ختمِ نبوت قرآن پاک کی روشنی میں

(میمونہ گورمانی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لانبی بعدہ وعلی الہ وصحبہ المعظمین عندہ رب انی اعوذبک من ھمزات الشیطن واعوذبک رب ان یحضرون

مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور پر نور محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ الہ وصحبہ وبارک وسلم افضل الاولین والآخرین ہیں۔ سید الخلق ہیں  اوّل الخلائق ہیں اور خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں۔

 ہر قسم کی نبوت آپ ﷺ پر ختم ہوجاتی ہے، آپ کے زمانے میں یا آپ کے بعد قیامت تک کوئی نیانبی نہیں آئے گا ۔ اللہ رب العزت  نے قرآن کریم میں حضور کے بعد مطلقاً نفی نبوت  فرمائی۔ احادیث متواترہ میں اسی کا بیان آیا۔ کہیں شریعت جدیدہ وغیرہ کی تخصیص نہ آئی۔ صحابہ کرام سے لے کر اب تک تمام امت مرحومہ اسی معنی ظاہر و متبادر و عموم واستغراق حقیقی کے نام پر اجماع کیا کہ حضور تمام انبیاء کے خاتم ہیں۔  اب جو بدبخت اپنے نبی ہونے  کا دعویٰ کرے اور جو بدبخت اس دعویٰ کو سچاتسلیم کرے یا جو اس مدعی نبوت کے کفر میں شک کرے ، یہ سب کے سب دائرہ اسلام سے خارج ہیں، یہ اسی سزا کے مستحق ہیں جو اسلام نے مرتد کے لیے مقرر فرمائی ہے۔

 اسلام کا یہ عقیدہ قطعی بنیادی اور یقینی ہے، ضروریاتِ دین سے ہے۔ قرآن و احادیث، اجماعِ امت کے دلائل اس پر قائم ہیں اور عقل کا بھی یہی تقاضا ہے۔

 ختم نبوت کو قرآن کی روشنی میں بیان کرنے سے پہلے میں آپ کو خاتم النبیین کا معنی وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہتی ہوں۔ اس معنی پر اجماع امت کے علاوہ لغت کی شہادت بھی قائم ہے۔

 الصحاح کے مصنف علامہ حماد بن اسمعیل الجوہری (م۳۹۳ھ) اور لسان العرب کے مؤلف "علامہ ابوالفضل جمال الدین محمد بن مکرم منظور  الافریقی مصری" (م۷۱۱ھ) جیسے اہلِ لغت نے یہی معنی بیان فرمائے ، ان اہلِ لغت پر تعصب یا ذاتی عقیدہ بیان کرنے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ کیونکہ انکار ختمِ نبوت  کے فتنہ سے بہت پہلے یہ حضرات معنی بیان کرچکے ہیں۔

صحاح میں ہے۔۔۔!

ختم اللہ لہ بخیر       خدا اس کا خاتمہ بالخیر کرے۔

ختمت القرآن بلغت آخرہ        میں قرآن مجید آخر تک پڑھ لیا۔

اختمت الشی، نقیض افتحتہ   افتتاح کی نقیض اختتام ہے۔

 الخامت والخاتم بکسر التاء وفتحھا والختام والختاتام کلہ بمعنی وخاتمۃ الشیء آخرہ

یعنی خاتَم، خاتم ، ختام، خاتام، سب کا ایک ہی معنی ہے ، اور کسی چیز کے آخر کو خاتمۃ الشی کہتے ہیں۔  حضور پُر نور ﷺ تمام نبیوں سے آخر میں تشریف لائے۔

لسان العرب میں ہے:

ختام الوادی: اقصاہ وختام القوم وخاتمھم ۔

آخرھم:

وادی کے آخری کو نہ کو ختام الوادی ککہتے ہیں۔

قوم کے آخری فرد کو ختام، خاتم اور خاتام کہاجاتاہے۔

 ومحمد ﷺ خاتم الانبیاء علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام (اسی مناسبت سے ) حضور پُر نور ﷺ کو خاتم الانبیاء فرمایاگیا۔

 تہذیب اللغۃ کے حوالے سے لسان العرب نے یوں لکھا :

والخاتِم والخاتم من اسماء النبی صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم  وفی التنزیل العزیز ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین ای آخرھم ومن اسمائہ العاقب ایضاً ومعناہ آخرالانبیاء۔

 خاتم حضور پُرنور محمد ﷺ کے اسماء گرامی میں سے ہے ، قرآن کریم میں ان کے بارے ارشاد ہوا۔

وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّنَ ط وَکَانَ اللّٰهُ بِکُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمَا  ؂[1]

ترجمۂ کنز الایمان: اللہ کے رسول ہیں او رسب نبیوں کے پچھلے ہیں اور اللہ سب کچھ جانتاہے۔

یعنی سب نبیوں سے پچھلا

اور حضور کے اسماء گرامی میں العاقب بھی ہے، اس کا معنی بھی آخر الانبیاء ہے۔

علامہ احمد بن علی المقری الغیوی (م ۷۷۰) کتاب المصباح المنیر فی الشرح الکبیر میں لکھتے ہیں۔ ختمت القرآن حفظت خاتمۃ وھی آخرہ۔

"میں نے قرآن کریم ختم کرلیا ہے"۔

اس کا معنی یہ ہے کہ میں نے آخرتک قرآن کریم حفظ کرلیاہے۔

 ان تمام اہل لغت کی تصریحات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خاتم کی تاء پر زبر ہو یا زیر ہو اُسے خاتَم  پڑھا جائے یا خاتِم  دونوں صورتوں میں اس  کا معنی "آخری" ہی ہے۔ اسی معنی کی تائید قرآن مجید کی ایک اور آیت میں ہے کہ:

 ارشاد ربانی: وَخِتَامُہٗ مِسۡکٌ  ؂[2]

وعاقبتہ مسک ای ھی طیبۃ البرجیح اب ریحھا فی آخر متربھم یختم لھا م برھم المسلک، ص ۱۳۲، ص

ترجمہ: اہل جنت کو جو مشروب پلایا جائے گا اس کے آخر میں انہیں کستوری کی خوشبو آئے گی۔ ؂[3]

 اہل لغت نے خاتم کا معنی مہر یا مہر لگانے والابھی کیا ہے، اس مہر یا مہر لگانے والے سے مراد کسی منصب دار یا ڈاک خانہ کی مہر نہیں کہ کسی درخواست پر لگائی یا لفافہ اور کارڈ پر لگائی اور مناسب کاروائی کے لیے آگے بھیج دی گئی ، اس مہر سے مراد وہ مہر ہے جس سے کسی چیز کو ختم یا بلند کیاجاتا ہو۔

لسان العرب میں ہے کہ: ختمہ یختمہ ختما وخِتاماً، طبعہ فھو مختوم ومختم شرد للمبالغۃ

یعنی ختم کا معنی مہر لگانا ہے اور جس پر مہر لگادی جائے اسے مختوم اور مبالغہ کے طور پر  کہا جاتاہے۔

مزید لکھا گیا ہے کہ

طبع اور ختم کا لغت میں ایک ہی معنی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی چیز کو اس طرح ڈھانپنا اور مضبوطی سے بند کردینا کہ اس میں باہر سے کسی چیز کا داخلہ ممکن ہی نہ ہو، زمانہ سلف میں خلفاء ، امراء اور سلاطین اپنے خطوط کو لکھنے کے بعد کسی کاغذ یا کپڑے کی تھیلی میں رکھ کر سربمہر کردیتے تھے تاکہ مہر کی صورت میں  اس میں کسی قسم کا ردّوبدل نہ ہو، اگرکوئی تغیر وتبدل کرنا چاہے گا تو پہلے مہر توڑے گا ، اور جب مہر توڑے گا پکڑاجائے گا اس پر احکام  سلطانی میں تغیر  و تبدل کرنے اور امانت  میں خیانت کرنے کا سنگین جرم عائد ہوگا۔ اس صورت میں خاتم النبیین  کا مطل یہ ہوگا کہ پہلے انبیاء کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ حضور پر نور ﷺ کی تشریف آوری سے یہ سلسلہ بند ہوگیا اب اس پر مہر لگادی گئی ہے تاکہ کوئی کذاب دجال دعویٰ نبوت کرکے سلسلہ انبیاء میں داخل نہ ہوسکے ، اگر کوئی کذاب و خائن اس زمرہ میں داخل ہونے کی کوشش کرے گا تو پہلے مہر نبوت کو توڑے گا ، اس طرح اللہ کی مہر کو توڑنے کی پاداش میں کذاب، خائن اور دجال بن کر جہنم کی آگ کا ایندھن بنے گا۔

 ختم اور طبع کے ایک ہی معنوں کی تائید قرآن مجید کی ان آیات سے ہوتی ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے دلوں پر مہر لگانے کا بیان فرمایا۔مثلاً ارشاد ربانی ہے۔

خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ ط وَعَلٰۤي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ز وَّلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ  ؂[4]

ترجمہ: اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر گھٹا ٹوپ  ہے۔ اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

کفار ضلالت اور گمراہی میں ایسے ڈوبے ہوئے ہیں کہ حق دیکھنے ، سننے، سمجھنے سے اس طرح محروم ہوگئے ہیں جیسے کسی کے دل اور کانوں پر مہر لگی ہو اورآنکھوں پر پردہ پڑا ہو اور حق ان کے دل ، آنکھ اور کان میں نہیں آسکتا ۔

علامہ ابن جریر طبری اس آیت کے معنی یوں لکھتے ہیں کہ:

(۱)  الختم طبع علی  الاوعین والظروف  ؂[5]

اللہ نے ان کے کانوں اور دلوں پر مہر لگادی ، پس ایمان ان میں داخل نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی کفر ان کے دلوں سے نکل سکتا ہے ، یہ ایسا ہی ہے جس طرح کسی برتن کا منہ بند کردیاجاتاہے، اس میں سے نہ نکالا جاسکتا ہے اور نہ ڈالا جاسکتاہے ، اس  صورت میں ختم النبیین کا معنی ہوگا کہ حضور پر نور ﷺ نبوت کی ایسی مہر ہیں کہ کوئی مدعی نبوت اب زمرہ انبیاء میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ نکالاجاسکتا ہے۔

 لغوی تحقیق کے بعد اکابر مفسرین کے چند اقوال ملاحظہ ہوں۔ اجلہ علمائے تفسیر  کا اس پر اجماع ہے کہ آیتِ مذکورہ میں خاتم النبیین  سے مراد آخری اور پچھلا نبی ہے۔

 امام المفسرین ابی جعفر محمد بن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

خاتم النبین ﷺ ختم النبوۃ  وطبع علیھا فلا یفتح لاحد بعدہ الی قیام الساعۃ   ؂[6]

خاتم النبیین وہ ذات ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ بند کردیا ہے، پس قیامت تک اب کسی کے لیے نہ کھولا جائے گا۔

امام جلیل عماد الدین الفداء اسمعیل بن  کثیر (م ۷۷۴ ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

فھذہ الایۃ نص فی انہ لانبی بعدہ واذا کان لانبی بعدہ فلا رسول  بعدہ بالطریق الاولیٰ والاخری۔ ؂[7]

یہ آیت اس بارے میں نص قطعی ہے کہ حضور پر نور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، جب آپ کے بعد کسی نبی کا آنا محال ہے تو کسی رسول کا آنا بطریق اولیٰ محال ہے۔

امام المحققین قاضی ناصر الدین ابوالخیر عبداللہ بن عمر بن شیرازی بیضاوی (م ۷۹۱ھ) آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ۔

آخرھم الذین ختمھم او ختموا بہ علی قراۃ عاصم بالفتح۔  ؂[8]

حضور پر نور ﷺ انبیاء میں سب سے آخری ہیں یا حضرت عاصم کی قراء ت کے مطابق تاء کی فتح کے ساتھ (خاتم) اس کا معنی ہوگا، آپ کے آنے سے بابِ نبوت ہمیشہ کے لیے بند کردیاگیا۔

عمدۃ المفسرین امام فخر الدین رازی، امام المحدثین امام احمد بن محلی شافعی، علامہ محمود آلوسی اور دیگر مفسرین نے اس آیت کا یہی معنی لکھاہے۔

قرآن مجید کی تفسیر خود قرآن کی آیات ہیں، اکثر آیاتِ کریمہ اکثر دیگر آیات کی تفسیر کرتی ہیں، اس سلسلہ میں آپ حضرات چند آیات گزشتہ سطور میں تلاوت کرچکے ہیں، جن سے صحیح معنوں میں واضح ہوگیا کہ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی ہی ہے ، اور "خاتم" یہ ایسی مہر ہے جب یہ لگ جائے تو اس چیز میں سے بغیر توڑے مہر کے نہ کچھ نکل سکتا اور نہ داخل ہوسکتاہے۔

قرآن مجید کی متعدد آیات کریمہ میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ سلسلہ نبوت حضور پر نور ﷺ پر ختم ہوچکاہے ، دین اسلام جو اللہ رب العزت کا پسندیدہ دین ہے وہ مکمل ہوچکا ہے اس کے بعد نئے نبی کے آنے کی ضرورت ہی نہیں ، اسی سلسلہ میں چند آیاتِ کریمہ کی تلاوت فرمائیے۔

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ط وَکَانَ اللّٰهُ بِکُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمَا  ؂[9]

ترجمہ کنز الایمان: "محمد  تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے"

اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ؂[10]

ترجمہ کنز الایمان: "آج میں نے تمہارے لیے تمہار دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔

اس آیتِ کریمہ نے واضح طور پر فرمادیا کہ دینِ اسلام اب مکمل ہوچکا ہے، اب مزید کسی قانون یا حکم کی ضرورت باقی نہیں، اب قیامت تک کے لیے یہی کافی ہے اس لیے اب قیامت تک نہ تو نئے نبی کی ضرورت ہے اور نہ ہی نئے دین کی۔

امام المفسرین  ابو جعفر محمد بن جریر طبری نے آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ:

فقال لہ النبی ﷺ ما یبکیک قال أبکانی انا کنا فی زیادۃ فاما اذا اکمل فانہ لم یکمل شیء الانقص۔ ؂[11]

آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر بن خطاب روپڑے تو آپ سے پوچھا گیا کہ رونے کی کیا وجہ ہے تو آپ نے فرمایا آج تک ہمارے دین میں قرآنی احکام کے ذریعے اضافہ ہوتا رہا، اب یہ جب دین ہی مکمل ہوگیا تو اب کیسے اضافہ ہوگا، جب کوئی چیز مکمل ہوجاتی ہے تو تکمیل کے بعد عموماً اس میں کمی ہی ہوتی ہے۔

 محدث جلیل مفسر کبیر حافظ عمادالدین ابوالفداء اسمعیل بن کثیر ( م ۷۷۴ھ) آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

"امت مرحومہ پر اللہ رب العزت کی یہ سب سے بڑی نعمت ہے اس نے اپنا دین ان کے لیے مکمل کردیا، اب ان کے علاوہ کسی نئے دین کی حاجت نہیں اور نہ ہی کسی نئے نبی کی، اسی بناء پر اللہ رب العزت نے حضور پر نور ﷺ کو تمام انبیاء کا خاتم بنایا۔ آپ ﷺ کی بعثت تمام انسانوں اورجنوں حتی کہ تمام مخلوقات کی طرف ہوئی ، آپ ﷺ نے جسے حلال ٹھہرالیا، وہ حلال اور جسے حرام ٹھہرالیا وہ حرام ہے، دین وہ ہے جو آپ ﷺ نے شروع کیا ، جس کی خبر آپ نے دی وہ سچ اور حق ہے ، اس میں نہ جھوت ہے اور نہ اس کا خلاف ہے۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضور پُر نور ﷺ سب رسولوں ، نبیوں کے بعد تشریف لائے آپ کے بعد اب نہ کسی نئے رسول کی ضرورت ہے اور نہ کسی نئے نبی کی ضرورت ہے۔

امام طبری ، علامہ بیضاوی اور عامہ مفسرین نے آیت کے یہی معنی لکھے ہیں۔

 وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّاکَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ  ؂[12]

ترجمہ کنزالایمان: اور اے محبوب ہم نے تم کو نہی بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا لیکن بہت لوگ نہیں جانتے۔

نبی رحمت رسولِ مکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بعثت تامہ عامہ شاملہ کا ملہ کا بیان ہے کہ آپ کی بعثت جن و انس ، اسود و احمر ، عرب و عجم، پہلوں ،پچھلوں سبھی کے لیے عامہ ہے ، تمام مخلوقات  آپ کے احاطہ رسالت میں شامل ہیں ، قیامت تک آپ ہی کی رسالت باقی رہے گی ، اس لیے اب کسی نئے نبی  رسول  اور دین کی بعثت ممکن نہیں، یہی خاتم النبیین کے معنی ہیں، ابن کثیر ، ابن جریر، بیضاوی، جلالین وغیرہ نے یہی معنی بتائے ہیں۔

َمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ  ؂[13]

ترجمہ کنزالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔

مومنوں ،جنوں ، انسانوں، حیوانوں، کافروں سبھی کو حضور پُرنور ﷺ کی رحمت شامل ہے، مومن کے لیے رحمت دنیا و  آخرت میں ہے ۔ کافر کو عذاب میں تاخیر سے اور مسخ ، خسف اور قذف کے اٹھادینے کی رحمت حاصل ہے، مفسرین نے بیان کیا اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آپ نہ بھیجا  مگر رحمت مطلقہ تامہ، کاملہ شاملہ جامعہ محیطہ بجمیع مقیدات، رحمت غیبیہ، وشہادت علمیہ وعینیہ و جودیہ و شہودیہ و سابقہ ولاحقہ وغیرہ ذالک تمام جہانوں کے لیے عالم ارواح ہوں یا عالم  اجسام ، ذی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول۔۔۔ اور جو تمام کے لیے رحمت ہوگا وہ سب کے لیے کافی ہوگا، ان کی ہدایت اسی سے وابستہ ہوگی، لہذا اس کے بعد کسی نئے نبی  یا رسول یا نبوت کے جاری ہونے کا امکان ثابت کرنا اس رحمت کاملہ شاملہ کا انکار کرناہے ۔ آیتِ مقدسہ نے حضور پُرنور ﷺ کی ختم نبوت پر بھی اشارہ کردیا ہے، علامہ ابن کثیر ، ابن جریر، بیضاوی، رازی اور عامہ مفسرین نے آیت کے یہی معنی لکھے ہیں۔

آثار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین

صحابہ کرام وہ مقدس حضرات ہیں جنہوں نے قرآن مجید نازل ہوتے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کتاب و حکمت کی تعلیم بغیر واسطہ کے حضور پُر نور ﷺ معلم کتاب و حکمت سے حاصل کی ، انہوں نے خاتم النبیین کا معنی سب نبیوں سے پچھلا نبی جانا سمجھا، مانا اور بیان کیا، محدثین اور مفسرین نے ان سے یہی معنی نقل کیا ہے ابن جریر، عبدالرزاق، عبدابن حمید، ابن المنذر ، ابن ابی حاتم، ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے جن صحابہ کی اس سلسلہ میں روایات نقل فرمائی ہیں ان کی تعداد ساٹھ تک پہنچتی ہے، علامہ جلال الدین عبدالرحمٰن سیوطی نے تفسیر درمنثور میں بڑی تفصیل سے روایات بیان کی ہیں، اختصار کے پیشِ نظر یہاں صرف ان صحابہ کرام کے اسمائے مبارکہ بیان کیے جاتے ہیں جنہوں نے خاتم النبیین کا معنی "سب سے آخر میں آنے والا نبی" بیان کیا ہے۔

۱۔ حضرت قتادہ   رضی اللہ عنہ                     ۲۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود  رضی اللہ عنہ

۳۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ   رضی اللہ عنہ            ۴۔ حضرت سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا

۵۔ حضرت   جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ           ۶۔ حضرت   ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

۷۔ حضرت ابوطفیل   رضی اللہ عنہ                     ۸۔ حضرت   ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

۹۔ حضرت  انس  رضی اللہ عنہ                           ۱۰۔ حضرت  عفان بن مسلم  رضی اللہ عنہ

۱۱۔ حضرت   ابومعاویہ رضی اللہ عنہ                   ۱۲۔ حضرت  جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ

۱۳۔ حضرت   عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ           ۱۴۔ حضرت   ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ

۱۵۔ حضرت   حذیفہ رضی اللہ عنہ                      ۱۶۔ حضرت   ثوبان رضی اللہ عنہ

۱۷۔ حضرت   عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ       ۱۸۔ حضرت   عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ

۱۹۔ حضرت   عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ               ۲۰۔ حضرت   سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

۲۱۔ حضرت   عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ      ۲۲۔ حضرت   عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ

۲۳۔ حضرت   ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ      ۲۴۔ حضرت  ام کرز رضی اللہ عنہا

۲۵۔ حضرت   عمر فاروق رضی اللہ عنہ                 ۲۶۔ حضرت   ابو حازم رضی اللہ عنہ

۲۷۔ حضرت  ابو امامہ الباھلی رضی اللہ عنہ         ۲۸۔ حضرت  سفینہ رضی اللہ عنہ

۲۹۔ حضرت   تمیم الداری رضی اللہ عنہ             ۳۰۔ حضرت  نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ

۳۱۔حضرت  عبید اللہ بن عمر اللیثی رضی اللہ عنہ   ۳۲۔ حضرت  نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ

۳۳۔ حضرت   ابن زمل الجہنی رضی اللہ عنہ         ۳۴۔ حضرت  ضحاک بن نوفل رضی اللہ عنہ

۳۵۔ حضرت  علی رضی اللہ عنہ                          ۳۶۔ حضرت  ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ

۳۷۔ حضرت معاذ   رضی اللہ عنہ                        ۳۸۔ حضرت   سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ

۳۹۔ حضرت   حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ           ۴۰۔ حضرت   اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا

۴۱۔ حضرت   زید بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ          ۴۲۔ حضرت عمر بن قیس  رضی اللہ عنہ

۴۳۔ حضرت  ابو قبیلہ  رضی اللہ عنہ                   ۴۴۔ حضرت   سلمان فارسی رضی اللہ عنہ

۴۵۔ حضرت عقیل بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ   ۴۶۔ حضرت   سلمان رضی اللہ عنہ

۴۷۔ حضرت   ابو الفضل رضی اللہ عنہ               ۴۸۔ حضرت   محمد بن حزم الاسفاری رضی اللہ عنہ

۴۹۔ حضرت   نافع رضی اللہ عنہ                         ۵۰۔ حضرت   عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ

۵۱۔ حضرت  عوف بن مالک رضی اللہ عنہ          ۵۲۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ

۵۳۔ حضرت  ابوبکر رضی اللہ عنہ                      ۵۴۔ حضرت  ابو قتادہ رضی اللہ عنہ

۵۵۔ حضرت  ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ       ۵۶۔ حضرت  عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ

۵۷۔ حضرت  ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ                  ۵۸۔ حضرت  براء بن عازب رضی اللہ عنہ

۵۹۔ حضرت   علقمہ بن مالک رضی اللہ عنہ

ختم نبوت کے اسی معنی کا بیان کرنے والے تابعین کی ایک جماعت بھی ہے ان میں چند اسماء گرامی ملاحظہ ہوں:

۱۔ حضرت امام محمد باقر   رضی اللہ عنہ                  ۲۔ حضرت سعد بن ثابت  رضی اللہ عنہ

۳۔ حضرت  ابن شہاب   رضی اللہ عنہ                 ۴۔ حضرت عامر شعبی رضی اللہ عنہا

۵۔ حضرت  عبداللہ بن ام الہذیل رضی اللہ عنہ  ۶۔ حضرت علاء بن زیاد رضی اللہ عنہ

۷۔ حضرت  مجاہد مکی   رضی اللہ عنہ                      ۸۔ حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ

۹۔ حضرت وہب بن منبہ  رضی اللہ عنہ               ۱۰۔ حضرت محمد بن کعب قرظی رضی اللہ عنہ

صحابہ کرامہ اور تابعین عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کی روایات اور دیگر تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو۔ جااللہ عدوہ بابانہ ختم النبوۃ

تصنیف لطیف امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ النوری

صحابہ کرام کی یہ مبارک جماعت جن میں خلفاء راشدین ، عشرہ مبشرہ اور کاتبانِ وحی بھی شامل ہیں اور تابعین عظام جن کی جلالت اور رفعت و عظمت پر زمین و آسمان کی گواہی موجود ہے ان کے اجماع اور گواہی سے یقین کامل اور مکمل ایمان حاصل ہوتا ہے یہ سب واضح بیانات سے حضور اکرم ﷺ کے " سب سے پچھلے نبی " ہونے کا اقرار کررہے ہیں ، ختم نبوت کے عقیدہ پر اگر کوئی اور دلیل نہ بھی ہو تی ہو بھی اس مقدس جماعت کا اجماع اور گواہی عمدہ دلیل ہے او ر یہ یقین و ایمان کے لیے کافی بیان ہے۔

والحمدللہ رب العالمین

مقالہ کا اختصار دامن کھینچ رہا ہے لیکن دلائلِ قرآنیہ کا اقتضاء یہ ہے کہ اس موضوع کو مزید دیگر آیات سے مزین کیا جائے ، اس صورت ِ حال کے پیش نظر چند مزید آیات کی تلاوت کیجئے اور ایمان کی جلاء کا سامان کیجئے۔

قُلْ ٰۤياَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْکُمْ جَمِيْعَانِ الَّذِيْ لَه، مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَا ۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُحْيٖ وَيُمِيْتُ ۔ ؂[14]

ترجمہ کنزلایمان:  تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کو ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں جلائے اور مارے۔

یہ آیت اس بارے میں  نص قطعی ہے  کہ حضور پُرنور ﷺ کی رسالت جمیع خلق کی طرف ہے ، آپ کی رسالت اسود، احمر، گزشتہ موجود اور آنے والے سبھی کو شامل ہے، اس لیے حضور کے زمانہ میں یا آپ کے بعد قیامت تک کسی نئے رسول کی ضرورت نہیں ، انہی معنوں کو مسلم شریف ، ابن کثیر، ابن جریر، بیضاوی، رازی وغیرہ اجلہ مفسرین نے بیان کیا ہے۔

تَبٰرَکَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَکُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَا  ؂[15]

ترجمہ کنزالایمان: بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اتار قرآن اپنے بندہ پر جو سارے جہان کو ڈر سنانے والا ہو۔
اس آیت میں حضور پُر نور ﷺ کی رسالت عامہ  کا بیان ہے کہ آپ تمام مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجے گئے ، جن ہو یا بشر  یا فرشتے یا دیگر مخلوقات ، آپ ماسواء اللہ کے نبی اور رسول ہیں ، جس طرح  آپ کے زمانے حیاتِ ظاہری کے انسانوں کے لیے ہے، بالکل اسی طرح آپ کی رسالت قیامت تک کے  لیے جمیع انسانوں کے لیے ہے۔ ان سب کے لیے آپ نبی ہیں، آپ کے بعد نئے نبی کا امکان نہیں ، آیت کے یہی معنی بیضاوی، رازی، ابن کثیر، ابن جریر، جلالین وغیرہ اکابرین مفسرین نے بیان فرمائے۔

؂[16]

 

ترجمہ کنزالایمان: میری طرف اس قرآن کی وحی ہوئی ہے کہ میں اس سے تمہیں ڈراؤں اور جن جن کو پہنچے۔

قرآن مجید کی آفاقیت سے کون انکار کرسکتاہے۔ یہ کتاب قیامت تک کے آنے والوں کے لیے سرچشمہ ہدایت ہے، اسی طرح حضور پُر نور ﷺ کی نبوت و رسالت قیامت تک آنے والوں کو عام اور شامل ہے آپ کے بعد کسی نئے نبی کا امکان نہیں۔

ختم نبوت احادیث کی روشنی میں:

 ختم نبوت کے معنی کی وضاحت کے لیے احادیث صحیحہ صریحہ کا ایک کثیر ذخیرہ ہے ، اس مقام پر سب کا بیان کرنا طوالت کا باعث ہوگا۔ یہاں چند احادیث آپ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں تاکہ دلوں کو حضور پُرنور ﷺ کے ارشاد سے اطمینان ہو۔ اللہ رب العزت اپنے حبیب کریم ﷺ کی برکت اوروسیلہ سے ہدایت نصیب فرمائے اور ہدایت پر استقامت عطافرمائے۔

 عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بنیانا حسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ  فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھلا وصنعت ھذ اللبنۃ قال فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین۔

ترجمہ: میری اور تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک محل نہایت عمدہ بنایا گیا اور اس میں اینٹ کی جگہ خالی رہی ، دیکھنے والے اس کے آس پاس پھرتے ہیں اور اس کی خوبی تعمیر سے تعجب کرتے ہیں ۔ مگر وہی ایک اینٹ کی جگہ نگاہوں میں کھٹکتی ہے ، میں نے تشریف لاکر وہ جگہ بند کردی، مجھ سے عمارت پوری کی گئی ، مجھ سے رسولوں کی انتہاء ہوئی ، میں عمارت نبوت کی وہ پچھلی اینٹ ہوں ، میں تمام کائنات کا خاتم ہوں ﷺ۔

حضور پُر نور ﷺ  نے کسی اعجاز سے ختم نبوت کا مفہوم واضح کیا جب ایک عمارت مکمل ہوجاتی ہے اس میں کوئی جگہ اینٹ لگانے کی خالی نہیں رہتی تو اس عمارت میں کوئی باہر سے بھی نئی اینٹ نہیں لگائی جاسکتی ، ہاں عمارت میں۔۔۔ پہلے سے لگی ہوئی اینٹ اکھاڑ دے اور نئی اینٹ  لگادے اس اکھاڑ پچھاڑ سے عمارت کا حسن ضائع ہوجائے گا، قصر نبوت  حضور کے آنے سے مکمل ہوگیا، اللہ رب العزت اس خوبصور عمارت میں تغیر وتبدل کیسے پسند فرمائے گا، اس حدیث کی جامعیت اور معنی خیزی کے ہوتے ہوئے ختم نبوت کے لیے کسی اور دلیل کی  ضرورت ہی نہیں رہتی۔

ان رسول اللہ ﷺ قال فضلت علی الانبیاء لبست اعطیت جوامع الکلم ونعدت بالدعب واحلت لی الغنائم وجعلت لی الارض مسجدا وطھورا وارسلت الی الخلق عافۃ وختم بی النبوۃ۔ ؂[17]

ترجمہ: میں تمام انبیاء پر چھ وجہ سے فضیلت دیا گیا ، مجھے جامع باتیں عطا ہوئیں اور مخلوق کے دلوں میں میرا رعب ڈالنے سے میری مدد کی گئی،  اور میرے لیے غنیمتیں حلال ہوئیں، اور میرے لیے زمین پاک کرنے والی اور نماز کی جگہ قراردی گئی اور میں تمام جہاں کا ماسوا اللہ کا رسول ہوا اور مجھ سے انبیاء ختم کیے گئے۔

عن النبی ﷺ  قال کانت بنو اسرائیل  تسوس مسلم الانبیاء علما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی۔ ؂[18]

ترجمہ:انبیاء بنی اسرائیل کی سیاست فرماتے تھے ، جب ایک نبی تشریف لے جاتا دوسرا اس کے بعد آتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ﷺ

قال رسول اللہ ﷺ ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی  ولانبی۔ ؂[19] ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بے شک رسالت و نبوت تحقیق منقطع ہوچکی ہے، میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی ہے۔

عن ثوبان  قال قال رسول اللہ ﷺ انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین لانبی بعدی۔ ؂[20]

ترجمہ: حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں تیس کذاب ہوں گے، جن میں ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں سب نبیوں کے بعد آیا ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

ختم نبوت کے بیان میں احادیث طیبہ کا ذخیرہ اتنا کثیر ہے کہ وہ درجہ تواتر کو پہنچ چکا ہے ، محدث جلیل مفسر کبیر ابن کثیر احادیث کثیرہ ذکرکرنے کے بعد لکھتے ہیں:

 وقد اخبر اللہ تعالیٰ تبارت وتعالیٰ  فی کتابہ و رسولہ ﷺ  فی السنۃ المتواترۃ عنہ انہ لانبی بعدہ لیعلموا ان کل من ادعی ھذا المقام بعدہ فھو کذاب دجال ضال مضل۔ ؂[21]

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول ﷺ نے سنت متواترہ میں بتایا کہ آپ کے بعد  کوئی نبی نہیں تاکہ ساری دنیا دیکھ سکے کہ جو شخص بھی حضور پُرنور ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ کذاب ہے، جھوٹاہے، دجال ہے، گمراہ ہے، اور دوسروں کو گمراہ کرنے والاہے۔ احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ خود حضور  پرنور ﷺ نے فرمایا:

﴿﴾․․․․․․میں عاقب ہوں، جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔

﴿﴾․․․․․․میں سب انبیاء میں آخری نبی ہوں۔

﴿﴾․․․․․․میں تمام انبیاء کے بعد آیا۔

﴿﴾․․․․․․ہم ہی پچھلے ہیں۔

﴿﴾․․․․․․میں سب نبیوں کے بعد بھیجا گیا۔

﴿﴾․․․․․․ قصر نبوت میں جو ایک اینٹ کی جگہ تھی وہ مجھ سے کامل کی گئی۔

﴿﴾․․․․․․ میں آخر الانبیاء ہوں۔

﴿﴾․․․․․․میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

﴿﴾․․․․․․رسالت و نبوت منقطع ہوگئی اب نہ کوئی رسول ہوگا نہ کوئی نبی۔

﴿﴾․․․․․․نبوت میں سے اب کچھ نہ رہا سوا اچھے خواب کے۔

﴿﴾․․․․․․ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ ہوتا۔

﴿﴾․․․․․․میرے بعد دجال کذاب ادعائے نبوت کریں گے۔

﴿﴾․․․․․․میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

﴿﴾․․․․․․نہ میری امت  کے بعد کوئی امت ۔

﴿﴾․․․․․․کتب سابقہ کے علماء اللہ رب العزت اور انبیائے سابقین کے ارشادات کی روشنی میں فرماتے ہیں۔

﴿۱﴾․․․․․․احمد ﷺ خاتم النبیین ہوں گے ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔

﴿۲﴾․․․․․․ان کے سوا کوئی نبی باقی نہیں۔

﴿۳﴾․․․․․․وہ آخر الانبیاء ہیں۔

﴿۴﴾․․․․․․ملائکہ مقربین اور انبیائے معظمین علیہم الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں وہ پیش پیغمبراں ہیں۔

 ﴿۵﴾․․․․․․وہ آخر مرسلاں ہیں۔

٭           خود رب العزت جل وعلا نے ارشاد فرمایا:

(۱) محمد ﷺ ہی اول و آخر ہیں۔

(۲)  اس کی امت مرتبے میں سب سے اگلی اور زمانے میں سب سے پچھلی۔

(۳) وہ سب انبیاء کے پیچھے آیا۔

(۴) اے محبوب میں نے تجھے آخر النبیین کیا۔

(۵)  اے محبوب میں نے تجھے سب انبیاء سے پہلے بنایاس اور سب کے بعد بھیجا۔

(۶) محمد آخر الانبیاء ہے۔ ﷺ

 تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔

جزاء اللہ عدوہ بابہ ختم النبوۃ،مصنفہ امام احمد رضا بریلوی، قدس سرہ

عقیدہ ختم نبوت و اسلاف دین

اللہ رب العزت اور اس کے رسول ﷺ  نے ان آیات و احادیث میں مطلقا نبوت کی نفی فرمائی ہے ، اگر کوئی مدعی نبوت  یہ دعویٰ کرے کہ میں نئی شریعت کے ساتھ نبوت کا دعویدار نہیں بلکہ شریعت محمدی کے ساتھ نبی ہوں تو  بھی دعوی جھوٹا ہی ہوگا۔ نیز یہ بات بھی صاف ہے خاتم النبیین آخر نبی ہے ، جیسا کہ حدیث "لانبی بعدی" اس پر دلالت  کرتی ہے، یہ لفظ متعدد متواتر حدیثوں میں وارث ہے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے لے کر اب تک پوری امتِ مسلمہ کا اسی مفہوم (آخری نبی ) پر اجماع  ہے اور اسی وجہ سے سلف سے خلف تک کے آئمہ دین نے حضور ﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت کو کافر کہا، ذیل میں ان کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں ، "امیر المؤمنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے محافظ ، ختم نبوت کا فریضہ انجام دیا ، اور عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کو روز روشن کی طرح نمایاں کردیا"۔

" خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک گوہ سے  حضور پُر نور ﷺ نے پوچھا میں کون ہوں؟ اس نے جواب دیا: " رب العالمین و خاتم النبیین ، قد افلح من صدقک وقد خاب من کذبک"۔ یعنی آپ رب العالمین کے رسول اور تمام نبیوں کے خاتم ہیں جس نے آپ کی تصدیق کی وہ کامیاب ہے اور جس نے انکار کیا وہ ناکام ہے۔ ؂[22]

"امام برحق حضرت علی علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ حضور ﷺ کے شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی ، کیونکہ وہ آخری نبی ہیں"۔ ؂[23]

دربار نبوت کے عظیم شاعر حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ بارگاہ  نبوت کیا خوب عرض کرتے ہیں:

اعد علیہ النبوۃ خاتم

من اللہ مشھود یلوح  ویشھد

نبی اتانا بعد یاس وفترۃ

من الرسل والاوثان فی الارض تعبد

تشریح: حضرت علامہ عبدالرحمن برقوتی لکھتے ہیں (پہلے شعر کے بارے میں) کہ" یہ حضور  پُر نورﷺ  کی عالی شان خصوصیت ہے کہ آپ آخری نبی بن کر آئے۔" ؂[24]

دوسرے شعر میں بھی شانِ ختم نبوت واضح ہے کیونکہ آپ وہ نبی محترم ہیں جو یاس اور فترت کے بعد آ ئے، (اس وقت روئے زمین پر بتوں کی عبادت کی جاتی تھی) آپ نے سب رسولوں کے آخر میں جلوہ گر ہو کر بتوں کو تباہ برباد کردیا ، فترت کی تاریک گھٹائیں کافور ہوئین اور یاس  کے بندھن توڑ دیئے۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کے اشعار محبت کا ترجمہ دیکھئے کہ " ہمارا بھی ایک سورج ہے اور دنیا والوں کا بھی لیکن ہمارا آفتاب رات کو طلوع ہوتاہے ہم سے پہلوں کے سورج ڈوب گئے ، لیکن ہمارا خورشید افق کمال پر ہمیشہ درخشاں رہے گا۔ اور غروب نہیں ہوگا"۔ ؂[25]

قرنوں بدلی رسولوں کی ہوتی رہی                                چاند بدلی کا نکلا ہمارا نبی

کیا خبر کتنے تارے کھلے چھپ گئے                               پر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبی

ختم نبوت عقلی دلائل کی روشنی میں

حضور پُرنور ﷺ کی بعثت عامہ جملہ اقوام عالم کےلیے ہے اور قیامت کے لیے ہے ، آپ پر نازل ہونے والی کتاب میں جملہ اقوام کے لیے قیامت تک کے لیے سامانِ ہدایت ہے یہ کتاب آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہے، کیونکہ اس کی حفاظت خود اس کے اتارنے والے نے اپنے ذمہ کرم پر لی ہے ، اور انشاء اللہ قیامت تک بغیر کسی ادنیٰ تبدیلی کے باقی رہے گی۔

ہر دور میں پیدا ہونے والے ہمہ قسم کے مسائل کا حل اس میں موجود ہے، اس مبین کتاب کے ہوتے ہوئے کسی نئے احکام یا کتاب  کی ضرورت باقی نہیں، جب کسی نئی کتاب کا آنا محال اور عبث ہے تو ظاہر ہے کہ کتاب کی کوئی نبی ہی لائے گا۔ جب نئی کتاب کا آنا محال اور عبث ٹھہرا تو نئے نبی کا آنا بھی محال اور عبث ٹھہرا۔

ماضی قریب میں قادیان کے مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کرکے قصرنبوت کے مکمل ہوجانے کے بعد اس میں نقب زنی کی انبیائے سابقین صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین کی ذواتِ مقدسہ کو اپنی ہذیانی کا نشانہ بنایا۔ ان کی شان میں توہین کی ، بے شمار دعوے کیے جن میں وہ جھوٹا نکلا۔ چشم افلاک نے اس کی ذلت و رسوائی پر گواہی دی۔ اپنے دعوؤں میں تبدیلی اور ترقی کرتا رہا، مجدد بنا ، مصلح بنا، مسیح بنا، مہدی بنا، ظلی و بروزی نبی بنا، غیر تشریعی بنا اور نبی بنا، اپنے انکار کرنے والوں کوگالیاں دیتا رہا، نحوست پھیلاتا  رہا، کافرکہتارہا۔ یہ سب کچھ سیاہ دل سفید فام اپنے حاکم و مالک انگریز کے ایما پر کرتا رہا۔ مسلمانوں میں انتشار پھیلاتا رہا، تاکہ ظالم و جابر  انگریز کی حکمرانی کا پنجہ مضبوط سے مضبوط ہوتارہے۔

اسلام میں آج بے شمار فرقے ہیں، سبھی ایک دوسرے کے نظریات کی تکفیر کرتے ، باہم آویزش کے باوجود مرزا قادیانی اور اسی طرح مرزا قادیانی کے ماننے والوں کی تکفیر میں متحد ہیں۔

جھوٹے مدعیانِ نوبت اور ان کی سرکوبی کرنے والے محافظین نبوت

مال و دولت ، اقتدار حکومت، عزت و وجاہت  اور ناموری و شہرت کی طلب و چاہت انسانی فطرت میں داخل ہے، ان چیزوں کے حصول کے لیے انسان وہ سب کام کر ڈالتا ہے ، جس کی اجازت نہ عقل دیتی ہے او رنہ دین، اس مقصد کے لیے جان ومال عزت وآبرو حتی کہ ایمان بھی داؤ پر لگادیاجاتاہے۔

دورِ رسالت سے اب تک  جھوٹے دعوائے نبوت کا یہ سلسلہ جاری ہے ابھی چند سال پہلے کی بات ہے اخبارات اور رسالوں میں خبر چھی کہ ندوہ کے پڑھے ہوئے مسیح الدین ندوی نامی ایک شخص نے حیدرآباد دکن میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور وہاں مخالفت ہوئی تو ناگپور میں آکر پناہ لی اور گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوا۔ تاریخ اسلام میں اس طرح کے بہت سے افراد ملیں گے جنہوں نے دعوائے نبوت کیا، ان میں بعض بہت مشہور ہوئے اور گمنام ہوگئے۔ بذریعہ وحی حضور پُر نور ﷺ کو معلوم تھا کہ بعض جھوٹے نبی پیدا ہوں گے لہذا ٓپ نے پہلے ہی ان لوگوں سے امت کو آگاہ فرمادیا۔

الحدیث:

بے شک میری امت میں تیس کذاب ہوں گے ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہے گا، جب کہ میں  آخری نبی ہوں ،میرے بعد کوئی نبی  نہیں "۔ ؂[26]

دورِ رسالت کے مشہور مدعیان نبوت مسیلمہ کذاب ، اسود عنسی، اور سجاح بنت حارث گزرے ہیں۔

 اسود عنسی: اس کا اصل نام علیہ تھا۔ عنس بن قد حج سے نسبت کی وجہ سے عنسی مشہور ہوا۔ اس نے اپنی چرب زبانی اور کہانت کے زور پر بہت سے ضعیف الاعتقاد لوگوں کو اپنا گرویدہ اور پیروکار  بنالیا۔ جب ان لوگوں پر اس نے پورا قابو پالیا تو نبوت کا دعویٰ کردیا او رکہنے لگا کہ مجھ پر خدا کی طرف سے وحی آتی ہے۔ جو فرشتہ وحی لاتا ہے وہ گدھے پر سوار ہوتاہے، اسی وجہ سے اسے "ذوالحمار" کہتے ہیں اس کی پیشگوئیوں سے متاخر لوگوں نے بلا لیت و لعل اسے نبی مان لیا۔

انجام: اس نے اپنے پیروکاروں کا لشکر تیار کرکے یمن کے دار السلطنت صنعا پر دھاوا بول دیا یہ دورِ رسالت  کی بات ہے اس وقت صنعاء پر حضور پُر نور ﷺ کے مقرر کردہ حضرت شہر بن باذان حاکم تھے، جو مقابلے میں شہید ہوگئے اور اسود صنعاء کا حاکم بن گیا، اور ان کی بیوہ مرزبانہ کو جبراً اپنے نکاح میں لے لیا۔ جب  حضور پُر نور ﷺ کو خبرہوئی  تو آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم کو جو یمن کے دیگر علاقوں کے حاکم تھے اس ملعون کی سرکوبی کے لیے متعین فرمایا۔

ان دونوں حضرات نے مرزبانہ سے رابطہ کرکے اسود عنسی کے قتل کے منصوبہ بنالیا ایک رات مرزبانہ نے اسود کو کافی مقدار میں شراب پلاکر مدہوش کردیا اور مرزبانہ کے چچا زاد بھائی حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے مکان میں نقب لگاکر اندر داخل ہوگئے اور ملعون کا کام تمام کردیا۔

 جب اذانِ فجر میں موذن نے ایک شہادت کا اضافہ کرکے "اشہد ان عیلۃ کذاب" کہا تو سب کو قتل کی اطلاع ہوگئی اور اس کے پیروکاروں میں بہت سے مارے گئے اور بہت سے مشرف بہ اسلام ہوگئے۔

رحلت سے ایک رات پہلے بذریعہ وحی الٰہی آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ آج رات اسود عنسی ماراگیا ہے اور ایک مردِ مبارک نے اسے ماراہے، اس کا نام فیروز ہے، پھر فرمایا فیروز کامیاب ہوگیا۔ رضی اللہ عنہ۔

مسیلمہ کذاب:

 اس کانام مسیلمہ بن ثمالہ تھا ، نو یا دس ہجری میں نجد کے ایک وفد بنو حنیفہ کے ساتھ یہ مدینہ آیا، اس کے سوا تمام ارکان وفد نے حاضرِ دربارِ رسالت ہو کر اسلام قبول کرلیا۔ مگر یہ محروم رہا۔ حضور پُر نور ﷺ نے اس کی قیام گاہ پر جا کر فرمایا:" اگر تو میرے بعد زندہ رہا تو حق تعالیٰ تجھے ہلاک فرمادے گا"۔

ایک دوسری روایت کے مطابق یہ بھی مسلمان ہوگیا تھا۔ مگر نجد جاکر مرتد ہوگیا اور نبوت کا دعویٰ بھی کردیا۔ شراب و زنا کو حلال کیا، نماز کی فرضیت ساقط کردی۔ یہ ایک بوڑھا اور انتہائی مکار انسان تھا۔ اس نے حضور پُر نور ﷺ کے نام ایک خط میں لکھا کہ زمین آدھی ہماری ہے اور آدھی قریش کی ، مگر قریش زیادتی کرتے ہیں۔ حضور پُر نور ﷺ نےا سے جواباً لکھا "اللہ کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے جھوٹے مسیلمہ کی طرف۔ اما بعد!کُل روئے زمین اللہ کی ہے ۔ وہ جسے چاہتاہے ، اس کا وارث بناتاہے، اور بھلی عاقبت پرہیز گاروں کے لیے ہے"۔

سرکوبی:

یہ حضور ﷺ کے ظاہری زمانے کے بعد بھی زندہ رہا، خلیفہ اول حضرت سیدنا اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ کے اجماع اور مشورے سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ۔۔۔۔۔ کے لشکر جرار سے مقابلہ کیا اور خدائی مدد سے اسے جہنم رسید کیا اس عظیم جہاد میں بارہ سو صحابہ و تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اٹھائیس ہزار منکرین ختم نبوت کو جہنم رسید کرکے جامِ شہادت نوش کیا، اس جہاد میں حفاظ صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد شہید ہوگئی جس کے نتیجے میں قرآن پاک کی حفاظت کی غرض سے اسے کتابی شکل دی گئی یہ سہرا یارانِ مزار حضرت صدیق اکبر اور حضر فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کے سر ہے۔

سجاح بنت حارثہ:

 ایک عورت تھی، جس نے بنی تقلب میں اپنی نبوت کا دعویٰ کیا ، چند ہوس پرست اس کے ہمنوا بن گئے۔ یہ مسیلمہ ہی کے دور کی ہے ، جھوٹے مدعی نبی نے جھوٹی مدعیہ نبوت کی مقبولیت سے خائف ہوکر مبارکباد اور تحفے بھیجے، اور ملاقات کرکے اس سے شادی بھی کرلی، مہر میں سجاح کے پیروکاروں کے لیے فجر اور عشاء کی نماز ساقط کردی گئی۔

اتنے میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا لشکر آپہنچا اور ان پر غالب آیا ایک روایت کے مطابق سجاح اور اس کے پیروں کاروں نے اسلام قبول کرلیا۔

طلحہ:

عہدِ نبوت کے بعد اس نے دعوائے نبوت کیا ، یہ قبیلہ بنی اسد سے تھا ، اس کی سرکوبی کا فریضہ بھی دورِ صدیقی میں حضرت خالد بن ولدی رضی اللہ کے ذریعے انجام پایا، قبیلہ فزار کے لوگ اس کے پیروکار تھے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ طے (ایک جگہ کانام ہے) میں پہنچے ، اور کوہ سلمی اور کوہ حاوا کے درمیان یہ لشکر ٹھہر گیا ، آس پاس کے مسلمان بھی لشکر کے ساتھ شامل ہوگئے اور سب نے ملکر طلحہ اور اس کے مکار حواری علینیہ بن حصین فزاری اور دیگر مزاریوں سے جنگ کی، مزاریوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور وہ اپنے سردار علینیہ سمیت اپنے جھوٹے نبی طلحہ کو بے یارو مددگار چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

انجام:

 طلحہ نے پہلے تو فرار کی راہ اختیار کی ، لیکن بعد میں امان لے کر حضرت خالدی بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوکر مسلمان ہوگیا حتی کہ جہادوں میں حصہ لیا، ایران کے محاذوں پر حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جہاد کیا اور دورِ فاروقی میں حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ نہاوند میں شرکت کی اور شہادت پاکر داخلِ جنت ہوا اور انجام بخیر ہوا۔

مختار ابن عبید ثقفی:

اس نے بھی نبوت کادعویٰ کیا تھا۔ اس کی سرکوبی حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمائی ، زمانہ خلاف راشدہ کے بعد بھی کچھ طالع آزماؤں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ارتداد  ودعوائے نبوت کی وجہ سے انہیں مسلم حکمرانوں اور اس عہد کے علماء و مشائخ نے انہیں خارج از اسلام قرار دینے کے ساتھ ساتھ گرفتار کرکے سزائے موت دی، حتی کہ بعض عرصے تک عبرت کے لیے سولی پر لٹکاکر رکھے گئے۔

عبدالملک بن مروان کے زمانے میں "حارث"  نام کے ایک شخص نے دعوائے نبوت کیا اور اپنے شرعی اور منطقی انجام کو پہنچا۔

ہارون رشید کے زمانے میں بھی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ میں نوح علیہ السلام ہوں، کیونکہ نوح علیہ السلام نے ۹۵۰ سال تبلیغ فرمائی ان کی اصل عمر ۱۰۵۰ سال تھی بعض تاریخی شہادتوں کے مطابق ۱۱۵۰ سال تھی۔

اسے بھی اس دور کے علماء سلف کے اتباع میں مرتد قرار دے کر قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے بھی سولی دی گئی۔ ؂[27]

 مرزا غلام احمد قادیانی:

 ۱۸۴۰ میں ہندوستان پنجاب کے مقام قادیان ضلع گورداسپور میں پیدا ہوا اس نے عربی و فارسی اپنے دور کے نامور اساتذہ سے سیکھی اور دین کی پوری تعلیم پائی نیز اپنے والد سے طب کی تعلیم بھی حاصل کی۔

 تقریبا ۲۴ سال کی عمر میں انگریزی حکومت کے ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے آفس کلرک کی حیثیت سے ملازمت شروع کیا اور اسی ملازمت کے ذریعے آج برطانیہ کا قرب حاصل کیا، چونکہ اس وقت ہندوستان میں انگریز سامراج نے مرزا کو اپنے مطلب کا آدمی پاکر انتشار بین المسلمین کے لیے اپنا آلہ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ، اور چند سال بعد کلرک کی نوکری چھڑوا کر مرزا کو اصل کام پر لگادیا ،ا سی دوران ۱۸۷۶؁ میں اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔

 باپ کی موت کے بعد ایک طرح سے مرزا بالکل آزاد ہوگیا اور اپنے اصل کام کی شروعات کرتے ہوئے  اس ن ےاپنے آپ کو ایک صلح کی حیثیت سے پیش کیا اور ۱۸۷۹؁ میں تصانیف کا سلسلہ شروع کیا، وہ عالمِ دین تو تھا ہی دوسری طرف انگریزی سرپرستی نے جلد ہی اسے ایک کامیاب اور مقبول واعظ و مصلح کی حیثیت سے مشہور کردیا، اور ایک اچھا خاصہ طبقہ کے اس کے زیر اثر ہوگیا۔

 اس ابتدائی  کامیابی کے بعد اس کا حوصلہ بلند ہوا اور آہستہ آہستہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت مختلف قسم کے دعوے کرنے شروع کردیئے۔ سب سے پہلے "محدود" ہونے کا دعویٰ کیا، ۱۸۸۲؁ میں دعویٰ کیا کہ اسے کثرت سے "الہامات" ہوتے ہیں۔ پھر ۱۸۸۸؁ میں "مہدی موعود" بنا پھر ترقی کرکے ۱۸۹۰ میں  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بکواس کی کہ نہ وہ زندہ ہیں نہ آسمان چہارم پر ہیں بلکہ فوت ہوچکے ہیں۔ اور ان کی قبر کشمیر میں ہے۔ اور وہ (مرزا) عیسیٰ مسیح کی مثل ہے۔

علماء وقت کی طرف سے مخالفت ہوئی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کھلی توہین پر اتر آیا اور ن کی شان اور ناموس پر ناقابل بیان حملے کیے اور اپنے آپ کو ان سے افضل بتایا۔(معاذ اللہ)

 میرے خیال میں نبوت کاد عویٰ ۱۹۰۲؁ میں کیا تھا ۔ ۱۹۰۱؁ میں مرزا ظلی، بروزی اور غیر تشریعی نبی اور پھر "اصلی نبی" ہونے کا دعویٰ کیا جس کے نتیجے میں اس کے ہم عصر علماء حق نے اس کا مقابلہ کیا۔

انجام :

 ۲۹ مئی ۱۹۰۸ کو اچانک قہر خداوندی کا شکار ہوا اور ہیضہ میں مبتلاہوکر لاہور میں بیت الخلا کے اندر جہنم رسید ہوگیا ، اور اس ملعون کا جنازہ کوڑا گاڑی میں چھپاکر مال گاڑی میں لادا گیا اور قادیان میں دفنایا گیا۔

مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعداء تیرے

نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا

مرزا غلام احمد قادیانی کے کچھ اور دعویٰ:

1.     مرزا نے خدائی کا دعویٰ کیا۔

2.      خداکے بیٹے ہونے کا دعویٰ کیا۔

3.     نومبر  ۱۸۰۴ میں وہ کرشن ہونے کا دعویٰ کیا۔

4.      ہندوؤں کے لیے "اوتار" ہونے کا دعویٰ کیا۔

5.     عیسی ابن مریم ہونے کادعویٰ کیا۔

6.      محمد ہونے کا دعویٰ کیا۔

7.      احمد ہونے کا دعویٰ کیا۔

8.     مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔

9.      محدث ہونے کادعویٰ کیا۔

10. مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔

مرزا کے کفریات:

مرزا قادیانی  کے کفریات برساتی کیڑوں کی طرح سینکڑوں کی تعداد میں اس کی کتاب میں رینگ رہے ہیں۔

ان کے ردو جواب کے لیے سہیل فلک عشق ومحبت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کے رسائل"ختم نبوت پر دشمن خدائی سزا اور قادیانی مرتد پر خدائی تلوار" وغیرہ کا مطالعہ کریں۔

قادیانیت ، اسلام کے مقابل ایک نیا دینی محاذ

مرزا غلام احمد قادیانی نے سچے محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابل جھوٹا نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔

جس  نے․․․․․․ اپنی تصانیف کو قرآن کے مقابل ایک دوسرا قرآن کہا۔

جس  نے․․․․․․  قادیان کو مسجدِ حرام کے مقابل ارضِ حرام قرار دیا۔

جس  نے․․․․․․  اپنی آبادی کو مکہ کے مقابل مکۃ المیسح بنایا۔

جس  نے․․․․․․  شہر لاہور کو مدینۃ الرسول کے مقابل ایک نیا مدینہ کہا۔

جس  نے․․․․․․  اپنے قبرستان کو خدا کی جنت کے مقابل میں مقبرہ جنت کا نام دیا۔

جس  نے․․․․․․ اپنی بیویون کو ازواج رسول کے مقابل امہات المؤمنین کہا۔

جس  نے․․․․․․  نے اپنے پیروکاروں کو امت رسول کے مقابل اپنی امت گردانا۔

جس  نے․․․․․․  اپنی بیٹی کو فاطمہ زہرہ کے مقابل جنتی عورتوں کی سردار کہا۔

جس  نے․․․․․․  ٹیچی کو جبریل کے مقابلے میں فرشتہ وحی بتایا۔

الغرض اس نے کفر و الحاد کی تمام حدیں عبور کیں، انبیاء واولیاء کی شان میں گستاخیاں اور بدزبانیاں کرکے ناصرف اپنے دنیاوی انجام کو برباد کیا بلکہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو کر آخرت بھی تباہ کی ۔

حیات مرزا قادیانی بقلم مرزا

بچپن کا نام اور کام:

والدہ صاحبہ نے فرمایا ایک دفعہ ایمہ چند بوڑھی عورتیں آئیں تو انہوں نے باتوں باتوں میں  کہا کہ سندھی ہمارے گاؤں میں چڑیاں پکڑاکرتاتھا والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے سمجھا کہ سندھی سے مراد کون ہے۔ آخر معلوم ہوا کہ ان کی مراد حضرت صاحب سے ہے ، والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ دستور ہے کسی منت ماننے کے نتیجے میں بعض لوگ خصوصا عورتیں ، اپنے کسی بچے کا عرف سندھی رکھ دیتی ہیں، چنانچہ اسی وجہ سے آپ کی والدہ اور بعض اور آپ کو بھی بچپن میں کبھی اس نام سے پکارلیتی تھیں۔ (۴/۱/باقی ہے) ؂[28]

ملازمت کا پس منظر ، جوانی کی مستی:

 بیان کیا کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے ایک مرتبہ اپنی جوانی کے زمانے میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پینشن وصول کرنے گئے توپیچھے مرزا امام دین بھی چلے گئے جب آپ نے پینشن وصول کرلی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا پھر جب آپ نے سارا روپیہ اڑاکر ختم کردیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلاگیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشاء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہوجائیں اس لیے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہوگئے۔ ؂[29]

چوزہ ذبح کرنے کا واقعہ:

 ایک مرتبہ گھر میں ایک مرغی کے چوزے ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئی ، اس وقت گھر میں کوئی اور یہ کام کرنے والا موجود نہیں تھا، اسی بناء پر حضرت (مرزا) صاحب اس چوزے کو ہاتھ میں لے کر ذبح کرنے لگے، مگر بجائے چوزے کی گردن پر چھری پھیرنے کے غلطی سے اپنی انگلی کاٹ ڈالی جس سے بہت خون بہہ گیا، اور آپ توبہ توبہ کرتے ہوئے چوزہ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے پھر وہ چوزی کسی اور نے ذبح کیا۔ ؂[30]

مختاری کے امتحان میں  ناکامی:

چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپنے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کردی اور قانون کا مطالعہ شروع کیا۔ پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے۔ ؂[31]

جرابیں پہننے کا طریقہ:

 جرابیں آپ سردیوں میں استعمال فرماتے اور ان پر مسح فرماتے بعض اوقات زیادہ سردی میں دودوجرابیں اوپر تلے چڑھالیتے مگر بارہا جراب اس طرح پہن لیتے کہ وہ پیر تک ٹھیک نہ چڑھتی کبھی تو سرا آگے لٹکتا رہتا اور کبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیر کی پشت پر آجاتی اور کبھی ایک جراب سیدھی اور دوسری الٹی ہوتی تھی۔ ؂[32]

کپڑوں کی حالت:

 کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کوٹ، صدری، ٹوپی ،عمامہ رات کو تکیہ کے نیچے ہی رکھ لیتے اور رات بھی تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو الگ جگہ کھونٹی پر ٹانگ دیتے تھے وہ بستر پر سر اور جسم کے نیچے ملتے جاتے، اور صبح کو ان کی ایسی حالت ہوجاتی کہ اگر کوئی فیشن کا دلداہ سوٹ اور سلوٹ کا دشمن ان کو دیکھ لے تو سر پیٹ لے ۔ ؂[33]

بوٹ کی پہچان:

 ایک مرتبہ ایک شخص نے بوٹ کا تحفہ دیا، آپ (مرزا صاحب) نے اس کی خاطر پہن لیا مگر اس کے دائیں بائیں کی شناخت نہ کرسکتے تھے، دایاں پاؤں بایاں پاؤں کے بوٹ میں اور بایاں پاؤں دائیں طرف کے بوٹ میں پہن لیتے ، آخر اس غلطی سے بچنے کے لیے ایک طرف کے بوٹ پر سیاہی سے نشان لگانا پڑا۔ ؂[34]

سر اورداڑھی  میں تیل:

 شیخ رحمت اللہ صاحب یا دیگر  احباب اچھے اچھے کپڑے کے کوٹ بنوا کر لایا کرتے تھے، حضور کبھی تیل سر مبارک میں لگاتے تو تیل والا ہاتھ سر مبارک اور داڑھی مبارک سے ہوتا ہوا بعض اوقات سینہ تک چلا جاتا جس سے قیمتی کوٹ پر دھبے پڑ جاتے۔  ؂[35]

جوتا پہننے کا انداز:

 نئی جوتی جب پاؤں کاٹتی تو جٹ ایڑی بٹھالیتے تھے اور اسی سبب سے سیر کرتے وقت گرد اڑاڑکرپنڈلیوں پر پڑجایاکرتی تھی۔ ؂[36]

سیر کا گردو گردوغبار:

 (دورانِ سیر ) راستے میں احباب کی کثرت کی وجہ سے اس قدر گرد اڑتی کہ سر اور منہ مٹی سے بھر جاتے ، حضور اکثر پگڑی کے شملہ کو بائیں جانب منہ کے آگے رکھ لیتے۔ ؂[37]

مریدوں کے جھرمٹ میں:

 آخری جلسہ سالانہ کے موقع پر جب آپ سیر کے لیے نکلے تو لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ لوگوں کے پیر لگنے کی وجہ سے آپ کی چھڑی گرجاتی اور کبھی آپ کی جوتی اتر جاتی۔  ؂[38]

عصا کی بازیابی:

 دعوے سے قبل کا ایک واقعہ ہے کہ حضور (مرزا صاحب) باغ میں تشریف لے گئے ساتھ چند اور بھی دوست تھے کسی نے ایک پھل دار درخت پر حضرت اقدس کا عصا مبارک پھینکا وہ عصا وہیں لٹک رہ گیا، دوستوں نے پتھروں اور ڈھیلوں سے ہر چند کوشش کی مگر وہ عصا نیچے نہ گرا میں (حافظ نبی بخش قادیانی) نوجوان لڑکا تھا میں اپنا تہبند کس کر درخت کے اوپر چڑھ گیا اور عصاء مبارک اتارلیا، حضرت اقدس کو اس سے بہت خوشی ہوئی ، بار بار فرماتے  میاں نبی  بخش نے تم بڑا کمال کیا، تم نے تو آج میرے والد صاحب کا سونٹا لاکر مجھے دیا ہے، باغ سے واپس لوٹے تو راستے میں جو ملے ان سے بھی ذکر کیا کہ میاں نبی بخش نے مجھے نیا سونٹا لا کر دیا ہے ، پھر مسجد میں آکر بھی اس شکر گزاری کا ذکر فرماتے رہے۔ ؂[39]

لاخذنا ہ بالیمین کا اظہار:

 ایک مرتبہ والد صاحب (مرزا آنجہانی ) اپنے چوبارے کی کھڑکی سے گرگئے ، اور دائیں بازو پر چوٹ آئی چنانچہ آخری عمر تک وہ ہاتھ کمزور رہا(بیان مرزا سلطان احمد) اس ہاتھ سے آپ لقمہ تو منہ تک لے جاسکتے تھے مگر پانی کا برتن وغیرہ منہ تک نہیں اٹھاسکتے ، خاکسار بشیر احمد عرض کرتاہے کہ نماز میں بھی آپ کو دایاں ہاتھ بائیں کے سہارے سنبھالنا پڑتا۔ ؂[40]

روزے ہضم:

حضرت مسیح موعود کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ اداکردیا، دوسرارمضان آیا تو آپ نے روزے رکھنے شروع کیے مگر نو روزے رکھے تھے پھر دورہ ہوا، اس لیے باقی چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کردیا، اس بار جو رمضا ن آیا تو آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے ترک کرنے پڑے، اور آپ نے فدیہ اداکردیا، اس کے بعد جو رمضان آیا تو آپ کا تیرھواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اورآپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا، اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپنے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل نہیں رکھ سکے۔

آنکھیں:

 مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا ہے کہ باہر مردوں میں بھی (مرزا) صاحب کی یہ عادت تھی کہ آپ کی آنکھیں نیم بند رہتی تھیں۔

ایک دفعہ حضرت مرزا صاحب مع چند خدام کے فوٹو کھینچوانے لگے فوٹو گرافر آپ سے عرض کرتاتھا کہ حضور آنکھیں کھول کر رکھیں ورنہ تصویر اچھی نہیں آئے گی اور آپ نے اس کے کہنے پر ایک مرتبہ تکلیف کے ساتھ آنکھوں کو کچھ زیادہ کھولا  بھی مگر وہ پھر اسی طرح نیم بند ہوگئیں۔

کمزور حافظہ:

 میرا حافظہ بہت خراب ہے اگر کئی مرتبہ کسی کی ملاقات ہو تب بھی بھول جاتاہوں یاددہانی عمدہ طریقہ سے حافظہ کی یہ ابتری ہے کہ بیان نہیں کرسکتا۔۔ ؂[41]

بٹن:

 اور بارہا ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگا ہوتا تھا۔ ؂[42]

کھانا:

 خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ چلتا ہے کہ ہم کیا کھارہے ہیں کہ جب کھانا کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجاتا۔ ؂[43]

ڈھیلے:

 آپ (مرزا آنجانی) کو شیرنی سے بہت پیار تھا ، اور مرض بول بھی آپ کو عرصہ سے لگی ہوئی ہے، اس زمانے میں آپ مٹی کے ڈھیلے بعض اوقات جیب میں ہی رکھتے تھے اسی جیب میں گڑ کے ڈھیلے بھی رکھ لیا کرتے تھے۔  ؂[44]

روٹی کا چورا:

 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب کھانا کھایا کرتے توبمشکل ایک پھلکا آپ کھایا کرتے تھے اور جب اٹھے توروٹی توڑتے اور اس کے ٹکڑوں کا بہت سا چورا آپ کے دامن سے نکلتا، آپ کی عادت تھی کہ روٹی توڑتے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے جاتے پھر کوئی ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیتے اور باقی ٹکڑے دسترخوان پر پڑے رہتے۔ ؂[45]

مرغوب غذائیں:

 حضرت مرزا صاحب اچھے تلے ہوئے پکوڑے پسند کرتے تھے ، کبھی بھی مجھ (میاں عبداللہ) سے منگوا کر مسجد میں ٹہلتے ٹہلتے کھایا کرتے تھے اور سالم مرغ کباب بھی پسند تھا، گوشت کی خوب بھنی ہوئی بوٹیاں بھی مرغوب تھیں۔ ؂[46]

مرزا قادیانی کے اکذاب وتناقضات

قسم ہے قادیان کے گلی اخوں کی ، گل عزاری کی کہ غلام احمد کی الماری پٹاری ہے مدای کی:

جھوٹ کے متعلق مرزا قادیانی کے اقوال:

 جھوٹ بولنے سے بدتر دنیا میں اور کوئی کام نہیں۔ ؂[47]

جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔ ؂[48]

 جھوٹ تکلف سے بولنا گوں کھاناہے۔ ؂[49]

جب کسی بات میں  جھوٹ ثابت ہوجائے تو پھر اس کی دوسری باتوں میں اعتبار نہیں رہتا۔  ؂[50]

مرزا قادیانی کے جھوٹ:

 ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔ ؂[51]

(تردید) حضور لاہور جاکر بیمار ہوگئے اور دستوں کی بیماری سے آخر مئی ۱۹۰۸ء میں اس دار فانی سے رحلت فرماگئے۔ ؂[52]

تبصرہ: کذاب کو اللہ نے اتنی مہلت ہی نہ دی کہ لیٹرین سے باہر کسی پاک جگہ پر جان دے ، مسلمانوں کا مکہ اور مدینہ تو معلوم، قادیانیوں کا مکہ اور مدینہ نہ معلوم کیا ہیں؟

خلیفہ کا جھوٹا انکشاف:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام  کا جو یہ الہام کہ ہم مکہ یا مدینہ میں مریں گے اس کے متعلق ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں نام قادیان کے ہیں مگر غیر متبایعن۔(لاہوری جماعت مدینہ ، لاہور کو اور مکہ قادیان کو قرار دیتے ہیں)  ؂[53]  

۲۔           گزشتہ کے کشوف نے اس بات پر مہر لگادی کہ وہ چودھویں صدی کے سر پیدا ہوگا اورنیز پنجاب میں ہوگا۔  ؂[54]

تبصرہ۔ قرآن مجید ، تفاسیر، ذخیرہ احادیث نیز عہد نامہ قدیم و جدید میں کہیں اس کا پتہ نہیں۔

۳۔ یاد رہے کہ قرآن مجید بلکہ تورات کے بعض صحیفوں میں یہ خبر موجود ہے کہ مسیح موعود کے وقت طاعون پڑے گا ، بلکہ حضرت مسیح موعود  علیہ السلام نے بھی انجیل میں خبر دی ہے اور ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیشین گوئیاں ٹل جائیں۔ ؂[55]

مسیح موعود کے وقت میں طاعون کا پڑنا باثیل کی ذیل کتابوں میں موجود ہے۔ ؂[56]

تبصرہ:وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰيٰتِهط اِنَّه لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۔

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ کَذِبًا َوَ قال اوحی الی ولم یوح الیہ شی

سب جھوٹ ہے قرآن میں یہ مضمون بالکل نہیں ہے۔

ھاتو برھانکم ان کنتم صادقین

زکریا ۱۴،۱۲ کی عبارت یوں ہے، خداوند یروشلم سے جنگ کرنے والی سب قوموں پر یہ عذاب نازل کرے گا کہ کھڑے کھڑے ان کا گوشت سوکھ جائے گا اور ان کی آنکھیں چشم خانوں میں گل جائیں گی اور ان کی زبان ان کے منہ میں سڑ جائے گی۔

انجیل متی، ۲۴،۸ میں یوں ہے۔

لیکن یہ سب باتیں مصیبتوں کا شروع ہی ہوں گی۔

مکاشفہ یوحنا ۸۔۲۲ کی عبارت یہ ہے:

 میں وہی پوجتا ہوں جو ان باتوں کو سنتا اور دیکھتا تھا۔

اور جب میں نے سنا اور دیکھا تو جس فرشتے نے مجھے یہ باتیں دکھائیں میں اس کے پاؤں پر سجدہ کرنے کو گرا۔

غلط بیانی اور بہتان طرازی نہایت شریر اور بدذات آدمیوں کا کام ہے ۔ ؂[57]

۲۔ اگر میں جھوٹا نکلوں تو تما م شیطانوں بدکاروں  اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔  ؂[58]

۳۔ جس دین میں نبوت کا سلسلہ نہ ہو وہ مردہ ہے، یہودیوں ، عیسائیوں اور ہندوؤں کے دین کو مردہ اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں اب کوئی نبی نہیں ہوتا اگر اسلام کا بھی یہی حال تھا تو ہم قصہ گو ٹھہرے پھر  پھر یہ امت خیر الامم کس وجہ سے ہوئی شر الامم ہوئی۔  ؂[59]

 یہی مضمون بہ تغیر الفاظ کشتی نوح ۴۴ قدیم، ص ۶۵، جدید حقیقۃ النبوۃ مصنف میاں محمود احمد ص، ۲۷۲، ضمیمہ براہین احمدی، ۱۸۳،۱۳۹،۳۷ پر بھی ہے۔

تردید: اس میں نبی کا نام پانے کے لیے میں مخصوص کیا گیا ہوں اور کوئی نبی کا نام پانے کا مستحق نہیں۔ ؂[60]

تبصرہ : پہلے اقتباس میں سلسلہ نبوت کو جاری رہنے کو امت کے خیر الامم ہونے کے لیے لازمی قرار  دیاگیا اور دوسرے اقتباس میں نبوت کا اثبات پوری امت میں صرف اپنے لیے کیا۔ (تردید مرزامیاں محمود خلیفہ)

 انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا کے خزانے ختم ہوگئے ۔۔ان کا یہ سمجھنا خدا تعالیٰ کی قدر کو ہی نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے ورنہ ایک نبی کیا ہزاروں نبی ہوں گے۔  ؂[61]

۵۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا یعنی وہ میں ہی ہوں۔ ؂[62]

قد جاواں ، عیسی علیہ السلام بعد بعثہ فی الارض یحج و یعود ویموت بین المکۃ والمدینۃ فیحمل الی المدینۃ فیدفن فی الحضرۃ الشریفۃ۔ ؂[63]

عیسیٰ علیہ السلام یقینا وہی دفن ہوں گے لیکن مرزا قادیان میں دفن ہوا۔

اعلیٰ حضر ت پیر سید مہر علی گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے حدیث کے آخر میں وہ (حاجا) اور معتمد و یضن علی قبری ویسلمن علی ردن علیہ موجود ہے۔

 اور ہم پیشین گوئی کرتے ہیں کہ میدنے منورہ زادھا اللہ شرفا میں حاضر ہوکر سلام عرض کرنے کی اور جواب سلام شرف کی نعمت قادیانی کوکبھی نصیب نہ ہوگی۔ ؂[64]

 ۶۔ اگر قرآن نے میرا نام ابن مریم نہیں رکھا تو میں جھوٹاہوں۔ ؂[65]

تبصرہ: مرزا آنجہانی کے سارے امتی مل کر ایک آیت کی نشاندہی کردیں جس میں اس کا نام ابن مریم رکھا گیا۔

فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ اعددت للکفرین۔

قیامت تک اس آیت کی نشاندہی نہ کرسکیں گے ۔ ولوکان بعضھم لبعض ظھیرا

۱۔ بات یہ ہے کہ جیسا کہ مجدد سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ (اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے) لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ و مخاطب سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کیے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے۔ ؂[66]

تبصرہ: ویل لکل افاک اثیم

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز کے مکتوبات شریف سے حوالہ نقل کرتے ہوئے صریح تحریف  فے کام لیا ہے کہ تاکہ خانہ ساز نبوت کو چھوٹا سہارا مل سکے، آپ رحمۃکے اصل الفاظ یہ ہیں۔

اذا کثر ھذا القسم من الکلام مع واحد منھم سمی محدثا ؂[67]

اس عبارت کو مرزا نے ازالہ، اوہام ،ص ۹۱۵، میں  اور تحفہ بغداد ص ۱۲،۳۰) اور براہین احمدیہ حصہ ۴، ص ۳۴۶) میں نقل کیا ، اور درست نقل کیا ہے ۔ لیکن یہاں نقل میں زبردست خیانت کی ہے، الا لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔

۸۔ اے عزیزو تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا ہے جس کے دیکھنے کے لیے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی۔ ؂[68]

تبصرہ:

سبحانک ھذا بھتان عظیم۔

۹۔ موسیٰ وہ مرد خدا ہے جس کی نسبت قرآن میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے اور ہم پر فرض ہوگیا ہے کہ ہم اس بات پر ایمان لائیں کہ وہ زندہ آسمان میں موجود ہے اور ہرگز نہیں مرا اور مردوں سے نہیں ہے۔ ؂[69]

تبصرہ: قرآن پر بہتان ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کی حیات ثاب ہے کی حیات کا منکر ہے اور حیات موسیٰ علیہ السلام کا قائل ہے۔

 مرزا غلام احمد قادیانی کے چند کفریات

ختم  نبوت کے قرآنی ایقانی ایمانی ، اجماعی عقیدے کا صریح انکار کرکے مرزا غلام احمد قادیانی دائرہ اسلام سے نکل گیا، اسی طرح اس کو ماننے والے بھی اس کے حکم میں داخل ہوئے ، ان کے کفر کے لیے صرف اتنی ہی بات کافی تھی مگر جب ہم مرزا کی کتابوں کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جگہ جگہ حشرات الارض کی طرح کفری کلمات  اس کی  تعلیمات کاحصہ ہیں، ان کے شمار کے لیے ایک ضخیم دفتر درکار ہے، اس مختصر تحریر میں میں اس کے چند کفریہ کلمات کی نشاندہی کرتی ہوں، مرزا کی کفری عبارت کولکھتے ہوئے میں ایک ناگواری سی محسوس کرتی ہوں ، مگر اظہار حقیقت کے لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوں۔

 مرزا نے اپنی کتابوں میں جو کفری عبارت لکھیں اور جو ان کے نظریات کاحصہ ہیں میں ان کو وضاحت کے لیے چند عنوانات کے تحت بیان کروں گی، مثلاً

اللہ رب العزت کی مقدس ذات کی توہین

۱۔ حضور پُر نور ﷺ کی شان میں گستاخیاں

۲۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی شان میں گستاخیاں۔

۳۔ بالخصوص سیدنا عیسیٰ بن مریم اور ا ن کی والدہ ماجدہ مطہرہ سیدہ مریم کی شان میں صریح گالیاں اور گستاخیاں۔

۴۔ صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کی شان میں نازیبا الفاظ کا استعمال۔

۵۔ عام مومنین کے بارے میں یہ کفریہ کلمات اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں۔

اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میں ہرعنوان کے تحت مرزا غلام احمد کی کتابوں سے چند کفریہ کلمات درج کرتی ہوں، پڑھتے جائیے اور توبہ استغفار پڑھتے جائیے تاکہ ایمان محفوظ رہے، بہتر یہ ہے کہ ہر عبارت کے اختتام پر استغفراللہ پڑھ لیجئے۔

اللہ رب العزت کی ذات مقدس کی توہین:

 مرزا قادیانی رب العالمین کا تصور عجیب انداز میں پیش کرتے ہوئے لکھتاہے۔

قیوم العالمین (خدا تعالیٰ) ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے بے شمار ہاتھ ، بے شمار پیر، اور ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج ہے اور لاانتہا عرض وطول رکھتا ہے  اور تییند وے کی تاریں بھی ہیں جو اس صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں اور کشش کا کام دے رہی ہیں۔ ؂[70]

"اللہ رب العزت واجب الوجود ہے وہ ذات واقعی سب سے اعظم ہے مگر وہ انسانی اعضاء کی طرح کے اعضاء سے پاک اور منزہ ہے یہ انسانی اعضاء تو فنا کی علامت ہیں ؟ کیا اللہ تعالیٰ کو بھی فنا مانتے ہو؟ (استغفراللہ)

بقول مرزا غلام احمد کو ان کے خدانے وحی میں کہا:

 انی مع الرسول اجیب اخطی واصیب۔

 میں رسول کے ساتھ جواب دوں گا، کبھی خطا کروں گا اور کبھی درست بات کہوں گا۔  ؂[71]

اس عبارت کے فٹ نوٹ میں مرزا نے اس کی تشریح یوں کی " اس وحی الٰہی کے ظاہری الفاظ یہ معنی رکھتے ہیں کہ میں (خدا تعالیٰ) خطابھی کروں گا اور صواب بھی، یعنی میں جو چاہوں گا کبھی کروں  گااور کبھی نہین ، اور کبھی میرا اراد ہ پورا ہوگا اور کبھی نہیں، کبھی میرا ارادہ خطاہوجاتا ہے اور کبھی پورا ہوجاتاہے"۔ ؂[72]

ہمارا اہلسنت و جماعت کا اللہ تعالیٰ کے بارے میں وہی عقیدہ ہے جو قرآن نے بیان فرمایا ہے:

ومن اصدق من اللہ قیلا۔

اللہ کے کلام سے بڑھ کر کس کا کلام سچاہے۔

 فعال لما یرید۔ اللہ جو چاہتا ہے وہ ہو کر رہتاہے۔

 کبھی ایسانہ ہوا کہ اللہ کا چاہا ہوا پورا نہ ہوا ہو۔ اس کی منشاء کے خلاف واقع ہوا ہو ، ایسا ہونا محال ذات ہے۔

مرزا نے رب ذوالجلال والاکرام کو چوروں سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھا:

 "تم اس خدا سے ڈرو جس نے میرے لیے یہ سب کچھ کردکھایا وہ جس کے قبضے میں ذرہ ذرہ ہے، اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے ، وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا۔ ؂[73]

 اسی طرح مرزا قادیانی نے بے مثل  و بے مثال رب تعالیٰ کو انسان (انگریز) سے تشبیہ دی۔

"ایک مرتبہ کی حالت یاد آئی کہ انگریزی میں اول یہ الہا م ہوا۔

I love You(یعنی میں تم سے محبت کرتاہوں)

 پھر یہ الہام ہوا  I am with you

یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں، پھر یہ الہام ہوا۔ I shall help you

یعنی میں تمہاری مدد کروں گا۔ پھر یہ الہام ہوا  I can do what I want

یعنی میں کرسکتا ہوں جو میں چاہوں گا، پھر اس کے بعد بہت ہی زور سے ، جس سے یہ بدن کانپ گیا یہ الہام ہوا۔we can want we will do

یعنی ہم کرسکتے ہیں جو ہم چاہیں گے ، اور اس وقت ایک ایسا لہجہ اور تلفظ معلوم ہوا کہ گویا ایک انگریز ہے جو سرپر کھڑا ہو ابول رہا ہے۔ ؂[74]

پنجابی نبی کو انگریزی میں ایسی متعدد شیطانی وحیاں ہوئیں۔

قرآن و حدیث کی توہین:

قرآن کریم رب کائنات کا لازوال کلام ہے ، جو وحی کی صورت میں حضور پُرنور  ﷺ کی زبان پر جاری ہوا، مگر مرزا قادیانی لکھتا ہے۔

"قرآن کریم خداکی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں" ؂[75]

نیز قرآن مجید کے بارے میں لکھا گیا۔

"قرآ ن آسمان پر اٹھالیا گیا تھا جسے ایک مرد فارسی الاصل (مرزا قادیانی ) زمین پر اتار لایا" ؂[76]

خود مرزا نے اپنے آپ کو قرآن کی مانند قرار دیا۔

مالنا الاکالقرآن۔ میں تو بس قرآن  ہی کی طرح ہوں۔ ؂[77]

مرزا جی اپنے شیطانی الہامات کو قرآن کریم کی طرح یقینی بتاتا۔

"میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتاہوں میں ان الہامات پر اس طرح ایمان لاتاہوں جیسا کہ قرآن کریم پر ، اور خدا کی دوسری کتابوں پر ، اور جس میں قرآن کریم کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتاہوں ، اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتاہے ، خدا کاکلام یقینی کرتاہوں۔ ؂[78]

 قرآن کریم پر افترا کرتے ہوئے مرزا جی لکھتے ہیں:

 "اب اس رسالے کی تحریر کے وقت میرے پر یہ منکشف ہوا کہ جو کچھ براہین احمدیہ میں قادیان کے بارے میں کشفی طور پر میں نے لکھا یعنی  یہ کہ اس قادیان کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے، درحقیقت یہ صحیح بات ہے۔۔۔۔پس کچھ شک نہیں جو قرآن کریم میں قادیان کا ذکر ہے ۔ ؂[79]

قرآن کریم پر یاک افترا باندھتے ہوئے مرزا نے لکھا:

 " یہ بھی یاد رہے کہ قرآن کریم میں بلکہ توریت کے بعض صحیفوں میں بھی یہ خبر موجود ہے کہ مسیح موعود کے وقت طاعون پڑے گا" ؂[80]

 احادیث نبویہ علی صاحبہا افضل الصلوٰۃ و اکمل التسلیمات کی جابجا توہین کی اور ان کو ردی کی ٹوکری کا مال بتایا۔ مرزا قادیانی کے اپنے الفاظ پڑھیے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب کہتے ہیں کہ  آپ کو مسیح موعود کی پیش گوئیوں کا خیال کیوں دل میں آیا ۔ آخر وہ حدیثوں سے ہی لیا گیا۔ پھر حدیثوں کی اور علامات کیوں قبول نہیں کی جاتیں۔ یہ سادہ لوح تو افترا سے ایسا کہتے ہیں، اور یا محض حمات سے  اور ہم اس کے جواب میں خدا تعالیٰ  کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں ہے بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو میر ے پر نازل ہوئی ہے ، ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں، اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردّی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ ؂[81]

 ۳۔ حضور خاتم النبیین ﷺ کی شان مقدس کی تکذیب اور توہین

مرزا قادیانی نے عقیدہ ختم نبوت کا انکار کیا اور اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا خود لکھتاہے۔

"خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس عاجز کا نام امتی بھی رکھا اور نبی بھی۔ ؂[82]

 قرآن کریم میں جو آیات مقدسہ حضور پُرنور ﷺ کی شان میں نازل ہوئیں ،مرزا قادیانی نے انہیں اپنے اوپر جمالیا چنانچہ لکھتاہے۔

وماارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔

"تم کو تمام جہاں کی رحمت کے واسطے روانہ کیا۔ ؂[83]

نیز آیہ کریمہ "ومبشر ا برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد" سے اپنی ذات مراد لیتاہے۔

مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو اللہ کی اولاد کی جگہ ٹھہرایا ، لکھتاہے:

مجھ کو اللہ تعالیٰ فرماتاہے وانت منی بمنزلۃ اولادی انت منی وانامنک۔ یعنی اے غلام احمد تو میری اولاد کی جگہ ہے تو مجھ سے اور میں تجھ سے۔  ؂[84]

حضور پُر نور  ﷺ کی وحی اور الہام کو مرزا قادیانی غلط بناتا ہے لکھتاہے۔

"حضرت  رسولِ خدا ﷺ کے الہام ووحی غلط نکلی تھیں، ؂[85]

ایسا ہی دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی پیش گوئیوں کو غلط بتایا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لکھتا ہے ۔

"حضرت موسیٰ کی پیش گوئیاں بھی اس صور ت پر ظہور پذیر نہیں ہوئیں جس صورت پر حضرت موسیٰ نے اپنے دل میں امید باندھی تھی۔

یہ زالہ اوہام کی عبارت نہیں ہے۔  ؂[86]

حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم  السلام کی گستاخیاں کرکے  مرزا کا جی نہیں بھرا ، ترقی کرکے چار سو انبیاءکرام علیہم السلام کی شان میں بکتاہے۔

وہ بادشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اس کے فسخ کے بارے میں پیش گوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے (نعوذباللہ) اور بادشاہ کو شکست ہوئی بلکہ وہ اسی میدا ن میں مرگیا۔ ؂[87]

 قرآن کریم ، جس نے بہترین اخلاقی تعلیم بھی دی ، اس کے متعلق مرزا لکھتا ہے کہ اس میں گندی گالیاں بھری ہیں۔

قرآن کریم میں گندی گالیاں بھری ہیں اور قراآن عظیم سخت زبان کے طریق کو استعمال کررہاہے۔ ؂[88]

رسول معظم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا انکار اور قرآن پر صریح اعتراض کرتے ہوئے مرزا قادیانی لکھتاہے:

۱۔ یہود  تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں اور ان کی  پیشگوئیوں کے بارے میں ایسے قوی اعتراض رکھتے ہیں کہ ہم بھی جواب میں حیران ہیں بغیر ا س کے کہ یہ کہہ دیں کہ ضرور عیسیٰ نبی تھے، کیونکہ قرآ نے اس کو نبی قرار دے دیاہے اور کوئی دلیل ان کی نبوت پر قائم نہیں ہوسکتی ، بلکہ ابطال نبوت پر کئی دلائل قائم ہیں۔  ؂[89]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مرزا قادیانی نے اپنے آپ  کو فضیلت دی لکھتاہے۔

مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگرمسیح ابن مریم  میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کلام جو میں کرسکتا ہوں وہ ہر گز نہ کرسکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہورہے ہیں وہ ہر گز کھلا نہ سکتا۔  ؂[90]

ایک اور موقع پر ایسا ہی دعویٰ کیا۔

ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو

اس سے بہتر غلام احمد ہے۔ ؂[91]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پاکباز ی اور عصمت کا ردکرتے ہوئے نہایت قبیح انداز میں آپ اور آپ کے آباء واجداد پر تعریض کرتاہے۔

آپ کا (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے، ورنہ کوئی پرہیز گار انسان ایک جوان ناپاک ہاتھ لگائے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اوراپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے، سمجھنے والے یہ سمجھ لیں کہ ایساانسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔  ؂[92]

مرزا قادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے مقدس اور برگزیدہ رسول پر نہایت سخت حملے کیے ، مثلا انہیں شریر ، مکار ، بد عقل، ،فحش گو، بد زبان، جھوٹا ، چور ، خلل دماغ والا، بد قسمت، نرا فریبی، پیر و شیطان وغیرہ تک لکھا ، حد یہ کہ آپ پرایسا ناپاک الزام لگایا جو کسی (عقلمند) انسان کو قطعاً زیب نہیں دیتا، اپنی عاقبت خراب کرتے ہوئے مرزا قادیانی لکھتاہے۔

آپ کا خاندان بھی نہایت پاک و مظہر ہے تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکاری اور کسبی عورتیں تھیں، جن کے خون سے آپ کا وجود ہوا۔  ؂[93]

غرض اس دجال قادیانی کے کفری عقائد کہاں تک گنائے جائیں اس کے لیے تو کئی دفتر چاہئے، مسلمان ان چند خرافات سے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں، مرزا قادیانی نے خدا تعالیٰ، قرآن مجید ، حضور خاتم الانبیاء، دیگر انبیاء علیہم السلام بالخصوص سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر کیسے ناپاک الزامات لگاکر کفر کی اپنے نام رجسٹری کرالی۔

تعجب ہے ان مسلمانوں پر ، جو مرزا قادیانی کے کفری عقائد پر مطلع ہو کر پھر بھی انہیں مسلمان جانتے ہیں ، مسلمانوں کو چاہیے کہ مرزائیوں کے ان عقائد سے بیزاری کا اعلان کریں ، مرزائیوں کو مسلمانوں سے الگ دھرم میں شمار کریں اور ان سے دور رہیں۔

کافر مسجد کا متولی نہیں رہ سکتا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ وکفی والصلوٰۃ والسلام علی حبیبہ المصطفیٰ وعلی الہ واصحابہ واتباعہ الی یوم الجزا۔

مسجد کے لغوی معنی ہیں سجدے کی جگہ:

پہلی امتوں کے لیے لازم تھا کہ وہ معروف متعین جگہوں پر ہی عبادت کیا کریں، معروف عبادت گاہوں کے علاوہ کسی اور جگہ عبادت کرنا ان کے لیے جائز نہ تھا۔ سید الانبیاء رحمت للعالمین کے تصدق سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو خصوصیت اور اجازت عطافرمائی کہ روئے زمین کی ہر پاک اور عبادت کے لائق جگہ پر نماز پڑھ لیں۔

فقہی اصطلاح میں مسجد اس جگہ کو کہتے ہیں جس کو کسی مسلمان نے اپنی ملک سے الگ کرکے مسلمانوں کے لیے عبادت کو وقف کردیا اور عبادت کے لیے اذن عام کردیا ہو۔ جو جگہ ایک بار مسجد  قرار پاجائے قیامت تک  مسجد ہی رہتی ہے اس جگہ کی عمارت تعمیر کرنا ، اس میں محراب ، مینار اور منبر وغیرہ بناکر اسلامی تشخص قائم کرنا سنت متوارثہ اور مسلمانوں کی روایت قدیمہ ہے۔

تعمیر مسجد ایک جامع کلمہ ہے اس میں درج ذیل امور شامل ہیں۔

مسجد  کی عمارت بنانا۔

مسجد میں اضافہ کرنا۔

مسجد کو توسیع دینا۔

مسجد کی مرمت کرنا۔

اس میں چٹائیاں ، فرش فروش، دریاں ،قالین وغیرہ بچھانا ، دیواروں پر قلعی ، رنگ وروغن کرنا، جھاڑو دینا، صفائی کرنا ، اس میں روشنی اور زیب و زینت کرنا۔

اس میں نماز پڑھنا ، تلاوتِ قرآن کرنا ،ذکر واذکار  مسنونہ ادا کرنا۔

اس میں درس وتدریس کرنا۔

عبادت کے لیے وہاں داخل ہونا اور اکثر آتے جاتے رہنا۔

اذان و تکبری کہنا۔

جماعت قائم کرنا۔

دنیوی باتیں نہ کرنا ، خرید و فروخت سے منع کرنا۔

ہر اس چیز سے مسجد کو بچانا جو مسجد کی عظمت کے منافی ہو۔

(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ، تفسیر خازن ، کبیر ، روح البیان ، مظہر وغیرہ)

تعمیر مسجد کے اس جامع مفہوم میں تمام امور کی ادائیگی کا حق صرف اہل اسلام کے لیے ہے، کافر ، مشرک اور مرتد کو ان میں سے کسی امر کی ادائیگی کا حق نہیں ، اگر کافر، مشرک یا مرتد مسجد کی تعمیر کرنا چاہے تو اسے منع کردیاجائے۔ بلکہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ تعمیر مسجد میں ان سے چندہ وغیرہ بھی نہ وصول کریں۔

اللہ رب العزت ارشاد فرماتاہے۔

مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰۤي اَنْفُسِهِمْ بِالْکُفْرِ ط اُولٰۤئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْصلي ج وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ ۔ اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَي الزَّکٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ قف فَعَسٰۤي اُولٰۤئِکَ اَنْ يَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ   ؂[94]

ترجمہ کنز الایمان:مشرکوں کو نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں خود اپنے کفر کی گواہی دے کر ان کا تو سب کیا دھرا اِکارت  ہے اور وہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اورنماز قائم رکھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں۔

ان آیاتِ کریمہ کے شانِ نزول میں مفسرین نے بیان کیا کہ قریش کے روسا کی ایک جماعت جو بدر میں گرفتار ہوئی اور ان میں حضور پُر نور ﷺ کے چچا حضرت عباس بھی تھے (اس وقت تک یہ اسلام نہیں لائے تھے) ان کو صحابہ کرام نے شرک پر عار دلائی، اور حضرت علی المرتضیٰ نے توخاص حضرت عباس کو سید عالم ﷺ کے مقابل آنے پر بخت سخت سست کہا، حضرت عباس کہنے لگے کہ تم ہماری خامیاں تو بیان کرتے ہو اور ہماری خوبیاں چھپاتے ہو، ان سے کہا گیا کہ آپ کی کچھ خوبیاں بھی ہیں، انہوں نے کہا ہاں ہم تم سے افضل ہیں، ہم مسجد حرام کو آباد کرتے ہیں، کعبہ کی خدمت کرتے ہیں، حاجیوں کو سیراب کرتے ہیں، اسیروں کو رہا کراتے ہیں، کعبہ کی خدمت کرتے ہیں، حاجیوں کو سیرات کرتے ہیں، اسیروں کو رہا کراتے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مسجدوں کو آباد کرنا کافروں کو نہیں پہنچتا، کیونکہ مسجد آباد کی جاتی ہے اللہ کی عبادت کرنے کے لیے ، تو جو خدا کا منکر ہو اس کے ساتھ کفر کرے وہ کیا مسجد کو آباد کرے گا۔ ؂[95]

مولوی جناب اشرف علی تھانوی نے سورہ توبہ کی ان آیات کا ترجمہ یوں کیاہے،

مشرکین کی یہ لیاقت ہی نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں، جس حالت میں کہ وہ خو د اپنے اوپر کفر کا اقرار  کررہے ہیں، ان لوگوں کے سب اعمال اکارت ہیں، اور دوزخ میں وہ لوگ ہمیشہ رہیں گے، ہاں اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا ان لوگوں کا کام ہے، جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائیں اور نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں، اور بجز اللہ کے کسی سے نہ ڈریں سو ایسے لوگوں کی نسبت توقع ہے کہ وہ اپنے مقصود تک پہنچ جائیں۔ ؂[96]

علامہ ابوبکر جصاص حنفی (متوفی ۳۷۰ھ) نے مساجد پر کافروں کی تولیت اور تصرفات پر فیصلہ کن ارشاد فرمایا لکھتے ہیں:

فاقتضت الایۃ مسخ الکفار من دخول المساجد ومن بنائھا وتولی مصالحھا او القیام بھالانتظام اللفظ الامرین) ؂[97]

 اس آیت (ماکان لمشرکین ان یعمروا مساجد اللہ) کا مقتضی یہ ہے کہ کفار کو مسجد میں داخل ہونے، مساجد بنانے اس کے مصالح کے انتظام کرنے اور اس کا نگران بننے سے روک دیاجائے، کیونکہ لفظ تعمیر ان دونوں باتوں کو شامل ہے۔

علامہ ابوبکر مرغینانی صاحب ہدایہ (متوفیٰ ۵۹۳ھ)  علامہ ملا نظام الدین (متوفی ۱۱۵۷ھ) جامع فتاویٰ عالمگیریہ اور علاہ ابن عابدین شامی (متوفی ۱۲۵۲ھ) وغیرہ فقہاء کرام نے بھی تصریح فرمائی ہے کہ کافر کو مسجد کی تولیت کا کوئی حق نہیں ان کا کفر ان کے استحقاق تولیت کو باطل کردیتاہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم کی صریح نصوص احادیث طیبہ، مفسرین کے تفسیری فوائد اور اجلہ فقہاء کی تصریحات ان امور پر متفق ہیں کہ:

مسجد کی آبادی کا حق صرف مسلمان کو ہے۔

کافربوجہ کفر مسجد کا منتظم، متولی اور متصرف نہیں رہ سکتا۔

کافر کو مسجد میں بلاوجہ آنے سے روک دیا جائے۔

حکومت اسلامیہ اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ ان احکام پر عمل کریں۔

اگر کوئی کافر ان احکام کی خلاف ورزی کرے تو اسے تعزیرا سزادی جائے۔

واللہ تعالیٰ اعلم وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم۔

مرزا قادیانی کی زندگی میں علماء ومشائخ کی عملی مساعی ، بسلسلہ ردّ قادیانیت

۲ شعبان المعظم ۱۳۱۴ھ جنوری ۱۸۹۷ کو مسجد ملا مجید، واقع چہل بیبیاں ، موچی دروازہ لاہور۔

مولانا غلام دستگیر قصوری سے مرزا قادیانی نے مباہلہ طے کیا، مولانا قصوری موقع پر آئے مگر مرزا قادیانی مقابلہ کے لیے نہ آیا۔

مرزا قادیانی کی اعجاز احمدی (جس کو مرزا اپنی جھوٹی نبوت کی تائید میں بطور تحدید پیش کررہاتھا) غلط عربی عبارات پر مولانا اصغر علی روحی نے عالمانہ گرفت فرمائی ، مرزا قادیانی کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑا۔

۱۹ ،اگست ۱۹۰۳ء کو رائے چند دلال مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور کی کچہری میں اہل سنت کی طرف سے قائم کردہ مقدمہ مرزا قادیانی کو اعتراف کرنا پڑا کہ سیف چشتیائی میں سرقہ مضامین کا جو الزام میں نے اپنی کتاب نزول المسیح میں حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب گولڑوی پر لگایا ہے وہ غلط ہے ،میں وہ الزام واپس لیتاہوں ، اس وقت مرزا قادیانی کی شرمندگی دیدنی تھی۔

مرشد برحق حضرت صوفی محمد حسین مراد آبادی نے اپنے ممتاز خلیفہ سراج الاولیاء خواجہ شاہ سراج الحق کو کرنال سے لاکر گورداسپور مامور فرمایا ، تاکہ مرزا قادیانی کے قریب رہ کر اس کا ناطقہ بند کردیا جائے۔مولانا نواب الدین مدراسی خلیفہ خواجہ سراج الحق نے اگست، ۱۹۰۳ میں مرزا کو  بازو سے پکڑا اور اسے لاجواب کرتے ہوئے فرمایا۔

اگر خدا کو نبی بنانا ہوتا تو تجھ جیسے بجو (بدشکل،کریہہ منظر) کو نہ بناتا ، بلکہ مجھ جیسے وجیہ کو بناتا ، مگر نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔

خواجہ  شاہ سراج الحق چشتی نے سالانہ عرس کی تقریبات کے لیے دسمبر کے اواخر کی تاریخیں مقرر کیں۔

جب کہ عمومی طور پر اولیائے  کرام کے اعراس قمری تاریخوں کے مطابق ہوتے ہیں خواجہ موصوف کا یہ عمل ادھر مرزائیت کے لیے تھا۔ کیونکہ مرزا قادیانی کا سالانہ جلسہ انگریزوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دسمبر کے اواخر میں کرسمس کے موقع پر ہوتاتھا۔

امام العارفین خواجہ اللہ بخش تونسوی (م ۱۹۰۱ء) نے مرزا قادیانی کی تردید نہایت موثر انداز میں فرمائی۔

یاد رہے کہ خواجہ موصوف کی روحانیت اور علمیت کاایک زمانہ معترف تھا آپ کی برکت سے پنجاب (متحدہ) میں مرزائیت  کی خوب رسوائی ہوئی۔

مجاہد اسلام خواجہ ضیاء الدین سیالوی نے علاقہ سون سیکسر سے وہ پتھر اکھڑادیا جس پر ترکوں کے خلاف لڑنے والوں کے نام کندہ تھے۔

یاد رہے جنگ عظیم دوم میں ترکوں کی شکست پر جب کہ عالم اسلام غمزدہ تھا، مرزائیوں نے اظہار مسرت کی خاطر چراغاں کیا، انگریزوں کی وقتی فتح پر اپنی مبارکباد کے پیغامات ارسال کیے ، خواجہ ضیاء الدین سیالوی نے اپنے اس عمل سے انگریزوں اور قادیانیوں کے خلاف نفرت کا اظہار کیا۔

واعظ اسلام مولانا محمد اکرام الدین بخاری لاہوری نے تحریر و تقریر کے ذریعے مرزا قادیانی کا ردِّ بلیغ کیا۔

حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب کا دعوت مناظرہ اور مرزا کی روپوشی:

 رمضان المبارک ۱۳۱۷ھ اوائل ۱۹۰۰ء میں خواجہ گولڑوی نے شمس الہدایہ تصنیف کی ، علماء اسلام نے آپ کو داد و تحسین دی دوسری طرف قادیان میں تہلکہ پڑگیا، مرزا قادیانی پر اوس پڑگئی اور وہ مبہوت ہوکر لاجواب ہوا۔ جھوٹا بھرم رکھنے کو حکیم نورالدین بھیروی (دست راست مرزا قادیانی، اور مرزا کے مرنے کے بعد مرزائیوں کے خلیفہ اوّل) نے اپنے مکتوب محررہ ۲۰ فروری ۱۹۰۰ء بارہ سوالات لکھ کر حضرت پیر صاحب گولڑہ کو جواب دینے کے لیے روانہ کیا تاجدارِ گولڑہ نے ان سوالات کا فوری شافی جواب لکھ کر ارسال کردیا اور ساتھ ہی ایک سوال حقیقت معجزہ سے متعلق اس سے کیا، یہ سوال آج تک مرزائیت کے گلے کا کانٹا بناہوا ہے۔

مرزا قادیانی نے ۲۲ جولائی  ۱۹۰۰ءکو ایک اشتہار کیا اس میں چھیاسی علماء کو دعوتِ مناظرہ دی ان میں تاجدار گولڑہ کا نام بھی تھا، مناظرہ کا موضوع عربی میں قرآنی آیات کی تفسیر لکھنا قرار پایا، حضرت پیر مہر علی گولڑوی نے ۲۵ جولائی ۱۹۰۰ء کو ایک مکتوب میں مرزا قادیانی کی دعوت مناظرہ قبول کرلی، ۲۵ اگست ۱۹۰۰ء لاہور کے ایک مقام پر مناظرہ ہونا قرار پایا۔ حضرت پیر مہر علی گولڑوی کے علماء اہل سنت اور دیگر فرقوں کے اکابر جمع ہوگئے، بادشاہی مسجد میں باتفاقِ علماء حضرت پیر مہر علی گولڑوی مناظر اسلام مقرر ہوئے ، بار بار اعلان اور تقاضے کے مرزا نے راہ فرار اختیار کی اس طرح باوجود طلب مناظرہ کے مرزا قادیانی مناظرہ میں نہ خود آیا نہ نمائندہ بھیجا ، قادیانیوں کو سخت ہزیمت اٹھانا پڑی۔

بعد ازاں اس اجتماع سے حضرت پیر سید جماعت علی شاہ علی پوری، مولانا محمد حسن فیضی، مولانا تاج الدین جوہر مولانا ابو سعید عبدالخالق جہاں خیلاں ، مولانا مفتی محمد عبداللہ ٹونکی ، مولانا احمد دین اور دیگر اکابرین علماء اہل سنت نے خطاب کیا۔

اس موقع پر اٹھاون علماء اور اٹھائیس اکابر ملت کی طرف سے مناظرہ میں مرزا کافر اور اہل سنت کی فتح کا اشتہار شائع ہوا۔

حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے اعجاز احمد کے جواب میں سیف چشتیائی ۱۹۰۲ء میں لکھی ۔ ۹ نومبر ۱۹۰۴ء میں مرزا غلام احمد قادیانی ، سیالکوٹ پہنچا، اپنے باطل عقاءد کی دلیل کرنے لگا۔  حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری نے باوجود علالت کے ایک ماہ سیالکوٹ میں قیام فرمایا، جگہ جگہ خود بھی مرزا کا رد فرمایا ، علماء کو بلوا کر مرزائیت  کے ردّ میں تقریریں کروائیں ، علماءِ اہل سنت کے دلائل سے عاجز آکر مرزا اس کے بعد سیالکوٹ میں داخل ہونے کے قابل نہ رہا، بقیہ زندگی سیالکوٹ کی زمین اس کے لیے تنگ کردی گئی۔

 مرزا قادیانی پر آخری ضرب کاری، جس سے مرزا جانبر نہ ہوسکا:

۲۲ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت امیر ملت سید جماعت علی شاہ نے بادشاہی مسجد لاہور میں جمعۃ المبارک کے خطبہ میں مرزا قادیانی کو مباہلہ کا چیلنج دیا ، مرزا لاہور میں موجود تھا بار بار کے تقاضہ اور اعلان کے باوجود مرزا سامنے نہ آسکا۔

حضرت امیر ملت نے ۲۵،۲۶ مئی ۱۹۰۸ کی درمیانی شب پیشین گوئی فرماءی کہ چند ہی دنوں میں مرزا عبرتناک موت سے دوچار ہوگا۔آپ کی پیشین گوئی کے مطابق مرزا آنجہانی ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء قبل دوپہر عبرتناک موت سے مرکر واصل جہنم ہوا۔

مرزا قادیانی مجرموں کے کٹہرے میں:

علماء و مشائخ اہل سنت علمی، تحقیقی ، تحریری اور تقریری انداز میں ردّ قادیانیت کے ساتھ ساتھ خود مرزا اور اس کے حواریوں کو ان کی سرپرست گورنمنٹ کی کچہریوں میں مقدمات میں نامزد کیا، اس طرح عام آدمی جو علمی دلائل سے واقف نہیں تھا، ان کے سامنے اس کا پول کھل گیا ، اس سلسلہ میں چند مقدمات کا تذکرہ دلچسپی کا باعث ہوگا۔

ردّ مرزا میں سراج الاخبار میں مولانا کرم الدین دبیر ، جہلم کے مضامین کے خلاف مرزا قادیانی کے دست راست اور متعتمد علیہ حکیم نورالدین بھیروی نے مولانا دبیز پر گورداسپور میں دومقدمات قائم کیے۔ ۱۴ نومبر ۱۹۰۲ء اور ۲۹ جون ۱۹۰۳ء میں دونوں مقدمات میں مولانا دبیر باعزت بری ہوئے ، ان مقدمات میں مرزا قادیانی خود کچہری میں مجرموں کی طرح پیش ہوتارہا۔

شیخ یعقوب علی تراب ایڈیٹر اخبار الحکم نے مولانا کرم الدین دبیر اور مولانا فقیر محمد جہلمی پر مقدمہ قائم کیا ، مدعا علیہما نے جواب دعویٰ میں مرزائیت کو خوب رسوا کیا۔

۱۷ جنوری ۱۹۰۳ء کو مرزائیوں نے کتاب مواہب الرحمٰن جہلم میں تقسیم کی مولانا کرم الدین دبیر نے مرزا قادیانی اور حکیم فضل الدین بھیروی پر جہلم میں مقدمہ دائر کروایا، دو سال مقدمہ چلتا رہا، جج نے مرزا قادیانی اور حکیم فضل الدین بھیروی پر دو  سو روپیہ جرمانہ کا حکم دیا ، عدم ادائیگی کی صورت میں پانچ پانچ ماہ کی قید بھی سنائی ، مولانا دبیر کے بے باکانہ بیانات اور جج کے فیصلہ نے مرزا قادیانی اور اس کی امت کے کس بل نکال دیئے۔

مرزا قادیانی نے اپنے ملفوضات اور الہامات میں جہلم میں بطور مجرم پیش ہونے کا اقرار کیا ہے۔ ۱۵ نومبر ۱۹۰۲ء بٹالہ میں مرزا قادیانی ایک مقدمہ میں بطور مجرم پیش ہوا ۔

امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ ،علی پوری  نے مرزائی محمد علی ساکن سنکھرہ ضلع سیالکوٹ کو حضور پُر نور سید الابرار ﷺ  کی شان میں گستاخی اور مرزا قادیانی کی نبوت باطلہ کے ثبوت پر اپنے ہاتھوں زدو کوب کیا، اس پر مرزائی نے آپ کے خلاف مقدمہ قائم کردیا، اپنے مقدمہ کی پیروی کے لیے کمال الدین مرزائی کو وکیل بنادیا۔ مرزائی وکیل نے پورے وسائل اور دلائل سے کام لیا کہ حضرت امیر ملت کو کچہری میں بطور مدعی علیہ حاضر کرائے ، مگر اس میں پوری مرزائیت امت کو ناکامی ہوئی، امیر ملت مقدمہ میں باعزت بری قرار دیئے گئے ، بعد ازاں مرزائیوں نے اس مقدمہ کو ہائی کورٹ میں دائرکیا مگرانہیں کامیابی نصیب نہ ہوسکی۔

قادیانیوں کے خلاف علمائے اسلام کے فتاویٰ اور قراردادیں:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کا فتویٰ:

 قادیانی مرتد ، منافق ہیں ، مرتد و منافق وہ کہ کلمہ اسلام اب بھی پڑھتا ہے، اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا ہے ، پھر اللہ رب العزت یا رسول اللہ ﷺ یا کسی نبی کی  توہین کرتا ہے یا ضروریاتِ دین میں سے کسی شئے کا منکر ہے۔  ؂[98]

علمائے کرام حرمین شریفین نے قادیانی کی نسبت بالاتفاق فرمایا کہ من شک فی عذابہ وکفرہٖ فقد کفر۔ جو اس کے کافر ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔

سب سے بھاری ذریعہ اس کے رد کا اول تو کلمات کفر پر گرفت ہے، جو اس کی تصنیف میں برساتی حشرات الارض کی طرح اہلے گیلے پھر رہے ہیں۔

انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی توہین ، عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں ، ان کی ماں طیبہ طاہرہ پر طعن اور یہ کہنا کہ یہودی کے جو اغراض عیسیٰ اور ان کی مان پر ہیں ان کا جواب نہیں۔

دوسرابھاری ذریعہ  ان خبیث پیشین گوئیوں کا جھوٹاپڑنا جس میں بہت چمکتے روشن حرفوں لکھنے کے قابل دو اور واقعے ہیں۔

لڑکے کی پیدائش کی خبر نشر کی ، لیکن لڑکی پیدا ہوئی۔

محمد بیگم سے نکاح کی پیشین گوئی کی لیکن وہ بھی جھوٹی ہوئی۔

غرض اس کے کفر وکذب حدو شمار سے باہرہیں۔ ؂[99]

شیخ عمر بن حمد ان مرسی مالکی مدرس مسجد نبوی شریف کا فتویٰ:

غلام احمد قادیانی دجال کذب آخری زمانے کا مسیلمہ ہے، قادیانی کے کفر اور ہر آدمی پر تابہ امکاں اس کا قتل واجب ہونے میں کوئی شک نہیں۔  ؂[100]

قومی اسمبلی پاکستان میں منظور شدہ قانون ۱۹۷۴ء:

 (الف) اس قانون کو ترمیم ثانی قانون ۱۹۷۴ء کہا جائے گا۔

(ب) یہ قانون فوری طور سے نافذ العمل مانا جائے گا۔

لازم ہے کہ دفعہ ۱۰۶ کے فقرہ میں ۳ لفظ"جماعتوں" کے بعد اس عبارت کا اندراج کیا جائے ، قادیانیوں کی جماعت یا لاہوریوں کی جماعت (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) کے افراد غیر مسلم ہیں اور حسب قانون (آئین پاکستان میں ) ترمیم کی جاتی ہے۔

جو شخص محمد عربی ﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان نہیں رکھتا یا لفظ "خاتم النبیین"  کے معنی میں سے جس کسی بھی معنیٰ کے اعتبار سے اور کسی بھی وصٖ کے ساتھ حضور کے بعد کہیں بھی نبوت کا دعویٰ کرتاہے، یا نبوت و تجدید فی الدین کے مماثل کسی دعویٰ کا اعتراف کرتاہے، تو وہ غیر مسلم ہے۔ ؂[101]

قومی اسمبلی میں خاتم الانبیاء ﷺ کا زندہ معجزہ:

 ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جہان نبی پاک ﷺ کا یہ زندہ معجزہ ہے ، وہاں امام شاہ احمد نورانی کی زندہ کرامت بھی ہے کہ قومی اسمبلی میں جب قادیانیوں کے سربراہ ناصر (ناسور) پرجرح  ہورہی تھی ، اس موقع پر قومی اسمبلی کے اراکین نے اپنی نگاہوں سے اس زندہ معجزہ کا مشاہدہ کیا، اسلام آباد میں کئی منزلہ عمارت میں جو چاروں طرف سے بالکل بند اور ایئر کنڈیشنڈ ہے قومی اسمبلی کا اجلاس ہوتاتھا، اور اسمبلی کے اجلاس کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ اوپر سے کوئی چیز کسی بھی رکن پر پڑی ہو، لیکن اس وقت اراکین قومی اسمبلی اس امر کے شاہد ہیں  کہ جبر مرزا ناصر نے اپنا ۸۰ صفحات پر مشتمل محضرنامہ پڑھنا شروع کیا تو کسی پرندہ کا ایک پَر جو غلاظت سے بھرا ہواتھا چھوٹے پنکھے سے نکل کر آہستہ آہستہ گھومتا ہوا سیدھا مرزا ناصر (ناسور) کے محضر نامہ پر گرا اور لوگوں نے دیکھا کہ مرزا ناصر (ناسور) کا محضر نامہ گندگی سے بھرگیا، اور وہ بری طرح کانپ گیا، اور اس کے منہ سے نکلا "آئی ایم ڈسٹربڈ" قومی اسمبلی کے ممبران نے امام شاہ احمد نورانی صدیقی کو مخاطب کرکے کہا کہ یہ مولانا شاہ احمد نورانی کی کرامت ہے اس پر امام احمد شاہ نورانی صدیقی نے فوراً کہا کہ نہیں بلکہ یہ میرے آقا ﷺ کا زندہ معجزہ ہے۔

قادیانیوں کے خلاف عدالتوں کے فیصلے

عدالت بہاولپور کا فیصلہ:

 مدعیہ نے ثابت کردیا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کذاب مدعی نبوت ہے، اس پر مدعی علیہ مرتد مانا جائے گا ، اس لیے کہ وہ مرزا کو نبی مانتاہے۔ ؂[102]

 عدالت راولپنڈی کا فیصلہ:

 مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں، لہذا پہلی سماعت والی عدالت کا فیصلہ صحیح ہے۔ ؂[103]

 عدالت جیمس آباد (سندھ ) کا فیصلہ:

 گذشتہ بحث سے واضح ہوا کہ مدعیہ مسلمہ کا نکاح مدعیٰ علیہ کے ساتھ نہیں ہوا، جو قادیانی ہونے کا معترف ہے۔ ؂[104]

عدالت عالیہ ماریشس  کا فیصلہ:

 عدالت عالیہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مدعی علیہ قادیانیوں کو مسجد روز ہل میں نماز پڑھنے کا حق نہیں ہے ، لہذا مسجد میں صرف مسلمان نماز پڑھیں گے۔  ؂[105]



؂[1] ۔

؂[2] ۔  (سورۃ المطففین)

؂[3] ۔  (ابن جریر طبری)

؂[4] ۔  (سورۃ البقرۃ:۷)

؂[5] ۔  (مختصر تفسیر طبری)

؂[6] ۔  (مختصر تفسیر  طبری)

؂[7] ۔  (تفسیر ابن کثیر ص۳۸۱، ج۶)

؂[8] ۔  (تفیسر بیضاوی)

؂[9] ۔  (سورۃ الاحزاب:۴۰)

؂[10] ۔  (سورۃ المائدہ: ۴)

؂[11] ۔  (مختصر تفسیر ابن کثیر، ج۳،ص۲۳)

؂[12] ۔  (سبا :۲۸)

؂[13] ۔  (سورۃ الانبیاء: ۱۰۷)

؂[14] ۔  (سورۃ اعراف: ۱۵۸)

؂[15] ۔  (سورۃ الفرقان :۱)

؂[16] ۔  (سورۃ انعام: ۱)۹

؂[17] ۔  (مسلم ،ترمذی، ابن ماجہ)

؂[18] ۔  (بخاری، مسلم ،مسند احمد  ، ابن ماجہ)

؂[19] ۔  (ترمذی،مسند امام احمد)

؂[20] ۔  (مسلم، ابو داؤد)

؂[21] ۔ (ابن کثیر ،ص ۴۹۴، ج۴)

؂[22] ۔  (البدایہ ، ج۴، ص ۱۴۹)

؂[23] ۔  (شمائل ترمذی)

؂[24] ۔  (شرح دیوان حسان ، ص ۷۸)

؂[25] ۔  (نصاب عشق، ص ۳۰)

؂[26] ۔  (مسند احمد ، ج۵،ص۲۷)

؂[27] ۔  (کتاب المحاسن والمساوی، ج۱، ص ۶۴، از امام بیہقی)

؂[28] ۔ (سیرت المہدی، حصہ اول،ص۳۶، مولفہ شیر احمد بن غلام احمد متنبی)

؂[29] ۔  (سیرت المہدی، حصہ اول، ص ۲۴)

؂[30] ۔  (سیرت المہدی، حصہ دوم، ص ۴)

؂[31] ۔  (سیرت المہدی، حصہ اول، ص۳۸/۱۱۵)

؂[32] ۔  (سیرت المہدی، حصہ دوم، ص ۱۲۶/۱۲۰)

؂[33] ۔  (سیرت المہدی، حصہ دوم، ص ۱۲۸/۱۲۰)

؂[34] ۔  (منکرین خلافت کا انجام ،از جلال الدین شمس قادیانی ، ص ۹۶ /۱۲۰ )

؂[35] ۔  (اخبار الحکم قادیان، ۲۱ فروری، ۱۹۳۵، ۲۲،۱)

؂[36] ۔  (اخبار الحکم قادیان، ۲۱ فروری، ۱۹۳۵، ۲۲،۱)

؂[37] ۔  (الفضل، ۳۱ اکتوبر ،۱۹۳۹، ۲۲،۱)

؂[38] ۔  (ارشاد بشیر الدین محمود مندرجہ الفضل، ۳۱ اکتوبر ،۱۹۳۹، ۲۲،۱)

؂[39] ۔ (مضمون ذکر الحبیب از سردار مصباح الدین  قادیانی، ۲۱ مئی ۱۹۳۴ء ۱،۲۳)

؂[40] ۔  (سیرت المہدی،ص ۱۹۸، جلد اول، ۱،۱۱)

؂[41] ۔  (مکتوبات احمدیہ، جلد۲، مکتوب ۳، ص ۲۱،/۱،۴۵)

؂[42] ۔  (سیر ت المہدی، ص۲، ۵۸، ۱،۴)

؂[43] ۔  (سیر ت المہدی، ص ۵۸، جلد،۲ ۱،۴۷)

؂[44] ۔  (تتمہ براہین احمدیہ مشتمل بر حالات مرزا صاحب، جلد اول، ص ۶۷، ۱،۴۷)

؂[45] ۔  (خطبہ میاں محمود احمد الفضل، ۰۳۰۳، ۱۹۳۵، /۱،۵۲)

؂[46] ۔  (سیر ت المہد، ص ۱۶۲، ج۱۔۔۱،۵۷)

؂[47] ۔  (تتمہ حقیقۃ، الوحی، ص ۲۹)

؂[48] ۔  (تحفہ گولڑیہ، حاشیہ، ص ۱۹)

؂[49] ۔  (ضمیمہ انجام آتھم، ص ۵۹)

؂[50] ۔  (چشمہ معرفت، ص ۲۲۲)

؂[51] ۔  (البشری، ص ۲، ۲۵)

؂[52] ۔  (سیرت المہدی، ص۳، ۱۳۹)

؂[53] ۔ (تقریر خلیفہ سالانہ اجلاس، الفضل، ۱۹۳۳ء)

؂[54] ۔  ( اربعین، ص ۲،۲۳)

؂[55] ۔  (کشتی نوح، ص ۵، (قدیم اکتوبر ۱۹۰۲) میں سنہ طباعت ندارد)

؂[56] ۔  (زکریا، ۱۲، ۱۴، انجیل ، ص ۲۴،۸، مکاشفات ۲۲،۸)

؂[57] ۔  (آریہ دھرم، ص ۱۹)

؂[58] ۔  (جنگ مقدس، ۱۸۹،۱۸۸)

؂[59] ۔  (البدر مورخہ ۱۹۸، ۳۔۵ء)

؂[60] ۔  (حقیقۃ الوحی، ص ۳۹۱)

؂[61] ۔  (انوار خلافت، ص ۶۲۰) بحوالہ قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ، ص ۱۸۰)

؂[62] ۔  (کشتی نوح، ص ۲۴)

؂[63] ۔  (بحوالہ حاشیہ مشکوۃ ص ۵۱۵)

؂[64] ۔  (سیف چشتیائی، بحوالہ مہر منیر)

؂[65] ۔  (تحفۃ الندوۃ ،ص۵)

؂[66] ۔  (حقیقۃ الوحی، ص ۳۹۰)

؂[67] ۔ مکتوبات دفتر دوءم، مکتو ب۵۱)

؂[68] ۔  (اربعین، ۱۲،۱۳،ج۴)

؂[69] ۔  (نور الحق، ص ۵۰، ج۱، ص ۶۹۷۶۸)

؂[70] ۔  (توضیح المرام، ص ۳۵، مطبوعہ قادیان، ۱۹۲۳)

؂[71] ۔  (حقیقۃ الوحی، ص ۱۰۲، مطبوعہ قادیان ۱۹۳۴)

؂[72] ۔  (حاشیۃ حقیقۃ الوحی، ص ۱۰۳)

؂[73] ۔  (تجلیات الہیہ، ص۲، مطبوعہ قادیان)

؂[74] ۔  (براہین احمدیہ ، ص ۴۸۰،۴۸۱، ج چہارم، مطبوعہ امرتسر)

؂[75] ۔ (حقیقۃ الوحی، ص۸۴، مطبوعہ قادیان ۱۹۳۳، تذکرہ ص ۹۹ مطبوعہ ربوہ)

؂[76] ۔  (ازالہ اوہام، ص ۲۹۶، ۲۹۷، حصہ دوم)

؂[77] ۔ (تذکرہ، ص ۶۷۴، مطبوعہ ربوہ)

؂[78] ۔  (حقیقۃ الوحی، ص ۲۱۱، مطبوعہ قادیان ۱۹۳۴)

؂[79] ۔  (خطبہ الہامیہ ،ص ۲۰ ،مطبوعہ ربوہ)

؂[80] ۔ (کشتی نوح، ص ۵، مطبوعہ قادیان)

؂[81] ۔  (اعجاز احمدی، ص ۳۰، طبع قدیم)

؂[82] ۔  (ازالۃ اوہام، ص ۵۳۳، مطبوعہ قادیان)

؂[83] ۔  (انجام آھم، ص ۷۸)

؂[84] ۔  (دافع العلاء ص۶)

؂[85] ۔  (ازالہ اوہام ، ص ۶۸۸، مطبوعہ قادیان)

؂[86] ۔  (ازالہ اوہام، ص۸)

؂[87] ۔  (ازالہ اوہام، ص ۶۲۹، مطبوعہ قادیان)

؂[88] ۔  (ازالہ اوہام، ص ۲۸)

؂[89] ۔  (اعجاز احمد ، ص۳۱)

؂[90] ۔  (کشتی نوح، ص ۵۶)

؂[91] ۔ (دافع البلال، ص۲۰)

؂[92] ۔  (ضمیمہ انجام اتھم ،ص ۷)

؂[93] ۔  (ضمیمہ انجام آتھم، ص۷)

؂[94] ۔  (سورہ توبہ: ۱۷،۱۸)

؂[95] ۔  (صحیح مسلم، ابو داود، صحیح ابن حبان، تفسیر ابن ابی حاتم تفسیر ابن کثیر، خازن روح البیان، مظہری روح المعانی ، کبیر، اسباب نزول ، خزائن العرفان وغیرہ)

؂[96] ۔  (ترجمہ مولوی اشرف علی تھانوی)

؂[97] ۔ (احکام القرآن، جلد ۳، ص۸۷، طبع لاہور)

؂[98] ۔  (احکام شریعت، حصہ ۱، ص۱۱۲)

؂[99] ۔  (فتاویٰ رضویہ، ج۶، ص۳۱،۳۲،ملخصاً)

؂[100] ۔  (مشمولہ حسام الحرمین، ص۱۳۲)

؂[101] ۔  (ایضا،ص ۴۶)

؂[102] ۔ (القادیانیۃ اقلیۃ غیر مسلمۃ، از جلال الدین احمد نورانی، ص ۱۴)

؂[103] ۔  (ایضا ص۱۷)

؂[104] ۔  (ایضاً،ص ۱۸)

؂[105] ۔  (ایضاً،ص ۲۰)

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post