4 اگست کی شام تقریبا چھ بجے جب سورج اپنے غروب کی جانب رواں دواں
تھا اور اس کی روشنی مدھم پڑرہی تھی اس وقت اچانک بیروت کی بندر گاہ یکے بعد دیگر
دو بڑے دھماکوں سے گونج اٹھی جس کے باعث نہ صرف پوری کی پوری بندر گاہ تباہ ہوئی
بلکہ چالیس کلو میٹر کے دائرے میں موجود عمارتوں کی کھڑکیاں اور شیشے بھی ٹوٹ گئے
اور خطر ناک زلزلہ کی لہر پیدا ہوئی ۔ دھماکوں کے چند لمحوں بعد بیروت کے
گورنرنے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان دھماکوں سے بیروت کو ہیرو شیما
اور ناگا ساکی کی یاد دلا دی ہے۔ بلکہ اسے اگر بیروشیما کا لقب دیا جائے تو بے
جا نہ ہوگا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی ویڈیوز کو دیکھ کر با آسانی
یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ دھماکے نیم ایٹمی دھماکے ہیں۔ یہاں کسی شاعر کی جانب اسے
اس پر منظوم تبصرہ پیش خدمت ہے۔
جن میں اس چمکتے دمکتے شہر کو جو دنیا بھر میں سیاہی سے اسلامی علوم
کی روشنی کو پھیلارہاتھا کس طرح آگ میں جلتے دکھاگیا ہے۔ وہاں کے بچوں کے خواب کس
طرح چکنا چور ہی نہیں ہوئے بلکہ خواب دیکھنے والی آنکھیں ہی منظر نامے سے غائب
ہوگئیں ہیں۔
بیروت نگار بزم جہاں
بیروت بدیل باغ جناں
بچون کی ہنستی آنکھوں کے جو آئینے چکنا چور ہوئے
اور ان کے ستاروں کی لو سے اس شہر کی راتیں روشن ہیں
اور رخشاں ہے ارض لبنان
بیروت نگار بزم جہاں
اللہ تعالیٰ جانی مالی نقصان پر لواحقین کو صبر جمیل عطا
فرمائے اور بہترین بدلہ عطا فرمائے۔اور جو بھی افراد اس قسم کے ظلم و ستم میں ملوث
ہیں انہیں ہدایت عطا فرمائے اور اگر ان کے نصیب میں ہدایت نہیں تو انہیں نیست
ونابود کرے تاکہ اس دنیا سے ظلم و ستم ختم ہو اور یہ امن کا گہوارہ
بن جائے۔آمین
اسی مفہوم کو منظوم انداز سے اپنے والد محترم ابوعلی محمد رمضان ؒ کے قلم سے پیش خدمت ہے
ہم کو تو ظلم و قتل سے بس چاہئے نجات
کیا جاننا ضرور ہے قاتل کی ذات پات
قاتل یہاں پر کون ہے کیا اس کا نام ہے
اللہ غیب دان ہے یہ اسکا کام ہے
اللہ کے حضور میں ہم سب دعا کریں
ہم آیت کریمیہ بکثرت پڑھا کریں
Post a Comment