اللہ کی محبت: انسانی رشتوں، احساسات اور تجربات سے معرفتِ الٰہی تک کا سفر

انسان کی فطرت عجیب ہے۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول، رشتوں، تجربوں اور احساسات سے سیکھتا ہے۔ محبت، خلوص، ایثار، رحمت، معافی—یہ سب لفظ محض خیالی نہیں بلکہ عملی تجربوں کا نچوڑ ہیں۔ انسان پہلے اپنے گھر میں، والدین کی آغوش میں، بھائی بہنوں کے رویّوں میں اور دوستوں کی قربتوں میں ان صفات کا مزہ چکھتا ہے؛ پھر اسی ذوق، اسی ذائقے اور اسی شناسی کو بنیاد بنا کر وہ خدا کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔ گویا انسانی تجربے معرفتِ الٰہی کی پہلی سیڑھی بن جاتے ہیں۔ 

اسی انسانی زاویے کو سامنے رکھتے ہوئے سوال اٹھتا ہے کہ جب انسان فانی اور محدود ہوکر بھی اتنی محبت اور خلوص رکھتا ہے، تو وہ ذات جس نے محبت کو پیدا کیا، اخلاص کے بیج کو انسان کے دل میں رکھا اور رحمت کو تخلیق کیا—وہ ذات خود کس درجہ کی ہوگی؟

یہاں سے معرفت کا دروازہ کھلتا ہے۔

خدا ایسے احساس کا نام ہے

رہے سامنے اور دکھائی نہ دے(بشیر بدر)

انسانی محبت: معرفتِ الٰہی کی تمہید

انسان کبھی براہِ راست خدا کی محبت کو نہیں دیکھتا، نہ اس کی تجلیات کو چھو سکتا ہے، لیکن محبت کی حقیقت اس کے دل میں جاگ اٹھتی ہے۔ وہ پوچھتا ہے:

  • وہ واقعی محبت کرتا ہے؟
  • کیسی محبت کرتا ہے؟
  • وہ مخلص ہے؟ کتنا مخلص ہے؟

ان سوالوں کے جوابات انسان کو ان لوگوں کے رویوں سے ملتے ہیں جو اس کی زندگی میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک بچہ ماں کی گود میں پہلی بار محبت کو محسوس کرتا ہے۔ باپ کی فکر میں اسے پہلی بار اخلاص کا ثبوت ملتا ہے۔ دوست کی قربانی میں پہلی بار وفاداری کا نقش بنتا ہے، اور کبھی کسی کے بے لوث سلوک میں اسے پہلی بار رحم کی مہک آتی ہے۔

انسان انہی محدود مثالوں سے لامحدود کی پہلی جھلک پکڑتا ہے۔

فانی محبتوں کے مشاہدے سے وہ لافانی محبت کے تصور تک پہنچتا ہے۔

انسانی اخلاص کی روشنی میں وہ رب کے اخلاص کی عظمت کو سمجھنے لگتا ہے۔

اللہ کی محبت: انسانی محبت سے بلند تر

اللہ نے خود اپنی مخلوق کو عیال اللہ کہا ہے—یعنی خاندان، گھرانے، اپنی خاص توجہ کے لائق۔ اور خود کو رب کہا ہے—پرورش کرنے والا، نگہداشت کرنے والا، چاہے بندہ نافرمان ہو یا کمزور۔

انسان اس دنیا میں مخلوق کے درمیان رہتے ہوئے محبت اور تربیت کے مختلف رنگ دیکھتا ہے، لیکن ماں باپ کی محبت اسے سب سے منفرد ملتی ہے۔ اسی لیے مذہبی و روحانی نصوص میں بارہا ماں باپ کی مثال دی جاتی ہے۔ ماں کا رحم، باپ کی فکر، ان دونوں کا ایثار، ان دونوں کا ایک بے شرط، بے غرض، مسلسل ساتھ—یہ سب کچھ انسان کو اس حقیقت کے قریب لے جاتا ہے کہ:

اگر فانی ماں باپ کا خلوص اتنا گہرا ہے تو لافانی رب کی محبت کیسی ہوگی؟

یہ سوچ انسان کے اندر ایک نیا احساس جگاتی ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کی محبت بھی کسی عام تعلق کی طرح نہیں بلکہ اس سے بدرجہا بلند اور مکمل ہے۔ اس کی محبت میں نہ تھکن ہے، نہ بدلاؤ، نہ غرض، نہ کمی۔ انسان تو لمحہ بھر کے غصّے میں اپنا بچہ بھی ڈانٹ دیتا ہے، مگر اللہ اپنی مخلوق کو ہر پل سنبھالتا ہے—اس کی لغزشوں، کوتاہیوں اور نافرمانیوں کے باوجود۔

خدا کی شان سمجھی ماں کی ممتا دیکھ کر میں نے

خطائیں میری ہوتی ہیں، مگر وہ روٹھتی نہیں ہے

عدل اور رحمت: بادشاہی تصور سے آگے

قرآن و سنت کے مزاج کے مطابق انسانی ذہن نے مختلف ادوار میں خدا کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ایک زمانے میں لوگ خدا کو ایک عظیم بادشاہ کی طرح دیکھتے تھے—جو حکم دیتا ہے، سزا دیتا ہے اور عدل قائم کرتا ہے۔ یہ فکر بالکل غلط بھی نہیں، کیونکہ اللہ مالک الملک اور الحکم بھی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ:

اگر ایک بادشاہ عادل ہو تو وہ انصاف کرے گا؛ مگر کیا اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ ہم سے محبت بھی کرتا ہے؟

صاف ظاہر ہے کہ انصاف محبت کی دلیل نہیں بنتا۔

انسان کا دل صرف انصاف سے مطمئن نہیں ہوتا، وہ محبت کی لذت بھی چاہتا ہے۔ اگر بادشاہ کے دل میں رعایا کے لیے شفقت نہ ہو تو رعایا اسے اپنا نہیں سمجھتی۔

تو کیا خدا صرف عادل ہے؟

یا وہ عادل ہونے کے ساتھ رحم کرنے والا بھی ہے؟

اسلام کا جواب واضح ہے:

عدل اس کا وصف ہے، مگر اس کی بنیاد رحمت ہے۔

قصور کے ہوتے ہوئے معافی کیوں؟

انسان جب پوچھتا ہے کہ:گناہ کے باوجود اللہ معاف کیوں کرتا ہے؟

تو اس کا جواب انسانی تجربے میں چھپا ہوتا ہے۔

ہم دوسروں کو تو آسانی سے معاف نہیں کرتے؛ لیکن جب معاملہ اپنے بچے کا ہوتا ہے تو انسان کے دل میں یکدم نرمی آجاتی ہے۔

وہ بچہ خواہ نافرمان ہو، غلطی پر غلطی کرے، بگڑا ہوا ہو، لیکن:

  • ماں اس کے لیے رات بھر جاگ سکتی ہے
  • باپ اس کی تکلیف پر سب چھوڑ کر دوڑ سکتا ہے
  • والدین خود بھوکے رہ کر اس کو کھلا سکتے ہیں
  • غلطیوں کے باوجود اسے بار بار معاف کرسکتے ہیں

کیوں؟
کیونکہ وہ اپنا ہے۔ اپناپن سب دلیلوں اور انصافوں پر حاوی ہوجاتا ہے۔

اب اگر انسان کا حال یہ ہے—جو خود ہزار کمزوریاں رکھتا ہے، جو خود خطاؤں کا مجموعہ ہے—تو وہ ذات جس نے انسان کے دل میں یہ محبت رکھی، جو خود رحمت کا سرچشمہ ہے، وہ ذات اس سے بڑھ کر کیوں نہیں ہوگی؟

یہ ناممکن ہے کہ خالق محبت میں اپنی مخلوق سے کم ہو۔

رحمتِ الٰہی: انسانی محبت کی معراج

اللہ کی رحمت کی ایک جھلک اس بات میں دیکھی جاسکتی ہے کہ انسان جہاں بھی جاتا ہے، اللہ کی نعمتیں اس کے ساتھ چلتی ہیں۔ وہ سانس لیتا ہے تو اللہ کا فضل، کھاتا ہے تو اللہ کا رزق، غلطی کرتا ہے تو اللہ کی پردہ پوشی، تھک کر گرتا ہے تو اللہ کا سہارا، اور جب آخری حد تک نافرمانی کرکے پلٹتا ہے تو اللہ کا در کھلا ہوا ملتا ہے۔

یہ وہ محبت ہے جس کی حد نہیں، جس کا بدل نہیں۔

انسان جب کہتا ہے کہ “میں بے قدر ہوں”، اللہ کہتا ہے:

میری رحمت تمہاری ناقدری سے بڑی ہے۔

جب انسان کہتا ہے “میں بار بار غلطی کرتا ہوں”، اللہ کہتا ہے:

میری مغفرت بار بار کے گناہوں سے بھی زیادہ وسیع ہے۔

انسان کہتا ہے “میں تھک چکا ہوں”، اللہ کہتا ہے:

میری رحمت کبھی نہیں تھکتی۔

یہی معرفتِ الٰہی کی روح ہے۔

ماں باپ کی مثال: کیوں دی جاتی ہے؟

انسان دنیا میں مختلف لوگوں کو مخلص پاتا ہے۔ کبھی کوئی دوست بے لوث ثابت ہوتا ہے، کبھی کوئی استاد یا بزرگ، اور کبھی کوئی اجنبی بھی حیران کن شفقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مگر عام انسان کے لیے سب سے پہلی اور نمایاں مثال ماں باپ کی ہوتی ہے۔

اس کے تین اسباب ہیں:

1.      انسان ان کی محبت کا تجربہ جلد اور زیادہ کرتا ہے۔

2.      ان کا مقام فطری طور پر دل میں بہت بلند رکھا گیا ہے۔

3.      ان کی محبت کا رنگ دنیاوی محبتوں میں سب سے شدید اور خالص ہوتا ہے۔

اسی لیے وحی میں ماں باپ کی مثال بار بار آتی ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ اللہ کی محبت صرف ماں باپ جیسی ہے، بلکہ اس لیے کہ انسان کے تجربے میں خالق کی محبت کے قریب ترین انسانی مثال والدین کی محبت ہے۔

یہ مثال ایک علامت ہے، حقیقت نہیں۔

حقیقت اس سے کہیں بلند ہے۔

انسانی محبت : ربانی محبت کی پہچان

جب انسان رشتوں میں خلوص دیکھتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ محبت بلا شرط بھی ہوسکتی ہے۔

جب والدین کی معافی دیکھتا ہے، وہ سیکھتا ہے کہ معاف کرنا عدل سے آگے کی چیز ہے۔

جب کسی کا بے غرض ساتھ دیکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ خلوص بغیر غرض بھی ممکن ہے۔

جب کسی کی بے لوث خدمت دیکھتا ہے، تو سمجھتا ہے کہ رحمت صرف ضرورت تک محدود نہیں۔

اور پھر جب وہ خدا کو دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے:

اگر مخلوق میں یہ صفات ہیں تو خالق میں تو ان کی انتہا ہوگی۔

یہی تصور انسان کے دل میں ایک نئی کیفیت پیدا کرتا ہے۔

وہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ کی محبت دنیا کی ہر محبت سے بلند ہے۔

اس کا اخلاص ہر اخلاص سے خالص ہے۔

اس کی رحمت ہر رحمت سے زیادہ ہے۔

اس کا “اپنا” ہونا ہر تعلق سے بڑھ کر ہے۔

نتیجہ

انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ محسوسات سے نامحسوس حقیقتوں تک پہنچتا ہے۔

وہ اپنی ماں کی آنکھوں میں جھانک کر سمجھتا ہے کہ محبت کیا ہوتی ہے۔

وہ باپ کی مشقت دیکھ کر اخلاص کو پہچانتا ہے۔

وہ دوستوں اور رشتہ داروں سے مختلف رویّے دیکھ کر رحمت، معافی اور ایثار کی عملی شکلوں کو سمجھتا ہے۔

پھر ان تجربوں کو لے کر جب وہ خدا کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کا دل گواہی دیتا ہے کہ:

جو محبت انسان میں ہے، وہ اس کے خالق کی محبت کی نشانی ہے۔

اور جب محدود محبت یہ کمال رکھتی ہے، تو لامحدود محبت کس درجہ کی ہوگی!”

اسی احساس کے ساتھ انسان کے اندر ایک نیا تعلق بنتا ہے

ایمان کا تعلق،

معرفت کا تعلق،

محبتِ الٰہی کا تعلق۔

انسان جتنا اپنے اطراف کے خلوص کو دیکھتا ہے، اتنا اللہ کے خلوص کا ادراک بڑھتا ہے۔

جتنا والدین کی محبت کو سمجھتا ہے، اتنا رب کی محبت قریب محسوس ہوتی ہے۔

جتنا انسان فانی محبتوں کو محسوس کرتا ہے، اتنا لافانی محبت کا دروازہ کھلتا ہے۔

یہی انسانی رشتوں سے خدا کی معرفت تک کا سفر ہے

ایک فطری، دل سے اٹھتا ہوا، اور رب تک پہنچانے والا سفر۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post