اللولؤ والمرجان فی وصیۃ

أبی حنیفۃ النعمان رحمۃ اللہ علیہ

گلدستہٴ عقائد اہلسنت

 

(راہ حق کے متلاشیوں کے لئے نادر ونایاب تحفہ)

 


 

محقق ومترجم

علامہ مفتی محمد عابد علی سیفؔی نقشبندی(فاضل درسِ نظامی،فاضل عربی وایم اے کراچی یونیورسٹی)

استاذ بالجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ

 

فہرست

 

نمبر شمار

عنوان

صفحہ نمبر

1         

حمد  باری تعالیٰ

5

2         

نعت مصطفیٰ ﷺ

6

3         

انتساب

7

4         

سخن ہائے گفتنی

8

5         

تقریظ

18

6         

تقریظ

19

7         

پیش لفظ

22

8         

حقانیت اہل سنت وجماعت

24

9         

اہل سنت کے بعض عقائد حقہ

29

10     

فضائل صحابہ وافضلیت ابوبکرصدیق ﷜

36

11    

سوانح امام ابوحنیفہؒ

66

12     

پہلی خصلت: توحید و رسالت کا اقرار

83

13    

دوسری خصلت: اعمال کی اقسام

87

14     

تیسری خصلت:اللہ عرش پر مستوی ہے

88

15    

چوتھی خصلت: قرآن غیر مخلوق ہے

90

16    

پانچویں خصلت: امت میں سب سے افضل ابوبکرصدیق ﷜ہیں

93

17    

چھٹی خصلت: بندہ اور اس کے اعمال مخلوق ہیں

96

18    

ساتویں خصلت: اللہ مخلوق کا خالق و رازق ہے۔بندوں کی اقسام

100

19    

آٹھویں خصلت:استطاعت فعل کے ساتھ ہوتی ہے

101

20     

نویں خصلت : موزوں پر مسح کرنا

104

21     

دسویں خصلت: قلم نے لکھ دیا

105

22     

گیارھویں خصلت: عذاب قبر حق ہے

106

23     

بارھویں خصلت: مرنے کے بعد دوبارہ اٹھانا

115

24     

عربی متن کتاب الوصیۃ

128

25     

قصیدہ نعمانیہ کے چند اشعار

132

26     

کتابیات

135




حقانیت اہل سنت وجماعت

اَعُوْذُ باِللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ۔بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔الحمد للہ الذی ھدانا الی الاسلام والایمان والصلوٰۃ والسلام علی خاتم النبیین سید الانس والجآنّ وعلی آلہ واصحابہ الذین ھم نجوم الھدایۃ والعرفان وعلی الائمۃ المجتھدین الذین دوّنوا المسائل الشرعیۃ بالتحقیق والایقان خصوصا علی اعظم معجزات المصطفیٰ ﷺ بعد القرآن أبی حنیفۃ النعمان رحمہ اللہ المنّان۔ أمّا بعد! قال اللہ تعالیٰ فی القرآن المجید : یاأیھا الذین آمنوا اتقواللہ وکونوا مع الصادقین ۔ صدق اللہ العظیم۔وصدق رسولہ الکریم۔

 اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیا ۔اس میں تمام مخلوقات کو بسایا اور رحمتِ کاملہ سے اُن کی بقاء کا سامان بنایا ۔انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کی ہدایت کے لئے اپنے منتخب اور برگزیدہ رسولوں کو بھیجا ۔جنہوں نے بنی نوع انسان کی بھلائی اور ہدایت کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندے اور محبوب محمد مصطفیٰ ﷺ کے سر پر ختم نبوت کا تاج سجا کر سلسلہ نبوت کو ختم فرمادیا ۔ قرآن کریم کی یہ آیات ِ کریمہ اس پر واضح دلیل ہیں ۔مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ط وَکَانَ اللّٰهُ بِکُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمَا؂[1]دوسری جگہ فرمایا: اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا؂[2]

سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کے بعد ہدایت کا دروازہ بند نہیں ہوا بلکہ اللہ کے رسول ﷺ کے تربیت یافتہ افراد (جنہیں صحابیت کا عظیم منصب عطا ہوا)نے ہدایت کے سلسلے کو آگے پہنچایا اور اختلاف کی صورت میں جن کے دامن کو تھامنے کی تاکید نبی کریم ﷺ نے خود فرمائی۔ علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین؂[3] کیونکہ أصحابی کا لنجوم کا مژدہ انہی کے حق میں وارد ہوا ہے ۔لہذا اختلاف و افتراق سے بچنے کے لئے اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے اصحاب کے طریقہ مرضیہ کو اختیار کرنا نا گزیر ہے۔اس طریقہ کو اختیار کرنے والوں کو عُرف عام و خاص میں اھل سنت و جماعت کہا جاتا ہے حدیث شریف ''مااناعلیہ و اصحابی ''سے یہ نا م مأخوذ ہے۔اور یہی نام اھلِ حق کے لئے صحیح ہے کہ یہ مابہ الامتیاز ہے حق و باطل کے درمیان یعنی جب امت میں (عقائد و نظریات و اعمالِ صالحہ میں)افتراق و انتشار ہو تو حضورختمی مرتبت ﷺ کی سنت اور جماعت صحابہ کی سنت کے مطابق راہ پر چلنا حق اور صحیح ہونے کی علامت ہے ۔ حدیث مبارکہ میں ہے : تفترق امتی علی ثلاث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ و ھی الناجیۃ قالوا من ھی یارسول اللہ قال ما انا علیہ واصحابی۔؂[4]

یعنی میری امت میں تہتر73فرقے ہونگے ۔جن میں 72جہنمی اور 1جنتی ہوگا اور وہ ہی نجات یافتہ گروہ ہے ۔صحابہ کرام نے پوچھا وہ کونسا ہے تو فرمایا ''جس طریقے (عقائد و اعمال) پرمیں (سنت رسول) اور میرے (سنت جماعت) صحابہ ہیں ۔لہذا اہل سنت و جماعت وہ گروہ ہے جو (عقائد و اعمال) میں سنت رسول اور سنت ِ جماعت ِ صحابہ کی پیروی کرتے ہیں''۔ اہل سنت و جماعت افراط و تفریط سے پاک راہ اعتدال پر گامزن ہیں اور جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء و صدیقین ،شہداء اور صالحین کو اپنے اپنے درجات کے اعتبار سے مانتے اور تسلیم کرتے ہیں نہ کسی کا مرتبہ بڑھاتے ہیں اور نہ گھٹاتے ہیں۔ ہر ایک گروہ اور فرقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھنے کا دعوی کرتا ہے ۔لیکن حق پر تو وہ ہوگا جس کے عقائد و اعمال صاحب قرآن اور ان کے اصحاب کرام کے عقائد و اعمال کے مطابق ہونگے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا : مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ؂[5] یعنی جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا : اصحابی کالنجوم فبأیھم اقتدیتم اھتدیتم؂[6]۔ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم جس کی بھی پیروی (اقتداء) کرو گے ہدایت پاؤ گے ۔دوسری جگہ فرمایا علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین ؂[7]۔یعنی تم پر میری اور میرے صحابہ کی سنت کی پیروی لازم ہے۔ یہ دونوں باتیں اہل سنت و جماعت میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں لہذا ثابت ہوا کہ فرقہ حقّہ و ناجیہ اہل سنت و جماعت ہی ہے۔بعض دلائل ذکر کیئے جاتے ہیں جن سے واضح ہوگا کہ کون سا فرقہ صحیح ہے۔ چنانچہ ختم نبوت کے بارے میں قرآن و سنت کا فیصلہ ہے کہ ماکان محمد ابآ احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ و خاتم النبیین؂[8] اور حدیث مبارکہ :انما انا خاتم النبیین لانبی بعدی؂[9] یعنی حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور صحابہ کرام کے دور میں جس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا صحابہ کرام نے اس کے خلاف قتال کیا اور یہ بات ثابت کی کہ عقیدہ ختم نبوت کا منکر کافر ہے ۔ اب قیامت تک کسی نئے نبی کا آنا ممکن نہیں ہے چاہے وہ کسی صورت میں (ظلی ،بروزی وغیرہ) ہو حتی کے اس کا امکان بھی ناممکن ہے ۔یہی عقیدہ بعینہ اہل سنت و جماعت کا ہے ۔بعض فرقوں نے ختم نبوت سے انکار کیا اور بعض نے امکان کو ممکن قرار دیا لہذا یہ افراط و تفریط دونوں واضح گمراہیاں ہیں ۔قرآن و سنت اور صحابہ کرام دونوں نے تعظیم نبی کو واجب قرار دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : یاایھاالذین امنوا لا تقولو ا راعنا و قولو ا انظرنا؂[10]۔ دوسری جگہ فرمایا :یا ایھا الذین امنوا لاترفعو ا اصواتکم فوق صوت النبی؂[11]۔

 صحابہ کرام نے اس شخص کے قتل کی اجازت چاہی جس نے عدل مصطفی علیہ السلام پر طعن کیا تھا۔ یعنی وہ گستاخ توہین نبی علیہ السلام کرنے کی وجہ سے کافر ہو گیا تھا ۔ اہل سنت و جماعت تعظیم نبی کے وجوب کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اور گستاخی کو کفر و حرام سمجھتے ہیں ۔جبکہ دوسرے فرق باطلہ صراحتاً واشارۃً اس میں ملوث ہیں۔ اسی طرح دیگر عقائد حقہ کے بارے میں اہل سنت و جماعت اور دیگر فرقوں کے درمیان فرق ہے۔ جس کے مطالعے سے عقلمند شخص بآسانی فیصلہ کر سکتا ہے کہ حق پر کونسا گروہ ہے یقینا اہل سنت و جماعت ہی حق پر ہے اور فرقہ ناجیہ ہے ۔

تابعین کرام سے لے کر اب تک تمام اکابر اولیاء و علماء اہل سنت و جماعت ہی سے تعلق رکھتے تھے اور اسی کے عقائد حقہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے رہے ہیں ۔ مثلاً(حضرت حسن بصری ﷫ 'حضرت امام ابن سیرین ﷫ ' حضرت امام ابو حنیفہ ﷫ ' حضرت امام ابو یوسف ﷫ ' حضرت امام محمد﷫ ' حضرت امام جعفر صادق ﷫ ' حضرت امام مالک ﷫ ' حضرت امام شافعی ﷫ 'حضرت سفیان ثوری ﷫ 'حضرت ابن ابی لیلہ ﷫' حضرت فضیل بن عیاض ' حضرت امام احمدبن حنبل﷫ 'حضرت امام بخاری ﷫ ' امام مسلم ﷫ ' امام ترمذی ﷫ ' امام ابو داؤد ﷫ ' امام نسائی ﷫ ' امام ابن ماجہ ﷫ ' امام طحاوی ﷫ ' امام جلال الدین سیوطی ﷫ ' امام آلوسی ﷫' علامہ ابن حجر ہیتمی ﷫ ' علامہ ابن حجر عسقلانی ﷫ 'قاضی عیاض اندلسی ﷫ ' علامہ برھان الدین مرغینانی ﷫ ' علامہ شامی ﷫ ' علامہ کاسانی ﷫ ' علامہ ابن الھمام ﷫ ' حضرت امام ربانی﷫ 'حضرت سیدنا محمد بہاؤالدین نقشبندی﷫ ' حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ﷫' حضرت سیدنا خواجہ معین الدین چشتی ﷫' حضرت سیدنا شیخ شہاب الدین سہروردی ﷫ ' حضرت خواجہ قطب الدین بختیا ر کاکی ﷫' وغیرھم من الاولیاء والعلماء) (جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ اہل سنت و جماعت ہی حق پرہے)

اہل سنت کے بعض عقائد حقہ

ذاتِ باری تعالیٰ کو وحدہ لاشریک ماننا اسے بے نظیر و بے مثل ماننا ،اس کی صفات کو ازلی ،قدیم اور ذاتی ماننا صرف اللہ کو مستحقِ عبادت ماننا اور واجب الوجود ماننا،تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کو ماننا 'فرشتوں کو ماننا 'یوم آخرت کو ماننا، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو ماننا ،حساب و کتاب کو ماننا ،نبی کریم ﷺ کو آخری نبی ماننا ،قرآن کریم کو اللہ کی نازل کردہ آخری اورمکمل کتاب ماننا،تعظیم نبی کو واجب ماننا ،اہانت رسول کو کفر سمجھنا ،شفاعت کا ماننا،تمام صحابہ اور اہل بیت ﷢ اجمعین کی تعظیم و توقیر کرنا 'خلافت راشدہ کو حق ماننا اور اسی ترتیب پر خلفاء اربعہ کی فضیلت کو ماننا 'حضرت ابو بکر صدیق ﷜کو تمام صحابہ کرام سے افضل ماننا 'سیدہ عائشہ ﷝ کی برأت کا قائل و معتقد ہونا 'توسل بالانبیاء والاولیاء کو جائز ماننا 'حیات انبیاء کو ماننا 'نداء بالرسل والاولیاء کو جائز ماننا 'شعائر اللہ کی تعظیم کرنا 'خطبہ میں خلفاء راشدین ﷢کا ذکر خیر کرنا 'قرآن کریم کو غیر مخلوق ماننا 'حدیث کو حجت ماننا، فقہ کو تسلیم کرنا ،تقلید کو جائز ماننا ،اولیاء اللہ سے بیعت کرنا ،انبیاء و صلحاء (والدین واساتذہ صحیح العقائد)کی دست و قدم بوسی کو جائز سمجھنا ،شیطان کا نبی کریم علیہ السلام کی صورت مبارکہ میں نہ آسکنا کو ماننا،حضور علیہ السلام کا علم غیب عطائی ماننا ،دُعا بعد السنن و دعا بعد نماز جنازہ (صفیں توڑنے کے بعد)کو جائز ماننا،حضور علیہ السلام کے نام نامی اسم گرامی کو سن کر انگوٹھے چومنے کو جائز ماننا،کسی قابل احترام شخص کے لئے کھڑے ہونے کو جائز ماننا،حضور علیہ السلام کی محبت کو شرطِ ایمان ماننا ،ایصال ثواب کو جائز ماننا ،بزرگانِ دین کے وصال کے دن (جسے عرس کہتے ہیں)کو ماننا ، میلادِ مصطفی ﷺ کے دن خوشی منانا وغیرھا)حضرت امام ربانی واقف متشا بہات قرآنی مجدد الف ثانی ﷫ اپنے مکتوب نمبر 91میں فرماتے ہیں :''کرنے والا ضروری کام یہ ہے کہ اولاً علمائے اہل سنت و جماعت کی آراء کے مطابق عقائد درست کیئے جائیں کیونکہ فرقہ ناجیہ (نجات پانے والا گروہ)یہی ہے۔؂[12] دوسری جگہ مکتوب نمبر ٥میں فرماتے ہیں :فرقہ صحیحہ اہل سنت و جماعت کے علماء ظاہر (فاسق معلن نہ ہوں) اگر بعض اعمال میں کوتاہی کر جاتے ہیں لیکن ذات و صفات سے متعلق ان کے عقائد کی درستگی کا جمال اس قدر نورانیت رکھتا ہے کہ ان کی کوتاہی اس نورانیت کے آگے مضحمل اور نا چیز ہو جاتی ہے اس کے بر عکس بعض صوفی ریاضات و مجاہدات کے باوجود چونکہ ذات و صفات سے متعلقہ عقائد میں وہ درستی نہیں رکھتے تو علماء ظاہر جیسا جمال و نورانیت بھی نہیں رکھتے۔ ؂[13]

حضرت مجددؒ نے کئی مکتوبات میں بیان فرمایا؛ حق سبحانہ، و تعالی ہم مفلِسوں کو اہلِ حق یعنی اہلِسنت و جماعت کے مُعتقِداتِ حقہ کی حقیقت سے موصوف کرے اور پسندیدہ اعمال کی توفیق کو ہمارا نقدِ وقت بنائے۔اور وہ احوال جو اِن اعمال کے ثمرات ہیں ان سے بہرہ مند فرمائے اور مکمل طور پر اپنی جناب قدس جل سلطانہ، کی طرف کھینچ لے۔کیو نکہ وجدو حال کی وہ کیفیتیں جو فر قہ ناجیہ اھلِسنت کے معتقِدات کی حقیقت حاصل ہوئے بغیر ہوں، سراسر استدراج ہیں۔ان کی کچھ قدرو قیمت نہیں اور ان کیفیات کو سِوائے خرابی کے اور کچھ خیال نہیں کرتے۔فرقہ ناجیہ کی اِتباع کے ساتھ جو کچھ مزید عطا فرمائیں ہم اُس پر احسان مند ہیں اور شکر بجا لائیں گے۔ اور اگر صرف عقائد حقہ کی نعمت ہی عطا فرمائیں اور وجدو حال کی کیفیات سے کچھ عطا نہ کریں تو ہمیں کچھ ڈر نہیں اور ہم راضی اور خوش ہیں۔

 ''وہ نصیحت جو لکھی جاتی ہے سب سے پہلے علماء اھلِسنت وجماعت شکراللہ تعالی سعیھم جو کہ فرقہِ ناجیہ ہے،،، کی رائے کے مطا بق عقائد کی درستی ۔

 ''الحمد للہِ و سلام علی عبادہِ الذین ا صطفٰی۔ اس راہِ (تصوف) کے طالب کو چاہیے کہ اھلِ حق شکراللہُ تعالی سعیھم کی درست آراء کے مطابق عقائد کی درستگی کے بعد احکام فقہیہ ضروریہ کے بعد اور اس علم کے مطابق عمل کرنے کے بعد اپنے تمام اوقات کو ذکرِ اِ لہی جل شانہ، میں مصروف رکھے''۔

 ''بسم اللہ الرحمٰنِ الر حیم۔ بداں ارشدَک اللہُ تعالی و الھمک سواء الصراط کہ سالک کے طریق کی جملہ ضروریات میں ایک اعتقاد صحیح ہے جسے علمائے اھلِسنت و جماعت نے کتاب و سنت اور آثارِ سلف سے استنباط کیا ہے اور کتاب و سنت کو اُن معانی پر محمول کرنا جنہیں جمہور علمائے اھلِ حق یعنی اھلِسنت وجماعت نے کتاب وسنت سے سمجھا، اور یہ بھی ضروری ہے اور اگر بالفرض ان معانی مفہومہ کے خلاف کشف والہام سے کوئی چیز ظاہر ہو تو اس کا اعتبار نہ کرنا چاہیے اور اُن سے پنا ہ مانگنی چاہیے۔

''نجات وسعادت کے آثاروالے! سب سے پہلے آدمی کو فرقہ ناجیہ اہلِسنت وجماعت رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی رائے کے مطابق جو کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت ہے عقیدے کا درست کرنا لازمی ہے تاکہ اُخروی نجات وکامیابی متصور ہو سکے اور بد اعتقادی جو اھلِسنت کے عقیدے کے خلاف ہے۔ سم قاتل ہے جو ابدی موت اور دائمی عذاب تک پہنچا تی ہے۔ 

اسعدکم اللہ سبحانہ۔ خُدائے تعالی آپ کو سعادت مند کرے ۔عقلمندوں پر سب سے اول فرض ہے کہ اپنے عقائد کو علمائے اہلِسنت وجماعت شکر اللہُ سعیھم (جو فرقہ ناجیہ ہے)
کے عقائد کے موافق درست کریں ۔بعض اُن عقائد کا بیان کیا جاتا ہے جن میں قدرِ پوشیدگی ہے۔

عقیدہ:١۔جاننا چاہیے کہ اللہ تعالی خود موجود ہے اور تمام اشیاء اُسی کی ایجاد سے موجود ہیں۔۔۔الخ

٢۔اللہ تعالی کے صفات اورافعال اور اس کی ذات بیچوں اور بے چگون ہیں اور ممکنات کے صفات اور افعال کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتے۔۔۔۔ الخ

٣۔اللہ تعالی کسی چیز میں حلول نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی چیز اُس میں حلول کرتی ہے۔۔۔۔الخ

٤۔اور حق تعالی کسی چیز سے متحدنہیں اور نہ ہی کوئی چیز اُس سے متحد ہوسکتی ہے۔۔۔۔الخ

 ٥۔اور حق تعالی اپنی ذات و صفات میں بھی غنی مطلق ہے اور کسی امر میں کسی چیز کا محتاج نہیں۔۔۔۔الخ
 ٦۔اور حق تعالی نقصان (نقص) کی تمام صفتوں اور حدوث کے نشانوں سے منزہ اور مُبرا ہے نہ جسم وجسمانی اور نہ مکانی و زمانی اور صفاتِ کمال اُسی کے لیے ثابت ہیں۔

 ٧۔اور حق تعالی قدیم اور ازلی ہے اور اُس کے سِوا کسی کے لیے ِقدم اور ازلیت ثابت نہیں تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے اور جو کوئی حق تعالی کے ما سِوا کا قدیم اور ازلی ہونے کا قائل ہوا ہے وہ کافر ہے۔۔۔۔الخ

 ٨۔اور حق تعالی قادرِ مختار ہے۔۔۔الخ

 ٩۔جاننا چاہیے کہ ممکِنات، کیا اعراض اور کیا اَجسام کیا عقول اور کیا نفوس کیا افلاک اور کیا عناصر سب کے سب اس قادرِ مختار کی ایجاد کی طرف منسوب ہیں جو اُن کو عدم (کی پوشیدگی)سے وجود میں لایا ہے۔۔۔۔الخ

 ١٠۔اور حق تعالی خیر وشر کا اِرادہ کرنے والا اور ان دونوں کا پیدا کرنے والا ہے لیکن خیر کے لیے راضی ہے جبکہ شر کے لیے راضی نہیں ہے۔۔۔۔الخ

 ١١۔اور آخرت میں مومن لوگ اللہ تعالی کو بے جہت،بے کیف، بے شبہ وبے مثال جنت میں دیکھیں گے ،یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے اہلِسنت وجماعت کے سِوا تمام اھلِ مِلت  اورغیر مِلت فرقے منکر ہیں۔۔۔۔الخ

 ١٢۔ انبیاء کرام علیھمُ السلام کا مبعوث ہونا اھلِ جہاں کے لیے سراسر رحمت ہے۔

 ١٣۔اور قبر کا عذ اب کافروں اور بعض گنہگار مو منوں کے لیے حق ہے مُخبرِ صادقﷺ نے اس کی نسبت خبر دی ہے۔

 ١٤۔قبر میں مومنوں اور کافروں سے منکر ونکیر کا سوال بھی حق ہے۔

 ١٥۔روزِ قیامت حق ہے۔اُس دن آسما ن و زمین اور ستارے ،پہاڑ، سمندر، حیوان،نباتات اور معدنیات سب کے سب معدوم اور نا چیز ہو جائیں گے۔

 ١٦۔حساب،میزان اور پُل صِراط حق ہیں کہ مُخبرِ صادقﷺ نے ان کی نسبت خبر دی ہے۔

 ١٧۔بہشت ودوزخ موجود ہیں قیامت کے دن حساب لینے کے بعد ایک گروہ کو بہشت میں اور ایک گروہ کو دوزخ میں بھیج دیں گے اُن کا عذاب وثواب ابدی ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا جیسے کہ قطعی وپختہ نصوص اس امر پر دلالت کر تی ہیں۔(اس مکتو ب کی تفصیل میں حضرت مجددؒ نے باری تعالی سے ہر نقص و عیب کی بھی نفی ثابت کی ہے۔''فلا تحسبن اللہ مُخلِفَ وعدہ رسلہ۔۔۔ الخ آپؒ نے باری تعا لی سے امکانِ کذب کے عیب کی نفی کی ہے۔ اور آپؒ فرماتے ہیں ؛ پس اس آیت سے گو یا خلاف وعدہ کی بھی نفی ہو گئی اور خلاف وعید کی بھی ۔ نیز خلفِ وعید بھی خلف وعدہ کی طرح مستلزم کذب واجب تعالی ہے اور اس کی شان کے لائق نہیں ۔ واجب تعالی کے لیے ایسے معنی کو جائز قرار دینا جس سے خلاف وعدہ یا وعید لازم آئے نہایت ہی بُرا ہے۔اِمکانِ کذب سے واجب تعالی منزہ و مبرا ہے عند اھل السنۃ و الجماعۃ۔ تو قائلین اِمکان کذب بد عقیدہ ہیں وہ حضرت مجددؒ کے فرمان پر غور کریں۔مؤلف)

 ١٨۔فرشتے اللہ تعالی کے بندے ہیں جو گناہوں سے معصوم اور خطاونسیان سے محفوظ ہیں۔
 ١٩۔ایمان ،ان تمام دینی امور کے ساتھ جو ضرورت اور تواتر کے طریق پر ہم تک پہنچے ہیں، تصدیق قلبی سے مُراد ہے۔

 ٢٠۔اولیا ء اللہ کی کرامتیں حق ہیں۔

 ٢١۔فضیلت کی ترتیب خلفاء راشدین کے درمیان خلافت کی ترتیب موافق ہے لیکن شیخین کی افضلیت صحابہ اور تابعین کے اجماع سے ثابت ہے۔(١٣) (مکتوب نمبر 264،ص568،حصہ چہارم دفتر اول جلد2)

"التعرف" میں امام کلابازیؒ نے صوفیاء کے عقائد بیان کیے:

تمام صوفیاء کا اجماع ہے کہ اللہ ایک ہے، تنہا ہے، منفرد ہے، بے نیاز ہے، قدیم ہے، عالم ہے، قادر ہے، زندہ ہے، سمیع ہے، بصیر ہے، غالب ہے، عظیم ہے، جلیل ہے، کبیر ہے، سخی ہے، مہربان ہے، بہت بڑا ہے، جبّار ہے، باقی ہے، اوّل ہے، معبود ہے، سردار ہے، مالک ہے، پروردگار ہے، رحمن ہے، رحیم ہے، ارادہ کرنے والا ہے، حکیم ہے، متکلم ہے، خالق ہے، رازق ہے، اور ان تمام صفات سے متصف ہے جو اس نے بیان کی ہیں اور ان تمام ناموں سے موسوم ہے جو اس نے اپنے لیے مقرر کر رکھے ہیں وہ اپنے ناموں اور صفات کے ساتھ ازل سے ہے اور وہ کسی لحاظ سے بھی مخلوق کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتا، نہ اس کی ذات دیگر ذاتوں سے مشابہت رکھتی ہے، نہ اس کی صفات، تمام وہ امور جن سے مخلوق کے حادث ہونے کا پتا چلتا ہے، ان کا اس پر اطلاق نہیں ہوسکتا، وہ ازل سے ہے سب سے پہلے ہے اور تمام مخلوق کے پہلے ہی سے موجود ہے، اس کا وجود ہر چیز سے پہلے ہے، اس کے سوانہ کوئی قدیم ہے اور نہ اس کے سوا کوئی معبود، نہ وہ جسم ہے نہ شبح، نہ صورت، نہ وجود، نہ جوہر اور نہ عرض، نہ وہ جمع ہوتا ہے اور نہ متفرق، نہ متحرک ہے نہ ساکن، اس میں کمی یابیشی نہیں ہوسکتی، اس کے نہ اجزا ہیں نہ حصّے، اس کے نہ جوارح ہیں نہ اعضا، اس کی کوئی جہت ہے نہ مکان، اس پر آفات کا اثر نہیں پڑسکتا اور نہ اسے اونگھ آتی ہے، نہ اس پر وقت کا اثر ہوتا ہے اور نہ اشارے اسے معیّن کرسکتے ہیں، اسے کوئی مکان نہیں گھیر سکتا اور زمانہ کا اس پر اطلاق نہیں ہوسکتا۔ اسے کوئی چھو نہیں سکتا۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ عزلت گزین ہے۔ اور نہ وہ کسی جگہ حلول کیے ہوئے ہے۔ نہ فکر اس کا احاطہ کر سکتی ہے اور نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔ بصارت اسے پا نہیں سکتی۔؂[14]

 (زیر نظر کتاب ''کتاب الوصیۃ'' جو سیدنا سراج الامۃ امام اعظم ابو حنیفہ ﷫ کی تصنیف لطیف ہے ۔جس میں حضرت امام ابو حنیفہ﷫نے بارہ خصائل یعنی(عقائد)بیان کیئے ہیں جو اہل سنت و جماعت سے تعلق رکھتے ہیں تاکہ ان عقائد صحیحہ کو اختیار کر کے آخرت میں سرخرو ہو سکیں)۔

فضائل صحابہ وافضلیت ابوبکر صدیق ﷢

وہ تمام حضرات جنھوں نے حضور نبی کریم ﷺ کی ظاہری حیات طیبہ (جو 63سالہ دور پر مشتمل تھی)میں اعلانِ نبوت کے بعد آپ کو دیکھایاملاقات کی اور ایمان قبول کیا اور پھر ایمان پر ہی اس کی موت واقع ہوئی ہو وہ ''صحابی''کہلاتا ہے ۔جیسا کہ کتب میں ہے:من لقی النبی ﷺ مومنا بہ ومات علی الایمان فھو صحابی؂[15]۔ان حضرات کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا: رضی اللہ عنہم ورضواعنہ ؂[16] یعنی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔دوسری جگہ ارشاد فرمایا :(محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم) ؂[17]محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو اُن کے ساتھ (صحابی) ہیں وہ کفار پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں ۔واضح ہوا کہ تمام صحابہ (من الاوّل الی الآخر) اللہ کے پسندیدہ اور مقبول الایمان والاعمال بندے ہیں ۔حتیٰ کے اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے صحابہ کرام کے ایمان کو میزان حق اور میعارِ قبولیت بنادیا ہے ۔ارشاد ربانی ہے:

واذا قیل لھم اٰمنوا کما آمن الناس قالوا أنؤمن کما آمن السفھاء الا انھم ھم السفھاء ولکن لا یعلمون؂[18]۔

اور جب اُن (منافقین)سے کہا جائے کہ اُسطرح ایمان لاؤ جس طرح لوگ (صحابہ کرام) ایمان لائے تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں خبردار وہ (منافقین)خود ہی بے وقوف ہیں مگر وہ جانتے نہیں)اس لئے کہ صحابہ کرام اخلاص کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے۔ نفسانی اغراض سے ان کے نفوس قدسیہ پاک و صاف تھے۔حضور سید عالم ﷺ کی صحبت با برکت نے انہیں اعلیٰ روحانی مقام عطا فرمادیا تھا۔حضور نبی کریم علیہ التحیہ والتسلیم نے انکے بارے میں فرمایا : کہ اگر میرا صحابی ایک مُد یا صاع یا ایک کھجور کی گٹھلی اللہ کی راہ میں خیرات کرے اور بعد میں آنے والے لوگ (غیر صحابی) اُحد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کریں تو صحابی کی گٹھلی خیرات کرنا افضل اور بہتر ہے۔''اسی لئے اھل سنت و جماعت (خلفاً وسلفاً)کا یہ عقیدہ ہے کہ ''تمام اولیاء ملکر بھی ایک صحابی کے درجے تک نہیں پہنچ سکتے ''اور صحابہ کرام کے آپس کے جھگڑے اللہ کی مشیت پرموقوف ہیں کیونکہ ان کی خطا اجتہادی تھی اور یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ اجتہادی خطا نہ صرف معاف ہے بلکہ اس پر ایک اجر بھی ہے ۔'' لہذا صحابہ کرام کا ذکر خیر ہی کرنا لازم ہے ۔اسی میں ایمان کی سلامتی اور عافیت ہے ۔قرآن کریم اور نبی کریم علیہ السلام نے مختلف مواقع پر صحابہ کی فضیلت و عظمت بیان فرمائی ہے ۔جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ۔ ان الذین یبا یعونک تحت الشجرۃ انما یبایعون اللہ ۔۔۔ید اللہ فوق ایدیھم۔؂[19] بے شک جن لوگوں (صحابہ کرام)نے اے حبیب علیہ السلام درخت کے نیچے آپ سے بیعت کی انہوں نے یقینا اللہ سے بیعت کی ۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے ۔دوسری جگہ فرمایا:یا ایھاالنبی حسبک اللہ ومن اتبعک من المؤمنین؂[20]۔ اے نبی ﷺ آپ کو اللہ اور آپ کی اتباع کرنے والے مؤمنین (صحابہ کرام) کافی ہیں۔ اصول حدیث کی کتابوں میں یہ جملہ موجود ہے : الصحابۃ کلھم عدول یعنی صحابہ کرام تمام کے تمام عادل (دیانتدار اور امین) ہیں ۔کیونکہ کلام الہی اور کلام رسول علیہ السلام انہی کے واسطے اور ذریعے سے امت کو ملا ہے ۔

حضرت مجدد ؒ نے مکتوبات میں فرمایا :'' اللہ تعالی نے فرمایا ہے ۔( محمد رسول اللہ والذین اٰ منوا معہ، اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رُکعا سجد ایبتغون فضلا من اللہ ورضوانَا۔ سورۃ فتح ٢٦) ترجمہ: محمدﷺ ، اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو آپؐ کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے لیے بڑے سخت گیر ہیں۔اور آپس میں بڑے مہربان ہیں تم ان کو رکو ع اور سجدہ کی حالت میں دیکھو گے وہ اللہ تعالی کے فضل اور اس کی رضا مندی کے طالب ہیں ۔۔۔الی قولہِ تعالی ''لیغیظ بھم الکفار وعد اللہ الذین اٰ منو ا وعملوا الصالحٰتِ منھم مغفر ۃ و اجراًعظیمَا۔ ترجمہ: تاکہ ان کےساتھ کافروں کو غصہ دلائے۔اللہ تعالی نے ان لوگو ں سے جو ایمان لائے اور کام اچھے کئے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔'' حضرت حق سبحا نہ، و تعالی نے اس آیتِ کریمہ میں رسول اللہﷺ کے تمام صحابہ کی اس کمال مہربانی کی وجہ سے جو وہ آپس میں رکھتے تھے ،مد ح فر مائی ہے ۔ کیونکہ رحیم جو کہ رحماء کا واحد ہے مہربانی میں مبالغہ کو متضمن ہے اور چونکہ صفت مشبہ استمرار پر بھی دلالت رکھتی ہے چاہئے کہ انکی آپس میں مہربانی استمرار اور دوام کی صفت پر ہو کیارسو ل اللہ کی زندگی میں اور کیا آپﷺ کے وصال کے بعد ، پس جو کچھ ایک دوسرے کے حق میں مہربانی کے منافی ہے۔اس کی ان بزرگوں سے ہمیشہ نفی کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ بُغض و کینہ و حسدوعداوت کے احتمال کو ہمیشہ ہمیشہ ان سے منتفی ہو نا چاہیے ۔پھر جب تمام صحابہ کرام اس پسندیدہ صفت سے متصف ہوں جیسا کہ کلمہ '' والذین'' کا مقتضا ہے جو کہ عموم اور استغراق کے صیغو ں سے ہے تو پھراکابرِ صحابہ کے متعلق کیا کہا جائے کہ ان میں تو یہ صفت اتم و اکمل ہو گی یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا میری امت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ مہربا ن ابو بکرؓ ہیں ''اور فاروقِ اعظم ؓ کے متعلق فر ما یا ۔''اگر میرے بعد کوئی نبی ہو تا تو عمرؓ ہوتے۔''شیخ شبلیؒ نے فر مایا '' جو آدمی رسول اللہﷺ کے صحابہ کی تعظیم نہیں کرتا اس کا رسو ل اللہﷺ پر کوئی ایمان نہیں ہے''۔۔۔۔حضرت صدیقؓ قرآنی نص کے فیصلے کے مطابق اس امت کے بہترین آدمی ہے۔کیونکہ تمام مفسرین کا اجماع ہے ، کیا حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور کیا دوسرے مفسر کہ ، یہ آیت کریمہ: ''وسیجنبُھا الا تقٰی ۔۔۔۔الخ اور جہنم سے الگ رہے گا جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے : حضرت ابو بکر کی شان میں نازل ہوئی اور ا تقٰی سے مراد وہ (صدیقؓ) ہیں ۔امام فخر الدین رازی ؒ نے اس آیت کریمہ سے حضرت ابوبکر ؓ کی افضلیت پر استدلال کیا ہے کیونکہ بحکم ِ آیتِ کریمہ :ان اکرمکم عند اللہ ِ اتقٰکم ۔۔'' اللہ کے نزدیک تم میں سے افضل ترین آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ '' اور جب حضرت ابو بکر صدیق بحکم نصِ سابق اس امت کے پر ہیز گارترین آدمی ہیں تو چاہیے کہ خدا تعالی کے نزدیک اس امت کے معزز ترین آدمی بھی وہی ہوں۔۔۔جاننا چاہیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کتا ب و سنت کے مبلغ ہیں اور اجماع بھی انہی کے زمانے سے وابستہ ہے۔۔۔ اصحابِ پیغمبر علیھم الصلاۃ والسلام سب عدول ہیں ۔ اور جو کچھ بھی ہمیں ان کی تبلیغ سے کتاب و سنت سے ملا ہے سب حق اور سچ ہے ۔ اور وہ جھگڑے اور تنازعات جو ان اکابرین میں حضرت علی ؒ کی خلافت میں واقع ہوئے ہیں وہ ہوا اور ہوس اور حُبِ جا ہ وریاست کی وجہ سے نہ تھے بلکہ اجتہاد و استنباط کی بنا پر تھے اگر چہ اجتہاد میں ایک فریق خطا پر تھا اور اس کااستنبا ط صواب سے دور تھا ۔ اہلِ سنت و جماعت کے علماء کا متفقہ عقیدہ ہے کہ ان جھگڑوں میں حق بجانب حضرت علیؓ تھے۔ اور حضرت امیرؓ سے لڑنے والے خطا پر تھے لیکن یہ خطا جس کا منشا اجتہاد ہے طعن وملامت سے دور ہے ۔ مقصود حقیقت جانب امیر ہے اور خطا بجا نب مخالفِ امیر ۔ کہ اہلِ سنت اس کے قائل ہیں اور مخا لف کو لعن طعن کرنا زیادتی ہے اور بے فائدہ ہے بلکہ اس میں نقصان کا احتمال ہے کہ وہ پیغمبر علیہ السلام کے اصحاب ہیں اور بعض ان سے وہ ہیں جن کو جنت کی بشارت ملی ہے اور کچھ بدری ہیں جن کو بخش دیا گیا ہے اور عذاب اُخروی ان سے مطلقاََ مر فو ع ہے چنا نچہ صحیح احادیث میں آیا ہے : ''اطلع اللہ علی اھلِ بدر فقال اعملوا ما شئتم فانی قد غفرت لکم ''۔ (بخاری و مسلم ) اللہ تعالی نے اہلِ بدر پر جھانکا اور کہا کہ جو چا ہو عمل کرو یقیناََ میں نے تمہیں بخش دیا ہے ۔'' اور کچھ وہ ہیں جو بیعتِ رضوان سے مشرف ہو ئے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فر مایا کہ کوئی بھی ان میں سے دوذخی نہیں ہے بلکہ علماء نے فر مایا ہے کہ قر آن مجید سے مفہوم ہو تا ہے کہ تمام صحابہ کرام جنتی ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا : لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولٰئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعدِ و قاتلوا و کلاو عد اللہ الحسنی واللہ بما تعملون خبیر۔ تر جمہ : برابر نہیں ہیں تم میں سے وہ آدمی جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی یہ لوگ بہت بڑے درجے والے ہیں بہ نسبت ان لوگوں کے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور لڑائی کی اور ہر ایک سے اللہ تعالی نے حسنٰی (بھلائی) کا وعدہ کیا ہے۔ اور اللہ تعالی تمھارے اعمال سے خبر دار ہے''۔ اورحسنٰی جنت ہے پس صحابہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے مال خرچ کیا اور لڑائی کی یا بعد از فتح مکہ ان سب کو جنت کا وعدہ ہے ۔ علماء نے کہا ہے کہ انفاق اور قتال کی نسبت قید کے لیے نہیں ہے بلکہ مدح کے لیے ہے کیونکہ تمام صحابہ کرام ان دو صفات سے متصف تھے پس سب کو جنت کا وعدہ ہے ملا حظہ کرنا چاہیے کہ اس قسم کے بزر گواروں کو برائی سے یاد کرنا اور ان کے متعلق بد گمانی رکھنا انصاف اور دیا نت سے کتنا دور ہے ؟۔۔۔ خدا تعالی اس جماعت (جو صحابہ کرام کو بُرا کہتے ہیں) کو انصاف دے کہ اکابرین سے اپنی زبان روکیں اور پیغمبر علیہ السلام کی صحبت کے حق کو ملحو ظ رکھیں۔ رسول اللہﷺ نے فر مایا : ''اللہ اللہ فی اصحابی لا تتخذوھم غرضامن بعدی فمَن اَحبھم فبحبی احبھم و من ابغضھم فببغضی ابغضھم'' یعنی میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے ڈرو اور میرے بعد ان کو نشانہ نہ بنا لینا جس نے ان سے محبت رکھی تو میری محبت کی وجہ سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کی وجہ ان سے بغض رکھا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے : ذالک مثلھم فی التو راۃ و مثلھم فی الا نجیل. ان کی یہ مثال تورات میں بھی تھی اور ان کی یہ مثال انجیل میں بھی تھی۔ ''(٥٤)

ایک اور مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں :نجات و بزرگی کے نشانات والے ۔! اہلِ سنت وجماعت کی علامات میں سے ہے۔شیخین (حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما) کو فضیلت دینا اور حضور علیہ السلام کے دو دامادوں (حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنھما)سے محبت رکھنا اور شیخین کو افضل جاننے کا عقیدہ جبکہ ختنین (عثما ن و علی رضی اللہ عنھما ) کی محبت کے ساتھ جمع ہو تو یہ اہلِ سنت و جماعت کے خصائص میں سے ہے۔ شیخین کو افضل قرار دینے کا عقیدہ صحابہ اور تابعین کے اجماع سے ثابت ہو چکا ہے۔ چنانچہ اسے اکابر ائمہ نے نقل کیا ہے ۔ ان میں سے ایک امام شافعیؒ ہیں ۔اور شیخ ابو الحسن اشعریؒ فر ماتے ہیں کہ ابو بکر و عمر ؓ کا باقی سب امت سے افضل ہو نا قطعی ہے اور حضرت علی ؓ سے بھی تواتر سے ثابت ہو چکا ہے کہ آپ نے اپنی خلافت و حکو مت کے وقت ایک بہت بڑے گروہ میں فرمایا کہ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنھما اس امت کے سب سے افضل وبہتر ہیں جیسا کہ امام ذہبی ؒ نے کہا ہے ۔۔۔

وہ شخص بہت ہی جاہل ہے جو اہل سنت و جماعت کو حضرت علی کے محبوں میں سے نہ جانتا ہو اور حضرت علیؓ کی محبت کو شیعوں کے ساتھ رکھتا ہو ۔ حضرت علی کی محبت شیعت نہیں ہے ۔خلفاء ثلا ثہ کی شان میں تبرا بازی (گالی دینا ، بُرا کہنا ، ان سے بیزاری کا اظہار کر نا)رفض ہے اور اصحاب کرام سے بیزاری ، مذموم وقا بل ملامت ہے۔۔۔۔پس رسول اللہﷺ کے محب اہل سنت ہیں اور فی الحقیقت اھل بیت کا گروہ بھی یہی لوگ ہیں ۔۔۔کیونکہ اہل بیت کرام سے محبت نہ رکھنا خروج یعنی خارجی بننا ہے اور صحابہ سے بیزاری رفض ہے اور تمام صحابہ کرام کی تعظیم و تو قیر کے ساتھ ساتھ اہل بیت سے محبت رکھنا سنیت ہے۔۔۔ اہلِ بیت کی محبت اہل سنت کا سر مایہ ہے۔ مخالفینِ اہلِ سنت اس حقیقت سے بے خبر ہیں اور اس متو سط و معتد ل محبت سے جاہل ہیں۔ ۔۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاجو حبیبِ رب لعٰلمین کی محبو بہ اور آ پﷺ کی تا لبِ قبر مقبول و منظور رہیں ۔ اور حضرت پیغمبر علیہ السلام نے مر ض موت کے ایام ان کےحجرہ شریفہ میں گزارے اور ان کی گود میں جان دی ۔اور ان کے حجرہ مطہرہ میں مدفون ہوئے۔اس کے ساتھ ساتھ حضرت صدیقہ عالمہ مجتہدہ تھیں اور پیغمبرﷺ نے نصف دین کے بیا ن کو ان کے حوالے کیا اور صحابہ کرام مشکل احکام میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اور مشکل مسائل کا حل ان سے پاتے تھے اس طرح کی صدیقہ مجتہدہ کو حضرت امیر کی مخالفت کی وجہ سے مطعون کرنا ، اور نا شائستہ چیزوں کو ان کی طرف منسوب کرنا بہت نا منا سب اور پیغمبر علیہ السلام پر ایمان رکھنے سے بہت دور ہے۔ حضرت امیر اگر حضور علیہ السلام کے داماد اور آپ کے چچا کے بیٹے ہیں تو حضرت صدیقہ حضور علیہ الصلا ۃ و السلام کی زوجہ مطہرہ اور آپ کی محبوبہ اور مقبول با رگاہ رسالتﷺ ہیں۔۔۔۔ پس جو رنج و اذیت حضور علیہ السلام کو حضرت صدیقہ ؓ کی راہ سے پہنچتی ہے وہ اس رنج و ایذاء سے زیادہ ہے جو حضرت امیر ؓ کی راہ سے آپ کو پہنچتی ہے جبکہ حضرت امیر کی محبت و تعظیم ،حضرت پیغمبر علیہ السلام کی محبت وتعظیم اور آپ کے واسطہ قرابت کی وجہ سے ہو اور اگر کوئی شخص حضرت امیر ؓ کی محبت استقلالاََ اختیار کرے اور حضرت پیغمبر علیہ السلام کی محبت کو دخل نہ دے تو وہ (شخص ) بحث سے خارج ہے اور خطاب کے لائق نہیں ۔ ایسے شخص کی غرض دین کا ابطال اور شریعت کی ویرانی ہے۔ ایسا شخص چاہتا ہے کہ بے واسطہ پیغمبر علیہ السلام راہ اختیا ر کرے اور حضرت محمدﷺ کو چھوڑ کر حضرت علیؓ کی طرف آئے۔اور یہ عین کفر اور محض بے دینی ہے اور حضرت علی ؓ ایسے شخص سے بیزار اور اس کے کردار سے دُکھ اور تکلیف میں ہیں ۔۔۔''

 نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا :میرے اصحاب کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ جو ان سے محبت رکھے گا میری محبت کی وجہ سے رکھے گا۔ اور جو اُن سے بغض رکھے گا میر ے بغض کی وجہ سے رکھے گا ۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ صحابہ کرام﷢ اللہ اور اس کے رسول کی نظر میں نہایت معزز و مکرم ہیں۔ مگر جو فضیلت و مرتبہ حضرت سیدنا ابو بکرصدیق ﷜ کے حصے میں آیا وہ محتاج بیان نہیں ہے۔

 قرآن کریم نے اللہ کے نزدیک معتبر قریب اور مقبول ہونے کا ذریعہ تقویٰ کو بیان فرمایا۔ ارشادِ باری ہے ! ان اکرمَکم عنداللہ اتقٰکم۔؂[21] بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ مکرم(عزت والا)وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے ۔ یعنی تقویٰ معیار ِ فضیلت اور عزت ہے ۔ قرآن کی اس آیت کریمہ وسیجنبھا الاتقی الذی یؤتی مالہ یتزکی۔؂[22] اور عنقریب بچا لیا جائےگا(یعنی جہنم سے)اُس شخص کو جو سب سے زیادہ متقی ہے ۔یہاں اتقیٰ سے مراد باتفاق مفسرین حضرت ابوبکر صدیق﷜ ہیں ۔ لہذا اس پر اجماع امت ہوا ۔ اور اس کا انکار گمراہی ہے ۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت ابوبکر ﷜ سب سے زیادہ متقی ہیں اور متقی ہی اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے تو حضرت ابوبکر صدیق ﷜سب صحابہ سے افضل علیٰ الاطلاق ہوئے ایمان کی تعریف تمام کتب معتمدہ میں اس طرح ہے :( الایمان ھو التصدیق بما جاء بہ النبی ﷺ) تو تصدیق جتنی کامل اور قوی ہوگی اتنا ہی ایمان قوی اور کامل ہوگا ۔ اور ایمان کی صفائی اور کاملیت کی ہی بنا پر افضلیت کی بنا ہوتی ہے۔ اور یہ بات قرآن و حدیث و اقوال صحابہ سے بلا شبہ ثابت ہے کہ تصدیق و تسلیم میں حضرت ابوبکر صدیق ﷜ نہ صرف کامل بلکہ اکمل ترین تھے۔

 قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے والذی جاء بالصدق وصدّق بہ اولئک ھم المتقون؂[23]۔یعنی اور وہ جو صدق لے کر آئےاور جس نے اُس کی تصدیق کی وہی لوگ متقی ہیں '' اس آیت میں وصدق بہ سے حضرت ابوبکر صدیق ﷜کی ذ ات مُراد ہے۔ اُس صحابی رسول ﷺ کی افضلیت میں کیا شک ہو سکتا ہے جس کی صحابیت کو خود قرآن بیان فرمارہا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔۔۔ اذ ھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا ؂[24] اس لیے جمہور علماء اہل حق نے حضرت ابوبکر صدیق ﷜ کی صحابیت کے انکار کو کفر لکھا ہے کہ یہ نصِ قرآنی کا انکار ہے ۔

 احادیث کریمہ میں نبی اکرمﷺ نے اپنے اس محبوب صحابی کے بارے میں جو ارشادات فرمائے اُن سے حضرت ابوبکر صدیق ﷜ کے مرتبہ عالیہ کا تعین واضح طور پر ہوجاتا ہے ۔ واقعہ معراج کی بلا کسی جھجک اور ہچکچاہٹ کے تصدیق کرنے پر نبی آخرالزماں (فداہ امی وابی واسرتی) نے صدیق کا لقب عنایت فرماکر اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی دوسری صف میں اولیت کے مقام پر فائز فرمادیا ۔جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔

اولٰئک انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین؂[25]۔۔۔ یعنی ابنیاء کرام علیہم السلام کے بعد صدیقین کا مرتبہ ہے اور صدیقین کے سر خیل حضرت ابوبکر صدیق﷜ ہیں۔ لہذا افضل الخلق بعد الانبیا ء بالتحقیق قرار پائے ۔

 حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: فضیلۃ الصدیق لیس بکثرۃ الصلوۃ والصوم ولکن شییٴ ودعت فی قلبہ؂[26]۔اوکماقال علیہ السلام یعنی حضرت ابوبکر صدیق ﷜ کی فضیلت دیگر صحابہ کرام ﷢ پر کثرت صوم و صلاۃ کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک شے کی وجہ سے ہے جو اُن کے دل میں ڈالی گئی ہے۔ (یعنی اخلاص کامل،تصدیق کامل، تقویٰ کامل اور محبت کامل) نبی علیہ السلام نے فرمایا ۔ ما طلعت الشمس ولاغربت بعد النبیین والمرسلین علی احد افضل من ابی بکر یعنی ''ابنیا ورسل کے بعد کسی شخص پر سورج طلوع و غروب نہ ہوا جو حضرت ابوبکر صدیق ﷜سے افضل ہو'' ۔ افضل ہونے نہ ہونے کا دارومدار عمل کی صفائی و قوت پر ہے نہ کے صرف کثرت پر۔ یعنی عمل کا زیادہ ہونا افضل و بہتر ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ عمل میں حُسن و جمال و قوت و اخلاص کا ہونا اس کے افضل و بہتر ہونے کی دلیل ہوتی ہے ۔ قرآن کریم میں ہے۔ الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا؂[27] وہ ذات جس نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ تمھیں آزمائے کہ کون اچھا عمل کرتا ہے ۔ (اس میں کثرت عمل نہیں بلکہ حُسن عمل پر بہتری کا فیصلہ فرمایا گیاہے)، حضور ﷺ نے فرمایا : کہ بہتر عمل وہ ہے جس پر دوام ہو اگرچہ وہ تھوڑا ہو اوکماقال،حضور ﷺ نے فرمایا : کہ میرے صحابی کا ایک صاع گندم وغیرہ یا کھجور کی گٹھلی خیرات کرنا بعد والوں کے احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرنے سے افضل ہے ۔ کیونکہ صحابی کی ایک گٹھلی خیرات کرنے میں جو حُسن ، قوت و اخلاص ہے وہ بعد والوں کے سونا خیرات کرنے میں نہیں ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق ﷜کے حُسن عمل و اخلاص کی گواہی حضرت عمر ﷜ (محدّث الامۃ کا لقب جن کو بزبان رسول ﷺ عطا ہوا)دیتے ہیں کہ کاش میری ساری نیکیاں حضرت ابوبکر ﷜ کی ایک غار والی نیکی کے برابر ہوتی ۔ اور غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت عمر ﷜ نے خیال کیا کہ میں اس دفعہ نیکی میں حضرت ابوبکر﷜ سے بڑھ جاؤں گا اور گھر کا آدھا سامان بارگاہ نبوی ﷺ میں پیش کیا جب کہ حضرت ابو بکر صدیق ﷜ نے اپنے گھر کا سارا سامان آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر کردیا تو آپ ﷜ نے فرمایا کہ میں کبھی بھی ابوبکر صدیق ﷜ سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ﷝ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں اور نبی کریم علیہ السلام رات کو آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کیا آسمان کے ستاروں کے برابر بھی کسی کی نیکیاں ہیں تو آپ نے فرمایا ہاں حضرت عمر ﷜ کی تو حضرت عائشہ ﷝ غمگین ہوگئیں تو آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ کیا ہوا انہوں نے کہا میں نے خیال کیا تھا کہ میرے والد (ابوبکر صدیق ﷜)کی اتنی نیکیاں ہوں گی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ عمر ﷜ کی ساری نیکیوں سے ابو بکر﷜ کی ایک نیکی بہتر ہے ۔

 صحابہ کرام ﷢ بھی حضرت ابوبکر صدیق ﷜ کی افضلیت کے قائل تھے کیونکہ قرآن اور صاحب قرآن کو وہ سب سے زیادہ جانتے تھے اس لیے وہ یہ بات جانتے تھے کہ حضرت ابو بکر صدیق﷜ کا مرتبہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں کتنابلند ہے ۔ حضرت محمد بن حنفیہ ﷜ نے اپنے والد محترم (حضرت علی کرم اللہ وجہہ)سے پوچھا کہ نبی کریم علیہ السلام کے بعد سب سے بہتر کون شخص ہے تو حضرت علی ﷜ نے فرمایا ابوبکر ﷜ (میں نے پوچھا) پھر کون توفرمایا عمر﷜۔۔۔الخ حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ ہم زمانہ نبوی ﷺ میں ابوبکر صدیق ﷜ کے برابر کسی کو نہیں جانتے تھے پھر ان کے بعد حضرت عمر ﷜پھر حضرت عثمان ﷜ اس کے بعد ہم اصحاب رسول میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دیتے تھے۔ '' (یعنی علی العموم)

علامہ لقا نی ﷫ '' ہدایۃ المرید لجوھرۃ التوحید '' میں فرماتے ہیں ۔ تمام صحابہ کرام سے افضل اہل حدیبیہ ہیں اور اہل حدیبیہ سے افضل وہ حضرات ہیں جو غزوؤ اُحد میں شامل ہوئے، اُن سے افضل اہل بدر ہیں ، اہل بدر سے عشرہ مبشرہ اور عشرہ مبشرہ سے افضل خلفاء اربعہ اور خلفاء اربعہ سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ﷜ ہیں ۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ اہل سنت کے دو اماموں امام ابو منصور ماتریدی ﷜ اور ابو الحسن اشعری ﷜ کے نزدیک خلیفہ ء اول سب سے افضل ہیں پھر جو ان کے بعد پھر جو اُن کے بعد پس سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ﷜ ہیں اور پھر حضرت عمر ﷜پھر حضرت عثمان﷜ پھر حضرت علی ﷜ ۔

 حضرت امام غزالی ﷫ فرماتے ہیں ۔

 اصل فضیلت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہے اور اس پر صرف رسول اللہ ﷺ ہی مطلع ہوسکتے ہیں ، احادیث کثیرۃ میں خلفاء راشدین کی تعریف وارد ہے۔ فضیلت اس کی ترتیب حالات کے قرائن سے صرف وہی لوگ جان سکتے ہیں جن کے سامنے وحی نازل ہوتی رہی اور قرآن پاک نازل ہوتا رہا، اگر وہ ا س ترتیب کو نہ پہچانتے تو خلافت کو اس طرح ترتیب نہ دیتے کیونکہ انہیں کوئی حق سے نہ روک سکتا تھا۔

 حضرت علامہ تفتازانی ﷫ '' فرماتے ہیں کہ '' ہم نے سلف اور خلف کو اسی طریقے پر پایاہے۔ (یعنی ترتیب خلافت کے مطابق فضیلت کے قائل تھے)ظاہرہے کہ اگر ان کے پاس اس کی دلیل نہ ہوتی تو وہ اس کا قول نہ کرتے۔

 علامہ ابنِ حجر﷫ نے اپنے فتوی میں فرمایا : خود حضرت علی مرتضی ﷜ سے روایت ِ صحیحہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے بعد تمام لوگوں سے افضل ابو بکر﷜ ہیں پھر عمر ﷜ پھرایک اور مرد آپ کے صاحبزادے حضرت محمد بن حنفیہ ﷜ نے عرض کی پھر آپ ﷜ ؟ توفرمایا تمھارا باپ تو مسلمانوں میں سے ایک مرد ہے'' رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ اسی لیے اہل سنت یعنی صحابہ تابعین اور ان کے بعد والے اس بات پر متفق ہیں کہ تمام صحابہ کرام سے افضل حضرت ابو بکر﷜ ہیں پھر حضرت عمر﷜۔ خاتمہ فتاویٰ میں دوسری جگہ علامہ ابن حجر ﷜ سے پوچھا گیا کہ خلفاء اربعہ میں فضلیت قطعی ہے یا اجتہادی؟

 حضرت ابن حجر نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر کی افضلیت خلفاء ثلاثہ پر پھر حضرت عمر کی فضیلت باقی دو خلفاء پر اہل سنت کے نزدیک اجماعی ہے اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور اجماع یقین کا فائدہ دیتاہے۔''

امام ذہبی ﷫ فرماتے ہیں : ونقطع بان ابابکر وعمر افضل الامۃ ثم تتمۃ العشرۃ المشہود لھم بالجنہ ۔؂[28]

 طبقات ابنِ سبکی میں حارث بن سریج کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم بن عبداللہ حجبی سے سنا کہ وہ امام شافعی ﷫ سے کہہ رہے تھے کہ میں نے آپ کے علاوہ کسی ہاشمی کو نہیں دیکھا جو حضرت ابوبکر ﷜ کو حضرت علی ﷜ پر فضیلت دیتا ہو تو امام شافعی ﷫ نے فرمایا کہ حضرت علی ﷜ میرے چچا اور میری خالہ کے صاحبزادے ہیں میں بنی عبد مناف سے ہوں اور تم بنی عبدالدار سے ہو ، اگر حضرت علی ﷜ کو افضل ماننے میں کوئی فضیلت ہوتی تو میں اس فضیلت کا زیادہ حقدار تھا لیکن معاملہ اس طرح نہیں ہے جس طرح گمان کیا جاتا ہے ۔ حضرت امام شافعی ﷫ سے روایت ہے :۔

 رسول اللہ ﷺ کے بعد صحابہ کرام﷢ سخت پریشان تھے، انہیں آسمان کی نیلی چھت کے نیچے حضرت ابو بکر صدیق ﷜ سے افضل کوئی آدمی نہیں ملا اس لیے انہوں نے انہیں خلیفہ بنالیا۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔

 (بر کات آل رسول ﷺ ۔ علامہ نبہانی ٥۔٣۔٩۔٣؁) نبی کریم ﷺ نے اپنے مرض وفات شریف میں حضرت ابو بکر صدیق ﷜ کو لوگوں کا امام بننے کا حکم فرمایا ۔ جیسا کہ حضرت سیدہ عائشہ ﷝ سے صحیحین میں روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنی بیماری والے دن میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میرے پاس اپنے والد(ابو بکر صدیق ﷜)اور اپنے بھائی کو بلاؤ تاکہ میں ابو بکر﷜ کے لیے وصیت لکھ دوں کچھ لمحے بعد فرمایا۔ اللہ اور مسلمان ابو بکر صدیق ﷜ کے علاوہ کسی پر راضی نہیں ہیں ۔" وہ اولین و آخرین کے تمام اولیاء سے افضل ہیں ۔ اس پر اجماع ہے اور رو افض کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اور یہ بات اھل علم پر مخفی نہیں ہے کہ امامت کے لیے افضل ہونا ضروری ہے (لیکن ہمارے اس دور کی امامت جو تنخواہ پر ہوتی ہے پر قیاس نہ کیا جائے۔مترجم)

 جب نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کی موجودگی میں ابو بکر صدیق ﷜ کو امامت کا حکم فرمایا تو اس سے ابو بکر صدیق﷜ کی افضلیت ظاہر ہوئی کیونکہ اگر ان کے علاوہ آپ علیہ السلام کی نگاہ میں کوئی اور افضل ہوتا تو آپ ﷺ انہیں امامت کا حکم نہیں فرماتے ۔ لہذا آپ﷜ تمام صحابہ کرام ﷢ سے افضل اور خلیفہ حق ہیں ۔ (شرح فقہ الاکبر)اسی لیے اکابر صحابہ کرام ﷢ نے فرمایا کہ جس شخص سے ہمارے دین کے معاملے میں نبی کریم علیہ السلام راضی ہیں ہم اپنے دنیاوی معاملے میں ان سے راضی کیوں نہ ہوں ؟

 لہذا ابو بکر صدیق ﷜ اور عمر فاروق ﷜ کی افضلیت اہل سنت کے نزدیک متفق علیہ ہے۔ شرح فقہ اکبر میں ہے '' ابو بکر صدیق ﷜ کی افضلیت قطعی ہے کہ انہیں نبی کریم ﷺ نے امامت کا حکم اپنے نائب ہونے کی حیثیت سے فرمایا ۔حضرت صدیق ﷜ کی افضلیت اور خلافت پر صحابہ کرام ﷢ کا اجماع ہے اور اجماع صحابہ حجت قاطعہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا''ان امتی لا تجتمع علی الضلالۃ۔۔۔وعلیکم بالسواد الاعظم ''؂[29] یعنی میری اُمت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی '' اس کے علاوہ اور بھی وجوہات ہیں ۔ جن کی وجہ سے سیدّنا ابو بکرصدیق ﷜افضل الصحابہ قرار پائے ۔ لہذا امتِ مسلمہ کا متفقہ عقیدہ ہے کہ افضل الناس بعد الانبیا ء بالتحقیق ابو بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد لوگوں میں سب سے افضل سیدّ نا ابوبکر صدیق ﷜ ہیں ۔

بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ افضلیت (ابی بکر الصدیق ﷜)عقیدہ نہیں بلکہ (محض) عقیدت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ افضلیت یا فضیلت محض عقیدت نہیں بلکہ عقیدہ ہے۔ اس لیے کہ اگر یہ محض عقیدت ہوتی تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ قران کریم میں یہ ارشاد نہ فرماتا: تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض۔۔۔الخ ؂[30] یعنی یہ جماعت انبیاء کرام (رسل)اس میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا ولقد فضلنا بعض النبیین علی بعض۔۔۔الخ ؂[31] اور تحقیق ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی۔

تو کیا اللہ جل شانہ کو ان میں سے بعض سے عقیدت تھی اور بعض سے نہیں حالانکہ وہ بے نیاز ہے کسی کا محتاج نہیں ۔ مزید ارشاد گرامی ہے۔ ولقد کرمنا بنی اٰدم۔۔۔الخ ؂[32] اور یقینا ہم نے بنی آدم کو مکرم کیا۔ یعنی دیگر مخلوقات پر فضیلت بخشی۔ ایک اور جگہ فرمایا: فضل اللہ المجاہدین باموالھم وأنفسھم علی القٰعدین درجۃ وکلا وعداللہ الحسنیٰ۔۔الخ ؂[33] یعنی اللہ تعالیٰ نے ان مجاہدین کو (جنہوں نے جان و مال دونوں سے جہاد کیا) قاعدین (وہ مجاہدین جنہوں نے صرف مال سے جہاد کیا) پر ایک درجہ فضیلت دی ہے اور سب کے لیے اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔توکیا اللہ تعالیٰ کو مجاہدین سے عقیدت ہے اور قاعدین سے عقیدت نہیں حالانکہ دونوں گروہ صحابہ کرام ﷢ کے ہیں ۔ جن کے بارے میں رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ۔کی بشار ت وارد ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی آیات کریمہ ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ افضلیت (فضیلت) محض عقیدت نہیں بلکہ عقیدہ (صحیحہ) ہے۔اوریہ اللہ کا فضل ہےجس پر چاہے فرمادے۔

نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا۔احلت لی الغنائم ـ میرے لیے اللہ نے غنیمت کو حلال فرمایا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے، جعلت لی الارض مسجدا وطہورا۔ یعنی میرے لیے (اور میرے وسیلے سے میر ی امت کے لیے) ساری زمین کو مسجد بنادیا گیا ہے اور اسے پاک کردیا گیا ہے۔ایک اور حدیث مبارکہ ہے ۔اناسید ولد آدم یوم القیامۃ ولافخر۔ یعنی میں یوم قیامت اولاد آدم کا سردار ہونگا اوراس پر فخر نہیں ۔ دوسری جگہ اسی مفہوم کی حدیث ہے۔ اناسید الناس یوم القیامۃ۔ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہونگا۔اوریہ سرداری کابیان فخر کے لیے نہیں بلکہ اظہار حقیقت ونعمت کے طورپر ہے تحت قولہ تعالیٰ واما بنعمۃ ربک فحدث (سورہ ضحیٰ)۔ کیا یہ باتیں عقیدت کے طورپرہیں ۔ہرگزنہیں بلکہ امت کی تعلیم کے لیے ہیں کہ ان کے مطابق اپنا عقیدہ رکھیں۔(فافہم)

سیدہ عائشہ صدیقہ عفیفہ ﷝ کے بارے میں فرمایا:فضل عائشۃ علی النساء کفضل الثرید علی سائر الطعام۔۔۔الخ؂[34]  یعنی سیدہ عائشۃ ﷝ کی فضیلت دیگر عورتوں پر اس طرح ہے جس طرح ثرید (کھانے کی قسم)کو دیگر (تمام) کھانوں پر حاصل ہے۔ توکیا نبی کریم علیہ السلام کو صرف سیدہ عائشہ ﷝ سے عقیدت باقی ازواج مطہرات سے نہیں ہے!۔(فتدبر ولاتکن من المتعصبین)

 مطالع ا لمسرات شرح دلائل الخیرات للعلامہ محمد مہدی فاسی ﷫(اردوترجمہ علامہ عبدالحکیم شرف قادری نقشبندی ﷫) کے ص ٢٦٣،٢٦٤ پر مقام محمود کی تشریح میں ہے: فضیلت ایک ایساامر ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے معلوم ہوسکتاہے۔دلیل سمعی کے بغیر اس کا فیصلہ نہیں کیاجاسکتا۔۔ اس پر سب ہی متفق ہیں کہ آپ علیہ السلام تمام مخلوق سے افضل ہیں ۔ البتہ آئمہ کرام نے اس میں گفتگو کی ہے کہ جب عقیدہ یہ ہے کہ نبی کریم علیہ السلام سب سے افضل ہیں توکیا یہ کہاجاسکتاہے کہ فلاں نبی مفضول ہیں یا پاس ادب کے طور پر یہ بات نہیں کہی جائے۔الخ

اس عبارت سے معلوم ہواکہ فضیلت محض عقیدت نہیں بلکہ عقیدہ (صحیحہ) ہے۔ نیز عقیدت اکثر وبیشتر چھوٹے کو بڑے سے ہوتی ہے چاہے وہ عمر کے اعتبار سے بڑا ہو یا مرتبے کے اعتبار سے ہوجبکہ فضیلت میں یہ بات نہیں ہوتی ۔ چھوٹے کی فضیلت بڑابھی بیان کرسکتاہے اور بڑے کی فضیلت چھوٹا بھی بیان کرسکتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے قائل ہوسکتے ہیں ۔ لہذا جب اللہ اوراس کے رسول ﷺ نے کسی کی فضیلت بیان کی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کو کسی سے عقیدت ہے جب کہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور اس کے بعد مخلوقات میں سے اپنے حبیب کریم ﷺ کو بڑابنایا ہے اور اللہ اور اس کا رسول کسی کی عقیدت کے محتاج نہیں بلکہ تمام مخلوق اللہ اور اس کے رسول کی عقیدت و محبت کے محتاج ہیں ۔ لہذا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ افضلیت (فضیلت)عقیدہ نہیں محض عقیدت ہے۔(واللہ ورسولہ اعلم بالصواب)

مسئلہ نفس فضیلت تو قطعی ہے کہ قرآن و حدیث سے صراحتًا ثابت ہے کہ اللہ تعالی نے بعض انبیاء کرام کوبعض پر اور بعض صحابہ کرام کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے جیسا کہ قرآن میں ہے :

(١) تلک الرسل فضلنا بعضھم علیٰ بعض ۔۔۔الخ۔ (٢) ولقد فضلنا بعض النبیین علیٰ بعض۔۔۔۔الخ۔ (٣) فضل اﷲ المجا ھدین باموالھم وانفسھم علٰی القعدین درجۃ۔۔۔الخ۔ (٤) للرجال علیھن درجۃ۔۔الخ۔

اسی طرح بعض کو بعض پر مختلف معاملات میں فضیلت عطا کی ہے مثلاً مال، دولت،حسن وغیرہ میں۔ قرآن میں ہے :

 (١) فضل اﷲ بعضھم علٰی بعض فی الرزق۔۔۔الخ۔(٢) وفوق کل ذی علم علیم ۔ (٣) قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون۔(٤) وعلمناہ من لدنا علما۔

اور احادیث مبارکہ بھی اس پر شاھد عادل ہیں۔جیسا کہ مدینہ منورہ،مکہ مکرمہ اور بیت المقدس میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مساجد سے کہیں افضل وزیادہ ہے۔

اسی طرح نماز باجماعت منفرد نماز سے افضل ہے۔فرض نماز نفل سے افضل ہے۔

تدارس العلم ساعۃ من اللیل خیر من احیاھا۔افضل الثیاب البیاض۔المؤمن القوی خیر من المؤمن الضعیف وغیرھا۔لہذامخلوق کے ما بین نفس فضیلت قطعی ویقینی ہوئی۔ہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کسی معین شخص کی فضیلت قطعی ہے یا ظنی؟ تو بعض شخصیات کی فضیلت قطعی ہے اور بعض کی ظنی ہے۔ جیسے اولوالعزم رسولوں کی دیگر انبیاء کرام پر اور سیدالانبیاء علیہ التحیۃوالثناء کی تمام انبیاء کرام ورسل عظام علیہم السلام پر فضیلت قطعی ہے۔ بہت سے خصائص ودلائل کی بناء پر مثلاً تخلیق میں سب سے اول ہونا ،خاتم النبیین ہونا،سید ولد آدم علیہ السلام ہونا،قرآن کریم جیسی لافانی کتاب کا حامل ہونا اور شفاعت کبریٰ وغیرھا سے متصف ہونا۔ اسی طرح امت مصطفی ﷺ کی فضیلت دیگر امتوں پر قطعی ہے کیونکہ وہ خیر امم ہے۔ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس ...الخ؂[35] امت وسط ہے۔ امۃ وسطا لتکونوا شھداء علٰی الناس ...الخ اس امت کے اولیاء دوسری امتوں کے اولیاء سے افضل ہیں ۔کثرت ثواب اور معرفت الٰہی کی قوت اور کامل اتباع نبوی ﷺ کے اعتبار سے ۔ کیونکہ امت کی فضیلت اس کے نبی کی فضیلت کے مطابق ہوتی ہے۔ اور اس امت مرحومہ میں حضرات شیخین ابوبکر وعمر﷟ کی باقی امت پر فضیلت قطعی ہے ۔جیساکہ حضرت امام ربانی ﷫ واقف متشابہات قرآنی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرھندی﷫ نے فرمایا:

افضلیت شیخین بر باقی امت قطعی است انکار نہ کند مگر جاہل متعصب؂[36]۔ یعنی شیخین (ابوبکر و عمر ﷟)کی فضیلت باقی تمام امت پر قطعی ہے اس سے صرف جاہل متعصب ہی انکار کر سکتا ہے۔شرح عقائد نسفی ص١٥٠میں ہے: افضل البشر بعد نبینا ابوبکر الصدیق رضی اﷲ عنہ ۔ہمارے نبی ﷺ کے بعد تمام لوگوں میں سے ابوبکر صدیق افضل ہیں۔ دار قطنی میں یہ حدیث ہے ماطلعت الشمس ولاغربت علٰی احد افضل من ابی بکر۔

احیا ء العلوم ص١١٩ میں امام غزالی ﷫ نے لکھا ہے : افضل الناس بعد النبی ﷺ ابوبکر ثم عمر ثم عثمان ثم علی رضی اﷲ عنھم۔یعنی نبی کریم ﷺ کے بعد تمام لوگوں سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی رضی اﷲ عنہم اجمعین ہیں۔

ص١٤٦ پر لکھتے ہیں :ان الامام الحق بعد رسول اﷲ ﷺ ابوبکرثم عمر ثم عثمان ثم علی رضی اﷲ عنھم ۔ص٣٥پر لکھتے ہیں : وکان فضلہ رضی اﷲ عنہ بالسرالذی وقر فی قلبہٖ۔یعنی ابو بکر صدیق کی فضیلت اس راز (اخلاص وفنائیت رسول ﷺ وغیرہ) کی وجہ سے جو ان کے دل میں اعزاز سے سجادیا گیا ہے۔ البدایہ والنھایہ ج٧ص٣٢١پر ہے:قد ثبت عنہ بالتواتر انہ قال علی منبر الکوفۃ"ایھاالناس ان افضل ھذہ الامۃ بعد نبیھا ﷺ ابوبکرثم عمر ولو شئت ان اسمی الثالث لسمیت"۔یعنی حضرت علی﷜ سے تواتر سے منقول ہے کہ انہوں نے کوفہ کی مسجد کے منبر پر ارشاد فرمایا اے لوگو اس امت کے بہترین افراد نبی کریم ﷺ کے بعد ابوبکر ہیں پھر عمر ﷟ اور اگر میں چاہوں تو تیسرے شخص کا نام بھی لے سکتا ہوں اور دوسری جگہ یہ بھی تاکیداًفرمایا: لا اجد احداً فضلنی علٰی ابی بکر وعمر الا جلدتہ حد المفتری۔؂[37] یعنی میں کسی شخص کوبھی پاؤں کہ وہ مجھے ابوبکر ﷜ وعمر ﷜ پر فضیلت دیتا ہے تو میں اسے مفتری (الزام لگانے والے) کی حد میں اسی (80)کوڑے لگواؤں گا۔حضرت ابن عربی ﷫ فتوحات مکیہ باب٩٣۔ پر فرماتے ہیں :اعلم انہ لیس فی امّۃ محمد ﷺ من ھو افضل من ابی بکر غیر عیسی علیہ السلام کما فی الیواقیت والجواھر؂[38] ۔یعنی جان لو کہ اس امت محمدیہ ﷺ میں کوئی نہیں ہے جو ابوبکر صدیق ﷜ سے افضل ہوسوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ﷫ لکھتے ہیں :ہر بچہ جانتا ہے کہ اہل سنت کی تمام کتابوں میں افضل البشر بعد الانبیاء ابوبکر صدیق ﷢ ہیں ۔؂[39] حضرت علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی ﷫ فرماتے ہیں : اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ انبیاء کرام علیہ السلام کے بعد تمام عالم سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ﷜ ہیں ، ان کے بعد حضرت عمر ان کے بعد حضرت عثمان ان کے بعد حضرت علی ﷢۔ علامہ محمودہزاروی اپنی کتاب ــ فضائل امیر معاویہ ﷜ میں لکھتے ہیں :اجماع صحابہ ہے کہ حضرت ابوبکر ﷜ کی افضلیت علی جمیع صحابہ ﷢ہے ، اس اجماع کا منکر شذ فی النار کی وعید کے تحت ہے۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی تفسیر نورالعرفان ص٩٨٣ پر فرماتے ہیں : بعد انبیاء ابو بکر صدیق ﷜ کا بڑا پرہیزگارہونا بھی قرآن سے ثابت اور بڑے پرہیزگار کا افضل ہونا بھی قرآن سے ثابت ہے۔ لہذا افضلیت صدیق ﷜ قطعی ہے۔علامہ عبد العزیز پرھاروی فرماتے ہیں :قولہ کنا نخیر تصریح علٰی الاجماع ۔ یعنی اس حدیث کے الفاظ ـ کنا نخیر میں اجماع پر تصریح موجود ہے۔؂[40] حضرت مخدوم محمد ھاشم ٹھٹھوی الطریقہ الاحمدیہ فی حقیقۃ القطع بالافضلیۃ ص،٦ پر لکھتے ہیں : فی کلامہ دلالۃ علٰی ان من فضل علیاً علٰی الشیخین فھو خارج من اھل السنۃ والجماعۃ۔ یعنی ان کے کلام میں اس بات پر دلالت ہے کہ جس نے حضرت علی ﷜ کو شیخین کریمین ﷟ پر فضیلت دی تو وہ اہل سنت وجماعت سے خارج ہے ۔ مرام الکلام ص ٤٦ پر ابن عساکر سے حدیث مروی ہے: قال ابو ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کنا معاشر اصحاب رسول اﷲ ﷺ ونحن متوافرون نقول افضل ھٰذہ الامۃ بعد نبینا ابوبکر ثم عمر ثم عثمان۔ یعنی ہم اصحاب ِرسول ﷺ جو کثرت سے ہیں کہتے تھے کہ اس امت میں نبی کریم ﷺ کے بعد افضل شخصیت ابوبکر ﷜ ہیں پھر عمر ﷜ پھر عثمان ﷜ ہیں ۔السنۃ للخلال ص٦٠٧ پر ہے: عن حامد بن یحیٰ البلخی قال کان احمد بن حنبل یذھب فی التفضیل ابوبکروعمروعثمان وعلی رضی اﷲعنھم اجمعین۔ یعنی حامد بن یحیٰ بلخی روایت کرتے ہیں کہ احمدبن حنبلؒ فضیلت میں اس کے قائل تھے کہ ابوبکر سب سے افضل ہیں پھرعمر پھر عثمان پھر علی ﷢ ہیں ۔امام نووی ﷫ فرماتے ہیں : اتفق اھل السنۃان افضلھم ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ثم عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ؂[41] اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام ﷢ میں سے افضل ابوبکر ﷜ ہیں پھر عمر ﷜ ۔امام جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء ص٣٧ پر لکھتے ہیں :

 اجمع اھل السنۃ ان افضل الناس بعد رسول اﷲ ﷺ ابوبکر ثم عمر ثم عثمان ثم علی ثم سائرالعشرۃثم باقی اھل البدرثم باقی اھل احدثم باقی اھل البیعۃ ثم باقی الصحابۃھٰکذا حکی الاجماع علیہ ابو منصور البغدادی ۔

اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے بعد تمام لوگوں میں افضل ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی ﷢ ہیں ،پھر باقی عشرہ مبشرہ پھر اہل بدر پھراہل اُحدپھر بیعت کرنے والے پھرباقی صحابہ کرام ﷢ اس طرح ابو منصور بغدادی رحمہ اللہ نے اجماع نقل کیا ہے۔حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلو ی ﷫ فرماتے ہیں :ابو ثور از شافعی روایت می کند کہ یکے از صحابہ وتابعین درتفضیل ابوبکر و عمر ایشاں اختلاف نکرد۔؂[42] یعنی ابو ثور امام شافعی سے روایت کرتے ہیں کہ کسی صحابی و تابعی نے ابوبکر وعمر کی افضلیت کا انکار نہیں کیا ۔امام نووی میگوید کہ افضل اصحابی علی ا لاطلاق ابوبکر است بعد ازاں عمر باجماع اھل سنۃ ۔؂[43] یعنی امام نووی ﷫ نے فرمایاکے ابوبکر﷜ علی الاطلاق تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں اس کے بعد عمر﷜ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ﷫ لکھتے ہیں :جان لو کہ جمہور اہل سنت وجماعت اسی ترتیب پر ہیں جو ہم نے بیان کر دی مگر امام مالکؒ وغیرہ سے حضرت عثمان ﷜ وحضرت علی ﷜ کے درمیاں توقف وخاموشی منقول ہے۔؂[44] ۔ شرح فقہ اکبر ص٦٣ میں ہے: وتفضیل ابی بکر وعمر رضی اﷲعنھما متفق علیہ بین اھل السنۃ وھٰذا الترتیب بین عثمان و علی رضی ﷲ عنھما ھو ما علیہ اکثر اھل السنۃ ۔یعنی ابی بکر و عمر ﷟کی فضیلت باقی صحابہ کرام پر اہل سنت کے نزدیک متفق علیہ ہے اور عثمان وعلی﷟کے درمیان بھی اکثر اہل سنت کے نزدیک ہے۔شرح فقہ اکبر ص٦١ پر لکھاہے:

فھو افضل الاولیاء من الاولین والآخرین فقدحکی الاجماع علٰی ذٰلک ولا عبرۃ بمخالفۃالروافض ھنالک وقد استخلفہ علیہ السلام فی الصلوٰۃ فکان ھو الخلیفۃ حقاً وصدقاً ۔

 یعنی ابوبکر صدیق ﷜ اولین وآخرین کے تمام اولیاء سے افضل ہیں اور اس پر اجماع ہے اور یہاں روافض کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔اور یقیناً آپ ﷺ نے انہیں نماز میں اپنا خلیفہ بنایا تو وہ یقیناًسچے خلیفہ ہیں ۔ازالۃ الخفاء ص٣٠٢ج ١ پر شاہ ولی اﷲ﷫ فرماتے ہیں کہ ملت اسلامیہ میں افضلیت شیخین کا مسئلہ قطعی ہے۔ مذکورہ بالا دلائل سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوا کہ افضلیت شیخین کا مسئلہ قطعی ہے اس کا انکار اہل سنت سے خروج اور گمراہی ہے ۔ (نجانااﷲتعالیٰ منہ)(ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اس کا انکار کفر نہیں کیونکہ ضروریات دین میں سے نہیں ہے۔مگر ان کی صحابیت کا انکار کرنا کفر ہے کہ یہ نص قرآنی سے ثابت ہے)بعض لوگوں کے نزدیک یہ مسئلہ ظنی ہے لیکن یہ انکی اپنی ذاتی (بلادلیل قوی کے) رائے ہے نہ کہ مجتہدین کا قول ہے۔اور اگر ظنی مان بھی لیا جائے تو ظنی بایں معنیٰ ہوگا کہ وہ دلیل ظنی یعنی قطعی سے کم درجے کی دلیل سے ثابت ہو اور اسکا انکار قطعی(قطعی الثبوت والدلالۃ)کے انکار کی طرح کفر نہ ہو مگر گمراہی ضرور کہلائے گی کیونکہ یہ مذہب حق وفرقہ ناجیہ اہل سنت وجماعت کے مخالف ہے۔ بقیہ اصحاب کرام کی آپس میں فضیلت یقیناًثابت ومشروع ہے مگر علی الاطلاق نہیں بلکہ من وجہ اور جزئی ہے۔جیساکہ حضرت خزیمہ ﷜ کی گواہی دو مردوں کے برابر تھی جو نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں انھیں عطا فرمائی تھی یا حضرت حنظلہ ﷜ جو غسیل الملائکۃ تھے حالانکہ یہ خوبی ان خلفاء راشدین میں نہیں پائی گئیں ۔یا حضرت سیدۃ فاطمۃ ﷝ اور حضرت سعد بن ابی وقاص ﷜ کے لیے آپ علیہ السلام کا یہ فرمانا فداک ابی وامی۔ (علیٰ ھذاالقیاس) لیکن باوجود ان خوبیوں کے یہ حضرات خلفاء راشدین سے مطلقاًافضل نہیں اگر چہ جزئی فضیلت انھیں حاصل ہے۔ (فافھم) باقی کسی کا ائمہ کرام کی عموعی عبارات سے من مانا مطلب نکال کر مبالغہ آرائی سے کام لینا اور غلط استدلال کر کے مسئلے کو پیچیدہ بناناغیر دانشمندی ہے اور تعصب کی طرف اشارہ ہے جبکہ اس طریقے سے ان کا مقصد بھی انھیں حاصل نہیں ہوسکتا ۔صاحبان ِ علم ودانش تامل وتدبر سے یہ بات جان سکتے ہیں۔ نیزاس بات کا خیال رکھنا بھی اشد ضروری ہے کہ کسی صحابی کی فضیلت کا اظہار اس انداز (تحریراً یا تقریراً) سے ہو کہ وہ دوسرے صحابی کی تحقیر و توہین پر مبنی ہو تو یہ ناجائز ہے اور محرومی کا سبب ہے کیونکہ تمام صحابہ کرام ﷢ اﷲ اور رسول ﷺ کے مقبول اور نجات یافتہ ہیں اور آپ ﷺ نے ان کے بارے میں اﷲ کا خوف دلایا ہے کہ انھیں برے لفظوں سے یاد کیا جائے۔

 ﷲ ﷲ فی اصحابی لا تتّخذوھم غرضا من بعدی فمن احبھم فبحبّی احبھم ومن ابغضھم فبِبغضی ابغضھم۔

خاص کر جن کی فضیلت جمہور کے نزدیک مسلّم بھی ہو مثلاً خلفاء راشدین خصوصاً شیخین کریمین ﷟۔ کیونکہ حدیث شریف میں ہے :یداﷲ علی الجماعۃ ۔ اﷲ کا ہاتھ (بلا کیف) جماعت (جمہور) پر ہے۔اور لا تجتمع امتی علی الضلالۃ : یعنی میری امت (اکثر اہل علم وتقوٰی و فضل) گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی لہذا جمہور مسلمانوں کا عقیدہ افضلیت غلط نہیں ہوسکتا اس سے اعراض کرنا سبیل المؤمنین سے اعراض کرنا ہے جو کہ گمراہی ہے ۔ ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولیہ ما تولی ونصلیہ جھنم وساء ت مصیراً۔ نیز فضیلت کا تعین کرنابھی ہر کس و ناکس کا منصب و کام نہیں ہے بلکہ اصولی طور پر تو وحی کے ذریعے صاحب وحی ﷺ ہی کا منصب ہے اور آپ ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اکابر اھل علم و فضل صحابہ کرام ﷢ اور آئمہ مجتہدین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے جو درجات ِ فضیلت کی ترتیب بیان فرمادی ہے وہی قرین صواب وحق ہے اور اس اسکی مخالفت میں سوائے خرابی کے کوئی بات نظر نہیں آتی۔ واﷲ اعلم بحقیقۃ الحقائق ۔ بعض حضرات اس غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں کہ'' افضلیت کی ترتیب ، خلافت کی ترتیب پر منحصر ہے''اور اس کے ذریعے انہوں نے افضل کی موجودگی میں مفضول کی امامت کے جواز و عدم ِ جواز پر بحث کرنے کی کوشش کی مگر دو الگ الگ باتوں کو خلط ملط کر دیا جس کا نتیجہ بہر حال غلط ہی ہوتا ہے ۔حالانکہ ترتیبِ خلافت پر افضلیت کا دارومدار نہیں ہے کیونکہ اگر خلافت کی ترتیب یہ نہ بھی ہوتی تو بھی افضلیت پر فرق نہ پڑتا کہ شیخین کریمین ﷟ امت کے افضل ترین افراد ہیں ۔ مگر مسئلہ سمجھنے اور سمجھانے میں ضرور دقت پیش آتی تو یہ اﷲ کا فضل ہوا کہ ترتیب خلافت بھی اسی طرح وقوع پذیر ہوئی جس طرح افضلیت تھی۔اس لیے بعض اہل علم وفضل نے ترتیب کو بیان کرکے افضلیت کی بات سمجھائی تا کہ ہر خاص وعام سمجھ سکے مگر ان کے قول سے ہرگز یہ پتہ نہیں چلتا کہ خلافت کی ترتیب پر افضلیت کا دارومدار ہے ۔ ہاں یہ بات ہوسکتی ہے کہ تقدیم خلافت ایک وجہ فضیلت ہو ۔(واﷲ ورسولہ اعلم بالصواب)۔امام بخاری ﷫ نے صحیح بخاری کی کتاب الاذان میں باب اھل العلم والفضل احق بالامامۃ باندھا ہے یعنی اہل علم اور فضیلت والا شخص امامت کا زیادہ حق دارہے۔ یعنی افضل ہونے پرخلافت کا حق دارٹھہرا جاتا ہے نہ کہ خلافت ملنے پر افضلیت کا دارومدار ہے اور یہ بات خلافتِ ظاہری سے پہلے کی ہے ۔حدیثِ مبارکہ: لاینبغی لقوم فیھم ابوبکر ان یؤمھم غیرہ۔یعنی جس قوم میں ابوبکر صدیق ﷜ موجود ہوں تو ان کے علاوہ کسی اور کاامام بننا مناسب (جائز)نہیں۔ حضرت علامہ علی قاری ﷫ لکھتے ہیں :فیہ دلیل علی انہ افضل جمیع الصحابۃ فاذا ثبت ھذا فقد ثبت استحقاق الخلافۃ۔یعنی اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ ابوبکر ﷜ تما م صحابہ کرام﷢ سے افضل ہیں جب یہ ثابت ہو گیا تو خلافت کا استحقاق بھی ثابت ہو گیا ۔

 عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان رسول اﷲ ﷺ قال:اری اللیلۃ رجل صالح کان ابابکر نیط برسول اﷲ ونیط عمر بابی بکر ونیط عثمان بعمرقال جابر:فلما قمنا من عند رسول اﷲ ﷺ قلنا اما الرجل الصالح فرسول اﷲ واما نوط بعضھم ببعض فھم ولاۃ الامر بعث اﷲ بہٖ نبیہﷺ۔؂[45]

نبی کریم علیہ السلام نے خواب دیکھا حضرت ابو بکر صدیق ﷜ آپ کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں ان کے ساتھ عمر ﷜ اور ان کے ساتھ عثمان ﷜ لٹکے ہوئے ہیں ۔ اس کی تعبیر یہ ہے کہ آپس میں لٹکنے والے اسی ترتیب سے خلفاء ہونگے ۔ اس مقصد کے لیے جو مقصد دیکر اﷲ تعالی نے اپنے نبی کو بھیجا ہے۔ ما فضل ابوبکر بکثرۃالصلوٰۃ والصوم ولٰکن بالسر الذی و قر فی قلبہ۔ یعنی ابو بکر صدیق ﷜ کی تم پر فضیلت صرف نماز ،روزوں کی کثرت وجہ سے نہیں بلکہ اس راز کی وجہ سے ہے جو ان کے سینے میں سجادیا گیا ہے۔ ھو نص صریح فی انہ افضلھم ۔؂[46] یہ نص صریح ہے اس بات میں کہ ابوبکر ﷜ تمام صحابہ کرام ﷢ میں افضل ہیں ۔کما شھد لہ سید المرسلین ﷺ ؂[47]  جیسا کہ سید المرسلین ﷺ نے اس بات شہادت دی ہے ۔

 عن صلۃ بن زفر قال علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذا ذکر عندہ ابوبکر قال السباق یذکرون السباق قال : والذی نفسی بیدہ ما استبقناہ الی خیر قط الا سبقنا الیہ ابوبکر۔ المعجم الاوسط للطبرانی۔؂[48]

صلہ بن زفر سے روایت ہے کہ حضرت علی ﷜ کے سامنے جب ابو بکر﷜ کا ذکر ہوتا تو وہ فرماتے کہ وہ سبقت والے ہیں تو لوگوں نے سبقت والوں کے بارے میں پوچھا ، آپ ﷜ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ہم کبھی کسی خیر کی طرف آگے نہیں بڑھے مگر ابو بکر صدیق﷜ اس کام میں ہم سے آگے بڑھ گئے ۔

عن علی والزبیر رضی ﷲ عنھما انا نری ابابکر احق الناس بھا بعد رسول اﷲ ﷺ انہ لصا حب الغار وثانی اثنین وانا لنعلم بشرفہ وکبرہ ولقد امر رسول اﷲ ﷺ بالصلوٰۃ بالناس وھو حی۔ ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ۔

یعنی حضرت علی ﷜ وزبیر﷜ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے بعد ابوبکر ﷜ کو خلافت کا سب سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ صاحب ِغار اور ثانی اثنین تھے اور ہم آپ کے شرف اور عظمت کو جانتے تھے ۔اور نبی کریم ﷺ نے اپنی موجودگی میں انھیں لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا ۔یہ صحیح حدیث ہے۔؂[49]

افضل الناس بعد رسول اﷲ ﷺ ابوبکر الصدیق ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ثم علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنھم۔؂[50] اور اہل سنت کی علامات میں بھی یہ فرمایا : تفضیل الشیخین حُب الختنین والمسح علی الخفین۔؂[51]

 کان ابوبکر الصدیق من النبی ﷺ مکان الوزیرفکان یشاورہ فی جمیع اُموروکان ثانیہ فی الاسلام وکان ثانیہ فی الغار وکان ثانیہ فی الجیش یوم بدر وکان ثانیہ فی القبر ولم یکن رسول اﷲ ﷺ یقدّم علیہ احداً۔؂[52]

یعنی ابوبکر صدیق ﷜ نبی ﷺ کے وزیر تھے ،آپ ﷺ اِن سے ہر کام میں مشورہ کرتے تھے اور وہ اسلام میں دوسرے شخص تھے، وہ غار میں ثانی تھے، وہ یوم بدر میں سائبان میں ثانی تھے، وہ قبرمیں ثانی ہیں اور آپ ﷺ اُن پر کسی کوبھی مقدم نہیں فرماتے تھے۔

علامہ باقلانی نے الانصاف میں ص٦٥ میں لکھا ہے: کان رضی اﷲ افضل الامۃ وارجحھم ایماناً واکملھم فھماً واوفرھم علماًواکثرھم حلماًوبہ نطق قولہ ﷺ لو وزن ایمان ابی بکربایمان اھل الارض لرجح ایمان ابی بکر علی ایمان اھل الارض۔

 کنزالعمال ص ٢٥٩میں ہے : خلقت انا وابوبکر وعمرمن طینۃ واحدۃ۔یعنی میں ﷺ ، ابوبکر ﷜ ، وعمر ﷜ ایک ہی مٹی سے پیدا ہوئے ۔شاہ ولی اﷲ نے(قرۃالعینین ص٣٣١) پرفرمایا ہے:در صدیق تشبہ باعتبار فناء وانعکاس اشعۃ بیشتر یافتم ۔ یعنی فناء اور نور نبوت کی شعاعوں کے انعکاس کے اعتبار سے ابوبکر صدیق ﷜ میں مشابہت بہت زیادہ ہے۔حضرت امام ابو حنیفہ﷫ (جو امام جعفر ﷜ کے شاگرد رشید بھی ہیں اور امام جعفر ﷜ اھل بیت کرام ﷢ کی اعلی علمی ومنفرد شخصیت ہیں اور ان کے علوم کے امین ہیں) نے امام جعفر ﷜ صادق کی خدمتِ عالیہ میں دو سال اکتساب فیض حاصل کیا ہے اور ان سے عقائد وفضائل علوم ومعارف حاصل کیے ہیں ۔حضرت امام ابو حنیفہ﷫نے بھی افضلیت کی ترتیب اسی طرح بیاں فرمائی ہے اور خود بھی اسی کے قائل ومعتقد تھے جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ حضرت امام جعفر ﷫ اور دیگر اکابر اہل سنت بھی افضلیتِ خلفاء راشدین خصوصاًشیخین کریمین ﷟ کے قائل ہیں ۔غایت ما فی الباب یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو افراط وتفریط اور غلو سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہنا چاہیے اور صحابہ کرام اور اہل بیتِ کرام ﷢ اجمعین سے محبت والفت اور ادب واحترام کا تعلق عقیدت و حقیقت پسندی کے ساتھ استوار رکھیں اور خواہ مخواہ ایسے نازک مسائل پر غیر احتیاطی اندازسے بحث ومباحثہ کرکے امت کے اندر انتشار وافتراق کو پھیلانے سے بچنا چاہیے۔جب ہمیں اپنے ایمان کی کیفیت وتقوی کے درجات کا ہوش نہیں تو صحابہ کرام ﷢ (جو شرفِ صحبت نبوی ﷺ رکھتے ہیں) جیسی عظیم ہستیوں کا تعین اپنی ناقص عقل وفہم سے کیسے کر سکتے ہیں ؟ یہ بڑی اور بے جا جسارت وجرات ہے ! اﷲ تعالیٰ ہمیں ایسی نازیبا جسارت وبے باکی سے محفوظ ومامون فرمائے ۔ آمین بحرمۃ النبی الکریم علیہ التحیۃوالتسلیم۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ﷫

نام و نسب: نعمان ﷜بن ثابت بن زوطیٰ بن ماہ کوفی

کنیت: ابو حنیفہ

لقب: امام اعظم

ولادت:

 ولادت کے بارے میں خود امام اعظم ﷫ فرماتے ہیں کہ میں ٨٠؁ھ میں پیدا ہوا اور ٩٤؁ھ میں حضرت عبداللہ بن انیس ﷜ کوفہ میں آئے تو میں نے انہیں دیکھا اور ان سے حدیث سنی ''سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول حبک الشیٴ یعمی ویصم؂[53] اس وقت میں ١٤ چودہ سال کا تھا۔ اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ ﷫ فرماتے ہیں کہ ثابت ﷫ (امام اعظم ﷫ کے والد)اپنی کمسنی میں حضرت علی ﷜ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ثابت اور ان کی اولاد کے لئے دعا برکت فرمائی۔ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی ﷜کی دعا ہمارے حق میں قبول فرمائی ہے ۔؂[54]

تعلیم و تربیت

حصولِ علم کا شوق تو آپ ﷜ میں فطرتاً کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا مگر ابتدائی عمر میں تجارت میں مشغول رہے ۔ایک مرتبہ بغرض تجارت بازار جا رہے تھے کہ راستے میں امام شعبی ﷫ نے آپ کو دیکھا تو سعادت مندی کا نور آپ کی پیشانی پر چمک رہا تھا آپ نے اس جوہر قابل کو پہچان لیا اور پوچھا کہاں جا رہے ہیں امام اعظم ﷫ نے فرمایا کہ بازار(میں تو) امام شعبی ﷫ نے فرمایا کہ علماء و اھل علم کی مجلس میں بیٹھا کرو مجھے تم میں سعادت مندی کے آثار دکھائی دیتے ہیں ۔اس کے بعد آپ حصول علم کے لئے ہمہ تن گوش ہو کر مشغول ہو گئے ۔ابتداء میں آپ علم الکلا م کی طرف مائل تھے اور بصرہ جو اس وقت بحث و مناظرہ کا مرکز تھا کئی دفعہ جانا ہوا اور خوارج وحشویہّ سے بحث و مناظرہ کرتے تھے ۔پھر خیال کیا کہ صحابہ کرام اور تابعین عظام دین میں ہم سے زیادہ بصیرت رکھتے تھے ۔مگر وہ لوگ بحث ومناظرہ (یعنی غیر ضروری جو علم العقائد سے آگے بڑھ کر لایعنی اورپیچیدہ فلسفی بحثوں)میں نہیں پڑے بلکہ عقائد دینیہ کی صحت ودرستگی اورپختگی کے ساتھ ساتھ شرعی امور میں غور و فکر کیا اور فقہی ابواب و مسائل اورحقیقی تصوف کو اپنی ذہنی و فکری کاوشوں کا مرکز و محور بنایا۔کچھ دنوں بعد آپ کی ملاقات حضرت امام حماد بن سلیمان ﷫ سے ہوئی جو اسوقت حضرت عبداللہ ابن مسعود ﷜ ،حضرت علی ﷜ اور حضرت عمر ﷜ کے علوم کے امین تھے۔ آپ﷫بھی ان کے حلقہ درس میں داخل ہو گئے اور حضرت حماد ﷫ کی وفات تک(تقریباً 18سال تک)فقہ و دیگر علوم کی تحصیل کرتے رہے۔ حضرت حماد جب کبھی سفر پر جاتے تو اپنے حلقہ درس کو امام ابو حنیفہ ﷫ کے حوالے کر کے جاتے ۔استاذ محترم کی وفات کے بعد ان کی جگہ پر جلوہ افروز ہو کر خدمت دین میں مشغول ہو گئے اور ایسے پائیدار نقوش یادگار چھوڑے دنیا جن پر فخر کرتی ہے اور جن کے نقش قدم پر چلنے کو اپنے لئے دنیا و آخرت کی سعادت و کامیابی سمجھتی ہے ۔آپ کے حلقہ درس سے فیض یاب ہونے والے شاگردوں نے علوم کی بنیادیں استوار کیں اور آنے والے فقہاء ومحدثین انہیں راہوں پر چل کرخدمتِ دین میں مشغول ہوئے ۔آپ ﷫ کے حلقہ درس میں کم و بیش چالیس علماء ایسے تھے جو عہدہ قضاء کے لائق تھے اور ان میں دس ایسے تھے جو قاضی القضاۃ کے مرتبے کے لائق تھے۔ آپ کے خاص شاگردوں جنہوں نے آپ سے علم حاصل کیا اور اس کو پوری دنیا میں پھیلا دیا جن کی کوششوں سے آج دنیا کے تہائی فیصد مسلمان فقہ حنفی کے ہی پیروکار ہیں اُن میں حضرت امام ابو یوسف ﷫،حضرت امام محمد ﷫ ، حضرت امام زفر اور امام حسن بن زیاد ﷫ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ آپ ﷫ کے ہزاروں شاگرد تھے۔

اساتذہ:

امام ابو حنیفہ ﷫ نے حصولِ علم کے لئے مختلف اساتذہ کرام نے سامنے زانوئے تلمذ طے کیئے۔ آپ کے اساتذہ کی کثیرتعدادبتائی جاتی ہے۔''تہذیب الکمال'' میں آپ کے چھتیس 36اساتذہ کی فہرست درج ہے ۔ مثلاً حضرت نافع مولیٰ ابن عمر ، موسیٰ بن ابی عائشہ ،حماد بن سلیمان ،عطا بن رباح،سعید بن مسروق ،علقمہ بن مرشد،ابو جعفر محمد الباقر وغیرھم ﷢ اجمعین۔

حالات و مناقب:

 جو قوم اپنے محسنوں کے نقوش پاسے اپنے دل و دماغ کو جلا نہ بخشے ،ان کی راہوں پر چلنے سے صرف نظر کرے ان کی پاکیزہ زندگیوں سے اکتساب فیض نہ کرے اور انہیں بھول جانے کی حماقت میں مبتلا ہو وہ بہت جلد صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں ۔جن بزرگوں نے ہمیں اسلام کی تبلیغ و تشہیر کی راہیں سمجھائیں اپنے علم و عمل سے نیکیوں کے فروغ کے طریقے سکھائے ایسے جلیل القدر صاحبانِ علم کی حقیقی شخصیت و تعلیمات کو عام کرنا ہماری زندگی کے لئے آب حیات کا کام دے گی اور اس میں کوتاہی زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔ انہیں نفوس قدسیہ میں سراج الامہ ،امام الائمہ ،بشارت مصطفی علیہ السلام ،دعائے مرتضیٰ ﷜ ،حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ﷜ ہیں۔جنہیں تا بعیت کا شرف ِ عظیم عطا ہوا ۔آپ ٨٠ ؁میں عراق کے دارالخلافہ (جسے حضرت عمر نے اپنے دور میں بسایا اور حضرت علی ﷜ نے اپنے دور میں حکومت کا مرکز بنایا)کوفہ میں پیدا ہوئے جو اسوقت علوم نبوت کا گہوارہ تھا ہزارہا صحابہ کرام ذوی وقار ﷢ جلوہ افروز تھے ۔شیخ الاسلام علامہ علاء الدین حصکفی ﷫ فرماتے ہیں ۔ ان ابا حنیفہ النعمان من اعظم معجزات المصطفیٰ ﷺ بعد القرآنیعنی قرآن کریم کے بعد امام اعظم حضور نبی کریم علیہ السلام کے بڑے معجزات میں سے تھے ۔( ردالمحتار) علامہ ابن حجر مکی شافعی ﷫ آپ کے اسم گرامی (نعمان)کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نعمان اس خون کو کہتے ہیں جس پر بدن کا تمام ڈھانچہ قائم ہوتا ہے اور اس کے ذریعے جسم کی پوری مشینری کام کرتی ہے ۔امام اعظم کی ذات گرامی بھی دستور اسلام کے لئے محور اور عبادات و معاملات کے تمام احکام کے لئے روح کی مثل ہے ۔ نیز فرماتے ہیں کہ نعمان کے معنی سرخ خوشبودار گھاس کے بھی آتے ہیں ۔چنانچہ آپ کے خداداد علم و اجتہاد اور استنباط سے بھی تعلیماتِ اسلامیہ کی مہک اطرافِ عالم میں پھیل گئی۔؂[55]

 آپ وہ خوش بخت انسان ہیں جنہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زیارت ہوئی اور اُن سے روایتِ حدیث بھی فرمائی ۔مقتدر علماء نے اس کی تصدیق فرمائی ہے۔ معاندین و حاسدین کے انکار اور مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں ۔ آپ کی ولادت کے زمانے میں بہت سے صحابہ کرام بقید حیات تھے ۔ آخری صحابی ابو الطفیل عامر بن واثلہ ﷜ ١١٠ ؁ھ میں فوت ہوئے اس وقت حضرت امام کی عمر شریف 30سال کی تھی ۔آپ نے ٩٤ ؁ھ میں حضرت عبداللہ بن انیس ﷜ سے ملاقات کی اور ان سے ایک حدیث سماعت فرمائی آپ کے تابعی ہونے کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن انیس ﷜ کو فرماتے ہو ئے سنا : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول حبک الشئی یعمی ویصم۔؂[56]

 حضرت امام اعظم ﷫ نے سیدنا انس ﷜ ،سیدنا عبداللہ ابن ابی اوفیٰ ﷜، سیدنا جابر بن عبداللہ ﷜،سیدنا عبداللہ بن جزاز الزبیدی ﷜،سیدنا واثلہ بن الاسقع ﷜،سیدنا معقل بن یسار ﷜ کی زیارت فرمائی اور ان سے روایت فرمائی ہیں ۔امام عبدالکریم بن عبدالصمد طبری شافعی ﷫ نے امام اعظم ﷫ کی صحابہ کرام ﷢ سے مرویات میں ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا اور ان روایا ت کو مع اسناد ذکر کیا ہے اور ان کی تحسین کی ہے ۔حضرت علامہ جلال الدین سیوطی ﷫ نے ان روایا ت کو اپنے رسالہ'' تبییض الصحیفہ''میں نقل کیا ہے :

عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ سمعت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ۔

 امام ابو یوسف حضرت امام ابو حنیفہ ﷫ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک ﷜ سے اور انہوں نے حضرت نبی کریم ﷺ سے سنا کہ علم طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

عن ابی یوسف عن ابی حنیفہ رحمہ اللہ سمعت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول الدال علی الخیر کفا علہ ۔

حضرت ا مام ابو یو سف حضرت امام اعظم رحمہما اللہ سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس ﷜ سے انہوں نے حضور علیہ السلام سے سنا کہ عمل خیر کی طرف رہنمائی کرنے والا 'اس عمل خیر کو انجام دینے والے کی طرح ہے ۔

عن یحییٰ بن قاسم عن ابی حنیفۃ سمعت عبداللہ بن ابی اوفیٰ یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من بنی للہ مسجدً اولو کمفحص قطاۃ بنی اللہ لہ بیتاً فی الجنۃ۔؂[57]

 یحیٰ بن قاسم حضرت امام اعظم ﷫ سے وہ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ﷜ سے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے اللہ کے لئے سنگ خوار جتنی بھی مسجد بنائی/بنوائی تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا ۔

 مشہور محدث شیخ محمد طاہر ہندی کاسانی ﷫ کے حوالے سے ہے کہ وہ کہتے ہیں: واصحابہ یقولون انہ لقی جماعۃ من الصحابۃ وروی عنہم (المغنی ٨٠ ؁ء) یعنی اُن (امام اعظم ﷫) کے شاگرد کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ﷫ نے صحابہ کرام﷢ کی ایک جماعت سے ملاقات کی اور حدیث کی سماعت بھی کی۔ حافظ بدرالدین عینی ﷫، حضرت ابن ابی اوفیٰ ﷜کے ترجمے میں لکھتے ہیں :

ھوا حد من راہ ابو حنیفۃ من الصحابۃ وروی عنہ ولا یلتفت الی قول المنکر المتعصب وکان عمر ابی حنیفہ رحمہ اللہ ثمانیۃ سنۃ وھو سن التمیز ھذا علی الصحیح۔

یعنی حضرت ابن ابی اوفیٰ ﷜ وہ صحابی ہیں جن کو حضرت امام ابو حنیفہ ﷫ نے دیکھا اور ان سے روایت کی جبکہ اُن کی عمر 8سال تھی اور صحیح قول کے مطابق یہ سن تمیز ہے اور کسی منکر متعصب کے قول کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے ۔صحیح مسلم میں ہے۔''لوکان الایمان عند الثریا لذھب بہ رجل من فارس ابناء فارس حتی یتناولہ۔یعنی اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوا تو اہل فارس میں سے ایک شخص اسے حاصل کر لے گا ۔ابو نعیم سے روایت ہے کہ ''لو کان العلم بالثریا لتناولہ رجال من ابناء فارس ۔ یعنی اگر علم ثریا تک بھی پہنچ جائے تو فارس والے اسے حاصل کر لیں گے ۔ (طبرانی)حضرت اما م سیوطی ﷫ ''تبییض الصحیفہ ٣''میں فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ حضور علیہ السلام نے یقیناً ان احادیث میں امام ابو حنیفہ ﷫ کی خبر دی ہے۔ جس کی روایت حضرت ابو ہریرۃ ﷜ نے کی ہے (اور بعض حضرت سعد بن عبادۃ﷜سے مروی ہیں)

 حضور نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ''من یرد اللہ بہ خیراً یفقھہ فی الدین ''؂[58] یعنی اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر (بھلائی) کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی فقہ (سمجھ بوجھ'فہم)عطا فرما دیتاہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ فقیہ واحد أشد علی الشیطان من الف عابد؂[59] یعنی ایک فقیہ عالم ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ شیطان پر سخت (بھاری)ہے۔

 قرآن و سنت (دین) علوم کا سمندر ہیں اور فقہ اس سمندر سے موتی ہیرے چن کر لاناہے۔ لہذا جو جتنافقیہ ہو گا وہ قرآن سنت کا کامل علم رکھنے والا ہوگا مطلب یہ ہوا کہ فقہ کے لئے قرآن و سنت کا علم ہونا نا گزیر ہے ا ور یہ بات مسلّم ہے کہ حضرت سراج الامۃ امام الائمۃامام اعظم ابو حنیفہ ﷫ فقا ہت میں بے نظیرو بے مثل تھے۔جن کی فقاہت پر عظیم المرتبت فقہاء و صوفیا نے گواہی دی ہے بلکہ ان سے اکتساب فیض بھی کیا ہے ۔ایسے عظیم فقیہ کے بارے میں بعض حاسدین و متعصبین کا یہ کہنا ہے کہ وہ حدیث میں مہارت نہیں رکھتے تھے سراسر ظلم و جہالت و حسد ہے ۔ (العیا ذ باللہ تعالیٰ)

 حضرت امام شافعی ﷫(جو حضرت امام محمد ﷫ کے شاگردرشید ہیں)فرماتے ہیں: الناس کلھم عیال ابی حنیفۃ فی الفقہ یعنی تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ ﷫ کے عیال (خوشہ چین) ہیں اور فرمایا جس نے فقہ سیکھنا ہو تو وہ امام اعظم ﷫اور ان کے شاگردوں کی کتابیں پڑھے۔

حضرت عبداللہ ابن مبارک ﷫ رأس المحدثین فرماتے ہیں کہ میں نے مسعر بن کدام ﷫ مشہور فقیہ کو امام ابو حنیفہ ﷫ کے حلقہ درس میں سوالات کرتے اور استفادہ کرتے ہوئے دیکھا اور انہوں نے فرمایا کہ میں نے ان سے بڑا فقیہ کوئی نہیں دیکھا ۔تاریخ بغداد میں اسرائیل کا قول ہے کہ نعمان بن ثابت ﷫ سب سے زیادہ حدیث و فقہ کے جاننے والے ہیں ۔

امام اعظم ﷫ کے لائق اور ذہین شاگرد امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ﷫ سے بڑھ کر حدیث کے معانی اور فقہی نکات جاننے والا کوئی شخص نہیں دیکھا ۔ (الخیرات الحسان)حضرت زید بن ہارون ﷫ جو امام اعظم ﷫ کے ہم عصر ہیں 'ان کا بھی یہی قول ہے۔حضرت امام ربانی قیوم زمانی واقف رموز قرآنی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سر ہندی ﷫ فرماتے ہیں کہ علم فقہ میں امام ابوحنیفہ ﷫ صاحب خانہ ہیں اور باقی آئمہ ان کے عیال اور خوشہ چین ہیں ۔ باوجود مذھب ابو حنیفہ ﷫ پر کار بندہونے کے امام شافعی ﷫ سے ذاتی محبت رکھتا ہوں اور بعض اعمالِ نافلہ میں ان کی تقلید بھی کر لیتا ہوں مگر کیا کیا جائے کہ دیگر آئمہ کرام باوجود علم و کمال تقویٰ کے امام ابو حنیفہ کے سامنے طفل مکتب نظر آتے ہیں ۔نیز حضرت مجدد ﷫ فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ محمد پارسا ﷫ نے فصول ستۃ میں تحریر فرمایاہے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام جب نزول فرمائیں گے تو ان کا اجتہاد بھی امام ابو حنیفہ ﷫ کے اجتہاد کے موافق ہوگا ۔تکلف و تعصب کی آمیزش کے بغیر کہا جائے گا کہ نورانیت مذہب صاحبان حنفی کشف و شہود کی نظر میں ایک عظیم الشان سمندر ہے اور باقی مذاہب اس کے بالمقابل نہر و حوض ہیں ۔

 بعض لوگ ایسے عظیم فقیہ و امام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ﷫ حدیث کے مقابلے میں قیاس کو ترجیح دیتے ہیں ۔حالانکہ یہ محض بے بنیاد الزام و اعتراض ہے۔جس کا جواب دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔مگر محقق اہل علم نے اس کے مسکت و مدلل جوابات مرحمت فرمائے ہیں ۔(فمن شآء فلیر اجع الی تصانیفھم العالیہ)جو شخص بغیر تعصب اور عقل مندی کے ساتھ فقہ حنفی اور اس کے دلائل پر غور کرے گا تو وہ اس بات کا اقرار کرے گا کہ وہ فقہی بصیرت ،قرآن فہمی،حدیث کی سمجھ اور دین اسلام کی ہمہ گیریت و عالمگیریت جوامام ابو حنیفہ ﷫ کے ہاں ملتی ہے وہ خال خال فقہاء میں نظر آئے گی ۔حضرت امام ابو حنیفہ ﷫ فرماتے ہیں کہ :

انا نأخذ اولاً بکتاب اللہ ثم بالسنۃثم با قضیۃ الصحابۃ ونعمل بھا یتفقون علیہ فان اختلفوا قسنا حکما علی حکم بجا مع العلۃ بین المسئلتین حتی یتضح المعنی ۔

یعنی ہم سب سے پہلے کتاب اللہ پر عمل کرتے ہیں اس کے بعد آقاکریم علیہ السلام کی سنت پر پھر اس کے بعد صحابہ کرام کے (اجماعی)فیصلوں پر عمل کرتے ہیں اور جن مسائل میں (نص قرآن یا حدیث نہ ہونے کے باعث)اختلاف ہوتو وہاں علت مشترکہ کی بنیاد پر ایک معلوم حکم پر نا معلوم حکم کو قیاس کرتے ہیں یہاں تک کہ بات واضح ہو جاتی ہے (یعنی قرآن و سنت کے مطابق ہو جاتی ہے)۔ المیزان للشعرانی میں امام اعظمؒ کا یہ قول ہے:

نحن لا نقیس الاعند الضرورۃ الشدیدۃ و ذلک اننا ننظر فی دلیل المسئلۃ من الکتاب والسنۃ أو أقضیۃ الصحابۃ فان لم نجد دلیلاً(صریحاً)قسنا حنیئذمسکوتا عنہ علی منطوق بہ۔

 یعنی ہم صرف شدید ضرورت کی بناء پر ہی اجتہاد(قیاس) کرتے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ ہم قرآن و سنت اور صحابہ کرام کے فیصلوں سے دلیل حاصل کرتے ہیں اگر ان میں (صراحتاً)دلیل نہ ملے تو پھر پیش آئندہ مسئلے کو اس مسئلے پر قیاس کرتے ہیں جس کا حکم قرآن و سنت یا صحابہ ﷢ کے فیصلوں میں موجود ہو ۔'' حضرت امام اعظم ﷫ کا ایمان افروز اور مبنی پر حقیقت قول ہے کہ :

وکان یقول ماجآء عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعلی الرأس والعین بأبی وامی ولیس لنا مخالفۃ۔یعنی آپ ﷫ کہا کرتے تھے کہ جو چیز ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہنچے وہ ہمارے سر اور آنکھوں پر ہے میرے ماں باپ میرے آقا علیہ السلام پر قربان ہوں ہم ان کے فرمان کی مخالفت کی مجال بھی نہیں رکھتے (سنت خیر الانام۔ازپیرکرم شاہ صاحب ﷫) ان اقوال منیرہ کی روشنی میں ایک عقلمند ذی شعور اوردیانتدار شخص یہ فیصلہ بخوبی کر سکتا ہے کہ حضرت امام اعظم ﷫ حدیث کو ترجیح دیتے تھے یا قیاس کو اس ضمن میں ایک واقعہ پیش خدمت ہے :ایک مرتبہ حضرت امام اعظم ﷫،حضرت سیدنا امام باقر ﷜ کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ تم وہی ابو حنیفہ ﷫ ہو جس نے ہمارے نانا جان علیہ السلام کی احادیث کو قیاس سے بدلا ہے تو آپ ﷜ نے فرمایا کہ میں کون ہوتا ہوں جو اس طرح کروں تو امام باقر ﷜ نے فرمایا کہ تحقیق سے ثابت کرو۔ امام اعظم ﷫ ان کے سامنے با ادب ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ میں تین گزارشات عرض کرونگا آپ جواب ارشاد فرمائیے۔ امام اعظم ﷫ نے پوچھا کہ مرد کمزور ہے یا عورت؟تو امام باقر ﷜ نے فرمایا کہ عورت پھر فرمایا مرد اور عورت کا وراثت میں کتنا حصہ ہے ؟تو امام باقر﷜ نے فرمایا کہ عورت کو ایک اور مرد کو دو حصے ملیں گے۔ امام اعظم ﷫ نے فرمایا کہ آپ کے ناناجان علیہ السلام کی حدیث کا یہ فیصلہ ہے اگر میں قیاس سے فیصلہ کرتا تو کمزور کو دواور قوی کو ایک حصہ دیتا مگر میرا عمل حدیث پر ہے ۔پھر فرمایا کہ نماز افضل ہے کہ روزہ؟تو آپ نے فرمایا نماز افضل ہے ۔امام اعظم ﷫ نے عرض کیا کہ اگر میں قیاس کرتا تو یہ فیصلہ دیتا کہ جو عورت حیض سے پاک ہوئی اسے قضاء شدہ نمازیں لوٹانے کا حکم دیتا اور روزے معاف کرادیتا مگر حدیث میں جو بات ہے میں اُسی کا پابند ہو ں ۔ تیسرا سوال پوچھا کہ شریعت میں پیشاب زیادہ نجس و پلید ہے یا منی؟امام باقر﷜ نے فرمایا پیشاب تو آپ نے عرض کیا کہ اگر میں قیاس کو ترجیح دیتا تو پیشاب کرنے والے کو غسل کا حکم دیتا او رجنبی کو صرف وضو کا حکم دیتا مگر میں نے ایسا نہیں کیا بلکہ حدیث کے مطابق فیصلہ و فتویٰ دیا کہ جنبی کے لئے غسل اور پیشاب کرنے والے کے لئے صرف وضو ہے۔یہ سن کر امام باقر ﷜نے اٹھ کر امام ابو حنیفہ ﷫ کو گلے لگایا اور نہایت لطف ومحبت و کرم سے پیش آئے۔

بعض لوگ اس مقولے (جو حضرت امام ابو حنیفہ﷜ کی طرف منسوب ہے)۔ اذا صح الحدیث فھو مذہبی یعنی جب صحیح حدیث مل جائے یا حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو وہی میرا مذہب ہوتی ہے۔یعنی میں اسے اپنا مذہب بنا لیتا ہوں ۔ کی آڑ میں حنفی مذہب کی تردید اور تضعیف کرتے ہیں کہ حنفی مذہب کا فلاں مسئلہ صحاح ستہ کی فلاں صحیح حدیث کے خلاف ہے ،لہذا حنفی مذہب کا فلاں مسئلہ ضعیف ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس مقولے کی تحقیق کی جائے گی کہ آیا واقعی یہ امام ابو حنیفہ ﷜ کا قول ہے یا نہیں ۔اگر ہے تو اس کا مطلب ہر گزیہ نہیں ہوگا کہ ''جب صحیح حدیث مل جائے تو وہ میرا مذہب ہو گی ''۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں خوب تلاش و تحقیق کرتا ہوں پھر جب روایت و درایت کے اعتبار سے حدیث صحیح ثابت ہو جاتی ہے تو میں اسے اپنا مذہب بنا لیتا ہوں ۔اس کا مطلب ہے کہ امام ابو حنیفہ﷫ کا حنفی مذہب صحیح احادیث پر مبنی ہے ایک اور توجیہ علامہ شامیؒ نے کی ہے کہ یہ قول مجتہد کے حق میں ہے اور یہ بات بھی درست نہیں کہ صحاح ستہ خاص طور پر (بخاری و مسلم) کی سب کی سب احادیث صحیح ہیں ۔ایسا نہیں ہے بلکہ اکثراحادیث صحیح ہیں جبکہ کئی ضعیف و دیگر اقسام کی احادیث بھی ہیں ۔ اور ان میں کئی رواۃ ضعیف ہیں اور کئی ایسے ہیں جن پر علماء نے سخت تنقید کی ہے۔جبکہ امام ابو حنیفہ﷫کے دور میں اکثر رواۃ مضبوط ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ جن کے شاگردوں کے شاگرد بلکہ تیسرے اور چوتھے درجے کے شاگرد مثلاً امام بخاری و مسلم و دیگر محدثین حضرات تو ثقہ ہوں اور ان کی روایات صحیح ہوں اور جو دادا استاذ ہوں وہ ضعیف بھی ہوں اور ان کی روایات صحیح کے درجہ میں نہ ہوں (فیا للعجب ھذا خلاف العقل و النقل)حالانکہ یہ بات علم اصول ِ حدیث میں مسلّم ہے کہ ''راویوں کے درمیان جتنا فاصلہ کم ہوگا اتنی ہی ان کی روایات معتبر و مضبوط ہوں گی''۔

امام ابو حنیفہ ﷜ تابعی ہیں اور دور تابعین سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اجلہ تابعین سے روایت فرماتے ہیں جوکہ ثقہ و عادل ہیں ۔امام ابو حنیفہ کی کئی مرویات ایسی ہیں جن میں صرف ایک واسطہ ہے کئی ایسی ہیں جن میں دو اور بعض میں تین واسطے ہیں جو سب کے سب ثقہ ہیں اور بعد میں آنے والوں کے امام و پیشوا ہیں ۔جبکہ بعد کے لوگوں (مثلا اصحاب صحاح ستہ)کے دور میں بہت فاصلہ ہے جس میں کئی کئی واسطے ہیں جن میں بعض ثقہ اور بعض ضعیف منکراور غیر ثقہ لوگ بھی ہیں۔ اب کوئی نیم حدیث داں اٹھ کر بزعم خود کہہ دے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور امام ابوحنیفہ ﷫ کا قول اس کے خلاف ہے لہذا یہ مذہب کمزور ہے اور حدیث صحیح کے خلاف ہے ۔تو یہ بات دیوانے کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اور صحاح میں جو احادیث صحیحہ سب سے کم واسطوں سے مروی ہے ۔ان میں اکثر احادیث صحیحہ حضرت امام اعظم ﷫کے شاگردوں سے امام اعظم تک اور پھر صحابی﷜تک پہنچی ہیں ۔لہذا یہ بات واضح ہو گئی کہ امام ابو حنیفہ ﷜ کی روایات صحیح مضبوط اور معتبر ہیں اور انہی احادیث صحیحہ پر مذہب حنفی مشتمل ہے (فافہم)

 امام ابو حنیفہ ﷫ فن حدیث کے عظیم ماہر ،نقاد اور حافظ تھے ۔فن حدیث میں حافظ الحدیث اسے کہا جاتا ہے ۔جسے ایک لاکھ احادیث متن اور سند سمیت یاد ہوں اور سند کے تمام راویوں کے حالات کی خبر ہو ''حضرت محمد بن سماعہ ﷫ فرماتے ہیں کہ :امام ابو حنیفہ ﷫ نے اپنی کتابوں میں ستر ہزار سے زیادہ حدیثیں پیش کی ہیں اور چالیس ہزار احادیث سے آثارِ صحابہ کا انتخاب کیا ہے ۔یزیدبن ہارون ﷫ فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہ ﷫ اپنے زمانے کے سب سے بڑے حافظ (حدیث)تھے ۔(عقود الجمان ١٩٤ ؁)

 جرح و تعدیل کے مشہور عالم و نقاد اور حافظ الحدیث یحییٰ بن معین ﷫ فرماتے ہیں ۔ابو حنیفہ ﷫ ثقہ ہیں ۔حدیث وفقہ میں سچے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کے امین ہیں ۔امام سخاوی ﷫ نے لکھا ہے ۔ والثنائیات فی الموطا للامام مالک والواحد ان فی حدیث الامام ابی حنیفہ رحمہ اللہ؂[60] یعنی امام مالک کی احادیث میں ثنائیات(دو واسطے)ہیں اورامام ابو حنیفہ ﷫ کی روایات میں وحدان(ایک واسطہ)ہیں ۔

 امام ابو حنیفہ ﷫ کے معاصر حضرت مسعر بن کدام ﷫ فرماتے ہیں کہ

 طلبت مع أبی حنیفہ رحمہ اللہ الحدیث فغلبنا واخذنا فی الزھدفبرع علینا وطلبنا معہ الفقہ فجاء منہ ماترون۔؂[61]

 یعنی میں نے امام ابو حنیفہ ﷫ کے ساتھ حدیث کی تحصیل کی لیکن وہ ہم پر (حدیث حاصل کرنے جاننے اور سمجھنے میں) غالب رہے اور زہد و عبادت میں مشغو ل ہوئے تو ہم سب پر وہ فائق رہے اور فقہ کی تحصیل کی توفقہ میں ان کانام ، کام اور مقام تم نے دیکھ لیا ہے ۔محدث بشربن موسیٰ ﷫ اپنے استاذ امام ابو عبدالرحمن مقری ﷫ سے روایت کرتے ہیں :وکان اذا حدّث عن ابی حنیفہ قال حدّثنا شاھنشاہ ۔؂[62]

 امام مقری ﷫ جب امام ابو حنیفہ ﷫ سے روایت کرتے تو کہتے ہم سے شہنشاہ نے حدیث بیان کی ۔یحییٰ بن معین ﷫ نے فرمایا :کان ابو حنیفۃ رحمہ اللہ ثقۃ من اھل الصدق ولم یتھم بالکذب وکان مامونا علی دین اللہ صدوقا فی الحدیث ۔یعنی امام ابو حنیفہ ﷫ اہل صدق میں سے ہیں اور کبھی ان پر کذب کی تہمت نہیں لگی اور وہ اللہ کے دین کے امین ہیں اور حدیث میں بہت سچے ہیں ''حضرت امام اعظم ﷫ علوم نبوت کے امین اور وارث تھے۔ آپ علوم ظاہری و باطنی پر یکساں عامل تھے اور ان کے جامع تھے ۔جس طرح کبار فقہاء و محدثین نے آپ سے اکتساب فیض کیا اسی طرح بڑے بڑے جلیل القدر صوفیاء کرام کا سلسلہ فیض آپ تک پہنچتاہے۔آپ نے حضرت امام جعفر صادق ﷜  سے اکتساب فیض کیا اوراسی کی طرف آپ کے اس قول میں اشارہ ہے ۔''لولا السنتان لھلک النعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ''۔

یعنی میری زندگی کے وہ دو سال (جو امام جعفر صادق ﷜ سے اکتساب ِ فیض میں گزارے)نہ ہوتے تو نعمان ﷜ (امام اعظم ) ہلاک ہوجاتے۔

 حضرت قیوم زمان جامع طرقِ اربعہ مولانا محمد ہاشم سمنگانی ﷫ فرماتے ہیں کہ لولا السنتان میں سین ضمہ کے ساتھ پڑھنا اولیٰ ہے ۔جس کا مطلب ہے کہ اگر دو ثابت بالسنۃ چیزیں (شریعت و طریقت)نہ ہوتیں تو نعمان ﷜(امام اعظم)کامیاب نہ ہوتے۔

 حضرت امام اعظم ﷫ کتاب لکھنے سے زیادہ رجال بنانے پر  توجہ فرماتے تھے۔اس لئے ان کی زیادہ تصانیف نہیں ہیں مگر جو رجال و علماء انہوں نے تیار فرمائے انہوں نے امام اعظم ﷫کے اصول و قواعد کو بنیاد بناتے ہوئے نابغہ روزگار تصانیف یاد گار چھوڑی ہیں اور ان میں علوم کے موتی بچھا دیئے ہیں یہ سارا فیضان حضرت امام اعظم ﷫ کا ہے۔

 دوسری بات یہ ہے کہ محض زیادہ کتابیں تصنیف کرنا باعثِ فضیلت نہیں ہے ۔جسطرح قلّتِ روایت قلت فضیلت پر دلالت نہیں کرتی اسی طرح قلت تصانیف قلت علم و فضیلت پر ہر گز دلالت نہیں کرتی۔کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو حضرت امام محمد﷫، ابو یوسف﷫، صاحب ھدایہ، صاحب کنز اور اصحاب صحاح ستہ حضرت سراج الامۃ اما م اعظم ﷫ سے افضل ہوتے حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے ۔تیسری بات یہ ہے کہ اُس زمانے میں اس طرح مروجہ طریقے کے مطابق کتابیں تصنیف کرنے کا رواج نہ تھا اس لئے حضرت امام اعظم ﷫ اس طرف خاص توجہ نہ فرما سکے پھر بھی بعض کتابیں حضرت امام ﷜ نے یاد گار چھوڑی ہیں۔ مثلاً الفقہ الاکبر'العالم والمتعلم'الرد علی القدریہ اور کتاب الاثار وغیرہ امام اعظم نے اپنی بیان کردہ احادیث کو املا کرانے کے بعد اس مجموعہ کا نام ''کتاب الآثار''رکھااور کثیر تلامذہ نے اسے آپ سے حاصل کیا اس لئے اس کے کئی نسخے بن گئے ۔لیکن مشہور چار ہوئے :

(١)کتاب الآثاربروایت امام ابو یوسف ﷫

(٢)کتاب الآثار بروایت امام محمد ﷫

(٣)کتاب الآثار بروایت امام حسن ﷫

 (٤)کتاب الآثار بروایت امام زفر﷫۔

امام اعظم ابو حنیفہ ﷜ نے اپنے شیوخ سے جو روایات و احادیث مبارکہ روایت کیں انہیں مختلف جلیل القدر علماء نے ہر ایک شیخ کی مرویات کو الگ الگ اکٹھا کر لیا ۔اس طرح کئی مسانید کے نسخے بن گئے۔ مسانید امام اعظم ﷫ کے ان نسخوں کو ابو المؤید محمد بن محمود خوار زنی ﷫ ٦٥٥ ؁ء نے جمع فرمایا۔امام خوارزنی ﷫ نے تشریح فرمائی ہے کہ امام اعظم﷫ ٢١٥ احادیث میں دیگر آئمہ سے قطعاً منفرد ہیں ۔امام اعظم ﷫ کی مسانید حدیث کی سب سے پرانی کتابیں ہیں لہذا ان کی روایات زیادہ محکم و مقدم ہیں ۔ان کی تفصیل کشف الظنون ج ٢ میں دیکھی جا سکتی ہے ۔

 حضرت ملا علی قاری ﷫ نے امام محمدابن سماعہ ﷫ کے حوالے سے لکھا ہے :

 ''ان الامام ذکر فی تصانیفہ نیفاً و سبعین الف حدیث و انتخب الآثار من اربعین الف حدیث''؂[63]

 بے شک امام اعظم ﷫ نے اپنی تصانیف میں ستر ہزار سے زائد حدیثیں بیان کیں اور چالیس ہزاراحادیث سے کتاب الآثار کا انتخاب کیا ۔

 شیخ موفق بن احمد المکی﷫ نے محدث کبیر ابو بکر بن محمد زرنجری ﷫ سے نقل فرمایا: وانتخب ابو حنیفہ رحمہ اللہ الآثار من اربعین الف حدیث ۔یعنی امام اعظم ﷫ نے کتاب الآثار کا انتخاب چالیس ہزار احادیث سے کیا''۔(مناقب امام اعظم ﷫)حدیث میں مستقل کتاب ''کتاب الآثار''جسے امام محمد ﷫ نے امام ابو حنیفہ ﷫ سے روایت فرمایا ہے۔اس نسخے میں جن راویوں سے احادیث و آثار لئے گئے ہیں ۔ ان کے تراجم و حالات میں حافظ ابن حجر عسقلانی ﷫ نے ایک مستقل کتاب ''الایثاربمعرفۃ رواۃ الآثار'' تحریر فرمائی ہے ۔ (فجزاہ اللہ احسن الجزاء)

وصال :

حدیث مبارکہ: افضل الجہادکلمۃ الحق عند السلطان الجائر؂[64] ۔کے مطابق حضرت امام الائمہ سراج الامہ امام اعظم ابو حنیفہ ﷫ ہمیشہ کلمہ حق بلند فرماتے رہے اور اس راہ میں کسی کی مخالفت و ملامت کی کوئی پرواہ نہ کی ۔آپ کے علم و فضل کو اپنے جائز و ناجائز مقاصد کے حصول کے لئے خلیفہ منصور نے آپ کو قاضی القضاۃ(چیف جسٹس)کا عہدہ پیش کیا۔حضرت امام اعظم ﷫ نے کمالِ بے نیازی سے اسے رد فرمادیا کیونکہ عدلیہ اپنے فیصلوں میں خودمختار نہ تھی بلکہ حکومت وقت کے زیر تسلط تھی جس کی وجہ سے عدل و انصاف میں رکاوٹیں پائی جاتی تھیں۔ حضرت امام اعظم ﷫ چونکہ کمالات نبوت کے فیض یافتہ تھے۔ اور حضور نبی کریم علیہ السلام کے نائب و وارث تھے ۔(بقولہ علیہ السلام العلماء ورثۃ الانبیاء ؂[65] یعنی علماء حقیقی انبیاء کرام کے وارث ہیں)

تختِ سکندری پہ وہ تھوکا نہیں کرتے

      بستر لگا ہو جن کا آقا علیہ السلام تیری گلی میں

 اس لئے آپ نا انصافی و ظلم کو قطعاً پسند نہیں فرما سکتے تھے ۔خلیفہ منصور نے ضد میں آکر کوڑے بھی لگوائے اور قید خانے میں قید کردیا مگر امام اعظم ﷫ حق پر ثابت قدم رہے حتیٰ کے آپ نے اس دار فنا سے دار بقاء کی طرف ہجرت فرمائی۔بعض لوگوں کے نزدیک امام اعظم ﷫کوڑے لگنے کی وجہ سے شہید ہوئے اور بعض کے نزدیک زہر کا پیالازبردستی پلایا گیا جس کی وجہ سے شہید ہوئے ۔آپ کا سنِ وصال راحج وصحیح قول کے مطابق 150ہجری ہے ۔

اناللہ واناالیہ راجعون۔(موت العالِم موت العالَم)


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

امام ابو حنیفہ ﷜ نے مذہب اہل سنت و جماعت کی تائید میں اپنے اصحاب کے لئے یہ وصیت فرمائی ہے ۔جب امام اعظم بیمار ہوئے تو اپنے اصحاب و اخوان سے فرمایا ۔اے میرے ساتھیو اور بھائیو!یہ بات آپ کو معلوم ہونی چاہیے کہ مذہب اہل سنت و جماعت بارہ خصلتوں (عقیدوں) پر مشتمل ہے۔ جس نے ان بارہ خصلتوں کو (اخلاص)کے ساتھ اپنایا تو وہ بھٹکے گا نہیں اور نہ ہی بدعت اور خواہش نفس میں مبتلا ہوگا۔ لہذا آپ پر ان خصائل کا حاصل کرنا لازم ہے تاکہ قیامت کے دن سرور کون و مکان محمد رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کے مستحق ہوسکیں ۔(کیونکہ نجاتِ آخرت اللہ کے فضل اور نبی کریم علیہ السلام کی شفاعت پر منحصر ہے ۔مترجم)

 پہلی خصلت ایمان لانا ہے اور ایمان نام ہے زبان سے اقرار کرنا کہ (اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمدﷺ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں)اور دل سے اس کی تصدیق کرنا اور جاننا ہے (الایمان ھو التصدیق بما جاء بہ النبی ﷺ) ۔ایمان ہر اس شے کی تصدیق کرنے کا نام ہے جس کے ساتھ نبی کریم علیہ السلام مبعوث ہوئے ہیں ۔ الایمان ھو الاقراروالتصدیق؂[66] ایمان اقرار و تصدیق کا نام ہے)الایمان ھو الاقرار باللسان والتصدیق بالجنان؂[67] ایمان زبان سے اقرار کرنے اور دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے ۔نقول فی توحید اللہ معتقدین بتوفیق اللہ:ان اللہ واحد لاشریک لہ۔؂[68] اللہ کی توحید میں اعتقادرکھتے ہوئے اس کی توفیق سے یہ کہتے ہیں کہ بے شک اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔اصل التوحید ویصح الاعتقاد علیہ یجب ان یقول آمنت باللّٰہ ۔۔ای مکلف بلسانہٖ المطابق لما فی جنا نہٖ؂[69] جس توحید پر اعتقاد رکھنا صحیح ہے وہ یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ میں اللہ پر ایمان لایا۔ یعنی (مکلف شخص اپنے دل کے عقیدے کے مطابق زبان سے اس کا اظہار اور اقرار کرے)۔

اما بعد فاعلموا ۔رحمنا اللہ تعالیٰ ایاکم ۔ان اللہ عزوجل بعث نبیہ محمداً ﷺ الی الناس کافۃ ، لیقروا بتوحیدہ، فیقولوا"لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ" فکان من قال ھذا موقنا من قلبہ، ناطقا بلسانہ اجزاہ، ومن مات علی ھذا فالی الجنۃ، فلما آمنوا بذلک واخلصوا توحیدھم،فرض علیہم الصلاۃ بمکۃ،فصدقوا بذلک، وآمنوا وصلوا۔؂[70]

یقول العبد فی بدء الامالی                                                                                 لتوحید بنظم کاللآلی

اعلم ان الواجب علی العبد اولا ان یقربلسانہ،ویصدق قلبہ بوحدانیۃ اللہ تعالیٰ، انہ واحد ،احد، صمد، فرد،وتر،لاشریک لہ، ولاضد لہ، ولاشیء مثلہ، ولاشیء یعجزہ،ولاالہ غیرہ ولارب سواہ۔؂[71]

فالایمان علی الجارحتین،یعنی علی القلب واللسان لاغیر،ولاینفع تصدیق القلب بغیر اللسان الا الاخرس،وکفاہ التصدیق بالقلب بلاخلاف علی کل حال۔؂[72]

 اور محض اقرار کرنا ایمان نہیں ہے کیونکہ اگر یہ ایمان ہوتا تو منافقین سب کے سب مومن ہوتے۔ (فظھران لیست حقیقۃ الایمان مجرد کلمۃ الشھادۃ علی مازعمت الکرامیہ؂[73] پس ظاہر ہوا کہ صرف کلمہ شہادت پڑھنا حقیقت ایمان نہیں ہے جیسا کہ کرامیہ (ایک گمراہ فرقہ) نے گمان کیا اور اس طرح صرف جاننا بھی ایمان نہیں ہے کیونکہ اگر صرف جاننا ہی ایمان ہوتا تو تمام اہل کتاب مومن ہوتے ۔رد علی القدریہ انھم قالوا ان الایمان ھو المعرفۃ؂[74] یہ قدریہ (گمراہ فرقہ)پر رد ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں ایمان صرف جاننے کا نام ہے)اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں فرمایا ''اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بے شک منافقین جھوٹے ہیں ''؂[75] یعنی (دعویٰ ایمان میں کہ دل میں ایمان نہیں مگر زبان سے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں)اور اہل کتاب کے بارے میں فرمایا ''جنہیں ہم نے کتاب دی وہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں ۔"؂[76] اور ایمان زیادہ یا کم نہیں ہوتا ۔ اسلئے کہ ایمان کی کمی کفر کی زیادتی ہے اور ایمان کی زیادتی کفر میں کمی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں مومن بھی ہواور کافر بھی ہو ۔ایمان اپنے مؤمن بہ (جس پر ایمان لایا جائے)کے اعتبار سے زیادتی اور کمی کو قبول نہیں کرتا اور زیادتی یا کمی با اعتبار کفر کے ہے۔ یعنی کفر کا نقصان ایمان میں زیادتی کا باعث ہے اور کفر کی زیادتی ایمان میں نقصان کا باعث ہے اور یہ بات اس وقت ہو سکتی ہے جب ایمان اور کفر شخص واحد میں حالتِ واحدہ میں پائے جائیں حالانکہ یہ نا ممکن ہے ۔مترجم) اور مومن یقینی طور پر مومن ہے اور کافر یقینی طور پر کافر ہے اور ایمان میں شک نہیں جس طرح کہ کفر میں شک نہیں اللہ کے اس قول کے مطابق کہ ''وہی لوگ یقیناً مومن ہیں اور وہی لوگ یقیناً کافر ہیں '' ؂[77]۔اور امت محمدیہ علیہ التحیۃ والثناء کے گنہگار یقیناًکافر نہیں ہیں۔

اھل السنۃ علی ان المؤمن اذا ارتکب الکبیرۃ لم یخرج عن ایمانہ

واھل السنۃ علی ان المؤمن اذا ارتکب الکبیرۃ ومات بلا توبۃ لم یخلد فی النار خلافا للخوارج والمعتزلۃ،زعموا ان من دخل النار لم یخرج منھا۔؂[78]

ولا یقضی بکفر وارتداد                                         بعھر او بقتل واختزال

واعلم ان العبد لا یکفر بقتل النفس والشرب والکذب والغیبۃ والنمیمۃ واکل الحرام والشبھۃ والبھتان وضرب العود والدف والمزمار والطنبور والغناء والنوح والقمار،وغیر ذلک من الملاھی (٢٢٥) "ولا بعھر واختزال" یعنی بالزنا والغضب ولا بکل السرقۃ والشتیمۃ لمسلم وبکل ذنب ارتکبہ وان کان من الکبائر فان قتل النفس خطاً وجب علیہ الدیۃ والکفارۃ، وان قتلہ متعمداً یجب علیہ القصاص فلا نکفر اھل القبلۃ بذلک کلہ مالم یستحلہ ویستخف ما نھی عنہ بل لغفلۃ شھوۃ او حمیۃ او کسل او رجاء لعفو من اللہ تعالیٰ یرجو ان یغفر ویخاف ان یعذبہ، فانہ مؤمن وایمانہ باق فلم یزل عنہ ولم یخرج منہ ولم ینقص، ولکن الذنوب تضر صاحبہ۔؂[79]

 (ھذا رد علی المعتزلۃ لانھا قالت من ارتکب کبیرۃ لیس بمؤمن ولابکافر) یہ معتزلہ (گمراہ فرقہ)پر رد ہے کہ وہ کہتے ہیں جو گناہ کبیرۃ کا مرتکب ہو وہ نہ مومن ہوتا ہے نہ کافر) اور عمل ایمان کے علاوہ ایک چیز ہے اور ایمان عمل کے علاوہ ایک چیز ہے ''دلیل یہ ہے کہ کئی دفعہ مومن سے عمل مرتفع ہو جاتاہے (یعنی اس کا حکم اٹھ جاتاہے)لیکن اس بناء پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے ایمان اُٹھ گیا ہے۔ پس حائضہ عورت کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے نماز کا حکم اُٹھا دیا ہے مگر یہ کہنا جائز نہیں ہو گا کہ اللہ نے اس سے ایمان اُٹھالیا یا اسے ایمان ترک کرنے کا حکم دیا گیا اور شرع نے اس کے لئے فرمایا کہ روزہ چھوڑ دو قضا کرلینا مگر یہ کہنا جائز نہیں کہ ایمان چھوڑ دو پھر قضا کرلینا اور یہ کہنا جائز ہے کہ فقیر پر زکوٰۃ نہیں مگر یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ فقیر پر ایمان لازم نہیں ۔ (ان الأعمال غیر داخلۃ فی الایمان و ورد ایضاً اثبات الایمان لمن ترک بعض الاعمال کما فی قولہ تعالیٰ وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔؂[80] یعنی اعمال ایمان میں داخل نہیں ہیں (اس لئے کہ ایمان تصدیق کا نام ہے)اور اس شخص کے ایمان کا اثبات بھی وارد ہے جس نے بعض اعمال کو ترک کیا ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے(اور جب مومنوں کے دو گروہ لڑ پڑیں)۔ اور تقدیر خیر و شر اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اگر کو ئی کہے کہ تقدیر خیر و شر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہے تو وہ کافر ہوگا اور اگر وہ موحد ہے تو اس کی توحید بھی باطل ہو گی ۔

(٢) دوسری خصلت یہ ہے کہ ہم اس بات کا اقرار کریں کہ اعمال تین قسم کے ہیں ۔

(١)فریضۃ       (٢)فضیلۃ                               (٣)معصیۃ ۔

پس فریضہ اللہ کے امر (حکم) مشیت،محبت،رضا،قدر،تخلیق،حکم ،علم اور اس کی توفیق سے ہے۔اور لوح محفوظ میں مکتوب (لکھی ہوئی)ہے ۔اور فضیلت اللہ کے حکم سے نہیں ہے لیکن اس کی مشیت،محبت،رضا،قضا ،قدر اور تخلیق سے ہے اور لوح محفوظ میں مکتوب ہے۔پس ہم لوح وقلم جو کچھ اس میں ہے سب پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اور معصیت اللہ کے حکم سے نہیں بلکہ اس کی مشیت سے ہے نہ کہ اس کی محبت سے، اس کی قضاء سے ہے نہ کہ اس کی رضا سے اور اس کی تقدیر و تخلیق سے ہے نہ کہ اس کی توفیق سے اور اس کی ناراضگی سے ہے نہ کہ اس کی مدد سے اور لوح محفوظ میں مکتوب ہے۔(وھی کلھا بمشیتہ وعلمہٖ وقدرتہ وقضاء ہ ۔؂[81]) اور یہ تمام اعمال اللہ کی مشیت 'علم'قدرت 'اور قضاء سے ہیں ۔ ولا یکون شئی الا بمشیتہ وعلمہٖ و قضاءہ و قدرتہ۔ (ابو المنتہی)اور کوئی شے بھی نہیں ہے مگر اس کی مشیت علم 'قضاء اور قدرت سے ہے ۔ وکل شئی یجری بتقدیرہ و مشیتہِ۔؂[82] اور ہر شے اس کی تقدیر اورمشیت پر جاری ہے۔

 قال رحمہ اللہ تعالیٰ: فلا یجری فی الملک والملکوت قلیل او کثیر صغیر او کبیر، خیر او شر، نفع او ضر، ایمان او کفر، عرفان او نکران او فوز او خسران زیادۃ او نقصان، طاعۃ       او عصیان الا بقضائہ وقدرہ وحکمتہ ومشیئتہ۔؂[83]

ثم الاعمال ثلاثۃ:فریضہ،وفضیلۃ،ومعصیۃ۔فالفریضۃ بامر اللہ تعالیٰ ومشیئتہ وارادتہ، ومحبتہ ورضاہ وقضاہ وحکمہ وتقدیرہ وتخلیقہ وتوفیقہ۔

والفضیلۃ کذالک الا انھا لیست بامرہ والمعصیۃ لیست بامرہ ومحبتہ وتوفیقہ ورضاہ بل تنھی عنھا لکنھا بمشیئتہ وارادتہ وتقدیرہ وتخلیقہ وخذلانہ وقضائہ ولان رضاہ ومحبتہ الی کون الشیء مستحسنا عندہ وذلک یلیق بالطاعات دون المعاصی۔؂[84]

 (٣)تیسری خصلت یہ ہے کہ ہم اقرار کریں کہ اللہ عرش پر مستوی ہے بغیر اس کے کہ وہ اس کا محتاج ہو اور اس پر مستقر ہو اور وہ عرش وغیر عرش کی حفاظت فرمانے والا ہے بغیر محتاج ہوئے۔پس اگر وہ محتاج ہوتاتو پھر ایجاد عالم اور اس کی حفاظت اور اس کی تقدیر پر قادر نہ ہوتا ۔ جیسے کے مخلوق ہے ۔اگر وہ عرش پر بیٹھنے اور قرار پکڑنے کا محتاج ہوتاتو عرش کی تخلیق سے پہلے وہ کہاں تھا ۔ اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت بلند ہے (الرحمٰن علی العرش استویٰ) ؂[85] رحمن نے عرش پر استویٰ فرمایا۔

اختلفوا فی تاویل قولہ تعالیٰ: الرحمن علی العرش استوی۔(طہ:5) فزعمت المعتزلۃ انہ بمعنی استولی کقول الشاعر:

(قد)استوی بشر علی العراق۔

ای استولی،وھذا تاویل باطل، لانہ یوجب انہ لم یکن مستولیا علیہ قبل استوائہ علیہ۔

وزعمت المشبھۃ ان استواء ہ علی العرش بمعنی کونہ مماسا لعرشہ من فوقہ وابدلت الکرامیۃ لفظ المماسۃ بالملاقاۃ۔

واختلف اصحابنا فی ھذا ،فمنھم من قال ان آیۃ الاستواء من المتشابہ الذی لا یعلم تاویلہ الا اللہ، وھذا قول مالک بن انس وفقھاء المدینۃ والاصمعی۔ وروی ان مالکا سئل عن الاستواء فقال :الاستواء معقول وکیفیتہ مجھولۃ والسؤال عنہ بدعۃ والایمان بہ واجب۔

ومنھم من قال : ان استواء ہ علی العرش فعل احدثہ فی العرش سماہ استواء کما احدث فی بنیان قوم فعلا سماہ اتیانا ولم یکن ذلک نزولا ولاحرکۃ،وھذا قول ابی الحسن الاشعری۔؂[86]

ورب العرش فوق العرش لکن                                          بلاوصف التمکن واتصال

وما التشبیہ للرحمن وجھا                                                               فصن عن ذاک اصناف الایالی

واعلم ان اللہ تعالیٰ علی العرش استوی من غیر ان یکون لہ حاجۃ ،لانہ ھو الموجد والحافظ للعرش، خلق العرش والکرسی کما بین فی کتابہ وھو جل جلالہ مستغن عنہ، ومادونہ محیط بکل شیء وعلمہ فوقہ ، وقد اعجز عن الاحاطۃ خلقہ،وارادۃ الفوق نفوذ امرہ فوق کل شیء خلق العرش بارادتہ لیس لاحتیاجہ۔؂[87]

ثم قال رحمہ اللہ تعالیٰ : وانہ مستو علی العرش۔

قال السھروردی عن الصوفیۃ :واجمعوا فی کل ما کان من ھذا المعنی ان یقولوا فیہ ما قال مالک فی الاستواء۔

اذ قال : الاستواء معلوم ، والکیف غیرمعقول، والایمان بہ واجب، والسوال عنہ بدعۃ۔؂[88]

( العرش والکرسی حق)؂[89] عرش اور کرسی حق ہیں ۔

(٤)چوتھی خصلت یہ ہے کہ ہم اقرار کریں کہ قرآن کلام اللہ ہے اور غیر مخلو ق ہے۔اور اس کی وحی ہے اس کی طرف سے نازل شدہ اور اس کی صفت ہے ۔نہ اس کا عین ہے نہ غیر بلکہ اس کی صفت ہے (علی التحقیق) ۔مصاحف میں لکھا ہو ا،زبان پر پڑھا ہوا سینوں میں محفوظ ہے ۔بغیر اس کے کہ ان میں حلول ہو۔ اور سیاہی، کاغذ اور کتابت سب مخلوق ہیں کیونکہ یہ بندوں کے افعال ہیں اور اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے ۔اس لئے کہ کتابت 'حروف، کلمات اور آیات سب قرآن پاک کے آلات ہیں کہ مخلوق ان کی محتاج ہے ۔ (یعنی آلات و اسباب کے بغیر اللہ کاکلام نفسی بندوں کی سمجھ میں نہیں آسکتا اور آلات وغیرہ مخلوق ہیں)اور اللہ کا کلام اس کے ساتھ قائم ہے اور قرآن غیر مخلوق ہے ۔۔؂[90] اور قرآن اللہ کا کلام ہے اور قرآن غیر مخلوق ہے ۔ لوگوں کے کلام کی طرح مخلوق نہیں ہے۔۔القرآن کلام اللہ غیر مخلوق مکتوب فی مصاحفنا محفوظ فی قلوبنا مقروّ بالستنا مسموع باٰذانناغیر حال فیھا ۔؂[91] یعنی قرآن اللہ کاکلام ہے ۔ جو مصاحف میں لکھا ہو ا 'سینوں میں محفوظ'زبانوں پر پڑھا ہوا 'کانوں سے سنا ہو ا بغیر اس کے کہ اس میں حلول ہو۔لہذا جس نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے تو اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہے (من قال القرآن مخلوق وارادبہ الکلام النفسی القائم بذاتہٖ کما ھو مذہب الکرامیۃ یکون کافراً۔؂[92] جس نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے اور اس کی مراد اللہ کا کلام نفسی ہو ' جیسے کہ کرامیہ (گمراہ فرقہ)کا مذھب ہے 'تو وہ کافر ہوگا)اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے معبود ہے اور اس کا کلام پڑھا ہوا لکھا ہوااور محفوظ ہے بغیر اس کے کہ موصوف سے زائل ہو۔

تمام صوفیاء کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن در حقیقت اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ کہ قرآن مخلوق نہیں ہے اور نہ ہی محدث اور نہ حدث، نیز یہ کہ ہم اپنی زبان سے اس کی تلاوت کرتے ہیں اور یہ ہمارے مصحفوں میں لکھا ہوا ہے، ہمارے سینوں میں محفوظ ہے لیکن ہمارے سینوں میں حلول کیے ہوئے نہیں ہے۔ ان کا اس پر بھی اجماع ہے کہ قرآن نہ جسم ہے نہ جوہر اور نہ عرض۔؂[93]

ذکر الایمان بان القرآن کلام اللہ عزوجل ، وان کلامہ جل وعلا لیس بمخلوق ، ومن زعم ان القرآن مخلوق فقد کفر۔

قال محمدبن الحسین :اعلموارحمنا اللہ تعالیٰ وایاکم : ان قول المسلمین الذین لم تزغ قلوبھم عن الحق، ووفقوا للرشاد قدیما وحدیثا : ان القرآن کلام اللہ عزوجل لیس بمخلوق لان القرآن من علم اللہ تعالیٰ وعلم اللہ عزوجل لایکون مخلوقا تعالیٰ اللہ عزوجل عن ذالک۔؂[94]

قال حدثنا احمد بن یونس قال: سمعت عبداللہ بن المبارک :قرا شیئا من القرآن ثم قال : من زعم ان ھذا مخلوق ،فقد کفرباللہ العظیم جل جلالہ۔

حدثنا العمری قال: سمعت اسماعیل بن ابی اویس یقول: سمعت مالک بن انس یقول : القرآن کلام اللہ عزوجل وکلام اللہ تعالیٰ من اللہ سبحانہ ولیس من اللہ جل وعلا شیء مخلوق۔؂[95]

ثم قال رحمہ اللہ تعالیٰ: وان القرآن مقروء بالالسنۃ مکتوب فی المصاحف محفوظ فی القلوب۔؂[96]

قال الشیخ ابو علی ناصر الدین المشدالی۔رحمہ اللہ۔ اطلاق القول بان القرآن مخلوق محرم۔ ؂[97]

وما القرآن مخلوقا تعالیٰ                      کلا م الرب عن جنس المقال

اعلم ان القرآن کلام رب العالمین ،نزل بہ الروح الامین فعلمہ سید المرسلین محمدا ﷺ شفیع المذنبین ، لایساویہ شیء من کلام المخلوقین وھو کلام اللہ عزوجل ووحیہ وتنزیلہ وصفتہ قدیم ازلی، قائم بذاتہ لیس بمحدث واللہ تعالیٰ متکلم بکلام ازلی فی الازل فمن قال : مخلوقا کفرباللہ تعالیٰ۔؂[98]

 (٥) پانچویں خصلت یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے بعد اس امت میں سب سے افضل حضرت ابو بکر صدیق ﷜ ،پھر حضرت عمر ﷜ ،پھر حضرت عثمان ﷜ ، پھر حضرت علی ﷜ ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق اور سبقت کرنے والے سابق ہیں یہ ہی نعمتوں والی جنتوں میں مقرب ہیں ؂[99] اور ہر وہ شخص جو سابق ہو وہ افضل ہے۔اور ان سے ہر مومن متقی محبت کرے گا اور ہر منافق بد بخت اُن سے بغض رکھے گا۔

 (وافضل البشر بعد نبینا (بل بعد الانبیاء)ابو بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یدل علیہ قولہ علیہ السلام ما طلعت الشمس ولا غربت بعد النبیین والمرسلین علی احد افضل من ابی بکر ۔۔۔٤١؂[100] اور ہمارے نبی علیہ السلام بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد ابو بکر صدیق ﷜ سب لوگوں سے افضل ہیں۔ جس پر یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ انبیاء و مرسلین کے بعد کسی ایسے شخص پر سورج طلوع نہیں ہو اجو ابو بکر صدیق ﷜ سے اٖفضل ہو ۔ونثبت الخلافۃ بعد رسول اللہ ﷺ اولا لأبی بکرالصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تفضیلاً لہ وتقدیماًعلی جمیع الامۃ؂[101] اور ہم رسول اللہ ﷺ کے بعد خلافت کا اہل حضرت ابو بکر صدیق ﷜ کو اُنکے تمام امت سے افضل و مقدم ہونے کی وجہ سے سمجھتے ہیں ''افضل الناس بعد النبیین ابو بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فھو افضل جمیع الاولیاء بعد الانبیاء ؂[102] یعنی ابوبکر صدیق ﷜تمام نبیوں کے بعد سب اولیاء سے افضل و بہتر ہیں)۔

ان کا اجماع ہے کہ ابوبکر،عمر،عثمان وعلی رضی اللہ عنہم باقی صحابہ پر مقدم ہیں ان کے نزدیک صحابہ اورسلف صالحین کی اقتداء کرنا واجب ہے اورجو اختلاف صحابہ میں رونماہوا یہ اس پر گفتگو کرنے سے باز رہتے ہیں اوراس اختلاف کو اس نیکی میں جس کا ذکر اللہ نے کیا ہے خلل انداز نہیں سمجھتے۔ وہ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ جن لوگوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے جنت کی گواہی دی وہ جنت ہی میں ہوں گے۔ ان کودوزخ کی سزانہ ملے گی۔؂[103]

وان افضل الناس بعد النبی ﷺ ابوبکرالصدیق۔

عبداللہ بن عثمان ،صاحبہ ﷺ فی الغار ،وملازمہ فی ھذہ الدار ، وفی تلک الدار۔

قال السمعانی :والاجماع علی افضلیتہ علی سائر الصحابۃ ،ولایعتد بخلاف الروافض، ومن قال بقولھم ،وھذا مذھب اکثر اھل العلم۔

وقد سئل رسول اللہ ﷺ عن احب الناس الیہ؟ فقال "عائشۃ" فقیل: من الرجال؟ قال "ابوھا" رواہ البخاری وغیرہ۔

واستدل لافضلیتہ بقولہ تعالیٰ: لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقٰتل۔ (الحدید:10) الآیۃ۔؂[104]

(وافضلھم : ابوبکر ثم عمر ۔۔۔الخ)

وقال القاضی عیاض فی "الاکمال" قال ابو منصور البغدادی : اصحابنا مجمعون علی ان افضلھم الخلفاء الاربعۃ علی ترتیبھم فی الخلافۃ،ثم تمام العشرۃ ،ثم اھل بدر، ثم اھل احد،ثم اھل بیعۃ الرضوان، ومن لہ مزیۃ من اھل العقتین من الانصار۔؂[105]

وللصدیق رجحان جلی                                            علی الاصحاب من غیر احتمال

واعلم ان اللہ تعالیٰ ، قد فضل محمد علی جمیع الانبیاء ، ثم بعدہ افضل ھذہ الامۃ وارجحھم علی جمیع الصحابۃ والآل ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ وبعدہ خلیفتہ حقا، وقد ثبتت خلافتہ اولا تقدیما لہ وتفضیلا علی الامۃ وفضلہ قد صح بالکتاب قولہ تعالیٰ:"ثانی اثنین اذھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا۔(التوبۃ:40)

ومن قال ان احدا افضل من ابی بکر کان معتزلیا ورافضیا۔ والرافضۃ یلعنون ابابکر وعمر، رضی اللہ عنھما، ویتبرؤون من جمیع الصحابۃ الا من علی  رضی اللہ عنہ، فضلوا بذلک وکانوا اخبث الناس من خلق اللہ تعالیٰ، وابعد من اللہ ولانصیب لھم فی الرحمۃ ، والصدیق لقب لسید الخلفاء ابی بکر ، رضی اللہ عنہ ، فھو کنیتہ واسمہ عبداللہ ، وکان اسمہ فی الجاھلیۃ عبدالکعبۃ ، وانما لقب بالصدیق لتصدیقہ النبی ﷺ فی امر المسری واسم ابیہ عثمان، وکنیتہ ابوقحافۃ۔ جلی ای ظھر بالعدل والسخاوۃ والکرامۃ۔؂[106]

اصحابنا مجمعون علی ان افضلھم الخلفاء الاربعۃ ، ثم الستۃ الباقون بعدھم الی تمام العشرۃ ، وھم: طلحۃ والزبیر وسعد بن ابی وقاص وسعید بن زید بن عمرو بن نفیل وعبدالرحمن بن عوف وابو عبیدۃ بن الجراح ۔ ثم البدریون ، ثم اصحاب احد ،ثم اھل بیعۃ الرضوان بالحدیبیۃ۔؂[107]

اھل السنۃ علی ان الامام الحق بعد رسول اللہ ﷺ ابوبکر، ثم عمر، ثم عثمان ثم علی رضی اللہ عنہم۔؂[108]

(٦) چھٹی خصلت یہ ہے کہ ہم اقرار کریں کہ بندہ اپنے اعمال 'اپنے اقرار اور اپنی معرفت کے ساتھ مخلوق ہے ۔پس جو فاعل مخلوق ہو تو زیادہ لائق ہے کہ اس کے افعال بھی مخلوق ہوں(و اللہ تعالیٰ خالق لأفعال العباد من الکفر والایمان والطاعۃ والعصیان لا کما زعمت المعتزلہ ان العبد خالق لأفعالہٖ)۔جیسا کہ قرآن کریم میں ہے ''واللہ خلقکم وما تعملون؂[109]  اور اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال مثلاً کفر 'ایمان 'طاعت اور عصیان وغیرہ کا خالق ہے بخلاف معتزلہ کے کہ ان کے نزدیک بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے ۔اور قرآن کریم میں ہے ''اور اللہ تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق ہے '' ۔

 وجمیع أفعال العباد من الحرکۃ والسکون کسبھم علی الحقیقۃ واللہ تعالیٰ خالقھا؂[110] اور بندوں کے تمام افعال مثلاًحرکت و سکون وغیرہ حقیقتاً ان کا کسب کرنا ہے جبکہ اُن افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ۔فحرکتہ خلق للرب وکسب للعبد؂[111] پس اس کی (بندہ کی) حرکت اللہ کا خلق ہے اور بندے کا کسب ہے ۔وافعال العباد خلق اللہ و کسب العباد ؂[112] بندوں کے افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور کاسب (کرنے والے)بندے ہیں ۔

امام کلابازی اپنی کتاب" التعرف" میں فرماتے ہیں:

صوفیاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام افعال کا اسی طرح خالق ہے جس طرح ان کے وجود کا اور یہ کہ ہر نیک وبدجو بندے کرتے ہیں وہ اللہ کی تقدیر ،ارادہ اورمشیت سے کرتے ہیں اگرایسانہ ہوتا تو وہ نہ بندے رہتے نہ پروردہ اورنہ مخلوق ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قُلِ اللہُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ۔؂[113]

فرمادیجئے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے۔

نیز فرمایا: إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ ۔؂[114]ہر چیز جسے ہم نے پیدا کیا ہے اسے ایک اندازے سے پیداکیاہے۔)

نیز فرمایا: وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوهُ فِي الزُّبُرِ۔؂[115]ہر چیز جسے وہ کرتے ہیں کتابوں میں درج ہے۔

اب جب ان کے افعال بھی اشیاء ہیں تو اللہ کا ان کے افعال کا بھی خالق ہوناقرار پایا اگر ان کے افعال غیر مخلوق ہوتے تو اللہ تعالیٰ بعض چیزوں کا خالق ہوتا، سب کا نہ ہوتا اور اللہ کا فرمانا کہ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ۔ (ہر چیز کا خالق ہے) کذب ہوتا۔ اللہ اس سے بہت بلند وبالا ہے۔

یہ بھی معلوم ہے کہ جسموں کے مقابلہ میں افعال کی تعداد زیادہ ہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ بندوں کا خالق ہوتا اور بندے اپنے افعال کے خالق ہوتے تو بندے خالق ہونے کے لحاظ سے صفت مدح کے زیادہ مستحق ہوتے اوران کی مخلوق اللہ کی مخلوق سے زیادہ ہوتی۔ اس صورت میں تو ان کی قدرت و طاقت اللہ سے بھی زیادہ مکمل ہوتی اور مخلوق بھی ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللہ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ۔؂[116]کیا انہوں نے اللہ کے شریک بنارکھے ہیں جنہوں نے اللہ کی سی مخلوق بنائی ہوئی کہ ان پر دونوں مخلوق متشابہ ہوگئے ہیں۔ آپ فرمادیجئے اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ایک اور قہارہے۔

اس آیت میں اللہ نے غیر کے خالق ہونے کی نفی کردی ہے۔

وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ؂[117](اورہم نے ان کے دیہات کے درمیان ایک خاص اندازے کی مسافت رکھی تھی)

نیزفرمایا: وَاللہُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ؂[118]اللہ نے تمہیں اورتمہارے اعمال (دونوں) کو پیدا کیاہے۔

نیز فرمایا : مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ؂[119] ان اشیاء کے شر سے جن کو اس نے پیداکیا۔

یہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ کی مخلوق میں شربھی شامل ہے۔

نیز فرمایا: وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا؂[120]جس کا دل ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر رکھا ہے اس کی اطاعت نہ کریں۔مراد یہ کہ ہم نے اس میں غفلت پیداکردی ہے۔

نیز فرمایا: وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ۔ أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ؂[121]خواہ تم پوشیدہ بات کرو خواہ بلند آواز سے ،اللہ دلوں کی باتوں کو جانتا ہے۔ کیا جس نے پیداکیا وہ نہیں جانتا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کا قول اور راز میں بات کہنا اوراعلانیہ کہنا سب اس کی مخلوق ہیں۔۔؂[122]

طائفۃ تسمی الجبریۃ ذھبوا الی ان العبد لایکتسب شیئا من اعمالہ ۔ فنسبوا الجور بالتعذیب، وابطلوا الشرائع والاحکام۔

طائفۃ تسمی القدریۃ۔ قالوا ان العبد یخترع افعال نفسہ ویضلھا ویھدیھا قالوا: ویفعل العبد عشرۃ اشیاء من صفاتہ: العلم، والجھل،والشک، والظن،والفکرۃ، والنیۃ، والاعتقاد، والکلام،والحرکۃ والسکون ومنھم فی تلک العشرۃ متعلق علی الامر والنھی والثواب والعقاب۔

طائفۃ اھل السنۃ وعصابۃ الحق قالت: ان العبد مجبور فی غیر اختیارہ بل ان لہ قدرۃ تقترن بالمقدور،ولاتؤثر فیہ وکذلک ھی معہ فی المحل الواحد، فان محلھا العضو المتحرک ۔ فھی تتعلق بالمقدور ولاتؤثر فیہ۔وقد قال تعالیٰ:لھا ماکسبت وعلیہا مااکتسبت۔فجعل الثواب والعقاب من وجہ الکسب لامن وجہ الجبر۔؂[123]

وقلنا افعال العباد مخلوقۃ اللہ تعالیٰ لقولہ تعالیٰ:واللہ خلقکم وما تعملون۔ (الصافات:96) وقال النبی ﷺ کل میسر لما خلق لہ۔ وھو خالق الافعال کما ھو خالق الاعیان،والحاصل ان عندھما الارادۃ مطابقۃ للامر فکل ما امراللہ تعالیٰ بہ فقد ارادہ، وکل ما نھی عنہ فقد کرہہ۔؂[124]

واذا عرفت ھذا عرفت ان الصواب ما قالہ اھل السنۃ،ودل علیہ ظاھر الکتاب والحدیث ، واجمع علیہ السلف الصالح قبل ظھور البدع من ان اللہ تعالیٰ ھو الخالق بالاختیار لکل ممکن یبرز الی الوجود ذاتا کان او قولا لھا او فعلا لا یشارکہ تعالیٰ فی ملکہ جمیع الممکنات بشی ء ای شیء وان التاثیر وایجاد اللمکنات خاصیۃ من خواصہ تعالیٰ یستحیل ثبوتھا لغیرہ، قال تعالیٰ :انا کل شیء خلقنہ بقدر۔(القمر:49) واللہ خلقکم وما تعملون۔(الصافات:96) الی غیر ذلک من الظواھر التی لا تنحصر۔؂[125]

(٧)ساتویں خصلت یہ ہے کہ ہم اقرار کریں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو تخلیق کیا ۔حالانکہ ان کے لئے نہ طاقت تھی نہ کمزوری، عاجز تھے ۔اور اللہ ان کا خالق ہے اور ان کا رازق ہے ۔اللہ کے اس فرمان کے مطابق اور اللہ نے تمھیں پیدا کیا پھر تمھیں رزق دیاپھر تمہیں مارے گا ۔پھر تمہیں زندہ کرے گا ؂[126] اور کمائی کرنا(روزی کمانا)حلال ہے ۔

(الکاسب حبیب اللہ ؂[127] ۔ حلال روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے) اور حلال مال جمع کرنا حلال ہے جبکہ حرام مال جمع کرنا حرام ہے۔بندوں کی تین اقسام ہیں۔

(١) مومن مخلص                             (٢)کافر منکر             (٣)منافق ریاکار۔

اللہ تعالیٰ نے مومن پر عمل،کافر پر ایمان اور منافق پر اخلاص فرض کیا ہے اپنے اس فرمان سے ''اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو؂[128] یعنی اے مومنو !اطاعت کرو اے کافرو!ایمان لاؤ اور اے منافقو ! اخلاص پیدا کرو ''۔

وان السحت رزق مثل حل                                                                            ولم یکرہ مقالی کل قال

وکل ما اکل شیئا من الحلال والحرام فذلک رزقہ دلیلنا قولہ تعالیٰ :وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا۔(ھود:6) ؂[129]

اللہ تعالیٰ وعدالرزق لعبادہ ،ھو خالق الاخلاق ورازق الارزاق قولہ تعالیٰ:اللہ الذی خلقکم ثم رزقکم۔(الروم:40) قولہ تعالیٰ: وقدر فیھا اقواتھا(فصلت:10) قولہ تعالیٰ:ومانزلہ الابقدر معلوم(الحجر:21) قولہ تعالیٰ(ویرزقہ من حیث لایحتسب۔ (الطلاق:3) ؂[130]

(٨) آٹھویں خصلت یہ ہے کہ ہم اقرار کریں کہ استطاعت فعل کے ساتھ ہوتی ہے نہ فعل سے پہلے اور نہ فعل کے بعد ۔کیونکہ اگر فعل سے پہلے ہو تو پھر بندہ اللہ سے مستغنی ہو جائے گا ۔اپنی حاجت کے وقت اور یہ حکم نص کے خلاف ہے ۔اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وجہ سے ''اور اللہ غنی ہے جبکہ تم فقیر (محتاج ہو) ؂[131] ''اور اگر فعل کے بعد ہو تو یہ محال ہے اس لئے کہ یہ بلا استطاعت فعل کا حصول ہو گا (اور استطاعت کے بغیر فعل کا حصول کیسے ممکن ہے)(والاستطاعۃ التی یجب بھا الفعل۔۔۔تکون مع الفعل ۔٤١؂[132])اور وہ استطاعت جس سے فعل (ادا کرنا) واجب ہوتا ہے وہ فعل کے ساتھ ہوتی ہے ۔ والاستطاعۃ مع الفعل خلا فا للمعتزلۃ ؂[133] اور استطاعت فعل کے ساتھ ہوتی ہے بخلاف معتزلہ کے۔

 اہل سنت کا اس امر پر اجماع ہے کہ انسان نہ کوئی سانس لے سکتا ہے نہ آنکھ جھپک سکتا ہے اور نہ کوئی حرکت کرسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس میں عین اس فعل کے وقت ایک قوت پیدا کردیتا ہے اور قدرت دے دیتا ہے اور یہ فعل نہ اس قوت سے پہلے ہوسکتا ہے اور نہ بعد۔ اور نہ یہ فعل اس قوت کے بغیر واقع ہوسکتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو بندوں میں خداوندی صفت پائی جاتی کہ اللہ کی طرح جو چاہتے کرتے اور جیسا چاہتے فیصلہ کرتے اور اللہ تعالیٰ جو یہ فرماتاہے: یَفْعَلُ مَا یَشَاءُ (وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے)

حقیر، ضعیف اور محتاج بندے کے مقابلہ میں ایسا کہنے میں زیادہ حقدار نہ ہوتا اور اگر استطاعت خود اعضاء سلیم ہی ہوتے تو پھر تمام اعضاء سلیم کسی فعل کے کرنے میں یکساں ہوتے مگر ہم جب اعضاء سلیم رکھنے والوں کو دیکھتے ہیں تو اُن میں افعال کو نہیں پاتے لہٰذا ثابت ہوگیا کہ استطاعت اس قوت کو کہتے ہیں جو ان اعضاء سلیمہ پر وارد ہوتی ہے اور یہ قوت مختلف ہوتی ہے کسی میں کم اور کسی میں زیادہ۔ مزید برآں کبھی ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی اور ہر انسان اس بات کا اپنی ذات میں مشاہدہ کرتا ہے۔

مزید برآں چونکہ یہ قوت عرض ہے اور عرض بذات خود باقی نہیں رہ سکتی اور یہ نہ اس بقاء کی وجہ سے جو اس میں پائی جاتی ہے باقی رہ سکتی ہے۔ کیونکہ جو چیز بنفسہٖ قائم نہ ہو اور نہ ہی کوئی اور اس کو قائم کیے ہوئے ہو وہ اس بقاء کی وجہ سے جو کسی اور میں پائی جاتی ہے باقی نہیں رہ سکتی۔ اس لیے کہ کسی اور کی بقاء اس کی بقاء نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اس کا باقی رہنا باطل ہوگیا۔ اندرین صورت یہ واجب ہوگیا کہ ہر فعل کی الگ الگ قوت ہو۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مخلوق کو فعل کرتے وقت اللہ کی حاجتمندی نہ ہوتی اور نہ وہ اس کے محتاج ہوتے۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ (ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں) بے معنی ٹھہرتا اور اگر یہ قوت اسے فعل سے پہلے حاصل ہوتی اور فعل کے وقت تک نہ رہتی تو یہ فعل ایک معدوم قوت کے ذریعے سے واقع ہوا ہوتا۔ اس صورت میں یہ فعل بغیر قوت کے موجود ہوا ہوتا اور اس میں ربوبیت اور عبودیت دونوں باطل ہوجاتی ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ بھی جائز ہوتا کہ فعل قویٰ کے بغیر صادر ہو اور اگر یہ جائز ہوتا تو خود ان کا اپنا وجود فاعل کے بغیر بذات خود ہوتا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور عبد صالح کے قصے میں فرمایا ہے۔اِنَّکَ لَنْ تَسْتطیع معی صَبْرا (تو میرے ساتھ صبر نہ کرسکے گا)

نیز فرمایا: ذلک تَأویل مالم تستطع علیہ صبرا (جس بات پر تو صبر نہیں کرسکا یہ اس کی تاویل ہے) اللہ کی مراد یہ ہے کہ تو صبر کی طاقت نہیں رکھ سکتا۔

صوفیاکا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ مخلوق کے افعال ہیں اور وہ در حقیقت ان کا اکتساب بھی کرتے ہیں اور ان کو ان ہی پر جزا اور سزا ملے گی اسی لیے تو امرونہی وارد ہوئی ہے اور وعدہ اور وعید وارد ہوئے ہیں۔

اکتساب کے معنی یہ ہیں کہ انسان ایک نئی پیدا شدہ قوت کے ذریعہ سے کام کرے۔ ایک صوفی کہتا ہے: اکتساب کے معنی یہ ہیں کہ انسان نفع حاصل کرنے کے لیے یا ضرر کو دور کرنے کی غرض سے کوئی کام کرے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ (جو کچھ اس نے کیا اس کا فائدہ بھی اسی کو ملے گا اور جو بُرا کام کیا اس کی سزا بھی اسی کو ملے گی) ؂[134]

(٩)نویں خصلت یہ ہے کہ ہم اقرار کریں کہ مسح موزوں پر کرنا واجب ہے مقیم کے لئے ایک دن اور رات جبکہ مسافر کے لئے تین دن اور تین رات ۔کیونکہ حدیث اس طرح وارد ہوئی ہے اور جو اس کا انکار کرے تو اس پر کفر کا خوف ہے کیونکہ (مسح والی)حدیث خبر متواتر نص کی طرح ہے اس لئے اس کا انکار کفر ہے ۔(ونری المسح علی الخفین فی السفر والحضر ؂[135] ہمارے نزدیک سفر و حضر میں خفین پر مسح کرنا ہے۔قال صاحب الخلاصہ وفی المنتہی سئل ابو حنیفہ عن مذہب اہل السنۃ والجماعۃ فقال ان تفضل الشیخین و تحب الختنین و تری المسح علی الخفین ؂[136] ۔صاحب خلاصہ نے کہا کہ منتہی میں ہے امام اعظم ابو حنیفہ﷫ سے مذہب اہل سنت و جماعت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا فضیلت شیخین (ابو بکر ﷜ و عمر ﷜)محبت ختنین (عثمان ﷜ و علی ﷜)اور مسح علی الخفین)اور سفر سفر میں قصر کرنا اور روزہ چھوڑنے کی رخصت کتاب اللہ کی نص سے ثابت ہے''اور جب تم زمین پر سفر کرو تو تم پر کوئی حرج نہیں کہ نماز قصر کرو''؂[137] اور افطار کے متعلق فرمان الٰہی ہے پس تم میں سے جو مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں ان (روزوں)کی گنتی پوری کر لے''۔؂[138]

 (١٠)دسویں خصلت یہ ہے کہ اقرار کریں کہ اللہ نے قلم کو حکم دیا کہ لکھے تو قلم نے کہا کیا لکھوں اے میرے ربّ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایالکھو جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے ۔اس بات کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے ۔اور ہر وہ کام جو انہوں نے کیا وہ دفتر میں محفوظ ہے اورہر چھوٹی بڑی شے لکھی ہوئی ہے''۔؂[139]

حدثنا ربیعۃ بن یزید عن عبداللہ الدیلمی عن عبداللہ بن عمرو بن العاص قال قال رسول اللہ ﷺ ان اللہ خلق خلقہ فی ظلمۃ والقی علیہم من نورہ فمن اصابہ من ذلک النور اھتدی بہ، ومن اخطاہ ضل۔قال عبداللہ بن عمرو فلذلک اقول جف القلم بما ھو کائن۔

حدثنا اسماعیل بن عیاش عن یحیی بن ابی عمرو السیبانی عن عبداللہ الدیلیمی قال سمعت عبداللہ بن عمرو یقول:سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ان اللہ عزوجل خلق خلقہ فی ظلمۃ والقی علیہم من نورہ فمن اصابہ من ذالک النور اھتدی ومن اخطاہ ضل۔ فلذلک اقول: جف القلم علی علم اللہ عزوجل۔؂[140]

(ابو المنتہی شرح فقہ الاکبر میں یہ حدیث وار دہے اوّل ماخلق اللہ القلمص٣٦)؂[141] یعنی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا ۔اس سے بعض لوگوں نے یہ خیال کیا کہ قلم کو سب مخلوقات سے  پہلے پیدا کیا گیا جیسا کہ بعض فلسفیوں کا نظریہ ہے ۔حالانکہ یہ خیال و نظریہ درست نہیں ہے کیونکہ صحیح حدیث میں حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری ﷜ سے مروی ہے کہ ''اوّل ما خلق اللہ نور نبیک''؂[142] ٤١ دوسری جگہ اول ما خلق اللہ نوری ۔٤١ وارد ہوا ہے ''۔یعنی سب سے پہلے اللہ نے تیرے نبی کے نور کو تخلیق فرمایا اور سب سے پہلے اللہ نے میرے نور کو پیدا کیا ''ان دونوں احادیث میں تعارض اس طرح رفع ہو گا کہ (اول ما خلق اللّٰہ نوری)میں اولیت مطلقہ کابیان ہے یعنی کائنات کی ہر شے سے پہلے نور نبی ﷺ کو تخلیق کیا گیا اور اس حدیث (اول ماخلق اللہ القلم)میں اولیت اضافی کا بیان ہے یعنی اشیاء سے پہلے قلم کو تخلیق کیا گیا۔ لہذا اولیت تخلیق علی الاطلاق نور نبی ﷺ کو حاصل ہے اور یہی اھل السنۃ و الجماعۃ شکر اللہ سعیہم کا عقیدہ ہے ۔(الحمداللہ علی ذٰ لک مترجم)

 (١١)گیارھویں خصلت یہ ہے کہ ہم اقرار کریں کہ عذاب قبر یقینا (لا محالہ) آنے والا ہے (وعذاب القبر للکافرین ولبعض عصاۃ المومنین وتنعیم اھل الطاعۃ فی القبر بما یعلمہ اللہ ویریدہ ؂[143] کافروں اور بعض گناہگار مومنوں کے لئے عذاب قبر اور نیک لوگوں کے لئے نعمتیں قبر میں اللہ کے علم کے مطابق اور اس کے ارادے کے موافق حق ہیں ۔ وسؤال منکر نکیر فی القبر حق ۔۔۔ وضغظۃ القبر حق وعذابہ حق؂[144] اور قبر میں منکر نکیر کے سوال حق ہیں ۔اور قبر کا دبانا اور اس کا عذاب حق ہے ۔ونؤمن بملک الموت الموکل بقبض أرواح العالمین و بعذاب القبر لمن کان لہ أھلاً۔ ٤١؂[145] اور ہم ملک الموت (جو عالمین کی ارواح قبض کرنے کے ذمہ دار ہیں)پر ایمان لاتے ہیں اور عذابِ قبر پر جو اس کا اھل ہو۔

احادیثہ تبلغ التواتر المعنوی ،وعن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مرفوعا "عذاب القبر حق"رواہ البخاری ۔ وصح استعاذۃ النبی ﷺ کما رواہ الستۃ عن عائشۃ رضی تعالیٰ عنہا والبخاری ومسلم وابوداود والترمذی وابن حبان والمستدرک۔

وعن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مرفوعا:"ان اھل القبور یعذبون فی قبورھم عذابا تسمعہ البہائم۔ رواہ ابن ابی شیبۃ والبخاری ومسلم،وعن ابی سعید الخدری قال: کنت مع رسول اللہ ﷺ فی سفر وھو یسیر علی راحلتہ فنفرت فقلت یا رسول اللہ ماشان راحلتک ؟قال :انہا سمعت صوت رجل یعذب فی قبرہ فنفرت لذلک ۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط۔؂[146]

وفی الاجداث عن توحید ربی                                                             سیبلی کل شخص بالسوال

واعلم ان سوال منکرونکیر للمیت فی القبر عن ربہ ودینہ حق، لورود الاحادیث عن النبی ﷺ قال اذا دفن المیت فی قبرہ اتاہ ملکان اسودان ازرقا العین وھما شخصان مھیبان مھیلان معھما مرزبتان یقعدان العبد فی القبر سویا فیسالاہ عن ثلاثۃ من ربک ومادینک ومانبیک۔وقیل ایضا وما قبلتک وما امامک وما اخوانک فاذا اجابھا وسعا فی قبرہ سبعین ذراعا عن یمینہ وسبعین ذراعا عن یسارہ ویقولان لہ ثبتک اللہ نم قریر العین وان کان کافرا یقول: لاادری فیقولانہ لادریت فیضربانہ بمرزبۃ یسمعھما ما بین الخافقین الا الجن والانس۔؂[147]

واعلم ان عذاب القبر للکفار ولمن کان مستحقا من المؤمنین حق، والانعام لاھل الطاعات ،ولھم ایصال اللذات وارواحھم وابدانھم فی الراحات بذلک عند اھل السنۃ والجماعۃ حق یخلق اللہ فی القبرفی المیت ضرب الحیاۃ بقدر مایتالم بہ ان کان کافرا ویتلذذ بالاکرام ان کان مؤمنا قولہ تعالیٰ"امتنا اثنتین واحییتنا اثنتین" (غافر: 11) وللکفار عذاب القبر یوم القیامۃ ثم فی النار ابدا خالدا۔؂[148]

ثم قال رحمہ اللہ تعالیٰ:والزم الخلق تصدیقہ فی جمیع ما اخبر عنہ من امور الدنیا والآخرۃ وانہ لا یتقبل ایمان عبد حتی یؤمن بما اخبر بہ بعد الموت۔

واولہ سؤال منکر ونکیر۔

وھما

شخصان مھیبان ھائلان

یقعدان العبد فی قبرہ سویا ذا روح و جسد۔

فیسالانہ عن الایمان والتوحید

فیقولان لہ۔

من ربک ومادینک ومانبیک

وھما

فتانا القبر

وسؤالھما اول فتنۃ بعد الموت

ثم قال رحمہ اللہ تعالیٰ وان یؤمن بعذاب القبر۔

وقال ﷺ ما منکم من احد الا ویعرض علیہ مقعدہ من الغداۃ والعشی فان کان من اھل الجنۃ فمن اھل الجنۃ وان کان من اھل النار فمن اھل النار۔؂[149]

عن سفیان یعنی ابن سعید الثوری عن ابیہ عن خیثمۃ عن البراء بن عازب فی قول اللہ عزوجل: یثبت اللہ الذین آمنوا بالقول الثآبت فی الحیوۃ الدنیا وفی الآخرۃ۔قال نزلت فی عذاب القبر۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن رسول اللہ ﷺ قال اتدرون ما ظنک؟ قالوا اللہ ورسولہ اعلم۔ قال عذاب الکافر فی قبرہ والذی نفسی بیدہ انہ لیسلط علیہ تسع وتسعون تنینا اتدرون ما التنین؟ تسع و تسعون حیۃ لکل حیۃ سبعۃ اروس ینجخون جسمہ ویلسعونہ ویخدشونہ الی یوم القیامۃ۔

عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان یھودیۃ دخلت علیھا فامرت لھا بشئ فقالت اعاذک اللہ، او اعاذکم اللہ ، من عذاب القبر،فذکرت حدیث الکسوف وقالت فی آخرہ۔فدخل علی رسول اللہ ﷺ وھو یقول انی رایتکم تفتنون فی قبورکم مثل فتنۃ الدجال ،قالت، وسمعتہ یقول :اللھم انی اعوذ بک من عذاب القبر واعوذ بک من عذاب النار۔

عن انس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ دخل حائطا من حوائط بنی النجار فسمع صوتا من قبر فقال متی دفن صاحب ھذ ا القبر؟فقالوا فی الجاھلیۃ فسر بذلک فقال لو لا ان لاتدافنوا لدعوت اللہ ان یسمعکم عذاب القبر۔

عن البراء او عن ابی عبیدۃ فی قول اللہ عزوجل :ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر۔قال عذاب القبر۔

عن ابی کریمۃ عن زاذان فی قولہ عزوجل: وان للذین ظلموا عذابا دون ذلک۔ قال عذاب القبر۔؂[150]

اثبات عذابِ قبر کے بارے میں چند احادیث

قال النبی ﷺ القبر روضۃ من ریاض الجنۃ أو حفرۃ من حفر النیران(٣٥)قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ۔

 عن انس رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال العبد اذا وضع فی قبرہ وتولی و ذھب اصحابہ حتی انہ یسمع قرع نعالہم اتاہ ملکان فأقعداہ فیقولان لہ ماکنت تقول فی حق ھذا الرجل محمد (ﷺ)فیقول انہ عبداللہ ورسولہ فیقال أنظر الی معقدک من النار ابد لک اللہ بہ مقعدا من الجنۃ قال النبی ﷺ فیراھما ۔جمیعاً واما الکافر أو المنافق فیقول لا ادری کنت اقول ما یقول الناس فیقال لا دریت ولا تلیت ثم یضرب بمطر قۃ من حدید ضربۃ بین اذنیہ فیصیحہ صیحۃ لیسمعھا من یلیہ الاالثقلین ۔؂[151]

ترجمہ: حضرت انس ﷜ نبی کریم علیہ السلام سے روایت فرماتے ہیں کہ جب بندہ قبر میں رکھاجاتا ہے۔اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ (مردہ)اُن کے چلنے کی آواز سنتا ہے دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اس شخص کے متعلق تو دنیا میں کیا کہا کرتا تھا۔ (نبی کریم علیہ السلام کی زیارت کروائی جائے گی)اگر وہ کہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اس سے کہا جائے گا دیکھو اپنا جہنم کا ٹھکانہ جسے اللہ نے بدل کر جنت کا ٹھکانہ بنا دیا ہے ۔نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ دونوں کو دیکھ لے گا اور کافر یا منافق یہ کہے گا کہ میں نہیں جانتا جو لوگ اس شخص کے بارے میں کہا کرتے تھے میں بھی یہی کہتاتھا (یعنی حضور نبی کریم ﷺ کو پہچان نہیں سکے گا ۔)تو اس سے کہا جائے گا کہ تو نے نہیں پایا اور نہ پڑھا پھر اسے لوہے کے ہتھوڑے سے دونوں کانوں کے درمیان مارا جائے گا پس وہ زور سے چیخے گا جس کی چیخ کو جن و انس کے علاوہ سب سنیں گے ۔عن عمران النبی ﷺ کان یتعوذ من الجبن والبخل وفتنۃ الصدرو عذاب القبر ؂[152] حضرت عمر ﷜ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السلام بزدلی'بخل 'فتنہ الصدر اور عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔مترجم

 اور جنت و دوزخ حق ہیں اور دونوں اپنے اپنے اصحاب کے لئے بنائی گئی ہیں ۔اللہ کے فرمان کے مطابق جو مومن کے بارے میں ہے'' تیار کی گئی ہے (جنت) متقیوں کے لئے ۔''اور کافروں کے بارے میں ہے ''تیار کی گئی ہے (جہنم)کافروں کے لئے''اللہ نے جنت اور دوزخ کو ثواب اور عقاب (سزا) کے لئے تخلیق فرمایا ہے ۔(والجنۃ والنار مخلوقتان الیوم) ۔؂[153] (اور جنت و دوزخ کو تخلیق کر دیا گیا ہے)۔ والجنۃ حق والنار حق مخلوقتان موجوتان باقیتان لاتفنیان ولایفنی اھلھما ؂[154] جنت و جہنم دونوں مخلوق ہیں موجود ہیں باقی ہیں فنا نہیں ہونگی اور نہ ہی ان کے اھل(جنت و جہنم میں جانے والے)فنا ہونگے ۔

 والجنۃ والنار مخلوقتان ۔۔۔؂[155]  اور جنت و دوذخ مخلوق ہیں ۔

قال محمد بن الحسین رحمہ اللہ :اعلموا رحمنا اللہ وایاکم ۔ ان القرآن شاھد: ان اللہ عزوجل خلق الجنۃ والنار،قبل ان یخلق آدم علیہ السلام، وخلق للجنۃ اھلا،قبل ان یخرجھم الی الدنیا، لایختلف فی ھذا من شملہ الاسلام، وذاق حلاوۃ طعم الایمان ،دل علی ذلک القرآن والسنۃ،فنعوذ باللہ ممن کذب بھذا۔؂[156]

واعلم ان الجنۃ والنار مخلوقتان عند اھل السنۃ والجماعۃ ،وقالت النجاریۃ والجھمیۃ والمعتزلۃ والقدریۃ غیر مخلوقتین ولایسمان بشیء۔

قالوا: ان اللہ تعالیٰ قادر علی خلقھما بعد افتراق الفریقین۔

ونرد علیہم بقولہ تعالیٰ فی شان الجنۃ"اعدت للمتقین"(آل عمران:133)

وفی شان النار:"اعدت للکافرین"(آل عمران:131) ؂[157]

امام کلابازی ؒ لکھتے ہیں :

صوفیاء کا اس پر بھی ایمان ہے کہ جنت اور دوزخ ابد تک رہیں گے نیز یہ کہ دونوں پیدا کی جاچکی ہیں اور ابد الآباد تک باقی رہیں گی نہ فنا ہوں گی نہ ختم۔ یہی حال ان دونوں کے ساکنین کا ہوگا کہ اہل جنت جنت میں باقی اور ہمیشہ کے لیے ناز و نعمت میں ہوں گے اور اہل دوزخ عذاب میں۔ اہل جنت کی نعمتیں ختم نہ ہوں گی اور اہل دوزخ کا عذاب منقطع نہ ہوگا۔ ؂[158]

اور میزان (اعمال کا وزن)حق (ثابت) ہے ۔اللہ کے اس فرمان کے مطابق ''اور ہم رکھیں گے میزان کو انصاف کے ساتھ قیامت کے دن ''؂[159] اور اعمال نامہ پڑھنا بھی حق (ثابت) ہے اللہ کے اس فرمان کے مطابق ''پڑھو اپنی کتاب (اعمال نامہ) والوزن حق لقولہٖ تعالیٰ والوزن یومئذ الحق۔۔۔۔؂[160] (ص ١٠٣،شرح عقائد)اور وزن (میزان)حق ہے اللہ کے اس قول کے مطابق ''اور اس دن (قیامت کے دن) میزان (اعمال کے وزن) حق ہے ۔ والحساب والمیزان حق ؂[161] اور حساب و میزان حق ہے ۔

الایمان بالمیزان انہ حق یوزن بہ الحسنات والسیئات

عن سلمان رضی اللہ عنہ قال "یوضع الصراط یوم القیامۃ ، ولہ حد کحد الموسی ،قال: ویوضع المیزان ، ولو وضعت فی کفتیہ السموات والارض وما فیھن لوسعتھن ، فتقول الملائکۃ :ربنا لمن تزن بھذا :لمن شئت من خلقی ، فیقولون ربنا ما عبدناک حق عبادتک۔

عن القاسم بن ابی بزۃ قال :سمعت رجلا یقال لہ :عطاء یحدث عن ام الدرداء عن ابی الدرداء عن النبی ﷺ قال: ما من شیء اثقل فی میزان المومن من الخلق الحسن۔؂[162]

وحق وزن اعمال وجری                                                                                          علی متن الصراط بلا اھتبال

واعلم ان المیزان والصراط حق ومن لم یرھا کان جھمیا وقدریا ومعتزلیا، وللمیزان کفتان کل کفۃ۔ عظمھا مثل اطباق السماوات والارض ،فیوزن اعمال المتقین والمؤمنین علیہ، قولہ تعالیٰ:فاما من ثقلت موازینہ(القارعۃ:6)ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ (الانبیاء:47) وقولہ تعالیٰ "فھو فی عیشۃ راضیۃ واما من خفت موازینہ فامہ ھاویۃ(القارعۃ:7۔9) ؂[163]

ثم قال رحمہ اللہ تعالیٰ: ویؤمن بالمیزان۔

ذی الکفین واللسان۔

وصفتہ فی العظم مثل طبقات السموات والارض۔

توزن فیہ الاعمال بقدرۃ اللہ۔

والصنج یومئذ مثاقیل الذرّ والخردل۔

تحقیقاً لتمام العدل۔

فتطرح صحائف الحسنات فی صورۃ حسنۃ فی کفۃ النور۔

فیثقل بھا المیزان۔

علی قدردرجاتھا عنداللہ۔

بفضل سبحانہ وتطرح صحائف السیئات فی صورۃ قبیحۃ فی کفۃ الظلمۃ۔

فیخف بھا المیزان بعدل اللہ۔؂[164]

صوفیاء کا ''صراط'' پر بھی ایمان ہے اور یہ کہ یہ ایک پل ہے جسے جہنم کے آرپار پھیلا دیا جائے گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ آیت پڑھی :

 یَومَ تُبَدَّلُ الاَرضُ غَیرَ الاَرْضِ۔(جس دن اس زمین کو بدل کر اور زمین بنا دیا جائے گا) تو کہا: یا رسول اللہ! اس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا: صراط پر۔
صوفیاء کا ''میزان'' پر بھی ایمان ہے، نیز اس بات پر کہ لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
فَمَن ثقُلَتْ مَوَازِیْنُہ فاولٰئکَ ھُمُ المفلِحُون وَمَنْ خَفَّتْ موازینُہ (جن کے وزن بھاری ہوں گے یہی لوگ کامیاب ہوں گے اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے) اگرچہ انہیں اس وزن کی کیفیت معلوم نہیں۔؂[165]

 (١٢)بارہویں خصلت یہ ہے کہ ہم اقرار کریں کہ اللہ تعالیٰ زندہ کرے گا اس مرنے کے بعد اور اُٹھائے گا انھیں اس دن جس کی مقدار پانچ ہزار سال ہوگی جزاء کے لئے ثواب کے لئے اور حقوق کی ادائیگی کے لئے ۔اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق اور'' بے شک اللہ اُٹھائے گا انہیں جو قبروں میں ہیں ''۔ والبعث حق ۔؂[166] اور موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنا حق ہے ۔ونؤمن بالبعث وجزاء الاعمال یوم القیامۃ ۔۔١٤؂[167] اور ہم مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر اور قیامت میں اعمال کی جزاء پر ایمان رکھتے ہیں ۔

حساب الناس بعد البعث حق                  فکونوا بالتحرز عن وبال

واعلم ان الحساب حق بعد البعث، واللہ یحاسب عبادہ بعدالبعث علی افعالھم واقوالھم قلیلا کان او کثیرا فی عرصات القیامۃ بلاترجمان بینہ وبین عبادہ ،وھو یسال العبد والعبد یجیب ، والناس متفاوتون فی ذلک الی المناقش فی الحساب والی مسامح فی الجنۃ بغیر حساب وإلی من یدخل النار بغیر حساب، کما قال اللہ تعالیٰ: لنسألنھم أجمعین عماکانوا یعملون۔(الحجر:92-93) فسوف یحاسب حساب یسیرا(الانشقاق:8)

وقال النبی ﷺ "حلھا حساب وحرامھا عذاب"۔ ومن أنکر الحساب ولم یرہ حقاً صار فلسفیاوجھمیا وقدریا ،ومعتزلیا فھم ینکرون الحساب ولایخافون العذاب۔؂[168]

 والقصاص فیما بین الخصوم۔۔۔۔حق ؂[169]  اور لوگوں کے درمیان جھگڑوں کا قصاص (بدلہ) حق (ثابت) ہے اور اللہ کی ملاقات جنتیوں کے لئے بلا کیف بلا تشبیہہ اور بلا جہت حق (ثابت) ہے۔ (رؤیتہ حق لا ھل الجنۃ بغیر أحاطۃ ولا کیفیۃ کما نطق بہ کتاب ربنا (وجوہ یومئذ نا ضرۃ الی ربھا نا ظرۃ) ؂[170] اللہ کی رویت (دیدار)اہل جنت کے لئے بغیر احاطہ کے اور بغیر جہت و بلا کیف حق ہے جیسا کہ ہمارے رب کی کتاب اس پر ناطق ہے بعض چہرے اس دن تر و تازہ ہونگے اور اپنے رب کی طرف دیکھتے ہونگے۔ حدیث شریف میں ہے کہ انکم سترون ربکم؂[171] بے شک تم اپنے رب کو عنقریب دیکھو گے لہذا یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ ایمان دار لوگ اپنے رب کو جنت میں دیکھیں گے ۔اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کو ہمارے نبی کریم ﷺ نے دیکھا ہے بلا کیف۔ معراج کے موقع پر ۔ھل یجوز رؤیۃ اللہ تعالیٰ فی الدنیا بعین البصر للأولیاء ۔۔۔فاجابہ وھو اجماع الائمۃ من أھل السنۃ والجماعۃ 'علی أن رؤیتہ تعالیٰ بعین البصر جائزۃ فی الدنیا والآخرۃ عقلاً وواقعۃ وثابتۃ فی العقبیٰ سمعا ً و نقلاً؂[172]

کیا رؤیت باری تعالیٰ اس دنیا میں سر کی آنکھ سے اولیاء کے لئے جائزہے ؟حضرت علی قاری ﷫ نے جواب دیا کہ اس بات پر اھل سنت و جماعت کے آئمہ کا اجماع ہے کہ دنیا و آخرت میں دیدار الٰہی سر کی آنکھ سے عقلاً جائز ہے اور سمعی و نقلی دلائل سے آخرت میں واقع و ثابت ہے ۔

 ورؤیۃ اللہ تعالیٰ بالبصر جائزۃ فی العقل و واجبۃ بالنقل و قدو رد الدلیل السمعی با یجاب رؤیۃ المؤمنین اللہ تعالیٰ فی دار الآخرۃ اما الکتاب فقولہ تعالیٰ وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ واما السنۃ فقولہ علیہ السلام انکم سترون ربکم کما ترون القمر لیلۃ البدر وھو مشھور رواہ احدو عشرون من اکابر الصحابۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہم واما الأجماع فھو ان الأمۃ کانو ا مجمعین علی وقوع الرؤیۃ فی الآخرۃ۔؂[173]

اور دیدار الٰہی سر کی آنکھ سے عقلاً جائز اورنقلاً واجب ہے اور تحقیق مومنین کے آخرت میں دیدار الٰہی کے وجوب پر دلیل سمعی وارد ہے ۔جیسا کے فرمان الٰہی ہے:ان کے چہرے اس دن تر و تازہ ہونگے اور اپنے رب کی طرف دیکھتے ہونگے اور حدیث شریف میں ''بے شک تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جیسے چودھویں کے چاند کو تم دیکھتے ہو۔ اور یہ حدیث ''مشہور'' ہے جس کو 21اکابر صحابہ ﷢ نے روایت فرمایا ہے ۔اور امت مسلمہ مرحومہ کے آئمہ کرام رویت باری تعالیٰ کےقیامت کے دن واقع ہونے پر متفق ہیں ۔

کما یری الأبرارذات اللہ تعالیٰ فی الآخرۃ من غیر جوھر ولا عرض۔قال اللہ تعالیٰ: وجوہ یومئذ ناضرۃ۔الی ربہا ناظرۃ۔(سورۃ القیامۃ:22)وقال علیہ الصلاۃ والسلام : "سترون ربکم کما ترون القمرلیلۃ البدر"۔الحدیث۔وتقدم الکلام علیہ۔؂[174]

ویجوز فی حقہ تعالیٰ أن یری بالابصار علی مایلیق بہ جل وعلا ، لا فی جھۃ ولا فی مقابلۃ لقولہ تعالیٰ: الی ربہا ناظرۃ۔(القیامۃ:23) ولسؤال موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام لھا، اذ لو کانت مستحیلۃ ما جھل امرھا، ولإجماع السلف الصالح قبل ظھور البدع علی ابتھالھم إلی اللہ تعالیٰ،وطلبھم النظرإلی وجہہ الکریم، ولحدیث "سترون ربکم" ونحوہ مماورد ،والظواھر إذکثرت فی شیء أفادت القطع بہ۔؂[175]

یراہ المؤمنون بغیر کیف                                       وإدراک وضرب من مثال

فینسون النعیم اذا رأوہ                                                                                                فیاخسران اھل الاعتزال

واعلم ان لقاء اللہ تعالیٰ برؤیۃ اھل الجنۃ فی دارالآخرۃ حق بدلیل قطعی۔ وقال الکرامیۃ :اللہ یری جسما کما فی الشاھد۔

وقالت الخوارج والزیدیۃ من الروافض وعامۃ المعتزلۃ :الرؤیۃ مستحیلۃ وھم انکروا ذلک وھو کفر۔

وقالت النجاریۃ:الرؤیۃ حق، ولکن یری بالقلب۔

قال رسول اللہ ﷺ "انکم سترون ربکم یوم القیامۃکما ترون القمرلیلۃ البدرلاتضاھون فی رؤیتہ"

وقال اللہ تعالیٰ: للذین احسنوا الحسنی وزیادۃ(یونس:26) یعنی رؤیۃ اللہ تعالیٰ،وقال : وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ(القیامۃ:22-23) ؂[176]

امام کلابازی ؒ لکھتے ہیں :

صوفیاء کا اس پر اتفاق ہے کہ ہم آخرت میں اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھیں گے اوریہ کہ صرف مومن دیکھ سکیں گے نہ کہ کافر کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کے لیے انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الحُسْنَی وَزِیاَدَۃ۔(جنہوں نے نیک کام کیے انہیں نیکی ملے گی اور بھی زیادہ دیا جائے گا)۔

 صوفیاء نے دیدار الٰہی کو عقلاً جائز قرار دیا ہے اور شرعاً وروایۃً اسے واجب قرار دیا ہے عقلاً یوں جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے اور ہر موجود کو دیکھ لینا جائز ہے مگر جب اللہ تعالیٰ ہم میں دیدار کی قوت پیدا کردے۔ اگر دیدار الٰہی جائز نہ ہوتا موسیٰ علیہ السلام کا اَرنی انظر الیک (مجھے اپنا آپ دکھاؤ تاکہ تمہیں دیکھ سکوں) کہنا جہل اور کفر ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر فَاِنْ استَقَرَّ مَکَانہ فَسَوْفَ تَرَانِیْ۔(اگر یہ اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تو بھی مجھے دیکھ لے گا)۔

پہاڑ کے برقرار رہنے کو دیدار کی شرط قرار دیا ہے اور پہاڑ کا برقرار رہنا عقلاً ممکن ہے بشرطیکہ اللہ اس کو برقرار رکھتا لہٰذا وہ دیدار جس کی شرط پہاڑ کا برقرار رہنا تھا بھی عقلاً جائز اور ممکن تھا۔ لہٰذا جب اس کا عقل میں جائز ہونا ثابت ہوگیا پھر شریعت میں اس کے واجب ہونے کا بھی ذکر آگیا چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وُجو ُہ یَومئذٍ ناَضرَِۃ الیٰ رَبِّھَا ناظِرَۃ۔(اس روز کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے)۔ نیز اس کا فرمانا: کَلَّا اِنَّھُمْ عَن رَّبِھِمْ یَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُوْنَ۔(ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا یہ لوگ قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھنے سے روک دیے جائیں گے)۔ نیز اس کا فرمانا: لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الحُسْنَی وَزِیاَدَۃ۔ اور ایک روایت میں آیا ہے کہ ''زیادہ'' سے مراد دیدار الٰہی ہے۔

 نیز نبی ﷺ نے فرمایا تم عنقریب اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح تم چودھویں رات کے چاند کودیکھتے ہو اور تمہیں (اس کو دیکھنے) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوگا۔ اس بارے میں مشہور و متواتر روایات وارد ہوئی ہیں جن پر اعتقاد اور ایمان رکھنا اور جن کی تصدیق کرنا واجب ہے اور جو تاویل روئت کے منکرین نے ان احادیث کی کی ہے مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ ''الیٰ ربھا ناظرۃ'' سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے ثواب کو دیکھ رہے ہوں گے، (باطل ہے) اس لیے کہ ''ثواب اللہ'' اور ہے اور اللہ اور۔ اور اَرنی انظر الیکَ کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مجھے کوئی اپنی نشانی دکھاؤ ( یہ بھی باطل ہے) کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نشانیاں دکھا چکاتھا اور لاتدرکہ الابصار کی تشریح میں وہ کہتے ہیں کہ چونکہ نگاہیں دنیا میں اللہ کو نہیں پاسکتیں لہذا آخرت میں بھی ایسا ہی ہوگا (اوریہ بھی درست نہیں) اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جس بات کی نفی کی ہے وہ آنکھ سے پورے طور سے پالینا ہے اس لیے کہ ''ادراک'' کیفیت اور احاطہ کو ثابت کرتا ہے اور اللہ نے اسی کی نفی کی ہے ایسے دیدار کی نفی نہیں کی جس میں نہ کیفیت ہو نہ احاطہ۔؂[177] اور ہمارے نبی ﷺ کی شفاعت تمام جنتیوں کے لئے حق(ثابت) ہے اگر چہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو ں ۔ وشفاعۃ الانبیاء حق و شفاعۃ نبینا علیہ الصلوۃ والسلام للمؤمنین المذنبین ولأھل الکبائر منھم المستو جبین للعقاب حق ثابت ؂[178]

 انبیاء کرام کی شفاعت حق ہے اور ہمارے نبی کریم علیہ السلام کی شفاعت مسلمان گناہ گار اور وہ مومن جومرتکب گناہ کبیرہ ہو اور اس پر سزالازم ہو(کے لئے آخرت میں ذخیرہ کی گئی ہے) ۔حق ثابت ہے جیسا کہ اس بارے میں أخبار (صحیحہ)وارد ہیں ۔ والشفاعۃ ثابتۃ للرسل (خصوصاً لسید الانبیاء علیہ السلام) والأخبار فی حق أھل الکبائر بالمستفیض من الأخبار خلافا للمعتزلۃ ۔؂[179]

اور تمام انبیاء و رسل خصوصاً سید الانبیاء علیہ السلام کی اور نیک لوگوں کی شفاعت 'مرتکب گناہ کبیرہ کے لیے احادیث مشہورہ سے ثابت و حق ہے ۔بخلاف معتزلہ کے (یعنی معتزلہ شفاعت کے منکر ہیں)

أجمع اھل السنۃ علی أن الانبیاء والصلحاء یقبل شفاعتھم فی النجاۃ من العذاب وفی زیادۃ الثواب، وقالت المعتزلۃ : فی الثانی فقط۔ ولنا الأحادیث البالغ مجموعھا حد التواتر ولنذکر نبذامنھا۔ فعن جابر مرفوعا"یخرج من النار قوم بالشفاعۃ کانھم الثعاریر۔قلنا ماالثعاریر؟ قال الضغابیس۔متفق علیہ؂[180]

وعن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مرفوعا:"یشفع یوم القیمۃ ثلاثۃ الأنبیاء ثم العلماء ثم الشھداء۔رواہ ابن ماجہ ۔؂[181]

وفرحوا بشفاعۃ اھل خیر                                                                                     لأصحاب الکبائر کالجبال

واعلم ان مراد شفاعۃ اھل الخیر محمد ﷺ وجمیع الرسل والانبیاء علیہم السلام ، والعلماء والصالحین وھم یشفعون لاھل الکبائر،فان اللہ تعالیٰ ادخر شفاعۃ محمد ﷺ لامتہ کما جاء فی الخبر والکتاب ، قال اللہ تعالیٰ:ولسوف یعطیک ربک فترضی(الضحیٰ:5) عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا(الإسراء:79)

یعنی مقام الشفاعۃ ،وقولہ ثلۃ من الاولین وثلۃ من الآخرین(الواقعۃ:39-40) ؂[182]

عن جابر بن عبداللہ قال قال رسول اللہ ﷺ شفاعتی لاھل الکبائر من امتی۔

عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال شفاعتی لاھل الکبائر من امتی۔؂[183]

عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ:لکل نبی دعوۃ مستجابۃ فتعجّل کل نبی دعوتہ وانی خبات دعوتی شفاعۃ لامتی الی یوم القیامۃ،فھی نائلۃ ان شاء اللہ لمن مات من امتی لایشرک باللہ شیئا۔لفظ ابی معاویۃ۔؂[184]

ثم قال رحمہ اللہ تعالیٰ وان یؤمن بشفاعۃ الانبیاء ثم العلماء ثم الشھداء ثم سائر المؤمنین علی حسب جاہہ ومنزلتہ عنداللہ تعالیٰ۔؂[185]

 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ''قل للّٰہ الشفاعۃ جمیعاً"؂[186] یعنی اے نبی کریم علیہ السلام آپ ان (کافروں مشرکوں سے)فرما دیجئے کہ شفاعت سب کی سب اللہ کے لئے (اللہ کی ملکیت) ہے؂[187] (شفاعت کا مالک اللہ وحدہ لاشریک لہ ہے پھر وہ اپنی مرضی سے جسے چاہے اُس کی اجازت دے دے۔اس باب میں کافروں اور مشرکوں کا رد بلیغ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بت و معبودان باطلہ ہماری شفاعت (سفارش)کریں گے اگر چہ اللہ نہ چاہے ۔اس باب میں کافروں اور مشرکوں کی ایک گمراہی یہ تھی کہ وہ اپنے معبود ان باطلہ کے لئے شفاعت کا حق تسلیم کرتے تھے حالانکہ حقیقتاً بت وہ ہیں جن میں سننے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے جیسا کے دیوار وغیرہ کے لئے سنناا ور دیکھنا مانا جائے حالانکہ وہ سننے اور دیکھنے کے اھل ہی نہیں ۔لہذا یہ عبث ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کافر مشرک ان معبودان باطلہ کو (جو اللہ کے دشمن ہیں)اللہ کے مقابل سمجھ کر شفاعت (سفارش) کا اہل مانتے تھے۔ حالانکہ اللہ کا مقابلہ کرنا کھلی گمراہی اور کفر ہے ۔(نعوذ باللہ من ذالک) تیسری گمراہی یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر اللہ نہ بھی چاہے تو پھر بھی ان کے معبودان باطلہ ان کے لئے سفارش کر سکتے ہیں ۔حالانکہ اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کو شفاعت کا حق حاصل نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :من ذاالذی یشفع عندہ الاباذنہ؂[188] ترجمہ:کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کی بارگاہ میں شفاعت کر سکے ۔یعنی جسے اللہ اجازت دے وہی شفاعت کرے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو شفاعت کی اجازت دے گا تاکہ گناہ گار بندوں کے حق میں شفاعت کر سکیں ۔حضور علیہ السلام نے فرمایا شفاعتی لأھل الکبائر من امتی من کذب بھا لم ینلھا ؂[189] میری شفاعت میری امت کے گناہ گاروں کے لیے ہے اور جس نے اس (شفاعت) کی تکذیب کی تو وہ اسے نہ پہنچے گا ۔یعنی شفاعت کا مستحق نہ ہوگا۔مسلمانوں کایہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو شفاعت کی اجازت و حق عطا فرمائے گا ۔اگر اللہ نہ چاہے تو وہ لوگ شفاعت نہیں کر سکیں گے نہ کہ ایسا  جس طرح  کفار و مشرکین اپنے معبودان باطلہ کے بارے میں گمان کرتے تھے۔حضرت نبی علیہ السلام نے فرمایا : یشفع امتی (أی لأجل امتی)یوم القیامۃ ثلٰثۃ الأنبیاء علیھم السلام ثم العلماء ثم الشھداء؂[190] میری امت کے لئے تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے انبیاء کرام ،علماء کرام اور شہداء کرام دیگر احادیث میں ملائکہ کرام اور نابالغ بچوں کی اپنے والدین کے حق میں رمضان کی روزے دار کے حق میں ،قرآن کریم کی شفاعت، حفاظ کرام کی شفاعت کا تذکرہ بھی موجود ہے۔لہذا ہر ایک صاحب شفاعت اپنے اپنے وقت پر اللہ کی اجازت و رضا سے شفاعت کرے گا۔ایک حدیث مبارکہ صحیح و مسلم بخاری میں ہے کہ ''قیامت کے دن یکے بعد دیگرے انبیاء کرام کے پاس حاضر ہونگے مگر ہر ایک نبی محترم دوسرے نبی کے طرف بھیجے گا حتیٰ کہ لوگ سید الانبیاء علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونگے تو حضور علیہ السلام فرمائیں گے ''انا لھا انا لھا '' یعنی میں ہی اس کے لئے ہوں ۔بعض لوگوں نے اس ضمن میں حالاتِ قیامت کے حوالے سے عام لوگوں کے حالات پر قیاس کرتے ہوئے انبیاء کرام کے لئے بھی ''نفسی نفسی''کہنا بیان کیا ہے حالانکہ یہ غلط ہے ۔ کیونکہ انبیاء کرام اللہ کے محبوب بندے اوراصحاب شفاعت ہیں ۔لہذا وہ ہستیاں جن کی شفاعت کی وجہ سے پریشان حال لوگوں کی پریشانی دور ہوگی وہ کیونکر پریشان ہو سکتے ہیں ؟بلکہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضور نبی کریم علیہ السلام سے پہلے کوئی شفاعت نہیں فرمائے گا کیونکہ حضور علیہ السلام اول الشافعین اور فاتح باب الشفاعۃ ہیں ۔اور یہی منصب مقام محمود سے متعلق ہے ۔جس کی خبر قرآن و احادیث طیبہ نے دی ہے اور یہ حضور علیہ السلام کی خصوصیات میں سے ہیں ۔قرآن کریم میں ہے : عسیٰ ان یبعثک ربک مقاماً محموداً؂[191] قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مجھے میرے رب نے آدھی امت کی مغفرت اور شفاعت میں اختیار دیا ۔ تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا۔ (تاکہ شفاعت کے ذریعے ساری امت کی مغفرت کرا سکوں) شفاعت لفظ شفیع سے مصدر ہے ۔ وھو من یطلب قضاء حاجۃ غیرہ''اور شفیع وہ ہوتا ہے جو اپنے غیر کی حاجت کو پورا کرے ۔لہذا شفیع جس کی شفاعت کرتا ہے تو اس کی نیکیوں کی کمی کو اپنی حمایت و نصرت سے پورا کرتا ہے ۔مترجم)

شفاعت جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور جس کے متعلق نبیﷺسے روایات آئی ہیں اس کا تمام صوفیا بالاتفاق اقرار کرتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا: وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضَیٰ (عنقریب اللہ آپ کو دے گا اور آپ خوش ہوجائیں گے) عسیٰ اَنْ یَبْعَثَکَ رَبَّکَ مَقَامًا مَحمودًا(ہوسکتا ہے اللہ آپ کو مقام محمود تک پہنچادے)۔ ولا یشفَعُون اِلا لمن ارتَضَی (اور وہ سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ پسند کرے کسی اورکی  شفاعت نہ کریں گے) اور کفار کا یوں کہنا فَمَا لنَا مِنْ شَافِعِینَ(ہمارا کوئی سفارش کرنے والا نہیں)اور نبی ﷺنے فرمایا: میری شفاعت امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہوگی اور آپ کا فرمانا: اور میں نے شفاعت کے متعلق اپنی دعا کو (قیامت کے دن کے لیے) چھپا رکھا ہے۔؂[192]

اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ عفیفہ ﷝ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ﷝ کے بعد دنیا کی تمام عورتوں سے افضل ہیں ۔اور مومنین کی ماں ہیں زنا کی تہمت سے پاک و صاف ہیں ۔اور جو کچھ روافض نے کہا اس سے برَی ہیں ۔اور جس نے ان کے بارے میں زنا کی گواہی دی وہ خود ولدالزنا ہے۔ ''حدیث مبارکہ ہے فضل عائشہ علی النساء کفضل الثرید علی سائر الطعام ۔١٤؂[193] حضرت عائشہ صدیقہ ﷝ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جس طرح ثرید(کھانے کی ایک قسم) کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے ۔''سیدہ عائشہ ﷝ کی برأت کی گواہی خود قرآن نے دی ہے۔؂[194]

(لہذا جو سیدہ عائشہ صدیقہ ﷝ کی عصمت پر طعن کرے یا تہمت لگائے تو وہ قرآن کی آیات کا منکر ہوگا اس لئے وہ کافر ہوگا ۔سیدہ کائنات عائشہ صدیقہ ﷝  اللہ تعالیٰ کے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام کی محبوب ترین زوجہ محترمہ ہیں اور آپ کے علاوہ حضور علیہ السلام کے حرمِ محترم میں کوئی کنواری زوجہ نہ تھیں ۔اور سوائے سیدہ عائشہ صدیقہ ﷝ کے کسی زوجہ مطھرہ کے لحاف میں حضور علیہ السلا م پر وحی نازل نہ ہوئی ۔نیز سیدہ عائشہ صدیقہ ﷝ کمالات نبوت کے فیضان سے فیض یافتہ تھیں ۔ایک تہائی دین سیدہ عائشہ کے وسیلے سے امت کو ملا ۔ایک مرتبہ لوگوں نے حضور علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ علیہ السلام کو سب سے زیادہ کون پسند ہے تو فرمایا ''عائشہ ﷝ ''لوگوں نے عرض کیا مردوں میں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا اُن کے والد ابو بکر صدیق ﷜۔

 سید کائنات'سید الناس اور سید الانبیاء ﷺ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ﷝ کی گود مبارک میں اس دار فانی سے پردہ فرمایا۔ سیدہ عائشہ ﷝ کے حجرہٴ مبار کہ کو اپنا آخری مسکن و مقام ٹھہرایا ۔تا قیامت مرجع خلائق ارضی و سماوی بنا دیا ۔ مترجم)

 اور جنتی جنت میں ہمیشہ رہیں گے اور جہنمی جہنم میں ہمیشہ رہیں گے ۔اللہ کے اس فرمان کے مطابق جو مومنین کے حق میں ہے '''وہ لوگ جنت والے ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔اور کافروں کے حق میں فرمایا ''وہ لوگ دوزخ والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ؂[195]

 ''قال اللہ تعالیٰ و فی العذاب ھم خالدون ؂[196] ای باقون دائمون وقال اللہ تعالیٰ (فی حق المؤمنین) والذین آمنو و عملوا الصالحات سند خلہم جنت تجری من تحتھا الانھر خالدین فیھا أبداً وعداللہ حقا؂[197] ۔والآیات و الاحادیث فی خلود اھل الجنۃ و خلود اھل النار کثیرۃ؂[198]

اللہ تعالیٰ نے کفار کے حق میں فرمایا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے یعنی دائمی طور پر باقی رہیں گے اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے بارے میں فرمایا ''اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے عنقریب ہم انہیں جنت میں داخل کریں گے جس کے نیچے نہریں جاری ہونگی۔ اُن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے ''اھل جنت کے جنت میں اور اھل نارکے جہنم میں ہمیشہ رہنے کے متعلق آیات و احادیث کثیرہ وارد ہوئی ہیں ۔ اور حمد اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا اکیلا پالنے والا ہے ۔اللہ کی رحمت (کاملہ)ہو ہمارے سردار حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ علیہ السلام کے آل و اصحاب پر بھی رحمت ہو (تمت بالخیر )۔

(تکمیل کتاب:١٠ محرم الحرام ١٤٣١؁ء ٢٨/١٢/٢٠٠٩ء یوم الاثنین بعدالعشاء)

 

 

هذا کتاب الوصيّة

من الامام الاجل ابي حنيفة رحمه اللّٰه لا صحابه رضوان اللّٰه عليهم اجمعين لما مرض ابو حنيفة رحمه الله قال اعلمو ا اصحابي واخواني وفقکم اللّٰه تعاليٰ ان في مذهب السنة والجماعة اثنا عشر نوعًا من الخصال فمن کا ن يستقيم عليٰ هٰذه الخصال لا يکون مبتدعًا ولا يکون صاحب الهواء فعليکم اصحابي واخواني ان تکونو افي هٰذه الخصال حتيٰ تکونوا في شفاعة نبينا محمد صلي الله عليه وآلهٖ وسلم يوم القيٰمة ۔

فصل اولها الايمان اقرار باللسان وتصديق بالقلب والاقرار وحده لا يکون ايمانا لا نه لو کان ايمانا لکان المنافقون کلهم مؤمنين وکذلک المعرفة وحدها لا تکون ايمانا لا نها لو کانت ايمانا لکان اهل الکتاب کلهم مؤمنين قال اللّٰه تعاليٰ في حق المنافقين واللّٰه يشْهَدُ اِنَّ المنافقين لکذبون. وقال في حق اهل الکتاب يعرفونه کما يعرفون ابنآءَ هُم الاٰية والايمان لا يزيد ولا ينقص لا نه لا يتصور زيادة الايمان الابنقصان الکفر ولا يتصور نقصان الايمان الابزيادة الکفر فکيف يجوزان يکون الشخص الواحد في حالة واحدة مؤمنا وکافراً حقا وليس في ايمان المؤمن شک کما انه ليس في کفر الکافر شک کقوله تعاليٰ اولئک هُم المؤمنون حقا . اولئک۔ هم الکفرون حقا . والعاصون من اُمَّة محمد مؤمنون وليسوا بکافرين۔

٢. فصل العمل غير الايمان والايمان غير العمل بدليل ان کثير امن الاوقات يرتفع العمل عن المؤمن ولا يجوزان يقال ارتفع عنه الايمان فان الحائض ترفع عنها الصلٰوة ولا يجوزان يقال ارتفع عنها الايمان او امرلها بترک الايمان وقد قال لها الشارع دعي الصوم ثم اقضيه ولا يجوز ان يقال دعي الايمان ثم اقضيه و يجوز ان يقال ليس علي الفقير الزکٰوة ولا يجوزان يقال ليس علي الفقير الايمان ولو قال تقدير الخير و الشر من غير اللّٰه تعاليٰ کان کافراً باللّٰه وبطل توحيده لو کان له التوحيد۔

٣. فصل نقربان الاعمال ثلثة فريضة وفضيلة ومعصية فالفريضة بامر اللّٰه تعاليٰ ومشية و محبته و رضائِه وقضائه وتقديره وارادته وتوفيقه وتخليقه وحکمه وعلمه وکتابته في اللوح المحفوط وامّا الفضيلة فليست بامر اللّٰه تعاليٰ ولکن بمشيته وبمحبته وبقضائه و برضائه وبتقديره وبتوفيقه وتخليقه وارادته و حکمه و علمه وکتابته في اللوح المحفوظ  فنؤمن باللوح والقلم و بجميع ما فيه المعصية ليست بامر اللّٰه ولکن بمشيته لا بمحبته و بقضائه لا برضائه وبتقديره وتخليقه لا بتوفيقه وبخذلانه لا بمعونته وکتابته في اللوح المحفوظ.

٤. فصل نقربان اللّٰه تعاليٰ عَلَي العَرشِ اسْتَوي من غيران يکون له حاجة او استقرار عليه وهو الحافظ للعرش وغير العرش فلو کان محتاجاً لما قدر علي ايجاد العالم و تدبيره کا لمخلوق ولو صار محتاجا الي الجلوس والقرار فقبل خلق العرش اين کان اللّٰه تعاليٰ فهو منزه عن ذٰلک علوا کبيراً.

٥. فصل نقربان القراٰن کلام اللّٰه تعاليٰ و وحيه وتنزيله وصفته لا هو ولا غيره بل هو صفته علي التحقيق مکتوب في المصاحف مقرؤ بالالسن محفوظ في الصدور غير حال فيها والحروف والحبر والکاغذو الکتابة کلها مخلوقة لانها افعال العباد وکلام اللّٰه غير مخلوق ولان الکتابة والحروف والکلمات والاٰيات کلها اٰلة القراٰن لحاجة العباد اليه وکلام اللّٰه تعاليٰ قائم بذاته ومعناه مفهوم بهذه الاشياء فمن قال بان کلام اللّٰه مخلوق فهو کافر باللّٰه العظيم واللّٰه تعاليٰ معبود لا يزال عما کان وکلامه مقروومکتوب محفوظ من غير مزايلة عنه.

٦. فصل نقربان افضل هذه الامّة بعد نبينا محمد عليه السلام ابو بکر ثم عمر ثم عثمان ثم علي لقوله تعاليٰ والسّابقُون السابقون اولئک المقربون في جنّٰت النعيم کل من سبق فهو افضل ويحبهم کل مؤمن وتقي ويبغضهم کل منافق شقي.

٧. فصل نقربان العبد مع اعماله واقراره ومعرفته مخلوق فلما کان الفاعل مخلوقًا اوليٰ ان يکون فعله ايضا مخلوقا ولم يکن لهم طاقة لانهم ضعفاء عاجزون واللّٰه تعاليٰ خالقهم ورازقهم لقوله تعاليٰ واللّٰه خَلَقَکُم ثم رزقکم ثم يميتکم ثم يحييکم والکسب بالعمل حلال وجمع المال من الحلال حلال وجمع المال من الحرام حرام الخلق عليٰ ثلثة اصناف المؤمن المخلص في ايمانه والکافر المجاهر في کفره والمنافق المداهن في نفاقه واللّٰه تعاليٰ فرض علي المؤمن العمل وعلي الکافر الايمان وعلي المنافق الاخلاص لقوله تعاليٰ یايها الناس اعبدوا ربکم معناه يا يها المؤمنون اطيعوا وايها الکفرون امنوا و ايها المنافقون اخلصوا.

٨. فصل نقربان الاستطاعة مع الفعل لا قبل الفعل ولا بعد الفعل لانه لو کان قبل الفعل لکان العبد مستغنيا عن اللّٰه تعاليٰ وقت الفعل وهذا خلاف النص لقوله تعاليٰ واللّٰه الغني وانتم الفقرآء ولو کان بعد الفعل لکان من المحال حصول الفعل بلا استطاعة.

٩. فصل نقربان المسح علي الخفين جائز للمقيم يوماً وليلة وللمسافر ثلثة ايام وليا ليها لان الحديث ورد هکذا ومن انکرفا نه يخشيٰ عليه الکفر لانه ثبت بالخبر المتواتر و القصر والافطار رخصة في السّفر بنص الکتاب لقوله تعاليٰ واذا ضربتم في الارض فليس عليکم جناح ان تقصروا من الصلوة وفي الافطار قوله تعاليٰ فمن کان منکم مريضا او علي سفر فعدَّةٌ من ايام اخر.

١٠. فصل نقربان اللّٰه تعاليٰ امر القلم بان يکتب فقال القلم ماذا اکتب يا ربي فقال اللّٰه تعالي ماهو کائن اليٰ يوم القيامة لقوله تعاليٰ وکل شيءٍ فَعَلُوْهُ فِي الزُّبر وکل صغير وکبير مستطر.

١١. فصل نقربان عذاب القبر کائن لا محالة وسوال المنکر والنکير حق لورود الاحاديث والجنة والنار حق وهما مخلوقتان لا فناء لهما لقوله تعاليٰ في حق الجنّة اعدت للمتقين وفي حق النار اعدت للکافرين خلقهما اللّٰه تعاليٰ للثواب والعقاب الميزان حق لقوله تعالي والوزن يومئذ نِ الحق فمن ثقلت موازينه فاولئک هم المفلحون ومن خفت موازينه فاولئک الذين خسرواا نفسهم بما کانو بايتنا يظلمون وقرائة الکتب يوم القيامة حق لقوله تعاليٰ و نخرج له يوم القيامة کتابًا يلقه منشورا۔اقرا کتابک کفيٰ بنفسک اليوم عليک حسيبا ۔

١٢. فصل نقربا ن اللّٰه تعاليٰ يحيي هذه النفوس بعد الموت يبعثهم يوما کان مقداره الف سنة للجزأوالثواب وادأ الحقوق لقوله تعاليٰ و ان اللّٰه يبعث من في القبور ولقاء اللّٰه لا هل الجنة بلا کيف ولا شبيه ولا جهة وشفاعته محمد صلي اللّٰه عليه وسلم حق لکل من هو اهل الجنة وان کان صاحب الکبيرة وعائشة رضي اللّٰه عنها افضل نساء العلمين بعد خديجة الکبري وهي ام المؤمنين ومطهرة من القذف واهل الجنة في الجنة خالدون واهل النار في النار خالدون لقوله تعاليٰ في حق المؤمنين اولئک اصحاب الجنة هم فيها خلدون وفي حق الکفر ين اولئک اصحب النار هم فيها خالدون۔

قصیدہ نعمانیہ کے چند اشعار

 

یا سید السادات جئتک قاصدا

ارجو ارضاک واحتمی بحماک

یا رسول اللہ ! بندہ حاضر دربار ہے

آپ کی خوشنودی و حفظ امان درکار ہے

واللہ یا خیر الخلائق ان لی

قلبا مشوقا لا یروم سواک

ہے مرے پہلو میں یا خیر الخلائق ایسا دل

جو ہے شیدا آپ کا اور غیر سے بیزار ہے

وبحق جاھک اننی بک مغرم

واللہ یعلم اننی اھواک

آپکی عظمت کی میں کھا کر قسم کہتا ہوں سچ

یہ دل عاشق شراب عشق سے سرشار ہے

انت الذی لو لاک ما خلق امرء

 کلا ولا خلق الوری لولاک

گر نہ ہوتے آپ تو پیدا نہ ہوتی کوئی شے

 آپ کے ہونے سے ہی یہ گلشن وگلزار ہے

وبک المسیح اتی بشیرا مخبرا

 بصفات حسنک مارحا بعلاک

بن کے مداح عُلیٰ اور مخبر حسن صفات

آئے عیسیٰ آپ کا مژدہ سنانے بے ریا

وکذالک موسی لم یزل متوسلا

بک فی القیامۃ یحتمی بحماک

آپ کے متوسل اس دنیا میں بھی موسیٰ رہے

 روز محشر بھی رکھیں گے آپ پر ہی آسرا

والانبیاء وکل خلق فی الوری

والرسل والاملاک تحت لواک

سب رسل، کل انبیاء سارے فرشتے اور خلق

آپ کے جھنڈے کے نیچے ہوں گے یا خیر الوریٰ

 

لک معجزات اعجزت کل الوری

وفضائل جلّت فلیس تحاک

لوہا ، ناخلق نے ہے معجزوں کا آپ کے

 ہونہیں سکتا فضائل کے بیاں کا حق ادا

وعلی من رمد بہ داویتہ

 فی خیبر فشفیٰ بطیب لما کا

آپ کی خوشبو ئے لب سے حضرت علی اچھے ہوئے

یوم خیبر عارضہ چشم میں تھے مبتلا

وسالت ربک فی ابن جابر الذی

 قد مات ابناہ وقد ارضاک

حق نے زندہ کردیا جابر کے مردہ پسر کو

 آپ کی سن کر دعا آپ کو راضی کیا

فی یوم بدر قد اتتک ملائک

من عند ربک قاتلت اعداک

بدر کے دن آئے اللہ کے فرشتے فوج فوج

 آپ کے اعداء سے لڑکے کر دیا ان کو فنا

فقد فقت یا طٰہٰ جمیع الانبیاء

طُرّا فسبحان الذی اسراک

آپ سارے انبیاء پر فائق اے طٰہ ہوئے

آپ کو شب میں خدا عرش بریں پر لے گیا

واللہ یایٰسین مثلک لم یکن

فی العالمین وحق من انباک

آپ کااے یٰسین مخلوقات میں ثانی نہیں

اس کا شاہد ہے وہ رب جس نے نبوت عطاکی

بک لی قلیب مغرم یا سیدی

وحشا شۃ محشوۃ بھواک

دل میرا ہے آپ ہی کا شیفتہ یا سیدی

 جان جو باقی ہے اس میں آپ ہی کی ہے محبت

یا مالکی کن شافعی فی فاقتی

 انی فقیر فی الوری لغناک

میرے مالک فقر میں ہیں آپ ہی شافع میرے

 سب سے بڑھ کر آپ کا ہوں میں ہی محتاج غنا

یا اکرم الثقلین یا کنز الوری

 جد لی بجودک وارضنی برضاک

اکرم الثقلین اورکنز الوریٰ بھی آپ ہیں

 کیجئے راضی رضا سے جود سے بھی کچھ عطا

اناطامع بالجود منک ولم یکن

 لابی حنیفۃ فی الانام سواک

میں حریص بخشش حضرت کیوں نہ ہوں

 جب نہیں بوحنیفہ کا کوئی یا ور محمدﷺ کے سوا

فعساک تشفع فیہ عند حسابہ

 فلقد غدا متمسّک بعُراک

ہے امید اس کو ہوں گے آپ شافع روزمحشر

 اس لئے کہ اس نے اک دامن ہے پکڑا آپ کا

فلانت اکرم شافع و مشفع

 ومن التجی بحماک نال رضاک

سب سے بڑھ کر آپ مقبول شفاعت ہیں شفیع

جس نے تھاما آپ کا دامن ملی اس کو رضا

فاجعل قراک شفاعۃ لی فی غد

 فعسیٰ اری فی الحشر تحت لواک

میری مہمانی شفاعت آپ کی ہو کل کے دن

ہوں میں حضرت روز محشر آپ کے تحت لوا

صلی علیک اللہ یا علم الھدی

ما حن مشتاق الی مثواک

اے ہدایت کے نشان اللہ کی رحمت آپ پر

ہو جہاں تک کوئی مشتاق آپ کے دیدار کا

وعلیٰ صحابتک الکرام جمیعھم

 والتابعین وکل من والاک

آپ کے اصحاب کرام اور تابعین پر بھی درود

اور اس پر بھی جو رکھے دوست حضرت کو سوا

 

 

 

 

 

 

 

 

کتابیات

1.     القرآن الکریم

2.     صحیح  بخاری

3.     سنن ابن ماجہ

4.     جامع ترمذی

5.     سنن ابی  داود

6.     مشکوٰۃ  المصابیح

7.     دار القطنی

8.     مجمع الزوائر

9.     مستدرک

10.  شرح فقہ اکبر

11.  وفیات الاعیان لا بن خلکان  بیروت

12.  الخیرات الحسان

13.  مسند ابی حنیفہ رحمہ اللہ مع شرح ملا علی

14.  تبیض الصحیفہ فی مناقب ابی حنیفہ رحمہ اللہ

15.  صواعق محرقہ

16.  ازالۃالخفاء

17.  الیواقیت والجواھر

18.  احیا ء العلوم

19.  فتح المغیث  

20.  مناقب ابی حنیفہ رحمہ اللہ للذھبی

21.  تاریخ بغداد

22.  شرح فقہ الاکبر لملا علی قاری رحمہ اللہ

23.  العقیدۃ الطحاویہ

24.  الامثال العربیۃ فی موسوعہ الفارسیہ

25.  المصنف عبدالرزاق ،شرح مواقف ،المستدرک ،البیہقی

26.  کتاب الاستعاذۃ ۔

27.  شرح عقیدۃ الکبریٰ ، محمد بن یوسف التلمسانی الحسنی

28.  شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی

29.  الشریعہ، الامام ابی بکرمحمد بن الحسین بن عبداللہ الآجری

30.  شرح عقیدۃ الغزالی، الامام ابوالعباس احمد بن محمد البرنسی

31.  مرام الکلام ،شیخ عبدالعزیزفرھاروی

32.  اصول الدین، الاما م عبدالقاھر التمیمی البغدادی

33.  اردو ترجمہ مکتوبات دفتر اوّل حصہ دوم ۔مدینہ پبلشنگ کمپنی

34.  التعرف ،امام کلابازی ؒ، اردو ترجمہ

35.  الحاوی للفتاویٰ

36.  سیر اعلام البنلاء،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت

37.  فتاوی رضویہ

38.  مرام الکلام

39. تکمیل الایمان  



؂[1] ۔ سورۃ الاحزاب:٤٠

؂[2] ۔ المائدۃ:٣

؂[3] ۔ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،ص٣٠

؂[4] ۔ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،ص٣٠

؂[5] ۔ النساء:٨٠

؂[6] ۔ ابن ماجہ :٥

؂[7] ۔ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،ص٣٠

؂[8] ۔ النساء:٨٠

؂[9] ۔ ترمذی الرقم ٢٢١٩،مشکوٰۃ :٥١٤

؂[10] ۔ البقرۃ:104

؂[11] ۔ سورۃ الاحزاب:٤٠

؂[12] ۔ ص٢٦٢ اردو ترجمہ مکتوبات دفتر اوّل حصہ دوم ۔مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم ۔اے جناح روڈ کراچی

؂[13] ۔ ص٥٦ اردو ترجمہ مکتوبات دفتر اوّل حصہ دوم ۔مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم ۔اے جناح روڈ کراچی

؂[14] ۔ التعرف ،امام کلابازی ؒ، اردو ترجمہ، ص 50-49

؂[15] ۔ ترمذی الرقم ٢٢١٩،مشکوٰۃ :٥١٤

؂[16] ۔ سورہ حجرات:٢

؂[17] ۔ سورہ فتح :٢٩

؂[18] ۔ سورہ بقرہ:١٣

؂[19] ۔ فتح آیت ١٠

؂[20] ۔ سورہ انفال:٦٤

؂[21] ۔ سورہ حجرات :١٣

؂[22] ۔ سورہ اللیل:١٨

؂[23] ۔ سورہ زمر:٣٣

؂[24] ۔ توبہ:٤٠

؂[25] ۔ النساء :٦٩

؂[26] ۔ الحاوی للفتاویٰ

؂[27] ۔ سورۃ الملک :١

؂[28] ۔ سیر اعلام البنلاء،ج٧، ص ٣٦٧،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت

؂[29] ۔ ابن ماجہ ٢٨٣

؂[30] ۔ بقرہ،٢٥٣

؂[31] ۔ بنی اسرائیل ٥٥

؂[32] ۔ بنی اسرائیل ٧٠

؂[33] ۔ نساء ٩٥

؂[34] ۔ بخاری،ج١،ص ٥٣٢،باب المناقب

؂[35] ۔ آل عمران

؂[36] ۔ مکتوبات ج ٢ نمبر٣٦

؂[37] ۔ دار القطنی،صواعق محرقہ :ازالۃالخفاء

؂[38] ۔ ص ٤٣٨

؂[39] ۔ فتاوی رضویہ ج٩ص٦١

؂[40] ۔ مرام الکلام ص٣٦

؂[41] ۔ ج٢ص٢٧٢

؂[42] ۔ تکمیل الایمان ص٥٦

؂[43] ۔ تکمیل الایمان ص٥٦

؂[44] ۔ تکمیل الایمان ص٥٦

؂[45] ۔ ابو داود۔ رقم الحدیث :٤٦٣٦

؂[46] ۔ الیواقیت والجواھر

؂[47] ۔ احیا ء العلوم ص٣٥

؂[48] ۔ کما مجمع الزوائر ۔ ٢٤٣٣٢ رجالہ ثقات

؂[49] ۔ مستدرک٤٤٧٨

؂[50] ۔ شرح فقہ اکبر ص ٦١،٦٢

؂[51] ۔ مستدرک حاکم: ٤٤٦٣

؂[52] ۔ مستدرک حاکم:

؂[53] ۔ مسند ابی حنیفہ مع شرح ملا علی قاری ٥٨٤؁ء بیروت

؂[54] ۔ وفیات الاعیان لا بن خلکان ج ٥ ٤٠٥ ؁ ھ بیروت

؂[55] ۔ الخیرات الحسان

؂[56] ۔ مسند ابی حنیفہ رحمہ اللہ مع شرح ملا علی قاری ﷫ ٥٨٤ ؁بیروت

؂[57] ۔ تبیض الصحیفہ فی مناقب ابی حنیفہ ﷫ ٦۔٩

؂[58] ۔ ابن ماجہ ٢٠

؂[59] ۔ ابن ماجہ ٢٠

؂[60] ۔ فتح المغیث ص ٢٤١

؂[61] ۔ مناقب ابی حنیفہ ﷫ للذھبی ص۔٢٧

؂[62] ۔ تاریخ بغداد ج ١٣ص ٢٤٥

؂[63] ۔ شرح فقہ اکبر

؂[64] ۔ مشکوٰۃ ،جلد٣،ص٤٦٨

؂[65] ۔ مشکوٰۃ ،کتاب العلم،ص٣٤

؂[66] ۔ شرح فقہ الاکبر لملا علی قاری ﷫ ص ٨٥

؂[67] ۔ العقیدۃ الطحاویہ ص٧١

؂[68] ۔ العقیدۃ الطحاویہ ص ٧

؂[69] ۔ شرح لملا علی قاری ﷫ ص ١٢

؂[70] ۔ الشریعہ، الامام ابی بکرمحمد بن الحسین بن عبداللہ الآجری،ص106

؂[71] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ،ص44

؂[72] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ،ص46

؂[73] ۔ شرح عقائد ص ١٢

؂[74] ۔شرح العقائد ص ١٢٧

؂[75] ۔ سورہ منافقون آیت نمبر١

؂[76] ۔ سورہ بقرہ آیت نمبر ١٤٦

؂[77] ۔ الانفال:٤،النساء١٥١

؂[78] ۔ مرام الکلام ،شیخ عبدالعزیزفرھاروی، ص298

؂[79] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ،ص319

؂[80] ۔ شرح عقائد ١٢٥

؂[81] ۔ ص ٥٢شرح ملا علی قاری﷫

؂[82] ۔ ص ٢١ العقیدۃ الطحاویہ

؂[83] ۔ شرح عقیدۃ الغزالی، الامام ابوالعباس احمد بن محمد البرنسی،ص105

؂[84] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ،ص108

؂[85] ۔ طہ۔5

؂[86] ۔ اصول الدین، الاما م عبدالقاھر التمیمی البغدادی ،ص132

؂[87] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ،ص201

؂[88] ۔ شرح عقیدۃ الغزالی، الامام ابوالعباس احمد بن محمد البرنسی،ص53

؂[89] ۔ ص ٥٧۔العقیدۃ الطحاویۃ

؂[90] ۔ والقرآن غیر مخلوق ۔۔٤١ص ٢٥۔٢٦شرح علی قاری

؂[91] ۔ ص٥٨ شرح عقائد

؂[92] ۔ ص ٢١ابو المنتہی

؂[93] ۔ التعرف ،امام کلابازی ؒ، اردو ترجمہ، ص57

؂[94] ۔ الشریعہ، الامام ابی بکرمحمد بن الحسین بن عبداللہ الآجری،ص84

؂[95] ۔ الشریعہ، الامام ابی بکرمحمد بن الحسین بن عبداللہ الآجری،ص86

؂[96] ۔ شرح عقیدۃ الغزالی، الامام ابوالعباس احمد بن محمد البرنسی،ص124

؂[97] ۔ شرح عقیدۃ الغزالی، الامام ابوالعباس احمد بن محمد البرنسی،ص127

؂[98] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ،ص170

؂[99] ۔ س ٥٦۔ آیت نمبر ١٠،١١،١٢

؂[100] ۔ ص١٣٩ شرح عقائد

؂[101] ۔ ص١٠٣العقیدۃ الطحاویہ

؂[102] ۔ ص ٥٦ ابو المنتہی

؂[103] ۔ التعرف ،امام کلابازی ؒ، اردو ترجمہ، ص 85

؂[104] ۔ شرح عقیدۃ الغزالی، الامام ابوالعباس احمد بن محمد البرنسی،ص196

؂[105] ۔ شرح عقیدۃ الکبریٰ ، باب تفضیل وتقدیم الصدیق علی الصحابۃ الامام المجتھدمحمد بن یوسف التلمسانی الحسنی ،ص458

؂[106] ۔ شرح بدء الامالی، المسالۃ السادسۃ من ھذا الاصل فی بیان الافضل من الصحابۃ الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ص293

؂[107] ۔ اصول الدین، الاما م عبدالقاھر التمیمی البغدادی ،ص331

؂[108] ۔ مرام الکلام ،شیخ عبدالعزیز فرھاروی، ص240

؂[109] ۔ صافات:96 شرح عقائد ص

؂[110] ۔ ص ٥٠ شرح علی قاری ﷜

؂[111] ۔ ص ٤٥ابو المنتھی

؂[112] ۔ ص ٩٥:العقیدۃ الطحاویۃ

؂[113] ۔ سورۃ الرعد:17

؂[114] ۔ سورۃ القمر:49

؂[115] ۔ سورۃ القمر:52

؂[116] ۔ سورۃ الرعد:17

؂[117] ۔ سورۃ السبا:17

؂[118] ۔ سورۃ السبا:17

؂[119] ۔ سورۃ الفلق :2

؂[120] ۔ سورۃ الکہف:28

؂[121] ۔ سورۃ الملک:13-14

؂[122] ۔ التعرف ،امام کلابازی ؒ، اردو ترجمہ، ص 65۔67

؂[123] ۔ شرح عقیدۃ الغزالی، الامام ابوالعباس احمد بن محمد البرنسی،ص150

؂[124] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ص104

؂[125] ۔ شرح عقیدۃ الکبریٰ ،الامام المجتھدمحمد بن یوسف التلمسانی الحسنی ،ص290

؂[126] ۔ روم:٤٠

؂[127] ۔ الامثال العربیۃ فی موسوعہ الفارسیہ

؂[128] ۔ النساء:١

؂[129] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ص93

؂[130] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ص95

؂[131] ۔ سورہ محمد:٣٨

؂[132] ۔ ٩٤العقیدۃ الطحاویۃ

؂[133] ۔ ص ٨٢ شرح عقائد

؂[134] ۔ التعرف ،امام کلابازی ؒ، اردو ترجمہ، ص 71-69

؂[135] ۔ ص١٦٤شرح عقائد

؂[136] ۔ ص ٢٤ابو المنتہی

؂[137] ۔ س ٤ ۔آیت ١٠١

؂[138] ۔ س ٢۔آیت ١٨٤

؂[139] ۔ القمر ٥٢۔٥٣

؂[140] ۔ الشریعہ، الامام ابی بکرمحمد بن الحسین بن عبداللہ الآجری،ص186

؂[141] ۔ مشکوٰۃ ،باب الایمان بالقدر،ص٢١

؂[142] ۔ المصنف عبدالرزاق ،شرح مواقف ،المستدرک ،البیہقی

؂[143] ۔ ص ٩٩ شرح عقائد

؂[144] ۔ ص ١٠١ شرح ملا علی قاری ﷫

؂[145] ۔ ص٢٦ العقیدۃ الطحاویۃ

؂[146] ۔ مرام الکلام ،شیخ عبدالعزیزفرھاروی، ص338

؂[147] ۔ ، شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ص392

؂[148] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ص392

؂[149] ۔ ، شرح عقیدۃ الغزالی، الامام ابوالعباس احمد بن محمد البرنسی،ص171

؂[150] ۔ الشریعہ، الامام ابی بکرمحمد بن الحسین بن عبداللہ الآجری،ص373

؂[151] ۔ صحیح بخاری ج ١ ص ١٧٨ قدیمی کتب خانہ

؂[152] ۔ کتاب الاستعاذۃ ۔ص ٣١٢۔ج ٢۔ نسائی شریف ۔نور محمد کتب خانہ کراچی

؂[153] ۔ ص ٩٨علی قاری ﷫

؂[154] ۔ شرح عقائد ص١٠٥

؂[155] ۔ ص ٩١ العقیدۃ الطحاویہ

؂[156] ۔ الشریعہ، الامام ابی بکرمحمد بن الحسین بن عبداللہ الآجری،ص397

؂[157] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ص229

؂[158] ۔ التعرف ،امام کلابازی ؒ، اردو ترجمہ، ص 84

؂[159] ۔ النساء ٤٧

؂[160] ۔ الاعراف:٨

؂[161] ۔ ص١٤شرح علی قاری ﷫

؂[162] ۔ الشریعہ، الامام ابی بکرمحمد بن الحسین بن عبداللہ الآجری،ص391

؂[163] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ص360

؂[164] ۔ شرح عقیدۃ الغزالی، الامام ابوالعباس احمد بن محمد البرنسی،ص176

؂[165] ۔ التعرف ،امام کلابازی ؒ، اردو ترجمہ، ص 83-84

؂[166] ۔ ص ١٠٢۔شرح عقائد

؂[167] ۔ ص ٨٨العقیدہ الطحاویۃ

؂[168] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ص359

؂[169] ۔ ص ٩٦ شرح علی قاری ﷫

؂[170] ۔ القیامۃ۔٢٢۔٢٣ العقیدۃ الطحاویۃ

؂[171] ۔ بخاری،رقم الحدیث :٧٤٣٤۔٧٤٣٥

؂[172] ۔ ص ١٢٣ شرح ملا علی قاری ﷫

؂[173] ۔ ٧١۔٧٤ شرح عقائد

؂[174] ۔ شرح عقیدۃ الغزالی، الامام ابوالعباس احمد بن محمد البرنسی،ص131

؂[175] ۔ شرح عقیدۃ الکبریٰ ،الامام المجتھدمحمد بن یوسف التلمسانی الحسنی ،ص325

؂[176] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ص237

؂[177] ۔التعرف ،امام کلابازی ؒ، اردو ترجمہ، ص 63-61

؂[178] ۔ ص ٩٤ شرح علی قاری ﷫

؂[179] ۔ ص ١١٥ ۔شرح عقائد

؂[180] ۔ مرام الکلام ،شیخ عبدالعزیزفرھاروی، ص352

؂[181] ۔ مرام الکلام ،شیخ عبدالعزیزفرھاروی، ص354

؂[182] ۔ شرح بدء الامالی، الامام ابی بکر احمد بن عالی الرازی الحنفی ص237

؂[183] ۔ الشریعہ، الامام ابی بکرمحمد بن الحسین بن عبداللہ الآجری،ص346

؂[184] ۔ الشریعہ، الامام ابی بکرمحمد بن الحسین بن عبداللہ الآجری،ص348

؂[185] ۔ شرح عقیدۃ الغزالی، الامام ابوالعباس احمد بن محمد البرنسی،ص192

؂[186] ۔ الزمر:٤٤

؂[187] ۔ زمر۔٤٤

؂[188] ۔ البقرۃ:٢٥٥

؂[189] ۔ ابو المنتہی ص ٩٢

؂[190] ۔ ص ٩٢ ابو المنتہی

؂[191] ۔ بنی اسرائیل ۔۔۔ آیت ٩۔۔

؂[192] ۔ التعرف ،امام کلابازی ؒ، اردو ترجمہ، ص 83-82

؂[193] ۔ بخاری،رقم الحدیث :٧٤٣٤۔٧٤٣٥

؂[194] ۔ سورۃ النور ١٨ آیت نمبر ١١۔١٢

؂[195] ۔ بقرہ ٨٢۔٨١

؂[196] ۔ المائدۃ: ٨٠

؂[197] ۔النساء:١٢٢

؂[198] ۔ ص ۔۔٩ابو المنتہی

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post