تحفۃ المتوسلین بعبادہ الکاملین

 

المعروف

توسل اور وسیلہ کی شرعی حیثیت

 

 

تالیف

مفتی سید محمد منور شاہ نقشبندی


 

کیا فرماتے ہیں علماء حق اھل السنت والجماعت اس مسئلہ کے بارے میں کہ انبیاء و اولیاء کا توسل فی الحیوٰۃ وبعد المماۃ جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہمارے ہاں ضلع سوات بلکہ آج کل تو تمام پاکستان میں دیوبند مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء دو جماعتوں میںتقسیم ہوچکے ہیں ۔ ان میں سے جو اپنے آپ کو پکے دیوبندی کہتے ہیں تو وہ توسل وو سیلے کے استحباب و جواز کے قائل ہیں۔ اور جو علماء توسل کے منکر ہیں تو دیگر دیوبندی انہیں پنج پیری کے نام سے پکارتے ہیں یا اشاعت التوحید والسنت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ منکرین وسیلہ بھی اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں۔ جناب عالی ان حالات کے پیش نظر انصاف سے کام لیتے ہوئے حق جس طرف ہو اس کی نشاندہی دلائل سمیت بیان فرمائیے۔ تاکہ سادہ لوح عوام الناس کی تسلی و تشفی ہوجائے۔ شکریہ

 المستفتی:سید سراج الحق کراچی

الجواب بعون الملک الوھاب

 مسئلہ مسؤلہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کی حقانیت ، جواز اور استحباب کسی بھی اہل علم پر مخفی نہ ہوگی۔ علماء دیوبند بلکہ جمیع احناف اور غیر مقلدین(اہل حدیث) حضرات تک وسیلے اور توسل کے قائل ہیں۔ اس مسئلے پر علماء اہل سنت کی تحقیقی و مدلل تصانیف موجود ہیں، مگر اس کے باوجود کسی مسلک و مکتبہ فکر کا توسل ووسیلے سے انکار کرنا یہ صرف اور صرف ان کی باطنی کدورت اور بغض و عناد کی وجہ ہے۔

 سوال میں جس توسل ووسیلے کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ اسکا تعلق ذوات انبیاء و اولیاء سے ہے۔ اس لئے اس وسیلے کو توسل بالذوات الفاضلہ کہتے ہیں۔

شیخ الاسلام تقی الدین سبکی متوفیٰ ٧٥٦ھ؁ فرماتے ہیں:

ان التوسل بالنبی ﷺ جائز فی کل حال قبل خلقہ وبعد خلقہ فی مد ۃ حیاتہ فی الدنیا وبعد موتہ فی مدۃ البرزخ وبعد البعث فی عرصات القیامۃ والجنۃ وھوعلی ثلاثہ انواع.

 (شفاء السقام،ص١٣٤،مطبوعہ استنبول ترکی)

آپ ﷺ کا توسل ہر حال میں جائز ہے، آپ کی پیدائش سے پہلے بھی اور بعد میں بھی،دنیاوی زندگی کے دوران بھی اور آپ کی دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد عالم برزخ میں ہونے کے وقت بھی ،اور دوبارہ مبعوث ہونے کے بعد میدان حشرمیں بھی اور جنت میں بھی، ان تمام صورتوں میں آپ کا توسل جائز ہے ۔یہ کل تین قسمیں ہوگئیں۔

 سب سے پہلے ہم وہ قرآنی آیات اور ان کی تفسیر میں مفسرین کے وہ اقوال پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں جن میں آپ ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے آپ کے وسیلے سے دعا کرنے کا ثبوت ہے۔

قرآن شریف سے وسیلے کا ثبوت :(آیت:١)

فتلقی ادم من ربہ کلمٰت فتاب علیہ انہ ہوالتواب الرحیم۔ (بقرہ : ٣٧)

پھرآدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ بے شک وہی بہت توبہ قبول فرمانے والا بے حد رحم والا ہے۔

 وہ کلمات جو حضرت آدم علیہ السلام نے سیکھے تھے اس سے مراد کیاہے؟ اس کے بارے میں مفسرین وعلماء کے چند اقوال لکھے جاتے ہیں۔

علامہ قرطبی لکھتے ہیں:

واختلف اھل التاویل فی الکلمات قالت طائفۃ:رأی مکتوبا علی ساق العرش ''محمد رسول اﷲ'' فتشفع بذلک، فھی الکلمات. (تفسیر قرطبی ٣٢٤ جلد اول)

آیت کریمہ میں کلمات کے بارے میں اھل تاویل کے مختلف (اقوال) ہیں، ایک جماعت نے فرمایا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے عرش کے پائے پر ''محمد رسول اللہ ﷺ '' لکھا ہوا دیکھا تو آپ کے وسیلہ سے دعا کی،کلمات سے یہی مراد ہےں، یعنی آپ ﷺ کا وسیلہ پیش کرکے دعا کرنا۔

علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

عن عمربن الخطاب قال رسول اﷲ ﷺ لما اقترف آدم الخطیئۃ قال یارب اسئلک بحق محمد ان غفرت لی فقال اﷲ فکیف عرفت محمدا ولم اخلقہ؟ فقال یا رب لانک لما خلقتنی بیدک و نفخت فی من روحک فرفعت رأ سی فرأیت علی قوائم العرش مکتوباً ''لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ'' فعلمت انک لم تضف الی اسمک الا احب الخلق الیک فقال اﷲ صد قت یا آدم انہ لاحب الخلق الی واذ سالتنی بحقہ فقد غفرت لک ولو لا محمد ماخلقتک۔

 ( البدایہ والنھایہ،ص٨١، ج١،دار الفکربیروت)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب حضرت آدم علیہ السلام سے (اجتہادی) خطاء سرزد ہوئی تو فرمایا :اے میرے رب میں تجھ سے محمد( ﷺ ) کے وسیلے سے دعاکرتا ہوں کہ مجھے بخش دیں،تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ نے ان کو کیسے جانا؟حالانکہ ابھی تک میں نے ان کو پیدا نہیں کیا،تو عرض کی :اے میرے رب جب تو نے مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا فرمایا ،اورمجھ میں اپنی طرف سے روح پھونک دی اور میں نے سر اٹھایا تو میں نے عرش کے ستونوں پر ''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ'' لکھا ہوا دیکھا تو میں نے جانا کہ تو نے جس کا نام اپنے نام کے ساتھ ملا دیا ہے یہ آپ کو تمام مخلوق میں محبوب ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :آپ نے سچ کہا، اے آدم جب آپ نے ان کا وسیلہ پیش کیا تو میںنے آپ کی مغفرت کردی ،اور اگر(میرے محبوب)محمد ﷺ نہ ہوتے تو میں آپ کو پیدا نہ کرتا ۔

علامہ آلوسی لکھتے ہیں:

رأی مکتوبا علی ساق العرش محمد رسول اﷲ فتشفع بہ۔

 (روح المعانی ،ص٣٧٧، جلد ١،حقانیہ ملتان)

حضرت آدم علیہ السلام نے عرش کے ستون پر محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا تو ان کے وسیلے سے شفاعت طلب کی۔

علامہ ابوبکر البیھقی لکھتے ہیں:

لما اقترف ادم الخطیئۃ قال یا رب اسئلک بحق محمد لما غفرت لی فقال اﷲ عزوجل یا آدم وکیف عرفت محمداً ولم اخلقہ؟ قال لانک یارب لما خلقتنی بیدک و نفخت فی من روحک رفعت رأ سی فرایت علی قوائم العرش مکتوبا لا الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ فعلمت انک لم تضف الی اسمک الا احب الخلق الیک فقال اﷲ عزوجل: صدقت یا آدم انہ لاحب الخلق الی واذا سالتنی بحقہ فقد غفرت لک ولو لا محمد ما خلقتک ۔ (دلائل النبوۃ،ص ٤٨٩، جلد پنجم،دار الکتب العلمیۃ بیروت)

شیخ الا سلام تقی الدین سبکی لکھتے ہیں:

عن عمر بن الخطاب ؓ قال رسول اﷲ ﷺ لما اقترف ادم علیہ السلام الخطیئۃ قال یا رب اسئلک بحق محمد لما غفرت لی فقال اﷲ یا آدم وکیف عرفت محمداً ولم اخلقہ قال یا رب لانک لما خلقتنی بیدک ونفخت فی من روحک رفعت رأسی فرأیت علی قوائم العرش مکتوبا لا الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ فعرفت انک لم تضف الی اسمک الا احب الخلق الیک فقال اﷲ صد قت یا آدم انہ لاحب الخلق الی اذا سالتنی بحقہ فقد غفرت لک ولو لا محمد ما خلقتک۔

 (شفاء السقام،ص ١٣٤،استنبول ترکی)

شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

عن عمر بن الخطاب قال قال رسول اﷲ ﷺ لما اصاب آدم الخطیئۃ رفع رأسہ فقال یا رب بحق محمد الا غفرت لی فاوحی الیہ وما محمد؟ ومن محمد؟ فقال یارب انک لما اتممت خلقی ورفعت راسی الی عرشک فاذا علیہ مکتوب لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ فعلمت انہ اکرم خلقک علیک اذ قرنت اسمہ مع اسمک فقال نعم قد غفرت لک وھوآخر الانبیاء من ذریتک ولو لاہ ما خلقتک۔

 (مجموع فتاویٰ لابن تیمیہ،ص ٥١، جلد دوم،مطبوعہ السعودیۃ العربیۃ)

شیخ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:

 مندرجہ بالا حدیث جو دلائل النبوۃ ،شفاء السقام اورمجموع فتاویٰ کے حوالے سے نقل کی گئی، بعینہ یہی روایت شیخ اشرف علی تھانوی صاحب نے بھی نقل کی ہے، ہم اس کو اردو میں نقل کرتے ہیں تاکہ دلائل البنوۃ ،شفاء السقام اور مجموع الفتاویٰ کی عربی عبارت کا ترجمہ بھی ہوجائے اور تھانوی صاحب کی دلیل بھی ثابت ہوجائے۔

''دوسری فصل سابقین میں آپ کے فضائل ظاہر ہونے میں''

حضرت عمر بن الخطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب آدم علیہ السلام سے خطاکا ارتکاب ہوگیا توا نہوں نے جناب باری تعالیٰ میں عرض کیا کہ اے پروردگار: میں آپ سے بواسطہ محمد ﷺ کے درخواست کرتاہوں کہ میری مغفرت ہی کردیجئے، سو حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کہ اے آدم تم نے محمد ﷺ کو کیسے پہچانا حالانکہ ہنوز میں نے ان کو پیدا بھی نہیںکیا؟ عرض کیا کہ اے رب میں نے اس طرح سے پہچانا کہ جب آپ نے مجھ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ،اور اپنی (شرف دی ہوئی) روح میرے اندر پھونکی تومیں نے سرجو اٹھا یا تو عرش کے پایوں پر یہ لکھا ہوا دیکھا، لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ ''سو میں نے معلوم کر لیا کہ آپ نے اپنے نام پاک کے ساتھ ایسے ہی شخص کے نام کو ملایا ہوگا جو آپ کے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ پیارا ہوگا، حق تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم تم سچے ہو واقع میں وہ میرے نزدیک تمام مخلوق سے پیارے ہیں ،اور جب تم نے ان کے واسطہ سے مجھ سے درخواست کی ہے تو میں نے تمہاری مغفرت کی ،اور اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو میں تم کو بھی پیدا نہ کرتا۔ (نشر الطیب،ص١١ ،١٢،دوسری فصل،اسلامی کتب خانہ لاہور)

مولانا محمد زکریامحدث سہارنپوری لکھتے ہیں :

حضور اقدس کا ارشاد ہے کہ حضرت آدم (علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام ) سے جب وہ گناہ صادر ہوگیا،(جس کی وجہ سے جنت سے دنیا میں بھیج دیئے گئے تو ہر وقت روتے تھے اور دعا واستغفار کرتے رہتے تھے ایک مرتبہ آسمان کی طرف منہ کیا اور عرض کیا یا اللہ: محمد( ﷺ ) کے وسیلے سے تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں، وحی نازل ہوئی کہ محمد کون ہیں؟ (جن کے واسطے سے تم نے استغفار کی) عرض کیا کہ جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تومیں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا تھا ''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ'' تو میں سمجھ گیا تھا کہ محمد ( ﷺ )سے اونچی ہستی کوئی نہیں ہے، جن کا نام تم نے اپنے نام کے ساتھ رکھا ۔ وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیین ہیں تمہاری اولا دمیں سے ہیں ،لیکن وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کئے جاتے۔ (فضائل ذکر،ص ٩٤ ، ٩٥)

علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانی لکھتے ہیں:

ان التوسل والتشفع بہ ﷺ وبجاھہ و برکتہ من سنن المرسلین وسیر السلف الصالحین صحح الحاکم حدیث لما اقترف آدم الخطیئۃ قال یا رب اسئلک بحق محمد ﷺ لما غفرت لی الخ. (حجۃ اﷲ علی العالمین،ص ٨١٤، جلد دوم،استنبول ترکی)

آپ ﷺ کے توسل، طفیل اور برکت(سے دعامانگنا) انبیاء اور صالحین (اولیائ) کی سنت ہے،جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے آپ ﷺ کا وسیلہ پیش فرمایا۔

علامہ سید احمد دحلان مکی لکھتے ہیں:

وقد توسل بہ ﷺ ابوہ آدم قبل وجود سید نا محمد ﷺ حین اکل من الشجرہ التی نھاہ اﷲ عنھا قال بعض المفسرین فی قولہ تعالیٰ فتلقی آدم من ربہ کلمات فتاب علیہ ان الکلمات ہی توسلہ بالنبی ﷺ .

 (خلاصۃ الکلام،ص ٢٤٢، جزء ثانی،استنبول ترکی)

آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے آپ کے اب محترم (آدم علیہ السلام) نے آپ کو اس وقت وسیلہ بنایا تھا جس وقت حضرت آدم علیہ السلام نے منع شدہ درخت سے کھایا، بعض مفسرین فرماتے ہیں ،آیت کریمہ'' فتلقی آدم من ربہ کلمات فتاب علیہ'' میں کلمات سے مراد آپ ﷺ کا وسیلہ ہے۔

حافظ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

عن میسرۃ قال قلت یا رسول اﷲ متی کنت نبیا قال لما خلق اﷲ الارض واستویٰ الی السماء فسوٰ ھن سبع سموات وخلق العرش کتب علی ساق العرش محمد رسول اﷲ خاتم الانبیاء وخلق اﷲ الجنۃ التی اسکنھا آدم وحواء فکتب اسمی علی الابواب والاوراق والقباب والخیام و آدم بین الروح والجسد فلما احیاہ اﷲ تعالیٰ نظر الی العرش فرأی اسمی فاخبرہ اﷲ انہ سید ولدک فلما غر ھما الشیطٰن تابا واستشفعا باسمی الیہ.

 (مجموع فتاویٰ لابن تیمیہ،ص ١٥٠ ،جلد دوم)

حضرت میسرہ فرماتے ہیں :میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ کب نبی تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا فرمائی اور آسمان کی طرف (اپنے شایان شان) استواء فرمایا تو سات آسمان پیدا فرمائے، اور عرش کو پیدا فرمایا،اور عرش کے پائے (ستون) پرلکھا'' محمد رسول اللہ خاتم الانبیائ''اور ا للہ تعالیٰ نے اس جنت کوپیدا فرمایا جس میں حضرت آدم وحواء علیھما السلام کو سکونت عطا فرمائی۔ پھر میرا اسم(نام مبارک)جنت کے دروازوں، پتوں، قبوں اور خیموں پر لکھا ،اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، جب انہوں نے عرش کی طرف نظر کی تو میرا نام دیکھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو خبر دی کہ یہ آپ کی اولاد کے سردار ہیں، پس جب ان دونوں (آدم وحوائ) کو شیطان نے دھوکہ دیا تو انہوں نے توبہ کی اور میرے نام کے وسیلے سے ا للہ تعالیٰ سے شفاعت طلب کی۔

قرآن کریم سے وسیلے کا ثبوت :(آیت٢)

وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا. (سورۃ بقرہ:٨٩)

بنی اسرائیل ( آپ ﷺ کی تشریف آوری سے) پہلے کافروں پر آپ ﷺ کے وسیلے سے فتح (نصرت) طلب کرتے تھے۔

 عزیز قارئین :اس آیت کریمہ کی تفسیر میں چند ان مفسرین کے اقوال ھدیہ قارئین کئے جاتے ہیں،جن سے یہ معلوم ہو جا ئے گا کہ آپ ﷺ کی ولادت با سعادت سے پہلے بھی لوگوں نے آپ ﷺ کے وسیلے سے دعا کی ۔

علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

عن ابن عباس ان یہوداً کانوا یستفتحون علی الا وس والخزرج برسول اﷲ ﷺ قبل مبعثہ.

 (تفسیرابن کثیر،ص١٢٤،جلد اول)

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہود آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے اوس اور خزرج (کافروں)پر(ان کے خلاف) آپ ﷺ کے وسیلے سے فتح طلب کرتے تھے۔

امام ابوالبرکات نسفی لکھتے ہیں:

یستفتحون ای یستنصرون علی المشرکین اذا قاتلو ھم قالوا اللھم انصرنا بالنبی المبعوث فی آخرالزمان الذی نجد نعتہ فی

التوراۃ۔ (تفسیر مدارک،ص ٦٧، جلد اول،قدیمی کراچی)

یہود مشرکین پر(ان کے خلاف) مدد طلب کرتے تھے جب ان سے لڑتے اور کہتے: یاا ﷲان کے خلاف ہماری مدد فرما، آخری زمانے میں مبعوث ہونے والے نبی ﷺ کے وسیلے سے جن کی صفت(تعریف) ہم توراۃ میں پاتے ہیں۔

علامہ سیوطی لکھتے ہیں:

اللھم ربنا انا نسئلک بحق احمد النبی الامی الذی وعد تنا ان تخرجہ لنا فی اخرالزمان وبکتابک الذی تنزل علیہ آخر ما تنزل ان تنصرنا علی اعدائنا (تفسیردرمنثور،ص ١٧٠،جلد١،بیروت)

اے اللہ اے ہمارے رب: ہم اس نبی امی احمد ﷺ کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں جن کا تونے ہم سے آخری زمانے میں پیدا فرمانے کا و عدہ کیا ہے۔ اور اس کتاب کے وسیلے سے بھی جس کو توان پر آخری کتاب کی صورت میں نازل فرمائے گا،یہ کہ تو ہمارے دشمنوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔

علامہ قرطبی لکھتے ہیں:

قال ابن عباس: کانت یہود خیبرتقاتل غطفان فلما التقوا ھزمت یہود فعادت یہود بھذ ا الدعاء و قالوا: انانسئلک بحق النبی الامی الذی وعد تنا ان تخرجہ لنا فی آخر الزمان الاتنصرنا علیھم قال: فکانوا اذا التقوا دعوا بھذ ا الدعاء فھزموا غطفان۔ (تفسیر قرطبی،ص ٢٧، جزء ثانی)

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ خیبرکے یہود غطفان(کافروں کے قبیلے) کے ساتھ لڑتے رہتے تھے، جب بھی سامنا ہوتا یہود بھاگ جاتے، پس یہود اس دعا کے ساتھ واپس لوٹے ،اورکہا: ہم اس نبی امی( ﷺ ) کے وسیلے سے سوال (دعا) کرتے ہیں جن کا تونے ہم سے وعدہ فرمایا ہے کہ تو ان کو ہمارے لئے آخری زمانے میں پیدا فرمائے گا، یہ کہ تو ہماری ان (غطفان) کے مقابلے میں مدد فرما۔ ابن عباس نے فرمایا، پس جب یہود غطفان کے مقابلے میں آئے ،اور یہ دعا کی تو غطفان کو شکست ہوئی(بھاگ گئے)۔

علامہ قاضی بیضاوی لکھتے ہیں:

یستنصرون علی المشرکین ویقولون اللھم انصرنا بنبی اخرالزمان المنعوت فی التوراۃ۔ (تفسیر بیضاوی، درسی،ص٩٤)

یہود مشرکین کے خلاف مدد طلب کرتے تھے۔ اور کہتے تھے یا ا ﷲ اس نبی آخر الزمان ﷺ کے وسیلے سے ہماری مدد فرماجن کی توراۃ میں تعریف کی گئی ہے۔

علامہ شیخ زادہ لکھتے ہیں:

 علامہ بیضاوی کی مندرجہ بالا عبارت کی تشریح فرماتے ہوئے علامہ محمد بن مصلح الدین مصطفی القوجوی المعروف بشیخ زادہ فرماتے ہیں:

یستفتحون ای یستنصرون اﷲ تعالی علی عد وھم ویستکشفون کربتھم ونائبتھم متوسلین فی ذلک بکرامتہ ﷺ عندربہ ویقولون: اللھم انانسئلک بحق النبی الامی الذی وعدتنا ان تخرجہ لنافی آخر الزمان الا مانصر تناعلیہ فاذا دعوا بھذ ا الدعاء غلبوا علی عدوھم وکانوا یقولون اللھم انصرنابحق نبیک الذی تبعثہ فی آخر الزمان۔

 (حاشیہ شیخ زادہ علی البیضاوی، ص٣٤٩، جز اول،استنبول ترکی)

یہود حضور ﷺ کی اس عزت و شرافت جو بار گاہ خداوندی میں ہے ،کے وسیلے سے اپنے دشمنوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے تھے اور اپنی مصیبتوں کے دور ہونے کی دعا کرتے تھے۔ اورکہتے تھے یا اللہ ہم اس نبی امی ﷺ کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں جن کا تونے ہم سے وعدہ کیا ہے۔ کہ تو ان کو ہمارے لئے آخری زمانے میں مبعوث فرمائے گا۔یہ کہ ہماری ان کے مقابلے میں مدد فرما۔ جب یہود یہ دعا کرتے تو اپنے دشمن پر غالب آجاتے، اور وہ (یہود) کہتے تھے: یا اللہ اپنے اس نبی ﷺ کے وسیلے سے ہماری مدد فرما جن کو تو آخری زمانے میں مبعوث فرمائے گا۔

امام رازی لکھتے ہیں:

ان الیھود من قبل مبعث محمد ﷺ ونزول القرآن کا نوا یستفتحون ای یسألون الفتح والنصرۃ وکانوا یقولون: اللھم افتح علینا وانصرنا بالنبی الامی۔(تفسیر کبیر،ص٥٩٨، جلدثالث)

نزلت فی بنی قریظۃ والنضیر، کانوا یستفتحون علی الاوس والخزرج برسول اﷲ قبل المبعث عن ابن عباس وقتادۃ والسدی ۔ (تفسیر کبیر،ص ٥٩٩، جلد ثالث)

یہود آپ ﷺ کے بعثت اور قرآن کے نزول سے پہلے فتح اور مدد طلب کرتے تھے، اور کہتے تھے: یا اللہ نبی امی ﷺ کے وسیلے سے ہمیں فتح عطا فرمایا اور ہماری مدد فرما۔

(سورہئ بقرہ کی یہ مذکورہ آیت)بنی قریظہ اور نبی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ (دونوں قبیلے) آپ ﷺ کے بعثت سے پہلے آپ ﷺ کے وسیلے سے اوس اور خزرج کے مقابلے میں فتح طلب کرتے تھے۔ یہ قول حضرت ابن عباس، قتادہ اور سدی ؓ سے مروی ہے۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں:

وکانوا أی الیھود من قبل أی قبل مبعث النبی ﷺ یستفتحون یستنصرون علی الذین کفروا أی علی مشرکی العرب ویقولون: اللھم انصرنا علیھم بالنبی المبعوث فی اخرالزمان الذی نجد صفتہ فی التوراۃ.( تفسیر مظہری ،ص٩٤، ج١،رشیدیہ کوئٹہ)

یہود آپ ﷺ کے بعثت سے پہلے عرب کے مشرکوں کے خلاف فتح طلب کرتے تھے، اور کہتے تھے: یا اللہ ہماری ان مشرکوں پر ان نبی آخر زمان ﷺ کے وسیلے سے مدد فرما جن کی صفت (تعریف) ہم توراۃ میں پاتے ہیں۔

مفسر تفسیر حسینی لکھتے ہیں:

بار خدا یا نصرت میخواہیم ازتو بمحمد علیہ الصلواۃ والسلام کہ رسول آخرالزمان است۔ (تفسیر حسینی،ص١٥)

یا اللہ ہم تجھ سے رسول آخر زمان محمد ﷺ کے وسیلے سے مدد طلب کرتے ہیں۔

امام ابن جریرلکھتے ہیں:

عن ابن عباس ان یھود کانوا یستفتحون علی الاوس والخزرج بر سول اﷲ ﷺ قبل مبعثہ۔(تفسیرابن جریر،ص٤٥٥، ج ١،بیروت)

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہود اوس اورخزرج کے مقابلے میں آپ ﷺ کے بعثت سے پہلے آپ کے وسیلے سے فتح طلب کیا کرتے تھے۔

مولانا عبدالحق دارمنگی لکھتے ہیں:

'' یہود نبی کریم ﷺ کے وسیلے سے مشرکین عرب کے خلاف مدد طلب کرتے تھے۔ اور کہتے تھے: یا اللہ اس نبی آخر زمان کے وسیلے سے ہماری مد د فرما جن کا ذکر ہم تورات میں پاتے ہیں۔ (تفسیر دارمنگی( پشتو)،ص٤ا)

علامہ شیخ عبدالحق حقانی لکھتے ہیں:

مدینہ کے یہود بنی اسد اوربنی غطفان وغیرہ قبائل عرب سے جب شکست کھاکر عاجز ہوتے تو اپنے علماء کی تعلیم سے یہ دعا کیاکرتے تھے: اللھم ربنا انا نسئلک بحق احمد ن النبی الامی الذی وعد تنا ان تخرجہ لنافی آخر الزمان وکتابک الذی تنزل علیہ آخر ما تنزل ان تنصرنا علی اعدائنا۔ کہ آلہی ہمیں ببرکت نبی آخر الزمان محمد ﷺ اور ببرکت قرآن مجید ہمارے دشمنوں پر فتحیاب کر۔ (رواہ الحا کم والبیھقی) ۔ ( تفسیر فتح المنان المعروف بہ تفسیر حقانی،ص ١٨٥، جلد اول)

علامہ آلوسی لکھتے ہیں:

نزلت فی قریظۃ والنضیر کانوا یستفتحون علی الا وس والخزرج برسول ﷺ قبل مبعثہ قالہ ابن عباس وقتادۃ ویقولون اللھم انا نسئلک بحق نبیک الذی وعد تنا ان تبعثہ فی آخر الزمان ان تنصرنا الیوم علی عد ونا فینصرون اہ.

 (روح المعانی ،ص٥٠٥، جلد ١،حقانیہ ملتان)

یہ مذکورہ آیت قریظہ اور نضیر کے بارے میں نازل ہوئی ۔ وہ حضور ﷺ کے بعثت سے پہلے آپ کے وسیلے سے اوس اور خزرج پر فتح طلب کرتے تھے۔ یہ تفسیر ابن عباس وقتادہ سے مروی ہے ۔ اور وہ (یہود) کہتے تھے: یا اللہ تیرے اس نبی کے وسیلے سے ہم تجھ سے دعا کرتے ہےں کہ جن کا تونے آخری زمانے میں مبعوث فرمانے کا و عدہ فرمایا ہے، آج ہمارے دشمن کے مقابلے میں ہماری مدد فرما، پس ان کی مدد کی جاتی۔

حاشیۃ الشھاب علی البیضاوی میں ہے:

روی السدی انھم کانو اذا اشتد الحرب بینھم وبین المشرکین اخرجوا التوراۃ ووضعوا اید یھم موضع ذکر النبی ﷺ وقالوا اللھم انا نسئلک بحق نبیک الذی وعد تنا ان تبعثہ فی آخر الزمان ان تنصر نا الیوم علی عد ونا فینصرون.

 (حاشیۃ الشھاب علی البیضاوی،ص ٢٠٣، جلد ثانی)

امام سدی سے روایت ہے کہ جب یہود اور مشرکین کے درمیان لڑائی (جنگ) سخت ہوجاتی تو یہود تورات لیکر اپنے ہاتھوں کو آپ ﷺ کی ذکرکردہ تعریف کی جگہ پر رکھتے اور کہتے: یا اللہ ہم تیرے اس نبی کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں جن کا تونے آخری زمانے میں مبعوث فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے، یہ کہ آج تو ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما پس ان کی مدد کی جاتی۔

علامہ شبیر احمدعثمانی لکھتے ہیں:

قرآن کے اتر نے سے پہلے جب یہودی کا فروں سے مغلوب ہوتے تو خدا سے دعا مانگتے۔ '' ہم کو نبی آخر الزمان اور جو کتاب ان پر نازل ہوگی ان کے طفیل سے کافروں پر غلبہ عطا فرما۔ (تفسیر عثمانی،ص١٧)

علامہ سیوطی لکھتے ہیں:

یستفتحون أی یطلبون الفتح والنصرۃ۔ یقولون اللھم انصرنا علیھم بالنبی المبعوث اخر الزمان. (جلالین شریف،ص١٤)

یہود فتح اور نصرت طلب کرتے تھے، اور کہتے تھے :یا اللہ نبی آخر زمان کے وسیلے سے ہماری ان کے مقابلے میں مدد فرما۔

علامہ ابن حجرلکھتے ہیں:

یستنصرون علی المشرکین ویقولون اللھم انصرنا بنبی آخر الزمان المنعوت فی التوراۃ.

 (بخاری شریف ،ص٦٤٣، جلد٢ ،حاشیہ :٥،نور محمد کراچی)

یہود کفار پر مدد طلب کرتے تھے، اور کہتے تھے: یا اللہ تو راۃ میں موصوف نبی آخرزمان ﷺ کے وسیلے سے ہماری مدد فرما۔

حافظ ابن قیم لکھتے ہیں:

ان الیھودکانوا یحاربون جیرانھم من العرب فی الجاھلیۃ ویسنتصرون علیھم بالنبی ﷺ قبل ظہورہ فیفتح لھم وینصرون علیھم . (بدائع الفوائد ،ص١٤٥، جلد چہارم)

بیشک یہود دور جاہلیت میں اپنے پڑوسی عرب سے لڑتے تھے اور ان کے خلاف آپ ﷺ کی آمد سے پہلے آپ کے وسیلے سے مدد طلب کرتے تھے تو ان کو فتح عطا ہوتی تھی، اور ان کی مدد کی جاتی تھی۔

علامہ داؤد بن سلیمان بغدادی لکھتے ہیں:

اتفق المفسرون واہل الحدیث علی انھا نزلت فی یہود خیبر کانوا قبل وجودہ ﷺ یحاربون اسدا وغطفان من مشرکی العرب وکانو یقولون اللھم بحق النبی الذی تبعثہ اخرالزمان الا نصرتنا علیھم فینصرون. (المنحۃ الوھبیۃ،ص٣١،ترکی)

مفسرین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ (مذکورہ ) آیت کریمہ خیبر کے یہود کے بارے میں نازل ہوئی جو آپ ﷺ کی بعثت (تشریف آوری) سے پہلے عرب کے مشرک غطفان اور اسد سے لڑتے تھے اور کہتے تھے :یا اللہ تو (اپنے ) اس نبی کے وسیلے سے ہماری مد د فرما جس کو تو آخری زمانے میں مبعوث فرمائے گا پس ان کی مدد کی جاتی۔

شیخ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:

اور وہ لوگ اس کے آنے سے پہلے (یعنی قبل بعثت) کفار (یعنی مشرکین) کے مقابلہ میں آپ کے توسل سے فتح کی دعا کیا کرتے تھے۔

 (نشرالطیب،ص١٤،اسلامی کتبخانہ لاہور)

شیخ صوفی محمد سروردیو بندی شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہورلکھتے ہیں:

یستفتحون علی الذین کفروا: کے تحت متعدد تفاسیر میں لکھا ہے کہ خیبر اور بنی قریظہ اور بنی نضیر کے یہود ی اور یہود مدینہ نبی آخرالزمان کے توسل سے فتح طلب کیا کرتے تھے، جب ولادت سے بھی پہلے توسل جائز ہے تو وفات کے بعد بھی جائز ہونا چاہئے۔

 (الخیر الجاری شرح صحیح البخاری،ص ١١٣، جلد دوم)

 عزیز قارئین:قرآن مجید کی آیات اور ان کی تفسیر میں متعدد مفسرین کے اقوال سے یہ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کی بعثت (دنیا میں تشریف آوری )سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور اہل کتاب (بنی اسرائیل)آپ ﷺ کے وسیلے سے اپنی مغفرت اور دشمن پر فتح ونصرت طلب کرتے تھے۔

اشکال واعتراض:

 اگر کوئی یہ کہے کہ آیات مبارکہ اورمفسرین کے اقوال سے یہ معلوم ہو ا کہ آپ ﷺ کے توسل سے یہودیوں نے فتح و نصرت کی دعا کی ،اور یہودیوں کا عمل ہمارے لئے دلیل نہیں بن سکتا ،اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کا فعل بھی ہم پر لازم نہیں۔(کیونکہ ماقبل شریعتوں کے احکامات کے ہم مکلف نہیں )

ماقبل شریعتوں کے احکامات کے ہم کب مکلف ہونگے؟

 ماقبل شریعتوں کے احکامات جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ بغیر کسی انکار کے بیان فرما دیں تو اس وقت ہم اس کے مکلف ہونگے۔

مشہور اصولی عالم دین علامہ ملا جیون لکھتے ہیں:

وشرائع من قبلنا تلز منا اذا قص اﷲ ورسولہ من غیر انکار علی انھا شریعۃ لرسولنا ۔ (نور الانوار،ص ٢١٦، مبحث افعال النبی ﷺ )

ماقبل انبیاء کی شریعت کو جب اللہ اور رسول اللہ ﷺ بغیر کسی انکار کے بیان کریں تو وہ ہم پر لازم ہوتی ہے ،گویا کہ یہ ہمارے رسول ﷺ کے لئے شریعت بن گئی۔

امام حسام الدین لکھتے ہیں:

ومما یتصل بسنۃ نبینا علیہ السلام شرائع من قبلہ والقول الصحیح فیہ ان ما قص اﷲ تعالیٰ او رسولہ منھا من غیر انکار یلز منا علی انہ شریعۃ لرسولنا ﷺ ـ

 (الحسامی مع النظامی ٩٢،٩٣ بحث افعال النبی ﷺ )

نبی کریم ﷺ کی سنت کے ساتھ ماقبل انبیاء کی شریعت بھی متصل ہے،اس کے متعلق صحیح قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ اگر ماقبل لوگوں کی شریعت کو بیان فرمائیں اور اس پر کوئی انکار (نکیر) نہ کریں تو وہ ہم پر بھی لازم ہے اس بناء پر کہ وہ ہمارے رسول ﷺ کی شریعت ہے۔

عزیز قارئین:اس سے ثابت ہوا کہ پہلے شریعتوں میں سے جو بھی حکم ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ بیان فرمائے اور اس پر نکیر(رد) نہ کریں تو وہ ہمارے لئے قابل عمل ہے ،اور دلیل بن سکتی ہے۔

احادیث مبارکہ سے وسیلے کا ثبوت

نبی کریم ﷺ نے خود صحابہ کرام کے وسیلے سے دعا کی ہے:

عن امیۃ بن خالد ابن عبداﷲ بن اسید عن النبی ﷺ انہ کان یستفتح بصعالیک المھاجرین. (مشکواۃ شریف،ص٤٤٧،نور محمد کراچی)

آپ ﷺ فقراء مھاجرین کے وسیلے سے فتح طلب کرتے تھے۔

ملا علی قاری مذکورہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہےں :

(کان یستفتح) ای یطلب الفتح والنصرۃ علی الکفار من اﷲ تعالیٰ (بصعالیک المھاجرین) أی بفقرائھم وببرکۃ دعائھم ۔۔۔۔۔بان یقول: اللھم انصرنا علی الاعداء بحق عبادک الفقراء المھاجرین۔۔۔۔۔کان ﷺ یستفتح ویستنصر بصعالیک المسلمین۔ (مرقات،ص ١٠٠، جلد نہم، مکتبہ حقانیہ)

آپ ﷺ کفار کے خلاف اللہ تعالیٰ سے فتح اور مدد طلب کرتے تھے فقراء مھاجرین اور ان کی دعاؤں کے وسیلے سے ۔۔۔۔۔۔اورفرماتے تھے: یا اﷲ دشمن کے مقابلے میں ہماری مدد فرما فقراء مھاجرین کے وسیلے سے۔۔۔۔آپ ﷺ فقراء مسلمانوں کے وسیلے سے فتح اور مدد طلب کرتے تھے۔

قال نبی اﷲ ﷺ انما ینصراﷲ ہذہ الا مۃ بضعیفھا بد عوتھم وصلاتھم واخلاصھم.

 (نسائی شریف،ص ٦٤، جلد دوم،کتاب الجہاد،نور محمد کراچی)

آپ ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ اس امت کی مدد اس امت کے ضعیف (فقرائ) لوگوں اور ان کی نمازوں اور اخلاص کے وسیلے سے فرماتا ہے۔

عن ابی الدرداء یقول سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول ابغونی الضعیف فانکم انما ترزقون وتنصرون بضعفائکم.

 (نسائی،ص ٦٤، جلد ٢،کتاب الجہاد،نور محمد کراچی)

آپ ﷺ نے فرمایا میرے لئے ضعیفوںکو تلاش کرو، بیشک تمہیں ضعفاء (فقیروں) کے وسیلے سے رزق دیاجاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔

شیخ محمد محدث تھانوی درج بالاحدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

قال ابن بطال وفیہ جواز الاستعانہ بالضعفاء وا لصالحین فی الحرب. (نسائی،ص ٦٤، جلد ٢،کتاب الجہاد،نور محمد کراچی)

ابن بطال کہتے ہیں اس حدیث میں جنگ(جہاد) کے دوران ضعفاء اور صالحین کے وسیلے سے مدد طلب کرنے کا جواز ہے۔

مفتی خیر محمد جالندھری درج بالا حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوںکی ذات اور اعمال واخلاص کے وسیلہ سے دعا مانگنا جائز ہے ۔

 (خیر الفتاوٰی،ص ١٩٤، جلد اول،امدادیہ ملتان)

شیخ اشرف علی تھانوی مندرجہ بالا حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

اہل طریق میں مقبولان الہی کے توسل سے دعا کرنا بکثرت شائع ہے۔ حدیث سے اسکا اثبات ہوتا ہے۔ اور شجرہ پڑھنا جو اہل سلسلہ کے یہاں معمول ہے اس کی بھی یہی حقیقت اور غرض ہے۔

 (التکشف عن مہمات التصوف،ص ٦٦٨)

عن ابی الدرداء عن النبی ﷺ قال ابغونی فی ضعفائکم فانما ترزقون او تنصرون بضعفا ئکم. رواہ ابو داؤد.

 (مشکوٰۃ،ص ٤٤٧،باب فضل الفقرائ،قدیمی کراچی)

آپ ﷺ نے فرمایا مجھ کو غرباء میں ڈھونڈنا، کیونکہ تم لوگوں کو رزق یا دشمنوں پر غلبہ (مدد) غرباء ہی کے طفیل سے میسر ہوتا ہے۔

شیخ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:

اس (مذکورہ) حدیث سے بھی توسل کا جواز ثابت ہے، بلکہ اس میں مطلق اسلام ہی توسل کے لئے کافی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ غیر مسلم تو یقینا مراد نہیں ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ اس شخص میں کوئی حیثیت مقبولیت کی ہو، مثل مسکنت مذکورہ فی الحدیث کے۔ (التکشف عن مہمات التصوف،ص ٦٦٩)

آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو اپنے وسیلے سے دعا کرنے کا امر فرمایا

عن عثمان بن حنیف ان رجلا ضریرالبصراتی النبی ﷺ فقال ادع اﷲ لی ان یعافینی فقال ان شئت اخرت لک وھوخیر وان شئت دعوت فقال ادعہ فامرہ ان یتوضا فیحسن وضوء ہ ویصلی رکعتین وید عوا بھذا الدعاء اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قد توجھت بک الی ربی فی حاجتی ہذا لتقضی اللھم فشفعہ فی. قال ابواسحق ہذا حدیث صحیح.

 (ابن ماجہ،ص١٠٠،باب ما جاء فی صلوٰۃ الحاجۃ،مجتبائی لاہور)

 مندرجہ بالاحدیث کا ترجمہ ہم مولانا تھانوی صاحب کے حوالے سے نقل کرکے پھر مولانا تھانوی صاحب کی رائے اور مسلک بیان کرتے ہیں۔

عثمان بن حنیف سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ دعا کیجئے اللہ تعالیٰ مجھ کو عافیت دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگرتو چاہے اس کو ملتوی رکھوں اور یہ زیادہ بہتر ہے ، اور اگر تو چاہے تو دعا کردوں، اس نے عرض کیا کہ دعا ہی کردیجئے، آپ ﷺ نے اس کو حکم دیا کہ وضو کرے، اور اچھی طرح وضو کرے، اوردورکعت پڑھے، اور یہ دعا کرےں کہ: اے اللہ میںتجھ سے درخواست کرتاہوں اور آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں بوسیلہ محمد ( ﷺ ) نبی رحمت کے، اے محمد( ﷺ ) میں آپ کے وسیلہ سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ پوری ہووے، اے اللہ آپ ﷺ کی شفاعت میرے حق میں قبول کیجئے۔

مولانا تھانوی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس سے توسل صراحۃ ثابت ہوا ،اورچونکہ آپ ﷺ کا اس کے لئے دعا فرمانا کہیں منقول نہیں ،اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح توسل کسی کی دعا کا جائز ہے اسی طرح توسل دعا میں کسی کی ذات کا بھی جائز ہے۔

 (نشرالطیب،ص ٢٤٠،اڑتیسویں فصل،اسلامی کتب خانہ لاہور)

علامۃ العراق شیخ جمیل افندی درج بالا حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

وتقول الوھابیۃ ان ھذا انما کان فی حیاۃ النبی ﷺ فلیس یدل علی جواز التوسل بہ بعد موتہ فنجیب ان الدعاء ہذا قد استعملہ الصحابۃ والتابعون ایضا بعد وفاتہ ﷺ لقضاء حوائجھم ید ل علیہ مارواہ الطبرانی والبیھقی ان رجلا کان یختلف الی عثمان ؓ زمن خلافتہ فی حاجتہ ولم یکن ینظر فی حاجتہ فشکی الرجل ذلک لعثمان بن حنیف فقال لہ ائت المیضاۃ فتوضأ ثم ائت المسجد فصل ثم قل اللھم انی اسئلک واتو جہ الیک بنبینا محمد نبی الرحمۃ یا محمد انی اتوجہ بک الی ربک لتقضی حاجتی وتذکر حاجتک فانطلق الرجل فصنع ذلک ثم اتی باب عثمان ؓ فجاء ہ البواب واخذ بید ہ وأدخلہ علی عثمان فأ جلسہ معہ وقال اذکرحاجتک فذکرحاجتہ فقضا ھا ثم قال لہ ماکان لک من حاجۃ فاذکرھا فلما خرج الرجل من عندہ لقی ابن حنیف فقال لہ جزاک اﷲ خیرا ماکان ینظر فی حاجتی حتی کلمتہ لی فقال ابن حنیف واﷲ ما کلمتہ ولکن شھدت رسول اﷲ ﷺ وقد اتاہ ضر یر فشکی الیہ ذھاب بصرہ الحدیث۔

 (الفجر الصادق،ص ٥٨،استنبول ترکی)

حضرت جمیل آفندی صدقی زھاوی کا مسلک وعقیدہ:

فہذا توسل ونداء بعد وفاتہ ﷺ علی ان النبی ﷺ حی فی قبرہ فلیست درجتہ دون درجۃ الشھد اء الذ ین صرح اﷲ تعالیٰ بانھم احیاء عندربھم یرزقون.

(الفجر الصادق فی الرد علی منکری التوسل والکرامات والخوارق،ص ٥٨، مطبوعہ ترکی)

یہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد توسل اور نداء ہے بناء بریں کہ آپ ﷺ اپنی قبر اطھر میں زندہ ہیں، اور آپ کادرجہ ان شھداء کے درجے سے کم نہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تصریح (نص) فرمائی کہ بے شک شھداء اپنے رب کے نزدیک زندہ ہیں اورانہیں رزق دیاجاتا ہے۔

مذکورہ حدیث کا ترجمہ:

وھابی (منکر ین توسل) کبھی یہ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ جو حدیث ضریر میں ہے آپ ﷺ کی حیات میں تھا اس سے توسل بعدالوفات پراستدلال نہیں کیا جا سکتا۔ ہم جو اب دیتے ہیںکہ طبرانی نے کبیر میں عثمان بن حنیف سابق الذکر سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس کسی ضرورت کی وجہ سے جا یا کرتاتھا لیکن وہ اس کی طرف التفات نہ فرماتے، اس نے عثمان بن حنیف سے کہا توانہوں نے فرمایا: تو وضو کرکے مسجد میں جا،اور وہی دعا اوپر والی سکھلا کر کہا کہ یہ پڑھ چنانچہ اس نے یہی کیا، اور حضرت عثمان کے پاس جو پھر گیا تو انہوں نے بڑی تعظیم وتکریم کی اور کام پورا کردیا ۔

شیخ تھانوی لکھتے ہیں :

اس روایت میں توسل بعد الوفات بھی ثابت ہوا ۔ (التکشف)

شیخ الاسلام اما م سبکی فرماتے ہیں:

ولا شک ھذا المعنی حاصل فی حضرۃ النبی وغیبتہ فی حیاتہ وبعد وفاتہ ﷺ . (شفاء السقام، ١٣٩،طبع ترکی)

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ معنی (توسل) آپ ﷺ کی حالت حضور (موجودگی)، غیبوبت(عدم موجودگی)،زندگی میں اور بعد الوفات جائز (حاصل) ہے۔

شیخ سرفراز خان صفدرگکھڑوی درج بالا حدیث کی تحقیق میں لکھتے ہیں:

یہ روایت اصول حدیث کے لحاظ سے بالکل صحیح ہے ۔

 (تسکین الصدور،ص ٤٣١،باب ہشتم،مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

ان عبارات سے توسل کا صحیح مفہوم اور مراد واضح ہوجاتی ہے اور اس طرح کے توسل میں نہ تو شرک لازم آتا ہے اور نہ کراہت۔ جن حضرات نے اس توسل کو نصوص کے خلاف سمجھا اور بتایا ہے وہ خود جہل مرکب کا شکار ہیں ،اور بالکل غیر متعلق نصوص سے اس کا رد کرتے ہیں ۔

 (تسکین الصدور،ص ٤٣٣،باب ہشتم،مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

شیخ عبد الغنی دھلوی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

والحدیث ید ل علی جواز التوسل والاستشفاع بذاتہ المکرم فی حیٰوتہ و اما بعد مما تہ فقد روی الطبرانی فی الکبیر الخ.

 (انجاح الحاجۃ حاشیہ ابن ماجہ،ص ٩٨،قدیمی کراچی)

حدیث (ضریر ) میں اس بات پر دلیل ہے کہ تو سل اور استشفاع آپ ﷺ کے وسیلے سے آپ کی زندگی میں جائز ہے اور آپ کی وفات کے بعد (توسل) تو وہ طبرانی میں مذکور ہے۔

حضور ﷺ نے خود اپنے وسیلے سے بھی دعا کی:

علامہ العراق حضرت جمیل آفندی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

لنا علی جواز التوسل والاستغاثۃ دلائل منھا قولہ ﷺ (اغفر لامی فاطمۃ بنت اسد ووسع علیھا مد خلھا بحق نبیک والانبیاء من قبلی) الی اخر الحدیث رواہ الطبرانی فی الکبیر و صححہ ابن حبان والحاکم عن انس بن مالک ؓ وفاطمۃ ہذ ہ اُم علی کرم اﷲ وجھہ التی ربت النبی ﷺ وروی ابن ابی شیبۃ عن جابر مثل ذلک۔

 (الفجرالصادق فی الرد علی منکری التوسل والکرامات والخوارق،ص ٥٧،ترکی)

سید احمددحلان مکی لکھتے ہیں:

ومماجاء عنہ ﷺ من التوسل قولہ ﷺ عن انس بن مالک ؓ قال لما ماتت فاطمۃ بنت اسد ؓ وکانت ربت النبی ﷺ وہی اُم علی بن ابی طالب ؓ دخل علیھا رسول اﷲ ﷺ فجلس عندراسھا وقال رحمک اﷲ یا امی بعد امی وذکر ثناء علیھا وکفنھا ببردہ وامرہ بحفر قبرھا قال فلما بلغوا اللحد حفرہ ﷺ بیدہ واخرج ترابہ بیدہ فلما فرغ دخل ﷺ فاضطجع فیہ ثم قال اﷲ الذی یحی ویمیت وہوحی لایموت اغفرلامی فاطمۃ بنت اسد ووسع علیھا مدخلھا بحق نبیک والانبیاء الذ ین من قبلی فانک ارحم الراحمین.

 (خلاصۃ الکلام فی بیان امراء البلد الحرام،ص ٢٤١، جزء ثانی، مطبوعہ ترکی)

حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی ؓ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد ؓ وفات پاگئی جنہوں نے آپ ﷺ کی تربیت (پرورش) کی تھی۔ تو آپ ﷺ آئے اور ان کے سرکی طرف بیٹھ گئے اور فرمایا: اے میری ماں، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، اور اس کی تعریف کی اور آپ ﷺ نے اپنی چادر میں اس کو کفن دیا ،اور آپ نے قبر کھودنے کا حکم فرمایا، جب لحدتک قبر پہنچی توآپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے کھودا، اور مٹی نکالی اس کے بعد آپ ﷺ اس کی قبر میں لیٹ گئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے کہ جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہ زندہ ہے ،کبھی نہیں مرے گا، (یااللہ) میری امی فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما، اپنے نبی اور مجھ سے پہلے انبیاء کے وسیلے سے اس قبر کو وسیع فرما ،بے شک تو رحم فرمانے والا ہے۔

علامہ احمدبن زینی دحلان مکی اور خلاصہ بحث:

فتلخص من ہذ ا انہ یصح التوسل بہ ﷺ قبل وجودہ وفی حیاتہ وبعد وفاتہ. (خلاصۃ الکلام،ص ٢٤٤، جزء ثانی،ترکی)

بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کا توسل آپ کے پیدائش سے پہلے، آپ کی حیات اور بعد الوفات ( ہرصورت میں) جائز اور صحیح ہے۔

امام بخاری روایت نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

عن انس بن مالک ان عمر بن الخطاب ؓ کان اذا قحطوا استسقی بالعباس بن عبدالمطلب ؓ فقال اللھم انا کنا نتوسل الیک بنبینا ﷺ فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون ۔(بخاری شریف ،ص١٣٧، جلد١،ابواب الاستسقائ،نور محمد کراچی)

حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ جب بھی خشک سالی کی تکلیف آتی تو حضرت عمر حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) کو بطور توسل آگے کرتے، اورکہتے: یااللہ بے شک ہم تیری طرف اپنے نبی کریم ﷺ کو وسیلہ کے طور پر پیش کرتے تو ہم پر بارش برستی، اب ہم تیری طرف اپنے نبی کریم ﷺ کے چچا مبارک کو وسیلہ بناتے ہیں، پس ہم پر بارش نازل فرما تو ان پر بارش ہوتی۔

امام سبکی مذکورہ بالا حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

وکذ الک یجوز مثل ھذ ا التوسل بسائرالصالحین وھذا شئی لاینکرہ مسلم بل متد ین بملۃ من الملل.( شفاء السقام،ص ١٤٣،ترکی)

اسی طرح تمام اولیاء (صالحین) کا توسل جائز ہے، اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہوسکتا، بلکہ کسی دوسرے دین (ملت ) والے بھی اس سے انکار نہیں کرسکتے۔

شیخ تھانوی مذکورہ حدیث بخاری نقل کرنے کے بعدلکھتے ہیں:

اس حدیث سے غیر نبی کے ساتھ بھی توسل جائز نکلا، جب کہ اس کو نبی سے کوئی تعلق ہو، قرابت حسیہ کا یا قرابت معنویہ کا، تو توسل بالنبی کی ایک صورت یہ بھی نکلی، اور اہل فہم نے کہا ہے کہ اس پر متنبہ کرنے کے لئے حضرت عمر نے حضرت عباس (رضی اللہ عنھا) سے توسل کیا، نہ اس لئے کہ پیغمبر ﷺ کے ساتھ وفات کے بعد توسل جائز نہ تھا جب کہ دوسری روایت سے اسکا جواز ثابت ہے ۔ اور چونکہ اس توسل پر کسی صحابی سے نکیر منقول نہیں اس لئے اس میں اجماع کے معنی آگئے۔ (نشر الطیب،ص٢٤٢،اڑتیسویں فصل)

مفتی رشید احمد لدھیانوی مندرجہ بالا حدیث کے کئی توجیہات ذکر کرتے ہیں:

ا) اس پر تنبیہہ مقصود تھی کہ توسل بالنبی ﷺ کی دوصورتیں ہیں ایک توسل بذاتہ اور دوسری توسل باھل قرابتہ علیہ السلام۔

٢) کہ حضرت عباس کے توسل کے ساتھ آپ کی دعا بھی مقصود تھی۔

٣) یہ بتا نا مقصود تھا کہ توسل بغیر الانبیاء علیہم السلام من الاولیاء والصلحاء بھی باعث برکت وجالب رحمت ہے۔

 (احسن الفتاویٰ،ص ٣٣٥،جلداول،ایچ ایم سعید کراچی)

مولانا اشرف علی تھانوی مذکورہ حدیث پر اشکال کے جواب میںلکھتے ہیں:

توسل بالحئی وبا لمیت دونوں جائز ہے، اور یہاں جس نوع کا توسل تھا کہ حضرت عباس نے دعا کی اور اس کو وسیلہ بنایا، یہ حضور ﷺ کے ساتھ اس لئے نہ ہوسکتا تھا کہ حضور سے دعا کرنا علم واختیار سے خارج تھا، لیکن اس سے مطلق توسل با لمیت کا عدم جواز لازم نہیں آتا، باقی صحابہ سے خود ثابت ہے کہ حضور ﷺ کے ساتھ توسل کرنے کی تعلیم فرمائی چنانچہ اعمیٰ کا قصہ مشہور ہے ۔

 (امداد الفتاویٰ،ص ٨٩، جلد ٥،دارالعلوم کراچی)

شیخ صوفی محمد سرور دیوبندی مذکورہ حدیث بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں:

اس حدیث میں جو صراحۃً صورت ہے وہ تو یہ ہے کہ حضرت عباس سے درخواست کی جاتی تھی دعا کی وہ دعا فرماتے تھے ،اور بارش ہوجایا کرتی تھی ، اس صورت کے جائز ہونے پر تو اجماع ہے، اس کے قریب قریب دوسری صورت توسل بالذوات کی ہے، کہ اللہ فلان بزرگ کے وسیلہ سے ہماری دعا قبول فرما دیں، اس کے جائز ہونے پر جمھور سلف و خلف توجمع اور متفق ہیں، صرف ابن تیمیہ کا شاذقول اس کے جائز نہ ہونے کا ہے۔ صحیح جمھور ہی کا قول ہے کئی وجہ سے۔ (الخیر الجاری شرح صحیح البخاری،ص ١١٢، جلد دوم)

توسل اور وسیلہ علماء اور مفسرین کی نظر میں:

 اب ذیل میں ان علماء و مفسرین کے اقوال پیش کئے جاتے ہیں جن میں انہوں نے انبیاء واولیاء کے توسل اور وسیلے کے جواز پر صراحت کی ہے۔

علامہ آلوسی فرماتے ہیں:

وانالا اری باسافی التوسل الی اﷲ بجاہ النبی ﷺ عند اﷲ حیا ومیتا مثل قولہ:الھی اتوسل بجاہ نبیک ﷺ ان تقضیٰ لی حاجتی۔ (تفسیرروح المعانی،ص ١٢٨، جلد ششم)

ا للہ تعالیٰ کی طرف آپ ﷺ کو وسیلہ بنانے میں ہمارے نزدیک کوئی حرج (گناہ) نہیں، خواہ آ پ ﷺ حیات ہو یا وفات۔ مثلاً کوئی کہے: اے اللہ میں تیرے نبی ﷺ کی عظمت کے وسیلے سے دعا کرتاہوں کہ میری حاجت پوری فرما۔

علامہ نبھانی لکھتے ہیں :

قداتفق ائمۃ العلماء العارفین الھادین المھد یین جیلا بعد جیل من عھد ہ ﷺ الی الأن علی جواز التوسل بہ ﷺ الی اﷲ تعالیٰ لقضاء الحاجات فی حیاتہ ﷺ وبعد الممات وقد صارمن المجربات ان من استغاث بہ ﷺ الی اﷲ تعالیٰ باخلاص وصدق الالتجأ تقضی حاجتہ.

 (حجۃ اﷲ علی العالمین،ص ٨١٤، جلد دوم،مطبوعہ ترکی)

آئمہ عارفین قرن بعد قرن آپ ﷺ کے زمانے سے لیکر آج تک اس بات پر متفق ہیں کہ اپنی حاجت روائی میں آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ کریں، خواہ حیات میں ہو یا بعد الوفات ،اور یہ بات تجربہ شدہ ہے کہ جس نے بھی اخلاص اور صدق دل سے آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ کیا ہے تو اس کی حاجت پوری ہوئی ہے۔

مصنف بریقہ محمودیہ لکھتے ہیں:

ویجوز التوسل الی اﷲ تعالیٰ والاستغاثہ بالانبیاء والصالحین بعد موتھم . ( بریقہ محمودیہ،ص ٢٧٠، جلد اول بحوالہ تسکین الصدور)

انبیاء واولیاء کی وفات کے بعد ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا جائز ہے۔

علامہ شیخ حسن ابن عمار شرنبلالی الحنفی لکھتے ہیں:

واﷲ الکریم اسأل وبحبیبہ المصطفیٰ الیہ اتوسل ان ینفع بہ جمیع الامۃ.

 (مراقی الفلاح مع الطحطاوی،ص١٧،خطبۃ الکتاب،قدیمی کراچی)

میں ا للہ تعالیٰ سے سوال(دعا) کرتا ہوں اور اس کے حبیب مصطفی ﷺ کو اس کی طرف وسیلہ بناتا ہوں کہ اس کتاب کے ذریعے جمیع امت کو نفع عطا فرمائے۔

علامہ سید احمد طحطاوی حنفی لکھتے ہیں:

(وبحبیبہ المصطفیٰ الخ) ای لااتوسل الیہ فی اتمام ھذ ہ المرادات الا بحبیبہ محمد ﷺ ورد توسلوا بجاھی فان جاھی عنداﷲ العظیم. (حاشیہ الطحطاوی،ص١٧،خطبۃ الکتاب،قدیمی کراچی)

میں اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی مراد کے پورے ہونے میں صرف اس کے حبیب محمد ﷺ کو وسیلہ بناتا ہوں (روایت میں) آیا ہے ( کہ آپ ﷺ نے فرمایا) میری جاہ (عزت) کو وسیلہ بناؤ بے شک میری جاہ (عزت) اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم ہے۔

علامہ عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں:

دلت الاحادیث علی جواز التوسل بالاعمال الصالحۃ والذوات الفاضلۃ.

 (عمدۃ الرعا یہ حاشیہ شرح الوقایہ،ص ٤٨ ،جلد اول،دیباجہ،امدادیہ ملتان)

اعمال صالحہ اور ذوات فاضلہ (انبیاء و اولیائ) کے توسل کے جواز پر احادیث دلالت کرتی ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دھلوی لکھتے ہیں:

ومن آداب الدعا ء تقد یم الثناء علی اﷲ والتوسل بنبی اﷲ یستجاب. (حجۃ اﷲ البالغۃ،ص ١٤، جلد دوم،قدیمی کراچی)

آداب دعا میں سے ایک یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف(ثنائ) کی جائے اور (پھر) آپ ﷺ کا توسل (وسیلہ) پیش کیا جائے تا کہ دعا قبول ہوجائے۔

علامۃ العراق صدقی الزھاوی لکھتے ہیں:

لا فرق فی التوسل بالانبیاء وغیر ہم من العلماء بین کو نھم احیاء اوامواتا۔ (الفجرالصادق،ص ٥٩،ترکی)

انبیاء اور اولیاء (صلحائ) کے ساتھ توسل میں کوئی فرق نہیں، خواہ زندہ ہوں یا وفات پاگئے ہوں۔

علامہ دحلان مکی لکھتے ہیں:

والحاصل ان مذھب اھل السنۃ والجماعۃ صحۃ التوسل وجوازہ بالنبی ﷺ فی حیاتہ وبعد وفاتہ وکذا بغیر من الانبیاء والمرسلین والا ولیاء والصالحین کما دلت علیہ الاحادیث.

 ( خلاصۃ الکلام،ص ٢٤٤، جلد دوم،ترکی)

حاصل (کلام) یہ ہے کہ اھل السنت والجماعت کے نزدیک آپ ﷺ اور آپ کے علاوہ دیگر انبیاء علیھم السلام اور اولیاء صالحین کا توسل زندگی میں اور بعد الوفات صحیح ہے اور اس پر احادیث موجود ہیں۔

مولانا عبدالحئی لکھنوی ''اذا تحیرتم فی الامور فاستعینوا باصحاب القبور۔کے متعلق بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

یعنی جب تم اپنے کاموں میں حیران ہوجاؤ تو اہل قبور سے مدد مانگو''۔

نیز برا ستمداد ہم محمول میتواں شد یعنی وقتیکہ متحیر شوید درامور وکار برآری شما نشود پس دعائے انجاح مرام بوسیلہ اصحاب قبور سازید وایشاں راوسیلہ گردانیدہ از جناب باری تعالیٰ دعا سازیدتا ببرکت ایشاں بدرجہئ قبول رسد ۔

 (مجموعۃ الفتاویٰ بحوالہ تسکین الصدور)

مذکورہ بالا عبارت (اذتحیر تم الخ) کو توسل پر بھی حمل کیا جاسکتا ہے۔ یعنی جس وقت تم امور میں حیران ہوجاؤ اور تمہارا مقصد پورا نہ ہوسکے تو تم مقصد میں کامیابی کے لئے اصحاب قبور کے وسیلے سے دعاکرو۔ اور ان کو وسیلہ بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تاکہ ان(اصحاب القبور) کی برکت سے دعا درجہ قبولیت کو پہنچ جائے۔

علماء غیرمقلدین(اہل حدیث)اور توسل:

شیخ وحید الزمان ( غیر مقلد) لکھتے ہیں:

التوسل الی اﷲ تعالیٰ بانبیائہ والصالحین من عبادہ جائز ویستوی فیہ الاحیاء والاموات. (نزل الابرار،ص ٥، حصہ اول)

اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے انبیاء اور صالحین (اولیائ) کا وسیلہ جائز ہے۔ اس (وسیلے) میں زندہ و مردہ برابر ہے۔ (یعنی توسل قبل الموت و بعد الموت دونوں جائز ہے)

قاضی شوکانی لکھتے ہیں:

نبی کریم ﷺ کو حاجات میں وسیلہ بنانا صرف زندگی کی حالت سے مخصوص نہ تھا بلکہ جس طرح زندگی میں آپ کو وسیلہ بنا یا جاتا تھا اسی طرح انتقال کے بعد بھی آپ کو وسیلہ بنانا جائز ہے۔

 (درنضیدبحوالہ بوادرالنوادر،ص ٧١٠،ادارہ اسلامیات لاہور)

شیخ سید نذیر حسین دھلوی (غیر مقلد ) لکھتے ہیں:

مناسب این است کہ بدین طور بگوید یا اللہ شیأا للشیخ عبدالقادر یعنی یا اللہ عطاکن ودہ مرا ببرکت شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ چہ این طور جواز است چہ دردعا خواستن از خدائے تعالیٰ بحرمت فلان یا ببرکت فلاح مباح است۔

 (فتاویٰ نذیر یہ،ص ١٢٩، ج١،مکتبہ ثنائیہ)

مناسب یہ ہے اس طرح کہے: یا اللہ مجھے شیخ عبدالقادر (جیلانی) رحمۃ اللہ کی برکت سے عطا فر ما،کیونکہ یہ صورت جائز ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کسی کی حرمت(وسیلے) سے یا کسی کی برکت سے مانگنا مباح (جائز) ہے۔

علماء دیوبند اور توسل:

شیخ شاہ محمد اسمعیل دھلوی لکھتے ہیں:

اولیاء اور انبیاء سے اس طرح کا وسیلہ تو جائز ہے کہ خدا سے اس طرح دعا مانگی جائے کہ خداو ندا: محمد رسول اللہ کے طفیل سے یا حضرت علی کے صدقہ میں میری فلاںحاجت پوری کردے۔

 (تقویہ الایمان ،ص٤٢٣،مکتبہ اصلاح وتبلیغ حیدرآباد)

شیخ محمد اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:

والثالث دعأ اﷲ ببرکۃ ھذا المخلوق المقبول وھذ ا قد جوزہ الجمھور . ( بو ادر النوادر،ص ٧٠٨،ادارہ اسلامیات لاہور)

تیسری (قسم) اللہ تعالیٰ سے کسی مقبول بندے کی برکت ( توسل) سے دعا کرنا ہے، اس کو جمھور (علمائ) نے جائز قرار دیا ہے۔

مفتی دیوبند مفتی عزیز الرحمن عثمانی لکھتے ہیں:

وان التوسل بالنبی وباحد من الاولیاء العظام جائز بان یکون السوال من اﷲ تعالیٰ ویتوسل بولیہ وبنبیہ ﷺ .

 (امداد الفتاویٰ،ص ٣٢٧ ،ج٦،دارالعلوم کراچی)

انبیاء یا اولیاء کا ملین کا توسل بے شک جائز ہے ۔ اس طرح کہ سوال (مانگنا) اللہ تعالیٰ سے ہو، اور توسل اللہ تعالیٰ کے ولی یا نبی ﷺ کا ہو۔

مفتی رشید احمد گنگوھی لکھتے ہیں:

١) تیسرے یہ کہ دعاء مانگے الہی بحرمۃ فلاں میرا کام پورا کردے یہ بالاتفاق جائز ہے اور تمام شجروں میں موجود ہے ۔

(فتاویٰ رشیدیہ،ص ١٧٣،محمد علی کارخانہ اسلامی کتب ،اردو بازار کراچی)

٢) بحق فلاں کہنا درست ہے اور معنی یہ ہیں کہ جو تونے اپنے احسان سے وعدہ فرمالیا ہے اس کے ذریعے سے مانگتا ہوں۔ (فتاویٰ رشیدیہ ،ص٢١٣)

٣) حق تعالیٰ سے دعا کرنا کہ بحرمت فلاں میرا کام کردے یہ باتفاق جائز ہے۔ خواہ عند القبر ہو خواہ دوسری جگہ اس میں کسی کو کلام نہیں۔

 (فتاویٰ رشیدیہ ،ص١٢٣،محمد علی کارخانہ اسلامی کتب ،اردو بازار کراچی)

٤) شجرہ پڑھنا درست ہے کیونکہ اس میں بتوسل اولیاء کے حق تعالیٰ سے دعا کرتے ہےں اس کا کوئی حرج نہیں ۔واللہ تعالیٰ اعلم

 (فتاویٰ رشیدیہ،ص ٤٠،محمد علی کارخانہ اسلامی کتب ،اردو بازار کراچی)

شیخ محمد زکریالکھتے ہیں:

ز مخشری سے نقل کیا گیا ہے کہ وسیلہ ہر وہ چیز ہے جس سے تقرب حاصل کیا جاتا ہو، قرابت ہو یا کوئی عمل اور اس قول میں نبی کریم ﷺ کے ذریعہ سے توسل حاصل کرنا بھی داخل ہے۔ علامہ جزری نے حصن حصین میں آداب دعا میں لکھا ہے،وان یتوسل الی اﷲ تعالیٰ بانبیائہ والصالحین من عبادہ. یعنی توسل حاصل کرے اللہ جل شانہ کی طرف اس کے انبیاء کے ساتھ اور اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ۔ (فضائل درود شریف،ص ٤٣)

مفتی محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں:

اگر مدد طلب کرنے والا مدد کسی نبی یا ولی کے وسیلے سے طلب کرے تو یہ ناجائز نہیں۔ اور اس مدد میں داخل نہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔

 (معارف القرآن ٣٧ پارہ اول پشتو)

شیخ خلیل احمد سھارنپوری لکھتے ہیں:

ایجوز التوسل عندکم بالسلف الصالحین من الانبیاء والصدیقین والشھداء واولیاء رب العالمین ام لا؟

الجواب: عندنا وعند مشائخنا یجوز التوسل فی الدعوات بالانبیاء والصالحین من الاولیاء والشھداء والصد یقین فی حیٰوتھم وبعد وفاتھم بان یقول فی دعائہ اللھم انی اتوسل الیک بفلان ان تجیب دعوتی وتقضی حاجتی الی غیر ذلک .

 (المھندعلی المفند،ص ٣١،السوال الرابع،مکتبۃ العلم لاہور)

سوال: آیا تمہارے ( علماء دیوبندکے) نزدیک سلف صالحین (یعنی) انبیاء ، صدیقین، شھداء اور اولیاء اللہ کا توسل جائز ہے یا ناجائز؟

جواب: ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعاؤں میں انبیاء وصلحاء واولیاء و شھداء و صدیقین کا توسل جائز ہے، ان کی حیات میں بھی اور بعد وفات بھی، بایں طور کہ کہے یا اللہ میں بوسیلہ فلاں بزرگ کے تجھ سے دعا کی قبولیت اور حاجت براری چاہتا ہوں اس جیسے اور کلمات کہے۔

مفتی محمد یوسف لدھیانوی لکھتے ہیں:

ایک اہم نزاعی مسئلہ یہ ہے کہ آیا آنحضرت ﷺ اور بزرگان دین کا توسل (وسیلہ پکڑنا) جائز ہے یا نہیں؟ اس میں میرا مسلک یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ انبیاء کرام علیھم السلام ، صحابہ کرام اور دیگر مقبولان الہی کے طفیل اور وسیلے سے دعا مانگنا جائز ہے جس کی صورت یہ ہے کہ اے اللہ: اپنے ان نیک اور مقبول بندوں کے طفیل میری یہ دعا قبول فرما، یا میری فلاںمراد پوری فرما دے۔

 (اختلاف امت اور صراط مستقیم،ص ٣٧،دار الاشاعت کراچی)

ہمارے ہم عصر دیوبند مسلک کے استاذ کل مولانا حمداللہ داجوی دیوبندی لکھتے ہیں:

وعلم ان التوسل بالانبیاء والا ولیاء فی الحیوۃ الدنیویۃ والبرزخیۃ کلیھما جائز بل ان التوسل باثارھم وثیا بھم ایضا ثابت۔ (البصائر،ص٥٣،ترکی)

معلوم ہوا کہ انبیاء اور اولیاء کا زندگی میں اور موت کے بعد دونوں حالتوں میں توسل جائز ہے ۔ بلکہ ان کے تبرکات اور کپڑوں سے بھی توسل جائز (ثابت) ہے۔

ہمارے ہم عصر دیوبندمسلک کے مفتی محمد فریدمجددی لکھتے ہیں:

قطب زمان، حضرت مولانا رشید احمد گنگو ھی، حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی، شارح ابو داؤدحضرت مولانا خلیل احمدانصاری مھاجرمدنی، شیخ الحدیث والتفسیر مولانا حسین علی مجددی ، امین اللہ فی الارض شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر الدین الغرغشتوی نے اپنے اپنے مکتوبات، ملفوظات اور تصنیفات میں توسل کے جواز پر تصریح (اثبات) کی ہے۔ میرے والد صاحب جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا حبیب اللہ زروبوی فر مایا کرتے تھے کہ یہ طائفہ نجد یہ (وھابیہ) خود برکت اور جاہ (عزت) سے خالی ہیں اس لئے دوسرے کے لئے بھی (برکت وجاہ) نہیں مانتے ۔ ہمارے مرشد امام العلمأ والصلحاء حضرت مولانا محمد عبد المالک صدیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ سلسلہ مبارک پڑھتے تھے اور اس میں توسل موجود ہے ۔ اور حضرت علامہ شیخ ا لحدیث مولنا عبدالحق رحمۃا للہ تعالیٰ بھی کبھی کبھی دعا میں توسل کیا کرتے تھے۔ (مقالات ٧٣ ، ٧٢)

شیخ سرفراز خان صفدر لکھتے ہیں:

الغرض توسل جمھور سلف وخلف کے نزدیک درست ہے۔ ۔۔۔۔۔ہمارے اکابر علمأ دیوبند کثر اللہ تعالیٰ جماعتھم تقریبا سبھی مشروع توسل کے جواز کے قائل ہیں۔

 (تسکین الصدور،ص ٤٠٠،٤٠١،باب ہشتم،مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

ہمارے نزدیک توسل بالذات اور توسل بصالح الاعمال کا مآل بالآخر ایک ہی ہے، صرف اس کی تعبیر اور تشریح کا فرق ہے اور نزاع صرف لفظی ہے۔

 (تسکین الصدور ٤٠٤،باب ہشتم،مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

جمھور اہل السنت والجماعت توسل کے جواز کے قائل ہیں ۔

 (تسکین الصدور ،ص٤٠٧،باب ہشتم،مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

الغرض علماء دیوبند کے جملہ اکابر جواز توسل کے قائل ہیں، اور ان کے ہاں اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے،ہاںبقول شخصے تیرا ہی جی نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں ۔(تسکین الصدور،ص٤١٦،باب ہشتم،مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

الغرض جمھور جس توسل کے قائل ہیںوہ دلائل کی روسے بزرگوں کی زندگی میں بھی اور بعد الوفات بھی جائز اور صحیح ہے۔ لاشک فیہ (تسکین الصدور، ٤٣٥)

انبیاء و اولیاء کے وفات کے بعد بھی ان کا توسل جائز ہے۔

 قارئین حضرات:یہ ہیں وہ دلائل ظاہرہ باہرہ جن سے توسل کا شرعی حکم روز روشن کی طرح واضح ہوا۔ ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ توسل اور وسیلہ انبیاء و اولیاء کے ساتھ تمام ادیان میں رائج و جائز تھا۔ اور یہ جمہور کا مسلک ہے ۔ کسی بھی انصاف پسند عالم نے اس کا انکار نہیں کیا۔

شیخ ابن تیمیہ کا توسل سے انکار:

 امت محمدیہ ( ﷺ ) میں سب سے پہلے وہ شخص جس نے جمہور کی مخالفت کرتے ہوئے توسل بالانبیاء و الا ولیاء کا علی الاعلان انکار کیا وہ شیخ ابن تیمیہ ہیں۔

شیخ سرفراز خان صفدر لکھتے ہیں:

١) حافظ ابن تیمیہ اور ان کے اتباع اس (وسیلے) کا انکار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ایسا کرنا درست نہیں ہے حافظ ابن تیمیہ نے اس مسئلہ پرایک مستقل کتاب ''القاعدۃ الجلیلہ فی التوسل والوسیلہ'' تصنیف فرمائی ہے ۔

 (تسکین الصدور،ص ٣٩٨،باب ہشتم،مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

٢) اپنے دور میں قوم کی اصلاح کی خاطر منظم طریقہ پر توسل ، استشفاع عندالقبور اور زیارۃ القبور کا رد اور انکا ر حافظ ابن تیمیہ اور ان کے تلامذہ اور متوسلین نے شروع کیا۔ (سماع الموتی،ص ١٢٩،مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

٣) بتانا صرف یہ ہے کہ کئی مسائل میں وہ (ابن تیمیہ) متفرد ہیں، اور ان مسائل میں ان کے شاگردوں اور مخصوص متوسلین کے بغیر اور کسی نے ان کی ہمنوائی نہیں کی، اور طبیعت کی شدت اور حدت کی وجہ سے وہ ان پر مصر بھی رہے، لہذاجمھور کا ساتھ چھوڑ کر ایسے نظریات میں ان کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا،حق جمھور کے ساتھ ہی ہے۔(سماع الموتی،ص ١٢٨،مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

مفتی محمدیوسف بنوری تفردات ابن تیمیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

الجوھر المنظم فی زیارۃ القبرالمکرم للشیخ ابن حجرالھیتمی المتوفی ٩٧٤؁ مطبوع بمصر ، واغلظ القول فی

ابن تیمیۃ ونسبہ الی الضلال کما فعل التقی الحصنی فی ''دفع الشبہ'' (معارف السنن،ص ٣٣١، جلد ٣)

الجو ہرا لمنظم جو ابن حجر مکی رحمۃ اللہ کی تصنیف ہے۔ انہوں نے اس میں ابن تیمیہ پر انتہائی سخت بات کی ہے۔ اور ابن تیمیہ کو گمراہ تک کہا ہے۔ جس طرح تقی (تقی الدین) حصنی نے اپنی کتاب دفع الشبہ میں (ابن تیمیہ کو گمراہ) کہا ہے۔

شیخ الاسلام علامہ سبکی کا ابن تیمیہ پر رد:

ولم ینکراحد ذلک من اھل الادیان ولاسمع بہ فی زمن من الازمان حتی جاء ابن تیمیۃ فتکلم فی ذلک بکلام یلبس فیہ علی الضعفاء الاغمار وابتدع مالم یسبق الیہ فی سائر الاعصار. (شفاء السقام،ص ١٣٣،ترکی)

اہل ادیان (کسی بھی مذھب والے) میں سے کسی نے توسل کا انکار نہیں کیا اور نہ یہ (انکار توسل) کسی زمانے میں سنا گیا، یہاں تک ابن تیمیہ آئے اور توسل کے بارے میں ایسی (من گھڑت) باتیں کی کہ جس سے ناتجربہ کار لوگوں کو التباس (شک) میں ڈال دیا۔ اور (انکار توسل کی) ایک ایسی بدعت نکالی جس کی طرف کسی زمانے میں کسی نے سبقت نہیں کی تھی۔

علامہ موصوف دوسری جگہ لکھتے ہیں:

وحسبک ان انکار ابن تیمیۃ للا ستغاثۃ والتوسل قول لم یقلہ عالم قبلہ وصار بہ بین اھل الا سلام مثلہ.( شفاء السقام،ص ١٣٤،ترکی)

آپ کی (حیرت و تعجب کے) لئے یہ بات کافی ہے کہ ابن تیمیہ نے جو استغاثہ اور توسل سے انکار کیا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ کسی بھی عالم نے اس سے پہلے ایسی بات نہیں کی۔ اس وجہ سے وہ (ابن تیمیہ) عالم اسلام میں بدنام ہوگئے۔

علامہ تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عبارت شیخ سرفراز خان صفدر نے بھی نقل کی ہے، اس کے بعد صفدر صاحب لکھتے ہیں:

اس سے صاف طور پر یہ بات معلوم ہوگئی کہ توسل کا انکار حافظ ابن تیمیہ سے قبل کسی عالم نے نہیں کیا اور اس مسئلہ کے پہلے منکر یہی حافظ ابن تیمیہ ہیں۔

 (تسکین الصدور، ص٣٩٩،باب ہشتم،مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

علامہ شامی کاابن تیمیہ پر رد:

 علامہ تقی الدین سبکی کا قول علامہ شامی نقل کر نے کے بعد حافظ ابن تیمیہ پر انکار توسل کے سلسلے میں رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وقال السبکی یحسن التوسل بالنبی ﷺ الی ربہ ولم ینکرہ احد من السلف والخلف الاابن تیمیۃ فابتدع مالم یقلہ عالم قبلہ.

(شامی،ص٣٩٧،جلد٦،کتاب الحضر والاباحۃ،فصل فی البیع،ایچ ایم سعید کراچی)

امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا آپ ﷺ کا توسل اللہ تعالیٰ کے ہاں مستحسن ہے ۔ اس (توسل) کا انکار بغیر ابن تیمیہ کے سلف وخلف میں سے کسی نے نہیں کیا۔ ابن تیمیہ نے اس (انکار توسل کے) بارے میں ایسی بدعت ایجاد کی کہ جس کا قول کسی ماقبل عالم نے نہیں کیا۔

الحاصل یہ کہ دعا میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء واولیاء کا توسل اور وسیلہ جائز اور مستحب ہے۔

قارئین حضرات :مشت نمونہ خروار کے طور پر دین اسلام کی خدمت اور عقائد اھل سنت وجماعت کی تحفظ اور عوام الناس کے عقائد کی اصلاح کی نیت سے یہ چند سطور لکھے گئے، امید ہے کہ اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو انشا ء اللہ فائدے سے خالی نہ ہوں گے۔

والحق ماقالہ ا لجمھور فی تصنیفا تھم۔

 

 

 

 

 

 

دعا

 اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ: یا اللہ ہم تمام مسلمانوں کو جمھور (اھل سنت) کے مسلک اور دامن سے وابستہ فرما۔ اور اسی عقیدہ اھل سنت پر ہماری حیات و وفات نصیب فرما۔ اور ہر قسم کے فتنوں سے ہمیں محفوظ فرما۔

بحرمۃ الانبیاء العظام و الاولیاء الکرام امین یا رب العالمین وصلی اﷲ تعالیٰ علی سید نا ومحبوبنا ونبینا محمد و علی الہ واصحابہ وازواجہ واتباعہ الی یوم الدین۔

 اﷲ تعالیٰ ورسولہ الاعلیٰ اعلم بالصواب

 سید محمد منورشاہ السواتی

 ٢٦ ،رمضان المبارک، ١٤٢٢؁ھ

 ١٢، دسمبر ٢٠٠١؁ئ، یوم الاربعائ عند الاعتکاف فی المسجدالجامع مبارک شموزی سوات

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post