چار روزہ عقیدہ ختم نبوت تربیتی کورس
کا خلاصہ
تالیف: مفتی خرم غزالی
فاضل :الجامعۃ العلیمیۃ
الاسلامیۃ( کراچی)
ریسرچ اسکالر: کراچی
یونیورسٹی
اللہ رب العزت نے ہدایت
انساں کے لئے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر
حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام تک تمام مرسلین و انبیاء علیہم السلام نے جس دین کی
دعوت دی وہ دین اسلام ہی ہے۔ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے یہودیت اور حضرت
مسیح علیہ السلام نے مسیحیت کی تبلیغ نہیں فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بنائے
ہوئے نظام رسالت و نبوت کو حضرت آدم (علیہ السلام)سے شروع کرکے اس کی تکمیل خاتم
النبیین محمد رسول اللہ ﷺ پر فرمائی۔ نبی کریم ﷺ کی نبوت و رسالت جامع ، کامل ،
ابدی، و عالمگیر ہونے کے ساتھ ساتھ خاتم ہے یعنی آپ علیہ السلام پر نبوت و رسالت
کا سلسلہ مکمل ہوگیا ۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد اب قیامت تک کسی بھی جہت میں کسی
بھی حیثیت میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔اور اگر کوئی شخص محمد رسول اللہ کے بعد کسی
بھی شخص کو کسی بھی حیثیت میں نبی یا رسول مانتا ہے تو وہ شخص کذاب ،دجال،کافر اور
مرتد ہے۔ حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نظام نبوت و رسالت کو ہوبہو
اپنی احادیث طیبہ میں واضح طورپربیان فرمایاہے۔ آپ کی خدمت میں بعض قرآنی آیات
اورکچھ احادیث طیبہ عقیدہ ختم نبوت پر پیش ہیں۔
عقیدہ ختم نبوت سے
متعلق آیات قرآنیہ
قرآن مجید میں اللہ
تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
1۔ مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ
اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّـٰهِ وَخَاتَـمَ
النَّبِيِّيْنَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمًا (الاحزاب: 40)
"محمد(ﷺ) تمہارے
مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے
آخر میں( سلسلہ نبوت ختم کرنے والے) ہیں ۔اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا
ہے۔"
2۔ يَآ اَيُّـهَا
النَّاسُ اِنِّـىْ رَسُوْلُ اللّـٰهِ اِلَيْكُمْ جَـمِيْعَا (الاعراف: 158)
"اے نوع انساں؛ میں
تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں "۔
3۔ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ
لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِىْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ
الْاِسْلَامَ دِيْنًا
"اے نبی (ﷺ)ہم نے تم
پر تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نوازشات کا اتمام کردیا۔ اورتمہارے
لئے اسلام بطور ضابطہ زندگی پسند کرلیا۔"
4۔ هُوَ الَّـذِىٓ
اَرْسَلَ رَسُوْلَـه بِالْـهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَه عَلَى الـدِّيْنِ
كُلِّـهٖ ۚ وَكَفٰى بِاللّـٰهِ شَهِيْدًا (الفتح:28)
"وہی تو ہے جس نے
اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر ایک دین پر غالب کرے، اور
اللہ کی شہادت کافی ہے۔"
5۔ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ
إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا (سبا: 28)
"ہم نے تمہیں جملہ
نوع انسان کے لئے بشیر و نذیر بنا کر بھیجاہے۔"
ان انسانوں کی طرف جو
خاتم النبین ﷺ کے زمانے میں موجود تھے اور ان کی طرف بھی جو بعد میں آنے والے تھے۔
عقیدہ ختم نبوت سے
متعلق احادیث مبارکہ
حضور اکرم ﷺ نے اپنی
متعدد احادیث میں عقیدہ ختم نبوت کو بہت واضح انداز میں بیان فرمایا ہے ۔ہم
آپ کی خدمت میں چند احادیث طیبہ پیش کررہے ہیں۔
ایک حدیث شریف میں نبی
کریم ﷺ نے منکرین ختم نبوت اورنبوت کے جھوٹے دعویداروں کا ذکر اس انداز سے
فرمایاہے:
1۔لَا تَقُوْمُ
السَّاعَۃُ حَتّٰی یُبعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبٌ مِنْ ثَلاَثِیْنَ
کُلُّھُمْ یَزْعُمُ أَنَّہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔(بخاری)
"اس وقت تک قیامت
قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ دجال جھوٹے آئیں گے جن کی تعداد تیس کے قریب ہوگی ان
میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔"
حضرت امام مسلم اس بارے
میں روایت فرماتے ہیں:
2۔يَكونُ في آخِرِ
الزَّمانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، يَأْتُونَكُمْ مِنَ الأحادِيثِ بما لَمْ
تَسْمَعُوا أنتُمْ، ولا آباؤُكُمْ، فإيَّاكُمْ وإيَّاهُمْ، لا يُضِلُّونَكُمْ، ولا
يَفْتِنُونَكُمْ.(مسلم)
"آخری زمانے میں
دجال کذاب آئیں گے وہ تم سے ایسی باتیں کریں گے جو نہ تم نے سننی ہوں اور نہ ہی
تمہارے باپ دادا نے سنی ہوں گی۔ وہ تم سے دور رہیں اور تم ان سے دور رہو۔ وہ تمہیں
گمراہ نہ کردیں اور تمہیں فتنہ میں ڈال دیں۔"
حضرت امام ابوداؤد علیہ
الرحمہ فرماتے ہیں:
3۔أنّہ سَيَکُوْنُ فِيْ
أُمَّتِيْ ثَلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنّہ نَبِیٌّ وَ أَنَا
خَاتَمُ النَّبِيِيْنَ لَا نَبِيَ بَعْدِيْ۔ (ترمذي، ابوداؤد)
" میری امت میں
تیس (30) اشخاص کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کذاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے
حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔"
امام دارمی نقل فرماتے
ہیں:
4۔وَعَنْ جَابِرٌ أَنَّ
النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِينَ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا خَاتَمُ
النَّبِيِّينَ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شافعٍ وَمُشَفَّع وَلَا فَخر۔
رَوَاهُ الدَّارمِيّ
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے
کہ نبی ﷺ نے فرمایا :" میں تمام رسولوں کا قائد ہوں ، یہ بات میں ازراہِ فخر
نہیں کہتا ، میں خاتم النبیین ہوں ، فخر سے نہیں کہتا ، میں سب سے پہلے سفارش کروں
گا اور سب سے پہلے میری سفارش قبول کی جائے گی اور میں یہ بات ازراہِ فخر نہیں
کہتا ۔"
حضرت
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
5۔مَثَلِیْ وَمَثَلُ
الْاَنْبِیَآءِ کَمَثَلِ قَ۬صرِ اُ۬حسِنَ بُ۬نیَانُہُ تُرِکَ مِ۬نہُ مَ۬وضِعُ
لَبِنَۃٍ فَطَافَ بِہِ النُّظَّارُ یَتَعَجَّبُ۬ونَ مِ۬ن حُ۬سنِ بُ۬نیَانِہِ۬م
اِلَّا مَ۬وضِعَ تِ۬لکَ اللَّبِنَۃِ فَکُ۬نتُ اَنَا سَدَ۬دتُ مَ۬وضِعَ
اللَّبِنَۃِ خُتِمَ بِیَ ا۬لبُنیَانُ وَخُتِمُ بِیَ الرُّسُلُ (وَفِی رِوَایَۃٍ)
فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.
"حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: " میری اور دیگر تمام
انبیاء کی مثال ایسے ہے جیسے ایک محل ہو جس کی تعمیر بہت عمدہ کی گئی ہو لیکن اس
محل کی دیوار میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑدی گئی اور جب لوگ اس محل کے گرد پھر
کر عمارت کو دیکھیں تو عمارت کی شان و شوکت اور درودیوار کے حسن تعمیر کو دیکھ کر
تعجب کرتے ہوں ، مگر ایک اینٹ کے بقدر اس خالی جگہ کو دیکھ کر کمی سی محسوس کرتے
ہوں ۔پس میں اس اینٹ کی جگہ کو مکمل کرنے والا ہوں ،میرے ذریعے اس عمارت کی تکمیل
ہوگئی اورانبیاء ورسل کے سلسلے کا اختتام ہوا" اورایک روایت میں یہ الفاظ ہیں
کہ "پس میں ہی وہ اینٹ ہوں (جس کی جگہ خالی رکھی گئی تھی) اورمیں ہی نبیوں کے
سلسلے کو پایہ اختتام تک پہنچانے والا ہوں۔" (صحیح بخاری،صحیح مسلم)
عہد رسالت ﷺ میں مدعیان
نبوت
خاتم النبیین رسالت مآب ﷺ
کے آخری ایام علالت میں تین اشخاص نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور رسالت مآب ﷺ نے
ان کو کذاب قراردیا اور اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی ان کی موت سے آگاہ فرمایا۔ جن
کی مختصر تاریخ پیش خدمت ہے۔
اسود عنسی
اسود کا اصل نام عییلہ بن
کعب بن عوف بن عنسی تھا۔ لیکن سیاہ فام ہونے کی بناء پر اسود کے نام سے مشہور
ہوگیا۔ شعبدہ بازی اورکہانت میں اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ اور اس زمانے میں یہی دو
چیزیں باکمال ہونے کی بہت بڑی دلیل سمجھی جاتی تھیں۔
اسود عنسی کو حضور ﷺ کے
صحابی حضرت فیروز دیلمی نے قتل کیا اور اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی نبی علیہ
السلام کو اسودعنسی کے قتل سے آگاہ کیا۔ اورنبی ﷺ نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی
جماعت کے سامنے فیروز دیلمی کو بابرکت شخص کہا۔
طلیحہ اسدی
طلیحہ بن خویلد اسدی قبیلی
بنو اسد کی طرف منسوب ہے جو نواح خیبر میں آباد تھا۔ اس شخص نے حضرت رسالت مآب ﷺ
کے عہد سعادت میں دعویٰ نبوت کیاتھا۔ خلاف ابوبکر صدیق میں اس کے خلاف اوراس
کے متبعین کے خلاف باقاعدہ جہاد کیاگیا اور اس نے راہ فرار اختیار کی ۔ اس کے بعد
بنی اسد اورغطفان کے قبیلے اسلام سے مشرف ہوئے تو طلیحہ بھی دائرہ اسلام میں داخل
ہوگیا۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق کے عہد حکومت میں ملک شام سے حج کے لئے
آیا اور مدینہ پہنچ کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔
مسیلمہ کذاب
اس کا تعلق بنو حنیفہ
قبیلے سے تھا ۔ اور یہ مذہب عیسائیت پر تھا۔ اس جھوٹے نبی نے نبی علیہ السلام کو
ایک خط لکھا جس کا رسول اللہ ﷺ نے مختصر مگر جامع انداز میں اس کے جھوٹے دعوی نبوت
کو مسترد کردیا۔
من مسیلمۃ رسول اللہ الی
محمد رسول اللہ سلام علیک۔ اما بعد : فانی قد اشرکت فی الامر معک، وان لنا نصف
الارض ولقریش نصف الارض، ولکن قریشا قوم یعتدون۔
"(نعوذ باللہ)
اللہ کے رسول مسیلمہ (کذاب) کی طرف سے اللہ کے رسول محمد ﷺ کی طرف آپ پر سلام ہو۔
اما بعد! مجھے آپ کے ساتھ کار نبوت میں شریک بنادیاگیا ہے اورآدھی زمین ہمارے لئے
ہے اورآدھی زمین قریش کے لئے ہے۔ لیکن قریش ایک ایسی قوم ہے جو حد سے تجاوز کرنے
والی ہے۔"
آپ ﷺ کی بارگاہ میں
مسیلمہ کذاب کا خط ابن النواحہ اورابن اثال لے کر آئے تھے ۔ آپ ﷺ ے ان سے فرمایا: فماتقولان انتما۔
یعنی تم دونوں اس بارے
میں کیا کہتے ہو؟ گویا کہ دعویٰ نبوت کرنے والے کی تصدیق یا تردید کی بابت سوال
کیا گیا۔ انہوں نے جواب میں کہا: نقول کما قال۔ یعنی جو مسیلمہ نے کہا ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے جوابا فرمایا : وَاللـہِ لَو لَا اَنَّ
الرُّسُلَ لَاتُقتَل لضربت اعناقَکُمَا۔یعنی اللہ کی قسم اگر سفیروں کو قتل نہ کیا جانے پر عمل نہ ہوتا تو
میں تم دونوں کی گردن قلم کردیتا۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی
کہ ابھی انہوں نے ہتھیار نہیں اٹھائے تھے لیکن کیونکہ اسلامی ریاست میں دعویٰ نبوت
ریاست کی رٹ کو ختم کرنے اورریاست کے خلاف اعلان جنگ و بغاوت سے زیادہ سنگین جرم
ہے۔ اسی لئے آپ ﷺ نے ان کے لئے اتنے سخت کلمات استعمال فرمائے۔ نبی کریم ﷺ نے
مسیلمہ کذاب کو جو جواب ارسال فرمایا اس کا متن کچھ یوں مروی ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
من محمد رسول اللہ الی مسیلمۃ الکذاب ۔ السلام علی من اتبع الھدی۔ اما بعد۔ فان
الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ ، والعاقبۃ للمتقین۔
اللہ کے نام سے ،
بہت مہربان ،نہایت رحم والا اللہ کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کی
طرف سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت کی اتباع کی۔ اما بعد! بے شک زمین اللہ کی ہے وہ
اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ عاقبت متقین کے لئے ہے۔
حضرت عبداللہ ابن
مسعود کے عہد میں حضرت حارثہ بن مضرب نماز فجر میں ایک مسجد کے
قریب سے گزرے۔ بوقت نماز جماعت میں شامل ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ بنو حنیفہ سے
تعلق رکھتے ہیں اور مسیلمہ کذاب کے کلام کو نماز میں پڑھ رہے ہیں ان کی نشاندہی پر
انہیں گرفتار کیاگیا۔ ان میں سے ابن نواحہ کو عبداللہ بن مسعود نے پہچان لیا
اور فرمایا: سمعت رسول اللہ ﷺ یقول لو
لا انک رسول لضربت عنقک فانت الیوم لست برسول ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ
اگر تو سفیر نہ ہوتا تو میں تیری گردن ماردیتا آج تو سفیر نہیں ہے۔ پھر اس کے قتل
کا حکم دیا اور اسے قتل کردیا گیا۔
سجاح بنت حارث تمیمیہ
اہواز کے قبیلے بنی تمیم
میں پیدا ہوئی اور اس کی نشوونما عرب کے شمال مشرق میں اس سرزمین میں ہوا جو آج کل
عراق عرب کہلاتاہے۔ سجاح مذہباً عیسائی اورنہایت فصیحہ و بلیغہ اوربلند حوصلہ عورت
تھی۔ اسے تقریر و گویائی میں یدطولیٰ حاصل تھا۔ اورجدت فہم اورصلابت رائے میں نظیر
نہ رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ اپنے زمانے کی مشہور کاہنہ تھی۔ مختصر یہ کہ مسیلمہ
کذاب نے اسے عشق و محبت کے جال میں داغدار کرکے بطور مہر اپنے اورسجاح کے متبعین
کو نماز فجر اور عشاء سے آزاد کردیا۔ سیدنا حضرت امیر معاویہ کے عہد میں
سجاح اوراس کی ساری قوم نے اسلام قبول کرلیا۔
تاریخ سے یہ بات ثابت ہے
کہ مسیلمہ کذاب و اسود عنسی سے لے کر مرزا غلام احمد قادیانی تک متعدد لوگوں نے
دعویٰ نبوت یا مسیحیت و مہدویت کیا مگر مسیلمہ کذاب کے بعد اس دجل و کذب کی جو
معراج مرزا غلام احمد قادیانی کو حاصل ہوئی دوسرے اس میں مرزا صاحب کے سامنے
طفل مکتب معلوم ہوتے ہیں۔ مرزا کا ولی ،مجدد،مثیل مسیح، مسیح موعود،مہدی معہود،
ظلی نبی، امتی نبی اور رسول اللہ ہونے کے علاوہ متعدد دعوے کرنا اوران کے ثبوت میں
کم وبیش گیارہ ہزار صفحات تحریر رقم کرنا کسی ایسے جھوٹے نبی کی مثال شاید ہی ماضی
قریب یا بعید میں مل سکے۔ مرزا غلام احمد قادیانی اوراس کے ماننے والے دائرہ اسلام
سے خارج ہیں اوران کے کفر پر پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ ان کے باطل اورکفریہ
عقائد کی وجہ سے ہی انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے کافرقراردیاگیاہے۔ پاکستان کا
ریاستی مذہب اسلام ہے۔ تحریک راست اقدام اورتحریک ختم نبوت کے نتیجے میں سینکڑوں
لوگوں کی شہادتوں کے بعد پاکستان میں 5 اگست 1974ء سے لے کر 7 ستمبر 1974ء تک قومی
اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں قادیانی مسئلہ پر "ان کیمرا" بحث ہوتی رہی۔
اس کی (3107) صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بالاتفاق یہ طے کیاگیا کہ قادیانی غیر مسلم
ہیں۔
آئین پاکستان میں لکھاہے:
(الف) مسلم سے کوئی ایسا
شخص مراد ہے جو وحدت و توحید قادر مطلق اللہ تبارک وتعالیٰ ۔۔۔خاتم النبیین حضرت
محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اورغیر مشروط طورپرایمان رکھتا ہو اور پیغمبر یا مذہبی
مصلح کے طور پر ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو نہ اسے مانتاہو جس نے حضرت محمد ﷺ
کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ
کیا ہو جو دعویٰ کرے۔
(ب) غیر مسلم سے کوئی
ایسا شخص مراد ہے جو مسلم نہ ہو اوراس میں عیسائی ،ہندو،سکھ، بدھ یا پارسی فرقے سے
تعلق رکھنے والا کوئی شخص ۔۔۔۔ قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ ۔۔۔۔کا (جو خود
کو احمدی یا کسی اورنام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخص۔۔۔ یا کوئی بہائی اورجدولی
ذاتوں میں سے کسی سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل ہے۔(آئینِ پاکستان : دفعہ 260)
مکہ کانفرنس کے علاوہ
2015ء میں گیمبیا کی اسلامک کونسل نے قادیانیوں کو ریاستی سطح پر غیر مسلم
قراردیا۔جب کہ اس سے قبل مجمع الفقہ الاسلامی الدولی (International Islamic Fiqh Academy) کی جانب سے 1985ء میں
اجماعی طور پر ختم نبوت کے عقیدے کے انکار کے سبب اس گروہ کو خارج از اسلام قراردے
چکا ہے۔
کیا مرزا قادیانی پر
ایمان نہ لانے والا کافرہے؟
مرزا نے بھی دوسرے جھوٹے
مدعیان نبوت کی طرح دعویٰ کیا کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے اوراس کی نبوت ووحی کا
انکار کرنا کفر ہے۔ مرزا نے لکھاہے:
"جو شخص تیری پیروی
نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور
رسول کی نافرمانی کرنے والا اورجہنمی ہے۔"
مرزاقادیانی ایک
اورجگہ لکھتاہے:
"خدا تعالیٰ نےمیرے
پر ظاہر کیاہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں
کیا وہ مسلمان نہیں ہے، اورخدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے۔
مرزا کذاب کے مرید اس پر
کسی طرح سے کفریہ اعتقاد رکھتے تھے اس کا اندازہ مرزا قادیانی کے
خلیفہ حکیم نورالدین کی اس بات سے لگایاجاسکتا ہے۔
"یہ تو صرف نبوت کی
بات ہے میرا تو ایمان ہے کہ اگر مسیح موعود صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ
کریں اورقرآنی شریعت کو منسوخ کردیں تو پھر بھی مجھے انکار نہ ہو کیونکہ جب
ہم نے آپ کو واقعی صادق اورمن جانب اللہ پایا ہے تو اب جو بھی آپ فرمائیں گے وہی
حق ہوگا اورہم کو سمجھ لیں گے کہ آیت خاتم النبیین کے کوئی اورمعنی ہوں۔
اسی بات کا اظہار مرزا
قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے میرا عقیدہ مسئلہ کفر غیر احمد
یان کے متعلق کے تحت امت مسلمہ کو کافر قراردیتے ہوئے آئینہ صداقت لکھا :
"اورچونکہ میرے
نزدیک ایسی وحی جس کا ماننا تمام بنی نوع انسان پر فرض کیاگیاہے حضرت مسیح موعود
پر ہوئی ہے اس لئے میرے نزدیک بموجب تعلیم قرآن کریم کے ان کے نہ ماننے والے کافر
ہیں خواہ وہ باقی صداقتوں کو مانتے ہوں ۔ کیونکہ موجبات کفر میں سے اگر ایک موجب
بھی کسی میں پایاجاوے تو وہ کافر ہوتاہے۔"
اس پوری بحث سے یہ بات
واضح ہوگئی کہ قرآن و سنت ، وسیرت النبی ﷺ و سیرت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین اوراجماع امت سے یہ بات ثابت ہے کہ خٰتم نبوت کا عقیدہ ضروریات دین
میں سے اوراس کا انکار کفر ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں جو اسلام کو کفر
کے فرق کو مٹادیں قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
لَـهُـمْ قُلُوْبٌ لَّا
يَفْقَهُوْنَ بِـهَا وَلَـهُـمْ اَعْيُـنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِـهَاۖ وَلَـهُـمْ
اٰذَانٌ لَّا يَسْـمَعُوْنَ بِـهَا ۚ اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُـمْ
اَضَلُّ ۚ اُولٰٓئِكَ هُـمُ الْغَافِلُوْنَ (الاعراف: 179)
"وہ دل (و دماغ)
رکھتے ہیں مگر ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے، اوروہ آنکھیں رکھتے ہیں(مگر) وہ
ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے ،اوروہ کان (بھی) رکھتے ہیں(مگر) وہ ان
سے (حق کو) سن نہیں سکتے،وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ (ان سے بھی)
زیادہ گمراہ وہی لوگ ہی غافل ہیں۔"
Post a Comment