عیدی

شورش کاشمیری اردو ادب اور صحافت کا ایک معروف نام جن کی پوری زندگی حریت،جرأت اور خودداری سے عبارت ہے ۔ آپ  نے یہ نظم  فروری 1965 یعنی آج سے 57 سال قبل کہی تھی۔

 

میں اپنے دوستوں کو عِید پربھیجوں تو کیا بھیجوں

خدا توفیق  دے تو  ہدیہء مہر و وفا  بھیجوں

 

لڑکپن کی رسِیلی داستانوں کے لبادے میں

حدیثِ شوق، نقدِ آرزُو، آہِ رسا بھیجوں

 

جَوانی کے شگُفتہ وَلولوں کا تذکرہ لِکھ کر

طبیعت کا تقاضا ہے، دلِ درد آشنا بھیجوں

 

وہ راضی ہو تو، اپنی عُمر کے اس دورِآخرمیں

بیانِ شوق لکھوں، داستانِ ابتلاء  بھیجوں

 

'قلم قتلے' ادیبِ شہر ہونے کی رعایت ہے

غزل کے ریشمیں لہجے میں نظمِ دلکشا بھیجوں

 

کوئی نظمِ شگفتہ، حضرتِ احسان دانش کی

رشید احمد کے اسُلوبِِ دل آرا کی ادا بھیجوں

 

زبانِ  میر،  رنگِ  میرزا،  پیرایہء حالی

میں اس سہ آتشہ میں، نغمہء بہجت فزا بھیجوں

 

خیال آتا ہے 'اس بازار' کی نیلام گاہوں میں

کِسی طوفان کے انداز میں، قہرِ خدا بھیجوں

 

برہنہ کَسبیوں کو عید کے ہنگامِ عشرت میں

فقِہیوں کی قبائیں پھاڑ کر بندِ قبا بھیجوں

 

تماشا ہائے عصمت، اور 'عالمگیر کی مسجد'

خدا کے نام بھی اک محضرِ آہ و بکا بھیجوں

 

میری عیدی مذاقِ عام سے ہو مختلف شورش

رفیقانِ قلم کو، ڈَٹ کے لڑنے کی دُعا بھیجوں

 

ہفت روزہ چٹان لاہور

7 فروری 1965

شورش کاشمیری

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post