ہم پلہ ساتھی بن جانا ، بچوں کے لیے بھی مفید اور بڑوں کے لیے ذھنی سکوں ک باعث ہوتا ہے کیونکہ بچے قدرت کے قریب ہوتے ہیں اور جب تک ان کی حسیات مکمل طور پر ان کے اخیار میں نہی آجاتی ، قدرت براہ راست ان حسیات کو حصہ ہوتی ہے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post