نام کا انسانی شخصیت پر بہت گہرا اثرہوتاہے۔بشمول آج ،ہردور کے مفکرین ،دانشورالفاظ و ناموںکی اس تاثیر سے آگاہ رہے ہیں۔یہ الفاظ (نام)ہی ہیں جو دنیا کو بنانے اوربگاڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یعنی بعض اوقات ایک لفظ کسی معاشرے ،قوم یا فرد کی مثبت تعمیر کرکے اسے عروج دے دیتا ہے اور کبھی ایک ہی لفظ معاشرے میں فساد ،انتشاروبگاڑ کا سبب بن جاتاہے۔ اسی لئے خواہ اہل دل  واہل نظر ہوں  یا فلاسفر یا دانشور مفکرین وہ اپنی کتابوں یا دیگر اشیاء کے نام رکھنے میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔نام کی یہیں تک اہمیت نہیں بلکہ اسلام میں بھی اچھے نام رکھنے کی بہت  اہمیت ہے۔ اس موضوع پر احادیث نبوی ﷺ ،اخبار صحابہ اور تاریخی واقعات بھی شاہد ہیں ۔مثلاًً
ولما نزل الحسين رضي الله عنه بكربلاء سأل عن اسمها فقيل كربلاء ، فقال كرب وبلاء فكان ما كان. ؂[1]
"اورجب سیدناحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام کربلا پہنچے  تو آپ﷜ نے اس کے نام کے متعلق دریافت فرمایا ۔آپ سے کہا گیا کہ کربلا،تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تکلیف(کرب) ومصیبت(بلاء)، پس جو ہوا سوہوا۔"(یعنی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو اس مقام کا نام سن کرالفاظ ارشاد فرمائے ان ہی الفاظ کی عملی تفسیر رونماہوئی۔)
ولما وقفت حليمة السعدية على عبد المطلب قال من أين أنت ؟ قالت من بني سعد : قال ما اسمك ؟ قالت حليمة : قال بخ بخ سعد وحلم خصلتان فيهما غنى الدهر. ؂[2]
''حضرت  حلیمہ سعدیہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا جب مکہ میں حضور ﷺ کی رضاعت کے لیے تشریف لائیں تو حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے آپ سے دریافت کیا آپ کا تعلق کس قبیلہ سے ہے۔ تو حضرت حلیمہ سعدیہ نے فرمایا کہ میں بنی سعد قبیلہ سے ہوں۔حضرت عبدالمطلب نے آپ کا نام دریافت فرمایا تو آپ نے فرمایا ''حلیمہ''۔ حضرت عبدالمطلب نے فرمایا (سعدوحلم) یہ دو وصف جس میں جمع ہوجائیں تو وہ شخص زمانے سے بے نیاز ہوجاتاہے۔''
عن ابن أبي حبيب ، أن رسول الله عليه السلام أتي بغلام ، فقال : «ما سميتم هذا؟» قالوا : السائب ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « لا تسموه السائب، ولكن عبد الله» ، فغلبوا على اسمه السائب،  فلم يمت حتى ذهب عقله۔؂[3]
 '' حضور ﷺ کی خد مت میں ایک بچے کو لایا گیا ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس کا کیا نام رکھا ہے۔ انہوں نے کہا ''سائب'' (بے سوچے سمجھے بولنے والا)آپ ﷺ نے فرمایا اس کا نام سائب نہ رکھو بلکہ اس کا نام عبداللہ رکھو۔لیکن وہ اسی نام پر مصر رہے۔ تواس لڑکے کاانتقال حالت جنون میں ہوا۔''
عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ أَبَاهُ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا اسْمُكَ قَالَ حَزْنٌ قَالَ أَنْتَ سَهْلٌ قَالَ لَا أُغَيِّرُ اسْمًا سَمَّانِيهِ أَبِي قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ فَمَا زَالَتْ الْحُزُونَةُ فِينَا بَعْدُ ۔؂[4]
''سعید بن مسیب اپنے والد اوروہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں :کہ میں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہوا ۔تو آپ ﷺ نے مجھ سے میرا نام دریافت فرمایا: میں نے عرض کی ''حزن''،(سخت)آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم'' سہل''ہو (نرم) ۔ اس نے کہا میں اپنا نام تبدیل نہیں کروں گا یہ نام میرے باپ نے رکھا ہے۔حضرت ابن المسیب فرماتے ہیں پھربعد میں وہ سختی ان کے مزاج سے زائل نہ ہوئی۔''
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لِرَجُلٍ مَا اسْمُكَ فَقَالَ جَمْرَةُ فَقَالَ ابْنُ مَنْ فَقَالَ ابْنُ شِهَابٍ قَالَ مِمَّنْ قَالَ مِنْ الْحُرَقَةِ قَالَ أَيْنَ مَسْكَنُكَ قَالَ بِحَرَّةِ النَّارِ قَالَ بِأَيِّهَا قَالَ بِذَاتِ لَظًى قَالَ عُمَرُ أَدْرِكْ أَهْلَكَ فَقَدْ احْتَرَقُوا۔قَالَ فَكَانَ كَمَا قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ۔؂[5]
حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا۔ "آپ نے اس کا نام دریافت فرمایا۔ اس نے کہا ''شہاب''(شعلہ)۔آپ نے پوچھا کس کے بیٹے ،اس نے کہا ''جمرۃ'' (انگارہ) کا بیٹا،آپ نے پھر دریافت کیا کس کے بیٹے،اس نے کہا ضرام''(بھڑکنا،جلنا)۔آپ نے دریافت فرمایا کس سے تعلق ہے ، اس نے ''حرقہ''(جلنا)۔آپ نے دریافت فرمایا :تمہارا گھر کہاں ہے اس نے ''حرۃ النار''(آگ کی حررات)۔آپ رضی اللہ عنہ  نے فرمایا تجھ پر ہلاکت ہو ۔اپنے گھر والوں تک پہنچ تو نے تو ان کو جلادیا۔پس جب وہ وہاں پہنچا تو انہیں جلا ہوا پایا۔''
اس طرح کی متعدد مثا لیں ہمیں عہد نبوی ﷺ سے ملتی ہیں جن میں نام کااثر نہ صرف انسان کی باطنی (روحانی اورنفسیاتی طورپر)شخصیت پر رونماہوا بلکہ ظاہری یعنی  جسمانی،سماجی ، معاشرتی،اخلاقی اور ذہنی طور پر بھی وہ انسان کی شخصیت پر بہت زیادہ اثراندازہوا ۔ اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے بچوں کے اچھے  اوربامعنی نام رکھنے کاحکم فرمایا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ اگر کسی کانام اچھا یا مناسب نہ رکھاگیا توآپ ﷺ نے اسے تبدیل فرمادیا۔

آخر میں حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ  کے الفاظ میں نام کی تاثیر پر ایک زبردست کلام:

سوال:-کیا نام کا شخصیت پر اثر پڑتا ہے؟

جواب:-*اگر کسی کو آپ غنڈہ کہنا شروع کر دو تو ہو سکتا ہے وہ غنڈہ بن جائے ۔ آپ سب کو ان کے اصلی نام سے پکارا کرو ۔ نام کا اثر ضرور ہوتا ہے ۔

اس لئے حکم یہ ہے کہ اچھے اچھے نام رکھا کرو تا کہ اس کے لئے اچھی تاثیر ہو جائے ۔ عام طور پر جو نام ہمارے ہاں اس طرح کے رکھے جاتے ہیں جیسے غلام مصطفٰی تو اس طرح اللہ تعالیٰ سوچے گا کہ اس کو دوزخ میں جانا چاہیے کہ نہیں جانا چاہیے ۔ تو غلام مصطفٰی دوزخ میں نہیں جاتا ۔ "اگر اسے آپ جھگڑا کہتے ہیں تو جھگڑا ہی سہی لیکن نام میرا یہی ہے ۔" نام کا انسان کی زندگی پر بہت اثر پڑتا ہے ۔

گفتگو والیم 6 ،صفحہ نمبر 257

 







؂[1] ۔  فيض القدير،شیخ محمد عبدالرؤف المناوی
؂[2] ۔  فيض القدير، شیخ محمد عبدالرؤف المناوی
؂[3] ۔  الجامع لابن وہب،امام عبداللہ بن وہب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ
؂[4] ۔  صحیح بخاری
؂[5] ۔  موطا امام مالک

درج ذیل چارٹ کی مدد سے ہم یہ بتارہے ہیں کہ کس مہینے میں کن حروف سے نام رکھنا شروع کیا جائے۔ نام ہوں گے بامعنی اور اچھے اسماء۔ مثلا 22 دسمبر سے 20 جنوری تک ان حروف سے نام رکھے جائیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔  ف،ج،خ،ک،ض،ز،ذ،ظ
مثلاً ف سے لڑکوں کے نام
فاضل،فائز، فہیم،فضل الرحمٰن،وغیرہ
لڑکیوں کے نام
فاطمہ،فائزہ، فرزانہ،فاخرہ وغیرہ

یہ چارٹ میرے استاد محترم جناب ابومحمد فہیم انواراللہ خان مدظلہ العالی نے ترتیب دیا ہے اللہ رب العزت آپ پر دونوں جہانوں میں اپنی بے پناہ رحمتیں برکتیں نازل فرمائے۔آمین
 استاذ محترم جناب ابومحمد فہیم انواراللہ خان صاحب کے مطابق
1
22 Dec to 20 Jan
ف،ج،خ،ک،ض،ز،ذ،ظ
2
21 Jan to 19 Feb
ث،ص،س،ش
3
20 Feb to 20 Mar
ج،د،
4
21 March 20 April
ا،ل،ع،
5
21 April to 21 May
ب،و
6
22 May to 21 June
ک،ق
7
22 June to 23 July
ح،ہ
8
24 July to 23 Aug
م
9
24 Aug to 23 Sep
پ،غ
10
24 Sep to 23 Oct
ت،ط،ر
11
24 Oct to 22 Nov
ن،ی
12
23 Nov to 21 Dec
ف

آخر میں قارئین کی معلومات کے لئے حروف ابجد اور ان کے اعداد مکمل درج کئے جاتے ہیں
ابجد ہوز حطی کلمن سعفص قرشت ثخذضظغ
ز
و
ہ
د
ج
ب
ا
7
6
5
4
3
2
1
ن
م
ل
ک
ی
ط
ح
50
40
30
20
10
9
8
ش
ر
ق
ص
ف
ع
س
300
200
100
90
80
70
60
غ
ظ
ض
ذ
خ
ث
ت
1000
900
800
700
600
500
400




Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post