شاعروں اور ادبیوں کے لطیفے
اردو زبان کے معروف شعرا اور ادباء کے درمیان شستہ مذاق اور دل
چسپ نوک جھونک کی روایت خاصی قدیم ہے۔ یہاں ادبی شگوفوں کا مطالعہ کرنے والے قارئین نہ صرف ان واقعات کا لطف لے سکیں گے ، بلکہ
زبان کو برتنا سیکھیں گے اور الفاظ کے نت نئے مفہوم سے آشنا بھی ہو سکیں گے۔ یہ بات
واضح رہے کہ زبان کا اصل جو ہر اس کے مزاح ہی میں کھلتا ہے۔ اسی لیے یہ بات کہی جاتی
ہے کہ جسے مزاح آگیا ، اُسے زبان آگئی ۔
لا ہور کا گردہ
مشہور شاعر جگر مراد آبادی لاہور تشریف لائے تو کچھ مقامی ادیب
اور شاعران سے ملنے ان کی قیام گاہ پہنچے ۔
جگر نہایت اخلاص اور تپاک سے ہر ایک کا خیر مقدم کر رہے تھے۔جب مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو وہاں پہنچے تو انہوں نے آگے بڑھ کر جگر صاحب سے مصافحہ کرتے
ہوئے کہا : " قبلہ !آپ مرادآباد کے جگر ہیں تو یہ خاکسار لا ہور کا گردہ ہے ۔
آلو کہاں سے آئے ہیں ؟
شمس العلما خواجہ حسن نظامی کا بیان ہے کہ ایک دن ہم سب کھانا
کھا رہے تھے ۔ آلو کا سالن تھا۔ حضرت اکبر الہ آبادی بھی کھانے میں شریک تھے۔ وہیں
میری کم عمر بیٹی حور بانو بھی موجود تھی۔ اکبر الہ آبادی نے اس سے پوچھا : ” بھئی
، یہ آلو کہاں سے آئے ہیں ؟ بہت عمدہ ہیں ۔
حور بانو نے جواب دیا: ” میرے خالو بازار سے لائے ہیں۔ اکبر
الہ آبادی چند ساعت خاموش رہے، پھر مسکرا کر یہ شعرپڑھا:
لائے ہیں ڈھونڈ کے بازار سے آلو اچھے
اس میں کچھ شک نہیں ، ہیں حور کے خالو ا چھے
گھوڑے مختلف رنگ کے ہوتے ہیں
معروف ادیب خواجہ حسن
نظامی کا انگریزوں سے کافی میل جول تھا۔ ان کے ایک انگریز دوست رچرڈ ولیم نے خواجہ
صاحب سے مذاق کرتے ہوئے پوچھا : ” انگریز تو سب ایک ہی رنگ کے ہوتے ہیں، لیکن یہ کیا
بات ہے کہ ہندستانیوں کا رنگ ایک جیسا نہیں ہوتا ؟ خواجہ صاحب نے فوراً جواب دیا :
” گھوڑے مختلف رنگ کے ہوتے ہیں ، جب کہ گدھوں کا رنگ ایک ہی ہوتا ہے۔
اردو کی خدمت
بھارتی فلم اسٹار انیل کپور کے ہاں ایک دعوت میں مشہور شاعر
قتیل شفائی اور جاوید اختر شریک تھے۔ باتوں کے دوران جاوید اختر نے قتیل شفائی سے کہا:
” پنجاب کے لوگوں نے اردو کی خدمت تو بہت کی لیکن کچھ بگاڑ بھی پیدا کر دیا ۔ مثلاً
ہم لوگ کہتے ہیں کہ کھانا کھائے ، جب کہ پنجاب کے لوگ کہیں گے کہ کھانا کھائیں ۔“ قتیل
شفائی نے برجستہ جواب دیا: " کھانا کھائیے، کہیں یا کھانا کھائیں، اس سے کھانے
کے ذائقے میں بالکل فرق نہیں پڑتا ۔“
ہاتھ کے نیچے
ایک مرتبہ سرسید احمد
خاں ، مولانا شبلی نعمانی اور ان کے دوست سید ممتاز علی ایک ہی کمرے میں بیٹھے تھے۔
سرسید احمد خاں کا ایک بہت ضروری کاغذ گم ہو گیا۔ وہ اسے مسلسل تلاش کر رہے تھے ۔ اتفاق
سے وہ شبلی نعمانی کومل گیا۔ انھوں نے مذاق مذاق میں اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ سرسید
احمد خاں نے انھیں ہاتھ رکھتے ہوئے دیکھ لیا۔ وہ قریب آئے اور غرض مسکراتے ہوئے بوئے
: ” بڑے بوڑھوں سے سنتے آئے تھے کہ جو چیز گم ہو جائے ، شیطان اسے اپنے ہاتھ کے نیچے دبا لیتا
ہے۔ حضرت مولانا ! ذرا دیکھیے، میرا مطلوبہ کا غذ آپ کے ہاتھ کے نیچے تو نہیں ہے؟
ہوٹنگ کا سدباب
علی گڑھ میں ایک مشاعرہ
ہو رہا تھا اور سامعین ہوٹنگ کر رہے تھے۔ معروف شاعر گلزار دہلوی کو دعوت دی گئی۔ وہ
آگے آئے اور ہوٹنگ کا ماحول بنا دیکھ کر کہا: ” حضرات ! آج میرے پاس غزل نہیں ہے ،
نعت پیش کروں گا ۔“ نعت کا سن کر ہوٹنگ کرنے والوں نے بلند آواز سے درود شریف پڑھنا
شروع کر دیا ۔
دوری کا فیض
ایک تقریب میں پاکستان کے فوجی حکمراں جنرل ضیاء الحق کی فرمایش
پر معروف مزاحیہ شاعر ضمیر جعفری نے ایک شعر سنایا۔ قریب کھڑے لوگوں نے شعر کی خوب
تعریف کی لیکن حفیظ جالندھری نے کہا: ” بھئی ضمیر ! جب تم میرے تحت کام کرتے تھے اس
وقت تو اتنے عمدہ شعر نہیں کہہ پاتے تھے۔ ضمیر جعفری نے برجستہ جواب دیا : جی ہاں ،
یہ سب آپ سے دوری کا فیض ہے۔“
اردو کی حمایت
بابائے اردو مولوی عبدالحق اورنگ آباد سے انجمن ترقی اردو کا
دفتر دہلی لے آئے تھے۔ اسماعیل پانی پتی دہلی آئے اور مولوی صاحب سے پوچھا: "
اگر پانی پت میں اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے جلسہ کیا جائے تو کیا آپ تشریف لائیں
گے؟
بابائے اردو نے فرمایا : اگر جہنم میں بھی اردو کی حمایت میں
کوئی جلسہ منعقد ہو تو وہاں بھی خوشی سے جانے کو تیار ہوں۔“
دوسوروپے
حفیظ جالندھری ، انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں چندہ جمع کرنے
کی غرض سے اپنی نظم سنا رہے تھے۔ جلسے کے اختتام پر جلسے کے منتظم نے بتایا کہ کل تین
سور پے جمع ہوئے ہیں ۔حفیظ جالندھری نے مسکراتے ہوئے کہا: ” یہ سب میری نظم کی بدولت
ہوا ہے۔ منتظم نے متانت سے کہا: ” اس میں دوسور پے ایک ایسے شخص نے دیے ہیں ، جو بہرا تھا۔"
کفر کا فتویٰ
ان معروف ادیب کنور مہندر سنگھ بیدی سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے، جس میں بال کٹوانے یا سگرٹ حقہ وغیرہ پینے پر پابندی، بلکہ ان کے مذہب میں حرام ہے۔ ایک مشاعرے میں اپنی نعت سنانے سے پہلے انھوں نے کہا کہ میں اُردو زبان سے محبت کرتا ہوں، پھر بھی اس زبان کے کچھ محاورے ایسے ہیں، جنھیں اگر میں استعمال کروں تو میرے مذہب کے مطابق مجھ پر کفر کا فتویٰ لگ جائے گا ۔ مثلاً میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کل فلاں کی جگہ میری حجامت بن گئی ، یا سرمنڈاتے ہی اولے پڑ گئے یا یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میری کسی بات پر برادری نے میرا حقہ پانی بند کر دیا۔ بیدی صاحب کے ہر جملے پر ایک زور دار قہقہہ بلند ہوا تھا۔
بارہ بجے
ایک بار مشہور ادیب راجندر سنگھ بیدی کے ایک مسلمان دوست نے باتوں باتوں میں پوچھا: " بیدی صاحب ! یہ جو سکھوں کے بارہ بجتے ہیں ، اس میں کہاں تک سچائی ہے؟“ بیدی صاحب نے اقرار کیا کہ واقعی اس میں صداقت ہے۔ اچھا، یہ بتائیے کہ دو پہر کے بارہ بجے یا رات کے بارہ بجے؟ دو پہر کے ، کیوں کہ اس وقت گرمی بہت ہوتی ہے اور گرمی سر کے لمبے لمبے بالوں اور پگڑی کی وجہ سے ہر سکھ بوکھلا ساجاتا ہے۔
مسلمان دوست نے کہا: ” لیکن ہمارے محلے میں ایک سکھ رہتا ہے، وہ تو رات کے بارہ بجے بوکھلاتا ہے؟“
بیدی صاحب نے جواب دیا: ” وہ اصلی سکھ نہیں ہوگا ۔ مسلمان سے سکھ بنا ہو گا ۔"
گلاس پورا
بھرو
مشہور ادیب
ہنری ملر نے ایک مرتبہ پیرس میں سیب کا رس پیا۔ گلاس واپس کرتے ہوئے اُس نے دکان دار
سے
پوچھا
" تم دن بھر میں کتنے سیبوں کا رس بیچ لیتے ہو؟“ تقریباً ایک من سیبوں کا ؟ دکان
دار نے بتایا۔
میں تمہیں
ایک مشورہ دیتا ہوں جس پر عمل کر کے تم تقریبا دو من سیبوں کا رس بیچ سکتے ہو ۔ ہنری
نے کہا۔
کیسے ؟
دکان دار بے قرار ہو گیا۔ گلاس پورا بھر دیا کرو ۔ ہنری ملر نے کہا۔
پاپ
بیتی
مشتاق احمد یوسفی
نے کسی کی آب بیتی احمد فراز کو بذریعۂ ڈاک بھیجی ۔ ساتھ میں ایک سطری رقعہ لکھا:
’’مطلوبہ
آب بیتی ارسال خدمت ہے۔ سنائیں آپ اپنی ’’پاپ بیتی ‘‘ کب لکھ رہے ہیں؟‘‘
Post a Comment