بہترین اور لازوال خطبہ حج (خطبہ حجۃ الوداع محتاط مفہوم)

پروفیسر ابومحمدفہیم انواراللہ خان صاحب

خطباتِ حجَّۃُ الوَداع

(میدان عرفہ ومِنٰی)

آپﷺ کافرضیت حج کے بعد پہلااورآخری حج۔اوربیت اللہ کی آخری وداعی زیارت۔

٩۔١٠ ذِی الحجۃ سنہ ١٠ ہجری /موافق 7,6 مارچ 632م 

خطباتِ حجَّۃُ الوَداع

 ٭ترتیب و تدوین میں تقدیم و تأخیر!

محدثین کرام نے بہت سی سندوں سے روایت کیا ہے،

جمع وترتیب میں تقدیم وتاخیر ہے

علامہ شاہ ولی اللہؒ نے تقریبا اسی سندوں سے روایت کیا ہے (ازالۃ الخفاء)

  

خطبہ حجۃ الوداع

 اَلْحَمْدُلِلّٰہ نَحْمَدُہ، وَنَسْتَعِیْنُہ، وَنَسْتَغْفِرُہ، وَنَتُوْبُ اِلَیْہِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّھْدِاللّٰہُ فَلَامُضِلَّ لَہ، وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَاھَادِیَ لَہ، وَاَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، لَاشَرِیْکَ لَہ، وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ،۔اُوْصِیْکُمْ عِبَادَاللّٰہِ وَاَحُثُّکُمْ عَلٰی طَاعَتِہٖ وَاَسْتَفْتِحُ بِالَّذِیْ ھُوْ خَیْرٌ اَمَّا بَعْدُ اَیُّھَا النَّاسُ اِسْمَعُوْا مِنِّی اُبَیِّنُ لَکُمْ فَاِنِّی لَااَدْرِیْ لَعَلِّی لَااَلْقَاکُمْ بَعْدُ عَامِیْ ھٰٰذَا فِی مَوْقِفِیْ ھٰذَا۔

 حمد وثناء

محتاط مفہوم:

 تما م ستائشیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔ہم اسی کی حمد وثنا ء کرتے ہیں اور اسی کی جناب میں اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور اسی سے ہم توبہ اور استغفار طلب کرتے ہیں۔اور ہم اپنے نفس کی شرارتوں اور بداعمالیوں کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ ہی سے حفاظت چاہتے ہیں:

 جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا کرے یعنی جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو قبول کرے اور اس پرعمل پیرا ہو اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو قبول نہ کرے اس کوکوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔

 اور میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتاہوں کہ محمد ؐ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہےں۔

  افتتاحی کلمات

 اے اللہ کے بندو!میں تم کو نصیحت ووصیت کرتاہوں کہ ہرحال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو یعنی اس کے احکام کوبجالاؤ اور تمھیں تاکید کرتا ہوں اور ترغیب دلاتاہوں کہ اسی کی اطاعت کرو اور میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا ء سے اپنے خطاب کاافتتاح کرتاہوں۔

٭آگہی:(حمد وستائش کے بعد)

 لوگو!میری بات غور سے سنو،تمھیں حیات جاوداں ملے گی،میں آج تم سب سے صاف صاف باتیں کروں گا،اس لئے کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اور میں اس سال کے بعداس مقام پر آئندہ کبھی باہم جمع نہ ہوسکیں گے۔

٭ خاتم الانبیاء رحمۃ للعالمین نے اس کے بعد کوئی عمرہ اور حج نہیں کیا۔اس کے تین ماہ بعد تقریبا (٩٠ دن )بعد سفرِ آخرت فرمایا اور رفیق اعلیٰ سے جاملے۔ 

منفرد خطاب

یاایھاالناس:اے نوع انسانی!

 آپ ﷺ نے تمام صحابہ ا کرام کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! آج کونسادن ہے ؟

 صحابہ ؓ کرام نے عرض کیا!اللہ اور اسکا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔

 کچھ دیر کے لئے آپ ﷺ نے بھی سکوت اختیار فرمایا۔

 صحابہ کرام نے خیال کیا کہ شاید آج کے دن کا نام تبدیل کردیاجائے گا۔

 آپ ﷺ نے فرمایا:کیا آج محترم دن نہیں ہے؟

 ہر طرف سے آواز آئی بے شک آج یوم محترم ہے ۔

 آپ ﷺ نے فرمایا!یہ کون سا مہینہ ہے؟

 صحابہ ؓ کرام نے عرض کیا!اللہ اور اسکے رسول ؐ کوزیادہ علم ہے۔

 آپ پھرکچھ دیرخاموش رہے۔

 صحابہ کرام ؓ کوگمان گزرا کہ شاید آپ ﷺ مہینے کانام کچھ اور رکھیں گے۔

 آپ ﷺ کا ارشاد ہوا:کیا یہ مہینہ ذی الحجہ کا نہیں ہے؟

 صحابہ کرام ؓ ،بیک زبان سب نے کہا ،جی ہاں!یہ ذی الحجہ ہی ہے۔

 آپ ﷺ نے دریافت فرمایا:لوگویہ کونسا شہر ہے؟

 صحابہ کرامؓ نے عرض کیا!اللہ اور اسکا رسول ؐ بہتر جانتے ہیں۔

 آپ ﷺنے یہ سن کر کچھ دیر توقف فرمایا۔

 صحابہ کرام نے سمجھا کہ آپ ﷺ اس شہرکانام بدل دینگے ۔دفعتاً آپ ﷺ کی آواز گونجی ،کیا یہ بلد الحرام (حرمت والا شہر)نہیں؟

صحابہ کرامؓ سب یک آواز ہوکرکہہ اٹھے، بےشک،یہ بلد الحرام (حرمت والا شہر) ہے۔

 صحابہ کرام ؓ کے ذہن میںجب اس دن ،اس مہینہ اور اس شہر کی اہمیت ،عظمت اور حرمت بیٹھ گئی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔بے شک تمھارا خون ،تمھارا مال اور تمھاری عزت وآبرو ایک دوسرے پر تاقیامت اسی طرح محترم ہیں جس طرح یہ دن ،یہ مہینہ اور یہ شہر۔آپ ؐ نے اس بات کو بار بار دہرایا تاکہ ہرفرد کو اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے ۔

 آپ ﷺ نے فرمایا:خبردار!میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا،کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو،(قتل و غارت کرنے لگو)اور جس شخص کے پاس کسی کی امانت ہو اس پر لازم ہے کہ وہ امانت حق دار کو لوٹادے۔

 آپ ﷺ نے فرمایا سنو!عنقریب تم اپنے رب سے ملوگے ۔وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں باز پرس فرمائے گا۔

٭ آپ ﷺنے فرمایا : تم سے اللہ کے یہاں میری نسبت پوچھا جائے گا تو تم کیا کہوگے؟

 ہر طرف سے صدا آئی۔آپ ؐ نے اپنا فرض پورا کردیا۔اور پیغام حق پہنچادیا۔

 آپ ﷺ نے دریافت کیا !کیا میں نے اللہ کا پیغام پہنچادیا؟

 صحابہ کرام ؓ نے جواب دیا۔بے شک !بے شک آپ ﷺ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچادیا۔

 آپ ﷺ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور مجمع کی طرف جھکا کرتین بار فرمایا!اے اللہ توبھی گواہ رہنا،گواہ رہنا،گواہ رہنا۔

 

حقوق انسانی

امانت و قرض:

 ٭ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص کے پاس کوئی امانت ہو اسے چاہئے کہ اس کی امانت ادا کردے،قرض ہوتو اداکیا جائے،عاریۃ ً لی ہوئی چیز واپس کی جائے ،دودھ یا استعمال کےلئے دیئے ہوئے جانور کواس سے استفادہ کے بعد واپس لوٹایا جائے،اور ضامن ضمانت کاذمے دار ہے۔

اعلان عام:

دورجاہلیت کی تمام فرسودہ رسومات ،تمام خون اور سود معاف اور انکا خاتمہ

 ٭آپ ؐ نے فرمایا غور سے سنو! تمام امورجاہلیت آج سے میرے ان قدموں کے نیچے پامال کردیئے گئے ہیں،اور ہر سودی معاملہ کالعدم قرار دیاجاتاہے۔اور تمھیں اپنی اصل پونجی(سرمایہ)لینے کا حق ہے۔نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر کوئی ظلم کیا جائے گا،اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا ہے کہ سود ی معاملات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

 اور جو سود میرے چچا حضرت عباس ؓ بن عبدالمطلب کاوصول طلب ہے سب سے پہلے میں وہ تمام کاتمام ختم کرتاہوں،اور دور جاہلیت کاخون بہا تمام ساکت ہے۔اور جو قصاصِ جاہلیت میرے اپنے خاندان کاوصول طلب ہے ،یعنی ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا خون بہا سب سے پہلے میں اس سے دستبردار ہوتاہوں۔ان کے خون کا انتقام نہیں لیا جائے گا۔

 ٭آپ ؐ نے فرمایا :تمام آثار جاہلیت اور رسومات ،خون بہا،اور کسی کی طرف سے مال کا جھوٹا دعویٰ سب میرے قدموں کے نیچے پامال ہیں،البتہ بیت اللہ شریف کی تولیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کامنصب برقرار رہے گا،اور قتل عمد(دانستہ قتل) پرقصاص ہے(قاتل کاقتل)اورشبہ عمد(نادانستہ قتل)جولاٹھی یاپتھرسے قتل کیاجائے،اس میں١٠٠(سو)اونٹ کی دیت (معاوضہ) ہے ،پس جس نے اس سے تجاوز کیا وہ اہل جاہلیت میں سے ہے،

 آپ ﷺ نے فرمایا سنو!کیا میں نے پیغام الہی پہنچادیا؟

 صحابہ کرام ؓ :بے شک ،بے شک ،آپﷺ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچادیا۔

 آپ ﷺ :اے اللہ تو بھی گواہ رہنا۔

٭اعمال کی جوابدہی:

 ٭آپ ؐ نے خصوصی طور پر اپنے قبیلہ قریش کومخاطب کرکے فرمایا۔

 اے قریش!یہ نہ ہو کہ میدانِ حشر میں تم دنیا کا بوجھ اپنی گردنوں پر اٹھاکر لاؤ،اور،باقی لوگ سامانِ آخرت لے کر آئیں۔میں اللہ تعالیٰ کی جناب میں تمھارے کچھ کام نہ آسکوں گا،اے قریشیوں!اللہ تعالیٰ نے تم کو جاہلیت اور غرور ِ نسب سے پاک کردیا ہے۔

٭باہمی فضیلت:

 مفہوم: لوگو!اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

 ''اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی جنس مرد اور عورت سے پیداکیا ہے اور ہم نے تمھارے گروہ اور قبیلے بنادیئے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو۔کسی کاکسی ممتاز قبیلے سے تعلق کاہونا یا اس کے مال ودولت ،صورت وشکل،وقار ا ور وجاہت کاہونا یہ سب باہمی تعارف کے لئے ہے ۔اللہ تعالیٰ کے یہاں ان میں سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں۔بے شک اللہ کے نزدیک تو تم میں سب سے زیادہ عزت وفضیلت والا وہ ہے جوسب سے زیادہ محتاط زندگی گزارنے والا اور متقی ہے۔بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا اور باخبر ہے''۔(الحجرات ۔١٣)

٭رنگ و نسل ونسب:

آپﷺ نے فرمایا :

 کسی عربی کوعجمی (غیر عرب)پر اور عجمی کو عربی پر کوئی برتری اور فضیلت نہیں ہے۔اور نہ ہی کسی کالے کوگورے پر اورنہ ہی کسی گورے کوکالے پرکوئی فضیلت نہیں، فضیلت اور برتری ہے توصرف پرہیز گاری(اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری)کی بناء پرہے۔

 تمھارا رب ایک ہی ہے اور تم سب کانسب ایک ہی ہے۔ سب لوگ آدم وحوا کی اولاد ہیں۔ اور آدم علیہ السلام کا خمیر (عنصر)مٹی سے ہے۔

٭ ابلیسی چالیں:

 اے لوگو!حقیقت یہ ہے کہ ابلیس اس بات سے قطعی طور پر مایوس ہوچکا ہے کہ کبھی اس کی اس سرزمین میں پرستش کی جائے لیکن وہ اس بات پر کوشاں رہے گا کہ اس کے سوادوسرے ان اعمال میں اس کی اطاعت کی جائے جس کوتم گناہ کے اعتبار سے معمولی خیال کرتے ہو،اپنے دین کے معاملے میں اس سے چوکنا رہنا۔

٭ عورتوں کے حقوق

 ٭اے لوگو!تمھاری بیویوں کا تمھارے ذمہ حق ہے اور تمھارا ان پر حق ہے،تمھارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمھارا بسترتمھارے علاوہ کسی اور کے لیے استعمال نہ ہونے دے(حرام کام سے بازرہیں)اور کسی ایسے شخص کوگھر میں ہرگز داخل نہ ہونے دیں،جس کو تم ناپسندکرتے ہو ۔

جب تک کہ تمھاری اجازت نہ ہو،اور وہ کھلی بے حیائی کی بات نہ کریں اور کسی نیک کام میں نافرمانی نہ کریں،اگر تمھیں ان کی طرف سے سرکشی کا خوف ہو تو اللہ رب العز ت کی طرف سے تمھیں اجازت ہے کہ ان کو نصیحت کرو اور ان کی خواب گاہوں سے علیحدگی اختیار کرلو۔اس پر بھی وہ باز نہ آئےں تو انھیں ہلکی سی تنبیہ کرو جو شدید نہ ہو ،پھر اگر وہ سنبھل جائےں اور باز آجائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق تمام معروف حقوق کی حقدار ہیں۔

 بلاشبہ عورتیں تمھارے عقد میں ہیں۔اور بلا شبہ تم نے ان سے اللہ تعالیٰ کے عہد و پیمان کے ساتھ عقدکیا ہے۔اور ان کو ایجاب وقبول کے ساتھ حلال کیا ہے۔اس لئے ان کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پیش نظررکھو اور ان کے ساتھ بھلا ئی کرنے کی میری وصیت قبول کرو،اور ان کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرو۔کیونکہ تم نے ان کو اللہ کے عہدوپیمان کے ساتھ رشتہ ازدواج سے منسلک کیا ہے۔

٭ ماتحتوں سے حسن سلوک کی ہدایت:

 ٭آپﷺ نے بار بار تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اپنے غلاموں اور ماتحتوں سے اچھا سلوک کرو،ان کو وہی کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اوروہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو،اگر ان سے کوئی ایس لغزش ہوجائے جسے تم معاف کرنا نہیں چاہتے تو اے اللہ کے بندو !انھیں آزاد کردو اور اپنے سے علیحدہ کردو ان کو تکلیف نہ دو اور تشددنہ کرو،

سنوکیا میں نے اللہ کاپیغام پہنچادیا؟

صحابہ کرامؓ :بے شک ،بے شک آپ ﷺ نے پیغام پہنچادیا،

آپﷺ نے فرمایا اے اللہ گواہ رہنا۔

٭ میراث ووصیت:

 ٭ اے اولاد آدم( علیہ السلام)!اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کاحق مقرر کردیا ہے،اور اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کے لئے میراث کاحصہ بھی مقرر کردیا ہے ۔اب کسی وارث کے لئے وصیت نہیں یعنی اب کوئی شخص اپنے وارث کے لئے میراث کے معاملے میں کوئی وصیت نہ کرے،ہروارث کو ان کے مقررہ شرعی حصے کے مطابق حصہ ملے گا۔اور کسی شخص کا کسی غیر وارث کے حق میں اپنے ایک تہائی مال کی مقدار سے زائد کی وصیت جائز نہیں۔

٭ جرم اور مجرم:

 ٭ غور سے سنو!کوئی مجرم جرم نہیں کرتا مگر وہ اپنی ذات پر ظلم کرتاہے،خبردار!کسی مجرم کے جرم کی ذمہ داری نہ اس کے بیٹے پر اور نہ کسی بیٹے کے جرم کی ذمہ داری اس کے باپ پر ،ہر ایک اپنے جرم کاذمہ دار ہے۔

٭ مسلمان ،مؤمن ، مہاجر اور مجاھد:

 ٭آپﷺ نے فرمایامیں تم کو آگاہ کرتاہوں،مسلمان کون ہے؟

 مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔

 میں تم کو آگاہ کرتاہوں کہ مومن کون ہے؟

 مومن وہ ہے جس سے لوگوںکی جان ومال اور عزت محفوظ رہے،اورمیں تم کوبتاتاہوں کہ مہاجرکون ہے؟

 حقیقی مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی اشیاء کو چھوڑدے ،اور مجاہد وہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی راہ میں اپنے نفس سے جہاد کیا۔

ہرمتنفس کے جان ومال اورعزت کی حرمت:

 ٭آپﷺ نے فرمایاہرمتنفس کی جان ومال اور عزت وآبروہر مومن پر حرام ہے جیسے اِس دن ،ماہ اورمقام کی حرمت ہے۔

قسموں میں احتیاط

 آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ کے ذمے ڈال کرقسمیں نہ کھاؤکہ وہ فلاں کام ضرور کرے گا۔

٭ طلب شہادت:

 ٭آ پﷺ نے فرمایا:اور حق تعالیٰ کے حضور مجھ سے بھی باز پرس ہوگی اور تم سے بھی،اور تم سے میرے پیغام پہنچانے کے بارے میں سوال کیا جائیگا ،بتاؤ کیا جواب دوگے؟

صحابہ کرام ؓنے عرض کیا :ہم گواہی دینگے کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کاپیغام اور اس کی ہدایت ،ہم تک پہنچادیں،اور رسالت کا حق اداکردیا اور نصیحت وخیر خواہی کی تکمیل فرمادی،اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو جزائے خیرعطاکرے۔

 آپ ﷺ نے دریافت فرمایاـ:کیا تم اس بات کے گواہ نہیںہو؟

 کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں،اور یہ کہ محمد ؐ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔اور یہ کہ جنت ،جہنم اور موت برحق ہے اور یہ کہ قیامت آئے گی جس میں کوئی شبہ نہیں،اور یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کریگا،تمام حاضرین نے جواب دیا کہ ہاں ہم ان باتوں کے گواہ ہیں،اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے اور لوگوںکے مجمعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ ارشاد فرمایا:اے اللہ تو گواہ رہنا،اے اللہ تو گواہ رہنا۔اے اللہ توگواہ رہنا۔

٭ حوض کوثر:

٭آپﷺ نے ارشاد فرمایا :اے لوگو!میں حوض کوثر پر تم سے پہلے پہنچوں گا اور تم بھی اس حوض پر پہنچوگے،وہ ایسا حوض ہے کہ اس کی وسعت بہت وسیع ہے اس پرستاروں کی مقدار میں چاندی کے جام ہیں،اور جس وقت تم حوض کوثر پر آؤ گے تومیں ثقلین (اللہ کی کتاب اور اپنے اسوہ حسنہ )کے متعلق تم سے سوال کروں گا ، پس تم اچھی طرح سوچ لوکہ تم ان دونوں میں کیسی جانفشانی کروگے،ثقل اکبر (کتاب اللہ )ہے۔

 اور اس کا ایک کنارہ اللہ کی طرف ہے اور ایک کنارہ تمھارے ہاتھ میںہے۔پس اس کو مضبوطی سے تھامے رکھو،نہ راہ راست سے ہٹو اور نہ اس کوتبدیل کرو،اور میرے اہل بیت مجھ سے کبھی جدانہ ہونگے،رب لطیف وخبیر نے مجھے آگاہ فرمادیاہے یہاں تک کہ وہ حوضِ کوثر پروارد ہونگے۔

٭ صدقہ وزکوٰۃ:

 آپ ﷺ نے فرمایا:بلاشبہ صدقہ وزکوٰہ نہ میرے لئے حلال ہے اور نہ میرے اہل بیت کے لئے،آپ ؐ نے اپنی اونٹنی کی گردن سے ایک بال پکڑا اور فرمایا قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ اس بال کے برابر ہم وزن زکوٰۃ بھی ان کے لئے جائز نہیں۔

٭ دین میں غلو ،مبا لغہ(افراط وتفریط)

 آپ ﷺ نے تاکیدکی اورفرمایا:خیال رکھنا دین،(اللہ کے احکام اور میری سنت)میں غلو ،افراط وتفریط،کمی زیادتی نہ کرنا،تم سے پہلی قومیں انہی باتوں سے تباہ ہوئیں۔

 

٭ تین نصیحتیں:

 آپ ﷺ نے تمام حاضرین کومخاطب کرکے فرمایا:

 تین باتیں فوز وفلاح کے لئے ضروری ہیں۔ایک اعمال میں اخلاص ،دوسرے ہرمتنفس کی خیروخواہی،تیسری بات باہمی اتحاد واتفاق۔

٭ حرمت والے مہینے:

 ٭اے لوگو!امن کے مہینے کو آگے پیچھے کردینا ،فسق وفجورمیں اضافہ کاسبب ہے اور اس سے گمراہی میں مبتلا ہوناہے۔اس طرح کہ ایک سال تو کسی خاص مہینے کوحلال سمجھ لینا اور دوسرے سال اس کو حرام ، اللہ تعالیٰ نے جو مہینے حرام کئے ہیں اس کی گنتی پوری کرلو۔

 ٭آج زمانہ اسی ہیئت پر آگیا ہے جس ہیئت پر اسے اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کی تخلیق کے دن بنایا تھا،اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے جن کا ذکر کتاب اللہ میں ہے۔آسمان وزمین کی پیدائش کے وقت سے ان میں سے چار مہینے محترم ہیں ،تین یکے بعد دیگرے ذی قعدہ ،ذی الحجہ اور محرم ہیں،اور ایک الگ رجب(عمرہ)کامہینہ یہی دین قیم ہے،پس آپس میں ایک دوسرے پر ظلم مت کرو،سنوکیا میں نے اللہ کاپیغام پہنچادیا؟

صحابہ کرامؓ :بے شک ،بے شک آپ ﷺ نے پیغام پہنچادیا،

آپﷺ نے فرمایا اے اللہ گواہ رہنا۔

٭ دجال اور فتنہ دجال

 پھر آپ نے مسیح دجال کا تفصیل سے ذکر فرمایا ،اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا!کہ اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا،اس نے اپنی امت کودجال کے فتنوں سے آگاہ کیا،چنانچہ نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے آگاہ کیا،اسی طرح ان کے بعد آنے والے تمام انبیا علیہ السلام نے اپنی امت کو اس کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا،بلا شبہ وہ تمھارے درمیان ظاہر ہوگا ،پس تم پر اس کی کوئی حالت اور صفت پوشیدہ نہ رہے بالخصوص یہ بات کہ وہ دائیں آنکھ سے کاناہوگا۔(گویا کے وہ اپنے ہی مفاد کو پیش نظر رکھے گا)گویا کہ وہ آنکھ گردش کرنے والے انگور کے دانہ کی طرح ہوگی۔

خبردار!تم پر اسکی کوئی حالت مخفی نہ رہے،

 اس کے بعد دو مرتبہ برابر تاکید کی کہ یہ بات تم پر پوشیدہ نہ رہے کہ وہ ایک عالمی دجل و فریب ،مکروفریب کافتنہ ہوگا۔

٭ بچہ کا نسب:

 ٭اچھی طرح سمجھ لو! بچہ اسی شخص کا ہے جس کے یہاں پیداہوا،یعنی اس کا نسب گھر والے ہی کی طرف ہوگا۔اگر وہ ناجائز طورپر پیدا ہواہے تو اس کاحساب اللہ کے ذمے ہے۔

٭ عہد وپیمان:

 آپ ﷺ نے آخر میں فرمایا:جو اس وقت موجود ہیں وہ میراپیغام ان تک پہنچادےں جوموجود نہیں ہیں۔ممکن ہے وہ شخص جسے بات پہنچائی جائے وہ بات سننے اور پہنچانے والے سے زیادہ محفوظ رکھنے والاہو،سنو!کیامیں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانہیں دیا؟تمام صحابہ کرام ؓ :بے شک ،بے شک،بے شک آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا۔

آپﷺ نے فرمایا:تم پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔

 

٭ نسب کو غیر کی طرف منسوب کرنا:

 ٭اچھی طرح سنو! جس نے نفرت کے باعث اپنے والد کے علاوہ کسی اور شخص کی جانب خود کو منسوب کیا یعنی اپنی نسبت کسی اور کی طرف کی یاکسی ماتحت نے اپنے مالک کے علاوہ کسی اور کو اپنا مالک ظاہر کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی طرف سے وہ رحمت سے دور ہے۔ اس کا کوئی فدیہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔

٭ میقات عمرہ وحج:

 ٭آپﷺ نے حج وعمرہ کے لئے آنے والوں کے لیے (جہاں سے احرام پہننا ضروری ہے)میقات مقرر فرمائے کہ وہ اس مقام سے احرام باندھ کرتلبیہ پڑھ کرچلیں۔

٭ اطاعت الہی کی تاکید:

 ٭سنو!اپنے رب کی عبادت واطاعت کرو،پنج وقتہ نماز اداکرو،ماہِ رمضان کے روزے رکھو،اپنے اموال کی زکوٰۃ خوش دلی کے ساتھ اداکرو،اور حج کرو اور سربراہوں کی معروف کاموں میں اطاعت کرو،اور اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہوجاؤ،اور آپ ﷺ نے اسی خطبے میں انفاق کاحکم فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اللہ کی ہدایت کے مطابق خرچ کرو اس لئے کہ شاید تم مجھ کو اس سال کے بعد نہ دیکھ سکو،میرے سامنے خرچ کروتاکہ میں تمھاراگواہ بن جاؤں۔

٭ ختم نبوت:

٭اے لوگو!میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور نہ کوئی تمھارے بعد کوئی امت وجود میں آئے گی،

 سنو!بلاشبہ میری نبوت کے سوا ہر نبی کی دعوت ختم ہوچکی ہے۔میراپیغام اپنے پروردگار کے پاس قیامت تک کے لئے محفوظ ہے اب کسی کو نبوت عطانہ ہوگی،یہ حقیقت ہے کہ انبیاء علیہم السلام قیامت کے دن کثرت تعداد پر فخر کریں گے،پس تم مجھ کو اپنی بداعمالیوں سے شرمندہ نہ کرنا،میں حوضِ کوثر پرتمھارے انتظار میں رہوںگا۔

٭ بشارت الٰہی:

 ٭آپﷺ پر اسی قیام عرفہ کے دوران یہ آیت نازل ہوئی۔

اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً

مفھوم :(بشارت الہٰی)آج میں نے تمہارے لئے تمھارادین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمھارے لئے اسلام کو بطور دین پسندکرلیا۔(المائدہ آیت :٣)

(قرآن اور اسوہ حسنہ ﷺ کو تاقیامت مشعل ِہدایت بنادیا)

 

تجزیہ:

 دور حاضر کے معروف محقق اور سیرت نگار ڈاکٹرمحمدحمیداللہ لکھتے ہیں!

''خطبہ حجۃ الوداع ''مسلمانوں کی تاریخ وتمدن میں ایک منشور انسانیت کاکام دیتا ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے!

٭ ہر شخص کے تین بنیادی حقوق یعنی جان،مال اور عزت وآبرو محفوظ اور قابل احترام ہیں۔

٭ قرض واپس کئے جائیں۔ اور امانت لوٹائی جائے۔

٭ زمانہ جاہلیت کا سود ممنوع کیاجاتاہے اور فی الوقت واجب الادا سود بھی نہیں دلائے جائیں گے،صرف اصل واپس ملے گا۔

٭ خود آنحضرتﷺ کے چچا حضرت عباس کے سود بھی کالعدم کئے جاتے ہیں۔

٭ زمانہ جاہلیت میں کئے ہوئے خون لوگ اب بھول جائیں اور ان کے بدلے اور انتقام کاخیال نہ کریں۔خود آنحضرتﷺ اپنے چچازاد بھتیجے کاخون معاف کرتے ہیں۔

٭ قتل عمد (دانستہ)میں قصاص لیا جائے گا اور شبہ عمد(نادانستہ۔لاٹھی یا پتھر سے)میں (١٠٠)اونٹ خون بہادیاجائے گا۔

٭ سال کبیسہ کی تقویم ختم کی جاتی ہے اور قمری سنہ رائج کیا جاتاہے جس میں بارہ(١٢)مہینے ہوتے ہیں۔

٭ میاں اور بیوی کے ایک دوسرے پرحقوق ہیں۔

شوہر کا حق یہ ہے کہ بیوی پاک دامن رہے اور ان لوگوں کوگھرمیں داخل نہ ہونے دے جن کو شوہر ناپسند کرتاہے۔بیوی کا حق یہ ہے کہ شوہر اسکی خوراک وپوشاک کا حق اداکرے اور یہ کہ عورتیں ایک امانت ہیں ان سے سلوک میں خدا سے ڈرو اور اچھابرتاؤ کرو۔

٭ ہرمتنفس باہم بھائی بھائی ہیں بلارضامندی کوئی کسی کا مال نہ لے اور نہ آپس میں لڑائی کرے۔

٭ میں تم میں دو اہم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان پر عمل پیرا رہوگے تم بھٹکو گے نہیں۔

وہ قرآن اور میرا اسوہ حسنہ ہے اور میں تمھیں اپنے اہل بیت سے اچھے سلوک کے متعلق بھی تاکید کرتاہوں۔

٭ سب لوگوں کارب ایک ہے اور سب انسانوں کا باپ بھی ایک ہے۔تم آدم علیہ السلام سے پیدا ہوئے ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے۔اللہ کے نزدیک تم میں سے محترم ترین وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو ورنہ کسی عربی کو کسی عجمی(غیرعرب) پر کوئی فضیلت نہیں۔

٭ وراثت کے لئے حصے اللہ نے مقرر کردریئے ہیں اور وصیت ایک تہائی مال سے زیادہ کی صحیح نہیں ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post