قرآن و حدیث کو سمجھنے کیلئےاصولِ فقہ“ کی کیا اہمیت ہے؟

 

آج کے پر فتن دور میں کچھ لوگ  سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ ’علمِ اصول فقہ‘ پڑھنا کہاں سے ضروری ہوگیا  اس کی کوئی ضرورت نہیں آپ سیدھا سیدھا مسائلِ شریعت پڑھیے اور بس؟!  تعجب ہوتا ہے اس سوچ پر  اور ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا  اصول فقہ کے بغیر مسائلِ شریعت کا  سمجھ لینا اور ان پر کما حقہ عمل پیرا ہونا ممکن ہو سکے  گا؟!  علما ئے اصول نے بڑے واضح انداز میں یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ بات اٹل ہے کہ کسی بھی علم کو پڑھنے  اور سمجھنے کے لئے  پانچ چیزوں کا علم ہونا ضروری ہے :

 (1)  یہ علم وجود میں کیوں آیا؟  

(2)یہ علم دراصل ہے کیا؟

(3) یہ علم  آیا کہاں سے ہے ؟

(4) یہ علم  کس چیز کے بارے میں ہے؟

(5)  اور اس علم کے حصول کا طریقہ کیا ہے؟ 

پس یہ پانچ چیزیں ہیں اگر ان کا علم اور آگاہی ہو گی تو پھر  پہلے سوال سے اِس علم کا فائدہ معلوم ہوگا۔ دوسرے سے اس علم کی حقیقت اور اس کے مبادی واصول کا پتہ چلے گا۔ تیسرے سوال سے معلوم ہوگا کہ اِس علم کے مصادر کیا ہیں، جہاں سے یہ لیا گیا ہے۔ چوتھے سوال سے پتہ چلے گا کہ اِس کے موضوعات اور اس میں دیکھے جانے والے مباحث کیا کیا ہیں۔ اور پانچویں سوال سے یہ سامنے آئے گا کہ اِس کو حاصل کرنے کے کیا وسائل ہوسکتے ہیں۔ 

تو پھر میں معترضین سے کہوں گا کہ پہلے تم اگر علم اصولِ فقہ کی بابت ان علمی مقدمات کو سمجھ لو، اور پھر یہ پوچھو کہ اِس علم کا کوئی فائدہ ہے یا نہیں تو پھر ہم ضرور تمہارے سوال کو توجہ دینا لازم سمجھیں گے۔ 

البتہ بیٹھے بٹھائے کہہ دینا کہ علی الاطلاق اصول فقہ کا کوئی فائدہ نہیں، تو ہم یہی کہیں گے کہ ایسے شخص سے جو اِس پر مصر ہے، بحث کا کوئی فائدہ نہیں! 

علمِ اصول کا فائدہ اور ضرورت، حقیقت میں یہ اِس سے ایک کہیں بڑا موضوع ہے کہ کسی ایک مختصر مضمون میں سما جائے یا اِس علم کے دفاع میں کہے جانے والے چند کلمات اِس پر کفایت کر جائیں۔ 

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وہ امام ہیں جو مدرسہء اہل الحدیث کے ایک عظیم ستون مانے جاتے ہیں۔ ذرا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے اِن کلمات پر غور کیجئے جو امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو اس کتاب کی تالیف پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہے، فرمایا: ما زلنا نلعن اَہل الرأی ویلعنوننا، حتیٰ جاءالشافعی فمزج بیننا ”آج تک ہم اہل رائے کو برا بھلا کہتے رہے اور وہ ہمیں۔ یہاں تک کہ امام شافعی آئے اور ہمیں (فریقین) کو یکجان کردیا“۔ شیخ محمد بن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ ”اصولِ فقہ“ پر اپنے مختصر رسالہ ال اُصول من علم ال اُصول میں کہتے ہیں: ”اِس علم کا فائدہ یہ ہے کہ اِس سے وہ اہلیت آتی ہے جس سے کام لے کر ایک فقیہ شریعت کے احکام کو ان کی دلیلوں سے صحیح سلیم بنیادوں پر نکال لینے کی قدرت پاتا ہے۔ اِس کو ایک مستقل فن کے طور پر سامنے لانے والے پہلے شخص امام محمد بن ادریس شافعی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، پھر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی پیروی میں دیگر علماءنے اِس فن میں متنوع تالیفات کیں، کسی نے نثر میں تو کسی نے منظوم، کسی نے مختصر تو کسی نے مفصل، یہاں تک کہ یہ ایک باقاعدہ فن کی صورت اختیار کر گیا، جس کا اپنا ایک وجود ہے اور اپنے امتیازی مباحث ہیں“۔ 

لیکن طلبگار کی فرمائش پوری کرنے کی خاطر، اور ایک ایسے شخص کی ضرورت کیلئے جس نے اِس علم کی بابت سوائے محض اِس کے نام کے اور کچھ نہیں سن رکھا، کچھ باتیں عرض کی جاسکتی ہیں: 

علمِ اصولِ فقہ، مسلم عقل کا وہ حیرت انگیز کارنامہ ہے، جس پر غور کریں تو معلوم ہو کہ کہ انسانی عقل نورِ وحی سے متاثر ہو تو کیا کچھ گہر لاتی ہے۔ یہ خدا کی توفیق تھی جو اس امت کے اربابِ دانش کو ملی کہ وہ شریعت کے بیان اور اس کے اصول کے استخراج اور اس سے متعلقہ قواعد کو ایک کمال نظم میں لے آئے، اور جوکہ علمِ اصولِ فقہ کہلایا۔ 

علم کے ابواب میں سے یہ ایک عظیم باب ہے۔ اِس کی اس قدر اہمیت نہ ہوتی تو کبار علمائے سلف اِس پر زندگیاں نہ کھپاتے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں اِس علم کے سرخیل قریشی مطلبی نسب رکھنے والے امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ (متوفیٰ 204 ھ) ہیں، جنہوں نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”الرسالۃ“ لکھ کر گویا اِس شعبہ میں تالیف کا سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ یہ کارنامہ خاص امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں ہونے کا سبب میں یہ سمجھتا ہوں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی جو علمی اٹھان ہوئی وہ شاید ہر ایک سے مختلف تھی۔ ذہانت کی انتہا تو تھی ہی، عربی لغت میں جس گہرائی تک جانا شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو نصیب ہوا یہاں تک کہ لغت میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ حجت جانے گئے، پھر حدیث میں امامت کے رتبے کو پہنچے، اور پھر فقہ میں امامت پائی۔ یہ ابھی امام شافعی کی علمی اٹھان کا صرف ایک پہلو ہے۔ ایک دوسرے پہلو سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو جو امتیاز حاصل ہوا وہ یہ کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو بیک وقت دونوں مدرسوں کے اساطینِ علم کے آگے زانوئے تلمذ طے کرنے کا شرف حاصل ہوا، یعنی مدرسہء اہل الحدیث اور مدرسہء اہل الرائے۔ اب تک علمی حلقوں کے اندر یہ دونوں جدا جدا منہج رہے تھے مگر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ شاید پہلے آدمی ہیں جن کو دونوں جانب کی گہرائی ماپ آنے کا پورا پورا موقعہ ملا۔ خصوصاً اللہ کی توفیق شامل حال ہوئی کہ کچھ گتھیاں سلجھا دینا اِس امامِ ہاشمی ہی کے نصیب میں آیا اور وہی اِس سرے کو پانے میں کامیاب ہوئے کہ اِن دونوں مدرسوں کے مابین اختلاف کے کیا اصل اسباب ہیں۔ تب امام شافعی نے ضروری جانا کہ امت کیلئے اور امت کے علماء کیلئے وہ قواعد بیان کر دیے جائیں جو استنباط مسائل، فہمِ نصوص اور طرقِ اجتہاد کو ضبط میں لانے کیلئے درکار ہوتے ہیں، تاکہ ممکنہ حد تک اختلاف کی وہ خلیج گھٹا دی جائے جو دونوں جانب کے فقہاء کے مابین حائل ہے۔ اِس ضرورت کے پیش نظر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اِس کارِ دشوار کو سرانجام دینے کیلئے اپنے آپ کو پیش کر دیا، کہ اِس گھاٹی سے گزر کر دکھانا اب کسی اور کے بس کی بات نہ رہی تھی! 

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں ائمہء حدیث کا ایک عظیم امام، حافظ عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ، جوکہ علم حدیث میں وہ شان رکھتے ہیں جو کم ہی کسی کو حاصل ہو، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو مکتوب لکھتے ہیں کہ وہ ایک کتاب تالیف کر دیں، جس میں بیان کردیا گیا ہو کہ قرآن کے معانی کیسے لئے جائیں، اخبار کا قبول کیونکر ہو، اجماع کی حجت، قرآن اور سنت میں آنے والے ناسخ و منسوخ وغیرہ کی بابت قواعد آجائیں۔ تب اِس پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”الرسالۃ“ کی تصنیف فرمائی۔ (دیکھئے: کتاب مناقب الشافعی 1: 330) 

اب یہ موضوعات جو امام عبد الرحمن بن مہدی رحمۃ اللہ علیہ کے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نام مکتوب میں مذکور ہوئے، یہی وہ موضوعات ہیں جو اصول فقہ میں زیر بحث آتے ہیں، اور جن کی بابت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی رائے بھی یہ تھی کہ ان قواعد کا بیان کر دیا جانا اور ایک نظم میں لے آیا جانا امت اور علمائے امت کی ایک بہت بڑی ضرورت ہے۔ 

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وہ امام ہیں جو مدرسہء اہل الحدیث کے ایک عظیم ستون مانے جاتے ہیں۔ ذرا امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے اِن کلمات پر غور کیجئے جو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو اس کتاب کی تالیف پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہے، فرمایا: ما زلنا نلعن اَہل الر ای ویلعنوننا، حتیٰ جاءالشافعی فمزج بیننا ”آج تک ہم اہل رائے کو برا بھلا کہتے رہے اور وہ ہمیں۔ یہاں تک کہ شافعی آئے اور ہمیں (فریقین) کو یکجان کردیا“۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے کہنے کا مقصد ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح آثار ہی سے تمسک رکھا اور انہی کو اخذِ مسائل کی بنیاد بنایا، اور پھر اصحابِ حدیث کو یہ بھی دکھا دیا کہ ’رائے‘ کے بھی کچھ پہلو ہیں جو ضروری ہیں اور جن پر احکامِ شریعت بناء کرتے ہیں، اور یہ کہ ’رائے‘ احکامِ شریعت ہی کے اصول پر فروع کا قیاس ہے اور اُنہی سے ماخوذ ہے، اور پھر یہ دکھا دیا کہ یہ ’اخذ‘ ہوتا کس طرح ہے، اور اس عمل کے دوران فقیہ کو احکام کی علتوں کا کس طرح پابند رہنا ہوتا ہے اور کن کن امور سے نہایت متنبہ رہنا لازم ہوتا ہے۔ 

تب اصحابِ حدیث نے جانا کہ ایک رائے جو صحیح ہو وہ اصل ہی کی فرع ہوتی ہے۔ دوسری جانب اصحابِ رائے نے جانا کہ فرع ہوتی ہی نہیں جب تک کہ اصل نہ ہو اور یہ کہ اس بات سے استغنا ممکن نہیں کہ سب سے پہلے سنن اور صحیح آثار ہی پیش کئے جائیں۔ (دیکھئے کتاب: ترتیب المدارک وتقریب المسالک للقاضی عیاض 1: 22)

 

آج کے دور میں نوازل (ایسے مسائل جو اس سے پہلے امت کو پیش نہ آئے ہوں) اس قدر زیادہ ہیں کہ جن کا کوئی حدوحساب ہی نہیں۔ لہٰذا آج ہمیں یہ جاننے کی جس قدر ضرورت ہے اتنی اس سے پہلے شاید کبھی نہ رہی ہو کہ اپنے دور کے مسائل و معاملات کے ساتھ پورا اترنا اور شریعت سے ان کیلئے راہنمائی لینا ہرگز ہرگز کوئی بازیچہء اطفال نہیں۔ یہ ایک نہایت سنجیدہ امر ہے۔ یہ خاص ضوابط پر انحصار کرتا ہے۔ اِس عمل کے خاص رجال ہیں۔ متعین تقاضے ہیں۔ غرض استنباطِ احکام ومسائل باقاعدہ ایک پروسیجر ہے، جس کو اول سے لے کر آخر تک چل لینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بس۔۔۔۔ یہ رتبہء بلند ملا جس کو مل گیا! 

اب ذرا امام احمد ایسے امامِ حدیث کی یہ بات ایک طرف رکھیں اور اِن آج کے حضرات کی بات ایک طرف کہ ’اصولِ فقہ‘ بھلا کیا چیز ہے؟! تو کیا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ایسے امامِ سنت یونہی ایک بے کار مشغلے میں لگے رہے تھے، اور اِس علم کو مسلمانوں میں پھیلانے کیلئے بے مقصد سرگرم رہے؟ 

پھر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد تو اِس علم میں تالیف کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ اِن میں فقہاء بھی تھے اور محدثین بھی۔ اِن میں سے جن شہسواروں نے اپنی خاص برتری اور اہلیت ثابت کی، ان میں سے امام فقیہ اصولی ابو حامد غزالی رحمۃ اللہ علیہ ، امام فقیہ ابو اسحاق شیرازی رحمۃ اللہ علیہ ، مالکی فقیہ امام شہاب الدین قرافی رحمۃ اللہ علیہ ، فقیہ مفسر ابو المظفر سمعانی رحمۃ اللہ علیہ ، محدث محقق امام ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ الاسلام محققِ عظیم ابو العباس ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ، اور ان کے شاگرد امامِ علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ ، امامِ محقق ”علمِ مقاصد“ کے سرخیل ابو اسحاق شاطبی رحمۃ اللہ علیہ ۔۔ یہ سب اور اِن کے علاوہ دیگر لاتعداد ائمہ اہل علم ایسے رہے جنہوں نے اسی علم میں اپنی زندگیاں کھپا دیں، اِس علم میں تالیفات کیں، اِس کو پڑھانے میں زندگیاں صرف کیں، شاگرد چھوڑے۔۔ سب اِس لئے کہ وہ اِس علم کی اہمیت سے واقف تھے اور اِس کے فائدہ کے قائل تھے۔ 

شیخ محمد بن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ ”اصولِ فقہ“ پر اپنے مختصر رسالہ ال اُصول من علم ال اُصول میں کہتے ہیں: 

اِس علم کا فائدہ یہ ہے کہ اِس سے وہ اہلیت آتی ہے جس سے کام لے کر ایک فقیہ شریعت کے احکام کو ان کی دلیلوں سے صحیح سلیم بنیادوں پر نکال لینے کی قدرت پاتا ہے۔ اِس کو ایک مستقل فن کے طور پر سامنے لانے والے پہلے شخص امام محمد بن ادریس شافعی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، پھر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی پیروی میں دیگر علماءنے اِس فن میں متنوع تالیفات کیں، کسی نے نثر میں تو کسی نے منظوم، کسی نے مختصر تو کسی نے مفصل، یہاں تک کہ یہ ایک باقاعدہ فن کی صورت اختیار کر گیا، جس کا اپنا ایک وجود ہے اور اپنے امتیازی مباحث“۔ 

قبل اس کے کہ میں اِس علم کے فوائد اور ثمرات پر کچھ شذرات بیان کروں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علمِ اصولِ فقہ کی تعریف بھی درج کر دوں۔ کیونکہ کسی چیز پر حکم لگانا اًس کا درست تصور کرنے سے ہی متفرع ہوتا ہے۔۔ 

علمِ اصول کی مشہور تعریفات میں سے ایک یہ ہے کہ: 

معرفۃ دلائل الفقہ اِجمالاً، وکیفیۃ الاستفادۃ منہا، وحال المستفید“، یعنی: 

یہ اِن تین چیزوں سے متعلق علم ہے کہ: 

مسائل کے اَدلہء اجمالیہ (1) ہیں کیا؟ 

اِن ادلہء اجمالیہ سے استفادہ کا کیا طریقہ ہے؟ 

اور یہ کہ اِن اَدلہ سے استفادہ کرنے والا شخص خود کس حالت میں ہے؟

 

چنانچہ اِس علم کے بنیادی موضوعات ہوئے: مصادرِ تشریع کا علم پانا، پھر یہ جاننا کہ اِن مصادر سے استفادہ کرنا کیونکر ہے، یعنی ’قواعدِ استنباط‘، اور پھر استفادہ کرنے والے شخص کے احوال سے واقفیت (یعنی یہ دیکھنا کہ مجتہد کون ہے اور جس چیز میں اجتہاد ہو رہا ہے وہ کیا ہے، کب اجتہاد ہوتا ہے اور کب نہیں ہوتا، مجتہد کی شروط کیا ہیں اور اجتہاد کے ضوابط کیا؟)

 اب ہم اِس علم کے فوائد سے متعلق بعض شذرات بیان کریں گے: 

1) ’اصول فقہ‘ ہی وہ علم ہے جس سے نصوصِ شریعت کی تفسیر کرنے کے قواعد معلوم کئے جاسکتے ہیں اور جس سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ جو چیز نصوص سے سمجھی جا رہی ہے آیا وہ صحیح ہے یا نہیں۔

 اب یہ قواعد نہ ہوں تو ایک فقیہ شریعت کی نصوص کیسے سمجھ سکتا ہے؟ جبکہ نصوص - جیساکہ اہل علم بیان کرتے ہیں - اپنے اسلوب میں یا ایک عالم اور مجتہد کیلئے اپنے واضح ہونے میں ایک ہی درجے پر نہیں۔ نصوص کے اندر ’عام‘ آتا ہے، ’خاص‘ آتا ہے۔ نصوص میں ’مطلق‘ ہے، ’مقید‘ ہے۔ ’نص‘(2) ہے، ’ظاہر‘ ہے۔ ’محکم‘ ہے، ’متشابہ‘ ہے۔ پھر نصوص کے اندر ایسی نصوص ہیں کہ کوئی ’قطعی الثبوت‘ ہے تو کوئی ’قطعی الدلالۃ‘، کوئی ’ظنی الثبوت‘ ہے تو کوئی ’ظنی الدلالۃ‘۔۔ ہر کسی کے ساتھ معاملہ مختلف ہوتا ہے اور کسی کی تحلیل analysis کا طریقہ دوسری سے مختلف ہوتا ہے۔

 

امام قرافی اپنی عظیم کتاب ”الفُرُوق“ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

 

۔۔ ف اِن الشریعۃ المحمدیۃ - زاد اللہ تعالیٰ منارہا شرفا - اشتملت علیٰ اُصول وفروع، و اُصولہا قسمان اَحدہما: المسمیٰ باُصول الفقہ، وھو فی غالب اَمرہ لیس فیہ اِلا قواعد الاَ کام الناشئۃ عن الاَلفاظ العربیۃ خاصۃ، وما یعرض لتلک الاَلفاظ من النسخ والترجیح ونحو: الاَمر للوجوب والنہی للتحریم۔۔ وما خرج عن ہذا النمط اِلا کون القیاس حجۃ، وخیر الواحد، وصفات المجتہدین۔۔

 

پس شریعتِ محمدیہ - اللہ تعالیٰ اِس کی رفعت وعظمت کو اور بھی بڑھائے - مشتمل ہے کچھ اصول پر اور کچھ فروع پر۔ شریعت کے ”اصول“ دو طرح کے ہیں۔ ”اصول“ کی ایک قسم اُس چیز کیلئے بولی جاتی ہے جسے ”اصولِ فقہ“ کہتے ہیں، اور اِس میں غالب طور پر وہ خاص قواعد ہی آتے ہیں جو (شریعت کے) عربی الفاظ سے وجود میں آنے والے احکام کو ضبط دینے کیلئے ہیں یا ان احوال کو ضبط دینے کیلئے جو اِن الفاظ کو پیش آسکتے ہیں مثل نسخ اور ترجیح، جیسے مثلاً یہ قاعدہ کہ ’امر وجوب کو ثابت کرنے کیلئے ہوتا ہے‘ یا یہ کہ ’نہی تحریم کو ثابت کرنے کیلئے ہوتی ہے‘۔۔ (’الفاظ‘ سے متعلقہ قواعد) کے علاوہ پھر (دوسری قسم کے قواعد) ہیں جیسے قیاس کا حجت ہونا، خبر واحد یا مجتہد کی صفات وغیرہ سے متعلقہ مباحث۔۔

 

چنانچہ نصوص کو سمجھنے کے یہ قواعد نہ ہوں تو کوئی بھی جاہل یا کوئی بھی نیم عالم یا کوئی بھی بد دیانت شخص نصوص کی جیسے چاہے تفسیر کر لیا کرے!

 

صرف ایک مثال دکھانے کیلئے، سورۃ الحشر میں آتا ہے: للفقراءالمہاجرین الذین آخرجوا من دیارہم و اَموالہم یعنی ”فقرائے مہاجرین کیلئے جو نکال دیے گئے اپنے گھروں سے اور مالوں سے“ ۔ یہاں اصول فقہ کے علماء بتائیں گے کہ یہاں ایک ’عبارۃ النص‘ ہے اور ایک ’اشارۃ النص‘۔ ’عبارتِ نص‘ اس بات پر دلیل ہے کہ اموالِ فَیءٍ میں فقرائے مہاجرین کا حق ہے، کیونکہ آیت آئی ہی ان کا یہ حق بیان کرنے کیلئے ہے۔ البتہ ’اشارہء نص‘ سے دلیل یہ نکلتی ہے کہ ان اموال سے جو وہ پیچھے مکہ میں چھوڑ آئے ہیں اور جن پر کفار نے قبضہ کر لیا ہے اب ان کی ملکیت زائل ہو چکی ہے، کیونکہ قرآن نے ان کیلئے ”فقراء“ کا لفظ بولا ہے! حنفیہ کے عظیم اصولی عالم امام سرخسی یہاں اِس دلیل کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”فقیر“ وہ ہوتا جو ”مالک“ نہ ہو، نہ کہ وہ شخص جس کو اپنے مال پر دسترس نہ ہو۔ چنانچہ یہاں سے فقہی مباحث کا ایک لمبا سلسلہ چل کھڑا ہوتا ہے۔۔!

 

2) فہمِ نصوص کے بعد پھر استنباط اور اجتہاد کے قواعد آتے ہیں۔ مسائل اخذ کرتے وقت وہ کو کونسے اصول ہیں جو ایک فقیہ کے پیش نظر ہوتے ہیں، یہ بات آپ کو اصولِ فقہ کا ایک عالم ہی بتا سکتا ہے۔ یہی نہیں کہ جو مسائل شریعت سے اخذ کرلئے گئے، بلکہ آج کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو اس کا شریعت میں حکم ڈھونڈنے کیلئے کیا کیا لوازم اختیار کرنا ہوں گے اور ان میں اجتہاد کیونکر ہوگا، یہ اصول فقہ کا ایک عالم ہی جانتا ہے۔ کچھ نئے پیش آمدہ مسائل پر شریعت کی منشا کا تعین کرنے کی کوشش کے وقت بڑے بڑے عالموں کی بس ہو جاتی ہے، کیونکہ اِن حدود اور ضوابط کا ادراک دراصل انہی کو ہوتا ہے، سو معاملے کی نزاکت بھی انہی کو معلوم ہوتی ہے۔

 

3) استنباطِ احکام کے علاوہ پھر مقاصدِ شریعت کا تعین ہے، جن کو سمجھا جانا بھی ضروری ہے، اسلامی معاشرے میں ان کا تحفظ اور پاسبانی کرنا بھی ایک خاص نظر اور بصیرت چاہتا ہے، اور حالات پر ان کی تطبیق بھی ایک خاص اہلیت کی متقاضی ہے۔ مقاصدِ شریعت کی معرفت اور ان کا بیان حفظِ دین کے اہم ترین وسائل میں آتا ہے۔ شریعت اصل میں آئی ہی ان ضروریاتِ خمس کے تحفظ ونگہبانی کیلئے: دین، نفس، عقل، آبرو اور مال۔ ”شیخِ مقاصد“ امام شاطبی کہتے ہیں ہر شریعت میں یہی اساسِ عمران رہی ہے، یہ خلل کا شکار ہو جائیں تو دنیا کے مصالح بھی خطرے میں پڑ جائیں اور آخرت کی نجات بھی۔ اب مقاصدِ شرع کا صحیح صحیح ادراک ایک ایسی چیز ہے کہ اجتہاد کے ارکان میں شمار ہوتی ہے اور یہ ایک ایسی عظیم اہلیت ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔

 

4) جدل اور مناظرہ کے بہت سے ضوابط بھی اصول فقہ پر ہی انحصار کرتے ہیں۔

 

5) مصادرِ تلقی کا ضبط اور تعین بھی اصول فقہ کو جاننے پر انحصار کرتا ہے۔ جتنی بھی بدعات اور اہواء نکلی ہیں وہ یہیں پر کوئی خلل واقع ہوجانے کے باعث نکلی اور امت کے اندر پھیلی ہیں۔ چنانچہ عقل کا نقل کے ساتھ کیا رشتہ ہے اور ہر دو کے مابین تعلق کا کیا صحیح نسبت تناسب ہے، اور یہ کہ عقل کو نقل پر حکم بنانا کس قدر سنگین ہے، اور جہاں نقل ہی کی ضرورت ہے وہاں عقل کو بیچ میں لے کر آنا کس قدر نقصان دہ ہے، اِن مباحث کا صحیح ادراک بھی آپ کو علمِ اصول کے مباحث پڑھ کر ہی ہوسکتا ہے۔

 

6) اس سلسلہ میں سب اہم جو بات مجھے کہنا ہے وہ یہ کہ خاص آج کے دور میں نوازل (ایسے مسائل جو اس سے پہلے امت کو پیش نہ آئے ہوں) اس قدر زیادہ ہیں کہ جن کا کوئی حدوحساب ہی نہیں۔ لہٰذا آج ہمیں یہ جاننے کی جس قدر ضرورت ہے اتنی اس سے پہلے شاید کبھی نہ رہی ہو کہ اپنے دور کے مسائل و معاملات کے ساتھ پورا اترنا اور شریعت سے ان کیلئے راہنمائی لینا ہرگز ہرگز کوئی بازیچہء اطفال نہیں۔ یہ ایک نہایت سنجیدہ امر ہے۔ یہ خاص ضوابط پر انحصار کرتا ہے۔ اِس عمل کے خاص رجال ہیں۔ متعین تقاضے ہیں۔ غرض استنباطِ احکام ومسائل باقاعدہ ایک پروسیجر ہے، جس کو اول سے لے کر آخر تک چل لینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بس۔۔۔۔ یہ رتبہء بلند ملا جس کو مل گیا!

 

پس آج آپ بہت سے جدت پسند داعیوں اور لکھاریوں کو دیکھیں گے جو مسائلِ شریعت کو خاص اپنی کنجیوں کے ساتھ کھولنے کی کوشش کریں گے، اور جو اسلام سے متعلقہ فکری وفقہی گتھیوں کو کچھ ایسے اوزاروں کی مدد سے سلجھانے کی کوشش کریں گے ، جن سے اسلام کے یہ مباحث کبھی آشنا ہی نہیں رہے۔ یہ لوگ آپ کو اصول فقہ کی بھاری بھاری اصطلاحیں بول کر دکھائیں گے، کبھی مصالح مرسلہ، تو کبھی قیاس، تو کبھی عرف تو کبھی مقاصدِ شریعت۔۔ صرف لوگوں کو خراب کرنے کیلئے۔ عام لوگوں کو کیا، اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو، بلکہ تو علمِ شریعت کے بعض طلبہ کو خراب کر لیتے ہیں۔ اس فن سے صحیح صحیح واقفیت کے بغیربھلا کیسے ممکن ہے کہ خبیث کو طیب سے اور صحیح کو سقیم سے جدا کر کے رکھ دیا جائے؟

 

آخر میں، ایک طالب علم کیلئے میں یہ کہوں گا کہ اگر آپ نے اصول فقہ کے مباحث کو جاننے سمجھنے پر خاطر خواہ محنت نہیں کر رکھی تو آپ نہ تو فقہاء کے بہت سے اقوال ہی سمجھ پائیں گے، نہ ان کے اجتہادات کی حقیقت سے واقف ہو سکیں گے اور نہ ان کے ایک چیز کو دوسری پر راجح قرار دینے کے پیچھے کارفرما حقائق کو ہی صحیح طور پر دیکھ سکیں گے، کیونکہ یہ سب کچھ اصول فقہ پر ہی انحصار کرتا ہے، چاہے ان کے بیان میں اس کی صراحت آئی ہو یا نہ۔ تب آپ اپنے حق میں یہ امکان ضائع کر لیں گے کہ آپ احکامِ قفہ کو ان کے ادلہ اور ان کے مدارک کی روشنی میں سمجھیں۔ یہی نہیں، بلکہ یہ سمجھنا کہ کیسے ایک فقہی حکم دوسرے فقہی حکم پر بناءکرتا ہے، یا ایک حکم سے دوسرا حکم کیسے نکلتا ہے ، یا قیاس اور تفریع کیسے ہوتی ہے، تب یہ بھی آپ کیلئے دشوار یا پھر ناممکن ہوگا۔

 

 

 

(1) شرعی مسائل کے اخذ کے معاملہ میں ایک ہیں ادلہء اجمالیہ جوکہ ”علمِ اصول فقہ“ کا موضوع ہیں، یعنی macro level، اور ایک ہیں ادلہء تفصیلیہ جوکہ ”علمِ فقہ“ کے اندر پڑھنے میں آتے ہیں، یعنیmicro level ۔

 

- ’دلیلِ تفصیلی‘ سے مراد ہے ایک معین مسئلہ کو اخذ کرتے وقت جس دلیل کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ، یعنی یہ دیکھنا کہ ’فلاں خاص مسئلہ‘ کون کونسی آیت یا حدیث سے یا کس مسئلے پر قیاس سے ثابت ہوتا ہے اور کس بنیاد پہ ہوتا ہے، وغیرہ۔

 

جبکہ ’دلیلِ اجمالی‘سے مراد ہے اصولی طور پر یہ جاننا کہ مسائلِ شریعت جب لینے ہوں تو کن کن مآخذ سے لئے جاسکتے ہیں، مثلاً کتاب، سنت، اجماع، قیاس، مصلحہ مرسلہ، استحسان وغیرہ۔ (مترجم)

 

(2) اصول فقہ کے اِس خاص سیاق میں: ’نص‘ اس لفظ یا مجموعہء الفاظ کو کہیں گے جس کا ایک ہی مطلب نکل سکتا ہو، لہٰذا کوئی دوسرا معنیٰ اُس سے لیا جانے کا سوال ہی نہ نکلتا ہو، جیسے سورہ نور کے الفاظ فاجلدوہم ثمانین جلدۃ یعنی ”پس مارو ان کو اسی اسی کوڑے“۔ جبکہ ’ظاہر‘ اسے کہیں گے جس سے کوئی دوسرا مطلب نکلنے کا امکان تو ہو مگر وہ دوسرا مطلب لیا جانے کا احتمال ضعیف ترہو، جیسے مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا لا تبع ما لیس عندک یعنی ”جو تمہارے اپنے پاس نہیں اس کو مت بیچو“، اِس سے یہ مطلب نکل آنے کا احتمال ضرور ہے کہ آپ نے صرف اس کی کراہت بتانے کیلئے یہ فرمایا ہو، مگر اِس کا حرام ہونا ہی واضح اور ظاہر تر ہے۔(مترجم)

 مناقب الشافعی

  • المؤلف: أحمد بن الحسين بن علي بن موسى البيهقي أبو بكر الناشر: دار التراث - مصر
  •  سنة النشر: 1390 - 1970

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post