زندگی ایک تماشا ہے تو روز محشر
اجر کی ساری توقع ہے اداکاری سے
بس پرستش نہیں کرتے ہیں بتوں(لوگوں) کی ورنہ
کس کو انکار ہے صورت کی پرستاری سے
شہزاد شرجیل
ضبط سے تکلم تک سب کا سب دھوکہ ہے
دل میں کیا سمایا تھا لب پہ بات آئی کیا
کس کو خوف رسوائی عشق سر کا سودا ہے
جان پر بنے جس کی اس کو جگ ہنسائی کیا
آپ بھر کے لائے ہوآگ اپنی جھولی میں
دل جلے کہ گھر جاذب عشق میں دہائی کیا
شکیل جاذب
دلیل منطق نہیں چلے گی
یہ عشق ہے فلسفہ نہیں ہے
یہ عشق ہے بندگی سمجھ مت
تو آدمی ہے خدا نہیں ہے
ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر
ہم اتنے سادہ ہیں خوش گمانی میں مررہے ہیں
کہ ہم تو کردار ہیں کہانی میں مررہے ہیں
اٹھا کہ آواز قتل ہوتے تو بات بھی تھی
ستم تو یہ ہے کہ بے زبانی میں مررہے ہیں
ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر
شیشے سے کچھ اور کہے گی پتھر سے کچھ اور
باہر سے کچھ اور ہے دنیا اندر سے کچھ اور
لفظوں میں کوئی بات نہ تھی دل شکنی کی
لہجہ مگر ایسا تھا کہ بس کھا گیا مجھ کو
اچھا تو یہی ہے کہ میں کچھ بھی نہ کہوں دوست
کرنی ہی پڑی بات تو پھر ساری کروں گا
سچ یہ ہے کہ پڑتا ہی نہیں چین کسی پل
گر صبر کروں گا تو اداکاری کروں گا
کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
سعود عثمانی
وہ دن جب اس نے بنایا تھا خاک سے مجھ کو
میرا غرور بھی سب خاک میں ملادیا تھا
اجمل سراج
میں اپنا آپ شد و مد سے منوانے نہیں آیا
سمجھنے
آیا ہوں دنیا کو سمجھانے نہیں آیا
مجھے
پہنچانا ہے سب کو سوالوں سے سوالوں تک
جوابوں
سے میں کم عقلوں کو بہلا نے نہیں آیا
براہ
منزل گم گشتہ بھٹکانے کو آیا ہوں
کسی
کو بھی میں راہ راست پر لانے نہیں آیا
یہاں
لایا ہے مجھ کو کھینچ کر اسرار مے خانہ
فقط
پینے پلانے کو میں مے خانے نہیں آیا
میں
اپنا تجزیہ لایا ہوں شعر لوح کی صورت میں
کہ
دہرائی ہوئی باتوں کو دہرانے نہیں آیا
ہے اور
نہیں کائنات مجھ کوتھمادیاگیا
یعنی
میرے وجود کو کھیل بنادیا گیا
میرا
سوال تھا کہ میں کون ہوں
(اورجواب
میں )مجھ کو ہنسادیاگیا مجھ کو رلادیا
میرے
جنوں کو تھی بہت خواہش سیر و جستجو
مجھ کو
اسی سے باندھ کر مجھ میں بٹھا دیاگیا
میں نے
کہا کہ زندگی درد دیا گیا مجھے
میں نے
کہا کہ آگہی زہرپلادیاگیا
خواب تھا میرا عشق بھی خواب تھا تیرا حسن بھی
خواب
میں اک اور خواب دکھادیا گیا
میر
احمد نوید
یہ ہم جو
شہر کے پاس اپنا گاؤں بیچتے ہیں
یقین کیجئے،
ہاتھ اور پاؤں بیچتے ہیں
یہ تم جو
مجھ سے محبت کا مول پوچھتے ہو
تمہیں یہ
کس نے کہا پیڑ چھاؤں بیچتے ہیں
وہ
پہلے کاٹتے ہیں پاؤں چلنے والے کے
پھر اس
غریب کو لکڑی کے پاؤں بیچتے ہیں
ہم اس لئے بھی تجھے بولنے سے روکتے ہیں
توچپ رہے تو زیادہ سنائی دیتاہے
جناب عباس تابش
بیٹھا کے
اپنے قریب اُٹھایا کبھی کسی نے کبھی کسی نے
ہمیں اکیلا
کیا خدایا ، کبھی کسی نے کبھی کسی نے
نہ اِس
نظر نے کوئی کمی کی ،نہ اُس نظر نے کوئی کمی کی
جگر پر
تِیر ستم چلایا ،کبھی کسی نے کبھی کسی نے
صنم کدوں میں ہمیشہ ہم نے بلند رکھی اذان اپنی
بہت مکافات
سے ڈرایا کبھی کسی نے کبھی کسی نے
ہٹے نہیں
اپنے راستے سے ہم ، اہل دنیا و دیں میں رہ کر
ہمارا ایمان
آزمایا ، کبھی کسی نے کبھی کسی نے
سلیس و
سادہ غزل کے فن میں ، رہے یگانہ ہم انجمن میں
اگرچے رنگِ
سخن اُڑایا، کبھی کسی نے کبھی کسی نے
جو رازداری
کے ساتھ سن کر گئے تھے انور شؔعور صاحب
وہ قصہ
آکر ہمیں سنایا ،کبھی کسی نے کبھی کسی نے
انورشعور
طاقت اور دولت کا نشہ
بس اس کو ظاہر کردیتاہے
ورنہ فطرت کب بدلی
حالات کے بدلے جانے سے
پہلے وہ خاموش رہا
پھر یکدم شعلے پہن لئے
ہم نے اک دن پوچھی تھی
اک بات کسی پروانے سے
کیسی گہری بات ملی ہے
ہم کو اک دیوانے سے
امجد اسلام
کچھ وضاحت نہ التجا کیجئے
سچ کہا ہے تو حوصلہ کیجئے
ہم نے مانا کہ معتبر ہے دماغ
دل نہ مانے اگر توکیا کیجئے
آپ بھی تو یہیں پہ رہتے ہیں
خود کو بھی وقت کچھ دیجئے
کرنا چاہیں جو شہر کی تعمیر
اپنے ہی گھر سے ابتدا کیجئے
دل نہ دنیا سے ہارمانے کبھی
میرے حق میں یہی دعا کیجئ
آئینے ٹوٹ کر نہیں جڑتے
دوستوں کونہ یوں خفا کیجئے
لفط سے بھی خراش پڑتی ہے
تبصرہ سوچ کرکیاکیجئے
جھوٹ سے بھی برا ہے آدھا سچ
اس سے بہتر ہے کہ چپ رہا کیجئے
امجد اسلام امجد
خواہشیں دل میں یہ فورا ہی جگادیتاہے
جب بھی توبہ کی میرے نفس نے عیاری کی
Post a Comment