جمع بین الصلاتین کا شرعی حکم

محمد سرفراز صابری(پرنسپل الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ)

 

نماز اسلام کا ستون اور بندگی کا مظہرِ اعلیٰ ہے۔ قرآنِ مجید نے اس کے اوقات نہایت وضاحت سے بیان فرمائے ہیں، اور رسولِ اکرم ﷺ نے ان اوقات کی عملی تعیین فرما کر امت کے لیے ایک دائمی اسوہ قائم فرمایا۔ چنانچہ شریعتِ مطہرہ میں نمازوں کے اوقات مقرر ہیں، نہ ان میں تقدیم (پہلے پڑھنا) کی گنجائش ہے، نہ تاخیر (بعد میں پڑھنا) کی، سوائے ان مواقع کے جن کی خاص اجازت نصوصِ صریحہ سے ثابت ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا (النساء: 103)

بیشک نماز مسلمانوں پر مقررہ وقت میں فرض ہے۔

اس آیتِ کریمہ سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ نمازوں کا وقت متعین اور مقرر ہے، اور ان کی ادائیگی انہی حدود کے اندر ہونی چاہیے۔

احادیثِ نبویہ کی روشنی میں

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةً بِغَيْرِ مِيقَاتِهَا إِلَّا صَلَاتَيْنِ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَصَلَّى الْفَجْرَ قَبْلَ مِيقَاتِهَا۔(صحیح البخاري، باب من يصلي الفجر بجمع: 1682)

میں نے نبی کریم ﷺ کو کبھی نماز وقت سے باہر ادا کرتے نہیں دیکھا، سوائے دو نمازوں کے: مغرب و عشاء کو مزدلفہ میں جمع فرمایا، اور فجر کی نماز کو اس کے ابتدائی وقت میں ادا فرمایا۔

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:

فجر کی نماز وقت سے پہلے ادا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ طلوعِ فجر سے پہلے پڑھی گئی، بلکہ مراد یہ ہے کہ فجر کے بالکل ابتدائی وقت میں ادا فرمائی، کیوں کہ طلوعِ فجر سے پہلے نماز پڑھنا اجماعِ امت سے ناجائز ہے۔(شرح صحیح مسلم)

جمع بین الصلاتین کے مواقع

نبی کریم ﷺ سے دو مواقع پر جمع بین الصلاتین (دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا) بطورِ حقیقت ثابت ہے:

1.      یومِ عرفہ (حج کے دن):ظہر و عصر کی نمازیں ایک ساتھ میدانِ عرفات میں ادا فرمائیں۔

2.      مزدلفہ:مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا فرمائیں۔

ان دو مواقع کے علاوہ کسی حالت میں نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے نمازوں کو وقت سے پہلے یا بعد میں جمع کرنا ثابت نہیں ہے۔

خلفائے راشدین کا تعامل

حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم  چاروں خلفاء کا طریقہ یہی تھا کہ ہر نماز اپنے مقررہ وقت میں ادا فرماتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو باقاعدہ حکم فرمایا:

يَنْهَاهُمْ أَنْ يَجْمَعُوا بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ وَيُخْبِرُهُمْ أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ كَبِيرَةٌ مِنَ الْكَبَائِرِ۔(موطأ محمد، باب الجمع بين الصلاتين في السفر: 205)

انہیں (گورنروں کو) حکم دیا کہ لوگوں کو جمع بین الصلاتین سے روکیں، اور انہیں بتا دیں کہ ایک ہی وقت میں دو نمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔

بغیر عذر کے جمع بین الصلاتین: کبیرہ گناہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ أَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ۔(سنن الترمذی: 188)

جس نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو جمع کیا، وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں داخل ہو گیا۔

یہ روایت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ جمع بین الصلاتین بلاعذر، شریعت میں ناجائز اور گناہِ کبیرہ ہے۔

حدیثِ حضرت عبداللہ بن عباسؓ (جمع بغیر عذر کے)

صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا، فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ.(صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، حدیث: 705)

رسول اللہ ﷺ نے ظہر و عصر، اور مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں، اس حالت میں کہ نہ کوئی خوف تھا، نہ بارش، نہ سفر۔

حضرت ابن عباسؓ سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟انہوں نے فرمایا:

أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ.

آپ ﷺ نے ایسا اس لیے کیا کہ امت پر تنگی نہ ہو۔

عذر کی وضاحت:خوف یا جنگ (خوفِ شدید یا قتال)

اگر جنگ یا دشمن کے حملے کا خوف ہو تو نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت ہے۔

فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا(البقرة: 239)
اگر تمہیں خوف ہو تو کھڑے کھڑے یا سواری پر ہی نماز پڑھ لو۔

نبی ﷺ نے غزوۂ تبوک میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کیا۔(صحیح مسلم، حدیث: 706)

ایسی صورت میں جمع حقیقی جائز ہے،کیونکہ نماز کی حفاظت اور دشمن سے بچاؤ ایک شرعی عذر ہے۔

 بظاہر اشکال

یہ روایت بظاہر یہ ظاہر کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بلاعذر دو نمازوں کو جمع کیا، جس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جمع بین الصلاتین (دو نمازیں ایک وقت میں پڑھنا) عام حالات میں بھی جائز ہے۔اسی طرح سفر کے موقع پر دو نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت ، تو واضح رہے کہ  یہاں  جمع کرنے سے صورتاً جمع کرنا مراد ہے، حقیقتاً نہیں۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ظہر کی نماز اتنی دیر سے پڑھی جائے کہ اس کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو، جیسے ہی ظہر کی نماز سے فراغت ہو، تھوڑا سا وقفہ کیا جائے، پھر جب عصر کا وقت شروع ہوجائے تو عصر کی نماز ادا کی جائے۔ اسی طرح مغرب اور عشاء میں بھی کیا جائے۔ اس صورت میں ظہر اپنی مقررہ وقت میں اور عصر اپنے وقت میں پڑھی جائے گی، لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوگا کہ دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھی گئیں۔ نبی کریم ﷺ نے جب دو نمازوں کو اس طرح جمع فرمایا تو راویوں نے تعبیر کے طور پر کہا کہ آپ ﷺ نے دو نمازوں کو جمع فرمایا، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہ تھا، جیسا کہ تفصیلی روایات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔

چنانچہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رَاَيْتُ رَسُوْلَ الله ﷺ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ حَتّٰى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ(صحیح مسلم، باب جواز الجمع بين الصلاتين فى السفر:704)

میں نے رسول اللہ ﷺ کودیکھا کہ جب آپ کو سفر پر جانے میں عجلت ہوتی تو مغرب کی نماز کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کو جمع فرماتے۔

حضرت انس  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيْلَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلٰى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ((صحیح مسلم، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر،705)

رسول اللہ ﷺجب سورج کے زائل ہونے سے قبل سفر فرماتے تو ظہر کو مؤخرفرماتے عصر تک، پھر (سواری سے) اترتے،اور دونوں نمازوں کو جمع فرماتے۔

ان روایات سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا دونمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا حقیقتاً نہیں،اس لیے اس کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گا؛تاکہ قرآن اور حدیث پر مکمل طور پر عمل ہو،اور ان میں باہم تضاداورٹکراؤ نہ ہو۔

جمع  حقیقی و صوری  کی وضاحت

جمعِ حقیقی کا مطلب ہے کہ:

جمع  حقیقی سے مراد یہ ہے کہ دو نمازیں ایک ہی وقت میں ادا کی جائیں، یعنی پہلی نماز کو اس کے وقت کے بعد یا دوسری نماز کو اس کے وقت سے پہلے پڑھا جائے — جیسے ظہر کے وقت میں عصر یا عشاء کے وقت میں مغرب پڑھنا۔

جمع صوری کا مطلب ہے کہ:

·         ظہر کو اس کے بالکل آخری وقت میں ادا کیا جائے؛اور فوراً بعد عصر اپنے ابتدائی وقت میں پڑھی جائے؛یوں بظاہر دونوں اکٹھی معلوم ہوں گی، مگر حقیقت میں ہر ایک اپنی جگہ وقت کے اندر ادا ہوگی۔

·         مغرب کو اس کے آخر وقت میں اورعشاء کو فوراً بعد اپنے وقت میں ادا کیا جائے تو یہ بھی جمع صوری کہلاتی ہے۔

امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

یہ جمع دراصل جمع صوری تھی، نبی ﷺ نے دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت میں ادا کیں، مگر بظاہر ساتھ ساتھ معلوم ہوئیں۔

امام نووی رحمہ اللہ (شرح مسلم) میں فرماتے ہیں:

جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ یہ جمع حقیقی نہیں بلکہ صوری تھی، تاکہ امت پر تنگی نہ رہے۔

نیزجمع بین الصلاتین (دو نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرنے) سے متعلق جو احادیث منقول ہیں، وہ خبرِ واحد کے درجے کی ہیں، یعنی چند راویوں کے ذریعے منقول روایات ہیں، متواتر نہیں۔ جبکہ قرآنِ مجید میں نمازوں کے اوقات صریح اور قطعی طور پر بیان کیے گئے ہیں، مثلاً:

اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا (النساء: 103)

بیشک نماز مسلمانوں پر مقررہ وقت میں فرض ہے۔

اصولی قاعدہ یہ ہے کہ خبرِ واحد قرآنِ قطعی کے حکم میں تبدیلی نہیں کرسکتی، اس لیے وہ احادیث جو بظاہر جمع بین الصلاتین (بلا عذر) پر دلالت کرتی ہیں، ان کا مطلب جمعِ صُوری ہے، یعنی نبی کریم ﷺ نے دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت میں پڑھی تھیں مگر بظاہر ساتھ معلوم ہوئیں۔ اس لیے ایسی روایات کو قرآن کے ظاہری حکم کے تابع سمجھا جائے گا، نہ کہ اس کے ناسخ یا معارض کے طور پر۔یوں قرآنِ مجید کے حکم اور احادیث میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا۔لہٰذا فقہِ حنفی اور جمہور علماء کے نزدیک ہر نماز اپنے وقت پر فرض ہے، اور بغیر شرعی عذر دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا جائز نہیں۔

فقہِ حنفی کا موقف

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک:جمع حقیقی صرف دو مواقع پر جائز ہے:

1.      عرفات میں: ظہر و عصر کا جمع

2.      مزدلفہ میں: مغرب و عشاء کا جمع

·         ان کے علاوہ تمام مقامات پر جمع حقیقی جائز نہیں؛ البتہ جمع صوری ممکن ہے۔

حکمتِ نبوی ﷺ

نبی کریم ﷺ نے کبھی کبھار جمع صوری اس لیے اختیار فرمائی کہ:

1.      امت پر سختی نہ ہو۔

2.      نماز کے اوقات میں وسعت کا پہلو واضح ہو۔

3.      امت کو یہ تعلیم دی جائے کہ اگر کسی کو عذر لاحق ہو تو وقت کے آخری یا ابتدائی حصے میں سہولت سے نماز ادا کی جا سکتی ہے۔

عبادات میں نبی کریم ﷺ نے نہ شدت اختیار فرمائی نہ تساہل، بلکہ اعتدال و توازن کا کامل نمونہ پیش فرمایا۔نماز کے اوقات کی پابندی بندگی کی علامت اور شریعت کی روح ہے۔اکابرِ امت کا اجماع و تعامل اسی پر رہا کہ:ہر نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے، یہی سنتِ محمدی ﷺ اور فقہِ حنفی کا مزاج ہے۔

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post