شاعری کوعموما عقل اور استدلال،حکمت ودانائی کے اظہار کاذریعہ نہیں سمجھاجاتابلکہ اس کے ذریعے محض دل کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی جاتی ہے ۔ اور ہر شاعر اتنا ذی علم اورفصیح اللسان نہیں ہوتا کہ اپنے علوم کو اشعار کے قالب میں ڈھال سکے۔ لیکن جب ہم علامہ اقبال کے کلام کامطالعہ کرتے ہیں۔۔۔۔

حدیث مبارکہ میں بعض بیان کو جادو کہاگیا ہے۔ ان من البیان لسحرا۔بعض بیان (تو)جادو ہیں یعنی وہ جادو کی طرح اثرانداز ہوتے ہیں ۔اس حدیث کے دو مفہوم ہیں :
ایک تو یہ کہ وہ جادو کی مانند حرام ہیں یعنی ایسا کلام جونفسانی خواہشات اورسفلی جذبات ابھارے اس کلام سے تواس شخص کے پیٹ کاپیپ سے بھرجانابہتر ہے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
لان یمتلی جوف رجل قیحا خیر لہ من ان یمتلی شعرا۔(مشکوٰۃ۔٤١٠)
کسی شخص کے پیٹ کا پیپ سے بھرا ہونا اس سے بہتر ہے کہ اشعار سے بھراہوا ہو۔
برصغیر پاک و ہند میں بعض شعرا ،شاعری میں دین،مذہب،وطن،کی تقسیم   کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ فن فن ہوتا اس میں کسی قسم کی تقسیم نہ ہونی چاہئے ۔ہر شاعر کو اپنے جذبات کے اظہار میں مکمل آزادی ملنی چاہئے۔خواہ وہ  اس کی مدد سے خدا اور رسول کے خلاف ہی ہرزہ سرائی کیوں نہ کرے۔ لیکن اس قسم کی شاعری کی قطعا اجازت نہیں دی جاسکتی ۔جیسا کہ الفاظ کے جادوگر جناب آغا شورش کاشمیری صاحب فرماتے ہیں :
وقتی طور پر میں بھی اس سحر کا شکار ہوگیا لیکن جب سحر سے باہر نکلا ،تعصب کی عینک اٹھا کر سوچا تو یہ فکر سامنے آئی شاعر کو اتنا حق اگر دے دیا گیا تو وہ قوم ،ملت،مذہب، دین اور ہر طرح کے حساس موضوع پر اپنی خامہ فرسائی کرنے لگے جو دل میں آئے وہ کہنے لگے تو اس سے معاشرہ انتشار کا شکار ہوجائے گا۔
آغا صاحب نے مندرجہ بالا سطور میں صحیح فرمایا کیونکہ  میری ناک کی حدود کے آغاز سے دوسرے شخص  کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔نیز اسی طرح چراگاہ کے قریب چرنے یا اس میں داخلے پر پابندی ہے۔اور اگر کوئ شاعر  کفر کی حدود میں داخل ہوگا اس جنون اور پاگل پن کا علاج کرنا پڑے گا۔
دوسرا یہ کہ اس کلام کی تاثیر جادوکی طرح ہوتی ہے۔محاورۃً اس سے مراد یہ ہوگا کہ غیر مرئی اورغیر محسوس طریقے سے وہ کلام دل میں جاگزیں ہوجاتا ہے۔ شاعری ایک ایساہی فن ہے جس میں الفاظ کے ذریعے تخیل پر منظرنگاری کی جاتی ہے اورشاعر الفاظ سے اپنے جذبات واحساسات کی ترجمانی کرتاہے ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شاعری انسان کو متاثر کرتی ہے ۔یہ ایک مہمیز کا کام کرتی ہے یعنی انسان کے جذبات کوابھارتی ہے۔اس میں آگ لگانے کی قوت بھی ہے اور آگ بجھانے کی بھی۔
شاعری کاذکر حدیث مبارکہ میں بھی آیاہے۔ان من الشعر حکمۃ۔(مشکوٰۃ ،ص٤٠٩)بیشک بعض اشعار میں حکمت ودانائی ہے۔حدیث مبارکہ میں اچھے کلام کو اچھائی اوربرے کلام کو برائی سے تعبیرکیاگیا ہے۔الشعر کلام حسنہ حسن وقبیحہ قبیح۔(مشکوٰۃ ،ص٤٠٩)شعرایک کلام ہے جس کا اچھا کلام عمدہ اورحسین اور براکلام برا ہے۔
شاعری کوعموما عقل اور استدلال،حکمت ودانائی کے اظہار کاذریعہ نہیں سمجھاجاتابلکہ اس کے ذریعے محض دل کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی جاتی ہے ۔ اورویسے بھی ہر شاعر اتنا ذی علم اورفصیح اللسان نہیں ہوتا کہ اپنے علوم کو اشعار کے قالب میں ڈھال سکے۔ لیکن جب ہم علامہ اقبال کے کلام کامطالعہ کرتے ہیں تووہ ہمیں اپنے کلام میں بامقصدیت کے ساتھ ساتھ علم و عمل کی نورانی شمعیں روشن کرتے ، بلند تخیلات کے جواہر دلوں کے طاق پر سجاتے اورسحرانگیز اثر طریقے سے جذبات کا رخ اچھائی کی جانب کرکے انسان کی کردار سازی کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ اقبال اس تاریخی حقیقت سے کماحقہ آگاہ ہیں کہ مکہ کی خواتین اپنے جنگجوؤں میں جذبہ حرب کو پیدا کرنے اور بڑھانے کے لئے ان کے سامنے رزمیہ اشعار پڑھتی تھیں جنہیں سننے کے بعد وہ دیوانہ وار میدان جنگ میں کود پڑتے۔اقبال اسی شاعری سے پیداشدہ عارضی اور وقتی تبدیلی کو عقل و شعور(ذہنی پروسیس )سے گزار کر نظریات میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بالآخر ان نظریات و افکار کو اعتقادات کی شکل وصورت میں ڈھال کر انسانہ بنادیاجائے۔
بالاختصار جب ہم علامہ اقبال علیہ رحمۃ المتعال کی زندگی پرنظردوڑاتے ہیں تو ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ آپ علیہ رحمۃ المتعال اپنے کلام سے قوم وملت کوبیدار کرتے ہیں ۔جسے ہم زبان اور قلم کے ساتھ جہاد سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ ان المؤمن یجاھد بسیفہ ولسانہ۔(مشکوٰۃ :٤١٠) مومن اپنی تلوار اور زبان سے جہاد کرتاہے۔اورویسے بھی جب کوئی شاعراخلاص نیت،صدق لسان ،صمیم قلب،تطہیر باطن اوراستغناء نفس سے حضور ﷺ کی شان اقدس میں نعتیہ اشعار لکھتاہے اوراپنی شاعری کو دین اسلام کی نشر و اشاعت، حق کی ترویج اور باطل کے خلاف جنگ میں استعمال کرتاہے توایسے شاعر کی مدد کے لئے اللہ رب العزت فرشتوں کو نازل کرتاہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حق میں دعافرمائی ۔اللھم ایدہ بروح القدس۔(متفق علیہ) اے اللہ تو جبریل امین علیہ السلام کے ذریعے حسان کی مدد فرما۔یعنی حضرت حسان رضی اللہ عنہ جنہوں نے اپنی شاعری سے حضور ﷺ کی مدح سرائی کی اور آپ ﷺ پر کئے گئے طعن وتشنیع کے جوابات دیئے ان کی مدداللہ رب العزت نے حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے کی۔حضور ﷺ کا فرمان زندہ جاوید ہے اب جب بھی کوئی شاعر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ کے نقش قدم پر چلے گا وہ اس حدیث میں کی گئی دعاکا مصداق ٹھہرے گایعنی ان کی مدد کے لئے بھی یقینافرشتے نازل ہوں گے(انشاء اللہ العزیز)۔
اقبال اور شیکسپیئر
یہاں یہ ذکر کرنا بے جانہ ہوگا کہ انگریز ایک شیکسپیئر پر نازاں ہیں جس نے صرف انگریزی زبان میں نے نام کمایا ہے لیکن ایک غلام قوم میں آزاد مردِ حرایسا بھی پیدا ہوا ،جوفکری تخیلی صلاحیتوں کا مالک، ہفت زبانوں میں ایسافصیح وبلیغ کہ انگریزی،عربی، اردو،فارسی میں تو ان کا کلام سند مانا جاتاہے۔ اقبال اپنے نام کی طرح بلند ہمت،بلند خیال،بلند کردارہیں اورانہوں نے اپنی شاعری سے مسلمانوں کی فکری ،علمی،عملی،قلبی،روحانی، باطنی، ظاہری،رہنمائی فرمائی ۔اقبال بیک وقت مفکر ،فلسفی، شاعر، انشاپرداز، مصنف، مورخ، مصلح،صوفی،عالم ہے۔لہذا علامہ اقبال کا مقام بہت بلند ہے جسے ہمالیہ سے تعبیر کیاجائے تو اس میں مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔اور ان کے سامنے شیکسپیئر کی مثال ایک چھوٹی چٹان سے زیادہ نہیں ہے اس کے پاس فکر اور قوت تخیل اقبال کے ہم پلہ نہ تھی۔ اقبال نے بیک وقت انسان کو متاثر کرنے والی چاروں طاقتوں سے کام لیا۔یعنی سائنس،شاعری،مذہب اور فلسفہ۔علامہ اقبال کے اشعارمیں فصاحت لسان اوربلاغت کلام کے ساتھ ساتھ آیات قرآنیہ کی تفسیر،احادیث نبویہ ( ﷺ ) کی تشریح ،سائنسی توضیحات اور فلسفیانہ تصورات پائے جاتے ہیں ۔اقبال اپنے کلام سے قوم وملت کواس کاکھویاہوا مقام اورشاندار ماضی یاددلا کررلاتاہے اوراس قوم کو خواب غفلت سے بیدارکرتا اور اس کے مردہ ضمیرکوجھنجھوڑتاہے تاکہ یہ دوبارہ عروج حاصل کرلے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post