رومی: ایک جاوداں شاعر، ایک ابدی پیغام — مغرب کی مقبولیت سے مشرق کی روحانی اساس تک
(مولانا قاری توصیف حسین،تلہ گنگ)
مولانا جلال الدین
رومی کی شاعری صدیوں کے فاصلے سمیٹ کر آج بھی دلوں کو اسی طرح گرماتی ہے جیسے سات
سو برس قبل قونیہ کی فضائیں اس وجدانی نغمے سے دہلتی تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ
ایک خالص اسلامی صوفی، ایک فقیہ، اور ایک قرآنی مفہوم کا شاعر آج امریکہ اور یورپ کے
بک اسٹالز پر Best Seller بن کر کھڑا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر رومی
میں ایسا کیا ہے کہ جدید مغربی قاری بھی اسے اپنی روح کی غذا سمجھتا ہے؟
رومی کی مغرب میں
غیر معمولی پذیرائی — چار بڑے عوامل
الف) کولمین بارکس
کی آزاد نثری تراجم
رومی کی مغربی
شہرت کا سب سے بڑا ذریعہ امریکی شاعر Coleman Barks ہے، جس
نے رومی کے فارسی اشعار کو اسلامی پس منظر، قرآنی اشارات اور صوفیانہ حوالوں سے
تقریباً بے نیاز کر کے ایک رومانوی، مراقباتی اور جدید روحانی شاعر کے طور
پر پیش کیا۔
گویا
’’رومی in English، مگر بغیر اسلام، بغیر قرآن‘‘۔
یہ صورت مغربی
مزاج کے لیے نہایت ہضم پذیر ثابت ہوئی۔
ب)
Self-help اور Healing کی منڈی میں رومی
کا فٹ ہونا
رومی کا اصل فارسی
کلام اللہ کی معرفت، فنا فی اللہ، اور عشقِ حقیقی کے بیان سے بھرا ہے، مگر مغرب
میں اسے
motivation، healing،
love
quotesکے
طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
یوں رومی ایک
’’spiritual life-coach‘‘ کی مانند نظر آنے لگتا ہے۔
ج)
New Age روحانیت کا ابھار
1980ء کے
بعد مغرب میں ایسی روحانیت مقبول ہوئی جو مذہب کی قیود سے آزاد مگر دل کو تسلی
دینے والی ہو۔
Meditation، mindfulness،
inner
peace —یہ
سب تصورات رومی کے اشعار میں ایک خاموش آہنگ کی صورت پہلے ہی موجود تھے، لہٰذا
مغرب نے اسے کھلے دل سے قبول کیا۔
د) زبان کا
جمالیاتی سحر
رومی کی شاعری میں
تمثیل، علامت، تصویر گری اور وجدانی موسیقیت اس قدر شیریں ہے کہ ایک عام قاری بھی
فوراً اس سے قلبی ربط محسوس کرتا ہے۔ یہی جمالیات زمان و مکان کی سرحدیں توڑ دیتی
ہے۔
مسلمان اور غیر
مسلمان دونوں رومی کے اقوال کیوں شیئر کرتے ہیں؟
اس کا راز یہ ہے
کہ رومی انسانی احساسات کے نہاں گوشوں کو براہِ راست چھوتے ہیں۔امید، درد، روشنی،
دل، سفر، فراق، وصل—یہ سب ایسی آفاقی زبان ہے جو ہر
مذہب، ہر قوم اور ہر ذہن کو سمجھ آتی ہے۔
اگرچہ رومی کی اصل
تعلیمات اسلامی تصوف ہی کی شرح ہیں، مگر ان کی اظہار کی وسعت انہیں
’’universal voice‘‘ بنا دیتی ہے۔
24 برس کی
عمر میں رومی نے بڑا منصب کیوں چھوڑا؟
رومی فقہ، حدیث
اور تفسیر کے استاد تھے۔ والد کی وفات کے بعد منصبِ تدریس اُن کے سپرد ہوا۔ لیکن:
الف) سوزِ دروں کی
بے چینی
رومی محسوس کرتے
تھے کہ علم اگرچہ ذہن میں ہے، مگر دل میں کچھ جاگا نہیں۔ یہ اضطراب انہیں باطنی
سفر کی دعوت دیتا تھا۔
ب) بیرونی منصب
اُن کی طبیعت کے خلاف تھا
وہ عزت و جاہ کے
طالب نہیں تھے؛ ان کی اصل پیاس حقیقتِ مطلق تک رسائی تھی۔
ج) شیخ برہان
الدین ترمذی کی سخت تربیت
یہی مرشد رومی کو
باہر سے اندر کی طرف کھینچ لائے—جہاں سے سفرِ شمس کی ابتدا ہوئی۔
رومی کی اصل زندگی
شمس کے ظہور سے نہیں، بلکہ اپنے باطن کے دروازے کھول دینے سے شروع ہوئی۔
اقبال، گلزار اور
دنیا کے عظیم فنکار رومی کے گرویدہ کیوں؟
اس لیے کہ رومی:
- انسان کے باطن
میں انقلاب برپا کرنے کی دعوت دیتے ہیں؛
- عشق کو تخریب
نہیں، تخلیق کی قوت بنا کر پیش کرتے ہیں؛
- انسان کو
’’مسافر الی اللہ‘‘ قرار دیتے ہیں؛
- اور اپنی
شاعری میں حرکت، جستجو اور تلاش کا وہی ولولہ رکھتے ہیں جو اقبال کی
خودی کا مرکز ہے۔
اقبال نے صحیح کہا
تھا:
’’رومی
پِیرِ رومی من را رہبر است‘‘
رومی، اقبال کی
فکری رگِ جاں ہیں۔
کیا رومی اور شمس
ہم جنس تھے؟ — ایک علمی فیصلہ
یہ مغربی غلط فہمی
ہے۔ تین بڑے مستند محققین اس کی تردید کرتے ہیں:
۱)
پروفیسر
فرانکلن لوئس
ان کی 700 صفحات
پر مشتمل رومی کی بائیوگرافی کہتی ہے:
رومی کا ’’معشوق‘‘
فارسی شعری روایت کی علامت ہے، جنسی تعلق ہرگز مراد نہیں۔
۲)
ابراہیم
گامارد
رومی کے مترجم اور
محقق:
رومی کے اشعار
’’روحانی عشق‘‘ ہیں؛
sexual reading جدید
تراجم کی بگڑی ہوئی تعبیر ہے۔
۳)
این
میری شمل
معروف جرمن اسکالر:
تصوف کے اشعار میں
’’عشقِ مجازی‘‘ دراصل ’’عشقِ حقیقی‘‘ تک رسائی کا پُل ہوتا ہے، اسے
literal نہیں
لیا جاتا۔
اصل فارسی کلام
میں جنسی تعلق کا سایہ تک موجود نہیں۔
رومی کے چند فکری
ابہامات — اور ان کی درست تعبیر
رومی کے بعض اشعار
’’وحدت الوجود‘‘ یا ’’ہر شے میں محبوب کا جلوہ‘‘ جیسے مضامین کی وجہ سے غلط فہمی
پیدا کرتے ہیں، لیکن:
- یہ شاعرانہ
علامتیں ہیں، عقائد نہیں؛
- رومی مکمل
طور پر قرآن و سنت کے پیرو، فقہی و حدیثی علوم کے استاد تھے؛
- ان کا مسلک
اسلامی تصوف کی روایت کے اندر مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔
رومی کی تعلیمات
آج کے انسان کو کیا دیتی ہیں؟
۱.
خود
کو بدلنے کا راستہ
’’کل میں
عقل تھا، آج میں دل ہوں۔‘‘
یعنی انسان کا سفر
خود اس کے اندر سے شروع ہوتا ہے۔
۲.
باطن
کی صفائی
جب تک دل کے اندر
کی جنگ ختم نہ ہو، باہر کوئی امن پیدا نہیں ہوتا۔
۳.
محبت
بطور شفا
محبت انسان کی
کیفیت کو بدل دیتی ہے، محض تعلق کا نام نہیں۔
۴.
اختلافات
سے ماورا وحدت
رومی انسان کو
مذہب، قوم اور نسل سے اوپر اٹھ کر دیکھتے ہیں—
مگر اس وحدت کی جڑ
اللہ کی طرف سفر ہے، نہ کہ مذہبی تنسیخ۔
۵.
درد
کو ارتقا میں بدل دینے کا فن
یہ رومی کا سب سے
بڑا پیغام ہے:
دکھ وہ دروازہ ہے
جہاں سے روشنی داخل ہوتی ہے۔
نتیجہ
مولانا رومی آج
بھی اس لیے زندہ ہیں کہ وہ مذہب کے دروازے بند نہیں کرتے—
دل کے دروازے کھول
دیتے ہیں۔
وہ انسان کو اس کی
گم شدہ روشنی یاد دلاتے ہیں۔وہ دکھ کو قوت بنا کر ایک بلند تر سفر کی طرف لے جاتے
ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر:رومی
انسان کو انسان بناتے ہیں—پھر اسے اللہ کی طرف روانہ کر دیتے
ہیں۔
کیا رومی "یورپی" بھی تھے؟ — ایک علمی وضاحت
بہت
سے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ رومی کی شاعری مغرب میں اتنی جلد کیوں مقبول ہوئی؟
اس
کا ایک تاریخی و جغرافیائی پہلو یہ بھی ہے کہ:
رومی جغرافیائی طور پر ایشیا کے تھے، مگر فکری طور پر
اُن کی شخصیت یورپ اور ایشیا—دونوں کا سنگم تھی۔رومی دراصل یورپی سرزمین پر پروان
چڑھے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مغرب کے ذہن میں بھی اجنبیت نہیں پیدا کرتے۔
1)
قونیہ
اُس زمانے میں ’’یورپ‘‘ تھا
رومی
کی عمر کا بڑا حصہ قونیہ (ترکی) میں گزرا۔قرونِ وسطیٰ میں قونیہ سلجوق
سلطنت کا مرکز تھا، مگر جغرافیائی اعتبار سے یورپ کا حصہ شمار ہوتا تھا۔یہ
شہر عیسائی، یونانی، ارمنی، اور ترک آبادیوں کا گہوارہ تھا—یعنی ’’ایشیائی اسلام اور یورپی
تہذیب‘‘ کا سنگم۔
2)
رومی
بچپن سے ہی ملٹی کلچرل فضا میں رہے
رومی
نے:
فارسی،ترکی،عربی
اور مقامی اناطولی زبانوں سب کا ملا جلا ماحول دیکھا۔
یہ
ماحول انہیں ’’بین الثقافتی نفسیات‘‘ سمجھنے میں فطری طور پر ماہر بنا دیتا ہے۔
3)
رومی
نے عیسائی اور یونانی روحانی فکر سے واقفیت حاصل کی
قونیہ
اُس دور میں:
عیسائی
راہبوں،یونانی فلسفیانہ روایات،مقامی صوفی سلسلوںکا مرکز تھا۔
رومی
کا کلام کئی جگہ اس روحانی تعامل کو ظاہر کرتا ہے (اگرچہ اُس کی بنیاد قرآن
ہی رہتی ہے)۔
4)
رومی
عوامی اور عالمی مزاج کو سمجھتے تھے
رومی:
درسِ
فقہ کے استاد،خطیب،مدرس،اور عوامی مبلغ بھی تھے۔
وہ
ایک کثیر الثقافتی یورپی معاشرے سے خطاب کر رہے تھے، جہاں:
مسلمان،عیسائی،یہودی،ترک،یونانی
سب رہتے تھے۔
اسی
لیے ان کی زبان میں ایک عجیب آفاقیت، وسعت اور کشادگی ہے۔
5)
نتیجہ:
رومی کی شاعری کا “یورپی ذہن سے ہم آہنگ ہو جانا” اتفاق نہیں
جب
رومی نے انسانی جذبات، سفر، درد، روشنی اور عشق جیسے آفاقی موضوعات کو چھیڑا،تو
مغربی ذہن کو وہ بالکل اجنبی نہ لگے۔وہ پہلے ہی یورپی سرزمین کی مل جل کر زندہ
رہنے والی فضا سے واقف تھے۔اسی لیے جب صدیوں بعد رومی کی شاعری مغرب پہنچی تو:
“It
felt like a homecoming.”یعنی ”یہ تو وہی زبان ہے… جو دل سمجھتا ہے۔“
رومی اور مغرب —
حوالہ جات
کولمین بارکس کے
تراجم اور رومی کی مغرب میں مقبولیت
ماخذ:
1. Coleman
Barks, “The Essential Rumi” (HarperCollins, 1995) – مقدمہ
اور دیباچہ
2. Franklin
Lewis, Rumi: Past and Present, East and West (Oneworld, 2000), pp.
476–485
— اس
میں تفصیل سے بیان ہے کہ Barks نے رومی کے کلام
کو مذہبی پس منظر سے الگ کر دیا۔
New Age روحانیت،
self-help
مارکیٹ
اور رومی
ماخذ:
1. Lewis,
Rumi: Past and Present, pp. 450–470
2. Mark
Sedgwick, Western Sufism: From the Abbasids to the New Age (Oxford
University Press, 2017), chap. 8
3. Annemarie
Schimmel, Mystical Dimensions of Islam, pp. 340–345
رومی کا منصب
چھوڑنا، inward
restlessness، تربیتِ برہان الدین
ماخذ:
1. Shams-i
Tabrizi, Maqalāt-e Shams, ed.
Mohammad-Ali Movahhed
2. Franklin
Lewis, Rumi, pp. 113–132
3. William
C. Chittick, The Sufi Path of Love: The Spiritual Teachings of Rumi
(SUNY Press, 1983), pp. 17–28
4. Aflākī,
Manāqib al-‘Ārifīn (ترکی و
فارسی مخطوطات میں معتبر سوانح)
اقبال، گلزار اور
فنکاروں پر رومی کا اثر — حوالہ جات
1. Allama
Iqbal, Kulliyat-e-Iqbal, esp. Javid Nama (مختلف
مقامات پر رومی بطور مرشد)
2. Iqbal’s
Lectures: The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Lecture 6
3. Schimmel,
Gabriel's Wing (Studies on Rumi & Iqbal)
رومی اور شمس کے
تعلق میں ’ہم جنس‘ ہونے کا الزام — معتبر علمی تردید
1) Franklin Lewis
(University of Chicago)
حوالہ:
Rumi: Past and Present, pp. 310–315, 381–390
— واضح
بیان کہ عشق کی اصطلاح فارسی روایت میں روحانی ہے، جنسی نہیں۔
2) Ibrahim Gamard
حوالہ:
- Ibrahim
Gamard & Ravan Farhadi, The Quatrains of Rumi (2008), Preface
- Gamard’s
article: “Misreadings of Rumi in the West”
3) Annemarie
Schimmel
حوالہ:
The Triumphal Sun: A Study of the Works of Jalaloddin Rumi, pp. 214–225
— ’’عشقِ
مجازی‘‘ کا صوفیانہ مفہوم اور ’’teacher–disciple bond‘‘ کی
وضاحت۔
رومی کے فکری
ابہامات اور ان کی اصلاح — حوالہ جات
1. Chittick,
The Sufi Path of Love, pp. 20–55
2. Schimmel,
Mystical Dimensions of Islam, pp. 319–350
3. Nicholson,
Selected Poems from the Divan-i Shams-i Tabriz
— ان
مستند محققین نے واضح کیا کہ رومی کی شاعری میں وحدت الوجود ’’علامتی‘‘ ہے، عقائدی
نہیں۔
رومی کی تعلیمات
— Self-transformation، Pain-to-growth وغیرہ
1. Rumi,
Masnavi-i Ma‘navi (Nicholson edition) – Book 1 & 2
2. Chittick,
The Sufi Path of Love, pp. 65–102
3. Lewis,
Rumi, chap. “Spiritual Psychology of Rumi”
رومی کی عالمی
مقبولیت کے تاریخی اور سماجی عوامل
1. Jawid
Mojaddedi, Rumi: The Masnavi, Book 1–6 (Oxford World Classics,
Introductions)
2. Brad
Gooch, Rumi’s Secret (2017), chap. 12–15
3. Carl
Ernst, Sufism: An Introduction to the Mystical Tradition of Islam, pp.
178–185
فارسی کلام کے اصل
مآخذ
1. Kulliyat-e-Shams-e-Tabriz (دیوانِ
کبیر) – Ed. Badi'uzzaman Foruzanfar
2. Masnavi
Ma‘navi
– Ed. Nicholson
Post a Comment