الحجۃ التامہ فی استحباب القعودفی الاقامۃ

 

 

المعروف

اقامت میں حی علی الصلوٰۃ

تک بیٹھنا مستحب ہے.

 

تصنیف

مفتی سید محمد منور شاہ سواتی

کیا فرماتے ہیں علماء اہل سنت وجماعت اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسلک حنفی کے بعض مساجد میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب اقامت شروع ہوجاتی ہے تو مسجد میں موجود تمام حضرات مع امام مسجد بیٹھے رہتے ہیں ۔ جب مؤذن حی علی الصلوٰۃ حی علی الفلاح تک پہنچتا ہے تو تمام لوگ کھڑے ہوکر صفیں درست کرتے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس عمل کی کوئی دلیل بھی ہے؟ اور آیا اس طرح بیٹھنا فرض ہے یا واجب یا سنت یا مستحب؟ جواب تفصیلی عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں ۔

الجواب بعون الملک الوھاب:

 صورت مسؤلہ کے استحباب کے دلائل لکھنے سے پہلے ہم مستحب کی تعریف اور اس کا حکم بیان کرتے ہیں تاکہ قارئین حضرات مسئلے کی حقیقت کو پہچان سکیں ۔

مستحب کی تعریف:

علامہ لطف اللہ النسفی لکھتے ہیں:

المستحب مااحبہ السلف وحکمہ الثواب بالفعل وعدم العقاب بالترک. (خلاصہ کید انی ٥)

مستحب وہ عمل ہے کہ جس کو سلف صالحین (بزرگوں ) نے محبوب (اچھا) جانا ہو اور اس کا حکم یہ ہے کہ مستحب کے ادا کرنے میں ثواب ہے اور نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔

علامہ علاؤالدین حصکفی رحمہ اللہ فر ماتے ہیں:

( ولھااداب) ترکہ لایوجب اساء ۃ ولا عتاباکترک سنۃ الزوائد لکن فعلہ افضل. (الدرالمختار،ص ٤٧٧، جلد اول،ایچ ایم سعید)

(نماز کے آداب ہیں) جس کا ترک کرنا گناہ اور ملامت کو واجب ( ثابت) نہیں کرتا جیسا کہ سنت زوائد چھوڑنے سے گناہ نہیں لیکن اس (مستحب)کا کرنا افضل (ثواب) ہے۔

علامہ شامی فرماتے ہیں:

المندوب یثاب فاعلہ ولا یسیئی تارکہ .

 (فتاویٰ شامی،ص٣ ١٠،ج١،ایچ ایم سعید)

مستحب وہ ہے کہ اس کے کرنے والے کو ثواب ملتا ہے اور ترک کرنے والا گناہ گار نہیں ہوتا۔

علامہ شامی دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:

مطلب لا فرق بین المندوب والمستحب والنفل والتطوع'' وقد جری علی ما علیہ الاصو لیون، وھوالمختار من عدم الفرق بین المستحب والمندوب والادب کما فی حاشیۃ نوح آفندی علی الدرر، فیسمی مستحبا من حیث ان الشارع یحبہ ویؤ ثرہ، ومندوبا من حیث انہ بین ثوابہ وفضیلتہ، من ندب المیت: وھو تعدید محاسنہ، ونفلا من حیث انہ زائد علی الفرض والواجب ویزید بہ الثواب، وتطوعا من حیث ان فاعلہ یفعلہ تبرعاً من غیر ان یؤمربہ حتما اھ من شرح الشیخ اسمعیل عن البرجندی. وقد یطلق علیہ اسم السنۃ وصرح القھستانی بانہ دون السنن الزوائد. قال فی الامداد: و حکمہ الثواب علی الفعل وعدم اللوم علی الترک اھ.

 ( فتاویٰ شامی،ص١٢٣ ،جلد اول،ایچ، ایم سعید)

مندوب، مستحب، نفل اور تطوع میں کوئی فرق نہیں۔ مختار مذہب وہی ہے جس پر اصولی علماء حضرات کی عادت جاری ہے کہ مستحب ، مندوب اور ادب میں کوئی فرق نہیں، جیسا کہ نوح آفندی کے حاشیہ درر میں ہے ۔ اس کو مستحب اس لئے کہتے ہیں کہ شارع نے اس کو پسند کیا اور ترجیح دی۔ اور مندوب اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا ثواب اور فضیلت بیان کی گئی ہے ۔یہ ندب ا لمیت سے اخذ کیا گیا جس میں میت کے محاسن گنے جاتے ہیں۔ اور نفل اس لئے کہتے ہیں کہ یہ فرض و واجب سے زائد ہے، اور اس پر ثواب کی زیادتی ہوتی ہے۔ اور تطوع اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا کرنے والا اس کو خود (اپنی طرف سے ) کرتا ہے، کیونکہ اس کو اس کے لازم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ۔ کبھی کبھی اس پر سنت کا اطلاق ہوتا ہے۔ امداد میں کہا ہے کہ اس (مستحب) کا حکم یہ ہے کہ اس کے کرنے پر ثواب دیا جاتاہے۔ اور نہ کرنے پر کوئی ملامت (وگناہ) نہیں۔

علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

(ومستحبہ) ویسمی مندوباو أدبا وفضیلۃ وھو مافعلہ النبی ﷺ مرۃ وترکہ اخری وما احبہ السلف۔

 ( الدرالمختار، ص١٢٣، جلد١،ایچ ایم سعید)

(وضو کے مستحب) اس کو مندوب ، ادب اور فضیلۃ بھی کہتے ہیں۔ (مستحب) وہ ہے کہ جس کوآپ ﷺ نے ایک آدھ مرتبہ کیا ہو،اور سلف (علماء صالحین) نے محبوب (اچھا) جانا ہو۔

مندرجہ بالا عبارت ''فضیلۃ'' کی تشریح میں علامہ شامی فرماتے ہیں:

(قولہ وفضیلۃ) لانہ یصیر فاعلہ ذافضیلۃ بالثواب.

 (شامی،ص١٢٤،ج١،ایچ ایم سعید)

مستحب کو فضیلت اس لئے کہتے کہ اس کا کرنے والا ثواب کی وجہ سے فضیلت والا ہوجاتا ہے۔

علامہ طحطاوی الحنفی لکھتے ہیں:

اماالمستحب فھو ما فعلہ مرۃ وترکہ اخری، وھو ماعلیہ اھل الفروع والاولی ماعلیہ الاصولیون من عدم الفرق بین المستحب والمندوب، وترکہ لا یوجب اساء ۃ ولا عتا بالکن فعلہ افضل کمافی الدر.

 (حاشیۃ الطحطاوی،ص ٢٧٦،آداب الصلوٰۃ،قدیمی کراچی)

مستحب وہ ہے کہ جس کو آپ ﷺ نے ایک دفعہ کرکے پھر ترک فرمایا ہو، اور یہ وہ ہے کہ جس پر اہل فروع واہل اصول متفق ہیں کہ مستحب ومندوب میں کوئی فرق نہیں۔ اس (مستحب) کے ترک کرنے سے کوئی گناہ وملامت لازم نہیں آتی لیکن اسکا کرنا افضل (ثواب) ہے۔

مفتی محمد امجد علی اعظمی فرماتے ہیں:

مستحب وہ کہ نظر شرع میں پسند ہو، مگر ترک پر کچھ نا پسند ی نہ ہو، خواہ خود حضور اقدس ﷺ نے اسے کیا ہو یا اس کی ترغیب دی، یا علماء کرام نے پسند فرمایا، اگر چہ احادیث میں اس کاذکر نہ آیا ۔ اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر مطلقاً کچھ نہیں ۔ (بہار شریعت ٦ حصہ دوم)

علامہ احمد شمس الدین بریلوی لکھتے ہیں:

بعض سنتیں غیر مؤکدہ ہیں، جن کو سنن الزوائد بھی کہتے ہیں، اس پر شریعت میں تاکید نہیں آئی، کبھی اس کو مستحب اور مندوب بھی کہتے ہیں ،اور نفل وہ کہ جس کا کرنا ثواب ہے اور نہ کرنے میں کچھ حرج نہیں ۔

 ( قانون شریعت ١٠٦)

اقامت میں حی علی الصلوٰۃ تک بیٹھنا مستحب ہے۔

 مندرجہ بالا سطور میں مستحب کی تعریف اور اس کا حکم معلوم ہونے کے بعد جاننا چاہئے کہ اقامت کے دوران امام ومقتدیوں کا حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح تک بیٹھنا مستحب ہے۔

امام بخاری لکھتے ہیں :

باب متی یقوم الناس اذا راؤاالامام عند الاقامۃ'' عن عبد اﷲ بن ابی قتادۃ عن ابیہ قال قال رسول اﷲ ﷺ اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا تقو موا حتی ترونی.

(بخاری شریف،ص ٨٨، ج١،باب متیٰ یقوم الناس اذا رأواالامام عند الاقامۃ،نور محمد کراچی)

اقامت کے وقت جب لوگ امام کو دیکھے تو کب کھڑے ہونگے؟حضرت عبد اللہ بن ابی قتادہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب اقامت کہی جائے تو تم لوگ اس وقت تک کھڑے نہ ہوجب تک مجھے نہ دیکھو۔

شارح بخاری علامہ بدرالدین عینی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

''قال ابو حنیفۃ ومحمد یقومون فی الصف اذا قال حی علی الصلوٰۃ. (عمدۃ القاری، ص٢٧٦، جلددوم)

امام ابو حنیفہ ومحمد قدس سرھما فرماتے ہیں: لوگ اس وقت کھڑے ہونگے جب مؤذن حی علی الصلوٰۃ کہے۔

اس حدیث کی شرح میں محدث دیوبندشیخ محمد انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں :

' ویعلم من بعض الاحادیث انھم کانو یقومون لھا بعد تمام الاقامۃ ومن بعضھا انھم کانوا یقومون فی خلا لھا وھکذ ا فی کتبنا ویراجع لہ الطحطاوی حاشیۃ الدر المختار.

 (فیض الباری ،ص١٨٧، جلد دوم،حقانیہ پشاور)

بعض احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اقامت ختم ہونے کے بعد کھڑے ہوتے تھے ،اور بعض احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اقامت کے درمیان کھڑے ہوتے تھے ،اور یہی تحقیق ہماری کتابوں میں ہے۔ اس کے لئے طحطاوی حاشیہ درمختار کی طرف رجوع کرنی چاہیئے۔

امام مسلم رحمہ اللہ بھی مذکورہ حدیث کو روایت کرتے ہیں:

عن ابی قتادہ قال قال رسول اﷲ ﷺ اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا تقو موا حتی ترونی ۔

 (مسلم شریف،ص ٢٢٠، جلد اول،باب متیٰ یقوم الناس للصلوٰۃ،قدیمی کراچی)

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

واختلف العلماء من السلف فمن بعد ہم متی یقوم الناس للصلوٰۃ ومتی یکبر الا مام فمذھب الشافعی رحمہ اﷲ تعالیٰ وطائفۃ انہ یستحب ان لایقوم احد حتی یفرغ المؤذن من الاقامۃ ونقل القاضی عیاض عن مالک رحمہ اﷲ تعالیٰ وعامۃ العلماء انہ یستحب ان یقوموا اذا اخذ المؤذن فی الاقامۃ وکان انس رحمہ اﷲ یقوم اذا قال المؤذن قد قامت الصلوٰۃ وبہ قال احمد رحمہ اﷲ تعالیٰ وقال ابو حنیفہ والکوفیون یقومون فی الصف اذا قال حی علی الصلوٰۃ.

 ( نووی شرح مسلم،ص ١٠٣، جلد٥، مطبوعہ دارالفکر)

سلف وخلف علماء میں اختلاف ہے کہ لوگ نماز کے لئے کب کھڑے ہونگے؟ اور امام تکبیر کب کہے گا؟ پس امام شافعی رحمہ اللہ اور ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ جب تک مؤذن اقامت ختم نہ کرے اس وقت تک کوئی کھڑا نہ ہوگا یہ مستحب ہے۔ اور قاضی عیاض نے امام مالک اور عام علماء سے نقل فرمایا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ جیسے ہی مؤذن اقامت شروع کرے تو تمام لوگ کھڑے ہوجائےں۔ حضرت انس اس وقت کھڑے ہوتے تھے جب مؤذن قدقامت الصلوٰۃ تک پہنچتے۔ اسی پر امام احمد رحمہ اللہ نے بھی قول کیا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ اور کوفہ کے علماء فرماتے ہیں کہ لوگ اس وقت کھڑے ہونگے جب مؤذن حی علی الصلوٰۃ کہے۔

مندرجہ بالا حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی نقل کی ہے :

باب کراھیۃ ان ینتظر الناس الا مام وھم قیام عند افتتاح الصلوٰۃ''عن عبد اﷲ بن ابی قتادۃ عن ابیہ قال قال رسول اﷲ ﷺ اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا تقومواحتی ترونی خرجت۔ قال ابو عیسیٰ حدیث ابی قتادۃ حدیث حسن صحیح وقد کرہ قوم من اھل العلم من اصحاب النبی ﷺ وغیرہم ان ینتظرالناس الا مام وھم قیام وقال بعضھم اذاکان الا مام فی المسجد واقیمت الصلوٰۃ فانما یقومون اذا قال المؤذن قد قامت الصلوٰۃ قدقامت الصلوٰۃ وھو قول ابن المبارک.

 (ترمذی شریف، ص٧٦،ج١،مجتبائی لاہور)

نماز شروع کرتے وقت لوگوں کا کھڑے ہوکر امام کا انتظار کرنا مکروہ ہے۔حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب اقامت شروع ہوجائے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہو جب تک مجھے دیکھ نہ لوکہ نکل آؤں، ابو عیسیٰ (امام ترمذی) فرماتے ہیں ۔ ابو قتادہ کی حدیث حسن صحیح حدیث ہے آپ ﷺ کے صحابہ اور دیگر اہل علم میں سے ایک جماعت نے اس بات کو مکروہ کہا ہے کہ لوگ کھڑے ہوکر امام کا انتظار کریں۔ بعض علماء نے فرمایا کہ جب امام مسجد میں ہو اور نماز کی اقامت کہی جائے تو لوگ اس وقت کھڑے ہونگے جب مؤذن قد قامت الصلوٰۃ کہے۔ اور یہ ابن المبارک (رحمہ اللہ) کا قول ہے ۔

ہمارے ہم عصر دیوبندی مسلک کے ممتاز عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:

اگر امام پہلے سے مسجد میں ہو تو ایسی صورت میں مقتدیوں کو کس وقت کھڑا ہونا چا ہیئے؟ (فقہاء کے اقوال نقل کرنے کے بعد مسلک احناف کی وضا حت کرتے ہیں)پھر امام اعظم اور امام احمد بن حنبل (رحمھما اللہ) کے نزدیک ''حی علی الفلاح'' اور ''قدقامت الصلوٰۃ'' پر کھڑا ہونا چاہئے۔البحرالرائق ( ٢٣١ جلد ١) میں حنفیہ کے مذہب کی تفصیل لکھتے ہوئے''حی علی الفلاح'' پر کھڑے ہونے کی علت یہ بیان کی ہے:

والقیام حین قیل حی علی الفلاح لا نہ امر یستحب المسارعۃ الیہ.

یعنی '' حی علی الفلاح'' پرکھڑا ہونا اس لئے افضل ہے کہ لفظ '' حی علی الفلاح'' کھڑے ہونے کا امر ہے اس لئے کھڑے ہونے کی طرف مسارعت کرنی چاہئے۔ (درس ترمذی،ص٣٨٠،جلدثانی،دارالعلوم کراچی)

امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

قال محمد ینبغی للقوم اذا قال المؤذن حی علی الفلاح ان یقوموا الی الصلوٰۃ فیصفوا ویسووا الصفوف ویحاذوا بین المناکب۔ (مؤطا امام محمد،ص٨٦،باب تسویۃ الصفوف،نور محمد کراچی)

امام محمد (رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں۔ لوگوں کے لئے مناسب یہ ہے کہ جب مؤذن ''حی علی الفلاح'' کہے تو نماز کے لئے کھڑے ہوجائےں، اور صف بنا کر اس کو برابر کرےں، اور کاندھے ایک دوسرے کے ساتھ برابر کرےں۔

علامہ ابوا لحسنات محمد عبد الحئی لکھنوی مندرجہ بالا حدیث کے حاشیہ پر لکھتے ہیں:

عن ابی العلاء رأیت انس بن مالک اذاقیل قدقامت الصلوٰۃ قام فوثب وقال ابو حنیفۃ واصحابہ اذا لم یکن معھم الامام فی المسجد فانھم لایقومون حتی یروا الامام لحد یث ابی قتادۃ عن النبی ﷺ اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا تقو موا حتی ترونی وھو قول الشافعی وداؤد واذاکان معھم فانھم یقومون اذا قال حی علی الفلاح انتہی۔( التعلیق الممجد علی مؤطا امام محمد،ص ٨٩،نور محمد کراچی)

حضرت ابوالعلاء فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک کو دیکھا کہ جب ''قدقامت الصلوٰۃ'' کہا جاتا تو جلدی سے کھڑے ہوجاتے۔ حضرت امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب (احناف) فرماتے ہیں کہ جب قوم کے ساتھ امام مسجد میں نہ ہو تو لوگ اس وقت تک کھڑے نہ ہونگے جب تک امام کو نہ دیکھ لیں، کیونکہ اس میں حضرت ابو قتادہ کی حدیث مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب اقامت کہی جائے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہو جب تک مجھے نہ دیکھ لو ۔ اور یہی امام شافعی اور داؤد کا قول ہے ۔ اور اگر ان (قوم) کے ساتھ امام موجود ہوتو لوگ اس وقت کھڑے ہوجائےں کہ جب مؤذن حی علی الفلاح کہے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

واماقیام الناس حین تقام الصٰلوۃ فانی لم اسمع فی ذلک بحد یقام لہ الاانی اری ذلک علی قدرطاقۃ الناس فان منھم الثقیل والخفیف ولایستطیعون ان یکونواکرجل واحد۔

 (مؤطا امام مالک ،ص٥٦،مجتبائی لاہور)

اقامت کے وقت لوگوں کا کھڑاہونا، سواس بارے میں میں نے کوئی حد نہیں سنی کہ اسی وقت کھڑا ہوجائے مگریہ کہ میں اس کو لوگوں کی طاقت کے مطابق دیکھتاہوں کیونکہ لوگوں میں بھاری بدن اور ہلکے بدن والے ہوتے ہیں اور یہ تمام لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے کہ ایک آدمی کی طرح ہوجائےں۔

 (فائدہ)امام مالک رحمہ اللہ کے قو ل سے یہ معلوم ہواکہ آپ نے اقامت کے دوران کسی معین حدمیں کھڑے ہونے کا قول نہیں کیا بلکہ آپ نے فرمایا کہ میں نے خود اس بارے میں کوئی حد نہیں سنی بلکہ میری رائے یہ ہے کہ اس مسئلہ میں لوگوں کی سہولت کو مدنظر رکھنا چاہئے، کیونکہ بعض لوگ بھاری ہونے کی وجہ سے دیر سے اٹھتے ہیں اور بعض لوگ ہلکے بدن ہونے کی وجہ سے جلدی اٹھتے ہیں۔ اس لئے ان میں کسی پربھی تقدیم وتاخیر میں کوئی گناہ نہیں۔

مولانا اشفاق الرحمٰن کاندھلوی اس کے حاشیہ پر لکھتے ہیں:

واختلف اقوال ناقلی المذاھب فی ذلک والامرمتسع والجملۃ فیہ مافی الحاشیۃ عن المحلی قال روی عن مالک انہ یقوم فی اول الاقامۃ وقال الشافعی والاکثرون انہ اذاکان الامام معھم لم یقومواحتی یفرغ المقیم من الاقامۃ وقال ابوحنیفۃ یقومون عند حی علی الصلٰوۃ الخ وقال فی المغنی یستحب ان یقوم الی الصلوٰۃ عند قول المؤذن قدقامت الصلوٰۃ بھذا قال مالک وقال الشافعی یقوم اذافرغ المؤذن من الاقامۃ وقال ابوحنیفۃ اذا قال حی علی الصلوٰۃ۔وقال الشعرانی ومن ذلک قول مالک والشافعی واحمد انہ لایقوم الامام الابعد فراغ المؤذن من الاقامۃ فیقوم حینئذ لیعدل الصفوف مع قول ابی حنیفۃانہ یقوم عند حی علی الصلوٰ ۃ.

 (کشف المغطأ عن وجہ المؤطا،ص ٥٦،مجتبائی لاہور)

اس بارے میں مذاھب کے نقل کرنے والوں کے اقوال مختلف ہیں۔ حالانکہ یہ وسیع مسئلہ ہے۔مگر بات وہی ہے جو ''محلی '' کے حاشیہ پر ہے کہ امام مالک سے مروی ہے کہ آپ اقامت کے شروع میں کھڑے ہوتے۔امام شافعی اور اکثرعلمائ(رحمھم اللہ)نے فرمایا کہ جب لوگوں کے ساتھ امام ہوتو اقامت کے ختم ہونے کے بعد کھڑے ہوجائےں۔ امام ابوحنیفہ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا لوگ ''حی علی الصلوٰۃ'' کے وقت کھڑے ہونگے۔ الخ۔ مغنی میں کہا ہے ''مستحب یہ ہے کہ لوگ نماز کے لئے اس وقت کھڑے ہوجائےں جب مؤذن قدقامت الصلوٰۃ کہے۔ اسی پر امام مالک رحمہ اللہ نے قول کیا ہے۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس وقت کھڑے ہوجب مؤذن اقامت ختم کرے اور امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب ''حی علی الصلوٰۃ''کہے (تب نماز کے لئے کھڑے ہوجائےں)۔امام شعرانی فرماتے ہیں کہ امام مالک،امام شافعی اور امام احمد (رحمھم اللہ تعالیٰ)فرماتے ہیں کہ امام اس وقت تک کھڑانہ ہوگا جب تک مؤذن اقامت سے فارغ نہ ہوجائے۔ اس کے بعد امام کھڑا ہوکر صفیں درست کرے گا،جب کہ امام ابوحنیفہ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا کہ امام ''حی علی الصلوٰۃ''کے وقت کھڑاہوگا۔

شیخ ملا نظام لکھتے ہیں:

''ان کان المؤذن غیر الامام وکان القوم مع الامام فی المسجد فانہ یقوم الامام والقوم اذاقال المؤذن حّی علی الفلاح عند علمائنا الثلاثۃ وھوالصحیح. (فتاوی عالمگیری ،ص٥٧،ج١،رشیدیہ کوئٹہ)

اگرمؤذن امام کے علاوہ ہو اور مقتدی حضرات امام کے ساتھ مسجد میں ہوں تو امام اور مقتدی حّی علی الفلاح کہتے وقت کھڑے ہوجائےں ہمارے آئمہ ثلاثہ کا مذھب یہی ہے اور یہی قول صحیح ہے۔

علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

(والقیام)لامام ومؤتم (حین قیل حیّ علی الفلاح).

 (الدرالمختار،ص٤٧٩، ج اول،ایچ ایم سعید)

امام اور مقتدیوں کو حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا ہے۔

علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

(قولہ حین قیل حّی علی الفلاح) کذ ا فی الکنز ونورالایضاح والا صلاح والظھیریۃ والبدائع وغیرھا.......۔قال فی الذخیرۃ یقوم الامام والقوم اذاقال المؤذن حّی علی الفلاح عند علماء نا الثلاثۃ. (فتاویٰ شامی ،ص٤٧٩، ج١،ایچ ایم سعید)

امام اور مقتدیوں کا حیّ علی الفلاح کے وقت کھڑا ہونا اس کو کنز، نورالایضاح، اصلاح،ظہیریہ اور بدائع وغیرہ نے بھی ذکر کیا ہے۔ذخیرہ میں فرمایا ہے کہ امام اور قوم اس وقت کھڑے ہونگے جب مؤذن حّی علی الفلاح کہے یہ ہمارے آئمہ ثلاثہ کا مذہب ہے۔

علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمہ اللہ دوسری جگہ لکھتے ہیں:

''دخل المسجد والمؤذن یقیم قعد الی قیام الامام فی مصلاہ.

 (الدرالمختار،ص٤٠٠، جلد ١،باب الاذان،ایچ ایم سعید)

اگر کوئی مسجد میں آئے اور مؤذن اقامت کرتاہو تو امام کے اپنی جگہ پر کھڑے ہونے تک وہ بیٹھ جائے۔

برہان الشریعہ محمود بن صدرالشریعہ لکھتے ہیں:

''قولہ حی علی الصلوٰۃ الخ وفی الکا فی عندنا یقوم عند حیّ علی الفلاح فی الکلام اشارۃ الی ان القیام عند ذلک اذاکا ن المؤذن غیرالامام واما اذاکان المؤذن فیقوم القوم عند فراغہ عن الاقامۃ. (مختصر الوقایہ،ص ١٧، مطبوعہ پیاری لعل ھندوپریس )

کافی میں ہے ہمارے نزدیک لوگ حیّ علی الفلاح کے وقت کھڑے ہونگے۔کلام میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس وقت کھڑا ہونا تب ہے کہ جب مؤذن امام کے علاوہ ہو ۔ اور اگر امام مؤذن ہی ہو تو لوگ اس وقت کھڑے ہونگے جب اقامت سے فراغت ہوجائے۔

الشیخ العلامہ عبیداللہ بن مسعود بن تاج الشریعہ لکھے ہیں:

''ویقوم الامام والقوم عند حّی علی الصلوۃ.

 (شرح الوقایہ،ص ١٥٥، جلد اول،باب الاذان ،امدادیہ ملتان)

امام اور قوم حّی علی الصلٰوۃ کے وقت کھڑے ہونگے۔

امام سراج الدین الاودی متوفی ٧٠٠؁ھ لکھتے ہیں:

اذادخل المسجد رجل والمؤذن یقیم ینبغی ان یقعد ولا یمکث قائما. (فتاویٰ سراجیہ،ص ٩، مطبوعہ مطبع نو لکشور لکھنو)

آدمی جب مسجد میں داخل ہوجائے اور مؤذن اقامت کرتاہو تو اسے چاہئے کہ بیٹھ جائے اور کھڑے ہوکر انتظار نہ کرے۔

مشہور غیر مقلد (اہلحدیث)عالم نواب وحید الزمان حیدرآبادی رقمطراز ہے:

ولایقوم اھل المسجد الا اذا رأواالامام وان کان حاضراً حتی تفر غ الاقامۃ وقال بعض العلماء حتی یقول المقیم قد قامت الصلوٰۃ وقال البعض اذاقال المقیم اللہ اکبر وجب القیام واذاقال حّی علی الصلٰوۃ عدلت الصفوف.

 (نزل ا لابرار ٦١حصہ اول مطبوعہ سعید المطابع بنارس )

اھل مسجد (نمازی) اس وقت تک کھڑے نہ ہونگے جب تک امام کو دیکھ نہ لیں۔ اور اگر امام (مسجد میں )حاضر ہو تو اقامت ختم ہونے کے بعد کھڑے ہوں۔ بعض علماء نے فرمایاہیں کہ جب مؤذن ''قدقامت الصلوٰۃ'' کہے تو کھڑے ہوجائیں۔ اور بعض علماء نے فرمایا ہیں جب مؤذن اللہ اکبر کہے تو قیام واجب ہوجاتاہے۔ اور جب حی علی الصلوٰۃ کہے تو صفیں درست کی جائیں۔

علامہ علی ا بن سلطان محمدالقاری رحمہ الباری فرماتے ہیں:

'' قال أئمتنا: ویقوم الامام والقوم عند حی الصلوٰۃ''

 (مرقات شرح مشکوٰۃ ،ص٣٣٩،ج دوم، مطبوعہ مکتبہ حقانیہ پشاور)

ہمارے آئمہ (احناف امام اعظم اور ان کے صاحبین رحمھم اللہ) نے فرمایا : امام اور قوم حی علی الصلوٰۃ کے وقت کھڑے ہونگے۔

شیخ عبدالحق دھلوی قدس سرہ ''ولا تقوموا حتی ترونی'' کی شرح میں فرماتے ہیں:

ای لاتقوموا للصلوٰۃ بمجرد الاقامۃ حتی تبصرونی اخرج من البیت وفی الفقہ یقوم عند حی علی الصلوٰۃ.

(لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،ص٩، ١٠،ج ثالث، مطبوعہ مکتبہ المعارف العلمیہ)

آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ جب تک مجھے نہ دیکھ لو اس وقت تک کھڑے نہ ہو (الحدیث) یعنی تم لوگ صرف اقامت کی وجہ سے نماز کے لئے نہ اٹھو جب تک مجھے نہ دیکھو کہ گھر سے نکل آؤں۔ فقہ میں ہے کہ لوگ حی علی الصلوٰۃ کے وقت کھڑے ہو جائےں۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دھلوی قدس سرہ فرماتے ہیں:

'' فقہاء گفتہ اند مذھب آنست کہ نزد حی علی الصلوٰۃ باید برخاست''

(اشعۃ اللمعات ٣٢١ جلد اول )

فقہاء کرام نے فرمایا ۔ مذھب یہ ہے کہ حی علی الصلوٰۃ کے وقت اٹھنا چاہئے ۔

نواب قطب الدین خان لکھتے ہیں:

'' فقہاء نے لکھا ہے کہ جب تکبیر کہنے والا حی علی الصلوٰۃ کہے اس وقت مقتدی کھڑے ہوں '' (مظاہر حق)

قاضی ثناء اللہ پانی پتی مجددی نقشبندی قدس سرہ فرماتے ہیں:

طریق خواندن نماز بروجہ سنت آنست کہ اذان گفتہ شود واقامت ونزد حی علی الصلوٰۃ اما م برخیزد۔ ( مالا بدمنہ،ص ٤٤، مطبوعہ مطبع انتظامی کانپور)

نماز پڑھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ اذان و اقامت کہی جائے اور حی علی الصلوۃ کے وقت امام کھڑا ہوجائے۔

علامہ شمنی لکھتے ہیں:

قولہ امام برخیزد و مقتدیان نیزز یراکہ حی علی الصلوۃ امرست بجاآور دہ شود ١٢ شمنی۔ ( مالا بد منہ ٤٤)

امام کھڑا ہوجائے اور مقتدی بھی کیونکہ حی علی الصلوٰۃ امر ہے تاکہ اس کی تعمیل ہوجائے۔

امام ابوالبرکات النسفی لکھتے ہیں:

والقیام حین قیل حی علی الفلاح''.

 (کنز الدقائق،ص ٢٤، مطبوعہ اکرمیہ پشاور)

حی علی الفلاح کے وقت کھڑا ہونا (مستحب ہے)

علامہ شرنبلالی لکھتے ہیں:

والقیام حین قیل حی علی الفلاح.

( نور الایضاح مع الطحطاوی ،ص ٢٧٧،قدیمی کراچی)

حی علی الفلاح کے وقت کھڑا ہونا ( مستحب ہے)

شیخ اعزاز علی دیوبندی لکھتے ہیں:

قولہ والقیام ای ومن الادب قیام القوم والامام ان کان حاضراً بقرب المحراب وقت قول القیم حی علی الفلاح لان المقیم فی ضمن قولہ ھذا امر بالقیام فیجاب.

 (الاصباح حاشیہ نورالایضاح،ص ٧٢)

اگر امام محراب کے قریب ہو تو امام اور مقتدیوں کو حی علی الفلاح کے وقت کھڑا ہونا مستحب ہے، کیونکہ اقامت کرنے والے نے اپنے اس قول کی ضمن میں کھڑے ہونے کا امر (حکم) کیا ہے، پس اس کی اجابت (قبول) کرنا چاہئے۔

علامہ الشیخ حسن بن عمار ابن علی الشر نبلالی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

(ومن الادب (القیام) ای قیام القوم والامام ان کان حاضرابقرب المحراب (حین قیل) ای وقت قول المقیم( حی علی الفلاح) لأنہ امربہ فیجاب.

 (مراقی الفلاح مع الطحطاوی ،ص ٢٧٧،قدیمی کراچی)

(نماز کے ) مستحبات میں سے قوم اور امام کا جب وہ محراب کے قریب ہو کھڑا ہونا ہے ،اس وقت جب اقامت کرنے والا حی علی الفلاح کہے ،کیونکہ اس نے کھڑے ہونے کا حکم کیا ہے ،پس اس کو قبول کرنا چاہئے۔

علامہ سید احمد طحطاوی حنفی لکھتے ہیں:

(حی علی الفلاح) وقال الحسن وزفر عند حی علی الصلوٰۃ کما فی سکب الا نھر عن ابن الکمال معزیا الی الذخیرۃ (لانہ امربہ فیجاب) ای لان المقیم امربالقیام أی ضمن قولہ حی علی الفلاح فان المراد بفلاحھم المطلوب منھم حینئذ الصلوٰۃ فیبادر الیھا بالقیام. (حاشیہ الطحطاوی،ص٢٧٧،آداب الصلوٰۃ،قدیمی کراچی)

(حی علی الفلاح کے وقت کھڑے ہوں) امام حسن وامام زفر فرماتے ہیں کہ حی علی الصلوٰۃ کے وقت کھڑے ہوجائیں، جیسا کہ سکب الانھر میں ابن کمال سے جوذخیرہ کی طرف منسوب ہے مروی ہے۔ (کیونکہ مؤذن نے قیام کا حکم کیا جسے قبول کرنا چاہئے) یعنی اقامت کرنے والے نے اپنے قول حی علی الفلاح کے ضمن میں قیام کا حکم کیا ہے کیونکہ ان لوگوں کی فلاح سے اس وقت مطلوب نماز ہے پس اس کی طرف قیام کے ذریعے جلدی کرنا چاہئے۔

شیخ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:

اس کے بعد سمجھنا چاہیئے کہ حی علی الصلوۃ وحی علی الفلاح پر کھڑے ہونے کو درمختار میں قبیل فصل صفۃ الصلوٰۃ میں منجملہ آداب کے کہا ہے۔

 (امداد الفتاویٰ،ص ١٢١، جلد اول،دارالعلوم کراچی)

مولانا محمد ابراہیم بونیری مرحوم لکھتے ہیں:

جس وقت اقامت میں حی علی الفلاح کہاجائے تو امام اور مقتدی کو اس وقت کھڑا ہونا مستحب (ادب) ہے بشرطیکہ امام مسجد محراب کے قریب ہوں۔

 (فتاویٰ ودودیہ،ص ١٣٦،مطبوعہ ریاست سوات)

مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:

خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت امام اور مقتدی سب اقامت سے پہلے مسجد میں موجود ہوں تو امام اعظم ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک حی علی الفلاح اور قدقامت الصلوٰۃ پر کھڑا ہونا اور امام شافعی کے نزدیک آخر اقامت پر کھڑے ہونا افضل ہے اور امام مالک کے نزدیک شروع ہی سے کھڑا ہونا افضل ہے ،اور خلفاء راشدین اور عام صحابہ کرام کا تعامل بھی اس پر شاہد ہے۔

 (جواہرالفقہ ،ص٣٢١، جلد اول،دارالعلوم کراچی)

حضرت علامہ احمد شمس الدین رحمہ اللہ نے اس مسئلے کی وضاحت یوں کی:

جولوگ مسجد میں موجود ہیں وہ بیٹھے رہیں جب مکبر حی علی الصلوٰۃ پر پہنچے اس وقت اٹھیں یہی حکم امام کے لئے بھی ہے۔

 (قانون شریعت،ص ١١٥،ممتاز اکیڈمی لاہور)

مفتی محمد امجد علی اعظمی قدس سرہ فرماتے ہیں:

جو لوگ مسجد میں موجود ہیں وہ بیٹھے رہیں اس وقت اٹھیں جب مکبر حی علی الفلاح پر پہنچے یہی حکم امام کے لئے ہے۔ (عالمگیری)۔

 (بہارشریعت،ص ٢٦، حصہ سوم)

صدر الشریعۃ ایک استفتاء کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

مجمع الانھر میں ہے۔

واذا قال المؤذن فی الاقامۃ حی علی الصلوٰۃ قام الامام والجماعۃ عند علمائنا الثلثۃ للا جابۃ وقال الحسن وزفر اذا قال قد قامت الصلوٰۃ قاموا الی الصف. (فتاویٰ امجدیہ،ص ٥٤، جلد اول)

جب مؤذن اقامت میں حّی علی الصلوٰۃ تک پہنچے تو ہمارے آئمہ ثلاثہ (احناف)کے نزدیک امام اور مقتدی کھڑے ہوجائیں۔ امام حسن اور امام زفرفرماتے ہیں۔ کہ جب مؤذن قدقامت الصلوٰۃ کہے تو لوگ صف کی طرف اٹھیں۔

نوٹ : بعض فقہی عبارات میں جملہ حّی علی الصلوٰۃ آیا ہے اور بعض میں حّی علی الفلاح آیا ہے۔ ان روایات کی تطبیق کے لئے مولانا مفتی شریف الحق امجدی نے فتاویٰ امجدیہ کے حاشیے پر فرمایاہے۔

اعلحضرت الشاہ امام احمد رضا خان القادری الافغانی ثم البریلوی قدس سرہ نے دونوں میں یہ تطبیق دی کہ حّی علی الصلٰوۃ پر اٹھنا شروع کرے اور حّی علی الفلاح پر سیدھا کھڑا ہوجائے(فتاویٰ امجدیہ ،ص٥٥، جلد اول،مکتبہ رضویہ کراچی)

خلاصہ تحقیق:

 قارئین حضرات:شارحین حدیث اور فقہاء احناف کے ان مذکورہ عبارات سے یہ بات اظھرمن الشمس واضح ہوگئی کہ جب مسجد میں امام ومقتدی حضرات پہلے سے بیٹھے ہوں، یا اقامت شروع ہونے سے پہلے پہلے امام آیاہوتو ان صورتوں میں امام ومقتدی کو بیٹھ کر اقامت سننا مستحب ہے۔ اورحّی علی الصلوٰۃ پر کھڑا ہونا مستحب وافضل ہے اور چونکہ آپ مستحب کی تعریف اور حکم بخوبی اور تحقیق سے معلوم کرچکے ہیں اس لئے یہ بات بھی آپ کو معلوم ہوگئی ہوگی کہ اقامت میں حّی علی الصلوٰۃ تک بیٹھنا ثواب ہے۔ بلکہ بعض فقہاء احناف کی کتابوں میں توحّی علی الصلوٰۃ سے پہلے کھڑا ہونا اور کھڑے ہوکر اقامت سننا مکروہ لکھاہے۔

اب ہم ذرا اس مسئلے کی بھی وضاحت کردیتے ہیں تاکہ کوئی غباراور شک نہ رہے۔

اقامت میں حّی علی الصلوٰۃ سے پہلے کھڑا ہونا یا کھڑے ہوکر اقامت سننا مکروہ ہے:

اس بحث میں ہم سب سے پہلے فقہ حنفی کے معتبر فتاویٰ پیش کرتے ہیں۔

شیخ ملا نظام لکھتے ہیں:

اذا دخل الرجل عند الاقامۃ یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم اذابلغ المؤذن قولہ حی علی الفلاح کذافی المضمرات (فتاویٰ عالمگیری،ص ٥٧، جلد اول،رشیدیہ کوئٹہ)

جب کوئی شخص اقامت کے وقت (مسجدمیں ) داخل ہوجائے تو اس کے لئے کھڑے ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے۔ بلکہ وہ بیٹھ جائے اور جب مؤذن حی علی الفلاح تک پہنچے تو پھر کھڑا ہوجائے۔

علامہ شامی لکھتے ہیں:

ویکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم اذابلغ المؤذن حی علی الفلاح۔ (فتاویٰ شامی،ص ٤٠٠، جلد اول،ایچ ایم سعید)

آدمی کے لئے کھڑے ہوکر انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ وہ بیٹھ جائے پھر جب مؤذن حی علی الفلاح پر پہنچے تو کھڑا ہوجائے۔

شیخ احمدالطحطاوی لکھتے ہیں:

واذا اخذ المؤذن فی الاقامۃ، ودخل رجل المسجد فانہ یقعد، ولا ینتظر قائما فانہ مکروہ کما فی المضمرات قھستانی، ویفھم منہ کراھۃ القیام ابتداء الاقامۃ والناس عنہ غافلون۔

 (حاشیۃ الطحطاوی،ص٢٧٨،آداب الصلوٰۃ،قدیمی کراچی)

جب مؤذن اقامت شروع کرے اور کوئی شخص مسجد میں داخل ہوجائے تو وہ بیٹھ جائے اور کھڑے ہوکر انتظار نہ کرے کیونکہ یہ مکروہ ہے اس سے اقامت کے شروع ہی سے کھڑے ہونے کا مکروہ ہونا ثابت ہوا۔ حالانکہ لوگ اس (مسئلے) سے غافل ہیں۔

علامہ عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں:

''قولہ ویقوم الامام ای من مواضعھم الی الصف وفیہ اشارۃ الی انہ اذا دخل المسجد یکرہ لہ انتظار الصلوٰۃ قائما بل یجلس فی موضع ثم یقوم عند حی علی الفلاح وبہ صرح فی جامع المضمرات (عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح الوقایہ،ص ١٥٥، ج١،امدادیہ ملتان)

اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کوئی مسجد میں داخل ہو تو اس کے لئے کھڑے ہو کر نماز کا انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ وہ کسی جگہ بیٹھ جائے پھر حی علی الفلاح کے وقت کھڑا ہوجائے۔

صدر الشریعۃ مفتی محمد امجد علی اعظمی قدس سرہ فرماتے ہیں:

اقامت کے وقت کوئی شخص آیا تو اسے کھڑے ہوکر انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ بیٹھ جائے جب حی علی الفلاح پر پہنچے اس وقت کھڑا ہو۔ ( بہار شریعت،ص ٢٦، حصہ ٣)

 مانند ''مشت نمونہ خروار'' کے ان چند حوالوں سے یہ ثابت ہوا کہ اقامت کے دورا ن با ہر سے آئے ہوئے یا مسجد میں موجود نمازیوں کا کھڑے ہوکرانتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ بیٹھ کر حی علی الصلوٰۃ تک اقامت سنی جائے۔

مکروہ سے مراد کونسا مکروہ (کراھت) ہے؟

 مندرجہ بالا اقوال فقہاء سے جب یہ معلوم ہو ا کہ اقامت میں کھڑا ہونا مکروہ ہے تو آیا اس سے کونسی کراہت مراد ہے؟اس لئے پہلے ہم کراہت کی لغوی اور شرعی تعریف کردیتے ہیں تاکہ مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہو۔

علامہ شامی فرماتے ہیں:

مکروہ ہو ضد المحبوب، قدیطلق علی الحرام کقول القدوری فی مختصرہ:ومن صلی الظھرفی منزلہ یوم الجمعۃ قبل صلاۃ الامام ولا عذر لہ کرہ لہ ذلک. وعلی المکروہ تحریما: وھوما کان الی الحرام اقرب. ویسمیہ محمد (رحمۃ اﷲ علیہ) حراماظنیا. وعلی المکروہ تنزیھا: وھوما کان ترکہ اولیٰ من فعلہ، ویرادف خلاف الاولی. (شامی، ص١٣١، جلد اول،ایچ ایم سعید)

مکروہ محبوب کا ضد ہے۔ کبھی کبھی اس کا اطلاق حرام پر ہوتا ہے جیسا کہ امام قدوری نے مختصرالقدوری میں لکھا ہے: جس نے جمعہ کے دن ظھر کی نماز اپنے گھر میں امام کی نماز سے پہلے بغیر کسی عذر شرعی کے پڑھ لی تو یہ مکروہ (یعنی حرام) ہے۔اور کبھی اس کااطلاق مکروہ تحریمی پر ہوتا ہے اور یہ حرام کے نزدیک تر ہے۔ اس کو امام محمد رحمہ اللہ حرام ظنی کہتے ہیں ۔ کبھی مکروہ کا اطلاق مکروہ تنزیہی پر ہوتا ہے۔ یہ وہ ہے کہ جس کا ترک(نہ کرنا) کرنے سے اولیٰ (بہتر) ہے۔ اسی کو خلاف اولیٰ بھی کہتے ہیں۔

صدرالشریعۃ لکھتے ہیں:

مکروہ تحریمی: یہ واجب کا مقابل ہے اس کے کرنے سے عبادت نا قص ہوجاتی ہے اور کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے اگر چہ اس کا کرنا گناہ حرام سے کم ہے اور چند بار اس کا ارتکاب کبیرہ ہے۔

مکرہ تنزیہی: جس کا کرنا شرع کو پسند نہیں مگر نہ اس حد تک کہ اس پر وعید عذاب فرمائے یہ سنت غیر موکدہ کے مقابل ہے۔ ( بہار شریعت،ص ٦، حصہ دوم)

حل مسئلہ:

 مندرجہ بالا تعریفات مکروہ سے بخوبی معلوم ہوگیا ہوگا کہ اقامت میں جو کھڑا ہونا مکروہ ہے تو اس سے مراد مکروہ تنزیہی ہے، جسے خلاف اولیٰ کہتے ہیں ،کیونکہ فقہاء کرام کے جتنے دلائل بھی ذکر کئے گئے وہ تمام اس پر دال ہیں کہ حی علی الصلوٰۃ تک اقامت میں بیٹھنا مستحب ہے اولیٰ ہے ، افضل ہے کسی بھی حنفی فقیہ نے اس کے وجوب وسنت مؤکدہ ہونے پر مفتیٰ بہ قول نقل نہیں کیا، بلکہ اس مسئلے پر زیادہ عمل کرنے والے اہل سنت (بریلوی) ہیں ،ان کے اکابر کے کتب سے بھی اس عمل کا مستحب ہونا ثابت ہوا۔ اب جبکہ یہ عمل مستحب قرار دیا گیا ہے تو مستحب کا خلاف کرنا صرف خلاف اولیٰ ( مکروہ تنز یہی) ہی ہے جیسا کہ صدر الشریعۃ قدس سرہ کے دلیل سے معلوم ہوتا ہے۔ لہذا دلائل سے یہ معلوم ہوا کہ اگر مسجد میں اقامت ہورہی ہو اور کوئی آجائے یا موجود لوگوں میں سے کوئی اٹھے اور کھڑے ہوکر اقامت سنے تو اس نے مستحب عمل ترک کردیا، اس پر اسے جو ثواب ملنا تھا اس کو اس نے ضائع کردیا۔ اور ایک خلاف اولیٰ (مکروہ تنزیہی) کام کیا جس پر اسے کوئی گناہ نہیں ملتا۔واللہ اعلم بالصواب

 سید محمد منورشاہ سواتی

 ٢٦ ،رمضان المبارک، ١٤٢٢؁ھ

 ١٢، دسمبر ٢٠٠١؁ئ، یوم الاربعائ عند الاعتکاف فی المسجدالجامع مبارک

 شموزی سوات

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post