ڈاکٹر پروفیسر ضیا الدین چشتی
خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً
تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِم بِہَا (القرآن)
یہ ایک تلخ
حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت زکوٰۃ کی ادائیگی اور اس کے تعین کے صحیح طریقہ
کار سے لاعلمی اور غفلت کا شکار ہے جس کے باعث مستحقین کی بڑی تعداد اپنے جائز حق
سے محروم ہوجاتی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ مضمون قارئین کے لئے زکوٰۃ کے مسائل کو
سمجھنے میں اور اس کی صحیح ادائیگی میں کافی حد تک مفید ثابت ہوگا۔
زکوٰۃ کا حکم قرآن میں:
(الف) اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ
دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو ۔(البقرۃ: ٢:٤٣)
(ب) (اے حبیبﷺ) وصول کیجئے ان کے
مالوں سے صدقہ تاکہ آپ پاک کریں انہیں اس ذریعے سے۔(التوبہ٩:١٠٣)
زکوٰۃ کا حکم حدیث نبویﷺمیں:
(الف) جس کو اللہ مال دے اور وہ زکوٰۃ
نہ نکالے توقیامت میں وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کردیاجائے گا۔
(ب) جو قوم زکوٰۃ نہ دے گی اللہ تعالیٰ اس کو قحط میں مبتلافرمادیگا۔
(ج) خشکی و تری میں جو مال تلف ہوتاہے
وہ زکوٰۃ نہ دینے سے تلف ہوتاہے۔
قرآن وحدیث
کی روشنی میں زکوٰۃ کا حکم شرعی:
اسلام میں زکوٰۃ فرض ہے۔اس کا منکر
کافر اور موجب قتل ہے ہے اور نہ دینے والا فاسق اور ادائیگی میں تاخیر کرنے
والاگنہگارہے۔ہر مالدار(صاحب نصاب) بالـغ،عاقل (جومجنوں نہ ہو)مسلمان پر ایک سال
قمری پوراہونے پر زکوٰۃ واجب ہے۔
زکوٰۃ کے تعین کا طریقہ کار:
زکوٰۃ کا حساب نکالنے کے لئے ''زکوٰۃ
ورک شیٹ''سامنے رکھیں اور مندرجہ ذیل ہدایات کے مطابق پُر کرتے جائیں۔
[1] Name of Zakat Payer:
یہاں پر آپ اس شخص کا نام لکھیں جس کی
زکوٰۃ کا حساب نکالنامقصود ہے۔
[2] Due Date:
(١) سب سے اول مرحلہ میں زکوٰۃ کے
حساب کے لئے قمری سال کا ایک دن متعین کرناہے۔یہ وہ تاریخ ہے جب آپ پر پہلی بار
زکوٰۃ فرض ہوئی تھی۔اگر یہ تاریخ یاد نہ ہو تو کوئی تاریخ مثلا یکم رمضان متعین
کرلیں۔
(١) ہر سال اسی تاریخ کو جو بھی رقم ،سونا،چاندی اور مال تجارت کے آپ مالک ہوں
اس"Zakat Work Sheet" ''زکوٰۃ ورک شیٹ'' میں لکھ کر زکوٰۃ کا حساب
کرناہے۔زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ زکوٰۃ کی تاریخ پر صاحب نصاب ہو۔ اگر
درمیان سال صاحب نصاب نہ رہا تو کوئی فرق نہیں پڑیگا۔
(٢) ہر مال پر سال گذرنا ضروری نہیں ہے۔اگر تاریخ زکوٰۃ سے ایک دن ہی پہلے مثلا
ایک لاکھ روپے کے آپ مالک ہوگئے تو اس کو بھی زکوٰۃ ورک شیٹ میں شامل کرناہے۔اسی
طرح اگر ایک دن ہی پہلے ایک لاکھ روپے آپ کی ملکیت سے نکل گئے تو وہ زکوٰۃ ورک شیٹ
میں نہیں آئینگے۔
[3] Cash in Hand:
یہ وہ تمام رقوم ہیں جو آپ کے ،آپ کی بیوی کے
اور نابالغ بچوں کے پاس یا ان کے
[4] Cash in Bank :
بینک اکاؤنٹ میں ہیں ۔اگر مختلف Currencies
میں ہیں تو سب کو ایک ہی کرنسی کے متبادل کرلیاجائے۔
[5] Refundable deposits:
(١) ان میں وہ تمام رقوم شامل ہیں جو
آپ نے دوسروں کے پاس بطورضمانت جمع کرائی ہیں۔مثلا مالک مکان،بجلی
،ٹیلیفون،گیس،پانی کے اداروں کے پاس جمع کی ہوئی رقوم۔
(٢) Expected Loss Refund, Advance Tax, Advance Rent, بھی اس میں شامل ہے۔
[6] Bonds, Stocks Shares :
اس میں ان کی حالیہ بازاری قیمت لکھی جائیگی یا
اگر Dividendکی نیت سے خریدا ہے تو وہ تناسب جو کمپنی کے مال تجارت کا اس
کے کل اثاثے سے ہے۔
[7] Life Insurance Policies:
اگرچہ یہ ناجائز ہے ،لیکن اس کی surrender value
لکھی جائیگی۔
[8] Provident Fund:
اگر یہ لازمی (Compulsory)
ہے تو کچھ نہیں لکھا جائیگا ،البتہ اگر اختیاری ہے (Voluntary)
ہے تو وہ رقم جس کی آپ تاریخ زکوٰۃ کے دن مالک ہیں لکھی جائیگی۔
[9] Gold and Silver
:
(١) سونا ،چاندی جو زیورات یا برتن یا
اور کسی شکل میں ہیں خواہ کچھ ہی وزن ہو ان کی بازاری قیمت لکھی جائیگی۔
(٢) سونا اگر ساڑھے سات تولہ سے کم اور چاندی ساڑھے باون تولہ سے کم ہو تب بھی ان
کو اس حساب میں شامل کیا جائیگا۔
(٣) ہیرے ،جواہرات، موتی،قیمتی پتھر
شیشے اور زیورات کی بنوائی اور اس کا ٹانکہ اس میں شامل نہیں۔
(٤) یہ بات غلط مشہورہے کہ جو زیورات
استعمال میں رہتے ہیں ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
[10] Receivables:
(١) اس میں وہ تمام ذاتی و تجارتی
قرضے "Advances"اور
"Bills"
شامل ہیں جو آپ نے دوسروں کو دیئے ہیں اور اس کی واپسی کی امید رکھتے ہیں۔
(٢) موروث فوت ہوچکا ہو تو زکوٰۃ کے
لائق مال جو وراثت میں ملنا ہے وہ اس میں شامل ہے۔
(٣) مہر،بدل خلع،دیت ،اس میں شامل
نہیں۔
(٤) اگرکسی قرض یاBill
کے ملنے کی امید کم ہے تو چاہیں تو اس کو نہ شامل کریں لیکن جب ملے گا تو تمام
گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ اداکرنی ہوگی۔
(٥) مدیون(مقروض)نے انکار کردیا اور
آپ کے پاس گواہ نہیں ۔ایساقرض جب ملے تو گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں لیکن اگر
آپ کے پاس گواہ ہیں تو ملنے پر گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ دینی ہوگی۔
(٦) گم شدہ یا بھولا ہوا مال کئی
سالوں کے بعد ملا توگذشتہ سالوں کی زکوٰۃ نہیں۔
[11] Trading Goods:
(١) یہ مال تجارت کی قیمت فروخت
ہےں۔اس میں وہ تمام اشیاء شامل ہیں جو فروخت کے لئے خریدی گئی ہوں۔مثلا دوکان کی
قابل فروخت اشیاء ،فیکٹری کا خام مال،تیار شدہ ونیم تیار شدہ مال،گاڑی ،مکان،پلاٹ
یا جائیداد اگر فروخت کی نیت سے خریدی تو اس میں شامل ہیں۔
(٢) دوکان وفیکٹری ودفاتر کی عمارت
،فرنیچر (Office Equipment) مال تیار کرنے کی مشینیں و اوزار تجارت کے
فروغ کے لئے وہ تمام چیزیں جن کو فروخت کی نیت سے نہیں رکھا گیاشامل نہیں ۔
(٣) مال تجارت کے لئے نیت کاخریدنے کے
وقت ہوناضروری ہے۔بعد خرید نیت کی تو مال تجارت نہ ہوا۔
(٤) کوئی چیزرکھنے کے لئے خریدی
بعدمیں نیت کی اگر نفع ملے گا توبیچ ڈالوں گا تومال تجارت نہ ہوا۔
(٥) فروخت کی نیت سے کوئی چیز خریدی
بعد میں استعمال کی نیت کی تواب دوبارہ مال تجارت نہیں بن سکتا۔
(٦) جو مال تجارت وراثت میں ملے جب تک
وارث نیت تجارت نہ کرے اس پر زکوٰۃ نہیں۔
(٧) غصب شدہ مال پر زکوٰۃ نہیں بلکہ
کل مال واپس کرے۔
(٨) مرہون(رہن پررکھاہوامال)پر زکوٰۃ
نہ مرتہن پر ہے نہ راہن پر۔
(٩) اگر کوئی سونے ، چاندی یا کرنسی
کی تجارت کررہا تو نیت ضروری نہیں ہر حال میں اس پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔
(١٠) سائکلیں،موٹرکاریں یا مکانات
وغیرہ کرائے پر چلاتاہے توان پر زکوٰۃ نہیں کیونکہ ان کو فروخت نہیں کرتا ہے۔
[A]: Total یہ مندرجہ بالا [3] تا[11]
کا مجموعہ ہے۔
[B]: Payables
اس میں وہ تمام ذاتی وتجارتی قرضے Deposits,
Advance, Bills
شامل ہیں جو آپ نے دوسروں سے لئے ہیں اور آپ کو ادائیگی کرنی ہے۔
(٢) تجارتی قرضے جو مثلا WB, IMF, HBFC, IDBP, PICIC وغیرہ سے لئے جاتے ہیں اس میں شامل وہ صرف
وہ حصہ ہوگا جس سے مال تجارت خریدا گیا ہے۔
(٣) Earnent
Money یا Performance Bond یا اور کسی فعل کے لئے آپ نے شخصی ضمانت یا
بینک سے Bank Guarantee
کی شکل میں ضمانت کسی کو دی ہے وہ اس میں شامل ہیں۔
(٤) اس میں دَین مہر و نفقہ شامل نہیں۔
[C]:
Net Zakatable Worth
یہ وہ رقم ہے جس سے یہ طے ہوگا
کہ آپ صاحب نصاب ہیں یا نہیں اور آپ پر زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں۔اگر یہ رقم ساڑے
باون تولہ چاندی کی حالیہ قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو توآپ پر اس مال پر
زکوٰۃ واجب ہے ورنہ نہیں۔
(٢) ساڑھے سات تولہ سونا کا نصاب اس وقت ہوگاجب سوناکے علاوہ آپ کے پاس اور کوئی
مال ،چاندی،کیش یا مال تجارت میں سے نہ ہو۔
(٣) آپ نے غور کیا ہوگا کہ دنیا کا تمام
اسباب مکان گاڑی ،گھریلو سازوسامان T.V.
Deck,وغیرہ چاہے جتنی
تعداد،مقدار یا قیمت کی ہوں اگرچہ بطور اصراف ہو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے بشرط یہ کہ
وہ مال تجارت نہ ہوں۔
[D]: Market
Value of 52.5 Tola Silver
ساڑھے باون تولہ چاندی کی بازاری قیمت
یہاں لکھیں
یہ نصاب زکوٰۃ ہے۔
E]]: Zakat
Amount: [c]میں لکھی ہوئی رقم پر ڈھائی (2.5) فیصد زکوٰۃ ہے یعنی [(c) 2.5%]
کی رقم ہے۔جسے مستحقین زکوٰۃ کواداکرناہے۔
مستحق زکوٰۃ:
جو مسلمان نصاب زکوٰۃ و نصاب
صدقہ کا مالک نہ ہو وہ زکوٰۃ لے سکتاہے۔
(١) اسلام میں نصاب
دو قسم کے ہیں:
(١)
نصاب زکوٰۃ:
یہ وہ نصاب ہے جس سے زکوٰۃ
واجب ہوتی ہے اور جس کا ذکر اوپر[C] میں کیاجاچکا ہے۔ اس میں کیش ،سونا،چاندی
اور مال تجارت کے علاوہ کسی اور ملکیت کو نہیں جوڑا جاتااگرچہ حاجت سے زیادہ اور
بطور عیش و عشرت کے ہو۔
(٢) نصاب صدقہ فطر:
یہ وہ نصاب ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتاہے۔مال نصاب کی مقدار حاجت
اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر مال واسباب کا مالک ہونا
ہے۔حاجت اصلیہ کیاہیں اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
حاجت اصلیہ:
ایک عدد قرآن شریف ،جس کو دیکھ
کر پڑھنے کا اہل ہو ،ایک سردی کا مکان اور ایک گرمی کا مکان،دوبستر ایک سردی کے
لئے ایک گرمی کے لئے،غازی کے لئے دو گھوڑے اور زمیندار کے لئے ایک گھوڑا ،غازی کے
لئے ہر قسم کا اسلحہ ، تین جوڑے کپڑے،اہل علم کے لئے کتابیں،یعنی کتب فقہ ، تفسیر،حدیث
صرف ایک ایک نسخہ،طبیب کے لئے طب کی کتب ،اصول الفقہ ،علم الکلام واخلاق کی کتب
جیسے احیاء العلوم وکیمائے سعادت۔ (نحو وصرف ونجوم و دیوان و قصے کہانی کی کتب اس
میں شامل نہیں)۔خادم خانہ داری کے سامان جو استعمال ہوتے ہیں،اگر کوئی دین یا قرض
لئے ہوئے ہوں تو وہ مبراکیاجائیگا۔عورت اپنے مہر سے صاحب نصاب نہ ہوگی اگرچہ معجل
ہو۔
(٢) یہ خیال کہ جس پر زکوٰۃ واجب نہیں وہ
زکوٰۃ لے سکتاہے غلط ہے۔زکوٰۃ لینے کے لئے صدقہ فطر کے نصاب کا مالک نہ ہونا ضروری
ہے۔
(٣) اپنے اصل اور اولاد یعنی باپ ،ماں
،دادا،دادی،نانا،نانی،لڑکا،لڑکی، پوتا،پوتی،نواسہ نواسی کو زکوٰۃ نہیں دے
سکتے۔شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی۔ غیرمسلم کو نہیں دے سکتے۔
(٤) بنی ہاشم یعنی حضرات
علی،جعفر،عقیل،عباس،وحارث رضی اللہ عنھم کی اولاد کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔
(٥) غنی کے نابالغ بچے کو زکوٰۃ نہیں دے
سکتے۔غنی ماں کے یتیم بچے کو دے سکتے ہیں۔
(٦) غنی کی بیوی ،بالغ اولاد اور والدین اگر
فقیر ہوں تو انھیں بھی زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔
(٧) زکوٰۃ دینے میں ترتیب فوقیت یہ
ہے:بھائی،بہن،ان کی اولاد،چچا، پھوپھیاں، ان کی اولاد،ماموں،خالہ اور ان کی
اولاد،ذوی الارحام ،پڑوسی ،ہم پیشہ، ہم شہری۔
(٨) زکوٰۃ دینے کے لئے دوسرے کو وکیل بناسکتے
ہیں۔
(٩) وکیل نے زکوٰۃ کا پیسہ خرچ کرڈالا بعد
میں اپناپیسہ زکوٰۃ میں دے دیا زکوٰۃ نہ ہوئی ۔موکل کو تاوان دے۔
(١٠) زکوٰۃ دیتے وقت نیت زکوٰۃ ضروری ہے۔بتانا ضروری نہیںکہ یہ زکوٰۃ ہے۔ یا زکوٰۃ
کے لئے مال علیحدہ کرتے وقت نیت کرلے یا جب تک مستحق خرچ نہ کرے یا جب تک وکیل نہ
دے نیت کرسکتاہے۔وکیل کے لئے نیت ضروری نہیں۔
(١١) زکوٰۃ دیتے وقت فقیر کو مالک بنانا
ضروری ہے۔رہنے کے لئے مکان دے دینا یا کھانا کھلادینا کافی نہیں۔مکان کو دے دے اور
کھانا کو کہے کھائے یا لے جائے۔مستحق قبضہ کرنے اور دھوکا نہ کھانے کا اہل ہو۔
(١٢) مردہ کی تجہیز وتکفین ،مسجد ومدرسہ،پل،سڑک،سقایہ وغیرہ سے زکوٰۃ ادانہ ہوگی۔
(١٣) زکوٰۃ کی
رقم اگر گم ہوجائے تو دوبارہ دے۔اصل مال ضائع ہوجائے یا اس کوخیرات کردیا توزکوٰۃ
ساقط ہوگی۔
(١٤) اگر شک ہے کہ زکوٰۃ دیایا نہیں
تودے۔
Zakat Calculation Form the value of Assets on which ZAKAT is
payable should be calculated using the following system
Post a Comment