مولاناجلال الدین رومی کی شخصیت اور ان کا کلام دونوں ہوئی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ چھبیس ہزار چھ سو چھیاسٹھ اشعار پر مبنی ان کی مشہور زمانہ  مثنوی تصوف اور عشق الٰہی کے جملہ موضوعات کو انتہائی سادگی روحانی اور عام فہم انداز میں بیان کرتی ہے۔

 عشق الٰہی اور معرفت کے انتہائی مشکل و پیچیدہ نکات سلجھانے کے لیے مولانا نے سبق آموز حکایات و قصے کہانیوں سے مدد لی ہے۔ جو بھی لکھا  ہے  قرآن و حدیث نبوی سے اس کی سند بھی بیان کی جاتی ہے ۔اس لیے آج آٹھ سو سال گزر جانے کے باوجود ان کے کلام کی اہمیت و افادیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔                                                 یک زمانہ صحبت با اولیا

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

اللہ کے ولی کی صحبت کے چند لمحے ۔سو سال کی بے ریا عبادت سے بھی بہتر ہے۔

صحبت صالح ترا صالح کند

صحبت طالح ترا طالح کند

نیک لوگوں کی صحبت نیک بنا دیتی ہے ۔بُرے لوگوں کی صحبت بُرا بنا دیتی ہے۔

اولیا را ہست قدرت از الہ

تیر جستہ باز آرندش راہ

اللہ کے ولیوں کو رب کی طرف سے طاقت حاصل ہے کہ وہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کو بھی واپس کر دیتے ہیں یعنی تقدیر بدل دیتے ہیں اس بار میرے سفر کے ساتھی جناب سید لیاقت علی گیلانی ACG Bahawalpur تھے  اپ بہت اچھے شاعر بھی ہیں مجموعہ کلام بھی چھپ چکا ہے۔ھم ملتان سے بذریعہ دبئی فلائی براسطہ دبئی 30 دسمبر کو استنبول پہنچے ۔گیلانی صاحب کی خواہش تھی پہلے مولانا جلال الدین رومی کے مزار پر قونیہ چلیں پھر بقیہ شہر کی سیر کی جائے ۔ھم چارگھنٹے کے پرسکون سفر کے بعد قونیہ پہنچے۔ ٹرین کی رفتار دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ تھی۔ قونیہ شہر رقبے کے لحاظ سے ترکی کا سب سے وسیع شہر ہے البتہ آبادی کم ہے۔ ہم نے قونیہ اسٹیشن سے بس لی اور میولانا (یعنی رومی) کے مزار پہنچے۔

ہم نے مزار پر ’چکر کھانے والے درویشوں‘ کے رقص (سماع) کے متعلق بہت کچھ سنا تھا کہ یہ ہفتے کے روز ہوتی ہے۔

ہم قونیہ جلال الدین رومی کی خاطر آئے تھے کیونکہ قونیہ جلال الدین رومی ہی کا شہر ہے۔آج جمعہ کا دن تھا ہم جلدتیار ہوکر مزار سے ملحقہ مسجد میں پہنچ گے۔

جمعہ کی ادیئگی کے بعد گیلانی صاحب نے کہا کہ ھم رومی کے روضے پر حاضری دیتے ہیں ۔حاضری کے بعد ملحقہ میوزیم کا دورہ کیا۔

مزارمیں جا کر ایک جلال اور ہیبت سی طاری ہو جاتی ہے۔ بڑی سے بڑی مسجد میں بھی اتنا سکوت طاری نہیں ہوتا ۔مولانا کی قبر ٹھیک اس برج تلے ہے جو دور سے دکھائی دیتا ہے۔

قبر سبز غلاف میں ملبوس ہے جس پر زریں دھاگے سے آیات قرآنی کاڑھی ہوئی ہیں۔ بلند سرہانے اورقبر کے تعویذ پر اونچے مخروطی کلاہ کی گہری سبز دستار دھری ہے‘۔

میوزیم میں رومی کے زمانے کے ملبوسات، کتب اور مختلف نوادرات موجود تھے۔ قریب ہی شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا علامتی مزار موجود ہے۔گیلانی صاحب نے بتایا کہ اقبال مولانا کو پیر رومی کہتے تھے۔ان کا مشہور شعر۔۔۔۔۔پیر رومی خاک را اکسیر کرد۔  ۔۔۔۔۔۔۔از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد

(پیر رومی نے خاک کو اکسیر بنادیا اور میری خاک سے کئی جلوے تعمیر کر دکھائے۔ اقبال)

میوزیم میں اس دور کےاستعمال ہونے والے موسیقی کے آلات، متفرق تسبیحات، مولانا کی جائے نماز اور سب سے بڑھ کر مولانا کی مشہور زمانہ تصنیف: مثنوی روم وہاں قلم دوات سمیت یوں پڑی تھی گویا ابھی ابھی مولانا وہاں سے اٹھ کر گئے ہوں۔

زیارت کے بعد قریب واقع ایک ھوٹل پر پہنچے۔ بڑا لذید کھانا تھا ترکی کے کھانے دینا میں معروف ہیں ۔گیلانی صاحب نے رومی کے مثنوی کے مزید اشعار سے ھماری اس چھوٹی بزم کو روحانی ماحول سے منور رکھا۔   

کار پاکاں را قیاس از خود مگیر

گرچہ باشد در نوشتن شیر شیرِ

نیک لوگوں کے کام کو اپنے پر قیاس نہ کر ۔ اگرچہ لکھنے میں شیر(درندہ) اور شیرِ( دودھ) یکساں ہے۔اور جگہ لکھا ہے۔۔۔۔خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم

خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم

اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔اور مقام پر لکھتے ہیں ۔۔۔چوں تو شیریں نیستی فرہاد باش

چوں نہ لیلیٰ تو مجنوں گرد فاش

جب تو شیریں نہیں ہے فرہاد بن جا ۔جب تو لیلیٰ نہیں ہے توکھلا مجنوں بن جا ۔یعنی معشوق نہیں ہے توپھر عاشق بن۔


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post