اہمیت:
دعا
اللہ تعالیٰ سے رازونیازکاعمل ہے ۔یہ عرض حاجت ہے۔جس میں انسان اپنے رب سے خیراوربھلائی
طلب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندہ کے مانگنے
پرنہ صرف خوش ہوتا ہے بلکہ وہ بندے
کو حکم دیتا ہے کہ اس سے دعا مانگے۔
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (سورة غافر: 60)"اورتمہارے
رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا"۔ایک اورمقام پر اللہ رب العزت
کا فرمان ہے: ادْعُوا
رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً (الاعراف: 55) اپنے رب سے دعا
کرو گڑگڑاکے اورآہستہ۔
ہرعاقل، ذی
شعوراور معرفت رکھنے والے کے لئے لازمی ہے
کہ اپنی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر اللہ رب العزت سے دعائیں مانگے۔ کتب سابقہ
میں بھی اس کا حکم دیاگیاتھا جیسا کہ صحف ابراہیم علیہ
السلام میں ہے :علی العاقل مالم یکون مغلوبا علی عقلہ ان یکون لہ ساعۃ یناجی فیہاربہ۔"عقل مند کے لئے لازم ہے کہ دن کی ایک گھڑی
رب سے مناجات (سرگوشی) کرے"۔اللہ رب
العزت نےاپنی ذات سے مانگنے والے کے لئے قرآن مجید میں یہ اعلان فرمایاہے کہ وہ سائل سے قریب ہے اوراس کی
دعائیں قبول کرتاہے:وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ
أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي)البقرۃ:186)۔اے میرے محبوب جب میرے بندے تم سے میرا پوچھیں تومیں نزدیک
ہوں اورپکارنے والے کی دعا قبول کرتاہوں جب وہ مجھے پکارے۔
دعا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ
دعا تقدیر کوٹال دیتی ہے۔لایرد القضاء الاالدعاء (مشکوٰۃ)۔یا ایک روایت میں ہے:ان الدعا
والبلاء بین السماء والارض یقتتلان ،ویدفع الدعاء البلاء۔ بے شک دعا اوربلاء( مصیبت) زمین و آسمان کے درمیان جھگڑتی رہتی ہیں
پس دعاء مصیبت کو دورکردیتی ہے۔یعنی جومصیبت نازل ہونے والی ہوتی وہ دعائیں
مانگنے کی وجہ سے انسان سے دور کردی جاتیں ہیں اوراسے خبر تک نہیں ہوتی کون سی
مصیبت کس دعا کی وجہ سے دور کردی گئی۔
حضور اکرم ﷺنے دعا کو داخلِ عبادت قراردیاہے۔الدعا مخ
العبادۃ
"دعاعبادت کامغز
ہے" ۔ بالفاظ دیگردعاکوبہترین عبادت بھی کہاجاسکتاہےیعنی کہ ایک آدمی
اپنے لئے نعمتیں(دنیوی واخروی) مانگ رہا ہے اور رب ان نعمتوں سے نوازنے کے ساتھ
ساتھ اس کے مانگنے کے عمل کو بہترین عبادت
قراردے کر سائل کو ثواب بھی عطاکررہاہے۔ کیاکہیں اور ایسا ہے کہ مانگنے پر نوازنے کے ساتھ ساتھ خوشی
کااظہاراورباربارمانگنے کاحکم بھی دیاجارہاہو۔بقول مولانا رومی اللہ تعالیٰ مومن
کی پکار کو دوست اور عزیز رکھتا ہے:
نالۂ مومن ہمید اریم دوست گوتضرع کن ایں اعزاز اوست
"ہم مومن کے نالہ کو دوست رکھتے ہیں اورمومن کا تضرع
کرنا اس کے لئے اعزاز ہے"۔
الغرض دعا کی اہمیت پربہت سی قرآنی آیات ، احادیث مبارکہ آثار صحابہ اور
تاریخی واقعات وشواہد دال ہیں۔جن کا یہاں احاطہ ناممکن ہے ۔
ضرورت:
قرآن
کریم اوراحادیث مبارکہ کی شہادت کے بعد اگرچہ دعا کی ضرورت بیان کرنے کی کچھ حاجت نہ تھی لیکن انسانی فطرت
ہے کہ وہ ہرشے کوجسمانی،مادی،نفسیاتی ضرورتوں کی تکمیل کے حوالے سے دیکھتا ہے یعنی
وہ ان اشیاء کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے جن کےنفع ونقصان کا اسے ذاتی مشاہدہ
ہوجائے یاپھروہ ماحول اور اردگرد کی چیزوں
میں دیکھ لے ۔
نفسیاتی اعتبار سے بھی اگردیکھاجائے تودعاانسان کو بہت
سہارادیتی ہے۔جب
انسان اپنی تمام تر منصوبہ بندی،کوشش اورجدوجہد کے بعددعاکرکے اپنے معاملات اللہ
رب العزت کو سونپ دیتاہے تو اس عمل سے انسان، بہادر، قوی،مطمئن،پرسکون ہوجاتا
ہے۔جیسا کہ بچہ جب اپنے والد کے ہمراہ
کہیں جارہاہو تو والد کی موجودگی کی وجہ سے اس بچہ کو نہ ہی راستہ بھٹکنے کا کوئی
ڈرہوتا ہے اورنہ کوئی اورخوف خطر وہ اپنے اردگرد سے مکمل طور پر لطف اندوز
ہوتاہےکیونکہ وہ جانتاہے اس کی حفاظت اورضروریات کی تمام تر ذمہ داری اس کے والد
پر ہے۔اسی طرح دعامانگنے والا اپنے معاملات رب کے سپرد کرکے مطمئن اورپرسکون
ہوجاتاہے۔
انسان
کوانفرادی وقومی سطح پر کتنے ہی اندوہناک،ہولناک اورخوفناک حالات کا سامنا کیوں نہ ہو ۔خواہ وہ
جسمانی بیماری ، معاشرتی تنہائی ،خوف و غصہ، ذہنی ابتری و بے سکونی کا شکارہو یااسے
آمدنی کے ذرائع مسدود ہوجانے اور بے گھر ہوجانے کا خوف لاحق
ہو۔یااس قسم کے دیگر مسائل کا شکار ہو جن کا حل اس کی قوت و بساط سے مکمل باہر ہو
اور اس کے سامنے تمام راستے بھی مسدود ہوں،کوئی دروازہ بھی ایسانہ ہو جہاں شنوائی
اوردرد کے درماں کاامکان ہو۔ اس وقت انسان
تمام ظاہری اسباب ووسائل سے مایوس ہوکر انتہائی مایوسی کے عالم میں بھٹک رہاہوتا
ہے۔ اس کی ذہنی کیفیت انتہائی پسماندہ اورابترہوجاتی ہے۔ ہرگزرتا دن اس کی ابتری
میں اضافہ کرتاجاتاہے۔اسے کہیں امید کی کوئی صورت نظرنہیں آتی ۔بقول شاعر
کوئی
امید بر نہیں آتی کوئی
صورت نظر نہیں آتی
وہ
مایوسی ،یاسیت،اضمحلال اورافسردگی کا شکار ہوتاجاتا ہے۔ اس کے اندر کوئی ارتعاش
،جنبش ،شورش اورتحریک باقی نہیں رہتی۔ اس
پر مستزاد یہ کہ ناامید ہونے کے بعد اس کے
دل میں مزید کوئی نئی امید اور آس بھی
پیدا نہیں ہوتی۔ بقول اکبرالہ آبادی
دل
مایوس میں کچھ شورشیں برپانہیں ہوتیں
امیدیں
اس قدر ٹوٹیں کہ اب پیدانہیں ہوتیں
اُس
وقت دنیا اپنی تمام تررنگینی ،دلکشی،رعنائی،دلربائی ، فراوانی ،فراخی اور وسعت کے باوجود اس شخص پر تنگ ہوجاتی ہے اوروہ قرآن کریم کی اس آیت کا
مصداق بن جاتاہے۔ وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ
(التوبۃ:25)"اورزمین تم پر اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ ہوگئی"۔
اوروہ شخص زمین کی سطح پر ہونے کے بجائے اس کے بطن میں ہونے کی خواہش کرتا ہے ۔ یہ
وہ لمحات ہیں جب انسان خودکشی اورحرام موت جیسے راستے بھی استعمال کرنے سے دریغ
نہیں کرتا اور یہ کہنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ ان زندگی کی دشواریوں سے مرجانا ہی بہتر ہے
۔بقول اکبرالہ آبادی
گزرکی
جب نہ ہو صورت گزرجانا ہی بہترہے
ہوئی
جب زندگی دشوار مرجانا ہی بہتر ہے
اس قسم کی سوچ نہ
اسلام کی تعلیم ہے ،نہ اسلام اس
کی قطعاًاجازت دیتاہے اور نہ ہی یہ مومن کے شایان شان ہے کہ وہ اس نہج پر سوچے
اورغوروفکر کرےکیونکہ دنیا وی مصائب پر
توانسان مرنے کی آرزو کرسکتا ہے لیکن اگر آخرت میں بھی اسے چین نہ ملاتو کیاکہاں
جائے گا۔بقول ابراہیم ذوق
اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی چین نہ پایا توکدھرجائیں گے
اس سلسلے میں
حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ تم میں سے کوئی بھی کسی رنج ،مصیبت ،غم ،تکلیف ،نقصان
پہنچنے کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے ۔اگراس نے موت کی تمنا کا ارادہ کرہی لیا ہے
تو یوں کہے اے اللہ اگرمیرے لئے زندگی
بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ اور اگر موت میں میر ی بھلائی ہے تو مجھے وفات دے دے۔لَا
يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمْ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَهُ فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ
فَاعِلًا فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتْ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي
وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتْ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي(بخاری)۔"تم میں
سے کوئی بھی اس نقصان کے سبب جو اس کو پہنچا ہو موت کی تمنا نہ کرے ۔اگروہ لازماًایسا ارادہ رکھتاہے تو یوں کہے اے اللہ
اگر زندگی میرے لئے بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ اور اگر میر ی بھلائی موت میں ہے تو
مجھے وفات دیدے"۔
آج انفرادی اورقومی سطح پر جوہماری پریشانیاں
ہیں ان کا سبب ہماری اپنی بداعمالیاں ہیں۔
ان بداعمالیوں میں سے کچھ توہمیں یاد ہیں
لیکن ان گنت ایسی بھی بداعمالیاں ہیں جن کا ہمیں احساس تک نہیں ہے ۔بعض اوقات
انسان انتہائی بے بسی اورحسرت سے کچھ سرزد ہوئے گناہوں کے متعلق سوچتا ہےکہ کاش
اگر یہ گناہ نہ سرزد ہوتے تو آج اتنی
پریشانی ،ندامت،رسوائی، ہزیمت کا سامنا نہ کرناپڑتا۔بقول شاعر
شانوں پہ گناہوں
کا بار ،دامن نیکیوں سے خالی
ندامت ہے ،ندامت
ہے، ندامت ہی ندامت ہے
حالانکہ ابھی
زندگی کی سانسیں باقی ہیں اورتوبہ کے دروازے بھی کھلے ہوئےہیں۔ لیکن تصور کریں اگر قیامت برپاہوچکی
ہوتی اوریہ روز حشر ہوتا، میزان سجنے کے بعداعمال تولے جانے والے ہوتے اوراس
وقت کسی کوبائیں ہاتھ میں نامہ اعمال
تھمادیاجائے ،توان مجرمین کی کیاحالت
ہوگی۔اس بات کا مکمل نہ سہی لیکن کچھ اندازہ ضرور
لگایاجاسکتاہے۔
اس
دنیا میں تومعمولی سی ناگواربات یا کسی کی طرف سے تنقید اگرچہ صحیح ہی کیوں نہ ہو
ہوبرداشت نہیں کی جاتی جب تک وہ شخص اس
تنقید کرنے والے کے منہ پر جوتا نہ مارلے
اوراینٹ کا جواب پتھرسے نہ دے لے۔لیکن بروز حشر وہاں کیا حالت ہوگی جب سب
کے سامنے کسی شخص کو مجرم ٹھہرایاجارہا ہو (العیاذ باللہ)۔
ان
تمام صورتوں اورپریشانیوں سے نکلنے کے لئے بہترین ہتھیار جو ہمارا دفاع کرے گاوہ دعا کے علاوہ اورکیا
ہوسکتاہے۔یہ ایساہتھیار ہے جوکبھی پرانا ،زنگ آلود اوربے کارنہیں ہوتا،جسے خود نبی
اکرم ﷺ نے مومن کا ہتھیار قراردیاہے۔الدعاء سلاح المؤمن، وعماد
الدين ، ونور السماوات والأرض ۔"دعا مومن کا
ہتھیار ہے اوردین کا ستون ہے اورآسمان و
زمین کا نورہے"۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم)
کیونکہ
اگر وہ مجرم دنیا میں توبہ کرلے اور اپنے گناہوں کی
مغفرت طلب کرلے تو یہ طلب مغفرت بھی ایک قسم کی دعا ہی ہے۔اے اللہ ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں توہمیں اپنے نفس پر غلبہ وکامل قدرت
عطافرما اورآئندہ تمام گناہوں سے بچا۔اب
تک جوہماری بداعمالیاں ہوچکی ہیں انہیں درگزر فرما۔دنیا و آخرت میں ان کی سترپوشی
فرما کیونکہ ہم سیاہ کاروں کو اماں اے رب
ذوالجلال تیرے عفو ودرگذر سے ہی ملے گی
۔بقول شاعر مشرق
نہ
کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے
جرم ہائے سیاہ کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
اس کا
ہرگز یہ مطلب نہیں کہ صرف دعاپر تکیہ اوربھروسہ کرکے ہم عمل یا اس درد کا علاج
چھوڑدیں۔ہم ان تکلیفوں سے نجات کے لئے اپنی منصوبہ بندی، کوشش بھی ضرور کریں۔ یہ
کوشش بھی کسی نہ کسی شکل و صورت میں دعا کا ہی اثر ونتیجہ ہونگی۔ہاں اگرکوئی شخص
عملی جدوجہداورہاتھ پاؤں ہلائے بغیرفقط
دعاؤں کا سہارا لے گاتو یہ اس کی نادانی ہوگی ۔وہ شخص دراصل اسلام کے حقیقی مزاج اورروحِ
دعاسے عاری ہےاور ایسے شخص کی دعائیں بھی اثر وقبولیت سے محروم رہیں گی۔بقول والد
ماجد
ذوق عمل
نہیں ہے توتیری دعائیں کیا
پیدانہیں
دعامیں اثر کا سوال تک
اقبال
عظیم اس مفہوم کو اس خوبصور ت پیرائے میں
بیان کرتے ہیں:
دعا
بھی صرف عزائم کا ساتھ دیتی ہے
دوائے
درد بھی ڈھونڈو فقط دعا نہ کرو
آداب:
انسانی فطرت ہے کہ
کتنا ہی باریک بین ،پیچیدہ اوردشوارکام ہی کیوں نہ ہو جب انسان اس کام کو باربار
کرتا ہے تو کام کے عمل سے میکانکی (Mechanical) انداز سے
گزرجاتا ہے۔جیسا کہ گاڑی کا انجن بنانے
والا یا ڈرائیونگ کرنے والا گزرجاتاہے ۔
ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم نماز ،تلاوت ،وظیفہ اوردعاکے عمل سے بھی اسی طرح گزرجاتے
ہیں کہ ہمیں کچھ خبر نہیں ہوتی ہم کیا پڑھ اورکررہےہیں۔جس کی وجہ سے ہم ان اعمال سے پیدا ہونے والے نور ،بصیرت اورفہم
سے محروم ہیں اور ان اعمال سے پیداہونے والی اچھائیوں کے
اثرات ہماری زندگیوں پرمرتب نہیں ہورہے ہیں۔
دعا پوری توجہ
،اخلاص ،یقین اوریکسوئی سے مانگنی چاہئے ۔اللہ رب العزت بے یقینی اورلاپرواہی کے
ساتھ مانگی گئی دعا قبول نہیں فرماتا ۔حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے:اُدْعُوا
اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا
يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ۔ اللہ
سے دعا اس یقین سے کیا کرو کہ ضرور قبول ہونگی اورجان لو اللہ تعالیٰ غافل اوربے
پرواہ دل کی دعاؤں کو قبول نہیں فرماتا۔ (ترمذی)
دعامانگتے وقت
انسان یہ نہ کہے کہ اے اللہ اگر توچاہے تو قبول فرما اور اگر تونہ چاہے تو نہ قبول
فرما ۔اللہ پر کوئی جبر نہیں کرسکتا وہ اپنی رحمت سے ہی دعا قبول کرتاہے۔اس لئے اس
یقین سےدعا مانگیں کہ انشاء اللہ ضرور
قبول ہوگی۔إِذَا
دَعَا أَحَدُكُمْ فَلْيَعْزِمْ فِي الدُّعَاءِ وَلَا يَقُلْ اللَّهُمَّ إِنْ
شِئْتَ فَأَعْطِنِي فَإِنَّ اللَّهَ لَا مُسْتَكْرِهَ لَهُ۔"جب تم
میں سے کوئی دعا کرے تو وہ پختگی اوریقین کے ساتھ کرے اوریہ نہ کہے کہ اے اللہ اگر
تو چاہے تو مجھے عطاکر بے شک اللہ تعالیٰ پر کوئی جبر کرنے والانہیں"۔(مسلم)
ایک حدیث مبارکہ
میں ہے کہ میں بندے کے گمان کے مطابق ہوں یعنی اگروہ یہ گمان رکھتاہے کہ رب میری
دعائیں قبول کرتا ہے تو وہ اس کی دعائیں قبول کرے گا اگر اس کا گمان اس کے برعکس
ہوگا اللہ رب العزت بندے کے گمان کے مطابق ہے۔أنا عند ظن
عبدي بي وأنا معه إذا دعاني۔"میں اپنے بندے کے
گمان کے مطابق ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتاہے اورجب وہ مجھے پکارتاہے میں اس کے
ساتھ ہوتاہوں"۔(مجمع الزوائد)
دعا مانگنے سے قبل
اللہ رب العزت کی حمدوثناء کرنی چاہئے اورحضور ﷺ پر درود شریف کا نذرانہ بھیجناچاہئے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ
ہے:إذا
صلى احدكم فليبدأ بتحميد الله تعالى ، والثناء عليه ثم ليصل على النبي صلى الله
عليه وسلم ، ثم ليدعو بعد بما شاء."جب تم میں سے کوئی
شخص دعا مانگے تو دعا کے آغاز میں اللہ کی
حمد و ثناء کرے پھر نبی اکرم ﷺپر درود بھیجے پھر وہ جووہ چاہے دعا کرے"۔ (کنزالاعمال)
ایک اورحدیث میں آتاہے:كل دعاء محجوب
حتى يصلي على محمد صلى الله عليه وسلم وآل محمد. "ہر دعا معلق رہتی
ہے یہاں تک کہ وہ (سائل)حضرت محمد ﷺ
اور ان کی آل پر درود نہیں بھیجتا"۔(الطبراني)
دعا مانگنے کے لئے
ہاتھ بھی اٹھائے جائیں جیسا کہ حضور ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔أَنَّ
النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَعَا فَرَفَعَ
يَدَيْهِ مَسَحَ وَجْهَهُ بِيَدَيْهِ۔"حضور ﷺ جب دعا فرماتے تو اپنے ہاتھ بلند
فرماتے اورہاتھوں کو چہرہ انور پرپھیرتے"۔(ابوداود)
دعا کی
ابتداء اپنی ذات سے کرنی چاہئے پھر اس میں دوسروں کے لئے بھی بھلائی اورخیر مانگنی
چاہئے۔أُبَيِّ
بْنِ كَعْبٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا
دَعَا بَدَأَ بِنَفْسِهِ۔"حضور ﷺ جب دعا فرماتے تو اس کی ابتداء
اپنی ذات مبارکہ سے کرتے"۔(ابوداود)
جو شخص چاہتا ہے
کہ اللہ رب العزت شدت اورتکلیف میں اس کی دعائیں قبول کرے اسے چاہئے کہ وہ بحالت
فراخی کثرت سے دعائیں کیاکرے۔مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْتَجِيبَ اللَّهُ
لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْكَرْبِ فَلْيُكْثِرْ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ۔"جو شخص
چاہتا ہے کہ اللہ رب العزت شدت اورتکلیف میں اس کی دعائیں قبول کرے اسے چاہئے کہ
وہ بحالت فراخی کثرت سے دعائیں کیاکرے"۔(سنن ترمذی)
دعا مانگتے وقت یہ تصور کرنا چاہیے کہ وہ رب کریم کو دیکھ رہا ہے اوراس سے سرگوشیاں کررہاہے اگر
یہ تصورنہیں کرسکتا پس اتناضرور دل میں یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہاہے۔اس
تصور کے ساتھ اب تضرع وعاجزی اختیار کریں، اپنے ضعف و کمزوری کا اظہار کریں۔اس کے سامنے
دل کی گہرائی سے روئیں اورگڑگڑائیں۔ یہاں تک کہ آنکھوں سے انمول موتی چھلک جائیں جن
سے جہنم کی آگ بھی سرد ہوجاتی ہے۔ جس کا ایندھن
انسان اور پتھر ہیں ۔ ان انمول موتیوں کی
دنیا میں شایدکوئی قدروقیمت نہ ہو لیکن
آخرت کے لئے اجروثواب کاوہ ذخیرہ اورتوشہ ہیں جنہیں وہ میسرآگئے انہیں کسی
اورچیز کی حاجت نہ ہوگی۔ یہ آنسو سخت سے
سخت دل
کوبھی پسیج دیتے ہیں۔ پتھردلوں کو
موم میں تبدیل کردیتے ہیں اور رب کریم کی رحمت کومتوجہ کردیتے ہیں ۔ بقول مولانا
روم
ہرکجا
اشک رواں رحمت بود ہرکجاآب رواں
خضرت بود
"جس جگہ آنسو
رواں ہوتے ہیں اسی جگہ رحمت ہوتی ہے اورجس جگہ پانی رواں ہوتاہے وہیں سرسبزہ
،ہریالی اورشادابی ہوتی ہے"
پھر اسماء حسنیٰ کا ورد کرتے ہوئے ،اس کی صفات پر
کامل ایمان لاتے ہوئے غور کرے،مثلاً الخالق ،القوی،القادر، الرزاق،الشافی پر۔ اور
اپنی کمزوری وضعف(خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا:النساء :28)،
ظلم، جہالت، (
إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا: سبا:72) عجلت(خُلِقَ
الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ:الانبیاء:37) کا احساس
کرتے ہوئے دعا عجز و انکسارسے مانگے ۔ اس
کے سامنے روئے گڑگڑائے ، فریاد کرے اےرب میں تیرے غضب کامتحمل نہیں ہوسکتا تیرا عذاب تو کیا تیری رحمت کی دوری کو بھی دنیا اور آخرت میں برداشت نہیں کرسکتا مجھے معاف اور
درگزرفرما۔اپنی اخروی اوردنیوی کامیابیوں فوز وفلاح کی بالیقین دعا مانگے ۔ اپنی جائز دنیاوی حاجات طلب کرے ،
چھوٹی چھوٹی چیزیں اورحاجتیں بھی اپنے رب
سے مانگے ، اپنے اوراپنے مسلمان بھائیوں کے لئے ہدایت،عافیت،رحمت ،جنت مانگے۔ پھر
اپنی عجلت ،ناامیدی اورناشکری(إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ:الزخرف
: 15)
جیسی منفی صفات پر غلبہ پاتے ہوئے صبر سے انتظار کرے۔ رب العزت اسے دنیا اورآخرت
دونوں جہانوں میں نوازے گا اورو دل میں ایک خاص سکون کی کیفیت پیدافرمادے گا جو اس
کے لئے نعمتِ غیر مترقبہ ہوگی۔
موانع
قبولیتِ دعا:
کچھ
اعمال دعاؤں کی قبولیت میں مانع ہوتے یعنی جن کی وجہ سے اللہ رب العزت دعائیں قبول نہیں فرماتا بلکہ ان دعاؤں کی حیثیت صرف
ایک چیخ اورپکارکی مانند رہ جاتی ہے۔ان میں سب سے اول لقمہ حرام ہے کیونکہ حرام کھانے والے کی دعائیں قبول نہیں
ہوتیں۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
ثُمَّ
ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى
السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ
وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَ غُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ۔پھر آپ
ﷺ نے ایک آدمی کا ذکر کیا جس نے طویل سفرکیا،جس کے بال بکھرے ہوئے اورچہرہ گرد
آلود تھا وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتاہے اور پکارتاہے اے رب اے
رب۔درآنحالیکہ اس کا کھانا حرام،پینا حرام،لباس حرام اس کو غذا حرام سے ملی پس
کیسے اس کی دعا قبول ہوگی۔
اسی
حدیث کو میرے والد ماجدابوعلی محمدرمضان صاحب
نے ان اشعار میں بیان فرمایا ہے:
فرماگئے
ہیں بات یہ اللہ کے رسول(ﷺ)
ہوگی نہ ایسے
شخص کی کوئی
دعا قبول
جس کا ہو
خورد نوش لباس اور غذا حرام
بچتے رہیں
حرام سے لازم ہے خاص و عام
اس کے علاوہ حرام
امور یعنی گناہ کے کاموں کے لئے کی گئی دعا یا پھر قطع رحمی کے لئے کی گئی دعائیں
بھی رب کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتیں۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:مَا
مِنْ أَحَدٍ يَدْعُو بِدُعَاءٍ إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ مَا سَأَلَ أَوْ كَفَّ
عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهُ مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ۔جو آدمی
بھی اللہ سے دعا مانگتا ہے اللہ اس کی دعا قبول کرتا ہے ۔ یا جو اس نے مانگا اس کو عطا کرتا ہے یا دعا کے بمقدار اس
کے گناہ دور کردیتا ہے ۔ بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ۔(ترمذی)
انسان بعض اوقات
اپنے لئے ایسی دعا مانگتا ہے جو یاتو گناہ سے متعلق ہوتی ہے یااگرقبول ہوجائے تو
اس کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہےیا بعض اوقات
انسان جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے اہل وعیال یادیگر پرناحق لعنت کرتا ہے یاقطع تعلق کی دعا کرتا ہے۔ یہ
تمام دعائیں رب کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوتی۔بالفاظ دیگر اگر معصیت کی دعا نہ ہو
اور دل کی گہرائیوں سے صدا نکلے ،یہ صدائے دل پروں کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ فوراً
بارگاہ الہی میں پہنچ کر درجہ قبولیت پر فائز ہوجاتی ہے ۔ بقول اقبال
دل سے
جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پرنہیں
طاقت پرواز مگررکھتی ہے
دعاکی قبولیت کے
مراتب :
دعا کبھی بے کار
نہیں جاتی البتہ قبول ہونے کی صورتیں مختلف ہیں۔یعنی جو آدمی بھی اللہ سے دعا مانگتا
ہے اللہ اس کی دعا قبول کرتا ہے اور اس کی تین صورتیں ہیں۔ اول بعینہ وہی دعا قبول
ہو،دوم اس سے بہتر کوئی صورت پیدا ہوجائے یا اس سے کوئی گناہ دورکردیا جائے، یاوہ دعا
آخرت کے لئے ذخیرہ بنادی جائے۔
مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو اللَّهَ بِدُعَاءٍ إِلَّا
اسْتُجِيبَ لَهُ فَإِمَّا أَنْ يُعَجَّلَ لَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِمَّا أَنْ
يُدَّخَرَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ وَإِمَّا أَنْ يُكَفَّرَ عَنْهُ مِنْ ذُنُوبِهِ
بِقَدْرِ مَا دَعَا مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ أَوْ
يَسْتَعْجِلْ ۔جو آدمی
بھی اللہ سے دعا مانگتا ہے اللہ اس کی دعا قبول کرتا ہے ۔ پس یا تو دنیا کے اندر اس
کا اثر ظاہر کردیتا ہے۔یا آخرت کے لئے اس کا اجر محفوظ کردیتا ہے یا دعا کے بمقدار
اس کے گناہ دور کردیتا ہے ۔ بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے یاعجلت کا
مظاہرہ نہ کرے۔(ترمذی)
اورقبولیتِ دعامیں
سب سے بہترین صورت یہی ہے کہ اس کی دعاء آخرت کے لئے ذخیرہ بنادی جائےکیونکہ آخرت
میں ان دعاؤں کا جتنابدلہ دیاجائے گا اسے دیکھ کر
ہر شخص یہی خواہش کرے گا کہ کاش دنیا میں اس کی کوئی دعاقبول نہ ہوئی ہوتی اوران کا بدلہ بھی آج
دیاجاتا۔جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
قال رسول الله
صلى الله عليه وسلم فلا يدع الله دعوة دعا
بها عبده المؤمن إلا بين له إما أن يكون
عجل له في الدنيا ، وإما أن يكون ادخر له في الآخرة ، قال : فيقول المؤمن في ذلك
المقام يا ليته لم يكن عجل له في شيء من دعائه۔حضور ﷺ نے فرمایا:مومن بندہ اﷲ تعالی سے جتنی دعائیں کرتا ہے،
اﷲ تعالی ایک ایک کی وضاحت کرے گا کہ یا تو اس دعا کا بدلہ دنیا ہی میں جلدی عطا
کردیا گیا یا اسے آخرت کے لئے ذخیرہ بنادیا گیااوران دعاؤں کے بدلے آخرت میں جو کچھ مومن دیا جائے
گا، اسے دیکھ کر وہ تمنا کرے گا کہ کاش دنیا میں اس کی کوئی بھی دعا قبول نہ ہوئی
ہوتی۔ (مستدرک(
قبولیتِ دعا کے
بہترین اوقات واحوال:خمس ليال لا يرد فيهن الدعاء : ليلة
الجمعة ، وأول ليلة من رجب ، وليلة النصف من شعبان ، وليلة العيد وليلة النحر ۔"پانچ راتیں ایسی
جن راتوں میں دعا رد نہیں کی جاتی ۔ جمعہ کی رات،رجب کی پہلی رات،پندرہ شعبان کی
رات،عید الفطر کی رات اور عید قرباں کی رات"۔( شعب الایمان
للبیھقی)
پانچ راتوں کا ذکر
تواوپر حدیث میں موجود ہے ہی اس کے علاوہ ہرروز رات کے آخری پہردعاؤں کی قبولیت
کاوقت ہے۔ أَنَّ
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَنْزِلُ رَبُّنَا
تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى
ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ يَقُولُ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ
يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ۔اللہ سبحانہ
وتعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے جب تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اورکہتا
ہے :کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعاؤں کو قبول کروں،کون ہے جو مجھ سے سوال
کرے میں اس کو عطاکروں،کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اس کی مغفرت کروں۔(بخاری)
جمعہ میں ایک ایسی گھڑی بھی آتی ہے جس میں ہر دعاقبول
کی جاتی ہے۔
قال ابو
القاسم ﷺ فی جمعۃ ساعۃ لایوافقھاوھو قائم یصلی یسال خیرا الا اعطاہ''جمعہ
کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جسے اگر کوئی مسلمان اس حال میں پالے کہ وہ کھڑا نماز
پڑھ رہا ہو توجوبھلائی وہ مانگے گا اللہ عنایت فرمائے گا۔''(صحیح البخاری)
ظہر سے عصر کے درمیان دعا کی قبولیت
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ اللہ کے رسولﷺ نے تین دن مسجد فتح میں دعا کی پیر، منگل اور بدھ اور بدھ کے روز دو نمازوں ( ظہر اور عصر) کے درمیان دعا قبول ہوئی اور چہرہ مبارک پر خوشی ظاہر ہوئی.
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنه فرماتے ہیں کہ مجھے جب بھی کوئی اہم معاملہ یا مشکل درپیش ہوئی تو میں نے اس وقت کا ارادہ کرکے بدھ کے روز دو نمازوں کے درمیان اُس گھڑی دعاء کی تو میری دعا قبول ہوئی اور مجھے اس طرح قبولیت کا تجربہ ہوا(حوالہ: مسند احمد، حدیث نمبر 14563)
اس کے
علاوہ عرفہ کا دن بھی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اہم ہے۔أَفْضَلُ
الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ ۔"سب سے بہترین
دعا عرفہ کے دن کی ہے"۔(موطاامام مالک)اور روزہ افطار
کرنے کا وقت ، ثلاثۃ
لاترد دعوتھم الصائم حین یفطر،والامام العادل،ودعوۃ المظلوم۔"
تین بندوں کی دعاء رد نہیں کی جاتی ،روزہ افطارکرنے والا،امام عادل اورمظلوم"
(ابن ماجہ)،
شب قدر، فرض نمازوں کے بعد (أدبار المكتوبات،بیہقی)،اذان
و اقامت کے درمیان: إِنَّ الدُّعَاءَ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ
وَالْإِقَامَةِ فَادْعُوا۔بے شک اذان اوراقامت کے درمیان دعائیں رد
نہیں کی جاتیں پس تم دعاکیاکرو (مسند احمد)، ماں باپ کی دعا
بچے کے حق میں،مسافر کی دعا ،مظلوم کی دعا (ثَلَاثُ
دَعَوَاتٍ يُسْتَجَابُ لَهُنَّ لَا شَكَّ فِيهِنَّ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ
وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهِ۔تین
دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں مظلوم کی دعا اورمسافر کی دعا اورباپ کی دعا اپنے بچے
کے لئے (ابن ماجہ)۔
مسلمان بھائی کی غیرموجودگی میں کی گئی دعاء خیر سائل اور اس کے بھائی دونوں کے حق میں قبول ہوتی ہے۔مَنْ
دَعَا لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ آمِينَ
وَلَكَ بِمِثْلٍ "جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی
میں اس کے لئے دعاء خیر کرتاہے تواس پر مقرر فرشتہ آمین کہتا ہے اورکہتاہے کہ تیرے
لئے بھی اس کا مثل"(مسلم) ختم قرآن کے وقت أَنَّ
الدُّعَاءَ يُسْتَجَابُ عِنْدَ خَتْمِ الْقُرْآنِ ۔" بے شک
ختم قرآن کے وقت دعائیں قبول ہوتیں ہیں"(شعب الایمان للبیہقی)،دو
خطبوں کے درمیان،آب زمزم پیتے وقت، برستی ہوئی بارش میں(عند نزول
الغيث،بیہقی)،مجاہد
کی دعا جب تک وہ راہ جہاد میں ہے،کعبہ پر پڑنے والی پہلی نظر، ،ابتداء و انتہاء
میں درود شریف پڑھ کر کوئی بھی دعا مانگی جائے، اس کے علاوہ انسان کے دل میں اگر
کبھی کسی گناہ کا خیال آئے اور وہ اس خیال سے رب کے ڈر(تقویٰ) کی وجہ سے رک جائے
تو یہ بھی دعا کی قبولیت اوررب کی رحمت کے متوجہ ہونے کا وقت ہے۔ اور سب سے بڑھ کر
ویسے بھی اگر خلوص دل اور دعا کی قبولیت کے یقین کے ساتھ کبھی بھی کہیں بھی کوئی
بھی دعائے خیر مانگی جائے تویقینا ً یہ دعاقبولیت کے مرتبہ پر فائز ہو گی۔
کیوں نہ مقبول
ہودعائے خلوص
کہ اثرخود ہے
خاکپائے خلوص
خلاصہ کلام:
دعا مناجات،عبادت ،اطاعت، رازو نیاز اور بہترین ہتھیار ہے
۔یہ ایسا عمل ہے جو تقدیرکوبھی بدل سکتا ہے۔ اس لئے آئیں انتہائی خشوع وخضوع
اورخلوص سے دعا کے تمام آداب ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے رب کے حضور
دعا کے لئے ہاتھ بلند کریں ۔
اے اللہ! تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں، اے اللہ! جو تو پھیلا دے اسے کوئی سمیٹ
نہیں سکتا ، جسے تو دور کردے اسے کوئی قریب
نہیں کرسکتا ، جسے تو قریب کردے اسے کوئی دور نہیں کرسکتا ، جس سے تو قبض کرلے اسے کوئی دینے والا نہیں ہے اور جسے تو عطاکرے اس
سے کوئی چھیننے والانہیں ۔اے اللہ! ہم پر اپنی رحمتیں ،برکتیں، فضل نازل فرما اور بہترین
رزق عطا فرما ۔ اے اللہ! ہم تجھ سے کبھی
نہ ختم ہونے والی نعمتوں کا سوال کرتے ہیں جو ہمیشہ قائم رہیں اور تیری اطاعت میں حائل
نہ ہوں ۔ اے اللہ!ہم تجھ سے ہر تنگی میں آسانی اورہر جنگ کے دن امن کا سوال کرتے ہیں۔
اے اللہ! ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اس چیز کی برائی سے جو تو نے عطا کی اور اس چیز
کے شر سے جو تو نے ہم سے روک لی۔اے اللہ ہماری گمراہی کو ہدایت سے، ظلمت کو نورسے
،جہالت کو علم نافع سے، بد امنی کو امن سے،انتشار کو اتفاق سے، کمزوری کو طاقت سے
،بزدلی کو بہادری سے،حزن کو خوشی سے،سنگدلی کو نرم دلی سے،مایوسی کو امید
سے،شکستگی کو سلامتی سے ،مرض کو صحت سے،کج روی کو صراط مستقیم سے تبدیل
کردے۔اورہمیں سکون،محبت،طمانیت،قناعت، حوصلہ عطافرما جوہم سے روٹھ چکا ہے۔آمین
بجاہ سید الامین ﷺ
فسھل
یاالھی کل صعب
بحرمۃ سید الابرارسھل
Post a Comment