عجب مقام خشوع و خضوع ہوتا ہے

ہر انسان کا مطمح نظر فلاح و کامیابی ہے۔وہ ان تمام اوصاف و خوبیوں سے متصف ہونا چاہتا ہے جو ایک کامیاب ترین میں فرد میں ہوسکتی ہیں۔اس کے لئے وہ کامیاب افراد کی زندگیوں اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کرتاہے۔ وہ تمام کارآمد و مفید ہوسکتی ہیں لیکن کامیابی کے حصول کے لئے  بہترین اوصاف وہ قرارپائیں گے جن سے ان تمام کامیاب ترین افراد کے  خالق نے ہمیں خبر دی۔ خالق کائنات رب ذوالجلال نے اپنی آخری کتاب  قرآن حکیم  میں فلاح و کامیابی پانے والے افراد کی کئی صفات کا ذکرکیا ہے۔ جن  سے متصف انسان کامیابی کا سرٹیفیکیٹ(سند)حاصل کرتاہے ۔  ان صفات میں سے ایک اہم صفت نماز میں خشوع وخضوع اختیارکرناہے۔ جیسا کہ سورۃ المومنون    کےآغاز ہی میں مفلحین کی صفات ذکر کی گئی ہیں جن میں پہلی صفت خشوع ہے۔

 قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُـوْنَ۔ اَلَّـذِيْنَ هُـمْ فِىْ صَلَاتِـهِـمْ خَاشِعُوْنَ(المومنون:1،2)

بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔

نمازرب کا وہ انمول عطیہ ہے  جس کا حکم اس نے دنیا میں نازل نہیں کیا بلکہ معراج کے موقعہ پر اپنے پاس بلاکر اپنے حبیب لبیب کو عطا فرمایا۔ یقیناً نماز اور معراج میں کوئی تو مناسبت ہوگی۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے : الصلوٰۃ معراج المومنین۔ نماز مومنین کی معراج ہے۔ جب حضور ﷺ یہ ارشاد فرمارہے ہیں تو یقینا ًنماز مومن کی معراج ہے اگرچہ ہم اسے معراج کا حق ادا نہ کرسکیں۔

 یہ وہ عظیم عبادت ہے جس میں بندہ رب کی بارگاہ میں کھڑا ہوتاہے،  اس سے ہمکلام ہوتاہے۔رب کی نازل کردہ آیات اسے سناتا ہے۔ رب سے مناجات کرتاہے۔ اس کے حبیب پر درود و سلام کا ھدیہ بھیجتاہے۔اس قدر عظیم عبادت ، اس قدر عظیم ذریعہ رب سے کلام کا جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک  فرمایا: "جعلت قرۃ عینی فی الصلاۃ "۔نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔(سنن نسائی :3940)

افسوس! ہم نے اسے اتنا بے وقعت کردیا کہ اس کا نہ کوئی اہتمام ، نہ کوئی انتظار،نہ اس میں انہماک۔ کیا اس کی اہمیت کا اندازہ تب ہوتا اگر اس کے لئے اپنے لہو سے وضو کرنا مشروط کردیاجاتا۔بقول خلیل الرحمن اعظمی

ہوتی نہیں ہے یوں ہی ادا یہ نماز عشق

یاں شرط ہے کہ اپنے لہو سے وضو کرو

لیکن اس نماز( عشق کی معراج) کے لئے اپنے لہو سے وضوکرنے کے بجائے  صرف خشوع و خضوع اور اخلاص ہی کافی ہے۔

یہ خشوع کیا ہے؟

ہر شے کی ایک ظاہری صورت و ہیئت ہوتی ہے اور ایک باطنی (روحانی)   کیفیت۔ نماز بھی ایک ظاہری صورت رکھتی ہے اور ایک باطنی کیفیت۔ نماز کی اس باطنی کیفیت خشوع و خضوع ہے۔

لغۃً خاشعون: ظاہر نماز میں ساکنون،باطن نماز میں خائفون و یتضرعون نیز۔

’’خاشع‘‘کے معنی ہیں کہ خائف، ساکن، انتہائی عاجزی اختیار کرنا، اپنے نفس کو مٹا دینا، تذلل اختیار کرناخود کو کمتر سمجھنا، نظریں نیچی رکھنا۔ آواز کو مدھم اور پست رکھنا۔اس ایک لفظ "خشوع" سے نماز میں ایک حقیقی مومن کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔جس کا قلب خوف الہی سے پگھل رہاہو اور شوقِ الٰہی میں تڑپ رہا ہو ، اَعضاء و جوارِح پرسکون ہوں،الغرض چہرہ کعبہ کی طرف اور قلب یعنی باطن ربِ کعبہ کی طرف متوجہ ہو۔

یہ خشوع خضوع ہی متعین کرتا ہے کہ انسان کو اپنی نماز سے کتنا حصہ ملا ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:

إِنَّ الرَّجُلَ لَيَنْصَرِفُ وَمَا كُتِبَ لَهُ إِلَّا عُشْرُ صَلَاتِهِ تُسْعُهَا ثُمْنُهَا سُبْعُهَا سُدْسُهَا خُمْسُهَا رُبْعُهَا ثُلُثُهَا نِصْفُهَا (سنن أبي داود، رقم 796، أبو داود سليمان بن الأشعث)

آدمی نماز پڑھ کر جب واپس ہوتا ہے تو  اس کے لیے نماز کے اجر میں سے دسواں حصہ، نواں، آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا اور یاآدھا لکھا جاتا ہے۔

اس حدیث مبارکہ سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ ہر نمازی کو ہر نماز کا اجر یکساں نہیں ملتا۔ ایک ہی جیسی ظاہری صورت، وقت اور مقام میں نماز پڑھنے کے باوجوداجر میں فرق رہ جاتا ہے بلکہ بعض تو سرے سے اجر ہی سے محروم ہوجاتے ہیں ( شاید بعض اجر حاصل کرنے کے بجائے گناہگار بھی ہوجاتے ہوں(العیاذباللہ)؟)۔ یقیناًیہ اجر کافرق نماز میں انسان کی قلبی توجہ ، ذہنی یکسوئی اور خشوع وخضوع میں اختلاف کے سبب ہوتا ہے۔  کیونکہ بسا اوقات انسان عبادت نہیں کرتا بلکہ عادتاً کوئی فعل انجام دے رہا ہوتا ہے۔

جب نماز ،آدمی کی عادت (routine) بن جاتی ہے پھر اس کے اعضاء قیام ،رکوع،سجود اور قعود کی بے معنی مشق کررہے ہوتے ہیں اور اس کی زبان پرالفاظ تو جاری ہوتے ہیں لیکن دل احساسات سے یکسر خالی ہوتاہے۔ یعنی دل خوف خدا و فکرآخرت سے خالی ہوتا ہے۔اور وہ نماز بطور عادت ہوتی ہے عبادت نہیں۔

عبادت و عادت میں فرق:

عبادت و عادت میں فرق صرف احساس اور الفاظ کا ہوتا ہے۔ عابد ایک احساس و کیفیت سے گزررہا ہوتا ہے جاکہ عادی شخص صرف الفاظ  و تمارین اداکررہا ہوتا ۔ کوئی بھی عادت عبادت بن سکتی ہے اور عبادت عادت ، فرق صرف نیت،یکسوئی اور حضوری قلب سے ہوگا۔ عبادت عادت میں ڈھل جانے  کے عمل کو مولانا رومی کچھ اس انداز سے بیان فرماتے ہیں:

بخدا خبر ندارم چو نماز می گزارم

 کہ تمام شد رکوعے، کہ امام شد فلانے

 مولانا رُومی فرماتے ہیں کہ بخدا، میں جب نماز پڑھتا ہوں تو مجھے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ رکوع کب تمام ہوگیا اور یہ امام کون تھا۔

بے حضوری  کا علاج

اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ نماز میں مخصوص سورتوں واذکار کی بجائے مختلف سورتیں و اذکار بدل بدل کر پڑھے گا تو نماز میں دھیان اور توجہ رہے گی اور خشوع و خضوع حاصل ہو گا۔

نیز نماز ایسے امام کے پیچھے ادا کریں جس سے آپ کاقلبی تعلق قائم ہو ۔جس کی آپ عزت کرتے ہوں، اس طرح نماز میں خشوع بڑھ جاتاہے۔ آزما کر دیکھ لیں۔

تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور

ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر

علامہ اقبال

علامہ اقبال ؒ  نہیں چاہتے کہ بندہ مومن بغیر حضوری قلب کے نماز پڑھے اس لئے وہ  اس عبد کو بے حضور ی کے مقام  اور بے حضور امام سے آگے لے جانا چاہتے ہیں۔

خشوع پر بات آگے بڑھانے سے پہلے ہم  توجہ مرکوز کرنے کے عمل کو سمجھ لیں۔بعض امور میں خود اس قدر دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے کہ انسان مکمل طور پر اپنی توجہ اس کی جانب مرکوز کرلیتا ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہ امور انسان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالیتے ہیں۔

 لیکن بعض اوقات وہ ایسا نہیں کرپاتا۔ اس وقت توجہ( فوکس) کرنے کے لئے دو طریقے ہوسکتےہیں۔ ایک  دانستہ اس میں دلچسپی لیتے ہوئے ، اپنی رضا و رغبت  اور خوشی سے انسانتوجہ کرے، دوسرا بکراہت ، جبر یا مجبوری سے کر لے۔ دونوں صورتوں میں توجہ کسی حدتک   اس جانب ہوجاتی ہے۔ برضا و خوشی تو شاید آسانی سے سمجھ آجائے یعنی رب سے ہمکلام ہونا، حصول جنت، ثواب کا حصول وغیرہ وغیرہ لیکن بکراہت و مجبوری اس ایک مثال حکایت کی صورت میں  پیش خدمت ہے۔

ایک دفعہ ایک بادشاہ نے  ایک شخص کو ایک پانی سے بھرا ہوا پیالہ دیا ۔ اور کہا یہ بھرا ہوا پیالہ لے جاؤ اورشہر کا سب سے  بڑا  بازارگھوم کر آؤ۔ وہ بازار جسے دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے آتے تھے۔اس شخص کو وہ بازار دیکھنے کا کہا جارہاتھا۔ لیکن بادشاہ نے ایک شرط لگائی پیالہ سے اگر ایک بھی قطرہ چھلک گیا تو یہ جلادسائے کی طرح تمہارے ساتھ ہوگا اور اسی وقت تمھاری گردن اڑادے گا۔

جب وہ شخص پیالہ لے کر بازار گھوم کر آیا تو بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ بازار میں کیا دیکھا۔ اس نے کہا میری نظر اس پیالے سے ہٹی ہی نہیں کہ میں کچھ دیکھ سکتا۔ یعنی تمام نوادرات،قیمتی اشیاء، خوبصورت مناظر سے اس نے اپنی آنکھیں پھیر کر اس ایک پیالہ کی جانب مرکوز کرلیں جو کہ  ان کے مقابلے میں ایک انتہائی اکتا دینے والا (بور) کام تھا۔ اس قدر توجہ پیالہ کی جانب کیسے ممکن ہوئی۔ صرف جبر سے۔

نماز میں توجہ کرنے کے لئے جبر  عذاب قبر، عذاب آخرت، رب کی ناراضگی وغیرہ ہیں۔ اسی لئے ہمیں کہا گیا کہ نماز ایسی پڑھو یہ تمہاری آخری نماز ہے۔ یعنی موت تمہیں آن دبوچے گی اس کے بعد تمہیں دنیاوی اسباب و مال متاع یہیں چھوڑ جانا ہے اور یہی عبادات وغیرہ ساتھ جائیں گے تو کیا خیال ہے؟

موت و آخرت کی یقین دہانی قدیم ترین اور موثر ترین ترکیب ہے جس کے ذریعے انسان اپنے سرکش گھوڑے (نفس،ذہن) کو لگام دیتا آیا ہے یا دے سکتاہے۔99 فی صد لوگ کسی ذریعہ کو تلاش کرتے ہیں جو ان کے ذہن کو کنٹرول کرسکے۔ یہ ایک طرح سے ایک کوڑے کی مانند ہے جو طاقت و جبر سے انسان کو روک دیتاہے اور پھر یہ عادت بن جاتی ہے۔

انتباہ

یہ خیال رہے کہ جب لفظ خشوع استعمال کیاجاررہا ہے تو اس سے ریاکاری والا خشوع مراد نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ خشوع رب سے تو ہے ہی نہیں بلکہ وہ تو اس آدمی کی خاطر ہے جو  وہاں موجود ہے۔ مثلاً اگر کسی ایسے شخص کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے کہ جو اس کا جاننے والا ہے تو اس کا بظاہر دھیان اور اعضاء کا سکون نماز میں بڑھ جاتا ہے لیکن حقیقت میں رجحان نماز کی جانب نہیں بلکہ اس شخص کی جانب ہے ۔

نماز میں خشوع کیسے قائم کیا جائے؟

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ نماز مومن کی معراج ہے۔ معراج پرحضور ﷺ نے اللہ رب العزت  کا دیدار کیا اور ہم کلامی کا شرف حاصل کیا ۔ اب اگر مومن اس گراں قدر نکتہ کو سمجھ جائے تو پھر کبھی نماز میں غافل نہیں ہوسکتا۔نیز اللہ رب العزت کی قدرت،طاقت،صناعیت،خالقیت وغیرہ کا استحضار ہو تو بھی یہ ممکن نہیں کہ انسان نماز میں غافل ہوجائے۔ مثلا پہاڑ،سمندر،چاند،سورج،ستارے،کہکشائیں اس نظام فلکی کے خالق اور چلانے والے کی طاقت ،کبریائی،عظمت اور علویت کا اظہار ہیں ۔ کیا ان سب کو دیکھنے کے بعدبھی اس رب کی طاقت،صناعیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ فتدبر

نیز ذہن میں یہ بات ہو کہ میں عبادت کرتے ہوئے اللہ کو دیکھ رہا ہوں اور اپنے رب سے محو گفتگو ہوں جیسا کہ حدیث جبریل میں احسان کا معنی بتلایا گیا ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو ۔فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔ حدیث میں بیان کردہ اصول و قاعدہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کہ  ہمیں عبادت کرنے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس کی عبادت ایسے کرو جیسا کہ تم خود اسے دیکھ رہے ہو۔ اگر اتنی ایمانی قوت نہ ہو کہ اسے دیکھ رہے ہو تو یہ تو استحضار ہونا چاہئے کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اس طریقے سے نماز کی لذت انسان محسوس کرے گا۔

یہ تو آج کے دور کے لحاظ سے سمجھنا بالکل ایک معمولی بات ہے ۔ اب تو ہم جگہ جگہ کیمرے لگے دیکھتے ہیں جہاں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ خبردار کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔ جب انسان کو مکمل شعور ہو کہ کیمرے کی آنکھ اسے دیکھ رہی ہے تو اس کی چال ڈھال، گفتار، کردار، بودباش ہر چیز سے واضح طور پر نمایاں ہوجاتاہے۔ یہ ایک بے جان کنٹرول کیمرا کیا کرسکتا ہے لیکن علم ہے کہ اس کیمرے کے پیچھے دیکھے والے نگہبان موجود ہیں جو اس پر کاروائی کرسکتے ہیں اب وہی کاروائی سے بچنے کے لئے تمام معاملات میں اصلاح پیداہوگئی۔کیایہی تمام رب کےحکم پر نہیں ہوسکتا جو سمیع بصیر،حکیم علیم علی کل شیئ قدیر  ہے۔

حقیقی زندگی سے ایک واقعہ

نصف شب بیت چکی تھی۔پورا علاقہ روشن تھا لیکن ایک گھر تاریکی میں ڈوبا ہواتھا۔اس گھر کے مکین  اندھیرے اور شدید گرمی سے بے حال ہو کر بجلی کی درستگی میں مصروف تھے۔ اندھیرے میں بجلی کی ننگی تاروں کا کام کرتے ہوئے وہ شخص انتہائی احتیاط سے کام لے رہا تھا۔ دوسرا شخص موبائل کی ٹارچ روشن کئے ہوئے وہاں اس کی معاونت کررہا تھا۔ روشنی کم ہونے کی وجہ سے معاون  کو پہلے شخص کے انتہائی قریب کھڑا ہونا پڑا تھا۔ وہاں اس وقت بہت موٹے مچھر موجود تھے جو ہمہ وقت اس کے بدن اور بالخصوص اس کی ٹانگوں و پاؤں پر کاٹ رہے تھے۔ لیکن ہمت ہے اس شخص پر جوں بھی نہ رینگی اور وہ انتہائی انہماک سے اپنے کام میں مگن رہا۔ساتھ ہی دیوار سے چونا اتررہاتھا وہاں اسے نہ کپڑوں پر چونا کا ڈر تھا اور نہ ہی مچھروں کا بس ایک ہی دھن اور وہ تھی کام ختم کروں اور بجلی بحال کی جائے ۔

اس وقت راقم التحریر بھی وہاں موجود تھا وہ ٹارچ پکڑا ہوا بندہ خود" میں"تھا۔جب بجلی صحیح ہوگئی تو اس وقت میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیا کبھی ایک بھی نماز میں نے ایسی پڑھی ہے جس میں اتنا انہماک ہو۔ نہ کوئی فرد ذہن میں، نہ کوئی جگہ، نہ کوئی پسند نہ کوئی ناپسند بس تاروں سے بچنا اور کام کرنا۔

دنیا میں ہم آئے ہیں ہمارے اردگرد بھی بہت سخت خار دار تاریں ہیں ان سے بچنا ہے اور خدا کو راضی کرنا ہم عام زندگی تو کجا نماز میں بھی ایسا نہیں کرپارہے۔ دوسروں کی تو بات نہیں کرتا اپنی بات ہے کوئی ایک بھی نماز میری ایسی نہیں جس میں اس تاروں والے لمحے کا انہماک موجود ہو۔ بقول عبدالرحمان احسان دہلوی

نماز اپنی اگرچہ کبھی قضا نہ ہوئی

ادا کسی کی جو دیکھی تو پھر ادا نہ ہوئی

پھر میں نے اس صورتحال پر غور کیا  کہ اتنا انہماک کیوں پیدا ہوا دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر انسان اس ایک کام میں منہمک ہوگیا۔اس وقت اس قدر انہماک جو نماز میں مفقود ہوتاہے:

اس انہماک کے بنیادی عوامل (خوف،ضرورت، راحت)  ہیں۔ان تمام کا یکجا ہوناتھا کہ فورا اس قدر انہماک پیدا ہوگیا۔

اول جان کا خوف،دوم کام کرنا بھی بہت ضروری تھا اس سے مفر نہ تھا

سوم کام اس ہی لمحہ کرنا تھا انتہائی تاریکی تھی لیکن کرنا بھی ضروری تھا

چہارم توجہ سے کام کرنا ہے

معلوم ہے کہ لائٹ نہ آنے کی صورت میں خود اوراپنے عزیز و اقارب کو انتہائی گرمی،اندھیرے اور بے چینی میں رات گزارنی پڑے گی۔

ہیہات اس گرمی،اندھیرے اور بے چینی کو تو جان پر کھیل کر انسان ختم کرنے کی کوشش کرتاہے اور اخروی اور ابدی اندھیرے اور شعلوں کو۔۔۔

جب یہ سب باتیں یکجا ہوجاتی ہیں تو انسان میں خود آگہی کے تحت یکسوئی و انہماک پیدا ہوجاتاہے۔یہی شاید خشوع و خضوع ہے۔

اچھا یہ سب کرنے کا فائدہ

جب انسان اللہ رب العزت کے دیئے گئے احکامات میں چوری کرسکتاہے تو عام زندگی میں کیوں نہیں کرسکتالیکن جن کے دل اللہ کا خوف ہے وہ ایسا ہر گز نہ کریں گے۔وباللہ التوفیق

نماز میں اللہ کے خوف ،کام سے ملنے والی راحت کی طرح اللہ سے شوق ملاقات

توجہ اور یکسوئی سے کام کرنے کی طرح حضوری قلب وحسن نیت سے نماز ادا کریں یہ نماز ہی فلاح اورکامیابی کا پیغام لاسکتی ہے۔

اگر پڑھتے ہوئے قرآن کچھ سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس سے بہتری آسکتی ہے۔

انسان بعض ایسی غلطیوں سے بچ سکتا ہے۔ جیسا کہ استاذ محترم جناب ابومحمد فہیم انوار اللہ خان صاحب نے ایک واقعہ سنایا تھا کہ ایک بار ایک خوش الحان قاری نے امامت کی اس کے مقتدیوں میں ایک نمازی عرب بھی تھا۔ قاری صاحب نے انتہائی خوش الحانی سے سورہ یوسف کی تلاوت کی لیکن دوسرے رکوع کی آخری دو آیتیں چھوڑ کر رکوع میں چلے گئے۔

نماز کے اختتام پر کسی نے عرب سے پوچھا کہ قاری صاحب نے کیسی تلاوت کی تو اس نے جوابا کہا تلاوت تو بہت ہی اچھی تھی لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ حضرت یوسف کو کنویں سے نکال لیتے ۔قاری صاحب نے انہیں کنویں میں ہی چھوڑ دیا۔ اس واقعہ میں مزاح کا مزاح ہے لیکن ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ جب انسان کو علم ہی نہیں وہ کیا پڑھ رہا یا کہہ رہا ہے تو ایسی صورت میں اس قسم کی غلطیوں کا امکان بہت زیادہ ہوتاہے۔ اور نیز نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنا بھی بہت مشکل ہوجاتاہے۔

لمحہ فکریہ!

جب انسان کوتھوڑی آگاہی (علم)  ملتی ہے تو وہ بعض اوقات عبادت سے غفلت زیادہ برتنے لگتاہے۔مثلاً اگر پہلے سترہ رکعت عشاء میں پڑھ رہا تھا جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ فرض 4، سنت موکدہ 2، اور وتر تین یہ زیادہ ضروری ہیں تو وہ باقی چار سنت غیر موکدہ اور چار نوافل ، دو وتر سے پہلے اور دو بعد میں چھوڑ دیتاہے۔ جب کہ اسے تو عبادت میں زیادتی کرنی چاہئے تھی۔

خشوع و خضوع پیدا کرنے کے  چندذرائع :

نماز کا معنی و مفہوم سیکھنا، وساوس شیطانی کو(تعوذ  اور بائیں جانب تھوکنے سے) دفع کرنا، نماز میں پرسکون ہونا،

نماز بے حضور از من نمی آید نمی آید دلے آوردہ ام دیگر ازیں کافر چہ می خواہی اے خدا ! مجھ سے ایسی نماز(عبادت) کی ادائیگی ممکن نہیں جس نماز میں تو میرے

نماز بے حضور از من نمی آید نمی آید

دلے آوردہ ام دیگر ازیں کافر چہ می خواہی

اے خدا ! مجھ سے ایسی نماز(عبادت) کی ادائیگی ممکن نہیں جس نماز میں تو میرے سامنے نہ ہو۔میں نے اپنا محبت بھرا دل تیرے حضور پیش کر دیا ہے ۔ اب تو اس بے نماز کافر سے اور کیا چاہتا ہے؟

میرے نزدیک نماز غوروفکر کا مقام ہے، انسان رب کی علویت،شان،قدرت، صناعیت۔۔۔۔ وغیرہ پر غور وفکر کرے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام تو مراقبہ کے ذریعے بھی ہوسکتاہے۔ اس میں نماز کی قیود وحدبندیوں کی کیا ضرورت ہے۔

اول تو رب کا حکم ہے، اسے بجالانا ہی ہے۔

دوم یہ نماز رسمی ہے مراقبہ غیر رسمی ذریعہ کلام ہے۔

رسمی تعلیم ہے، اور مراقبہ غیر رسمی تعلیم ہے۔فارمل اور ان فارمل ایجوکیشن سمجھنے والے اس ایک لفظ سے بآسانی سمجھ جائیں گے۔ رسمی تعلیمی کی کیا ضرورت ہے؟ اس پر طویل بحث کی ضرورت نہیں!

نماز کی کیا ضرورت ہے

لطیفہ ایک شخص باجماعت نمازاداکرتا تھا ۔ ایک بار وہ  جماعت کے بعد کھڑا ہوگیا اورامام سے کہنے لگا: آپ نے آج صرف تین رکعت پڑھائی ہیں۔ امام صاحب نے فرمایا مجھے اس کا علم نہیں۔ انہوں نے دوسروں سے پوچھا تواکثر نے کہا ایک رکعت کم پڑھائی ہے لیکن بعض نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ امام نے اس شخص سے دریافت کیا کہ تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو۔ اس نے کہا میں روزنماز میں  اپنی دکان کا حساب کتاب لگاتا ہوں۔ چار رکعت میں یہ حساب کتاب مکمل ہوجاتاہے آج تھوڑا حساب باقی رہ گیا۔ اس لئے لازمی ہے کہ آپ نے تین رکعت پڑھائی ہیں۔

خشوع و خضوع کے چند ایک ذرائع

نماز کا معنی و مفہوم سیکھنا

ذہن میں اس  بات کا احساس  کہ میں رب کو دیکھ رہا ہوں اور اس محوکلام ہوں

 نمازکو آنکھوں کی ٹھنڈک سمجھنا

وساوس شیطانی کو دفع کرنا

نماز پُرسکون طریقے سے ادا کرنا

نماز کی ادائیگی میں عجلت سے کام نہ لینا

رب سے کوئی فاصلہ نہیں ہے

ذرائع کے ساتھ ساتھ موانع خشوع خضوع پر بھی توجہ کی جانی چاہئے۔ تاکہ ان تمام اسباب سے بچا جائے جو نماز میں خشوع وخضوع کے لئے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

نماز میں خشوع وخضوع کے موانع دو قسم کے ہیں: ایک خارجی اور دوسرے داخلی۔ خارجی موانع وساوس یا کوئی دنیاوی ضرورت یا حاجت۔

داخلی انسان کی گناہ آلود زندگی، پاکی کی کمی،

اول الذکر یہ خنزب شیطان کی جانب سے ہے۔ بس نماز سے پہلے اس سے اللہ کی پناہ مانگ لینی چاہئے اور دل پر پھونک مار لینی چاہئے۔

ثانی الذکر کا علاج یہ ہے کہ انسان کو اگر کوئی دنیاوی ضرورت یا حاجت پریشان کر رہی ہو تو پہلے اسے پورا کرے اور پھر نماز پڑھے تو ان شاء اللہ نماز میں توجہ بہت بڑھ جائے گی۔

 خارجی موانع میں تو یہی دو معلوم ہوتے ہیں: ایک شیطان اور دوسرا انسانی حاجات وضروریات، چاہے یہ جسمانی ہوں یا نفسانی، اور دونوں کے علاج کے بارے گفتگو کسی قدر ہو چکی۔ پہلے مانع کا تعین کریں اور پھر اس کا علاج کریں تو ان شاء اللہ فائدہ ضرور ہو گا۔

اگر کوئی ایک نماز اس قدر خشوع خضوع واخلاص سے پڑھ لی تو وہ تمام شب قدر بیزاری سے عبادت کرنے سے بہتر ہے۔بہترین نماز

کچھ لوگ ہیں کہ نماز کا وقت نہیں ملتا انہیں سوچنا چاہئے کہ  زندگی اچانک ختم ہوجانے کی صورت میں تمام کام پڑے رہ جائیں گے۔ اور اس وقت تو منصوبہ بندی کا بھی وقت نہیں ملے گا اب تو منصوبہ بندی کے ساتھ کاموں کو التواء میں ڈالا جاسکتاہے۔

نیز یہ سمجھے کہ یہ میری آخری نماز ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post