السیف المسلول فی مسئلۃ

یا محمد و یارسول

 

یا رسول اللہ ﷺ کا شرعی حکم

 

مفتی سید محمد منور شاہ نقشبندی


 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ و نصلی ونسلم علی رسولہ الکریم امابعد:

 یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دور نبوی سے لیکر آج تک ہر دور میں گستاخانِ رسول ﷺ نے مختلف رنگ و لباس میں اٹھ کر آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے، اور کررہے ہیں۔ دور نبوی میں جب کعب بن اشرف یہودی نے گستاخی کی تو پروانہ گانِ شمع رسالت نے اپنے محبوب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس گستاخ رسول( کعب بن اشرف )کو قتل کرکے واصل جہنم کردیا، اور رہتی دنیا میں عاشقان رسول کو یہ درس دیا کہ شان مصطفوی کے خلاف جو زبان آپے سے باہر آئے یا جو ہاتھ گستاخی کی نیت سے اٹھے اس کی سزاقتل ہے۔ گستاخِ رسول کی سزا کے بارے میں صرف مختصر دلیل خلاصتہ الفتاوٰی سے نقل کی جارہی ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ شان رسالت میں کونسی باتیں گستاخی کے زمرے میں آتی ہیں۔

علامہ طاھر بن عبد الرشید لکھتے ہیں :

و فی المحیط من شتم النبی ﷺ وا ھانہ اوعابہ فی امور دینہ اوفی شخصہ اوفی وصف من اوصاف ذاتہ سواء کان الشاتم مثلاً من امتہ او غیر ھا سواء کان من اھل الکتاب او غیر ھا ذمیا کان او حربیا سواء کان الشتم اوالاھانۃ اوالعیب صادراعنہ عمداً او سھواً او غفلۃً او جد اً او ھزلًا فقد کفر ..........وحکمہ فی الشریعۃ المطھرۃ عند متاخرین المجتھدین اجماعا و عند المتقدمین القتل قطعاولا ید اھن السطان ونائبہ فی حکم قتلہ۔

 (خلاصۃ الفتاوٰی ،٣٨٦، ج٤،کتاب الفاظ الکفر،رشیدیہ کوئٹہ)

جس نے آپ ﷺ کو گالی دی یا تو ہین کی یا دین کی کسی بات میں یا آپ کی ذات میں یا آپ کی صفات میں سے کسی صفت کی عیب جوئی کی، خواہ گستاخ آپ کی امت سے ہو، یا غیر، اہل کتاب، ذمی ہو یا حربی، اگرچہ گستاخی وغیرہ عمداً یا سھواً یا غفلت کی وجہ سے یا استھزاء کی صورت میں کیوں نہ ہوں، لیکن وہ کا فر ہوجائے گا.............. ازروئے شریعت گستاخ رسول کا حکم قتل ہے۔ گستاخ کے قتل میں بادشاہ وقت یا اس کا نائب سستی نہ کرے گا۔

 ان گستاخانِ رسول کی مالا میں سے ایک انمول اور یکتائے زمانہ گستاخ موتی خوازہ خیلہ سوات کی سرزمین میں بھی اپنے ہم مشرب و عقیدہ مولویوں کی تائید کی بناء پر چمکی۔ جس نے آپ ﷺ کے اسم مبارک ''یا محمد ﷺ '' کو اس مسجد کی دیوار سے اکھیڑ کر گرا یا، جس مسجد میں برسوں امامت و خطابت کے فرائض اپنے دور کے جید دیوبندی علماء نے سرانجام دیئے تھے۔ اور انکی موجودگی میں یہی اسم گرامی ''یامحمد ﷺ ''مسجد پر لکھا ہوا تھا جو ان کے نزدیک نہ کفرو شرک تھا اور نہ بے ادبی ۔

 لیکن اس حقیقی بے ادب نے اپنے ہم مثل مؤیدین مولویوں سمیت اپنے باطنی عداوت کا اظہار کرکے مسلمانانِ سوات کے جذبات کو مجروح کردیا اور اپنا قارورہ کعب بن اشرف کے چیلوں کے ساتھ ملادیا۔ ( انہیں مبارک ہو)

 مؤیدین گستاخ میں سے چار باغی مولوی(عبداللہ) نے گستاخ رسول کی تائید میں رسالہ بنام ''السیف القاطع للنزاع فی مسئلۃ یا محمد و یارسول اللہ'' تحریر فرمایا، جس کے غلط قافیہ سے ہی مصنف جلیل کی علمی شان آشکارا ہو رہی ہے جو اسکی عالی شان تصنیف کی اندرونی فن پاروں (خامیوں) پر دلالت کررہا ہے۔

 اسی مذکورہ رسالے کا جواب بنام ''السیف المسلول فی مسئلۃ یا محمد و یا رسول ( ﷺ ) خدمت دین اور عشق رسول ﷺ کے جذبے کے تحت اپنے سنی حنفی غیور مسلمانوں کی خدمت میں پیش کیا گیا۔

 کتاب ایک مقدمہ تین فصلوں اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے،

 فصل اول میں مولوی چارباغی کے اعتراضات کے جوابات۔

 فصل ثانی میں صحابہ کرام سے لیکر تا علماء دیوبند بزرگان دین کے اقوال۔

 فصل ثالث میں علماء دیوبند کے حوالے درج کئے گئے ہیں۔

 اللہ تعالیٰ اس کتاب کو نافع الخلائق بنائے اور دارین کی خوشی اور سرخروئی اور متعلقین کتاب کے لئے نجات کا سبب بنائے۔

 (آمین بحرمۃ سید المرسلین علیہ التحیۃ والتسلیم)

 بندہ:

 سیّد محمد منور شاہ نقشبندی

 مدیر :دارالعلوم حنفیہ نقشبندیہ

 صدر: خدمت خلق فلاحی تنظیم

 مبارک پور تیرنگ شموزی سوات

 

 

 


 

مقدمہ

 چند دن پہلے غالباً ،١٣ ،مارچ ٢٠٠١ئ؁کو میںمکتبہ سعیدیہ اودھیانہ مارکیٹ مینگورہ سوات کے پاس سے گزر رہاتھا توکسی کتاب کے بارے میں معلومات کیلئے مکتبہ میں داخل ہوا، داخل ہوتے ہی مالک دکان کے مرکزی میز پر رسالوں کے ایک انبار پر نظر پڑی۔ ایک رسالہ اٹھاکر دیکھا تو وہ مولوی عبداللہ آف چارباغ کا تھا۔ جو'' نداء یا رسول اللہ'' کے عدم جواز پر لکھا گیا تھا، اسی وقت اسی دکان میں سرسری نظر سے ورق گردانی کی۔ شروع کے صفحات میں دیوبند مسلک کے (چارباغی ودیگر) ظاہری خیر خواہ اور نام لیوا مولویوں کے تقاریظ تھے۔ لیکن جب آخری صفحات میں چند مدارس دیابنہ کے مفتیوں کے فتوے دیکھے تو ان تقاریظ و فتا وٰی سے یہ اندازہ ہوا کہ دیوبند ی مسلک بھی مستقبل قریب میں پارہ پارہ ہوجائے گا۔ اور جس طرح آج کل علماء اہل سنت پر ان مخالفین کی طرف سے شرک و بدعت کے جوفتوے لگ رہے ہیں انشاء اللہ یہی فتوے دیوبند کے ٹکڑوں پر پلے ہوئے نام نہاد دیوبندی مولویوں کی طرف سے اکابرواصاغر دیوبند پر لگنا شروع ہو جائینگے۔

 مذکورہ کتاب میں سب سے زیادہ افسوس جس بات پر ہوئی وہ یہ کہ منگورہ شہر کے مسلک دیوبند کے ایک جید عالم دین(مولوی رحیم اللہ صاحب) نے بھی مولوی عبداللہ اور خوازہ خیلہ سوات میں اسم ''محمد ﷺ '' کی گستاخی کرنے والے گستاخ کی حمایت میں فتویٰ دے دیا،لکھتے ہیں :

''یا محمد ﷺ '' سے منع کرنے والا شخص اس صورت میں حق بجانب ہے بلکہ اس پرلازمی ہے کہ ایسے شرکی الفاظ سے لوگوں کو منع کرے۔ (العیاذباللہ)

مفتی مینگورہ اور یارسول اللہ کی ممانعت:

اس فتوے سے معلوم ہوا کہ''یا رسول اللہ و یا محمد ﷺ '' کہنا مفتی منگورہ کے نزدیک شرکی الفاظ ہیں۔

 اس بارے میں مفتی مذکور کو سلف صالحین کے عقیدے کا لحاظ نہ سہی کم از کم اپنے اکابر واسا تذہ دیوبند کے عقیدے کا تو پاس رکھنا چاہیے تھا، کیونکہ اکابر علماء دیوبند اپنے اشعار ،نعت، شجرہ طریقت، وظائف، ذکرو اذکار اور مرید کو تصوف کی تعلیم دینے میں ''یارسول اللہ'' کہنے اور پڑھنے کے قائل ہیں۔

اکابرعلماء دیوبند(سوات) اور یا رسول اللہ کا جوازاور مفتی مینگورہ کا رد:

 اگر ـ''یا محمد ﷺ ویا رسول اللہ'' شرکی الفاظ ہیں، تو کیا ان شرکی الفاظ کا علم ریاست سوات کے جید علماء دیوبند (مارتونگ بابا، چکیسر بابا، بازارگی بابا وغیرھم)معروف زمانہ فی العلم والعمل کو نہیں تھا کہ ان کی موجودگی اور صدارت علم میں یہی الفاظ جامع مسجد سیدو بابا قدس سرہ میں لکھے گئے تھے، جو تا حال موجود ہیں، نہ تو ان علما ء نے ان الفاظ کو شرک و کفر کہا، اور نہ ان کو مسجد کی دیواروں سے گرا کر مٹادیا۔

نام نہاد دیوبندیوں کی گستاخی:

 جیساکہ خوا زہ خیلہ سوات کے ایک گستاخ رسول نے ''یامحمد ﷺ ''کے الفاظ کو مسجد کی دیوار سے گرا کر اپنی خباثت باطنی کا اظہار کردیا، اور پھر اس کی حمایت میں علماء سوء اور نام نہاد دیوبندیوں نے تو وہ واویلا مچا دیا کہ ایک شخص کی گستاخی کو جائز قرار دینے کیلئے سلف صالحین اور تمام اکابر دیوبند کی توہین کی۔ (اف رے دیوبندیت)

 اب انصاف قارئین کے ہاتھ میں ہے کہ اگر ''یا محمد ﷺ و یا رسول اللہ'' کے الفاظ شرکی ہیں (جیسے کہ مولوی عبداللہ و مفتی منگورہ نے فرمایا ہے) تو کیا یہ شرک ان کے اساتذہ سوات کومعلوم نہ تھا کہ اپنی موجودگی میں ایسے شرکی الفاظ کو خانہئ خدا میں رہنے دیا؟ اور اگر یہ الفاظ مذکورہ شرک نہیں تو کیا ان کے اساتذہ ان موجودہ مولویوں کے فتوے کی بناء پر مبتدعین اورمشرکین کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ اساتذہ ریاست سوات نے تو کسی کو بھی ان الفاظ سے منع نہیں کیا، حالانکہ مفتی منگورہ وغیرہ کے نزدیک ایسے شرکی الفاظ سے لوگوں کو منع کرنا لازمی ہے۔

 زیر بحث مسئلہ (نداء یارسول اللہ) کے جواز پر اگر چہ اسلاف اور خود علماء دیوبند کی تصانیف موجود ہیں ، لیکن جب ضلع سوات میں اس مسئلہ کے متعلق نام نہاد دیوبندی مولویوں نے انتہائی شدت کا راستہ اختیار کیا، اور اہل ا لسنت والجماعت کی تکفیر وتضلیل شروع کردی،یہاںتک کہ تحریر کو بھی اپنی اس گستاخی پر گواہ کردیا، جو مولوی عبداللہ کی تصنیف اور اس پر تعلیم القرآن شاہ پور اور جامعہ عثمان بن عفان کے خادموں کی تقاریظ ہےں۔ جسمیں یہ لکھا ہے کہ: یارسول اللہ نہ کہنا علماء دیوبند کامتفقہ فیصلہ ہے اور کہنے والے بدعتی اور مشرک ہیں۔(العیاذبااللہ)

 لیکن اصل میں اس دیوبندی نے اپنے اکابر علماء دیوبند اور دیگر سلف صالحین کی طرف کفرو شرک اور بدعت کی نسبت کی ہے، کیونکہ اکابرعلماء دیوبند ، سلف صالحین اورصحابہ کرام کے نزدیک ''یامحمد ﷺ و یا رسول اللہ'' کہنا جائز ہے۔عنقریب اسکی وضاحت مع الدلائل کی جائے گی،(ان شاء اللہ) لیکن جب ان چارباغی مولویوں کو اپنے اکابر کی کتابوں کا مطالعہ نصیب نہ ہوا،(تاکہ ان کے عقیدے کا علم ہو جاتا) تو مانند خفاش (چمگادڑ) سورج کو نہ دیکھنے کی وجہ سے انکارکردیاکہ سورج نہیں ہے۔ یہی حال ان گلابی دیوبندیوں کا ہے کہ مطالعہ کتب اسلاف دیوبند نصیب نہ ہوا تو فوراً اپنی عادت سے مجبور ہوکر شرک وبدعت کی مشین گن اٹھائی، اور کفر و شرک کی بوچھاڑ کردی۔ لیکن عدم شعور کی وجہ سے یہ احتیاط نہ کی کہ کفر و شرک کی یہ گولیاں کہیںان کے اپنے معنوی آباواجدادپر نہ برسےں ۔ (وقد وقع علیہم)

موجودہ علماء دارالعلوم دیوبند اور یا رسول اللہ کا جواز:

 جب ان کی یہ نازیبا اور گستاخانہ رویہ دیکھا توخدمت دین اور ننگ اسلاف کی بناء پر اس تحریر کا آغاز کیا تا کہ تمام مسلمانوں پر یہ واضح ہو جائے کہ ''یارسول اللہ'' کہنا شرک وبدعت نہیں بلکہ سلف صالحین کا عقیدہ ہے۔ اور اسی عقیدے کو اکابر دیوبند نے بھی صحیح اور جائز کہا۔ بلکہ موجودہ دارالعلوم دیوبند کے علماء نے بھی اپریل ٢٠٠١؁ء میں منعقدہ ''عالمی دیوبند کانفرنس'' میںیہ حقیقت ظاہر کردی کہ:

''حیات النبی اور یارسو ل اللہ ﷺ '' یہ ہمارے دیوبندیوں کا متفقہ عقیدہ ہے، اور پاکستانی دیوبندیوں نے اس سے انکار کرکے فتنہ برپا کردیا۔ (کاش کہ یہ فتنہ ساز مولوی سمجھتے)

زیر نظر کتاب میں حتی الوسع دلائل کو حوالہ سمیت نقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انشا ء اللہ قارئین کیلئے یہ کتاب مفید ثابت ہوگی۔

 گرقبول افتدز ہے عزوشرف

 بندہ ناچیز

 سید محمد منور شاہ نقشبندی

 مدیر دارالعلوم حنفیہ نقشبندیہ شموزی سوات

 

 

 

فصل اول

 

 اس فصل میں مولوی عبداللہ ( مصنف کتاب ''یامحمد ﷺ کا شرعی حکم کیا ہے؟) اور دیگر ہمنوا مولویوں کی ان عبارات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جو انہوں نے یا رسول اللہ کے عدم جواز کے لئے پیش کی ہیں۔

چار باغی مولوی لکھتے ہیں :

اگر بوجہئ محبت نبی علیہ السلام کو ـ''یا محمد ﷺ '' سے پکارنا کوئی اچھی خصلت ہوتی تو صحابہ کرام کبھی بھی اسے ترک نہیں کرتے، چنانچہ حافظ ابن کثیر سورۃ الاحقاف کی آیت نمبر١١ کی تفسیر کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں:

اہل سنت وجماعت کی تعریف:

(وامااھل السنۃ والجماعۃ فیقولون فی کل قول وفعل لم یثبت عن الصحابۃ رضی اللّٰہ عنھم فھوبدعۃ لانہ لوکان خیرالسبقونا الیہ لانھم ولم یترکوا خصلۃ من خصال الخیر الاوقد بادروا الیھا۔ (ابن کثیرص ٣١٨ج٣)

 (یامحمد ﷺ کا شرعی حکم کیا ہے؟ص ١٦)

 گلابی دیوبندی مولوی عبداللہ کی مذکورہ عبارت سے یہ معلوم ہوا کہ ''یا محمد ﷺ '' کہنا اگر جائز ہوتا تو صحابہ کرام اس کو کبھی ترک نہ کرتے۔ اور نداء ''یا محمد ﷺ '' کو بدعت ثابت کرنے کیلئے تفسیر ابن کثیر کا غلط حوالہ و عبارت پیش کرکے جان چھڑانے کی کوشش کی، لیکن حق سے کوروکر اس گلابی دیوبند ی کو علامہ ابن کثیر کی کسی دو سری کتاب دیکھنے کی توفیق نصیب نہ ہوئی، تاکہ اسکا مطالعہ کرکے صحابہ کرام کا معمول اور حق دیکھتا اورصحابہ کرام پر بہتان نہ لگاتا۔

''یا محمداہ'' مسلمانوںکا شعار ہے :

علامہ ابن کثیر جنگ یمامہ کا منظرپیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

''ثم نادی بشعار المسلمین وکان شعار ھم یومئذ ''یا محمداہ''

(البدایہ والنھایہ، ص ٣٠٨،ج٦،مقتل مسیلمۃ الکذاب لعنہ اللہ،مطبوعہ بیروت)

پھر حضرت خالدبن ولید نے مسلمانوں کے معمول کے مطابق نعرہ لگایا، اور اس زمانہ میں ان کا معمول ''یا محمداہ'' کا نعرہ لگاناتھا۔

علامہ ابن اثیر اسی جنگ کا نقشہ کھینچنے کے بعد لکھتے ہیں:

''ثم برز خالد ودعا الی البراز ونادیٰ بشعار ھم وکان شعار ھم یامحمداہ فلم یبرزالیہ احد الا قتلہ۔

 (الکامل فی التاریخ ،ص٢٤٦،ج٢،مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت)

پھر حضرت خالد بن ولید نے (دشمن کو) للکارا، اور للکارنے والوں کو دعوت (قتال) دی،پھر مسلمانوں کے معمول کے مطابق ''یا محمد اہ'' کہہ کر نعرہ لگایا۔ پھر وہ جس شخص کو بھی للکارتے اسکو قتل کردیتے تھے۔

 حافظ ابن کثیر و ابن اثیر کی تصریحات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عہد صحابہ اور تابعین میں شدائد اور ابتلاء کے وقت ''یا محمدا ہ'' کہنے کا معمول تھا۔ نداء غائب کے منکرین کے ہاں حافظ ابن کثیر کی بڑی وقعت ہے ،لیکن حافظ صاحب کی تصریح ''یامحمداہ'' ان کے معتقدین کے خلاف قوی حجت ہے۔

 چارباغی مولوی نے اھل السنۃ والجما عۃ کی تعریف جس معرف (مفسر)سے کرائی تو اسی حافظ ابن کثیر و ابن اثیر کی عبارت سے یہ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کا معمول ''یا محمداہ'' تھا، اور جو لوگ ''یا محمداہ '' و یارسول اللہ کہتے ہیں وہ بقول ابن کثیر اور باعتراف چارباغی مولوی حقیقی اہل السنۃ ہیں، اور جولوگ معمولات صحابہ کرام کو شرک وبدعت کہتے ہیں تو ہم تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان منکرین کا اہل السنۃ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اور دو سرا حکم خود اپنے لئے تلاش کریں، جوان پر صحابہ کرام کے معمول کو شرک و بدعت کہنے کی وجہ سے ازروئے شریعت لگتا ہے۔

نداء یا محمد ﷺ بے ادبی نہیں ہے:

 حافظ ابن کثیر کی تصریح سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کے نزدیک آپ ﷺ کو ''یا محمداہ'' سے نداء کرنا بھی ادبی نہیں تھی۔ کیونکہ صحابہ کرام حقیقی عاشقان رسول تھے نہ کہ بے ادب، بلکہ بے ادبی کا تعلق عقیدے کے ساتھ ہے، اورعقیدہئ صحابہ راسخ اور پختہ تھا۔ بخلاف ایسے گستاخ مولویوں کے کہ آپ ﷺ کا اسم مبارک مٹاکر اس پر فخر کرتا ہے۔ اور اس کے ہمنوا گستاخ مولوی ایسے بے ادب مولوی کو داد دینے پر فخر کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ ہم نے توحید بیان کی توہین نہیں کی۔ حالانکہ ان کے عقیدے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سراسر گستاخی رسول ہے۔ کیونکہ ان کا عقیدہ جمہور اہل سنت ا وردیوبند کے ''عقیدہئ حیات النبی'' کے سراسر خلاف ہے۔ جو خود ان چارباغی مولویوں کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے، لکھتے ہےں:

''خصوصاً جوحضرات نبی علیہ السلام کی حیات نا سوتی اور دنیوی پر قبر میں قائل ہیں تو کیوں وہ لوگ یہ بے ادبی کرتے ہیں انکے قول وفعل میں تضاد ہے۔ (بلفظہ،ص ١٤)

 چارباغی مولوی کی تحریر سے ان کے عقیدہئ سؤ کا اظہار ہوا جو ''فتنہئ انکار حیات النبی'' ہے۔ اب قارئین خود انصاف کریں کہ جو شخص جمہور علماء اہل سنت ودیوبند کے عقیدہ ''حیات النبی'' سے انکار کرسکتاہے تو کیا وہ '' یامحمد ﷺ '' کو مسجد کی دیوار سے مٹا کر اس پر فخر نہیں کرسکتا؟ اور کیا وہ اس مقولے '' اذا فاتک الحیاء فافعل ماشئت'' کا مصداق نہیں بن سکتا؟

دوسری بات یہ کہ چار باغی مولوی نے اس بات پر زور لگایا ہے کہ:

آپ ﷺ کو ''یا محمد ﷺ '' کہنا فی الحیٰوۃ وبعد الوفاۃ جائز نہیں، بلکہ دونوں حالتوں میں حکم ایک جیسا ہے تو ''یا محمد ﷺ ''کے بجائے جیسے اللہ تعالیٰ نے ''یاایھالرسول '' وغیرہ القابات دے کرخطاب فرمایا تو مسلمان بھی دونوں حالتوں میں اس ادب کو مدنظر رکھے۔

 عزیز قارئین: ہم اہل سنت تو چارباغی مولویوں کی مان کر ''یا محمد ﷺ '' کے بجائے یا رسول اللہ لکھ دینگے اور پڑھیںگے ،کیونکہ ہم الحمدللہ ''حیات النبی'' کے قائل ہیں۔ لیکن ان چارباغی مولویوں کے قول و فعل میں جو تضاد ہے اسکا بھی یہ لوگ خود ذرا موازنہ کریں ،کیونکہ ایک طرف تو عقیدہئ جمہور حیات النبی کے منکر ہو کر قابل داد ہوگئے ،اور دوسری طرف بعد الوفات ہمیں ''یامحمد ﷺ '' کے بجائے یا رسول اللہ پڑھنے اور لکھنے پر دلائل پیش کرتے ہیں۔ (سبحان اللہ)

 تو ایسی بد عقیدگی سے لبریز دل وجگر کے ساتھ اگر کوئی آپ ﷺ کا نام مبارک مٹاتا ہے تو کیا یہ اس قرینہ سے گستاخی رسول پر دلالت نہیںکرتا؟ اگر جواب ہاں میں ہے بلکہ یقینا ہے تو پھر گستاخی اور توہین رسالت کرنے والوں کا حکم خود چارباغی مولویوں نے اپنی کتاب کے ص ١٣ میں تحریر فرمایا ہے۔ ہمیں حکم لگانے کی ضرورت نہیں۔

مولوی چارباغی لکھتے ہےں:

گستاخ رسول کا حکم:

فبھذا یعلم ان من استخف بجنابہ ﷺ فھو کا فر ملعون فی الدنیا والآخرۃ. (جلالین ص٣٠٢ سورۃ النور آیت ٦٣ حاشیہ ١٠)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلام کی توہین اور استخفاف کر نے والا کافر اور دنیا و آخرت دونوں میں ملعون ہے۔

 رہی یہ بات کہ یا محمد ﷺ کہنا فی الحیٰوۃ وبعد الممات ناجائز ہے اور بے ادبی ہے، تو اس بارے میں چند دلائل نقل کئے جاتے ہیں،جس سے معلوم ہوگا کہ یا محمد ﷺ کہنا بے ادبی بھی نہیں اور ناجائز بھی نہیں، بلکہ دلائل قاہرہ باہرہ سے اس کا جواز ثابت ہے، لیکن گلابی حضرات اگر خود کو ''امیون لایعلمون الکتاب'' کی صف میں شمار کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

 مانعین نداء یا محمد ﷺ مندرجہ ذیل آیت سے دلیل پکڑتے ہیں۔ جیسا کہ ملا چارباغی نے بھی لکھا ہے:

قولہ تعالیٰ ''لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا.

( الایۃ: سورۃ ا لنور: ٦٣)

یعنی اپنے درمیان رسول کے بلانے کو ایسا نہ بناؤ جیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔

 علمی نقطہ ئ نظر سے اگر مذکورہ آیت پر غور کیا جائے تو یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ مانعین یا محمد ﷺ کا استدلال اس صور ت میں صحیح قرار پائے گا جب دعا بمعنی بلانے اور پکار نے کے ہو، اور دعا کی رسول کی طرف اضافت اضافت الی المفعول ہو، یعنی تم لوگ آنحضرت ﷺ کو اس طرح نہ پکارو، جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، لیکن نظم قرآن سے اقرب اور ظاہروباہر تر کیب پر اگر علمی اور تحقیقی انداز سے غور کیا جائے تو پھر ترکیب یوں ہوگی، کہ دعاء الرسول میں اضافت الی الفاعل ہے، اس لحاظ سے پھر معنی یہ ہوگا کہ تم لوگ حضور ﷺ کے بلانے کو ایسا قرار نہ دو، جس طرح تم لوگ ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔

امام رازی اور یا محمد ﷺ :

اسی ترکیب کو امام رازی رحمہ اللہ نے بھی مبرد اورقفال کے حوالے سے ذکر فرمایا کہ:

نبی ﷺ تم کو جو حکم دیتے ہیں اور تم کو بلاتے ہیں اسے تم لوگ آپس میں بلانے کی طرح نہ قرار دو۔ کیونکہ آپ ﷺ کا حکم فرض اور واجب ہے، جس پر درج ذیل آیت کریمہ دلالت کرتی ہے :

'' فلیحذرالذین یخالفون عن امرہ ان تصبھم فتنۃ اویصیبھم عذاب الیم. (سورۃ النور: ٦٣)

تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں۔ کہ انہیں کوئی فتنہ پہونچے یا ان پر درد ناک عذاب پڑے۔ (تفسیرکبیرص٣١٠ ج٦ مطبوعہ دارالفکر)

علامہ آلوسی اور یا محمد ﷺ :

مندر جہ ذیل آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسر قرآن علامہ آلوسی لکھتے ہیں :

'' ای لا تقیسوا دعاء ہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ایاکم علی دعاء بعضکم بعضافی حال من الاحوال او امرمن الامور التی من جملتھا المسا ھلۃ فیہ والرجوع عن مجلسہ علیہ الصلوٰۃ والسلام بغیر استئذان فان ذلک من المحرمات والی نحو ھذا ذھب ابو مسلم واختارہ المبردو القفال۔

 (روح المعانی ص،٣٢٩،ج١٨،حقانیہ ملتان)

یعنی جب تمہیں نبی کریم ﷺ بلائے تو تم لوگ آپ ﷺ کے بلانے کو اپنے بلانے پرکسی بھی وقت اور کسی حال میں قیاس نہ کرو۔ کہ تم لوگ سستی سے آؤ ، یا بغیر اجازت آپ ﷺ کی مجلس سے چلے جاؤ کیونکہ یہ حرام ہے۔ ابو مسلم، مبرد اور قفال نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔

 اس سے معلوم ہو ا کہ ''یا محمد ﷺ '' کے ساتھ نداء کرنا اس صورت میں منع ہے کہ جب اس نداء سے آپ کو بلانا مقصود ہو، جیسا کہ عام لوگ ایک دو سرے کو بلاتے ہیں۔ مطلقاً یا محمد ﷺ کہنا منع نہیں۔

امام مسلم اور یا محمد ﷺ :

امام مسلم ؒ اپنی صحیح میں ایک طویل حدیث میںہجرت مدینہ کا واقعہ نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

فصعدالرجال والنساء فوق البیوت و تفرق الغلمان والخدم فی الطریق ینادون یا محمد یا رسول اﷲ یا محمد یا رسول اﷲ۔

( مسلم شریف ،ص٤١٩،ج ٢،قدیمی کراچی)

خواتین و حضرات (صحابہ اور صحابیات)چھتوں پر چڑھ گئے،اور بچے اور غلام گلی کوچوں میں پھیل گئے اور یا محمد ﷺ اور یا رسول اللہ ﷺ کے نعرے لگانے لگے۔

حافظ ابن کثیر و ابن اثیر اور یا محمد ﷺ :

 حافظ ابن کثیر و ابن اثیر نے یا محمداہ کو مسلمانوں (صحابہ کرام) کا شعار بتایا ہے، جیسا کہ اسی فصل اول کے ایک جواب میں اور فصل دوم میں مستقل دلیل کی حیثیت سے بیان ہوا ہے۔

امام بخاری اور نداء یا محمد ﷺ :

عن عبدالرحمن بن سعد قال خد رت رجل ابن عمر فقال لہ رجل اذکراحب الناس الیک فقال یا محمد ﷺ ۔

 (الادب المفرد، ص ٢٦٢،بابـ:مایقول الرجل اذاخدرت رجلہ ،رحمانیہ لاہور)

شیخ ابن تیمیہ اور یا محمد ﷺ :

مذکورہ روایت کو شیخ ابن تیمیہ نے بھی اس انداز سے لکھا ہے:

عن الھیثم بن حنش قال کنا عند عبداﷲ بن عمر فخدرت رجلہ فقال لہ رجل: اذکر احب الناس الیک فقال: یا محمد فکانما نشط من عقال۔

(الکلم الطیب، ص ١٢٠،فصل فی الرجل اذا خدرت ،دار نشر الکتب الاسلامیہ لاہور)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما کا پیر سن ہوگیا۔ ایک شخص نے فرمایا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ جو تمہیں محبوب ہے اسے یاد کرو، حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا ''یا محمد ﷺ ''۔

 ان مذکورہ دلائل سے یہ معلوم ہوا کہ لفظ ''یا محمد ﷺ ''سے اگر چہ آپ کا علم اور نام ہی مقصود ہو لیکن آپ کو بلانا مقصود نہ ہو بلکہ صرف اظہار محبت، عشق اور ذوق و شوق سے آپ ﷺ کے نام مبارک کا ذکر یا نعرہ لگایا جائے یا آپ کو یاد کرنا مقصود ہو تو پھر ان صوتوں میں یامحمد ﷺ کہنا جائز ہے۔

امام ابن ماجہ اور یا محمد ﷺ :

 مانعین یا محمد ﷺ کیلئے مجوزین یامحمد ﷺ کی طرف سے سب سے واضح تر وہ دلیل ہے جو دوسری فصل میں آرہی ہے کہ خود آپ ﷺ نے ایک نا بینا صحابی کو دعا کی تعلیم فرمائی جس میں یا محمد ﷺ کے الفاظ ہیں:

اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یامحمد انی قد تو جھتُ بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی اللھم فشفعہ فی۔ (ابن ماجہ، ص٩٩،قدیمی کراچی)

حافظ ابن تیمیہ اور یا محمد ﷺ :

 حافظ ابن تیمیہ نے ابن ماجہ شریف کی مذکورہ حدیث کو جامع ترمذی اور سنن نسائی کے حوالے سے نقل کی ہے جسمیں یا محمد ﷺ کے الفاظ ہیں۔

 (مجموعۃ الفتاوٰی ص ٢٦٧ ج ١)

 مانعین '' یا محمد ﷺ '' اپنے دلائل میں سے ایک دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو قرآن شریف میں ''یامحمد ﷺ '' سے خطاب نہیں فرمایا بخلاف دیگر انبیاء کے۔ اس لئے آپ ﷺ کی زندگی یا بعدالوفات یا محمد ﷺ کہنا ناجائز و حرام ہے۔ ان حضرات کی خدمت عالیہ میں احادیث مبارکہ سے چند دلائل برائے تسلی و تشفی پیش کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے تاکہ عشق و محبت اور ذکر کرنے کی نیت سے یا محمد ﷺ پڑھنے والوں پر شدت کا راستہ اختیار نہ کیا جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ یا محمد ﷺ کہنا جائز ہے نہ کہ حرام۔

امام بخاری اور یا محمد ﷺ :

امام بخاری آپ ﷺ کے سفر معراج کا واقعہ تفصیل سے بیان فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں:

''فقال الجبار یا محمد قال لبیک وسعدیک ۔

(بخاری شریف، ص ١١٢١،ج ٢،باب قول اللہ و کلم اللہ موسیٰ تکلیماً،نور محمد کراچی)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''یا محمد( ﷺ ) آپ ﷺ نے فرمایا میں حاضر ہوں۔

امام مسلم اور یا محمد ﷺ :

قال فلم ازل ارجع بین ربی و بین موسیٰ علیہ السلام حتی قال یا محمد انھن خمس صلوات کل یوم ولیلۃ لکل صلوٰۃ عشر۔

 (مسلم شریف ،ص ٩١، ج ١،باب الاسراء برسول اللہ ﷺ ،قدیمی کراچی)

میں اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان باربار آتا جاتا رہا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ''یا محمد ﷺ '' دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ ہر نماز پر دس گنا ثواب ہے۔

امام بخاری اور یا محمد ﷺ :

امام بخاری '' باب کلام الرب یوم القیامۃ مع الا نبیاء وغیر ھم'' میں طویل حدیث نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

''فیقال یا محمد ارفع رأ سک وقل یسمع لک وسل تعط واشفع تشفع ۔ (بخاری، ص ١١١٨، ج ٢،نور محمد کراچی)

پھر کہا جائے گا یا محمد ﷺ اپنا سرمبارک اٹھائیے ،اور فرمائیے آپ کی بات سنی جائےگی ،اور مانگئے آپ کو دیا جائے گا، شفاعت فرمائیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔

امام مسلم اور یا محمد ﷺ :

اسی روایت کو امام مسلم نے بھی نقل فرمایاہے :

''ووقعت ساجد ا فیدعنی ماشاء اﷲ فیقال: یامحمد ارفع رأسک الخ ۔ (مسلم شریف ،ص١٠٩، ج ١،باب اثبات الشفاعۃ،قدیمی کراچی)

امام ابن ماجہ اور یا محمد ﷺ :

ثم یقال ارفع یا محمد و قل تسمع وسل تعطہ واشفع تشفع۔

 (ابن ماجہ ،ص٣٢٠،قدیمی کراچی)

 یہ چند احادیث مبارکہ بطور ''مشت نمونہ خرو ار'' قارئین کی خدمت میں پیش کئے گئے، جس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو یا محمد ( ﷺ ) کے ساتھ نداء اور خطاب فرمایا ہے، جس سے یا محمد ﷺ کا جواز ثابت ہوا، اور یہ بھی کہ یا محمد ﷺ ادب اور احترام کے منافی نہیں بلکہ اگر کوئی شخص عشق ومحبت اور ذکر کرنے کی نیت سے یا محمد ﷺ کا نعرہ لگائے تو یہ جائز ہے۔ صحابہ کرام کا عمل (یامحمداہ ) کواسی معنی پر محمول کیا جائے گا۔

علامہ ابن قیم اور یا محمد ﷺ :

 ابن قیم جوزی کے حوالے سے حضرت ابوبکر بن مجاہد اور حضرت شبلی کا واقعہ ان شاء اللہ مفصل انداز سے فصل ثانی میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے جس میں درود شریف ''صلی اﷲ علیک یامحمد'' کا جواز اور ثبوت ہے۔

 ان تمام دلائل سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یا محمد ﷺ کہنا جائز ہے نہ کہ حرام اور بے ادبی، ان شا ء اللہ فصل ثانی اور فصل ثالث میں اقوال بزرگان دین اور علماء دیوبند کی عبارات پر گہری نظر رکھنے والوں کو حقیت معلوم ہو جائے گی۔

یامحمد ﷺ کہنا منکرکام ہے :(العیاذباللہ )

 چارباغی مولوی نے اپنی کتاب کے ص٢٠ پر خوا زہ خیلہ سوات کے گستاخ رسول کی حمایت میں یہاں تک لکھ دیا :

''یا محمد ﷺ محراب پر لکھنا نہ شرعاً ضروری ہے اور نہ مقاصد شرعیۃ میںسے ہے ،بلکہ ایک منکر کام ہے، اور منکر کا ازالہ بھی شرعاً ماموربہ ہے۔

کقولہ علیہ السلام من رای منکم منکراً فلیغیرہ بید ہ الخ (الحدیث)۔

 مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ ''یامحمد'' لکھنا منکر کام ہے۔ اور مقاصد شرعیہ سے نہیں اس لئے مٹایا گیا ہے۔ اس بارے میں ہم اتنا ہی عرض کردینگے کہ جس طرح ''یا محمد'' لکھنا مسجد یا محراب میں نہ شرعاً ضروری ہے اور نہ مقاصد شرعیہ سے ہے تو اسی طرح ''یا اللہ'' بھی کسی دلیل سے مسجد و محراب میں لکھنا ثابت نہیں اور نہ اسکا لکھنا ضروری ہے۔ جیسے کہ خود چارباغی مولوی کی کتاب کے ص١٨ پر مولوی خیر محمد جالندھری کے حوالے سے لکھا گیا ہے:

سوال:مسجد کی دیواروں پر شرعاً یا اللہ یا محمد ﷺ لکھنا جائزہے؟ یا لازماً صرف اللہ محمد ﷺ لکھنے کا حکم دیا گیاہے؟

جواب: شریعت میں ایسا کہیں نہیں ملتا کہ یہ الفاظ مساجد میں ضرور لکھے جائیں۔

 (خیرالفتاوٰی، ص١٤،ج١)

مسجد کی دیوار پر اللہ و محمد ﷺ لکھنا ضروری نہیں:

 مفتی جالندھری کے فتوے کی روشنی میں جب ''یااللہ یا محمد ﷺ '' اور اللہ محمد ﷺ دونوں مسجد کی دیواروں پر لکھنا ضروری نہیں تو جب مسجد سے گستاخ رسول نے ''یامحمد ﷺ '' کو اس لئے گرایا کہ یہ لکھناضروری نہیں تو ''یا اللہ'' کو بھی گرادیتے کیونکہ یہ بھی تو لکھنا ضروری نہیں۔ لیکن اس گستاخ حرکت سے معلوم ہوا کہ یہ اصل میں توہین رسالت کی وجہ تھی نہ کہ شرعی مسئلہ کی۔ اور اگر اس لئے مٹا یا کہ یہ شرک ہے تو پھر اپنے اکابر دیوبند کی آخرت کے بارے میں بھی ذرا سوچ کر آنسو بہادیجئے کہ وہ حضرات نداء ''یا رسول اللہ ﷺ '' کو جائز مانتے ہوئے اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ جوتمہارے نزدیک شرک و بدعت ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر مسجد کی دیوار سے یا محمد ﷺ کو اس لئے مٹا یا گیا کہ یہ ایک منکر کام ہے یعنی اس میں شرک کا شائبہ ہے اور منکر کام کاہاتھ سے مٹانا مامور بہ ہے تو ان سے یہ عرض ہے کہ پوری دنیا میں ان کو صرف یہی کام منکر اور ناجائز نظر آیا کہ مسجد کی دیوارسے ''یا محمد ﷺ '' کو مٹا یا ۔ اس کے علاوہ کہیں اور ناجائزو منکر کام موجود نہیں؟ کم از کم اپنے موجودہ گلابی دیوبند یوں کے اکابرین کے منکرات کا تو جائزہ لیتے کہ وہ کیسے کیسے منکرات قطعی میں ملوث ہیں۔ اگر ان پر شرعی حدود قائم نہیں کرسکتے تو کم از کم ان سے برائے مسلمانی کنارہ کشی تو اختیار کرلیتے۔ لیکن نہیں اور ہر گز نہیں بلکہ ان منکرات کے باوجود ان کے یہ اکابر ( گلابی دیوبندی) بزرگ اور خدارسیدہ ہیں۔ اس موقع پر انکو حدیث رسول ﷺ :من رأی منکم منکرا، الخ(ا لحدیث) یادنہ رہی، لیکن جب اسلاف اور علماء دیوبند کا متفقہ عقیدہ ''یا رسول اللہ'' کا مسئلہ آیا جو ان منکرین کے دل میں خار کی طرح چبھنے لگا تو فوراً گستاخی پر اتر آئے۔ پھر نہ اسے عقل رہی نہ شعور ( حیف صد حیف ایسے علم و توحید پر )

 دوسری بات یہ کہ چارباغی ملا نے ''یا محمد ﷺ کو لکھنا بدعت اور بے ادبی ثابت کرنے کیلئے نام نہاد دیوبندی مفتیوں سے فتوے طلب کرکے اپنی کتاب کے ورق سیاہ تو کردیئے لیکن دل کے کورے مصنف کو فتوے اطمینان سے پڑھنے نصیب نہ ہوئے۔ اور بدعتی اور بے ادب کی رٹ لگاتے لگاتے اپنا خیال نہ کیا کہ کہیں ہم پر اس فتوے میں کوئی گرفت تو نہیں۔ کیونکہ خوازہ خیلہ کے گستاخ نے یا محمد ﷺ کو مسجد کی دیوار سے مٹا کر گرادیا اور ان حقیقی بدعتیوں کے نزدیک اس نے اچھا کیا ،کیونکہ یا محمد ﷺ لکھنا بے ادبی ہے۔ لیکن اس بارے میں کم از کم کراچی کے دیوبندی مفتی چاٹگامی بنوری ٹاون کا فتویٰ تو اطمینان سے پڑھ لیتے،کہ انہوں نے کیا لکھا ہے۔

مفتی چاٹگامی کا فتویٰ :

مفتی چاٹگامی (مفتی جامعۃ العلوم بنوری ٹاؤن )لکھتے ہےں:

''ولیس بمستحسن کتابۃ القرآن علی المحاریب والجد ران لما یخاف من سقوط الکتابۃ .( عالمگیری)

محرابوں اور دیواروں پر قرآن (کے الفاظ )لکھنا اچھا نہیں ہے کیونکہ اس میں ان کے (زمین پر)گرنے کا خوف وخطرہ ہے۔

 مفتی چاٹگا می نے گستاخ رسول کی جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن خود اسے بے ادبی کے گھڑے میں دھکیل دیا۔ کیونکہ عالمگیری کی عبارت سے معلوم ہوا کہ مسجد کی محراب پر آےات قرآنی اس لئے لکھنا اچھا نہیں کہ اس کے گرنے کا ڈر ہے۔ اب آپ انصاف کریں جو شخص قرآن کو مسجد کی دیوار پر لکھتا ہے تو یہ اچھا نہیںکیونکہ اس میں آیت کے گرنے کا ڈر ہے۔ لیکن جو شخص خود مسجد کی دیوار سے یامحمد ﷺ جو قرآن کا جملہ ہے مٹا کر گرادے تو آیا وہ باادب ہوا یا بے ادب؟

یا محمد کہنا بریلویوں کا شعار ہے :

 مولوی عبداللہ چاباغی اور دیگر مدارس دیا بنہ وہا بیہ کے مفتیان نے یا محمد ﷺ کے عدم جواز کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ لکھی کہ:

''مسجد کے محراب پر یا محمد ﷺ لکھنا آج کل بریلویوں کا شعار ہے اور اہل بدعت لوگوں کا شعار ترک کردینا چاہیے''

 مندرجہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ یا محمد ﷺ لکھنا اور پڑھنا بریلویوں کا شعار ہے اور یہ بدعت ہے، لہذا یامحمد ﷺ کے مجوزین بدعتی ہوئے۔ اب چارباغی مولوی اپنے اور دیگرہمنوامولویوں کے علم کا جائزہ لیں کہ انہوں نے سوات میں رہ کر کن علماء سے علم دین حاصل کیا ،اور ان کا عقیدہ بھی معلوم کرلیں کہ ان گستاخوں کے استاذو ں کا یا محمد ﷺ کے بارے میں کیا عقیدہ تھا۔ آیا ان کے استاذان کے قول باطل کی وجہ سے بدعتی ہوئے یا نہیں؟ اور جب انکو یہ معلوم تھا کہ سوات کے اکابر اساتذہ (دیوبند) یا محمد ﷺ کے جواز کے قائل تھے جسکی دلالت آج بھی سیدو بابا رحمۃ اللہ علیہ کی جامع مسجد میں لکھے ہوئے یا محمد ﷺ سے ہوتی ہے، تو پھر ان گستاخانِ اساتذہ کو ا پنے ان بدعتی استاذوں سے علم دین حاصل کرتے ہوئے شرم نہیں آتی تھی۔ اور آج اپنے اساتذہ کی توہین کرتے ہوئے ان کی غیرت بیدار نہیں ہوتی کہ اپنے اکابراساتذہ کی طرف شرک و بدعت اور بریلویت منسوب کرتے ہیں۔

 لیکن یہ تو اظھر من الشمس ہے کہ ان حقیقی بد عتیوں نے اپنے اساتذہ کے دیگر عقیدوں پر کتنے ڈاکے ڈالے ہیں، اور معمولات اہل سنت پر جوان کے استاذوں کے بھی معمولات تھے انہوں نے کتنے گستاخانہ فتوے دئیے۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان گستاخوں کو تو دیو بندیت سے کوئی سروکار ہی نہیں کیونکہ انہوں نے دیوبندیت سے ہٹ کر اپنا الگ نام تجویز کیا ہے، لیکن وہ مفتیان جو دیوبندمسلک کے مدارس کی روٹی پانی پر زندگی گزار رہے ہیں اور معاشرے میں دیوبندی نام سے معروف ہے تو وہ کیوں ان کی دم پکڑ کر اپنی دیوبندیت اور استاذوں کی توہین کر رہے ہیـں۔ (افلا یعقلون)

شکم پرست مولویوں کا رویہ:

 لیکن ان کے روئیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے مولویوں کو نہ عقیدہ سے کام ہے نہ دیوبندیت اور اہل سنت سے، مگر جس طرف ترازو کا پلڑا جھکا اور کچھ نقدی نظر آئی تو یہ بھی خود بخود اسی طرف چلتے بنے۔ اور فتویٰ دینے میں پھر کسی بھی اپنے اکابر کا خیال تک نہ آیا۔ اور یا محمد ﷺ کے عدم جواز کو ثابت کرنے کےلئے اپنی عادت کے مطابق علماء اہل سنت پر الزام لگایا کہ یہ بریلویوں کا شعار ہے۔

نداء یا رسول اللہ میں بریلوی اور دیوبندی علماء متفق ہیں:

 لیکن ان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یا محمد ﷺ و یا رسول اللہ کے جواز میں اکابر علماء دیوبنداور دیگر اہل سنت علماء کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں، بلکہ علماء دیوبند کے پیرو مرشد حاجی امداداللہ مہاجر مکی قدس سرہ نے اس کے جواز اور پڑھنے کی اجازت پر قول کیا،جس کی تفصیل ان شاء اللہ فصل ثالث میںآجائے گی۔ لیکن جب ان باطنی کوروں کو مطالعہ کی توفیق نہ ہوئی تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔

درد مندانہ درخواست:

 لیکن ہم تو دیوبندکے موجودہ حامیوں اور عقیدتمندوں سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ یامحمد ﷺ و یارسول اللہ کے مسئلے کے بارے میں اپنے اکابر کی اردو کتابیں خود مطالعہ کرکے اپنی تسلی کرلےں۔ اور پھر ان گستاخـ دیوبند مولویوں سے قطع تعلق کرلیں، کیو نکہ یہ گلابی دیوبندی دیوبندیت کے نام پر ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب نجدی جیسے اکابر وہابیت کے عقیدے کی پرچار کر رہے ہیں۔ جن کا عقیدہ تمام علماء دیوبند کے نزدیک خوارج کا عقیدہ تھا۔ اور علماء دیوبند کے نزدیک ان وہابیوں کی اقتداء میں نماز مکروہ تحریمی ہے۔

قائلین یا رسول اللہ کی امامت مکروہ تحریمی ہے:

چارباغی مولوی نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ:

جو یا محمد ﷺ و یارسول اللہ کے جواز کے قائل ہیں، تو و ہ اگر مشرک نہیں تو بدعتی ضرور ہیں، اور بدعتی کی اقتداء میں نماز مکروہ تحریمی ہے۔

 سبحان اللہ دنیا میں عالم دین اور مفتی کے نام پر کتنے لوگ عوام کے عقیدے پر ڈاکے ڈال رہے ہیں، لیکن اپنی آخرت کی فکر نہیں کہ ان کا کیا حشر ہوگا، کیونکہ یہ گلابی دیوبندی تو عوام الناس کی خیر خواہی کر رہے ہیں کہ یا رسول اللہ کے ماننے والے بد عتیوں کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے لوگوں کو روک رہے ہیں،لیکن ہم ان سے صرف اتنا عرض کرتے ہےں کہ تم لوگ خود بھی اپنی گریبانوں میں ذرا جھانک کردیکھ لو کہ تم لوگوں نے ریاست سوات میں علم دین کن اساتذہ سے حاصل کیا، اور نمازیں کہاں پڑھی ہیں؟ کیا تمہارے اساتذہ سوات یا محمد ﷺ و یارسول اللہ کے جواز کے قائل نہیں تھے؟ اگر تمہارا جواب نفی میں ہے تو اپنے اساتذہ پر جھوٹ باندھنے سے ذرا حیا کرنی چاہیے، اور اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر یہ فتویٰ بھی لگا دیجئے کہ کل اساتذہ ریاست سوات کی نمازیں ضائع و باطل ہیں، اور جنہوں نے بھی(جن میں تم لوگ بھی ہو) ان کی اقتدا میں نمازیں پڑھی ہیں تو وہ واجب الاعادہ ہے۔ لیکن ان گستاخوں سے ان نمازوں کے اعادے کی امید نہیں۔

مولوی چارباغی کی دور نگی:

 مارچ 2001 ء میں جب مولوی عبداللہ چارباغی کے بہنوئی اور ہمارے استاذ محترم علامہ رسول سیدصاحب کاکا خیل(شیخ الحدیث :گورنمنٹ دارالعلوم اسلامیہ سیدو شریف سوات) حج سے تشریف لائے تو دوسرے دن ظہر کی نماز چارباغی مولوی نے علامہ رسول سید صاحب کی مسجد میں گورنمنٹ دارالعلوم اسلامیہ چارباغ سوات کے صدر مولانا مسعود احمد صاحب کی اقتدا میں ادا کی ،جو یامحمد ﷺ و یا رسول اللہ کے جواز کے قائل ہیں، (بلکہ زیر نظرکتاب السیف المسلول پر ان کی تقریظ بھی ہے،الحمد للہ) اس دن چاباغی مولوی کو بدعتی کی اقتداء میں نماز مکروہ تحریمی والا فتویٰ یاد نہ رہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ چارباغی مولوی یا تو فرمان خداوندی:

 '' آتأ مرون الناس بالبروتنسون انفسکم''

کا مصداق ہے، اور یا فرمان خدا و ندی:

 ''لم تقولون مالا تفعلون'' کا۔

یہ چند سطور عوام الناس کی اصلاح کے لئے وجود میں لائے گئے، اگر چہ مولوی چارباغی کی کتاب پر ازروئے عبارت (عربی ادب اور اردو ادب) بھی گرفت ہوسکتی ہے، لیکن ''الانأ تر شح بما فیہ'' کی بناء پر جب باطن ایسا صاف ہے تو ظاہر سے کیا سروکار۔

 لیکن ان گلابیوں سے اتنی عرض ہے کہ خدارا: تم لوگوں کا جوبھی عقیدہ ہو اس پر غیرت سے ڈٹ کر رہیے، لیکن اپنا عقیدہ اور دیوبندیت کو خلط ملط کرنے سے ذرا اجتناب کیجئے۔

 (الحمد للہ پہلی فصل ختم ہوئی)

 

 

 

 

دوسری فصل

نداء یا رسول اللہ ﷺ کا سلفاً و خلفاً جواز:

 اس فصل میں صحابہ کرام، تابعین اور سلف صالحین کی وہ عبارتیں نقل کی جائےں گی جن میں ان حضرات نے نداء یا رسول اللہ و یا محمد ﷺ کا یا دیگر غائبانہ نداء کا استعمال کیا ہے۔

علماء اہل سنت پر الزام اور اسکا دفاع:

 دلائل سے پہلے یہ بات ذہن نشین فرمائیے کہ اہل سنت و جماعت پر منکرین اور گلابی دیوبندیوں کی طرف سے جس انداز سے جھوٹ بولا جاتا ہے کہ اھل سنت و جماعت حضور ﷺ کو ہر جگہ اس طرح حاضر و ناظر مانتے ہیں کہ آپ ﷺ کےلئے مسجدوں میں کرسی رکھتے ہیں، یا صف اول میں جگہ خالی چھوڑتے ہیں کہ اس جگہ آپ ﷺ آکرنماز پڑھیںگے، یا محفل میلاد میں اچانک سب لوگ کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ آپ ﷺ تشریف لائے، یا اس طرح کے دیگر من گھڑت خرافات اور جھوٹ بول کر اہل سنت کو بدنام کرتے ہیں، تو اس بارے میں ہم اہل السنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ مذکورہ عقیدہ و طریقہ جسکا بھی ہو ہمارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور اہل سنت اس طرح کی بے ادبی کرنے سے بیزار ہیں، یہ کسی جاہلوں کا طریقہ ہوگا، ہمارا یہ عقیدہ نہیں، لیکن ''تنگ آید بجنگ آید'' کے تحت ان مخالفین و منکرین سے جب جواب نہیں بن سکتا تو اپنی عادت کے مطابق تھمت اور الزامات لگانا شروع کردیتے ہیں (اللہ کی پناہ)۔

 اصل میں ان گلابیوں نے اہل السنت اور اپنے اکابر علماء دیوبند کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا، اور پھر لاعلمی میں کفرو شرک کے و ہ فتوے جاری کئے کہ جس میں ان کے اپنے اکابر کی بھی خیر نہ رہی، اور فتوے کی زد میں آگئے۔ (العیاذ باللہ من سؤالادب) ''مسئلہ حاضر و ناظر اور علماء دیوبند'' کے نام سے انشاء اللہ ایک مدلل اور مختصر رسالہ عنقریب اپنے سادہ لوح مسلمان بھائیوں کی خدمت میں پیش کیا جائے گا جس سے یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ آپ ﷺ کے حاضر و ناظر ہونے کے بارے میں اکابر علماء دیوبند کا کیا عقیدہ ہے، لیکن فی الحال ''مشت نمونہ خروار'' چند حوالے برائے تسلی پیش کئے جاتے ہیں تاکہ چارباغی مولوی کی تصنیف لطیف سے عوام کی ذہنوں پر جو اثر ہوا ہے اسکا روحانی اور تسلی بخش علاج ہو سکے۔

آپ ﷺ کا بیداری میں دیدار:

سب سے پہلے شیخ الحدیث دیوبند شیخ انور شاہ کشمیری صاحب کی زبانی یہ بات سماعت فرمائےے کہ آیا آپ ﷺ کو بیداری میں دیکھا جا سکتا ہے یا نہیں؟ لکھتے ہیں:

''ویمکن عندی رویتہ ﷺ یقظۃ لمن رزقہ اللہ سبحانہ کما نقل عن السیوطی رحمہ اللہ انہ راہ ﷺ اثنین و عشرین مرۃً.

 (فیض الباری، ص٢٠٤، جلد اول،حقانیہ پشاور)

میرے نزدیک آپ ﷺ کو عالم بیداری میں دیکھنا ان حضرات کےلئے جن کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے مشرف فرمائے جائز ہے۔ جیسا کہ امام سیوطی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ آپ نے حضور ﷺ کو بائیس مرتبہ حالت بیداری میں دیکھا ہے۔

علامہ کشمیری کی تحقیق :دوسری جگہ لکھتے ہیں:

والشعرانی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ ایضا کتب انہ راہ ﷺ و قرأ علیہ البخاری فالرؤیۃ یقظۃ متحققۃ و انکا رھا جھل.

 (فیض الباری ،ص٢٠٤، ج اول،ایضا)

امام شعرانی قدس سرہ نے لکھا کہ آپ نے حضور ﷺ کو بیداری میںدیکھا اور آپ ﷺ کے سامنے بخاری شریف پڑھی ،پس آپ ﷺ کا بیداری میں دیدار کرنا حق اور ثابت ہے، اور اس سے انکار جہالت ہے۔

 سبحان اللہ: یہ ہے اکابر علماء دیوبند کا عقیدہ کہ بیداری میں آپ ﷺ کا دیدار کرنا ثابت اور اس سے انکار جھالت ہے۔ اور دوسری طرف گلابیوں کا عقیدہ ''انکار حیات النبی ﷺ '' کا ہے۔ اب یہ دونوں یعنی اکابر دیوبند اور گلابی دیوبندی آپس میں جانیں کہ کون کس کو جاہل اور کون کس کو مشرک ٹہراتا ہے،اہل سنت تماشہ دیکھیں گے۔ اور انصاف قارئین حضرات فرمائیں کہ حقیقت کیا ہے۔

علامہ سیوطی قدس سرہ اور بیداری میں دیدار نبوی:

امام جلا ل الدین سیوطی قدس سرہ (جنکی عظمت شان فیض الباری کے حوالے سے بیان کی گئی) فرماتے ہیں :

''قال البارزی: و قد سمع من جماعۃ من الاولیاء فی زماننا و قبلہ انھم رأوا النبی ﷺ فی الیقظۃ حیا بعد و فاتہ و قال الشیخ عبدالقادر الکیلانی رایت رسو ل اﷲ ﷺ قبل الظھرالخ۔ و قال الشیخ ابو العباس المرسی: و اﷲ ماصافحت بکفی ھذ ہ الارسول اﷲ ﷺ و قال لو حجب عنی رسول اﷲ ﷺ طرفۃ عین ما عددت نفسی من المسلمین۔

 (ا لحاوی للفتاویٰ، ص٢٤٦،٢٤٥، جلد دوم،تنویر الحلک،رشیدیہ کوئٹہ)

امام بارزی فرماتے ہیں: اور آپ نے ما قبل اور اپنے زمانے کے اولیاء کی جماعت سے سنا کہ انہوں نے آپ ﷺ کو بعد الوفات بیداری میں زندہ دیکھا ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ فرماتے ہیں :کہ میں نے آپ ﷺ کو ظھر سے پہلے دیکھا۔ شیخ ابو العباس المرسی فرماتے ہیں: کہ میں نے اپنے ہاتھ سے بغیرآپ ﷺ کے کسی سے مصافحہ نہیں کیا۔ اور اگر آپ ﷺ مجھ سے ایک لمحہ بھی غائب ہو جائے تو میں اپنے آپ کو مسلمان نہیں سمجھتا۔

 سبحان اللہ۔ یہ ہے اکابر علما ء دین اور اولیا اللہ کا مذہب کہ ہر وقت آپ ﷺ کے ساتھ رابطہ رہتا ہے۔ نظروں سے غائب نہیں ہوتے۔

 اب علماء دیوبند کی بھی سنیں کہ ان کا عقیدہ حاضر وناظر کے بارے میں کیا ہے؟

محفل مولد میں حضور پر نورکا رونق افروز ہونا:

شیخ الکل حاجی امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہ فرماتے ہیں:

رہا اعتقاد کہ مجلس مولد میں حضورپُر نور ﷺ رونق افروز ہوتے ہیں ،اس اعتقاد کو کفرو شرک کہنا حد سے بڑھنا ہے۔ کیونکہ یہ امر ممکن عقلاً و نقلاً بلکہ بعض مقامات پر اسکا وقوع بھی ہوتا ہے۔ (کلیات امدادیہ، ص٧٩،دارالاشاعت کراچی)

شیخ اشرف علی تھانوی اور حاضر و ناظر:

حکیم الامت دیوبند علامہ تھانوی صاحب حاجی صاحب کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :

اگر میلاد میں احتمال تشریف آوری کا کیا جائے تو مضائقہ نہیں ،کیونکہ عالم خلق مقید بزمان و مکان ہے، لیکن عالم امردونوں سے پاک ہے، پس قدم رنجہ فرماناذات بابر کات کا بعید نہیں۔ (امداد المشتاق ،ص٥٦،مکتبہ اسلامیہ لاہور)

 یہ ہے علماء دیوبندکاعقیدہ جو علماء اہل سنت(بریلوی) کے عین موافق ہے۔ کفرو شرک کے فتوے لگانے والے ذرا علماء دیوبند کا عقیدہ بھی سن لیں تاکہ ہمارا فریضہ ''تبلیغ'' پورا ہو جائے کہ ہم نے گلابیوں کو دیوبند کا عقیدہ سنا دیا، اور پھر گلابی دیوبندی کا فرض ہے کہ وہ حق کوجان کر ان کے نزدیک جو باطل ہے اسکا رد کریں۔

 اب اصل مقصد کی طرف آتا ہوں کہ یا محمد ﷺ ویا رسول اللہ کہنااور غیر اللہ(غائب) کو ندا کرنا(آواز دینا) آیا صحابہ کرام کے دور میں تھا یا نہیں؟ کیونکہ چارباغی مولوی کی تصنیف لطیف سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جائز نہیں۔

 علامہ ابن کثیر کے حوالے سے یا محمد ﷺ کا جواز عہد صحابہ میں ضمنًا ایک جواب میں گزرچکا ہے۔ اب یہاں مستقل دلیل کی حیثیت سے نقل کیاجاتا ہے۔

علامہ ابن کثیر اوریا محمد ﷺ و یا رسول اللہ :

حافظ ابن کثیر اپنی شھرہئ آفاق تصنیف میں صحابہ کرام کا معمول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ثم نادی بشعار المسلمین وکان شعار ھم یو مئذ ''یا محمداہ ﷺ '

 (البدایہ والنہایہ، ص٣٠٨، ج ٦،مقتل مسیلمۃ الکذاب لعنہ اللہ،بیروت)

علامہ ابن اثیر اور یامحمد ﷺ و یا رسول اللہ :

اسی روایت کو علامہ ابن اثیر نے بھی ذکر کی ہے، لکھتے ہیںـ:

''ثم برز خالد ودعا الی البراز و نادیٰ بشعار ھم وکان شعارھم یامحمداہ فلم یبرز الیہ احد الاقتلہ'

 (الکامل فی التاریخ، ص٢٤٦،ج٢ ،مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت)

 اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کا جنگ کے وقت یا محمداہ ﷺ '' کہنے کا معمول تھا۔ کیونکہ ابن کثیر و ابن اثیر نے اسکو ''شعار المسلمین'' یعنی مسلمانوں کی علامت فرمایا ہیں۔

 اب گلابی دیوبندی کہ جنہوں نے یا محمد ﷺ کو پڑھنا بے ادبی ناجائز اور شرک تک کہا، وہ ذرا اپنے گریبانوں میں جھانک کر جواب دیں کہ آیاان کے اس فتوے سے صحابہ کرام محفوظ ہیں؟

 اگر فتوے کا حکم عام ہو ، یعنی جہاں علت '' یا محمد ﷺ '' پائی جائے وہاں حکم''مشرک وبدعتی 'کا پایا جا ئے گا تو پھر صحابہ کرام کہ جن کاشعار ''یا محمداہ ﷺ '' تھا، ان کو مشرک وبد عتی کہنے والوں کا ازروئے شریعت حکم کیا ہے؟ اس کا جواب اگر توفیق ہوئی تو کسی دوسری تصنیف میں عنایت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔

 یہ تھی وہ دلیل کہ صحابہ کرام کے زمانے میں '' یامحمداہ ﷺ '' کا معمول تھا جو ان صاف دل مولویوں کو نظر نہ آئی۔ (اللہ کرے کہ اب نظر آکراس کو قبول کریں)

آپ ﷺ کا خود یامحمد ﷺ کی دعا کی تعلیم دینا:

خود آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو حاجت روائی کیلئے ایک دعاکی تلقین فرمائی جس میں لفظ '' یامحمد ﷺ '' کاا ستعمال ہو اہے۔ وہ دعا آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی صحابہ میں معمول رہی۔ یہ دعا صحاح ستہ کی کتابوں میں سے ابن ماجہ وغیرہ نے ان الفاظ سے نقل فرمایا ہے :

''عن عثمان بن حنیف ان رجلاضریر البصر اتی النبی ﷺ فقال ادع اللہ لی ان یعا فینی فقال ان شئت اخرت لک وھوخیرو ان شئت دعوت فقال ادعہ فامرہ ان یتوضأ فیحسن وضوء ہ ویصلی رکعتین وید عوبھذ ا الدعائ، اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بمحمد ﷺ نبی الرحمۃ یامحمد ﷺ انی قد توجھت بک الی ربی فی حاجتی ھٰذ ہ لتقضی اللھم فشفعہ فی۔

 (ابن ماجہ، ص ٩٩،باب صلوٰۃ الحاجۃ،قدیمی کراچی)

حضرت عثمانؓ بن حنیف فرماتے ہیں کہ ایک نابینا شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا تو اس نے کہا کہ حضرت آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے صحت یاب ( اور بینا) کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو میں دعا کروں ، اور اگر تو چاہے تو صبر کر، اور صبر ہی تیرے لئے بہتر ہے۔ اس نے کہا حضرت آپ دعا فرمائیں آپ ﷺ نے حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کرے اور یہ دعا پڑھے۔ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہو اور تیری طرف تیرے نبی حضرت محمد ﷺ جو نبی الرحمۃ ہیں کے وسیلہ سے توبہ کرتا ہو۔ حضرت میں آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ پیش کرتا ہوں تا کہ میری یہ حاجت پوری ہو جائے۔ اے اللہ تو انکی شفاعت میرے بارے میں قبول فرما۔

(ترجمہ مولوی سرفراز خان صفدر گکھڑوی کی تسکین الصدور سے نقل کیا گیا ہے۔راقم)

 مندرجہ بالا حدیث کہ جس میں اہل السنت والجماعت کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے کہ یامحمد ﷺ کہنا جائز ہے اور آپ ﷺ نے خود اسکی تعلیم فرمائی ہیں۔

 اب اسی دعا کو انہی الفاظ کے ساتھ آپ ﷺ کے بعد پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ آیاصحابہ کرام اسی دعا کو انہی الفاظ کیساتھ کسی مصیبت کے وقت حاجت روائی کیلئے پڑھتے تھے یا نہیں؟ تو اس بارے میں محشی ابن ماجہ شریف شیخ عبدالغنی مجددی دھلوی مدنی لکھتے ہیں:

فقد روی الطبرانی فی الکبیر عن عثمان بن حنیف المقدم ان رجلا کان یختلف الی عثمان بن عفانؓ فی حاجۃ لہ فکان لا یلتفت الیہ ولا ینظر فی حاجتہ فلقی ابن حنیف فشکی الیہ ذلک فقال لہ ابن حنیف ائت المیضاء فتوضأ ثم ائت المسجد فصل رکعتین ثم قل اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنبینا محمد ﷺ نبی الرحمۃ یامحمد ﷺ انی اتو جہ الیک الی ربک فتقضی حاجتی. ( انجاح الحاجہ علیٰ ابن ماجہ)

حضرت عثمان بن حنیف سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عثمانؓ بن عفان کے پاس ایک ضروری کام کے سلسلہ میں آیا جایا کرتا تھا،لیکن حضرت عثمانؓ (غالباً بوجہ مصروفیت) نہ تو اسکی طرف توجہ فرماتے اور نہ اسکی حاجت براری کرتے۔ وہ شخص حضرت عثمان بن حنیف سے ملا، اور اسکی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا کہ وضو کی جگہ جا، اور و ضو کر پھر مسجد میں جاکر دورکعت نماز پڑھ، پھر کہہ اے اللہ: میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف تیرے نبی حضرت محمد ﷺ جو نبی الرحمۃ ہیں کے وسیلہ سے تو بہ کرتا ہوں، حضرت میں آپ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ پیش کرتا ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہوجائے، اے اللہ تو ان کی شفاعت میرے ب ارے میں قبول فرما۔

 (تسکین الصدور سے ترجمہ لیا گیا ہے)

 جب اس شخص نے یہ دعا کی تو ان کا کام ہوگیا۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہواکہ دعا میں یامحمد ﷺ کہنا جس طرح آپ ﷺ کی حیات میں جائز تھا اسی طرح بعد میں بھی جائز ہے۔ کیونکہ اس مصیبت زدہ شخص کی اس دعا پر کسی نے بھی نکیر نہیں فرمائی۔

 سبحان اللہ ۔عھد صحابہ میں واقعی یا محمد ﷺ کہنا مسلمانوں کا شعار تھا جیسا کہ حافظ ابن کثیراور علامہ ابن اثیر نے لکھا ہے، اور یہی عقیدہ اہل السنت والجماعت کاہے، اسی طرح اکابر علماء دیوبند میں سے مولوی خلیل احمد صاحب سہارن پوری بھی لکھتے ہیں:

شیخ خلیل احمدانبیھٹوی دیوبندی اور یا محمد ﷺ :

اقول اس قصہ میں توخود فخر عالم زندہ اس عالم میں تھے، اور آپ ہی کے حکم سے یہ عمل ہواتھا۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر تھے تو اس وقت میں تو کوئی ضرورت جواب وتوجیہ کی نہیں، اور بعد آپ کے معمول ہے تو اسی طرح سمجھ کر ہے کہ آپ کی خدمت میں تبلیغ ہوتی ہے ملائکہ پہنچاتے ہیں۔

 (البراھین القاطعہ، ص٢٢٣ ،٢٢٢،دار الاشاعت کراچی)

 گلابی دیوبندی ذرا اپنے اکابر کے عقیدے سے با خبر ہو جائےں تا کہ شرک و بدعت کہنے میں ذرا احتیاط بھرتےں۔ ان کی خدمت میں التجاہے کہ ذرا سہارنپوری کی مذکورہ عبارت پر نظر دوڑائے ''بعد آپ کے معمول ہے'' اور پھر اپنی گریبانوں میں جھانکیں تا کہ ان کو اپنے علم کا اندازہ ہو جائے کہ انہوں نے لا علمی میں پتہ نہیں کتنی ہستیوں کو مشرک و بدعتی کہا ہے، کیونکہ صحابہ کرام کے دور سے لیکر آج تک اہل السنت والجماعت کا معمول '' یامحمد ﷺ '' ہے اور تھا۔

مولوی وحیدالزمان غیر مقلد اور یا محمد ﷺ :

 ابن ماجہ شریف کی مذکورہ حدیث غیر مقلدین کے شیخ الکل مولوی وحید الزمان نے بھی اثبات کیلئے ذکرکی ہے لکھتے ہیں:

''ومن النوافل المستحبۃ صلوٰۃ الحاجۃ رکعتان والثنأ علی اللّٰہ تعالیٰ والصلوٰۃ علی النبی ﷺ بعد ھا ثم ید عو بالدعا ء المشھور لا الہ الا اللہ الحلیم الکریم الخ وفی بعض طرقہ یامحمد ﷺ انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی لی اللھم فشفعہ فی ذکرہ الجزری فی الحصن.

 (نزل الابرار،ص ١٢٨،حصہ اول،ناشر: جمعیت اہل سنت لاہور)

مستحب نوافل میں سے صلوٰۃ الحاجۃ بھی ہے کہ دو رکعت نماز پڑھ کر حمد وثناء اور درود شریف کے بعد مشہور دعا''لا الہ الا اللہ الحلیم الکریم '' آخر تک پڑھیں ،اور بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ پڑ ھیں :''یا محمد ﷺ میں آپ ﷺ کے وسیلے سے اپنی حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ پوری ہوجائے ،یا ا للہ آپ ﷺ کی شفاعت میرے بارے میں قبول فرما،امام جزری نے اس کو حصن حصین میں بھی ذکر کیا ہے۔

 نزل الابرار اورعلامہ جزر ی کی حصن سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ تمام عالم اسلام کے مسلمانوں کا بوقت مصیبت شعار ''یا محمد ﷺ '' تھا اور اب بھی ہے۔

 جب غیر مقلد اس پر کوئی انکار نہیں کرتے تو گلابی دیوبندی جو اپنے آپ کو حنفی دیوبندی کہتے ہیں انکو '' یا محمد ﷺ و یا رسول اللہ'' کے جواز میں شک کرنے اور اسکی مخالفت میں کفر وشرک کے فتوے دینے سے حیا نہیں آتی۔

 لیکن ان دلائل سے معلوم ہوا کہ ندا '' یا محمد ﷺ و یا رسول اللہ'' جائز تھا اور اب بھی ہے۔(ولوکرہ۔۔۔) نہ اس وقت شرک تھا نہ اب شرک ہے بلکہ عین معمول مسلمانان ہے۔

علامہ طحطاوی حنفی اور یا رسول اللہ ﷺ :

مشہور حنفی فقیہ علامہ سید احمد طحطاوی الحنفی قدس سرہ فرماتے ہیں:

''ذکر القہستانی عن کنز العباد انہ یستحب ان یقول عند سماع الاولی من الشھاد تین للنبی ﷺ ''صلی اللہ علیک یارسول اللہ''وعند سماع الثانیۃ قرت عینی بک یا رسول اللہ الخ . (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، ص٢٠٥،باب الاذان،قدیمی کراچی)

اذان میں جب آپ ﷺ کا اسم مبارک سنے تو پہلی مرتبہ ''صلی اللہ علیک یارسول اﷲ '' اور دوسری دفعہ ''قرۃ عینی بک یا رسول اللہ'' پڑھنا مستحب ہے۔

علامہ شامی اورعلامہ اسماعیل حقی اور یا رسول اللہ:

 ''صلی اللہ علیک یا رسول اللہ'' کے استحباب پر مذکورہ روایت کو اسی حوالے سے تفسیر جلالین ص٣٥٧ کے حا شیہ پر بھی نقل کی گئی ہے ،اور اس کے علاوہ علامہ شامی نے فتاویٰ شامی ، ص٣٩٨،ج اول،باب الاذان،ایچ ایم سعید کراچی اور علامہ اسماعیل حقی نے تفسیر روح البیان ص ٢٣٨ج ٧ میں بھی ذکر کی ہیں۔

 اب ان دلائل کا اور مولوی چارباغی کے متضادا قوال و تحریر کاذرا منصفانہ انداز سے موازنہ فرمائیے ،اور پھر فیصلہ کیجئے کہ ملا چار باغی کا عقیدہ اور علم کس نہج کا ہے۔

 دور ا ور غائب شخص کو نداء کر نا خود صحابہ کرام کے دور میں مشہور ومنقول ہے، سیرت حضرت عمرؓ میں یہ واقعہ انتہائی مشہور ہے کہ آپ نے حضرت ساریہ کو مدینہ منورہ سے نہاوند کے علاقے میں ''یا'' کے ساتھ نداء کرکے حکم فرمایا۔

حضرت عمر ؓ کا ندا یا ساریۃ الجبل:

حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل النبہانی کرامات حضرت عمر ؓ میں یہ روایت نقل فرماتے ہیں :

''کان عمرؓ قد امر ساریۃ علی جیش من جیوش المسلمین وجھزہ علی بلاد فارس فاشتد علی عسکرہ الحال علی باب نھاوند وھو یحصرھا وکثرت جموع الا عد اء وکادَ المسلمون ینھزمون وعمرؓ بالمد ینۃ فصعد المنبرو خطب ثم استغاث فی اثناء خطبتہ باعلیٰ صوتہ یا ساریۃ الجبل.

 (حجۃ اﷲ علی العالمین ،ص٨٦٠،ترکی)

ملا علی قاری اور یا ساریۃ الجبل:

اسی مذکورہ روایت کو ملا علی قاری رحمہ الباری نے بھی نقل کی ہے۔ لکھتے ہیں:

''ورؤیۃ عمرؓعلی المنبر بالمد ینۃ جیشہ بنہاوند حتی قال لامیرالجیش یاساریۃ الجبل الجبل.

 (شرح ملا علی قاری علی الفقہ الاکبر،ص ٧٩،قدیمی کراچی)

سعودی غیر مقلد عالم صالح بن فوزان ا ور یا ساریۃ الجبل:

اسی روایت کو سعودی نجدی عالم'الدکتور صالح بن فوزان بن عبداللہ الفوزان''سے بھی سنئے:

رؤیۃ عمر لجیش ساریۃ وھو علی منبر المد ینۃ وجیش ساریۃ بنہاوند بالمشرق ونداء ہ لہ''یاساریۃ الجبل.

(شرح العقیدۃ الواسطیۃ لابن تیمیہ ،ص٢٠٩،مکتبۃ المعارف الریاض)

شیخ عبدالعزیز محمدسلمان اور روایت یا ساریۃ الجبل:

 مذکورہ روایت کو ''عبدالعزیز محمدسلمان ا لمدرس فی معھد امام الدعوۃ بالریاض سابقاً'' نے بھی اثباتاً روایت کی ہے، لکھتے ہیں:

و رؤیۃ عمر لجیش ساریۃ مع بعد المسافۃ فقال یا ساریۃ الجبل.

 (الاسئلہ والا جوبۃ الاصولیۃ علی العقیدۃ الواسطیۃ، ص٣١٤،سعودی عرب)

حضرت عمرؓ مدینہ منورہ میں منبر شریف پر جلوہ فرما تھے، اور ہزاروں میل کی مسافت پر حضرت ساریہ ؓجو امیر لشکر تھے، نہاوند کے مقام پر کافروں سے نبرد آز ماتھے، لیکن جب حضرت عمرؓ نے میدان جنگ کا نظارہ فرمایا تو فوراً ''یاساریۃ الجبل الجبل'' کا نعرہ لگایا، اور امیر لشکر کو کافروں کے حملے سے باخبر فرماکر ہدایت فرمائی۔

عزیز قارئین:یہ ہے صحابہ کرام کامعمول کہ انہوں نے خیرالقرون میں غائبانہ ''یا''حرف نداء کے ساتھ آواز دی ہے، ا ور دور دراز ملک میں امیر جیش نے سماعت فرمائی۔

 اصل میں آپ ﷺ کے ان صحبت یا فتہ صحابہ کرام اور حضرات خیر القرون کی وہ شان ہے کہ جس کو آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے روایت کی ہے۔ یعنی حدیث قدسی ہے جو امام بخاری نے اپنی صحیح البخاری میں تفصیلاً روایت کی :

قولہ ''ولایزال عبدی یتقرب الیَّ بالنوافل حتی احببتہ فکنت سمعہ الذ ی یسمع بہ وبصرہ الذ ی یبصر بہ وید ہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا الخ.

 (صحیح البخاری ،ص٩٦٣،ج٢،باب التواضع،نور محمد کراچی)

میرا بندہ ہمیشہ میری طرف نوافل (عبادت) سے نزدیک ہوتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنا لیتاہوں ،پھر میں اسکے وہ کان ہوجاتا ہوں جن سے یہ سنتا ہے، اور وہ آنکھ ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے ،اور وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے، اور وہ پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔ (مختصرمن الحدیث الطویل)

 تو اصل میں حضرت عمرؓ کا دور دراز علاقہ میں میدان جنگ کا دیکھنا، اور آواز دینا، اور حضرت ساریۃؓ کا دور سے سننا ،اور حکم کی تعمیل کرنا ،اسی قبیل سے ہے کہ ان حضرات کی بصارت و سماعت میں قوت اور طاقت منجانب ا للہ ہے، بلکہ اگر اس میں بھی مبالغہ کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، جیسا کہ حدیث قدسی کے الفاظ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں۔ اگر چہ ملا چار باغی نداند۔

 لیکن چارباغی مولوی نے جب بموجب ''المرئ یقیسں علی نفسہ'' اپنے آپ کا محاسبہ کیا کہ نہ تو میں دور سے دیکھتا ہوں، اور نہ ہزاروں میل سے سنتا ہوں، تو فوراً حکم لگادیا کہ نداء غیر اللہ کو شرک وبدعت ہے، لیکن حدیث کی طرف التفات کرنے کی زحمت گوارانہ کی تاکہ فرق مراتب جان لیتا۔ اور پھر انتہائی طیش عدا وت سے ایسا حکم لگایا کہ جس سے علماء اہل سنت تو کیا اکابر علماء دیوبند، اسلاف ملت بلکہ صحابہ کرام تک بچ نہ سکے۔ (لوکانوا یعلمون)

 حالانکہ عقیدہئ اہل سنت کا باربار اظہار کیا گیا ہے کہ انبیاء و اولیاء کو نداء علماء اھل سنت کے نزدیک اس طرح جائز ہے کہ فرشتہ بارگاہِ نبوی میں یہ پہنچائے یااللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے نبی یا ولی علیہ السلام کو اس کی اطلاع دے یا سنائے، اور اس عقیدہ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ فصل ثالث میں اکابر علماء دیوبند کے حوالے سے انشا ء اللہ ذکر کیا جائے گا۔

امام اعظم ابو حنیفہ اور یا رسول اللہ ﷺ :

 اب گلابیوں کی خدمت میں امام الائمہ امام ابوحنیفہ تابعی کا قول بھی پیش کیا جاتاہے کہ شاید ننگ حنفیت کی وجہ سے قبول فرماکر حسد سے باز آجائیں۔ فرماتے ہیں:

''یا اکرم الثقلین یا کنز الوری۔۔۔ جد لی بجودک وار ضنی برضاکا''

یا مالکی کن شافعی فی فاقتی۔۔۔انی فقیر فی الورٰی لفنا کا

 (القصیدۃ البھیۃ النعمانیہ،)

 ذرا اپنے امام اعظم رحمہ اللہ کے قصیدے میں الفاظ ''یااکرم الثقلین'' ''یا مالکی'' پر تو محبت بھرے دل سے نظر دوڑا کر اور پھر امام رحمہ اللہ کی عزت کی لاج رکھ کر ایسے فتوے سے گریز فرمائیے تاکہ امام رحمہ اللہ پرزبان درازی کیلئے غیر مقلدین (وہابیہ) کو موقع نہ ملے (نوازش ہوگی)''۔

علامہ ابن قیم اور نداء یا محمد ﷺ :

علامہ ابن قیم الجوز یہ درودشریف پڑھنے کے مقامات پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

(فصل الموطن الرابع والثلاثون من مواطن الصلوٰۃ علیہ الصلوٰۃ والسلام عقیب الصلوٰۃ)

ذکرہ الحافظ ابو موسیٰ وغیرہ ولم یذکروا فی ذلک سوی حکایۃ ذکرھا ابوموسیٰ المدینی من طریق عبد الغنی بن سعید قال: سمعت اسماعیل ابن احمد بن اسماعیل الحاسب قال اخبرنی ابوبکر محمد بن عمر قال: کنت عند ابی بکر بن مجاھد فجاء الشبلی فقام الیہ ابوبکر بن مجاھد فعانقہ وقبل بین عینیہ، فقلت لہ: یا سید ی تفعل ھذا بالشبلی وانت وجمیع من ببغد اد یتصورانہ مجنون؟ فقال لی: فعلت بہ کما رأیت رسول اللّٰہ ﷺ فعل بہ وذلک انی رأیت رسول اللّٰہ ﷺ فی المنام وقد ا قبل الشبلی فقام الیہ وقبل بین عینیہ فقلت: یا رسول اﷲاتفعل ھذ ا بالشبلی؟ فقال ھذ ا یقرء بعدصلا تہ۔ (لقد جاء کم رسول من انفسکم الی آخرھا و یتبعھا بالصلوٰۃ علیَّ وفی روایۃ انہ لم یصل صلاۃ فریضۃ الا ویقرا، خلفھا (لقد جاء کم رسول من انفسکم) الی آخرالسورۃ ویقول ثلاث مرات: صلی اﷲعلیک یا محمد قال فلما دخل الشبلی سالتہ عمایذکر بعد الصلوٰۃ فذکر مثلہ۔

 (جلاء الافھام، ص٢٥٨ ،)

 علامہ ابن قیم جوزی کی مندرجہ بالا عبارت کہ جس میں صلی اﷲ علیک یا محمد ﷺ کا ثبوت ہے، کا ترجمہ ہم شیخ محمد زکریا صاحب مصنف تبلیغی نصاب کے حوالے سے نقل کرتے ہیں تاکہ مسئلہ بھی معلوم ہوجائے اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ شیخ زکریا صاحب بھی یامحمد ﷺ کے قائل ہیں ،اس لئے تو اس واقعہ کو بطور دلیل پیش کیا ہے، اور پھر بعد میں کوئی فتویٰ نہیں لگایا کہ یامحمد ﷺ بدعت یا شرک ہے۔

شیخ محمد زکریا اور نداء یا محمد ﷺ :

شیخ الحدیث سہارنپور شیخ محمد زکریا صاحب لکھتے ہیں:

حضرت ابو بکر بن مجاھد فرماتے ہیں کہ مجھے حضور اقدس ﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی کہ حضور ﷺ کی خدمت میں شبلی حاضر ہوئے۔ حضور اقدس ﷺ کھڑے ہوگئے اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ اور میرے استفسار پر حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ یہ ہر نماز کے بعد ''لقد جاء کم رسول من انفسکم اخر سورۃ تک پڑھتا ہے، اور اس کے بعد مجھ پر درود پڑھتا ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ جب بھی فرض نماز پڑھتا ہے اس کے بعد یہ آیت شریفہ ''لقد جا ء کم رسول من انفسکم'' پڑھتا ہے اور اس کے بعد تین مرتبہ ''صلی ا للہ علیک یامحمد ﷺ ،صلی ا للہ علیک یا محمد ﷺ ، صلی اللہ علیک یا محمد ﷺ '' پڑھتا ہے۔

 (فضائل درود شریف تبلیغی نصاب ص٩٨)

مولانا جامی اور یارسول اللہ ﷺ :

عارف باللہ عاشق صادق مولانا جامی نور اللہ مرقدہ اپنے نعتیہ قصیدے میں آپ ﷺ کو اس طرح آواز یتے ہیں،ملاحظہ فرمائیے:

زمہجوری بر آمد جان عالم ترحم یا نبی ا للہ تر حم

 مذکورہ شعر کا ترجمہ مولوی اسعد اللہ صاحب نا ظم مدرسہ مظاہر علوم کی زبان سے ملاحظہ فرمایئے۔

آپ کی فراق سے کائنات عالم کا ذرہ ذرہ جان بلب ہے،اور دم توڑ رہا ہے اے رسول خدانگاہِ کرم فرمائیے۔ اے ختم المرسلین رحم فرمائیے۔

 (تبلیغی نصاب ٖفضائل درود شریف ص١١٣)

امام بوصیری اور یا رسول اللہ ﷺ :

عاشق رسول امام بو صیری قدس سرہ فرماتے ہیں:

یا اکرم الخلق مالی من الوذبہ.....سواک عند حلول الحادث العمم

 (قصیدہ بردہ شریف)

اے بزرگ ترین از مخلوقات بوقت نزول حادثہ عظیم و عام کے آپ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کی میں پناہ میں آؤں، (صرف آپ ہی کا بھروسہ ہے)

الشیخ شاہ عبدالعزیز دھلوی اور یا رسول اللہ ﷺ :

شیخ شاہ عبدالعزیز دھلوی قدس سرہ حضور ﷺ کی مدح بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

یامن تفوق امرہ فوق الخلائق فی العلا

حتی لقداثنی علیک اللّٰہ فی قرآنہ

اے وہ ذات پاک ، جن کا رتبہ تمام خلائق پر بلندی میں فائق ہوگیا، یہاں تک کہ آپ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرآن میں ثنا فرمائی۔

 (نشرالطیب للتھانوی، ص٢٦ ٢فصل پینتسویں ،اسلامی کتب خانہ لاہور)

اسی طرح ''صاحب الروض النظیف'' اپنے نعتیہ قصیدے میں فرماتے ہیں:

''دعا کم مستغیثاً راجیا املا.... فھل لہ من سوی لطفیکم نظر''

اس بندہ نے آپ کو یا رسول اللہ ﷺ مستغیث ہو کر اور امید کی چیزوں کا امیدوار ہوکر پکارا ہے سو اس کے لئے سوا آپ کے لطف کے کوئی نظرگاہ نہیں۔

(الروض النظیف بحوالہ نشر الطیب، ص ٢٤٣،فصل اڑتیسویں ،اسلامی کتب خانی لاہور)

 یہ ہیں اسلاف دین کہ انہوں نے آپ ﷺ کو پکارا، مدد طلب فرمائی، اگر ''یامحمد و یارسول اللہ ﷺ '' شرک وبدعت ہوتا تو اسلام کے یہ بڑے بڑے علماء اور اولیاء کبھی یہ منکرکام نہ کرتے، لیکن اس سے معلوم ہوا کہ ''یامحمد و یارسول اللہ ﷺ '' کہنا جائز ہے۔ اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ آخری تین نعتیہ اشعار حکیم الامت مجدد دیوبندشیخ اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب نشر الطیب میں ذکر کی ہیں۔ اور اردو ترجمہ بھی اسی سے لیا گیا ہے، لیکن تھانوی صاحب نے نہ تو کفر کا فتویٰ لگایا اور نہ بدعت کا۔ اب گلابی دیوبندی بھی ذرا اپنے اکابر کے بارے میں سوچ لیں کہ مولانا تھانوی صاحب اس فتوے کے زدمیں آگئے یا بال بال بچ گئے۔(بینواو تو جروا)

شیخ نذیر حسین دہلوی غیرمقلد اور یا رسول اللہ ﷺ :

 گلابی دیوبندیوں کی خدمت عالیہ میں مسلک اہلحدیث کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی کا یا محمد ﷺ و یارسول اللہ و یا غوث الاعظم کے بارے میں قول نقل کیا جاتا ہے تاکہ غیرت حنفیت ذرا بیدار ہوجائے اور اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجائیں ۔

ہاں اگر کبھی غلبہ محبت کی بنا پر یا رسول اللہ ﷺ یا یاغوث الاعظم زبان سے نکل جائے تو یہ جائز ہے۔

 (فتاویٰ نذیریہ، ص ١٣٣، ج١،کتاب الایمان والعقائد،النور اکیڈمی سرگودہا)

اب بھی اگر گلابیوں کو غیرت نہ آئی تو پھر حنفیت سے بھی دستبردار ہوجائےں۔

 سلف صالحین (صحابہ کرام و بزرگان دین) کی یہ چند شہادتیں مشت نمونہ خروار قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے کہ جس سے روز روشن کی طرح یہ بات صاف ظاہر ہوگئی کہ یا رسول اللہ و یا محمد ﷺ کہنا جائز ہے ۔ مخالفین شدت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہوش سے بھی کام لےں تاکہ تکفیری مہم میں صحابہ کرام و بزرگان دین کے دامن پر داغ نہ پڑ جائے۔

دوسری فصل پوری ہوئی۔(الحمد للہ)

 

 

 

 

 

 

 

 

فصل سوم

 اس فصل میں علمائے دیوبند کے اکابر و اصاغر کے وہ اقوال زرین نقل کئے جاتے ہیں کہ جن میں انہوں نے نداء یارسول اللہ، یامحمد ﷺ اوریا غوث الاعظم کا استعمال کیا ہے۔ مندرجہ ذیل اکابر دیوبند کی عبارات سے اندازہ ہوجائے گا کہ چارباغی مولویوں کا دیوبندیت سے کوئی سرو کار نہیں ورنہ اپنے اکابر کی تکفیر و تضلیل نہ کرتے ۔

حاجی امداد اللہ مھاجر مکی اور یا رسول اللہ ﷺ :

 سب سے پہلے شیخ العرب والعجم مرشد کامل اکابر دیوبند حاجی امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہ کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں۔ جن میں آپ نے حضور ﷺ سے مشکل کشا جان کر فریا دکرکے مدد طلب کی ہے۔ (سبحان اللہ ) فرماتے ہیں:

 یا رسول کبریا فریاد ہے یا محمد مصطفےٰ فریا دہے

 آپ کی امداد ہو میرا یانبی حال ابتر ہوا فریادہے

 سخت مشکل میں پھنسا ہوں آج کل اے مرے مشکل کشا فریا د ہے

 (کلیات امدادیہ، ص،٩٠، ٩١،دارالاشاعت کراچی)

حاجی صاحب موصوف دوسری جگہ فرماتے ہیں:

کرکے نثار آپ پہ گھر بار یا رسول ﷺ اب آپڑا ہوں آپ کے دربار یا رسول ﷺ

اچھا ہو ں یا برا ہوں غرض جو کچھ ہوں سو ہوں پر ہوں تمہار ا تم مرے مختار یا رسول ﷺ

 (کلیات امدادیہ، ص ٢٠٥،دارالاشاعت کراچی)

حاجی صاحب مرحوم آپ ﷺ سے عاجزانہ انداز میں رحم طلب فرماتے ہوئے:

شفیع عاصیان ہو تم وسیلہ بیکسان ہو تم ... تمہیں چھوڑ اب کہاں جاؤں بتاؤ یارسو ل اللہ ﷺ

ہواہوں نفس اور شیطان کے ہاتھوں بہت رسوا . مرے اب حال پر تم رحم کھاؤ یا رسول اللہ ﷺ

پھنسا کر اپنے دام عشق میں امداد عاجز کو بس اب قید دوعالم سے چھڑاؤ یارسول اللہ ﷺ

 (کلیات امدادیہ ،ص ٢٠٥،دارالاشاعت کراچی)

حاجی صاحب موصوف قدس سرہ سلسلہ چشتیہ کے اوراد و اسباق کی تربیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

دو رکعت نفل نماز پڑھنے کے بعد نہایت خشوع و خضوع سے تین یا پانچ یا سات بار ہاتھ اٹھاکر '' اللھم طھر قلبی الخ پڑھے اور توبہ استغفار کے بعد استغفراللہ الخ اکیس بار پڑھ کر درود''الصلوٰۃ و السلام علیک یا رسول اللہ ﷺ ، الصلوٰۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ ﷺ ، الصلوٰۃ والسلام علیک یا نبی اللہ ﷺ '' عروج و نزول کے طریقے پر پڑھئے۔(کلیات امدادیہ، ص ١٥،دارالاشاعت کراچی)

حاجی صاحب مرحوم آپ ﷺ کی زیارت (دیدار) کے حصول کا طریقہ بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

دل کو تمام خیالات سے خالی کرکے آنحضرت ﷺ کی صورت کا سفید شفاف کپڑے اور سبز پگڑی اور منور چہرہ کے ساتھ تصور کرے اور'' الصلوٰۃ و السلام علیک یا رسول اللہ ﷺ '' کی داہنے اور'' الصلوٰۃ والسلام علیک یا نبی اللہ ﷺ '' کی بائیں اور'' الصلوٰۃ والسلام علیک یاحبیب اللہ ﷺ '' کی ضرب دل پر لگائے الخ انشا ء اللہ مقصد پورا ہوجائے گا۔

 (کلیات امدادیہ، ص ٦١،دارالاشاعت کراچی)

 حضرات قارئین حاجی صاحب قدس سرہ جو اکابر علمائے دیوبند کے پیر ومرشد ہیں، کے اقوال زرین سے وہ تمام شکوک وشبھات اور غبار راہ حسد جو چارباغی مولوی کی تصنیف سے ذہن و دل پر چھاگئے تھے انشاء اللہ کافور ہوگئے ہوں گے، اور یہ حقیقت بھی ظاہر ہوچکی ہوگی کہ شیخ الکل علماء دیوبند کا کیا عقیدہ ہے ،اور گلابی دیوبندیوں کی کتنی توہین آمیز عبارات ہیں کہ جس سے اپنے مربیان شریعت و طریقت بھی بچ نہ سکیں ۔

 (العیاذباللہ من سوء الادب)

مولانا نانوتوی اور یا رسول اللہ ﷺ :

بانئی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی اپنے قصیدے میں نداء یا نبی کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ سے مدد طلب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

جو انبیا ہیں وہ آگے تری نبوت کے کریں ہیں امتی ہونے کا یا نبی اقرار

مدد کر اے کرم احمدی کہ تیرے سوا نہیں ہے قاسم بے کس کا کوئی حامی کار

 (قصائد قاسمی قصیدہ بہاریہ)

شیخ حسین احمد مدنی اور یا رسول اللہ ﷺ :

اکابر علمائے دیوبند میں سے شیخ سید حسین احمد صاحب مدنی اپنے نعتیہ کلام میں اس انداز سے لکھتے ہیں:

زن و فرزند میں خود بھی دل وجان بھی سبھی تجھ پر ۔۔۔۔۔تصدق یا نبی اللہ تو محبوب یگانہ ہے

 (انوار انوری،ص١٢)

مولانا کشمیری اور یا رسول اللہ ﷺ :

محدث اعظم دارالعلوم دیوبند شارحِ بخاری شاہ انور شاہ کشمیری صاحب آپ ﷺ سے فریاد طلب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

مستغیث ست الغیاث اے سرور عالی مقام۔ ۔۔۔۔درصلہ از بار گاہت درنشید ایں قصید.

 (انوار انوری ،ص١٢)

مولانا تھانوی اور یا رسول اللہ ﷺ :

علمائے دیوبند کے حکیم الامت شیخ تھانوی صاحب نے اپنے پیر ومرشد کے اقوال نقل کرتے ہوئے فرمایا:

ا لصلوٰۃ والسلام علیک یا رسو ل اللہ ﷺ '' بصیغہ خطاب میں بعض لوگ کلام کرتے ہیں یہ اتصال معنوی پر مبنی ہے، ''لہ الخلق والامر'' عالم امر مقید بجہت و طرف و قرب و بعد وغیرہ نہیں ہے۔ پس اس کے جواز میں شک نہیں ہے۔

 (امدادالمشتاق، ص ٥٩،مکتبہ اسلامیہ لاہور)

علماء دیوبند میں طریقت و شریعت کے جامع شیخ اشرف علی تھانوی صاحب نداء یارسول اللہ ﷺ اور فریاد اس طرح کرتے ہیں:

یا شفیع العباد خذ بیدی انت فی الا ضطرار معتمدی

لیس لی ملجاء سواک اغث مسنی الضر سیدی سندی

غشنی الدھر یا ابن عبداللہ کن مغیثافانت لی مددی

یارسول الالہ بابک لی من غمام الغموم ملتحدی

 (نشرالطیب،ص١٥٦،فصل اکیسویں،اسلامی کتب خانہ لاہور)

اے بندوں کی شفاعت فرمانے والے میری دستگیری فرمائیے کیونکہ بوقت مصیبت آپ ہی پر میرا بھروسہ ہے، آپ کے علاوہ میری کوئی جائے پناہ نہیں میری مدد فرمائیے، اے میرے سردار میں مصیبت زدہ ہوں، مجھے مصائب زمانہ نے گھیر لیا ہے، یا رسول اللہ آپ میرے فریاد رس ہو جائیے اور آپ میری مدد ہے، اے اللہ کے رسول (یا رسول اللہ) آپ کادر گہر بار میرے لئے تمام غم و رنج سے پناہ گاہ ہے۔

 یہ وہ دلائل ہیں کہ جن سے روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ صحابہ کرام، اسلاف دین اور اکابر علماء دیوبند میں نداء یا رسول اللہ ﷺ و یا محمد ﷺ رائج و معمول تھا اور ہے۔

چارباغی مولوی کا سفید جھوٹ:

 لیکن چارباغی مولوی کی یہ بات کہ ''علماء دیوبند کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ ''یا محمد و یارسول اللہ ﷺ کہنا ناجائز ہے'' سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ پتہ نہیں کہ علماء دیوبند سے چارباغی مولوی کی کیا مراد ہے؟ اگر مراد یہی علماء ہوں جن کا عقیدہ گزر چکا تو پھر ان گلابی دیوبندیوں نے اپنے اکابر پر جھوٹ باندھ کر ان کی تذلیل کی، اور خود''لعنۃ اللّٰہ علی الکا ذبین'' کے مصداق ہوئے۔ اور اگر علماء دیوبند سے مراد نام نہاد وہابی نما دیوبندی ہو تو پھر آپس میں شیرو شکر ہوجائےں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن اتنی عرض ہے کہ پھر دیوبند کا نام لیکر اپنے اکابر کی عزت پر حملہ نہ کریں۔

یا رسول اللہ ﷺ دیوبند کا متفقہ عقیدہ ہے:

 معلوم ہوا بصیغہ خطاب درود شریف ''یا رسول اللہ ﷺ '' کہنا دیوبند کا متفق عقیدہ ہے۔ اور انکار کرنے والا وہابیہ خبیثہ ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین شیخ سید حسین احمد مدنی صاحب لکھتے ہیں:

مسئلہ نداء رسول اللہ ﷺ میں وہابیہ مطلقاً منع کرتے ہیں ،اور یہ (دیوبندی) حضرات نہایت تفصیل فرماتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ لفظ یا رسو ل اللہ ﷺ اگر بلا لحاظ معنی ایسی طرح نکلا ہے جیسے لوگ بوقت مصیبت و تکلیف ماں اور باپ کو پکارتے ہیں تو بلا شک جائز ہے، علی ہذا القیاس اگر بلحاظ معنی درود شریف کے ضمن میں کہا جاویگا تو بھی جائز ہوگا ،علی ھذا القیاس اگر کسی سے غلبہ محبت و شدت، وجدو تو فرعشق میں نکلا ہے تب بھی جائز ہے، اور اگر اس عقیدہ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ حضور اکرم ﷺ تک اپنے فضل و کرم سے ہماری نداء کو پہنچادیگا اگر چہ ہر وقت پہنچادینا ضروری نہوگا، مگر اس امید پر وہ ان الفاظ کو استعمال کرتا ہے۔ تو اسمیں بھی کوئی حرج نہیں ۔ (الشھاب الثاقب ص٦٤، ٦٥)

صیغہء خطاب سے درودشریف پڑھنا مستحب ہے :

شیخ مدنی صاحب دوسرے مقام پر وہابیہ خبیثہ کا رداس انداز سے فرماتے ہیں:

وہابیہ عرب کی زبان سے بارہا سنا گیا کہ ''الصلواۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ﷺ '' کو سخت منع کرتے ہیں۔ اور اہل حرمین پر سخت نفریں اس نداء اور خطاب پر کرتے ہیں ،اور ان کا استھزاء اڑاتے ہیں۔ اور کلمات ناشائستہ استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے مقدس بزرگان دین اس صورت اور جملہ صورت درود شریف کو اگر چہ بصیغہ خطاب و نداء کیوں نہ ہوں مستحب و مستحسن جانتے ہیں۔ اور اپنے متعلقین کو اسکا امر کرتے ہیں۔

 (الشھاب الثاقب ص٦٥)

یا رسول اللہ ﷺ کے منکر وہابیہ خبیثہ ہیں:

 معلوم ہوا کہ درود شریف بصیغہ خطاب کو منکر، بدعت کہنے والے اور استھزاء کرنے والے وہابیہ خبیثہ ہیں،اور ان خبیثہ کے نقش قدم پر چلنے والوں میں سے ہمارے ہم عصر چارباغی مولوی نے تصنیف کے ذریعے جو مقام حاصل کیا وہ وراثتِ خبیثہ ان کو مبارک ہو، کیونکہ مداح دیوبند ہوکر بھی وہابیہ خبیثہ کا جانشین بن کر اپنے ممدوحین کی غیرت وحمیت کی پرواہ نہ کی (واہ رے دیوبندیت)

 حالانکہ علامہ مدنی کے قول سے معلوم ہوا کہ ہمارے مقدس بزرگان دین بصیغہ خطاب درود شریف کو مستحب اور مستحسن مان کر متعلقین کو امر کرتے ہیں، اور دو سری طرف چارباغی مولوی اور مفتی اعظم مینگورہ نے مذکورہ نداء ودرود شریف کو منکر کہہ کر اس سے منع کر نا لازم قراردیا۔

 اب فیصلہ قارئین حضرات فرمائیں کہ اکابر اور مقدس بزرگان صیغہئ خطاب سے درود شریف کا حکم فرماتے ہیں اور مستحب مانتے ہیں۔ اور دوسری طرف چارباغی ملامع حامیان خود اسی درود شریف کو منکرو شرک اور بدعت کہتے ہیں۔ تو دونوں اقوال کا موازنہ کرنے کے بعدیا تو بقول مدنی صاحب چارباغی مولوی اور مفتیان سوات وغیرہ وہابیہ خبیثہ کے صف میں برابر ہوئے۔ اور یا بقول چارباغی مولوی اور مفتی مینگورہ کے علامہ مدنی اور مقدس بزرگان بدعتی، مشرک اور مرتکب منکر ہوئے۔(العیاذ باللہ)

مقدس بزرگان دین کا عقیدہ اور یا رسول اللہ ﷺ :

علامہ مدنی صاحب مقدس بزرگان دین کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وہابیہ خبیثہ ( اور اس زمانے کے گلابی دیوبندی وہابی:راقم) کثرت صلوٰۃ وسلام و درود برخیر الانام علیہ السلام اور قرأت دلائل الخیرات و قصیدہئ بردہ و قصیدہئ ہمزیہ وغیرہ اور اس کے پڑھنے اور اس کے استعمال کرنے و ورد بنانے کو سخت قبیح و مکروہ جانتے ہیں، اور بعض اشعار کو قصیدہ بردہ میں شرک وغیرہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مثلاً

''یا اکرم الخلق مالی من الوذبہ ....سواک عندحلول الحادث العمم''

اے افضل مخلوقات میرا کوئی نہیں جسکی پناہ پکڑو بجز تیرے بر وقت نزول حوادث۔

حالانکہ ہمارے مقدس بزرگان دین اپنے متعلقین کو دلائل الخیرات و غیرہ کی سند دیتے ہیں، اور ان کوکثرت درود سلام و تحزیب و قرأت دلائل وغیرہ کاامر فرماتے ر ہے ہیں، ہزاروںکو مولانا گنگو ھی و مولانانانوتوی نے اجازت عطا فرمائی اور مدتوں خود بھی پڑھتے رہے ہیں۔ اور مولانا نانوتوی مثل شعر بردہ فرماتے ہیں:

مدد کراے کرم احمدی کہ تیرے سوا۔۔۔۔ نہیں ہے قاسم بیکس کا کوئی حامی کار

جو تو ہی ہمکو نہ پوچھے تو کون پوچھے گا۔۔۔بنے گا کون ہمارا تیرے سوا غم خوار

 (الشہاب الثاقب ص٦٦)

 قارئین محترم :صدر المدرسین دیوبند مدنی صاحب کی تفصیلی عقیدہئ بزرگان دین

کے ذکر کرنے سے چارباغی ملا کی چشمان دل انشا اللہ کھل گئے ہونگے، اور اپنے کئے پر پشیمان ونادم بھی ہوگئے ہونگے ،کیونکہ لا علمی اور اپنے اکابر کے عقیدے سے بے خبری کی وجہ سے اس نے نہ معلوم کتنے لوگوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچادیا ہے۔

 اب قارئین حضرات کی خدمت میں اکابر علماء دیوبند کے بعض فتاویٰ نقل کئے جاتے ہیں، جن میں انہوں نے یا محمد و یا رسول اللہ ﷺ اور دیگر اولیاء کو نداء کرنا جائز کہا ہیں، اور بعد میں انصاف چارباغی مولوی خود فرمائیں تاکہ حقیقت ظاہر ہوجائے۔

جامع الشریعت والطریقت شیخ تھانوی صاحب ایک استفسار کے جواب میں رقمطراز ہیں:

'یا رسول اللہ ﷺ '' کہنا محض شوقا و استلذاذاً ماذون فیہ ہے ،چونکہ اشعار پڑھنے کی غرض محض اظہار شوق واستلذاذہوتا ہے اس لئے نقل میں توسع کیاگیا۔ (امداد الفتا وٰی، ص٣٨٥،ج٥،دارالعلو م کراچی)

 مندرجہ بالا فتوے کے الفاظ ماذون فیہ پر چارباغی مولوی ذرا رُک کر غور فرمائےں، اور بار بار دھرائے شاید ذہن مبارک سے حسد و لاعلمی کے پردے اٹھ جائینگے۔ (اللہ کرے کہ ہو جائے)

یا شیخ عبدلقادرجیلانی جائز ہے :

شیخ تھانوی موصوف دوسرے مقام پر اولیاء کوآواز دینے کے بارے میں لکھتے ہیں:

سوال: کلمہ ''یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیأاً للہ'' کے ورد کے متعلق جناب کی رائے مبارک کیا ہے؟

جواب:ایسے امور و معاملات میں تفصیل یہ ہے کہ صحیح العقیدہ سیلم الفہم کیلئے جواز کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ (امداد الفتاویٰ، ص٣٥٢،ج٥،دارالعلو م کراچی)

 سبحان اللہ: یہ ہے اکابرعلماء دیوبند کا متفقہ عقیدہ کہ حضرات دیابنہ تو ''یاعبدالقادر جیلانی شیأاً للہ'' کے جوازکے بھی قائل ہیں۔ اورر ہی بات چارباغی مولویوں کی تو پتہ نہیں کہ وہ کس دیوبند کے پیروکار ہیں۔ لیکن اس دو رنگی سے معلوم ہوتاہے کہ دیوبند کی رٹ لگانے سے ان گلابیوں کی صرف چالاکی اور فریب دینا ہے، کیونکہ ان گلابیوں کے نزدیک اگر یارسو ل اللہ ﷺ کہنا واقعی شرک وبدعت ہے تو پھر وہ ازروئے شریعت بغیر کسی کالحاظ کرتے ہوئے ''یا عبدالقادر شیأاً ﷲ'' (کہ جس میں نداء غیر اللہ اور استعانت دونوں ہیں) کے جائز ماننے اور جائز بتانے والے حکیم الامت تھانوی صاحب کی رائے مبارک پر اپنا فتویٰ لگادےں تاکہ ان کی دینی غیرت معلوم ہو جائے ،اور معاملہ بھی صاف ہوجائے پھرہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اور اگر تھانوی صاحب کا لحاظ ر کھتے ہوئے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں اور کفرو شرک نہیں کہتے تو پھر دیگر مسلمانوں پر شرک وبدعت کا حکم لگانے والے خود اپنا حکم ازروئے حدیث معلوم کریں۔

الشیخ شاہ محمد اسحاق دہلوی اور یا رسول اللہ ﷺ :

نداء یا رسول اللہ ﷺ کے بارے میں شاہ محمد اسحاق صاحب الحنفی لکھتے ہیں:

اگر کوئی نبی کو نداء کرتا ہے صلوٰۃ وسلام کے پہنچانے کے طور پرتو ظاہراً یہ جائز ہے دو وجہ سے، اول یہ کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ اللہ کی طرف سے

فرشتے مقرر ہیں جو شخص آنحضرت ﷺ کی ذات کے لئے صلوٰۃ وسلام بھیجتا ہے فرشتے اسکو آپ ﷺ تک پہنچادیتے ہیں، دوسرے یہ کہ التحیات میں سلام کے پہنچانے کیلئے (السلام علیک کے ساتھ) خطاب وارد ہوا ہے، پس اس بناء پر اگر کوئی شخص درود و سلام پہنچانے کے غرض سے یا رسول اللہ ﷺ کہتا ہے تو جائز ہے۔

(مأ ۃمسائل ،ص٣٨، ٣٩ بحوالہ سماع الموتیٰ،ص١٠٧،مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

مفتی رشید احمد گنگوہی صاحب استفتاء کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:

سوال: اشعار اس مضمون کے پڑھنے:

'' یا رسول کبر یا فریاد ہے یا محمد مصطفی فریاد ہے

مدد کر بہر خدا حضرت محمد مصطفی میرے تم سے ہر گھڑی فریاد ہے'' کیسے ہیں؟

جواب: ایسے الفاظ پڑھنے محبت میں اورخلوت میں بایں خیال کہ حق تعالیٰ آپ کی ذات کو مطلع فرمادیوے یا محض محبت سے بلا کسی خیال کے جائز ہے۔

 (فتاویٰ رشید یہ، ص٢١٧،محمد علی کارخانہ اسلامی کتب ،اردو بازار کراچی)

دوسری جگہ گنگوہی صاحب لکھتے ہیں:

سوال:پڑھنا ان اشعار وقصائد کا خواہ عربی ہوں یا غیر عربی جن میں مضمون استعانت و استغاثہ بغیر اللہ تعالیٰ ہوں کیسا ہے اور وہ پڑھنا کبھی بطور ورد و وظیفہ بہ نیت انجاح حاجت ہو تا ہے۔ اور کبھی بطورنعت اشعار پڑھے جاتے ہیں۔ ان کے ضمن میں اشعار استمدادیہ والتجائیہ بھی پڑھے جا تے ہیں مثلاً یہ شعر

'' یا رسول اﷲ ﷺ انظر حالنا۔ ۔۔۔یا نبی اللّٰہ ﷺ اسمع قالنا۔

انی فی بحرھم مغرق خذیدی سھل لنا اشکالنا''

یا یہ شعر قصیدہ بردہ کا پڑھنا

یا اکرم الخلق مالی من الوذبہ۔۔۔۔ سواک عند حلول الحادث العمم

جواب: یہ خود معلوم آپکو ہے کہ نداء غیر اللہ تعالیٰ کو کرنا دور سے شرک حقیقی جب ہوتا ہے کہ ان کو عالم سامع مستقل عقیدہ کرے ورنہ شرک نہیں مثلاً یہ جانے کہ حق تعالیٰ ان کو مطلع فرمادے گایاباذنہ تعالیٰ انکشاف ان کو ہو جاوے گا یا باذنہ تعالیٰ ملائکہ پہنچادیویں گے جیسا درود کی نسبت وارد ہے یا محض شوقیہ کہتا ہو محبت میں۔

 (فتاویٰ رشید یہ ص١٥٣- ١٥٤،محمد علی کارخانہ اسلامی کتب ،اردو بازار کراچی)

ہمارے ہم عصر دیوبند مسلک کے ایک جید عالم دین مفتی محمد فرید صاحب مجددی سابقہ شیخ الحدیث دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک فرماتے ہیں:

انتہائی عشق و محبت سے اگر آپ ﷺ کو حاضر اور مخاطب کی طرح سمجھ کر یا رسول اللہ سے پکارے تو یہ نہ شرک ہے نہ ایھام شرک ہے بلکہ معمول ومعروف ہے۔ (مقالات ،ص٢٠، پشتو)

اسی طرح ہمارے ہم عصر دیوبندی شیخ الحدیث مولوی محمد یوسف لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں:

اگر کوئی شخص ''الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ﷺ '' کے صیغہ سے درود شریف پڑھتا ہے، اور یہ خیال کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس درود کو بارگاہ اقدس ﷺ میں پہنچادیں گے ،اس کے اس فعل کوبھی ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔ ( اختلاف امت اور صراط مستقیم، ص٣٤،دار الاشاعت کراچی)

دورحاضرکے صاحب تصانیف شیخ الحدیث مولوی محمد سرفراز خان صفدر صاحب سواتی ''نداء یا رسول اللہ ﷺ '' کے بارے میں لکھتے ہیں:

اگر یہ الفاظ ''یا رسول اللہ'' محبت اور عقیدت کے طور پر پیش کرتا ہے کہ یہ بھی فی الجملہ درود شریف کے الفاظ ہیں اور فرشتے ان کو آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کر دینگے تو درست اور صحیح ہے۔

( سماع الموتیٰ، ص١٠٧،مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

 حضرات قارئین:اب آپ ہی فیصلہ فرمائیے کہ اکابرو اصاغر علماء دیوبند کی تصریحات سے یہ بات اظھر من الشمس ظاہر ہوگئی کہ یارسول اللہ ﷺ کہنا عشق و محبت سے یا فرشتوں کی پہنچانے کی نیت سے یا آپ ﷺ کو کشف ہو جائے جائز ہے اور معمول و معردف ہے۔

 اب چارباغی مولوی سے یہ پوچھنا ہے کہ قائلین یا رسول اللہ ﷺ اسکو محبت کی وجہ سے پڑھتے ہیں یا عدم محبت کی وجہ سے؟ لیکن چارباغی مولوی اور ان کے وہ ہمنوا و ہم مشرب لوگ جنہوں نے یامحمد ﷺ کو مسجد کی دیوار سے مٹا کر گرایا، اور جنہوں نے ان گستاخ کی تائید کی، اور علی الا علان حمایت کی، کے دل چونکہ محبت رسول ﷺ سے خالی اورکنگال تھے تو ''المرئیقیسں علی نفسہ'' کی بناء پر دوسرے مسلمانوں کو بھی حب النبی ﷺ میں اپنی طرح عاری دیکھا، اور عقیدہ تویہ تھا کہ یا رسول اللہ ﷺ عشق و محبت سے جائز ہے تو جب ان کی محبت نہ رہی توعقیدہ بھی مسلمانوں سے الگ ہوا، اس لئے فوراً شرک و بدعت کا فتویٰ لگاکر عاشقان و محبان رسول ﷺ کی تضلیل و تکفیر کی۔ (العیاذباللہ)

 حالانکہ تمام علماء اہل السنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے کہ یا رسول اللہ کہنا اسی طرح جائز ہے جس طرح دلائل سے ثابت ہے، کوئی بھی آپ ﷺ کو مستقل عالم و سامع نہیں مانتے، بلکہ آپ ﷺ کی تمام صفات عطاء خداوندی ہیں۔

 گلابی دیوبندی وملاچارباغی ذراچمنستان دیوبندیت کے شیخ الکل مولوی گنگوہی کا عقیدہ پڑھکر اپنا فریضہئ افتاء ادا فرمائےں۔

وظیفہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی اور مولانا گنگوھی:

مولوی گنگوہی صاحب و ظیفہئ ''یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیأاً للہ'' کے بارے میں جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:

جو شیخ (عبد القادر جیلانی- مؤلف) قدس سرہ کو متصرف بالذات اور عالم غیب بذات خود جان کر پڑھے گا وہ مشرک ہے، اور اس عقیدہ سے پڑھنا کہ شیخ کو حق تعالیٰ اطلاع کر دیتا ہے، اور باذنہ تعالیٰ شیخ حاجت براری کردیتے ہیں، یہ بھی مشرک نہ ہوگا ،باقی مومن کی نسبت بدظن ہونا بھی معصیت ہے ،اور جلدی سے کسی کا کافر مشرک بتا دینا بھی غیر مناسب ہے ۔

 (فتاویٰ رشیدیہ ،ص١٨٢،محمد علی کارخانہ اسلامی کتب ،اردو بازار کراچی)

 سبحان اﷲ: یہ ہے علماء دیوبند کے ایک مقتدا اور عالم ربانی کی تحقیق کہ جو خود وظیفہ ''یاعبدالقادر جیلانی'' کو بھی شرک نہیں کہتے چہ جائیکہ ''یا رسول اﷲ'' کو شرک کہے۔ حالانکہ ہم بار بار بتاچکے ہیں کہ آپ ﷺ کے بارے میں کسی بھی مسلمان کا عقیدہ بالذات عالم الغیب اور بالذات متصرف کا نہیں بلکہ با عطاء خداوندی ہے۔ جب مذکورہ عقیدہ کی بنا پر ''یا عبدالقادر جیلانی الخ'' کا وظیفہ شرک نہیں تو یا رسول اللہ ﷺ کیونکر شرک ہوگا۔

 لیکن جب کسی مصنف کتا ب مولوی کو اپنے اکابر کا عقیدہ تک معلوم نہ ہو تو اس کے بارے یہ کیسے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی تصنیف میں جو کچھ لکھا ہے وہ حقیقت اور صحیح ہے، اس لئے ہم اس بے چارے چارباغی مولوی کو معذور سمجھتے ہیں۔ اور ایسے ہی علماء سے تکفیر المسلمین سرزد ہوتی ہے۔

 اب فتاویٰ رشید یہ کی مذکورہ عبارت پر ذرا روشنی ڈالی جاتی ہے تاکہ قارئین حضرات حقیقت کی تہہ تک پہنچ جائیں۔ اورچارباغی مولوی بھی ذرا خط کشیدہ الفاظ کی طرف توجہ فرمائےں۔

شیخ کوحق تعالیٰ اطلاع کردیتا ہے ۔ باذنہ تعالیٰ شیخ حاجت براری کردیتے ہیں۔ مشرک نہ ہوگا۔ مومن کے بارے میں بدظنی معصیت ہے۔ جلدی سے کسی کو کافرو مشرک کہنا غیر مناسب ہے۔ (رشیدیہ)

 غور کرنے کے بعد نتیجہ بھی سماعت فرمائیے۔ چارباغی مولوی نے مسلمان (اہلسنت) کو مشرک ٹہرایا۔ (تکفیر کا حکم خود معلوم کرےں) اللہ تعالیٰ اولیاء اللہ (شیخ) کو اطلاع دیتا ہے۔ اور اولیاء اللہ باذنہ تعالیٰ حاجت براری کرتے ہیں ( اگر چہ یہ بات چارباغی مولویوں کے دلوں میں خار کی طرح چبھتی ہوگی، ہوتی رہے ،لیکن یہ تمام اہلسنت اور علماء دیوبند کا عقیدہ ہے) چارباغی مولویوں نے علماء اہلسنت کے بارے میں بدظنی کرکے معصیت کا ارتکاب کیا ہے۔ (جسکی وجہ سے مانند معصیت علی الاعلان تو بہ کرنی چاہیے) چارباغیوں نے کفر وشرک کی بوچھاڑ میں اپنی عادت کے موافق جلدی کرکے غیر مناسب کام کیا ہے۔ (غیر مناسب کام علماء کے شایان شان نہیں ،ان کنتم تعلمون )

 حضرات: یہ چند دلائل علماء دیوبند کے اکابر کے حوالے سے قارئین کی خدمت میں پیش کئے گئے ،امید ہے کہ ان دلائل سے قارئین کی تسلی و تشفی ہوگی، اور خاص کر چارباغی مولویوںکے علم میں اضافہ ہوگا کہ اپنے اکابر کے عقائد سے با خبر ہو جائیں گے۔

خاتمہ

 قارئین حضرات: تین فصلوں پر مشتمل مدلل رسالہ ''السیف المسلول فی مسئلۃ یامحمد و یا رسول ﷺ '' یعنی '' یا رسول اللہ کا شرعی حکم کیا ہے؟ '' ہدیہ قارئین ہے۔ اس میں صحابہ کرام کے زمانے سے لیکر اکابر علماء دیوبند بلکہ موجودہ دور کے دیوبندی علماء کے دلائل سے یہ بات واضح کردی گئی کہ یامحمد ﷺ و یا رسول اللہ ﷺ کہنا جائز تھا، اور اب بھی جائز ہے ، اس پر شرذمہ قلیلہ کے علاوہ کسی نے انکار نہیں کیا تھا، اور نہ کیا ہے۔ لیکن جب طائفہ قلیلہ نے یارسول اللہ ﷺ کے قائلین و مجوزین پر اپنی عادت کے مطابق انتہائی شدت سے کفر و شرک اور بدعت کے فتوے لگا کر اپنی لا علمی و گستاخی کی دکان چمکادی تو برائے خدمت دین وا ظہار حق اس بارے میں قلم اٹھایا تاکہ یہ ثابت ہوجائے کہ یہ مسئلہ صدیوں سے جوازاً ، استحباباً چلا آرہا ہے جس کی گواہی اکابر دیوبندبھی دے رہے ہیں۔ اور عوام کے ذہن جو مخالفین کی تقاریر و تحریروں سے مشوش ہوگئے ہیں ان کی اصلاح ہو جائے ،تاکہ لا علمی میںکسی دوسرے مسلمان کی تکفیر نہ کریں۔ کیونکہ مسلمان ویسے بھی روبہ پستی ہے، اور اگر اسی طرح ان گستاخوں کی طرف سے تکفیر کی بوچھاڑ ہوتی رہی تو کوئی بھی مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔

 الحمدللہ یہ بات دلائل نقلیہ و عقلیہ سے ثابت ہوگئی کہ یا رسول اللہ ﷺ کہنا جائز تھا اور جائز ہے، لیکن جواز سے مراد یہ نہیں کہ ہر وقت یا رسول اللہ ﷺ کی صدائیں اٹھتی رہےں اور اللہ تعالیٰ سے علاقہ و تعلق ختم ہوجائے۔

 لیکن جب گستاخ مولویوں کی طرف سے شدت کا راستہ اختیار کیا گیا تو اس لئے ہم نے انصاف سے کام لیتے ہوئے میانہ روی اختیار کی۔ اور یہ ثابت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کہنا حرام نہیں جیسا کہ بعض گستاخوں کا مسلک ہے بلکہ یہ عمل فی نفسہ جائز ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اعتدال (میانہ روی) پر قائم و دائم رہنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔ (آمین)

 گر قبول افتدز ہے عز و شرف

 

 (العذر عند کرام الناس مقبول)

 العبد العاصی بانواع المعاصی

 سید محمد منور شاہ نقشبندی

 ٢٠٠١/٠٥/٠٥ بمطابق ١٠ صفر١٤٢٢؁ھ

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post