موجودہ سائنس،ٹیکنالوجی اورجدید ذرائع ابلاغ کے دورمیں جہاں زندگی میں بہت سی آسانیاں فراہم ہوئیں ہیں وہیں آج والدین کے لئے فرائض کی ادائیگی بھی مشکل ہوگئی ہے۔بچوں کی تربیت بہت ہی صبر آزما ،طویل المیعاداور کل وقتی کام ہے جو مہینوں نہیں بلکہ برسوں پر محیط ایک جہد مسلسل سے عبارت ہے۔تعلیم وتربیت والدین سے ہمہ وقت تحمل، بردباری اور برداشت کے ساتھ  جس اہم قیمتی شے کی متقاضی ہے وہ" وقت"  ہے۔ والدین اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر بچوں کے ساتھ گزاریں کیونکہ اگر بچوں سےتعلق وربط قائم ہوجائے گاتو تربیت کاعمل آسان اورموثرہوجائے گا ۔ بچہ موم(Plastic) کی طرح ہے اس کو جیسا ڈھالیں گے ویسا ہی نقش بن جا ئے گا اوریہ ذہن نشین رہے کہ  بچپن کے نقوش گہرے اوردیر پا ہوتے ہیں ۔ یہ ایسے انمٹ نقوش ہوتے ہیں جو بڑھاپے تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ لہذاکوشش کی جائے کہ ابتداء ہی سے بچوں کی تعلیم وتربیت صحیح خطوط پر استوار ہو جائے۔بعداز خرابی بسیار خواہ کسی کو بھی الزام  ٹھہرایا جائے یہ لاحاصل بحث ہوگی۔ وہ وقت واپس نہیں آئے گا اور کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔
ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لازوال
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کرسکو
بہرحال بچوں کے برے رویوں یا خراب تربیت کی ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوگی۔اور اس پچھتاوا  ،ندامت اورحسرت کا عفریت  قبر تک والدین  کا تعاقب کرتا رہے گا۔ والدین کو دیانتداری سے اپنے رویہ پر غور کرنا چاہئے۔ بچہ جو کچھ بنتا ہے اس میں وراثت سے زیادہ اس کے ماحول اوروالدین کی تربیت کا دخل ہوتاہے۔ ذیل میں چند مفید گزارشات پیش خدمت ہیں ۔
جسمانی نشوونما:
 بچہ کی ذھنی نشوونما اور تعلیم و تربیت کے ساتھ اس کی جسمانی صحت کا اچھی طرح خیال رکھاجائے کیونکہSound mind is in sound body.۔صحتمند دماغ صحتمند جسم میں ہوتاہے۔ اس سے غفلت برتنے کے نتیجے میں بچے بیماریوں کا شکار بھی ہوسکتے ہیں ۔ایک بزرگ کا قول ہے کہ تندرستی سب سے بہتر لباس ہے اور جہالت سب سے دردناک مرض ہے۔ بقول رالف ایمرسن (Ralph Waldo Emerson 1882):''سب سے بڑی دولت صحت مند جسم ہے ۔''
نہیں صحت کے برابر کوئی نعمت ہرگز
ہونہ صحت تومیسرنہ ہوراحت ہرگز
حقیقت واقعہ یہی ہے کہ صحت کے بغیر انسان کو راحت وسکون میسرآہی نہیں سکتا۔قربان علی سالک بیگ  کا یہ شعر اپنی جگہ کہ"تنگدستی اگرنہ ہوسالک، تندرستی ہزار نعمت ہے"،لیکن میں تو یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گا کہ"تنگدستی اگرچہ ہوسالک،  تندرستی ہزار نعمت ہے" تنگدستی کے باوجود ایک صحتمند شخص اپنی زندگی سے لطف اٹھاسکتا ہے نہیں اس کے برعکس ایک امیر  لیکن بیمارشخص کسی بھی طور پر پرلطف زندگی نہیں گزارسکتا۔ ان کے لئے اسحاق جلالپوری کا یہ شعر
خدا کی دین ہے صحت عزیزو
نہ ہوصحت تو جینے کا مزا کیا
الغرض صحت رب کائنات کی طرف سے  نعمت غیر مترقبہ  اور تحفہ بے بدل ہے۔ احسن الخالقین رب کائنات نے بہترین انداز سے انسانی مشینری بنائی اور اس کے تمام اعضاء کی حفاظت فرمائی ہے -قدرت نے اصل وبنیاد صحت کو بنایا ہے ،بیماری تو انسان کی بدنظمی،بے ترتیبی ، جہالت اور اپنی جان پر ظلم کرنے کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ  چھوٹی موٹی غلطیوں کی اصلاح تو وہ خود ہی کرتے رہتے ہیں۔  ہاں جب ظلم حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے،بدنظمی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے تو پھر بدن بھی چیخ پڑتا ہے ،درد کرنے لگتا ہے، اور رفتہ رفتہ صحت مند جسم بیمارہوکرتانوانی میں ڈھل جاتاہے ۔ پھرکہیں  جا کرانسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کس قیمتی چیزسے محروم ہو چکا ہے۔جیسا کہ عربی مقولہ ہے:تعرف الاشیاء باضدادھا’’چیزیں اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں ۔‘‘روشنی کی اہمیت  کا اندازہ تاریکی پھیل جانے کے بعد ہوتا ہے ، اسی طرح انسان کو اپنی صحت کی قدر و قیمت بھی اس وقت معلوم ہوتی ہے جب وہ مختلف  امراض کا شکار ہو جائے۔
مشقت کا عادی بنانا :
 بچوں کومحنت ومشقت کا عادی بنایا جائے۔ ان کے اذہان میں یہ بات راسخ کرائی جائے کہ حرکت میں برکت ہے۔ مسلسل حرکت ہی کانام زندگی ہے۔پانی جب تک بہتا رہتا ہے صحیح وتروتازہ رہتا ہے ورنہ اس میں بدبوپیداہوجاتی ہے ۔
؎ جاوداں پیہم رواں ہردم جواں ہے زندگی
اگرآپ بچوں کومحنت ومشقت کا عادی بنائیں گے تو وہ سخت جان ،حوصلہ مند بنیں گے اور ہر قسم کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ لیکن اگر تن آسانیوں میں رکھیں  گے   ہر وقت ان کے چونچلے پورے  کرنے میں لگیں  رہیں گے تو عین ممکن ہے کہ ان کی حساسیت کا عالم یہ ہوجائے کہ بیس گدوں پر لیٹنے  کے باوجود  ایک مٹر کا دانہ بھی ان کے لئے اذیت کا باعث بن جائے۔ ایسے لاڈ پیار کا طرز عمل بچوں کے ساتھ محبت وشفقت نہیں بلکہ ان پر ظلم عظیم ہوگا ۔اس نشوونما کے حامل بچوں پر تو یہ مصرعہ ہی صادق آسکتاہے :
نزاکت کا یہ عالم ہے کہ گل توڑےتو بل کھائے
اورپھر اسی نہج پر ترقی کرتے کرتے ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
فرش مخمل پر مرے پاؤں چھلے جاتے ہیں
کیلا کھانے سے میرے دانت ہلے جاتے ہیں
آج کل بچے بہت زیادہ سہل پسند ،آرام طلب  ہوچکے ہیں کہ اگر تھوڑا بھی پیدل چلنا پڑے تو فورا اپنے والدین سے کہتے ہیں اماں میری ٹانگوں میں درد ہے،ٹانگوں میں درد ہے میں چل نہیں سکتا۔اس درد کا علاج صرف اورصرف چلنے میں ہے۔ آرام سے یہ درد بڑھتا ہی جائے گا۔ یہاں پر ایک لطیفہ انتہائی مناسب ہوگا کہ   ایک باپ نے اپنے بچے سے دریافت کیا
باپ :بیٹا کیوں پیدل چلیں یا کسی سواری پر؟
بیٹا :آپ کی مرضی ہے ویسے اگر پیدل چلنا ہے تو مجھے گود اٹھا لیں۔
ایسے سہل پسند اورآرام طلب  بچوں کے لئے ایک حکایت پیش خدمت ہے کہ ایک دفعہ ایک بدو کو بخار ہوا ۔وہ آرام کرنے کے بجائے تپتے ہوئے صحرا میں چلا گیا وہاں جاکر اس نے اپنے بدن پر تیل کی مالش کی اور تپتی ہوئی گرم ریت پر لوٹنے لگا اور ساتھ ہی یہ کہتا جاتا اے بخار! توغلط جگہ آگیا تو کسی  امیر کے پاس جاتا جو نرم گدوں پر لیٹتا ،یخنی اور پھل وغیرہ استعمال کرتا ۔میرے پاس نہ تو نرم گدے ہیں ،نہ ہی یخنی اورپھل اور نہ ہی اتنا وقت کہ میں آرام سے لیٹ سکوں وہ اتنی دیر لوٹتا رہا یہاں تک کہ بخار اتر گیا اور وہ شخص صحت مند ہوکر واپس آگیا۔یہ صرف ان افراد کے لئے جو اتنے محنت وجفاکش ہوں ورنہ بجائے فائدے کے شدید نقصان کا خدشہ  ہے۔
نیز یہ بھی ذہن میں رکھیں زندگی نشیب وفراز سے مرکب ہے۔کسی کو کچھ خبر نہیں کل کیا ہو ایسی صورت میں سختیاں اورمصائب درآنے کے بعد ایسے افراد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان میں جرات وحوصلہ نہیں رہتا کہ وہ مصائب وشدائد کا سامنا کریں اور ناانصافیوں سے بھری اس دنیا میں اپنا کوئی مقام پیدا کریں۔پاکستان وبنگلہ دیش کا قیام  یا پھر 2005 کا زلزلہ اس کی  نمایاں مثالیں ہیں۔ جب امرا  بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے۔
یہاں حقیقی زندگی میں  رونما ہونے والے حادثہ کا تذکرہ غیر ضروری نہ ہوگا  جس میں  ایک آدمی جو انتہائی  شاندار گاڑی ڈروائیو کررہاتھا   چلاتا ہوا  آرہا ہے اچانک دوسری طرف سے ایک سوزکی والا آیا دونوں کچھ اس انداز سے آئے کہ حادثہ یقینی لگ رہا تھا لیکن خدا کی قدرت دونوں کے لاشعوری طورپربروقت بریکیں لگانے کے باعث ان کی گاڑیاں ٹکرانے سے بھی محفوظ رہیں اور ایک آدھ فٹ کے فاصلے پر ہی رہیں۔جب سوزکی والا باہر کار  والے کے پاس آیا تو اسے بے ہوش پایا۔وہ بے ہوش کیوں ہوا تھا ۔یقینا کمزوراعصابی نظام کے باعث ورنہ ظاہری یا جسمانی اعتبار سے تو اسے ایک خراش تک نہ آئی تھی۔
کاہلی سے بچاؤ :
 سستی ایک عالمگیر بیماری ہے۔جو صحت کے لئے سم قاتل ہے۔سستی کا شکار افرادناتوانی کا شکاررہتے ہیں اور آئے دن گوناگوں بیماریوں میں مبتلارہتے ہیں ۔اس طرح وہ اپنی صحت سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں اورکبھی تندرست وتوانا نہیں ہوتے ۔
سست لڑکے نہیں ہوتے ہیں تواناہرگز
اپنی صحت کو نہ سستی میں گنوانا ہرگز
ورزش کی اہمیت:
آرام کرنے کی اہمیت سےتو  ہرایک آگاہ ہے۔جان لیں کہ  ویسے ہی ورزش بھی صحت کے لئے ضروری ہے۔ بامقصد اوربامعنی ورزش  کی کوشش کی جائے کہ جسم کے تمام عضلات کی ورزش ہو۔یہاں ورزش کی اہمیت کے سلسلے میں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ ورزش کرنے سے بظاہر انسان اپنا ایک آدھ گھنٹہ ضائع کررہاہوتاہے اورشاید وہ یہ سوچتا بھی ہو کہ اگر وہ یہ گھنٹہ دیگر کاموں میں لگا لے توانہیں پایہ تکمیل تک پہنچاسکتاہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں۔  کیونکہ ورزش کرنے والے احباب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ورزش انہیں جسمانی و ذہنی توانائی فراہم کرتی ہے نیز ان کی نقل وحرکت میں بھی چستی فراہم کرتی ہے جس کی بدولت جو کام بغیر ورزش کے وہ ایک گھنٹہ میں کررہا تھا اب وہ صرف آدھ گھنٹے میں کرلے گا۔ نیز وہ طویل دورانیہ تک یکسو ہوکربہتر کام بھی کرسکتا ہے۔
ورزش کے بارے میں تحریرکرنے کے بعد یہاں نماز اورتلاوت کا ذکر غیرضروری نہ ہوگا۔ بظاہر سیکولر زاویہ سے دیکھا جائے تو انسان نماز کے بجائے دوسرے کام کرے مثلاً تحصیل علم ہی میں لگا رہے  تو وہ فائدہ میں رہے گا۔نماز اس کے کاموں میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ بعض کو تو کہتے سنا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر پانچ وقت نماز فرض اس لئے کی ہے کہ مسلمان ترقی نہ کرسکے ۔مسلمان نمازوں کے چکر سے ہی باہر نہیں آتے۔ ان کے شیڈول اوردیگر کام بھی نمازوں کے اوقات سے ہی جڑے ہوتے ہیں۔انسان یکسو ہوکرکوئی کام شروع بھی نہیں کرتا کہ اسے دوسری نماز کے لئے اٹھنا پڑتا ہے۔ یہ سوچ بالکل غلط ہے۔
نفسیات دان میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ انسان کو چھوٹے چھوٹے وقفے (انٹرویل) لینے چاہئے خواہ وہ کمپیوٹر پر کام کررہاہے ، تعلیم سے وابستہ  ہے یا کسی اور کام میں مشغول  ہے، بہرحال وقفہ (نماز  کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے!)انسان کے لئے بہت مفید ہے۔
انسانی ذہن کبھی نہیں تھکتا ۔ وہ مستقل غوروفکر میں مشغول رہتاہے۔ لیکن کسی ایک ہی نکتہ پر توجہ (فوکس) کرنے سے ہمارا ذہن قاصر ہے۔(اگرچہ ہر شخص کی استعداد مختلف ہے۔ لیکن ہر ایک لئے ایک مقام ایسا ضرور ہے اس کے بعد وہ  اپنی توجہ کو برقرار نہیں رکھ  پاتا جسے انگریزی میں Sustained Attention  کہتے ہیں۔یہی وہ مقام ہے جب وہ تھوڑی دیر کے لئے اپنی سرگرمیاں بدلنا نہایت ضروری ہوجاتاہے  تاکہ اس سے اس کا ذہن تازہ دم ہوکر نئے انداز نئی قوت سے دوبارہ اس کام میں واپس آتا ہے جس سے اس کے کام کی رفتار پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے یوں یہ وقفہ اس کے لئے بہت ہی مفید اورکارآمد ثابت ہوتاہے۔
ذہنی نشوونما:
جسمانی نشوونما کی طرح ذہنی نشوونما بھی بہت ضروری ہے۔ذہن کی نشوونما مختلف طریقوں سے کی جاتی  ہے اس کا ایک  بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان کسی بیرونی دباؤ کے بغیر اپنے ذہن کو نئی نئی باتے سیکھنے کی تربیت دے۔اس سلسلے میں اسے کوئی  دوسرا فرد مدد بھی فراہم کرسکتاہے۔اس کی رہ نمائی کرسکتا ہے ، اسے راستہ بتاسکتا ہے، اس میں جوش و جذبہ بھی ابھار سکتا ہے ،لیکن اس کی کوششوں کا اصل نتیجہ اتنا ہی کچھ ہوگا جتنا اس نے خود حاصل کیا ہوگا۔
نیزذہن کی نشوونما میں  زبان کی نشوونما  بھی ایک انتہائی اہم مقام رکھتی ہے ۔مزید توجہ،آموزش(تعلم)،دلچسپی بھی اس کے اہم موضوعات ہیں۔ جن پر توجہ دینی چاہئے۔
زبان کی نشوونما:
زبان گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے، مگر یہ بہت کچھ کرسکتا ہے۔زبان ہی انسان کو عظیم بناتی ہے اورزبان ہی انسان کو ذلیل کروادیتی ہے۔لہذابچپن میں جیسی گفتگو اور آداب بچوں کو سکھائے جائیں گے وہ تمام عمر اس ہی روش پرچلتے ہیں گے ۔ بچوں کی زبان کی اصلاح کے لئے ان کے سامنے شائستہ اور اچھی گفتگو کی جائے ، اچھے الفاظ منتخب کئے جائیں ۔ بچہ کا ماحول صاف ستھرا، پاکیزہ اور اچھا ہو۔ عرب اس حقیقت کو سمجھتے تھے کہ زبان کی فصاحت کے لئے سازگار ماحول درکار ہوتا ہے اسی لئے وہ فصاحت لسان کے لئے بچوں کو قبائلی اوردیہی علاقوں میں بھیجاکرتے تھے۔اگربچوں کودوسری زبانوں کی تعلیم دینی ہو تو اس کے لئے بھی سازگار ماحول بنایا جائے۔ تاکہ دیگرزبانوں کا حصول سہل ہوجائے گا۔ ویسے بھی زبان کی تدریس کے لئے Direct Method زیادہ موثر اورکارگر ہوتاہے۔
بچوں کو بات چیت اورکلام کے موقع محل سے بھی آگاہ کیا جائے کہ کب، کیسے،کہاں اورکیا بات کرنی ہے اورکس وقت خاموشی بہتر ہے۔ خاموشی کی تلقین بھی ایک اہم اور بنیادی نکتہ ہے۔اورزباں وزیاں میں اسی ایک نکتہ کا فرق ہے جسے عام طور پر نظراندازکردیاجاتاہے۔
زباں اپنی حد میں ہے بیشک زباں
بڑھے ایک نکتہ تو یہ ہے زیاں
حاضر دماغی:
تحصیل علم کے لئے یکسوئی اورتوجہ کی بہت اہمیت ہے۔یعنی ذہن کا  اپنے گردو پیش سے باخبر ہونا اوراسی مقام پر حاضر ہوناضروری ہے۔ ذہن ایک بادشاہ کی مانند  ہےجو بہت آرام طلب ہے۔ یا یہ وہ سرکش وبے لگام گھوڑا ہے جو توجہ مرتکز نہ ہونے کی صورت میں فوراً بھٹک جاتاہے۔ اس کا بھٹکنا انسان کو غیرحاضر دماغ بنادیتا ہے۔یعنی  جہاں اس کا جسم ہو وہاں سے  یہ غائب ہوکر انسان کو ناکارہ کردیتا ہے۔کیونکہ اس وقت انسان کے ذہن کا جسم سے رابطہ منقطع ہوجاتاہے۔پھر وہ شخص نہ کچھ یاد کرسکتا ہے نہ اس کو خبر ہوتی ہے کہ ارد گرد کیا ہورہا ہے حتی کہ اس کے اپنے ہاتھ سے کیا گیا کام بھی اسے یاد نہیں ہوتا مثلاً ہاتھ کہیں کوئی چیز رکھ کر بھول جاتا۔اس نے کوئی چیز کہاں رکھی وغیرہ وغیرہ۔
حاضر دماغی پر ایک حکایت ملاحظہ کریں:
ایک بادشاہ  نے اپنے وزیر سے پوچھا:
میری ہتھیلیوں پر بال کیوں نہیں ہیں؟
وزیر نے کہا:دوسروں کو انعام و اکرام دیتے دیتے آپ کی ہتھیلیوں  سے بال جھڑ گئے ہیں۔
بادشاہ نے فورا کہا: تب پھر تمہاری ہتھیلی پر بال کیوں نہیں ؟
وزیر نے کہا: آپ سے انعام لیتے لیتے  میری ہتھیلیوں  سے بال جھڑ گئے ہیں۔
بادشاہ نے اچانک سوال کیا: باقی درباریوں کی ہتھیلیوں پر بال کیوں نہیں؟
وزیر نے کہا:انعام نہ ملنے کی وجہ سے  کف افسوس ملتے ملتے  ان کی ہتھیلیوں  سے بال جھڑ گئے ہیں۔
سماعت:
سماعت کا اچھا  اورمحفوظ ہونا نہایت ضروری ہے ۔سماعت صرف کانوں تک آواز آنے کو نہیں کہتے بلکہ اس سے hearing کے بجائے attentive listening مراد ہے۔اصطلاحی زبان میں بیک گراؤنڈ میں کھوجانے کے بجائے اپنے مقصد یا فگر میں ہمہ تن محو رہنا۔جب کہ انسانی رویئے اس کے برعکس ہیں ۔ وہ فگر کو بھول کر بیک گراؤنڈ میں گم ہوجاتے ہیں اور اپنے مقصد سے دور ہوکر تحصیل علم میں ناکام و نامراد رہتے ہیں ۔
بچوں کو بچپن سے سماعت کی تربیت کی جائے۔ کیونکہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم اپنے ذہن میں فیڈ باتوں پر ہی غور کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کی باتوں کو توجہ سے سنتے ہی نہیں۔بلکہ آغاز کلام ہوتے ہی یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ مجھے کیا کہنا ہے۔یہاں بطور لطیفہ  ہٹلر کا واقعہ غیر ضروری نہ ہوگا ۔کہا جاتاہے کہ  جنگ عظیم کے زمانے میں ہٹلر کا پرسنل سیکرٹری اپنے باس کی ہدایات کے مطابق پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسی دوسرے ملک کے نمائندہ سے فون پر بات چیت کررہاتھا۔وہاں ہٹلر بھی چہل قدمی کررہا تھا۔اب ہٹلر کے پرسنل سیکرٹری کی گفتگو ملاحظہ فرمائیں:
No, No, No, No, No, No,  ایک بار Yesکہتا ہے پھر No, No, No, No, No, No,
اس کا پرسنل سیکرٹری ہر بات کا جواب "نو" کہہ رہا تھا۔ درمیان میں اس نے ایک بار "یس " کہا اور پھر آخر تک نو کہتا رہا۔
لیکن جب اس نے یس کہا تو ہٹلر کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا۔
جیسے اس کے سیکرٹری نے فون کریڈل پر رکھا ہٹلر غضبناک لہجے میں اس پر دھاڑا میں نے کہا تھا کہ یس نہیں کہنا تم نے کیوں کہا ۔اس کے سیکرٹری نے جواب دیا سر اس نے پوچھا تھا کہ تمہیں میری آواز آرہی ہے میں نے کہا یس ورنہ ہر بات کا جواب میں نو میں دیا ہے۔
یعنی اپنے ذہن میں موجود بات کو کرنے کے لئے دوسرے کی بات کا ایک نقطہ سنتے ہی  جواب باندھ لیتا ہے جس سے حقیقی افہام و تفہیم کرنا ممکن نہیں رہتا۔تحصیل علم کے لئے یا دوسروں کے موقف کو جاننے کے لئے خو د کونیوٹرل وغیرجانبدار رکھو ،بات سنو پھر فیصلہ یا حکم لگاؤ۔
عقل کا استعمال:
عقل ودانائی اللہ رب العزت کی ایک نعمت ہے۔ نعمت کا شکر اس کا صحیح استعمال ہے نہ کہ سرے سے اسے استعمال ہی نہ کیا جائے۔ بخیل بن کر اگر کوئی شخص عقل استعمال نہیں کرے گا تو یہ عقل اسے فائدہ نہیں دے سکتی۔ عقل وحکمت استعمال سے بڑھتی ہے۔یعنی جتنا زیادہ استعمال کی جائے اتنا ہی انسان کی استعداد بڑھتی ہے۔ نہ کہ ایک دیہاتی کی مانند جو عقل مطلق استعمال  کرتا تھا۔ جب اس کے استاد نے اس سے دریافت کیا کہ تم عقل کیوں استعمال نہیں کرتے تو اس نے جواباً کہا ۔جب اللہ تعالیٰ عقل کے متعلق  پوچھے گا کہ " اللہ سائیں آکھسیں کہ عقل یکا ورتا چھڈی  " کیا تم نے ساری عقل استعمال کرلی ہے تو پھر میں کیا جواب دوں گا۔یہ تو مزاح تھا ۔عقل ودانائی اورعلم وحکمت جتنا زیادہ خرچ ہوں اتنا ہی استعداد اورقابلیت بڑھتی جاتی ہیں۔
ازراہ تفنن یہاں عقل پر لطیفہ پیش خدمت ہے:

عقل لے لو

ایک خوانچہ فروش آواز دے رہا تھا۔ عقل لے لو۔

 ایک را بگیر نے  حیرت سے پوچھا بھائی کیا بیچ رہے ہو۔

خوانچہ فروش:عقل بیچ رہا ہوں۔

 را بگیر  : حیرت سے !کتنے روپے کی دے رہے ہو۔

خوانچہ فروش:   بیس روپے میں ۔ اگر لینی ہے تو نکالو بیس  روپے۔

راہگیر : نے بیس  روپے نکال کر ریڑھی والے کو دے دیئے۔

خوانچہ فروش: نے راہ  گیر کو ایک پڑیا تھما دی۔

 راہ گیر :نے جب پڑیا  کھولی تو چیخ کر بولا بیس  روپے میں اتنی کم چینی۔

خوانچہ فروش بولا:  لو آگئی نہ عقل۔

تجسس:
تجسس(Curiosity) کا مادہ ہر انسان میں ہوتا ہے۔اگر اسے اپنے اردگرد کوئی ایسی شے نہ ملے جس کی وہ ٹوہ میں لگ سکتا ہوتو وہ اپنی ہی ذات کے بارے میں متجسس رہتا ہے۔ وہ کیا ہے؟کیوں ہے؟
بقول جگرمراد آبادی
اسی تلاش وتجسس میں کھوگیا ہوں میں
اگرنہیں ہوں توکیونکر،جوہوں توکیاہوں میں
بچوں میں تجسس کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔بچہ ہر واقعہ اور شے کی جزئیات سے واقف ہوناچاہتاہے۔ اس میں جاننے کی خواہش بدرجہ اتم موجود ہے اور وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی جستجومیں رہتاہے۔بقول خاطر غزنوی
اک تجسس دل میں ہے یہ کیا ہوا کیسے ہوا
 یہی وہ مادہ ہے جوبچوں کو آگے بڑھنے اورترقی کرنے میں مدد دیتاہے۔ اس کا مفیداور مثبت استعمال ہونا چاہئے۔بچہ کوسوال کرنے پر کبھی نہ تو جھڑکا جائے نہ ہی سوال کرنے سے منع کیا جائے۔اس کے سوالات کا جواب تشفی بخش طریقے سے دیا جائے اور اگر کچھ امور بچے سے پوشیدہ بھی رکھنا چاہتے ہیں تو ایسا کرتے ہوئے بچہ کو یہ محسوس نہ ہونے دیاجائے کہ اس سے کچھ چھپایاجارہاہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے سب کچھ بتادیاجائے لیکن حکمت و دانائی کامظاہرہ کیاجائے۔ اور اس کے سوالات کا رخ کسی اورجانب پھیر دیاجائے۔یہ ذہن میں رہے کہ صحیح سوال کرنا علم کی کنجی اور نصف علم ہے۔مشہور فلسفی فرانسس بیکن (Francis Bacon 1627) کے نزدیک جو جوزیادہ پوچھتا ہے وہ زیادہ سیکھتا ہے اور زیادہ تسکین پاتاہے۔ بچوں میں جذبہ  تجسس  کا مثبت استعمال بہت مفید اور علم کی ترقی میں کارآمد ہے۔
مطالعہ کی رغبت:
بچوں میں مطالعہ کی رغبت پیدا کی جائے۔ مطالعہ زندگی کی علامت ہے اور کتب سے دوری انسان کی موت ہے۔ مطالعہ سے علمی ترقی ہوتی ہے پھر اس کی مدد سے انسان کامیابیوں اور کامرانیوں کے زینے چڑھتا رہتاہے ۔کتاب بہترین رفیق  ہے اور اس سے حاصل کردہ شے  علم انسان کو سرشاررکھتا ہے:
سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
نہ یہ کہ بچوں کو مطالعہ سے نفور پیدا کیا جائے ۔جیسا کہ ہمارا معاشرتی رویہ ہے کہ جب بچہ کتابیں مانگتا ہے تو ماں باپ اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ یہاں حقیقی زندگی کا ایک واقعہ بطور لطیفہ پیش خدمت ہے۔
 ایک شخص سے اس کے بچے نے ڈکشنری منگوائی۔ ایک ہفتے بعد اس نے اپنے والد سے ایک اورکتاب  کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے والد نے اسے جھڑک کر خاموش کردیا اورغصے سے کہا پہلے جو کتاب لاکر دی ہے وہ تو مکمل ختم کرلے ۔پھر دوسری منگوالینا۔
عملی میدان کا انتخاب:
بچہ کی نفسیات سے آگاہی حاصل کرنانہایت ضروری ہے۔والدین بچوں کی صلاحیتوں ،دلچسپیوں کو مد نظر رکھ کر ان کے لئے تعلیم و تعلم کا انتظام کیاجاناچاہئے۔ ہمارے ملک میں بھیڑ چال ہے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم اپنے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں ۔مثلاً کمپیوٹر کا دور شروع ہوا تو ہر ایک بچوں کو کمپیوٹر کی فیلڈ میں داخل کرنے کا خواہشمندنظرآنے لگا۔ یہ انتہائی غلط فکروروش ہے ، بچوں کی خواہش،دلچسپی اورانفرادی اختلافات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر عملی میدان کا انتخاب کیا جائے گا بچہ اس میں شوق ،جذبے ، لگن اورمحنت سے کامیابی حاصل کرے گابصورت دیگرہ والدین کے دباؤ کے تحت وہ وقت توگزاردیں گے لیکن اس شعبہ میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کرسکیں گے۔
حقیقت آشنائی:
تصور ہمارے ادراکی تجربات کا نتیجہ ہے۔ جو ہم کسی شے یا فرد سے وابستہ کرلیتے ہیں ۔تصور حقیقت سے زیادہ خوش کن یاخوفناک ہوتاہے۔۔ بچوں میں یہ اور زیادہ اہمیت رکھتاہے۔ ابتدائی دور میں بچے کے تصورات کوسمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ انتہائی سوچ رکھتا ہے اور دوانتہاؤں پر سوچتاہے۔ بچے کا تصور شدید ہوتاہے ۔وہ اچھائی و برائی کے تصور اورتخیل میں بھی انتہا ئی درجہ تک سوچتا ہے۔لیکن بچوں کو بتدریج حقیقت آشناکیا جائے اورہر چیز کا صحیح و حقیقی رخ دکھایا جائے اوریہ باور کرانے کی کوشش کی جائے کہ غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے۔کوئی شخص معصوم نہیں ہے ۔یعنی اس کے والدین سے بھی خطاہوسکتی ہے اچھے انسان کی خوبی یہ ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو اس سے تائب ہوجائے۔ گرے ہوئے دودھ پر آنسو بہانے ، رونے سے بہتر یہ ہے کہ آئندہ اس غلطی کا تدارک کر لیا جائے۔


آزادی اظہار:
بچے والدین سے آزادانہ تبادلہ خیال کرسکیں ۔بالخصوص اگروہ گھرسے باہر کی بات کریں تو انہیں نظرانداز نہ کریں ۔ توجہ سے ان کی سنیں ، اگر کوئی تنگ کررہا ہے تواسباب جاننے کی کوشش کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے اور جرائم پیشہ افراد بچوں کو اپنا آلہ کار بنانے کی کوشش کریں ،کوئی فرد حسد اور رقابت کی وجہ سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر منفی طورپر اثر اندز ہونے کی کوشش کرے، کوئی اسے بلیک میل کرکے اس کی شخصیت کو تباہ کردے اور اسے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرے ،بچہ کسی شخص کے خوف کی بناء پر کچھ ایساکام کرلے جس کی تلافی ناممکن ہو۔اس پر ڈر خوف نہ ہو کہ اگرمیں گھر میں ذکرکروں گا تو گھر والے سزادیں گے بلکہ وہ آزادی سے اپنے معاملات والدین کو بتاسکے۔ورنہ ان حالات سے دوچار ہونے کے بعد بچہ کی جسمانی، ذہنی،جذباتی اور سماجی نمو کا عمل سست ہوجاتا ہے۔اوروہ دل میں یہ حسرت لئے پھرتاہے کہ دل میں سینکڑوں باتیں ہیں لیکن کوئی میری سننے والا ہی نہیں ۔
سیکڑوں حرف ہیں گرہ دل میں
پرکہاں پائیے لبِ اظہار
جمالیاتی(aesthetical) ذوق :
 بچوں کو صاف ستھرا ماحول میں رکھیں ۔اوران  کی اس انداز سے رہنمائی کی جائے کہ ان کے اندر حسن وترتیب وتنظیم پروان چڑھے جس سے ان میں جمالیاتی ذوق اور نفاست طبع پیداہوگی۔ان کے اندر اشیاء کو صحیح مقام پر رکھنے کی خاصیت پیدا ہوگی۔حسن وجمال کا انحصار قیمتی وپرتعیش اشیاء پرنہیں۔ بلکہ حسن تو ایک ترتیب وتنظیم کا نام ہے جو خود اپنی جانب توجہ مبذول کرالیتاہے  اگرچہ سادگی کا مظہر ہی کیوں نہ ہو۔
حسن ہر شے پہ توجہ کی نظر کاہے نام
بارہاکانٹوں کی رعنائی نے چونکایامجھ کو
جذباتی نشوونما:
بچوں کی جذباتی نشوونما بتدریج ہوتی ہے۔ ابتداء میں بچے براہ راست جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور یہ کوئی معیوب بات نہیں ۔ اس سادگی وبرجستگی میں بھی حسن ہوتاہے۔اسی مخصوص بھولپن، معصومیت اور شرارتوں کی وجہ سے وہ مرکز نگاہ ہوتاہے۔ ان کے بغیر وہ بچہ نہیں بلکہ ایک کم عمر بزرگ بن جائے گا۔بچوں کو بچہ رہنا دیں ۔ والدین کے مزاج کی سختی ،غصہ،شدت وتندی بچپن میں پچپن سال کا نہ بنادیں ایسا نہ ہو کہ ان کی شخصیت ہی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوجائے۔
ایک بزرگ نے اپنے مرید سے بچوں کوساتھ لانے کاکہا۔ وہ شخص اپنے بچوں کو بہت سمجھا بجھا کر شیخ کی خدمت میں لے گیا ۔ بچے شیخ کی خدمت میں سرجھکا کر ایک جانب بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد حضرت نے کہا کہ میں نے تم سے بچوں کو لانے کا کہاتھا۔شیخ نے کہا حضرت یہاں بیٹھے ہیں ۔ بزرگ نے فرمایا کہ یہ بچے نہیں یہ توبزرگ ہیں بچے تو وہ ہوتے ہیں جو کچھ شرارتیں کریں کندھوں پر چڑھیں ،شوروغل کریں وغیرہ وغیرہ۔
اس دور میں یہ سب سے بڑا ظلم ہوا ہے
بچوں میں وہ پہلی سی شرارت نہیں ملتی
اس لئے ضروری ہے کہ ان کا قدرتی حسن(بھولپن اور شرارتیں ) ان سے نہ چھینی جائیں بلکہ بتدریج ان کی تربیت کی جائے اور ان کی رہنمائی کی جائے کہ ہمہ وقت اپنے جذبات (خوشی،غمی، ہنسنا رونا، خوف، غصہ، جارحیت) کابراہ راست اظہار نہیں کیاجاسکتا۔موقع ومحل کی مناسبت سے کبھی ان کا اظہار کیاجانا چاہئے اورکبھی اظہار سے رک جاناچاہئے۔
بچوں سے جارحیت (Aggression)کا مکمل خاتمہ ایک ناپسندیدہ اورغیرصحت مندانہ عمل ہے کیونکہ زندگی میں بہت سے ایسے چیلنجز کا سامناکرناپڑتا ہے جہاں ایگریشن کا ہونا ضروری ہے ۔لیکن اس کی زیادتی نقصان دہ ہے۔اس لئے راہ اعتدال اپناتے ہوئے اس کو مفید انداز سے استعمال کرنا چاہئے۔اور زیادتی کی صورت میں والدین صبروتحمل اورمحبت سے ایگریشن میں اعتدال لائیں ۔حدیث مبارکہ میں جو لاتغضب ۔کے الفاظ آئے ہیں اس کے یہ معانی ہرگز نہیں کہ غصہ آناہی نہیں چاہئے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں کوئی کام نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس وقت عقل پر پردہ پڑا ہوتا ہے۔
رہا خوف تو یہ ایک فطری جذبہ ہے۔انسانی زندگی میں تین بنیادی خوف پائے جاتے ہیں ۔اچانک زورداردھماکہ ہونا،بلندی سےگرنا اورسہارا کاچھوٹ جانا۔ بنیادی طور پر ان تینوں قسموں میں عدم تحفظ کا احساس پایاجاتاہے۔اس کے علاوہ جتنے خوف ہیں وہ بچہ دوسروں کی باتوں ،عملی تجربات اور کہانیوں اور افسانوں سے سیکھتا ہے۔
خوف اللہ رب العزت نے بڑے خطرات سے بچنے کے لئے پیدا کیا۔ مثلاً اگر بچہ بلاخوف وخطربے احتیاطی سے پرہجوم شاہراہ عبور کرے گا وہ کسی بڑے حادثہ کا شکار ہوسکتا ہے۔حادثہ کاخوف بچے کوایسا کرنے سے روکے گا۔لیکن بے جا ڈر اور خوف کا تدارک ہونا چاہئے اورکسی حد تک اسے بچے کی زندگی سے نکال دینا چاہئے۔بالخصوص بچپن کے ڈر اورخوف کے نقوش تاحیات انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اوراس کی شخصیت کی تعمیر رک جاتی ہے۔خوف اورڈرمنفی جذبات ہیں کیونکہ یہ انسانی جسم کے لئے نقصان دہ ہیں بحالت خوف جسم اور اندرونی اعضاء صحیح طور پرکام نہیں کرتے۔حالتِ خوف کی طوالت کی صورت میں مختلف پیچیدہ امراض میں مبتلاء ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ بہرصورت اعتدال ہی کی راہ اپنانی چاہئے افراط وتفریط دونوں نقصان کا باعث ہیں ۔
نہ تفریط بہتر نہ افراط اچھی
توسط کے درجہ میں ہر بات اچھی
محبت وشفقت :
بچے کلی اور پھول کی مانند نرم و نازک ہوتے ہیں ۔ ان سے نرمی ،محبت اورشفقت کا رویہ اپنائیں کیونکہ محبت فاتح عالم ہے۔ پیار و محبت ان کا حق ہے اور اس کے ذریعے ان کے قلوب فتح کئے جائیں۔
؎ کم نہیں ملک کی تسخیر سے تسخیر قلوب
فلسفہ سزا (Philosophy of Punishment):
سزا کے سلسلے میں اگر حضورﷺ کا اسوہ حسنہ دیکھا جائے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ ﷺکی خدمت اقدس میں دس برس رہے لیکن آپ ﷺ نے انہیں نہ صرف یہ کہ کبھی سزانہیں دی بلکہ جھڑکا تک نہیں لیکن پھر بھی اگر کبھی سختی کی ضرورت پیش آئے تو حدیث کی رو سے دس سال کے بعد سختی کی جاسکتی ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ جس طرح بیماری میں علاج کے لئے کڑوی گولی نگلنی پڑتی ہے اسی طرح بعض اوقات سختی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔اگر غلطیوں کو بالکل نظرانداز کردیاجائے اورکچھ نہ کہا جائے تو کل بڑی غلطی کا ارتکاب ہوگا جو بعض اوقات ایسی بھی ہوسکتی ہے کہ شاید توبہ کرنے پچھتانے سے بھی کچھ فائد ہ نہ ہو۔ انسان کی فطرت ہے وہ بتدریج چھوٹی برائی سے بڑی برائی کی طرف جاتاہے ۔Nip the evil in the bud ا( برائی کو ابتداء ہی میں ختم کردو)گر اس محاورے پر عمل نہ ہو توبچہ بڑے بڑے جرائم کرنے لگتا ہے۔اورپیشہ ور مجرم بھی بن سکتاہے۔ اور پھر یہ جرائم سزاؤں سے نہیں رکتے بلکہ بڑھتے ہی رہیں گے۔
ظلم بڑھنے کا ایک سبب یہ ہے
جرم ڈرتا نہیں سزاؤں سے
ایک اور شاعر کے بقول
تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب
بڑھتا ہے اورذوق گنہ یاں سزا کے بعد
سزا وجزا کابرمحل نفاذ تعلیم وتربیت میں مفید و معاون ہوتا ہے۔ والدین بچوں پر اپنارعب اور وقارضرور قائم رکھیں لیکن انہیں مستقل ڈراکر نہ رکھیں نہ سزا دینے میں جلدی کریں اور نہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر سزا دیں ۔ لیکن اعتدال کے ساتھ۔سزا ایسی نہ ہو کہ بچہ کو شدید چوٹ آئے ۔ اورسزاکاعمل مستقل اور بار بار نہ ہو۔کسی نقصان یا ذاتی اور وقتی غصہ کی وجہ سے ہرگز نہ سزادیں ۔ اسی طرح اگربچے عادی مجرم نہ ہوں لیکن ان سے نادانستہ کوئی غلط کام ہوجائے تو اسے نظرانداز کریں اور پیار سے سمجھائیں ۔دوسروں کے سامنے اس کے عیوب کا تذکرہ نہ کریں ۔بچے کے سامنے اس تاثر کو قائم کرنے کی کوشش کریں کہ یہ غلط کام ہے اوراگر لوگوں کو علم میں یہ بات آئی تو اس سے وہ لوگوں کی نظروں سے گرجائے گا۔ بے جامارپیٹ اور غلطیوں کی تشہیراور اعلانیہ بازپرس کے رد عمل کے نتیجے میں بچہ میں بے باکی آجاتی ہے ، بچہ ڈھیٹ وبے شرم ہوجاتاہے،من یهن یسهل الهوان علیه "عزت آنے جانے والی چیز ہے انسان کو ڈھیٹ ہوناچاہئے" پر عمل پیرا ہوجاتاہے اور پھر ڈانٹ اور مار کا اس کی شخصیت پر مثبت کے بجائے منفی اثرہو گا۔ وہ سختی کے باوجود بھی ان سے باز نہیں آتا اور ویسے بھی زیادتی کسی بھی چیز کی نقصان دہ ہوتی ہے ۔
Excess of everything is bad.۔ بچہ کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہئے۔بعض اوقات وہ احساس جرم کا شکار ہوکر خود اعتمادی کھوبیٹھتا ہےجو بہت ہی نقصان دہ صورت ہے۔
احساس جرم ہوگا نہ تذلیل کیجئے
قلب خود اعتماد نہ تبدیل کیجئے
بچے کوواضح طور پر معلوم ہو کہ کس غلط کام کی اسے سزا ملی ہے ۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ سزا کے بعد یا اس سے قبل بچے کو سمجھایابھی جائے کہ سزا کسی دشمنی کی وجہ سے نہیں بلکہ رویوں میں بہتری کے لئے ہے۔کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جس معاملہ کے اسباب و پس منظر اس کے ذہن میں نہ ہو وہ اس پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ایسا کرنا بغاوت یا سرکشی نہیں بلکہ یہ فطری امر ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے درمیان مکالمہ سے ثابت ہوتاہے۔قَالَ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا۔" اس بندے نے کہا(ا ے موسیٰ) آپ میرےساتھ صبرکرنے کی طاقت نہیں رکھتے اورآپ صبرکربھی کیسے سکتے ہیں اس بات پر جس کی آپ کو پوری طرح خبرنہیں "۔
یہاں اسی اہم فطری اورنفسیاتی تقاضہ کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔ 
بے جرم سزا:
بے جرم سزا پر ایک حکایت پڑھی تھی وہ پیش خدمت ہے۔
ایک بادشاہ نے اپنے بیٹے کو علم سکھانے کے لئے ایک استاد مقرر کیا۔ دوران تعلیم استاد نے شہزادے کو بلایا اوراسے بغیر کسی وجہ کے خوب مارا۔ شہزادے نے یہ بات یاد رکھی۔
جب بادشاہ فوت ہوا اور وہ لڑکا بادشاہ بن گیا  تو اس نے استاد کو بلایا اورپوچھا:
آپ نے مجھے فلاں دن بغیر کسی وجہ کے بری طرح کیوں ماراتھا۔
استاد نے کہا:اے بادشاہ ! تو بہت ہی کمال و فضیلت والا بن چکا تھا ۔ میں نے جان لیا کہ تو اپنے باپ کے بعد بادشاہ ہوگا۔ اس لیے تجھے ماراتھا تاکہ تجھے یاد رہے کہ بے جرم سزا کا درد کیسا ہوتاہے تو بھی جب کسی کو سزا دینے لگے تو اس درد کو یاد کرے اورکسی پر ظلم نہ کرے۔ بادشاہ نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کوجزائے خیر دے۔
پھر استاد کو بہت سا انعام دے کر رخصت کیا۔
معاشرتی نشوونما:
آزادانہ فیصلے کرنے دیں :
آزادی ایک نفسیاتی تقاضہ ہے ۔انسان بچپن ہی سے آزادی کا خواہاں ہوتا ہے اور اپنے کاموں میں بڑوں کی مداخلت ناپسند کرتا ہے ۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ گھر کے افراد اس کی انفرادیت، شخصیت اور آزادی کو تسلیم کریں ۔ والدین بچوں پر ہر وقت احکام نافذ نہ کریں ۔ان کے سامنے متبادل (Alternate Options) رکھیں ۔جن امور میں بچے کی شخصیت کو نقصان پہنچنے کا امکان نہ ہوان امور کو بچے کی مرضی پر چھوڑدیں تاکہ انہیں بہتر چیز کا انتخاب کرنا آئے ۔اس عمل سے بچے کی ذہنی نشوونما میں اضافہ ہوگا۔ بچوں سے دریافت کریں کہ کن وجوہات کی بناء پر اس نے ردکیا یا ترجیح دی ۔ بچوں سے خود مشورہ بھی لیں ان کی رائے کو اہمیت دیں ۔ ایسا کرنے سے ان کے قوت استدلا ل اورزور بیان میں اضافہ ہوگا۔ان میں اعتماد کے ساتھ بروقت فیصلہ سازی کی صلاحیت پیدا ہوگی اور وہ آپ کی غیر موجودگی میں بھی بروقت فیصلہ کرنے کے قابل ہوگا۔ بروقت اورصحیح فیصلہ کرنا کامیاب زندگی کی ضمانت ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ آزادی ملنے پربچوں میں دو مختلف قسم کے رویوں کااظہار پایاجاتا ہے۔ایک جو آزادی ملنے پر اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔اپنے معاملات اورفرائض سے غفلت اورلاپرواہی برتتے ہیں اوراس کے برعکس دوسری قسم کا رویہ مزید ذمہ دار ی اور کام میں دلچسپی کا ہوتا ہے۔آزادی سے ان کے کام میں مزید نکھار پیداہوجاتا ہے۔ ان دونوں قسم کے رویوں کے حامل بچوں کو مختلف انداز سے معاملہ (Deal) کیاجاناچاہئے ۔
امربالمعروف ونہی عن المنکر :
 بچوں کی اصلاح احوال کو نظراندازنہ کرنا چاہئے۔ غلط کاموں پربے جا حمایت نہ کی جائے ورنہ یہ محبت مزید بگاڑ کا باعث بنے گی۔ ماضی میں ماں باپ اولاد کی تربیت کرنے والوں کاشکریہ ادا کرتے تھے کہ والدین کی ذمہ داری یعنی اچھی تربیت کرناہے اور وہ اس میں ان کے ساتھ تعاون کررہاہے۔ لیکن آج اس کے برعکس ہے کہ غلط کاموں پرنہ خودروکتے ہیں اور نہ دوسروں کومنع کرنے کی اجازت دىتے ہیں ۔ اس ہی شخص سے لڑتے اور اسے برابھلا کہتے ہیں ۔خواہ وہ استاد ہو یا گھرکاکوئی بڑا فرد۔بہرکیف اس کا نقصان اورخمیازہ پھر بچوں کی تربیت میں کمی کی صورت میں سامنے آتاہے۔
بچوں کوحکمت سے اچھائی کاحکم دیں اور برائی سے منع کریں ۔ اچھے کام کاکا کہنا ہو یا کسی برے کام سے منع کرنا ہو تو اس کو ترغیب و تحریص دلائیں فورا حکم صادر نہ کریں ۔بعض اوقات غلط کام کا عمداً کہنے سے بچہ اس کام سے باز آجاتاہے۔مثلاً بچہ نے کوئی شرارت کی تواسے کہے اب پھر کرلو!اس سے بچہ کے حافظہ میں اس کام سے نفور پیدا ہوجاتاہے۔
اگر بچہ کبھی بغاوت پرآمادہ ہوتو وقتی طور پر نظرانداز کردیں اور کچھ وقت گزرنے کے بعد ماحول اور حالات دیکھتے ہوئے مصلحت اور حکمت سے اسے سمجھائیں ۔ لیکن مستقل ضد،انا اور رونے کی وجہ سے اس کی کوئی خواہش پوری نہ کی جائے۔ اگروالدین نے کوئی حتمی فیصلہ کرلیایابچہ کوئی حکم دیا تو اس کی تعمیل کروائیں تاکہ بچہ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ اگر وہ اپنامؤقف دلیل سے نہ سمجھا سکا تو ضد ،ہٹ دھرمی اور رونا فائدہ مندنہ ہوگا۔ مزید برآں وہ جان جائے کہ والدین جو فیصلہ کرلیں اس پر عمل ضرور کرواتے ہیں اس سے ان کی بات میں وزن پیدا ہوگا اور رعب اور وقار قائم رہے گا۔لیکن یہاں اس نکتہ کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بہت زیادہ وطویل وعظ بھی بے فائدہ ہوتے ہیں۔بات برمحل ہو ،موقع کی مناسبت سے ہو پھر اختصار سے بھی کی گئی بات فائدہ دیتی ہے۔ ورنہ بقول بشیر
مختصر باتیں کرو بے جاوضاحت مت کرو
یہ نئی دنیا ہے بچوں میں ذہانت ہے بہت

عمدہ کام کی تحسین:
بچوں میں کوئی اچھی عادت دیکھیں یا بچہ کوئی اچھا کام کرے تو اس کی اچھائی کا اظہار ضرور کریں ۔ دوسروں کے سامنے اظہار کرنے سے اس کی وہ عادت مزید پختہ ہوجائیگی اور اس کی فطرت ثانیہ بن جائے گی۔ دیگر بچوں کو تحریص و ترغیب ہوگی۔ تعریف کرنے کے نتیجے میں بچہ دوسرے افراد میں بھی اچھائیوں کااعتراف اوران کی تعریف کرنے والا بن جائے گا۔
تعریف میں جو ان کی کریں آپ گفتگو
اوروں کی خوبیوں کی انہیں ہوگی جستجو
عملی تبلیغ:
والدین بچوں کے سامنے اپنا اچھا کردار پیش کریں ۔ ۔بچے بڑوں کی نقل کرتے ہیں ۔ اس لئے اگر والدین چاہتے ہیں کہ بچوں میں اچھی عادات پیدا ہوجائیں تو پہلے خود اچھی عادات اورعملی کردار کا مظاہرہ کریں ۔حضرت ثعبان ثوری کا قول ہے:''مبارک ہیں وہ لوگ جن کے پاس نصیحت کرنے کے لئے الفاظ نہیں اعمال ہوتے ہیں ''۔
گھر میں اچھی عادات کا ماحول بنائیں ۔مثلاً آدابِ سلام، طعام و کلام وغیرہ ۔سنت نماز گھرمیں پڑھنے کی بنیادی وجہ بچوں کو نماز کی ترغیب و تحریص ہے۔گھرمیں والدین مہذب اور پیار و محبت کا رویہ اپنائیں اوربری عادات سے پرہیز کریں ۔ خود بری عادات اپنا کر بچوں سے اچھی عادات کی توقع رکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔خود کبھی جھوٹ نہ بولیں ، اسی طرح اگر والدین چاہتے ہیں بچہ تعلیم میں دلچسپی لے توان کوجبراً پڑھنے لکھنے کے لئے نہ بٹھایاجائے۔ جبر کی صورت میں بچوں میں ایک بری عادت پڑجاتی ہے کہ وہ کتابیں لے کر بیٹھے رہتے ہیں اسے اور توجہ سے نہیں پڑھتے ہیں ۔ اس سے بچوں میں غیرحاضر دماغی اور ذہنی فرار کی بدعادت پڑتی ہیں ۔ جو بہت نقصان دہ ہے۔بچے جو بھی کام کریں توجہ اوردلچسپی سے کریں ۔ اس کے لئے خود ان کے سامنے کتابیں کھولیں اورخود بھی مطالعہ کریں ۔پھر مطالعہ کی تلقین کریں اوربچے کو بتائیں جوشخص اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں رکھتا وہ معراج انسانی سے گرا ہواہے اورکتابیں انسان کی بہترین دوست ، مونس اور بہترین سرمایہ ہے۔یہی بہترین نفسیاتی (Psychological) و عملی(Practical) تبلیغ ہے۔اورکردار کی زبان اور اس صدا کی بازگشت زیادہ موثر اورہرطرف سنائی دیتی ہے۔
آدمی نہیں سنتا آدمی کی باتوں کو
پیکرِ عمل بن کر غیب کی صدا ہوجا
لڑائی جھگڑا :
بچوں میں لڑائی جھگڑا کا ہوناغیرمعمولی بات نہیں ۔اکثرمعمولی اختلاف رائے بچوں میں تصادم  تک جاپہنچتاہے۔بچے لڑائی کرکے جلد صلح کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ایک آدھ دن ایک دوسرے سے اپنا منہ پھیرلیں لیکن ان میں لڑائی کا اثردیرتک نہیں رہتا ۔بقول مضطر خیرآبادی
لڑائی ہے تو اچھا رات بھر یوں ہی بسر کر لو
ہم اپنا منہ ادھر کر لیں تم اپنا منہ ادھر کر لو
 بڑوں کو بچوں کے اختلاف رائے یا تصادم میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے حتی الامکان اسے نظر انداز کرنا چاہئے ۔ اگر وہ خود والدین تک معاملہ لائیں تو حکمت و دانائی اور انصاف سے فیصلہ کریں ۔کسی ایک فریق کی بے جاحمایت نہ کی جائے ورنہ وہ فریق باربار لڑائی جھگڑا کا سبب بنے گا اورپھر جھوٹ کا سہارا لے کر آپ کی ہمدردیاں سمیٹے گا۔ یہ بات لڑائی سے زیادہ خطرناک ہوگی۔
منصفانہ رویہ:
بچوں میں باہم انصاف کیاجائے۔اپنا ہو یا غیر سب کے ساتھ انصاف کارویہ اپنایاجائے یعنی حق بحق دار رسید۔انصاف نہ کرنے سے بہت سے معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ ایک سے زیادہ بچوں کی صورت میں طرزعمل ایسا نہ ہو کہ ان کے دل میں ضدبغض و عناد پیدا ہو بلکہ آپس میں محبت ،الفت،ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا ہو۔
فلسفہ تفریح:
سیر و تفریح بچوں کا حق ہے اور ان کی جسمانی اورذہنی نشوونما کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ بچوں کے لئے صحت مندانہ اورموزوں تفریح کے اسباب و ذرائع کا اہتمام والدین کی ذمہ داری ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کو صحت مند تفریح اور کھیلوں کی طرف راغب کریں تفریح درحقیقت فرحتِ دل کی کیفیت ہے یہ ذہنی کیفیت ہے اگربچوں کا مزاج ایسابنادیاجائے کہ وہ بامقصد تفریح یعنی ورزش، جسمانی کھیل کود اور کتب بینی سے فرحت حاصل کریں توہم خرما وہم ثواب والی مثل اس پر صادق آئے گی۔اس لئے والدین پر لازم ہےکہ بامقصد،جسمانی مشقت والے کھیل کودکی بچوں کو ترغیب دلائیں ۔ جس طرح حدیث مبارکہ میں آیاہے:''اپنے بچوں کو تیراکی، تیراندازی اورگھڑسواری سکھاؤ اور انھیں قرآن مجید کی صحیح تلاوت کرنا سکھاؤ''۔تیراکی،تیراندازی اورگھڑسواری اس وقت کے کھیل تھے۔ان تمام کھیلوں میں ورزش یا جسمانی مشقت پائی جاتی ہے جو صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ ورزشی کھیلوں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ کچھ دیر کھیل کربچے تھک جائیں گے۔اوریہ جسمانی طاقتوں میں اضافہ کا سبب بنیں گے اور ان کے بعد وہ تازہ دم ہوکر پڑھ سکیں گے۔نیز کھیل سے پڑھائی کے دوران وقفہ آنے کی وجہ سے ذہن مستقل دباؤ اوربوجھ سے آزاد ہوگا ۔ کیونکہ انسانی ذہن مشین کی طرح یکسانیت سے کام نہیں کرسکتا بلکہ اسے تنوع کی ضرور ت ہے ۔یہ تنوع ہی ذہنی آرام کا دوسرا نام ہے جوبہت اہم ہے ،یہ قوت حافظہ و یادداشت کو بہتر بناتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ بیٹھے بیٹھے کارٹون اوروڈیوگیم میں مصروف رہیں گے توپورادن گزرنے کے باوجود ان کا نہ دل بھرے گا نہ ہی ان کو حقیقی فرحت وخوشی نصیب ہوگی۔ اگر دل میں خوشی وفرحت کا احساس نہ ہو توپھر باغ وبہار گھومنے سے بھی تفریح حاصل نہیں ہوتی۔
چمن میں بھی ہو آئے صحرامیں بھی
کہیں بھی نہ تفریح حاصل ہوئی
جدید ٹیکنالوجی کا محتاط استعمال:
ٹیلیوژن وکمپیوٹر کا استعمال بڑوں کی نگرانی میں کیا جائے تاکہ ان کا غلط استعمال نہ ہو جہاں انٹرنیٹ معلومات کا خزانہ ہے وہیں خرافات کا ایک سیلاب بھی اس کے اندر موجود ہے۔۔ خاص طور پرلڑکپن(Teen Age)میں اولاد کی نگرانی کی جائے اور انٹرنیٹ کے استعمال کی صورت میں والدین کی خصوصی توجہ درکار ہوگی ۔ مزید یہ کہ وڈیوگیم ،ٹیلیوژن دیکھنا ایک طرح سے ذہنی کام کے مشابہ عمل ہے اس میں بھی کتاب کی طرح نظریں ایک جگہ مرکوز ہوتی ہیں ،سماعت و بصارت پرثقل کااحساس ہوتاہے جس کی وجہ سے اس کے بعد بچہ ذہنی طورپر تھکا ہوا ہوگا اور صحیح پڑھائی بھی نہ کرسکے گا۔ رہا موبائل کا استعمال تو یہ بچوں کی ضرورت نہیں ہے ان کو اس کے استعمال سے منع کیاجائے جب کہ ہوتا اس کے برعکس ہے کہ بچوں کے ہاتھ میں موبائل اور کانوں میں ہینڈ فری لگی نظرآتی ہے ۔بچہ چونکہ نشوونما کے عمل سے گزررہاہوتاہے ۔ ابھی اس کے اعضاء میں پختگی نہیں ہوتی اس لئے ان شعاعوں  اوربرقی لہروں سے اس کی سماعت ، بصارت اور ذہنی قوتوں کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔اس سے بچنا نہایت ضروری ہے۔بہرکیف اعتدال اور احتیاط کے ساتھ ٹیکنالوجی کا استعمال کارآمد اورفائدہ مند ہے۔
مصلحت کاہے تقاضااحتیاط
دل یہ کہتا ہے کہ دیکھاکیجئے
تربیت بحالتِ مرض:
بچوں کی نشوونماکا عمل یکساں شرح رفتارسے نہیں ہوتا بلکہ اس میں رکاوٹیں بھی آتی ہیں ۔ جن میں سب سے زیادہ مشکل مرحلہ بیماری اور تیمارداری کےدوران ہوتاہے۔ یہ ایسا نازک موقع ہے کہ بعض اوقات تربیت پر کی گئی برسوں کی محنت اکارت ہوجاتی ہے۔ بیماری میں بچہ چڑچڑا ،زودرنج اورحساس ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے نظام الاوقات کی پابندی نہیں کرتا۔بیماری کے باعث اس کو بہت سی رعایتیں مل جاتی ہیں ۔ پھرحالت صحت میں بھی وہ ان رعایتوں کا خواہاں ہوتا ہے۔ بیماری کے دوران پیدا ہونے والی جسمانی کمزوری جلد دور ہوجاتی ہے لیکن ذہنی ،جذباتی اورسماجی نشوونما بہت متاثر ہوتی ۔ اس کی اچھی عادتیں ختم ہوجاتی ہیں ۔ بری عادتیں جنم لے لیتی ہیں جن میں سے ایک متمرض بن جاناہے۔ جب بچہ دیکھتا ہےکہ عمومی زندگی میں والدین کی توجہ و پیارجس اندازسے دوران مرض ملتا ہے وہ دوران صحت حاصل نہیں ہوتا تو بچہ متمرض بن جاتاہے ۔ یہ بہت ہی خطرناک اور تباہ کن کیفیت ہے۔اس کا تدارک بہت ضروری ہے۔
متمرض بننے کا ایک نقصان یہ ہے کہ جب انسان کسی مرض کے متعلق سوچتا ہے تو جلد یا بدیر ذہن اس مرض کو قبول کرلیتا ہے اور وہ شخص حقیقتاً اس مرض کا شکار ہوجاتاہے۔دوسرا نقصان یہ ہے کہ بچہ بڑوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرتاہے وہ زندگی میں محنت ،لگن اور جوش سے آگے بڑھنے کے بجائے دوسروں کی بیساکھیوں کا سہارا لینا چاہتا ہے جس سے اس میں آگے بڑھنے کی لگن ختم ہوجاتی ہے۔اس کا سب سے بہترین حل بچے کی سوچ اور توجہ کو دوسرے امور کی جانب منتقل کرنا ہے۔ بچے کی بیماری کے دوران ماں باپ بچے کواپنا وقت اور توجہ ضروردیں ۔بچہ بڑوں کی توجہ چاہتاہے۔لیکن اپنے مشاغل وغیرہ ترک نہ کریں ۔ بچے کو یہ احساس نہ دلائیں کہ اس کے بیمار رہنے سے کائنات رک گئی ۔ بلکہ یہ کارخانہ قدرت اسی طرح جاری و ساری ہے۔ اگرہم اپنے معمولات چھوڑ دیں گے تو ہم زمانے سے پیچھے رہ جائیں گے۔یہ وقت گزرجائے گا اورپھر نہیں آئے گا۔اس کی کمی پوری نہ کی جاسکے گی۔اس دوران اس کے دو ستوں کے بارے میں بتائیں کہ وہ محنت سے پڑھ رہے ہیں اورپڑھنے لکھنے میں اس سے آگے نکل گئے ہیں تاکہ بچہ جذبہ مسابقت کے تحت جلد اپنے پرانے نظام الاوقات پر لوٹ آئے۔اسے مستقبل کے منصوبے بتائیں کہ ہم نے آپ کے بارے میں یہ سوچا ہے کہ آپ ڈاکٹر یا انجینئر بنیں ؟ تو امید ہے کہ بچہ جلد اس صورتحال سے باہر نکل آئے گا۔ نیزاحتیاط علاج سے بہتر ہے (Prevention is better than cure.)۔اس محاورہ پر عمل کیا جانا ضروری ہے۔جس سے بیماری کے دوران پیداشدہ بہت سی بد عادات سے نجات مل سکتی ہےکیونکہ اس سے بچے میں نظم وضبط و برداشت کی کیفیت پیداہوگی۔ جب بچے پر کچھ پابندیاں عائد ہوں گی تو وہ ان سے نجات کے لئے مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کاخواہاں ہوگا جو اسے متمرض بننے سے روکیں گی۔نیزبچہ کو ڈاکٹر کے پاس جانے کی دھمکی نہ دیں اس سے اس کے دل میں ڈاکٹر اورعلاج سے خوف پیدا ہوجائے گا۔اس کے دور رس مضر اثرات ہوتے ہیں ۔
خلاصہ کلام:
یہ دنیا دارالعمل ہے۔یہاں مصائب و مشکلات کا زندہ دلی اورخوش دلی سے سامنا کرنا چاہئے۔کاورکسی بلندمقام اور عظیم مقصد کی تکمیل لئےسخت محنت و مشقت کرنالازم ہےکیونکہ کامیابی صرف تخیل کی بلندی سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے خلوص لگن ، جہد مسلسل اور عمل جاوداں کی ضرورت ہے۔جس میں لمحےبھر کی بھی کوتاہی نہیں کی جاسکتی اورکوتاہی وسستی خود اپنی ناکامی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔بقول اصغرگونڈوی
یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازوسمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post