خانگی زندگی میں صبروتحمل کی اہمیت و فوائد، سیرت طیبہ کی روشنی میں

’’صبر‘‘ كےلغوی معنى ركنے،ٹھہرنے یا باز رہنے کے ہیں اور نفس کو اس چیز پر روکنا (یعنی ڈٹ جانا) جس پر رکنے (ڈٹے رہنے کا)کا عقل اور شریعت تقاضا کررہی ہو یا نفس کو اس چیز سے باز رکھنا جس سے رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کررہی ہو صبر کہلاتا ہے۔ بنیادی طور پر صبر کی دو قسمیں ہیں :

 (۱) بدنی صبر جیسے بدنی مشقتیں برداشت کرنا اوران پر ثابت قدم رہنا۔

(۲) طبعی خواہشات اور خواہش کے تقاضوں سے صبر کرنا۔ پہلی قسم کا صبر جب شریعت کے موافق ہوتو قابل تعریف ہوتا ہے لیکن مکمل طور پر تعریف کے قابل صبر کی دوسری قسم ہے۔

  آج کل صبر،تحمل اوربرداشت کی زیادہ ضرورت ہے ،جیسا کہ اوپرذکر کیاگیا کہ صبرکے لغوی معنی ہیں روکنا،برداشت کرنا ،ثابت قدم رہنا یاباندھ دینا۔ اس کامفہوم ہے کہ ناخوشگوارحالات میں اپنے نفس پرقابو رکھنا۔ کسی بھی پریشانی ،بیماری ،تکلیف اورصدمے کی حالت میں ثابت قدمی اورہمت قائم رکھتے ہوئے اپنے مالک وخالق پرمکمل بھروسہ رکھنا ۔

ہماری اِنفرادی و اِجتماعی، گھریلو اور سَماجی زندگی میں مَصائب و آلام، آفات و بَلِیّات،مصیبت و اَذِیَّت اور بیماری وغیرہ یہ سب ربِّ قدیر عَزَّوَجَلَّ کی جانب سے امتحان و آزمائش کے طور پر ہوتے ہیں اور ان پر صَبْر کرنے والوں اور استِقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والوں کو بشارتِ خداوندی ،قُربِ الٰہی، اجرِ بےحساب اور آخِرت کی سلامتی نصیب ہوتی ہے۔قرآن و حدیث میں ہمیں صَبْر سے کام لینے کا دَرْس دیا گیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ پاک میں 90 سے زائد مَقامات پر صَبْر کا ذکر کیا گیاہے۔

رسولِ اکرم ﷺ کی پوری زندگی صبر و تحمل سے لبریز ہے، کسی موقع پر بھی آپ نے نفسانی جذبات کا استعمال نہیں کیا، غیظ و غضب اور وقتی معاملات سے طیش میں آکر کوئی بھی اقدام بلاشبہ ہزار مفاسد پیدا کرتا ہے؛ اس لیے ضرورت ہے کہ تمام شعبہ ہائے حیات میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے، آقا اپنے ملازم کے قصور اور لغزشوں کو معاف کرتے اور اگر وقتی طورپر کبھی آقا ناراض ہوجائے تو ملازم کو بھی اسے برداشت کرنا چاہیے، باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرے، میاں بیوی میں خلش ایک فطری بات ہے؛ مگر اسے باہمی صبرو تحمل سے دور کرتے ہوئے زندگی کو خوش گوار بنانے کی کوشش کی جائے۔ غرض پرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے صبر و تحمل اور قوتِ برداشت بنیادی عنصر ہے۔

بیوی،بچوں،دوست ،احباب و دیگر رشتہ داروں  کی  محبت وتکریم حاصل کرنے کا  طریقہ

ایک اہم نکتہ

آپ کو میرا جواب بہت عجیب لگے گا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے دوست، رشتہ دار، بچے، والدین حتیٰ کہ آپ کی بیوی بھی آپ کے رشتے کی قدر اور عزت کریں، تو آپ کو اپنے آپ کو ضبط (یعنی صبروتحمل)کرنے کی ضرورت ہے۔اپنے آپ کو جائز خواہشات سے روکنے کی پوری کوشش کریں۔ اپنی جائز خواہشات اور ضروریات سے حتی الامکان بچیں جو اسلام میں جائز ہیں،یہاں ناجائز خواہشات  کی بات نہیں ہورہی وہ تو پہلے سے ممنوع ہیں۔

اگر آپ اپنی عزت و توقیر میں اضافہ چاہتے ہیں تو  کبھی کسی سے انعام  یا ستائش کا مطالبہ نہ کریں۔ دوسروں کے ساتھ خلوص اور محبت سے پیش آئیں جواب میں اچھے سلوک کی بھی توقع نہ رکھیں۔ اگر آپ اس حد تک جاسکتے ہیں تو ایک وقت آئے گا خود آپ کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوجائے گا۔

اردو زبان میں ایک کہاوت ہے کہ ’’نیکی کردریا میں ڈال" یعنی دوسروں کے ساتھ اچھا کرو اور دریا میں پھینک دو۔ اس قول پر عمل کریں۔ دوسروں کے بارے میں صرف مثبت سوچیں، اچھی بات کریں اور اچھا کریں لیکن ان سے اچھے بدلے کی امید نہ رکھیں۔

جلد ہی آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ کی اہمیت کو محسوس کریں گے۔ وہ آپ کی دوستی کی خواہش کریں گے اور آپ کی کمی محسوس کریں گے۔ اگر آپ ان تمام مشقتوں پر خلوص نیت سے عمل کریں تو ان تمام مشکلات کے پیچھے کامیابی ہے، آپ دنیا اور آخرت میں کامیاب انسان بنیں گے۔ چند لوگوں کی فکر نہ کریں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے آپ کو استعمال کیا ہے، آپ کو بیوقوف بنایا ہے۔ توجان لیں کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ومکروا ومکراللہ

 آپ کافی ہوشیار ہیں اور وہ ... آپ طویل مدتی پالیسی پر کام کر رہے ہیں اور وہ شارٹ کٹ پر عمل کر رہے ہیں۔ ایک دن یہ شارٹ کٹ (زخم) ان کے لیے کینسر بن جائیں گے۔اسے آزمائیں جب تک کہ بہت دیر نہ ہو جائے۔

علامہ خازن اپنی تفسیر میں ’’حسن خلق‘‘ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ لوگوں سے محبت کرنا‘ معاملات کی درستگی ، اپنوں اور بیگانوں سے اچھے تعلقات رکھنا‘ سخاوت کرنا، بخل اور حرص سے پرہیز کرنا‘ تکلیف پہنچنے پر صبر کرنا، اور ادب واحترام کے تقاضوں کو پورا کرنا۔ امام غزالی ؒنے حسن خلق کے بارے میں بڑی قیمتی بات فرمائی ہے۔’’حسن خلق کا ثمرہ الفت (محبت)ہے اور برے اخلاق کا پھل بیگانگی اور دلوں کی دوری (نفرت)ہے۔‘‘

ویسے بھی دنیا اور آخرت کی حقیقتوں کو واضح کرتے ہوئے قرآن پاک میں صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ’’ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جاتا ہے جو خدا کے پاس ہے وہ باقی ہے (کہ کبھی ختم نہیں ہو گا) اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم ان کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے۔

مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ ۖ وَمَا عِنْدَ اللّـٰهِ بَاقٍ ۗ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّـذِيْنَ صَبَـرُوٓا اَجْرَهُـمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ (‘‘ سورۃ النحل، آیت96)

جو تمہارے پاس ہے ختم ہو جائے گا، اور جو اللہ کے پاس ہے کبھی ختم نہ ہوگا، اور ہم صبر کرنے والوں کو ضرور بدلہ دیں گے ان کے اچھے کاموں کا جو کرتے تھے۔

یعنی جو لوگ خدا کے عہد پر ثابت قدم رہیں گے اور تمام مشکلات اور صعوبتوں کو صبر کے ساتھ برداشت کریں گے، ان کا اجر ضائع ہونے والا نہیں۔ ایسے بہترین عمل کا بدلہ ضرور ہمارے یہاں سے مل کر رہے گا، بلاشبہ خالق کائنات اپنے صابر و شاکر بندوں کو پسند فرماتاہے قرآن مجید میں صبر کے حوالہ سے فرمایا گیا ہے کہ ’’ ان لوگوں کو دگنا بدلہ دیا جائے گا کیونکہ صبر کرتے رہے ہیں اور بھلائی کے ساتھ برائی کو دور کرتے ہیں اور جو (مال) ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

اُولٰٓئِكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُـمْ مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَـرُوْا وَيَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُـمْ يُنْفِقُوْنَ (‘ سورۃ القصص، آیت54)

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کی وجہ سے دگنا بدلہ ملے گا اور بھلائی سے برائی کو دور کرتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

قُلْ يَا عِبَادِ الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّـذِيْنَ اَحْسَنُـوْا فِىْ هٰذِهِ الـدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَاَرْضُ اللّـٰهِ وَاسِعَةٌ ۗ اِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِـرُوْنَ اَجْرَهُـمْ بِغَيْـرِ حِسَابٍ (سورۃ الزمر، آیت10،)

کہہ دو اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو اپنے رب سے ڈرو، ان کے لیے جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ہے اچھا بدلہ ہے، اور اللہ کی زمین کشادہ ہے، بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔

یہاں  اچھا بدلہ اوربھلائی سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں اگرچہ مال و دولت بھی اس بھلائی میں شامل ہے، یعنی یہ ممکن ہے کہ اس دنیا میں پرہیز گاروں کو مال و دولت عطا ہوا اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں مال و دولت عطا نہ کیا جائے البتہ بھلائی کی اور بھی بہت سی اقسام ہیں جو انہیں یقیناً حاصل ہوتی ہیں۔ مثلاً ایسے لوگوں کی سب ہی عزت کرتے ہیں خواہ عزت کرنے والے دیندار ہوں یا دنیا دار، ایسے لوگوں کی بات قابل اعتماد سمجھی جاتی ہے، ایسے لوگوں کی ساکھ قائم ہوتی ہے اور آخرت کی بھلائی جو بہرحال ایسے لوگوں کے لئے یقینی ہے۔

 

 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post