قربانی کا جانور خود ذبح کرنا یا کروانا
مفتی
خرم غزالی
اگر صاحب
قربانی خود اچھی طرح جانور کو ذبح کرسکتاہے اور وہ اس پر قادر بھی ہو تو افضل یہ ہے
کہ وہ خود ذبح کرے اور اگر وہ اچھی طرح ذبح نہ کرسکتا ہو تو کسی دوسرے ایسے شخص سے
جو اچھی طرح جانورذبح کرسکتا ہو اس سے ذبح کروانا زیادہ بہتر ہے۔
ملک العلماء امام کاسانی رحمۃ اللہ نقل فرماتے
ہیں:
فالافضل ان یذبح بنفسہ ان قدر علیہ لانہ
قربۃ ۔شرتھا بنفسہ أفضل من تولیتھا غیرہ کسائر القربات۔والدلیل علیہ ماروی:
ان رسول اللہ ساق مائۃ بدنۃ فنحر منھا نیفا
وستین بیدہ الشریفۃ علیہ الصلوٰۃ والسلام ثم اعطی المدیۃ سیدنا علیا رضی اللہ عنہ فنحر
الباقین۔ وھذا اذا کان الرجل بعین الذبح ویقدر علیہ فاما اذا لم یعین فتولیتہ غیرہ
فیہ أولی۔
وقد روی عن ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ ۔ أنہ
قال: نحرت بدنۃ قائمۃ معقولۃ فلم أشق علیہا فکدت اھلک ناساً۔لأنھا نفرت فاعتقدت أن
لا أنحرھا الا بارکۃ معقولۃ واولیٰ من ھو أقدر لی ذالک منی۔(بدائع الصنائع، کتاب التضحیۃ،
ج٤، ص٣٢١، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
افضل یہ ہے کہ اگر قربانی کرنے والا خودجانور
ذبح کرسکتا ہے تو خودذبح کرے ۔ کیونکہ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا خود ادا کرنا دوسرے
کے ذریعے اداکرنے سے بہتر ہے جیسے کہ تمام عبادات میں یہی حکم ہے۔ اس کی دلیل وہ روایت
ہے جو نبی کریمﷺسے مروی ہے کہ آپﷺایک سو اونٹ قربانی کے لئے لائے جن میں سے آپؐ نے
کچھ اوپر ساٹھ اونٹ خود ذبح فرمائے اور پھر چھری حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکڑادی تو
انہوں نے باقی اونٹوں کو نحر فرمایا۔ یہ حکم اس صورت میں ہے جب وہ اچھی طرح ذبح کرسکتا
ہو اور اس پر قادر ہو اور اگر وہ اچھی طرح ذبح نہیں کرسکتا ہو تو تب کسی اور سے ذبح
کروانا زیادہ بہتر ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:میں
نے ایک مرتبہ کھڑے مگر بندھے ہوئے اونٹ کو نحرکیا تو میں اسے ٹھیک طرح نحر نہ کرسکا
قریب تھا کہ میں لوگوں کو ہلاک کردوں اس لئے کہ وہ اونٹ بھاگ اٹھا تھا ۔لہذا میں نے
اپنے دل میں پختہ ارادہ کیا کہ آئندہ میں اس کوبٹھاکراور اس کی ایک ٹانگ باندھ کر(
اسے اچھی طرح قابو کرکے) ذبح کروں گا اور جو شخص اس پر مجھ سے زیادہ قادر ہو وہ اس
کا مجھ سے زیاد ہ اہل ہے۔
جب تک قربانی کرنے والاشخص خود اچھی طرح قربانی
کرسکتا ہے توافضل ہے کہ وہ خود جانور ذبح کرے ورنہ کسی اور سے ذبح کروادے۔
Post a Comment