خطبہ حجۃ الوداعاہم تاریخی معلومات

پروفیسر علامہ ابومحمد فہیم انواراللہ خان صاحب  

 ''جبلِ حِراء تا جبلِ رحمت''

جان،مال، عزت و آبرو اور ہر مخلوق کے حقوق کا تحفظ

یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ مِن رَّبِّکَ (المائدہ٦٧(

مفھوم:''اے رسول ؐ آپ پر آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ

پیغام ِ حق نازل کیا جارہا ہے وہ سب نوع انسانی کو پہنچادیجئے''

23 سالہ عملی منشورِ حیات پر طلبِ شہادت

اَلآ،ھل بلغتُ ؟

کیا میں نے اللہ کا پیغام پہنچادیا؟

شہادت:(گواہی(

 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بیک زبان جواب دیا ۔بے شک،بے شک آپ ؐ نے اپنافرض منصبی پوراکردیا اور اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک پہنچادیا۔

پس منظر

مقام:

میدان عرفہ جبل رحمت کے زیر سایہ ومِنیٰ

دن:

 جمعہ وہفتہ

تاریخ و سال:

 ٩،١٠ ذی الحجہ ١٠ ؁ ھ مطابق ٦،٧ مارچ 632؁ م

وقت:

 زوال کے بعد

شرکاء مجمع:

 ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد

سامعین:

 صحابہ کرام ؓ نفوس مقدسہ ،مرد و خواتین

منبر:

 قصواء اونٹنی کی پیٹھ پر ،مجمع کے درمیان

موضوع:

نوعِ انسانی کو امن و سلام کا پیغام

منفرد انداز خطاب:

جامع کلمات ،ہر لفظ فصاحت و بلاغت سے اعلیٰ و برتر

مکبر الصوت:

آپ ﷺ ہرجملے کے بعد خاموشی اختیار فرماتے متعدد اصحاب بطور مکبر چاروں طرف ہرجملے کودہراتے جاتے۔اس طرح آپ ﷺ کے خطبے کا ایک ایک لفظ اور پیغام مجمع میں موجود ہرصحابی اور صحابیہ کے کانوں تک برابر پہنچتا رہا۔اور انھوں نے محفوظ کرلیا۔

تاریخی ریکارڈ:

تمام صحابہ کرام ؓ ثقہ اور عادل۔راویوں نے خطاب کا ایک ایک لفظ محفوظ کیا اور امانت ووصیت کا حق اداکیا۔

اہمیت وعظمت:

آپ ﷺکا یہ منفرد خطاب عملی اور مثالی اہمیت کا حامل ہے جو ٢٣ (تئیس) سالہ اسوہ حسنہ کا آئینہ ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post