کیا ہر روح کو دنیا
میں بھیجنے سے پہلے اس کی پوری زندگی دکھائی گئی؟
یہ دعویٰ کہ ہر
روح کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے اس کی پوری زندگی دکھائی گئی اور یہ عمل 77 بار
دہرایا گیا، اس قول کا قرآن وحدیث ودیگر
امہات کتب میں کوئی ذکرنہیں اورنہ ہی کسی دوسرے مذہب میں اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔
البتہ، اسلامی تعلیمات
کی روشنی میں اس میں جزوی صداقت موجود ہے، مگر اس بیان میں ایک بنیادی خامی یہ ہے کہ قبل از تخلیق اور بعد از مرگ (روز
جزا) کے دو الگ الگ واقعات کو خلط ملط کردیا گیا ہے نیز 77 کا ہندسہ کی کوئی اصل موجود نہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن
میں تخلیق کا ذکر تقریباً 261 مرتبہ مختلف سیاق و سباق میں آیا ہے۔ انہیں میں سے
ایک مقام پر عہدِ الست کا ذکر ہے ، جہاں اللہ تعالیٰ نے تمام روحوں سے
اپنی ربوبیت کا اقرار کروایا:
روحوں کا عہد
اللہ نے تمام
انسانوں کی روحوں کو جمع کیا اور ان سے پوچھا:
وَإِذْ
أَخَذَ رَبُّكَ مِنۢ بَنِىٓ ءَادَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ
وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا۟ بَلَىٰ ۛ
شَهِدْنَآ ۛ أَن تَقُولُوا۟ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا
غَـٰفِلِينَ(سورہ
الاعراف 7:172-174)
اور جب تمہارے
پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان
کے مقابلے میں اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔
وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) ۔ یہ اقرار اس لیے
کرایا تھا کہ قیامت کے دن (کہیں یوں نہ) کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔
جیسا کہ اس آیت
میں بتایا گیا کہ یہ عہد اس لیے لیا گیا تاکہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ
ہمیں اللہ کی بندگی کا حکم معلوم نہیں تھا۔
امانت کا معاملہ
نیزایک دوسرے مقام
پر انسان کے سامنے ایک امانت پیش کرنے کاتذکرہ ملتاہے ۔اللہ نے ایک عظیم امانت
(یعنی اس کی خلافت، فرمانبرداری اور اطاعت کی ذمہ داری) آسمانوں، زمین اور پہاڑوں
پر پیش کی، لیکن انہوں نے اپنی کمزوری اور بے بضاعتی کے باعث اسے لینے سے انکار کر
دیا کیونکہ وہ اس کا بوجھ اٹھانے سے ڈرتے تھے۔ تاہم، اس عجلت پسندانسان نے اس
امانت کو قبول کر لیا، حالانکہ وہ کمزور اور نادان تھا۔
إِنَّا
عَرَضْنَا ٱلْأَمَانَةَ عَلَى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱلْجِبَالِ فَأَبَيْنَ
أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا ٱلْإِنسَـٰنُ ۖ إِنَّهُۥ
كَانَ ظَلُومًۭا جَهُولًۭا (سورہ الاحزاب 33:72-73)
بے شک ہم نے امانت
کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اسے اٹھانے سے
انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت
ظالم، بہت جاہل ہے۔
لیکن انسان جو کہ
بھولا تھا اس نے اس بار امانت کو خوشی خوشی اٹھا لیا۔یہی امانت انسان کی آزمائش کا
سبب بنی، کیونکہ دیگر مخلوقات بغیر کسی اختیار کے اللہ کی عبادت کرتی ہیں، جبکہ
انسان کو نیکی اور بدی میں سے انتخاب کرنے کی آزادی دی گئی۔
ہمیں یہ سب کیوں
یاد نہیں؟
کچھ لوگ سوال کر
سکتے ہیں کہ اگر یہ عہد ہوا تھا تو ہمیں یاد کیوں نہیں؟ قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ
جب انسان کسی بڑی مصیبت میں ہوتا ہے، تو وہ فطری طور پر اللہ کو پکارنے لگتا ہے،
جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی روح میں اللہ کی پہچان موجود ہے ۔لیکن جب وہ مصیبت
سے نکل آتا ہے تو اکثر لوگ اللہ کو بھول جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انسان کو ظالم
اور نادان کہا گیا ہے
وَ
اِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۡۢبِہٖۤ اَوۡ قَاعِدًا اَوۡ
قَآئِمًا ۚ فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنۡ لَّمۡ یَدۡعُنَاۤ
اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ
(سورہ یونس :12)
اور جب انسان کو
کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے لیٹے بھی بیٹھے بھی کھڑے بھی ۔ پھر جب ہم
اس کی تکلیف اس سے ہٹا دیتے ہیں تو وہ ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے اپنی تکلیف
کے لئے جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہیں تھا ان حد سے گزرنے والوں کے
اعمال کو ان کے لئے اسی طرح خوش نما بنا دیا گیا ہے ۔
پوری زندگی کادکھایاجانا
جہاں تک انسان کو
اس کی پوری زندگی دکھائی جانے کا معاملہ ہے یہ بھی درست ہے کہ انسان کو اس کی مکمل
زندگی آخرت میں دکھائی جائے گی، اور اس وقت وہ حیران ہو کر کہے گا:
وَ
وُضِعَ الۡکِتٰبُ فَتَرَی الۡمُجۡرِمِیۡنَ مُشۡفِقِیۡنَ مِمَّا فِیۡہِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ
یٰوَیۡلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً
اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا ۚ وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا ؕ وَ لَا یَظۡلِمُ
رَبُّکَ اَحَدًا (سورۃ الکہف: 18)
اور رکھ دیا جائے
گا اعمال نامہ چناچہ تم دیکھو گے مجرموں کو کہ ڈر رہے ہوں گے اس سے جو کچھ اس میں
ہوگا اور کہیں گے : ہائے ہماری شامت ! یہ کیسا اعمال نامہ ہے ؟ اس نے تو نہ کسی
چھوٹی چیز کو چھوڑا ہے اور نہ کسی بڑی کو مگر اس کو محفوظ کر رکھا ہے اور وہ پائیں
گے جو عمل بھی انہوں نے کیا ہوگا اسے موجود۔ اور آپ کا رب ظلم نہیں کرے گا کسی پر
بھی۔
یہی اصل حقیقت ہے،
جسے بغیر کسی مبالغہ آرائی کے سمجھنا اور بیان کرنا ضروری ہے۔
آخری بات
اسلام میں ہمیں
بغیر کسی تحقیق یا ثبوت کے کسی بھی بات کو ماننے اورپھیلانے سے منع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں
فرمایا گیا ہے:
وَلَا
تَقۡفُ مَا لَـيۡسَ لَـكَ بِهٖ عِلۡمٌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَالۡبَصَرَ وَالۡفُؤَادَ
كُلُّ اُولٰۤـئِكَ كَانَ عَنۡهُ مَسۡـُٔوۡلًا(سورہ بنی اسرائیل
17:36)
اور جس چیز کا
تمہیں علم نہیں، اس کے پیچھے نہ چلو۔ بے شک، کان، آنکھ اور دل—ان سب کے بارے میں
سوال ہوگا۔
غیر ضروری سوالات
میں پڑنے کے بجائے، ہمیں اللہ کی عبادت اور اطاعت پر توجہ دینی چاہیے۔ نجات اسی میں
ہے کہ ہم اپنی زندگی اللہ کے احکام کے مطابق گزاریں۔
Post a Comment