تطہیرالسادات عن اوساخ الزکوٰۃ

 

 

سادات کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں

 

 

تالیف

مفتی سید محمد منورشاہ سواتی

مفتی و شیخ الحدیث

الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ

کراچی پاکستان

 

 

 کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ آیا دور حاضر میں سادات (آل رسول ﷺ ) کو زکوٰۃ وغیرہ صدقات واجبہ دے سکتے ہیں یا نہیں؟ اسی طرح سادات آپس میں ایک دوسرے کو مذکورہ صدقات واجبہ دے سکتے ہیں یا نہیں ؟ اس مسئلے میں احناف (کثرھم اللہ سوادھم) کامفتیٰ بہ (قابل فتوی) مذہب کیا ہے؟جواب تفصیلی مع حوالہ جات عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہو۔ المستفتی:غلام یاسین اسلامک سنٹر

الجواب باسم ملھم الصواب

 سادات کو زکوٰۃ دینے یا نہ دینے کے حکم بیان کرنے سے پہلے ہم سادات (بنی ہاشم) کی وضاحت کرتے ہیں کہ خاندان رسول ﷺ میں وہ حضرات کون ہیں جن کو زکوٰۃ وغیرہ صدقات واجبہ دینا جائز نہیں۔

 حضور ﷺ کے دادا کے دادا کانام عبدمناف تھا۔ ان کے چار بیٹے ''ہاشم، مطلب، نوفل اور عبدشمس تھے۔'' پھر ہاشم کے چار بیٹے تھے ان میں عبدالمطلب کے علاوہ کی نسل ختم ہو گئی حضرت عبدالمطلب کے بارہ بیٹے تھے ان تمام کی مسلمان اور نادار اولاد کو زکوٰۃ دینا جائز ہے مگر حضرت عباس اور حارث کی اولاد اور ابو طالب کی اولاد میں حضرت علی، حضرت جعفر اور حضرت عقیل کی اولاد کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ جیساکہ فقہاء کرام لکھتے ہیں:

علامہ شامی کی تحقیق:

(قولہ و بنی ھاشم الخ) اعلم ان عبدمناف وھو الاب الرابع للنبی ﷺ اعقب اربعۃ و ھم ہاشم والمطلب و نوفل و عبدشمس ثم ھاشم اعقب اربعۃ انقطع نسل الکل الا عبدالمطلب فانہ اعقب اثنی عشر تصرف الزکوۃ الی اولاد کل اذا کانوا مسلمین فقراء الا اولاد عباس و حارث و اولاد ابی طالب من علی و جعفر و عقیل۔

 (شامی ص ٧٢ جلد دوم۔ کتاب الزکوۃ باب المصرف۔ رشیدیہ کوئٹہ)

شیخ ملا نظام کی تحقیق:

بنو ہاشم و ھم آل علی و آل عباس و آل جعفر و آل عقیل و آل الحارث بن عبدالمطلب۔

 (عالمگیری ص١٨٩ جلد اول کتاب الزکوۃ۔ فی المصارف۔ ماجدیہ کوئٹہ)

علامہ محقق ملا خسرو حنفی کی تحقیق:

وہم آل علی و عباس و جعفر و عقیل والحارث ابن عبدالمطلب۔

(الدرر الحکام فی شرح غرر الاحکام ص ١٩١ جلد اول ۔ باب المصارف۔ میر محمد کراچی )

علامہ عالم بن العلاء الانصاری کی تحقیق:

وبنو ہاشم من الذین یحرم علیھم الصدقۃ آل عباس و آل جعفر و آل عقیل و آل علی وولد الحارث بن عبدالمطلب۔

 (الفتاویٰ التاتار خانیہ ص ٢٠٧ جلد دوم قدیمی کراچی)

امام شمس الدین محمد الخراسانی القہستانی کی تحقیق:

وبنی ہاشم من الہشم وھو کسر الشئی الرخو و سمی بہ عمر بن عبدمناف جدہ ﷺ لانہ اول من ہشم الثرید لاھل الحرم واطلاق بنیہ لیس کما ینبغی لان لہ اربعۃ بنین انقطع نسل الکل الانسل عبدالمطلب ولہ اثنی عشر ابنا یصرف الزکوۃ الی اولاد کل اذا کانوا مسلمین فقراء الا اولاد عباس و حارث و اولاد ابی طالب من علی و جعفر و عقیل رضی اللہ عنھم فانہ لا یصرف الیھم۔

 (جامع الرموز ص ٣٣٩ فصل مصرف الزکوۃ ۔ ایچ ایم سعید کراچی)

علامہ آلوسی کی تحقیق:

واختلف فی المراد باھلہ الی قولہ والظاہر انہ اراد مومنی بنی ھاشم و ہذا ھو المراد بالآل عند الحنفیۃ الی قولہ اہل بیتہ اصلہ و عصبتہ الذین حرموا الصدقۃ بعدہ ﷺ . ...... ھم آل علی و آل عقیل و آل جعفرو آل عباس۔

(روح المعانی ص ٢٠، الجزء الثانی والعشرین ۔ سورۃ الاحزاب آیت نمبر ٣٣۔ حقانیہ ملتان)

شان سادات قرآن و حدیث کی روشنی میں:

سادات (آل رسول ﷺ ) کے بارے میں رب کائنات فرماتا ہے:

انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت و یطھرکم تطہیرا۔ (الاحزاب ٣٣)

اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ نبی کے گھر والو! تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔

 معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آل رسول ﷺ (سادات) کو پاک اور ستھرا فرمایا ہے جبکہ زکوٰۃ وغیرہ صدقات واجبہ لوگوں اور ان کے مال کا میل کچیل ہے جوپاک اور ستھرے لوگوں کے شایان شان نہیں اس لئے احادیث مبا رکہ اور کتب فقہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آل رسول یعنی سادات کیلئے زکوٰۃ وغیرہ لینا جائز نہیں۔ سب سے پہلے ہم صحاح ستہ وغیرہ کی وہ احادیث مبارکہ ھدیہ قارئین کرتے ہیں جن میں خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی اولاد کو زکوٰۃ (لوگوں کے میل) لینے سے منع فرمایا اور ساتھ میں یہ فرما دیاکہ لوگوں کا میل کچیل(زکوٰۃ) میرے اورمیری اولاد اور میرے آزاد کردہ غلاموں کیلئے جائز نہیں بلکہ حرام اور ناجائز ہے۔

امام بخاری باب ما یذکر فی الصدقۃللنبی ﷺ و الہ میں لکھتے ہیں:

عن ابی ہریرۃ قال اخذ الحسن بن علی تمرۃ من تمر الصدقۃ فجعلھا فی فیہ فقال النبی ﷺ کخ کخ لیطرحھا ثم قال اما شعرت انا لانأکل الصدقۃ۔ (بخاری شریف ص ٢٠٢ جلد اول۔ قدیمی کراچی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسن نے زکوٰۃ کے کھجوروں میں سے ایک کھجور لے کرمنہ مبارک میں ڈالی آپ ﷺ نے اسکو پھینکنے کیلئے کخ کخ فرمایا اور پھر فرمایا کیا آپ کو پتہ نہیں کہ ہم لوگ زکوٰۃ (کامال) نہیں کھاتے۔

علامہ ابن حجر عسقلانی کی اس مسئلے میں تحقیق:

قا ل ابن قدامۃ: لا نعلم خلافا فی ان بنی ھاشم لا تحل لھم الصدقۃ المفروضۃ الی قولہ و ادلۃ المنع ظاہرۃ من حدیث الباب و من غیرہ و لقولہ تعالیٰ قل ما اسالکم علیہ من اجر ولواحلھا لآلہ لاوشک ان یطعنوا فیہ و لقولہ خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم و تزکیھم بھا و ثبت عن النبی ﷺ ''الصدقۃ اوساخ الناس'' کما رواہ مسلم و یوخذ من ھذا جواز التطوع دون الفرض وھو قول اکثر الحنفیۃ والمصحح عند الشافعیۃ والحنابلۃ۔

 (فتح الباری شرح صحیح البخاری ص ٩٧ الجزاء الرابع۔ مکتبہ مصطفائی البابی مصر)

علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اسمیں بھی کسی کا خلاف ہو کہ بنو ہاشم (سادات) کیلئے صدقات واجبہ (زکوۃ وغیرہ) حلال(جائز) نہیں۔ اس باب کی حدیث اور دیگر احادیث مبارکہ سے سادات کیلئے زکوٰۃ کی ممانعت کی دلیل ظاہر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فرمان سے بھی یہی معلوم ہو رہا ہے جیسا کہ فرمایا۔ اے محبوب !آپ ان لوگوں سے فرمائیے کہ میں اس دین اسلام کے بیان پر تم لوگوں سے اجرت نہیں مانگتا۔ اور اگر آپ زکوٰۃ کو اپنی اولاد (سادات) کیلئے حلال(جائز) فرماتے تو یقینا لوگ ان میں لعن طعن کرتے ۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان '' ان لوگوں کے مال سے زکوٰۃ لیکر ان کو اس کے ذریعے پاک اور ستھرا کیجئے'' اور آپ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ زکوٰۃ لوگوں کا میل کچیل ہے جیسا امام مسلم نے روایت کی۔ ان دلائل سے احناف کے نزدیک اور شوافع اور حنابلہ کے صحیح قول کے بناء پر یہ بات معلوم ہو گئی کہ نفلی صدقات سادات کے لئے جائز ہےں اور صدقات واجبہ (زکوۃ وغیرہ) جائز نہیںہےں۔

شارح بخاری علامہ سید محمود احمد رضوی کی تحقیق:

اس حدیث سے واضح ہوا کہ بنی ہاشم کو مال زکوٰۃ و صدقات واجبہ نہیں دے سکتے نہ غیر انہیں دے سکے نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔

 (فیوض الباری شرح بخاری ص ٧٩ حصہ ششم۔ مکتبہ رضوان لاہور)

امام مسلم صحیح مسلم شریف باب تحریم الزکوۃ علی رسول اللہ ﷺ و الہ و ھم بنو ہاشم و بنو المطلب دون غیرھم میں لکھتے ہیں:

قال رسول اللہ ﷺ ان ھذہ الصدقات انما ھی اوساخ الناس و انھا لا تحل لمحمد و لا لاٰل محمد ﷺ ۔

 (مسلم شریف ص٣٤٥ جلد اول ۔ قدیمی کراچی)

آپ ﷺ نے فرمایا بیشک یہ زکوٰۃ لوگوں کا میل ہے اور یہ محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی اولاد (سادات) کیلئے حلال نہیں۔

امام نووی کی تحقیق:

(قولہ ﷺ انما ھی اوساخ الناس) تنبیہ علی العلۃ فی تحریمھا علی بنی ہاشم و بنی المطلب و انہ لکرامتھم و تنزیھھم عن الاوساخ و معنی اوساخ الناس انھا تطہیر لاموالھم و نفوسھم کما قال تعالیٰ خذ من اموالھم صدقۃ تطھرہم و تزکیھم بھا فھی کغسالۃ الاوساخ۔ (نووی شرح مسلم ص ٣٤٤ جلد اول)

حضور ﷺ کا فرمان کہ زکوٰۃ لوگوں کا میل ہے یہی وہ علت ہے جس کی وجہ سے سادات(آل رسول) پر زکوٰۃ حرام کی گئی ہے اور یہ ان (سادات) کی کرامت (بزرگی اور عظمت) اور ان کا گندگی (میل کچیل) سے پاک ہونے کی وجہ سے حرام کی گئی ہے۔ اور زکوٰۃ کو جو میل(گندگی) کہا گیا وہ اس لئے کہ زکوٰۃ سے لوگوں کامال اور نفوس پاک ہو جاتے ہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کے مال سے زکوٰۃ لے کر اس کے ذریعے ان کو پاک اور ستھرا فرمائیے گویا کہ یہ زکوٰۃ میل کا دھوون ہے۔

علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:

آئمہ اربعہ کے نزدیک بنو ہاشم کیلئے زکوٰۃ جائز نہیں ہے ۔

 (شرح صحیح مسلم ص ١٠١٤ جلد دوم۔ فرید بکسٹال لاہور)

 مذکورہ حدیث کو امام نسائی نے اپنی سنن میں ص ٣٦٦ جلد اول کتاب الزکوۃ باب استعمال آل النبی ﷺ علی الصدقۃ میں اور امام ابن حجر نے بلوغ المرام ص ١٨٢ میں کچھ کمی زیادتی کے ساتھ روایت کی۔

رسول اللہ ﷺ ھدیہ قبول فرماتے اور زکوٰۃ نہ لیتے تھے:

امام نسائی باب الصدقۃ لا تحل للنبی ﷺ میںروایت کرتے ہیں:

کان النبی ﷺ اذا اتی بشئی سال عنہ اھدیۃ ام صدقۃ فان قیل صدقۃ لم یاکل و ان قیل ھدیۃ بسط یدہ۔

 (نسائی شریف، ص ٣٦٦، ج١،قدیمی کراچی)

آپ ﷺ کی بارگاہ اقدس میں جب کوئی چیز لائی جاتی تو آپ پوچھتے کہ ہدیہ ہے یا صدقہ؟ اگرکہاجاتا صدقہ ہے تو آپ تناول نہ فرماتے اور اگر کہاجاتا کہ ہدیہ (تحفہ) ہے تو قبول فرماتے ۔

درج بالا حدیث کو امام ترمذی نے ترمذی شریف ص ٨٣ جلد اول میں بھی روایت کیا :

صدقات واجبہ سادات کے غلاموں پر بھی جائز نہیں:

امام نسائی باب مولی القوم منھم میں روایت کرتے ہیں:

عن ابن ابی رافع عن ابیہ ان رسول اللہ ﷺ استعمل رجلا من بنی مخزوم علی الصدقۃ فاراد ابو رافع ان یتبعہ فقال رسول اللہ ﷺ ان الصدقۃ لا تحل لنا و ان مولی القوم منھم۔

 (نسائی شریف ص ٣٦٦ جلد اول ۔ قدیمی کراچی )

حضرت ابن ابی رافع اپنے والد محترم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے قبیلہ بنی مخزوم کے ایک شخص کو زکوٰۃ کے مال پر عامل بنایا تو حضرت ابو رافع نے بھی اس کے ساتھ (اسی زکوٰۃ کے مال میں کام کرنے کی نیت سے) جانے کا ارادہ کیاتو آپ ﷺ نے فرمایا بیشک زکوٰۃ ہمارے لئے حلال(جائز) نہیں اور کسی قوم کا غلام ان ہی میں سے ہوتا ہے۔

مذکورہ حدیث مبارک کو امام ترمذی نے ترمذی شریف ص٨٣ جلد اول اور امام ابو داؤد نے ابوداؤد شریف ص ٢٣٣ میں ذکر فرمایا۔

شیخ محمد یوسف بنوری درج بالا حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

ثم الاتفاق بین الائمۃ الاربعۃ و ذلک فی الواجبات فقط وانظر ''البنایۃ'' ثم ان کون الموالی منھم فی تحریم الصدقۃ مذہب ابی حنیفۃ و احمد وہو الصحیح من مذہب الشافعی و اختارہ بعض المالکیۃ۔

 (معارف السنن ص ٢٦٥۔ الجزء الخامس، ایچ ایم سعید کراچی )

آئمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقات واجبہ آل رسول (سادات) کیلئے جائز نہیں اس کیلئے بنا یہ دیکھئے۔ پھر یہ کہ زکوٰۃ کی حرمت کے سلسلے میں سادات کے غلام سادات کے حکم میں ہیں اور یہی مذہب ابو حنیفہ ، احمد کا ہے اور امام شافعی کا بھی یہی صحیح قول ہے اور بعض مالکیوں نے بھی اس کو پسند کیا۔

مفتی محمد تقی عثمانی درج بالا حدیث کی شرح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

اس پر اتفاق ہے کہ بنو ہاشم کو زکوٰۃ وغیرہ دینا جائز نہیں ۔ حتی کہ اگر ہاشمی عامل علی الصدقہ ہو تو ہمارے نزدیک اسکا وظیفہ زکوٰۃ و صدقات میں سے نہیں دیا جائے گا البتہ مال و قف میں سے اسکا وظیفہ دیا جاسکتا ہے۔

 (درس ترمذی ص٤٧٩ جلد دوم دارالعلوم کراچی)

مفتی محمد فرید دیوبندی مفتی و شیخ الحدیث دارالعلوم حقانیہ درج بالا حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

و فی رحمۃ الامۃ اجمعوا علی تحریم الصدقۃ المفروضۃ علی بنی ہاشم و ھم خمس بطون آل علی و آل عباس و آل جعفر و آل عقیل و آل الحارث بن عبدالمطلب الی ان قال اعلم ان مامر من حرمۃ الصدقۃ الواجبۃ علی بنی ہاشم ھذا ظاہر الروایۃ وروی ابو عصمۃ عن ابی حنیفۃ انہ یجوز فی ھذا الزمان و ان کان ممتنعا فی ذلک الزمان لان عوضھا و ھو خمس الخمس لم یصل الیھم لاھمال الناس امر الغنائم و ایصالھا الی مستحقیھا و اذا لم یصل الیھم العوض عادوا الی المعوض کما فی البحر ۔ قالوا والمعمول بہ ھو ظاہر الروایۃ ۔

(منھاج السنن شرح جامع السنن للامام الترمذی ص١٦٨، ١٦٩ جلد سوم۔ حقانیہ پشاور)

رحمۃ الامۃ میں ہے کہ بنی ہاشم یعنی حضرت عباس، حضرت علی، حضرت جعفر، حضرت عقیل اور حضرت حارث بن عبدالمطلب کی اولاد پر زکوٰۃ کی حرمت پر اجماع ہے۔ جان لیں کہ بنی ہاشم پر صدقات واجبہ کا حرام ہونا یہ ظاہر الروایۃ ہے اور حضرت ابو عصمہ نے امام ابو حنیفہ سے روایت کی ہے کہ اس زمانے میں (سادات کو زکوٰۃ دینا)جائز ہے اگرچہ پہلے ممنوع (ناجائز) تھا کیونکہ زکوٰۃ کے عوض میں خمس الخمس (خمس کا پانچواں حصہ) دیا جاتا تھا اب لوگوں نے مال غنیمت کو مھمل چھوڑ دیا اور مستحقین کو نہیں دیا جاتا ہے اس لئے اب اس کے بدلے زکوٰۃ دی جائے گی۔علماء فرماتے ہیں کہ ظاہر الروایۃ ہی پر عمل ہوگا۔

علامہ شیخ محمد صدیق النجیب آبادی درج بالا حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں۔

واعلم ان ظاہر قولہ لا تحل لنا الصدقۃ عدم حل صدقۃ الفرض والتطوع و قد نقل جماعۃ منھم الخطابی الاجماع علی تحریمھا علیہ ﷺ و تعقب بانہ قد حکی غیر واحد عن الشافعی فی التطوع قولا و کذا فی روایۃ عن احمد و قال ابن قدامۃ لیس ما نقل عنہ من ذلک بواضح الدلالۃ وا ما آل النبی ﷺ فقال اکثر الحنفیۃ وھو المصحح عن الشافعیۃ والحنابلۃ و کثیرمن الزید یۃ انھا تجوز لھم صدقۃ التطوع دون الفرض قالوا لان المحرم علیھم انما ھو اوساخ الناس و ذلک ھو الزکوۃ لا صد قۃ التطوع۔

 (انوار المحمود علی سنن ابی داؤد ص ٤٩٨ جلد اول۔ ادارۃ القرآن کراچی)

جان لیں کہ آپ ﷺ کے قول کہ ہمارے لئے صدقات جائز (حلال) نہیں کا ظاہر معنی یہ ہے کہ صدقات واجبہ و نافلہ دونوں سادات کیلئے ناجائز و حرام ہےں، اور فقہاء کی ایک جماعت جن میں علامہ خطابی بھی ہیں نے اجماع نقل فرمایا ہے کہ آپ ﷺ پر صدقات حرام تھے۔ اور کئی علماء نے اس کے تعاقب میں امام شافعی سے نفلی صدقات کے جواز پر ایک قول نقل فرمایا ہے اور امام احمد سے بھی ایک روایت میں نفلی صدقات کے جواز کا ثبوت ہے۔ اور ابن قدامہ نے فرمایا کہ امام احمد سے جو ایک روایت (نفلی صدقات کے جواز کی) ہے وہ واضح الدلالت نہیں (یعنی معتبر نہیں) اور سادات کیلئے (زکوۃ وغیرہ کا حکم) تو اکثر احناف اور شوافع اور حنابلہ کے صحیح قول اور فرقہ زیدیہ کے کثیر علماء کے نزدیک صدقات نافلہ جائز ہیں جبکہ صدقات واجبہ (زکوۃ وغیرہ) جائز نہیں۔ علماء فرماتے ہیں کہ سادات (آل رسول ﷺ ) پر جو حرام ہے وہ لوگوں کا میل کچیل ہے جو زکوٰۃ کی صورت میں ہوتا ہے نہ کہ نفلی صدقات میں۔

ملا علی قاری حدیث (انھا لا تحل لمحمد ولا لآل محمد ﷺ ) کے بارے میں باب من لا تحل لہ الصدقۃ میں فرماتے ہیں:

فیہ دلیل علی ان الصدقۃ تحرم علیہ و علی آلہ سواء کان بسبب العمل او بسبب الفقر والمسکنۃ وغیرہما و ھذا ھو الصحیح عندنا وقال ابن الملک الصدقۃ لا تحل للنبی ﷺ فرضا کانت او نفلا و کذاا لمفروضۃ لآلہ ای اقربائہ و اما التطوع فمباح لھم قال ابن الھمام عند قول صاحب الھدایۃ ولا تدفع الی بنی ھاشم ھذا ظاہر الروایۃ.

 (مرقات ص ٣٣٥ جلد رابع کتاب الزکوۃ۔ حقانیہ پشاور)

اس حدیث میں دلیل ہے کہ زکوٰۃ آپ ﷺ اور آپ کی اولاد پر حرام ہے خواہ زکوٰۃ کسی عمل کے سبب سے لے رہا ہو یا فقر و غربت کی وجہ سے اور یہی بات ہمارے (احناف کے) نزدیک صحیح ہے اور ابن الملک نے فرمایا کہ آپ ﷺ پر مطلق صدقہ حرام تھا۔ اسی طرح آپ کی اولاد(سادات ) پر صدقات واجبہ (زکوۃ وغیرہ) حرام ہےں اور صدقات نافلہ مباح (جائز) ہےں۔ ابن ھمام صاحب ھدایہ کے قول کہ بنی ہاشم کو زکوٰۃ نہ دی جائے کہ تحت فرماتے ہیں کہ یہی ظاہر الروایہ ہے۔

زکوٰۃ وغیرہ صد قات واجبہ لوگوں کے گناہوں کا دھوون اور میل کچیل ہے:

عن علی رضی اللہ عنہ قال قلت للعباس سل رسول اللہ ﷺ ان یستعملک علی الصدقات فسألہ فقال ما کنت لاستعملک علی غسالۃ ذنوب المسلمین۔

 (رواہ ابن ابی شیبۃ، کنز العمال ص ٣٠٩ جلد ٤)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے زکوٰۃ پر ڈیوٹی مانگیں تو انہوں نے طلب فرمایا اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں آپ (عباس) کو مسلمانوں کے گناہوں کے دھوون(میل کچیل) پر عامل نہیں بناؤنگا۔

عن ابن عباس رضی اللہ عنھما(مرفوعا) اصبروا علی انفسکم یا بنی ہاشم فانما الصدقات غسالات الناس۔

 (رواہ الطبرانی، کنز العمال ص٢٨٥)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما آپ ﷺ سے مرفوع روایت نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ اے بنی ہاشم (میری اولاد، سادات) تم لوگ (فقر و فاقہ اور غربت پر) صبر کرو (اور زکوٰۃ نہ لیا کرو) کیونکہ زکوٰۃ وغیرہ لوگوں کا دھوون ہے یعنی میل کچیل ہے۔

قاضی شوکانی سادات کیلئے زکوہ کی حرمت پر وارد احادیث کا خلاصہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

والحاصل ان تحریم الزکاۃ علی بنی ھاشم معلوم من غیر فرق بین ان یکون المزکی ھاشمیا او غیرہ۔

 (نیل الا وطار ص١٩٤ الجزء الرابع۔ مطبعہ مصطفیٰ البابی مصر)

الحاصل یہ ہے کہ بنی ہاشم (سادات) کو زکوٰۃ دینے کی حرمت معلوم ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ زکوٰۃ دینے والا ہاشمی ہے یا غیرھاشمی ۔ یعنی سادات کو نہ سادات زکوٰۃ دے سکتے ہیں اور نہ غیر سادات۔

 ان تمام احادیث مبارکہ اور ان کے شارحین کے اقوال سے یہ بات اظہر من الشمس ثابت ہوئی کہ آل رسول ، (بنی ہاشم، سادات )کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں خواہ زکوٰۃ دینے والا خود سید ہو یا غیر سید۔ کیونکہ ان پر زکوٰۃ کی حرمت کی جو علت تھی وہ اب بھی برقرار ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک اور ستھرا فرمایا ہے اور دوسری طرف زکوٰۃ لوگوں کے مال و نفوس کا میل کچیل اور ا ن کے گناہوں کا دھوون ہے جو ان کے شایان شان نہیں۔

 الغرض سادات حضرات اپنی شان طہارت اور نسبی عظمت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے عام مسلمانوں کے میل کچیل اور دھوون کی طرف نظر طمع سے نہ دیکھیں اگرچہ ان پر فقر و غربت آجائے اور یہی رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ میری اولاد(سادات) اپنے آپ کو لوگوں کے میل کچیل اور دھوون میں گندا نہ کریں بلکہ صبر ہی کرتے رہیں۔

 عزیز قارئین: اب ہم ان عبارات فقہاء کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں کہ جن سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو جائیگی کہ سادات (آل رسول) مصرف زکوٰۃ نہیں۔ ان کو زکوٰۃ دینی جائز نہیں بلکہ بعض فقہاء نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ جس زکوٰۃ دینے والے کو یہ پتہ ہو کہ میں جس کو زکوٰۃ دے رہا ہوںوہ سید اور آل رسول ہے تو اسکی زکوٰۃ ادا نہ ہوگی وہ دوبارہ زکوٰۃ دے گا۔

امام طاہر بن عبدالرشید کتاب الزکوۃ الفصل الثامن میں لکھتے ہیں:

 ولا یجوز الدفع الی بنی ہاشم ولا الی موالیھم ۔

 (خلاصۃ الفتاویٰ ص ٢٤٢ جلد اول۔ رشیدیہ کوئٹہ)

 بنی ہاشم (سادات) اور ان کے غلاموں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔

علامہ حصکفی کتاب الزکوۃ باب المصرف میں لکھتے ہیں:

ولا الی بنی ہاشم الا من ابطل النص قرابتہ وھم بنو لھب فتحل لمن اسلم منھم کما تحل لبنی المطلب ثم ظاہر المذھب اطلاق المنع و قول العینی والھاشمی یجوز لہ دفع زکاتہ لمثلہ صوابہ لا یجوز ۔

 (الدر المختار ص ٧٢ جلد دوم۔ رشیدیہ کوئٹہ)

بنی ہاشم (سادات) کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں مگر وہ بنی ہاشم کہ جن کی قرابت کو نص نے باطل کر دیاجو ابولھب کی اولاد ہے ۔توان میں جو مسلمان ہیں ان کو زکوٰۃ دینا جائز ہے جیساکہ مطلب کی ا ولاد کیلئے جائز ہے۔ لیکن ظاہر مذہب یہ ہے کہ سادات کو مطلقا زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔اور عینی نے لکھاہے کہ ہاشمی (سادات) ایک دوسرے کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ سادات بھی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔

علامہ شامی درج بالا عبارت کی شرح میں فرماتے ہیں:

(قولہ اطلاق المنع الخ) یعنی سواء فی ذلک کل الا زمان و سواء فی ذلک دفع بعضھم لبعض و دفع غیرھم لھم۔

 (شامی ص ٧٢ جلد دوم۔ رشیدیہ کوئٹہ)

علامہ حصکفی کا فرمان کہ (سیدکو مطلقًا زکوٰۃ دینا ناجائز ہے) یعنی ہر زمانے میں ناجائز ہے اور ایک دوسرے کو بھی زکوہ نہیں دے سکتے اور نہ غیر سید سید کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔

شیخ محمد نطام الدین کیرانوی علامہ حصکفی کی عبارت کی تشریح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

(قولہ اطلاق المنع) یعنی سواء فی ذلک کل الازمان و سواء فی ذلک دفع بعضھم لبعض و دفع غیرھم لھم۔

(کشف الاستار علی الدرا لمختار ص ١٤١ جلد اول باب المصرف۔ ایچ ایم سعید کراچی)

شیخ ملا نظام لکھتے ہیں:

ولا یحل للعامل الہاشمی تنزیھا لقرابۃ النبی ﷺ عن شبھۃ الوسخ۔ (عالمگیری ص ١٨٨ جلد اول باب فی المصارف ۔ ماجدیہ کوئٹہ)

ولا یجوز لمکاتب ہاشمی لان الملک یقع للمولی من وجہ والشبھۃ ملحقۃ بالحقیقۃ ولا یدفع الی بنی ہاشم و ھم آل علی و آل عباس و آل جعفر و آل عقیل و آل الحارث بن عبدالمطلب کذا فی الھدایۃ و یجوز الدفع الی من عداھم من بنی ھاشم کذریۃ ابی لھب لانھم لم یناصروا النبی ﷺ کذا فی السراج الوھاج ھذا فی الواجبات کالزکوۃ والنذروالعشر والکفارۃ فاما التطوع فیجوز الصرف الیھم۔

 (عالمگیری، ص ١٨٩، جلد اول،رشیدیہ کوئٹہ)

رسول اللہ ﷺ کے نسب مبارک کو میل کچیل سے پاک رکھنے کی وجہ سے ایسے سید (آل رسول) کو بھی زکوٰۃ نہیں دی جائیگی جو زکوٰۃ کے مال پر ڈیوٹی کرتا ہو سادات کے مکاتب غلام کو بھی زکوٰۃ نہیں دی جائیگی کیونکہ ملک (مال) من وجہ (ایک نسبت سے) مالک کو ملتا ہے تو زکوٰۃ میں شبہ (شک) حقیقت (سادات) میں آجائیگا۔ (یعنی یہی میل کچیل غلام کے واسطے سے سید کے پاس آجائیگا) اور بنی ہاشم یعنی آل علی و آل عباس، آل جعفر، آل عقیل اور آل الحارث بن عبدالمطلب کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی جیسا کہ ہدایہ میں ہے اوربنی ہاشم کے علاوہ مثلاً ابو لہب کی مسلمان اولاد کو زکوٰۃ دینا جائز ہے کیونکہ انہوںنے حضور ﷺ کی نصرت(مدد) نہیںکی تھی اور سادات کیلئے عدم جواز کا حکم صدقات واجبہ یعنی زکوۃ، نذر، عشر اور کفارہ میں ہے۔ صدقات نافلہ سادات کو دیناجائز ہے۔

امام قاضی خان کتاب الزکوۃ فصل فیمن توضع فیہ الزکوۃ میں لکھتے ہیں:

ولا یجوز الدفع الی بنی ہاشم ولا الی موالیھم فان دفع و ھولا یعلم ثم علم جاز و کما لا یجوز صرف الزکاۃ الیھم ولا الی موالیھم لایجوز صرف کفارۃ الیمین والظہار والقتل و عشر الارض و جزاء الصید الخ۔

(فتاویٰ قاضی خان علی ھامش الفتاویٰ العالمگیری ص ٣٦٧ جلد اول ماجدیہ کوئٹہ)

بنی ہاشم (سادات) اور ان کے غلاموں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ اگرکسی نے سادات کونہ جانتے ہوئے دی اور بعد میں پتہ چلا تو جائز ہے۔ اور جس طرح سادات اورا ن کے غلاموں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں اس طرح ان کو قسم، ظہار اور قتل کے کفارے کی قیمت وغیرہ، زمین کا عشر(فصل کی زکوۃ) اور (حالت احرام میں کئے ہوئے) شکار کے بدلے کی رقم وغیرہ دینا بھی جائز نہیں ہے۔

علامہ محقق ملا خسروالحنفی لکھتے ہیں:

(و بنی ہاشم) لقولہ ﷺ یا بنی ہاشم ان اللہ حرم علیکم غسالۃ اموال الناس و اوساخھم (و موالیھم) ای معتقی بنی ہاشم لما تقرر ان مولی القوم منھم (و ان جاز التطوعات) من الصدقۃ (والاوقاف لھم) ای لبنی ہاشم و موالیھم لانتفاء العلۃ المذکورۃ فی الزکاۃ فیھا۔

 (دررالحکام فی شرح غرر الاحکام ص١٩١ جلد اول باب المصارف میر محمد کراچی)

بنی ہاشم (سادات) کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے بنی ہاشم بیشک اللہ نے تمہارے لئے لوگوں کے مال کا میل کچیل اور دھوون حرام کیا ہے۔ اور ان کے غلاموں کو بھی زکوٰۃ نہیں دی جائیگی کیونکہ یہ بات مقرر (ثابت شدہ) ہے کہ ہر قوم کا غلام ان سے ہوتا ہے اگرچہ ان (سادات) کیلئے نفلی صدقات جائز ہےں اسی طرح وقف شدہ اشیاء بھی جائز ہیں کیونکہ زکوٰۃ (کی حرمت) میں جو علت (میل کچیل کا ہونا) تھی وہ نفلی صدقات میں نہیں ہے۔

علامہ شرنبلالی حنفی درج بالا عبارت درر الحکام کی شرح میں فرماتے ہیں:

و اطلق الحکم ولم یقیدہ بزمان ولا شخص اشارۃ لرد روایۃ ابی عصمۃ عن الامام انہ یجوز الدفع لبنی ہاشم فی زمانہ لان فی عوضھا خمس الخمس و لم یصل الیھم ولرد روایۃ ان الہاشمی یجوز لہ دفع زکاتہ الی ہاشمی مثلہ لان ظاہر الروایۃ المنع مطلقا کذا فی البحر۔

 (غنیۃ ذوی الاحکام فی بغیۃ درر الحکام ص ١٩١ جلد اول)

ماتن نے سادات کو زکوٰۃ دینے کی حرمت کا حکم مطلق بیان کیا اور کسی زمانے یا کسی اشخاص کے ساتھ مقید نہ فرمایا اس میں اس قول کو رد کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے جو حضرت ابو عصمہ نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا کہ اس زمانے میں سادات کو زکوٰۃ دینا جائز ہے کیونکہ اس کے عوض (بدلے) میں جو خمس الخمس ان کوملتا تھا وہ اب نہیں ملتا۔ اسی طرح اس میں اس قول کابھی رد ہوا کہ ہاشمی (سادات) ایک دوسرے کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں کیونکہ ظاہر الروایۃ یہ ہے کہ مطلقاً سادات کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی جیساکہ البحرا لرائق میں ہے۔

الفقیہ المحقق داماد آفندی لکھتے ہیں:

ولا تدفع الی ہاشمی من آل علی او عباس او جعفر او عقیل بفتح العین او الحارث بن عبدالمطلب و لو کان عاملاعلیھا ای علی الزکوۃ لقولہ علیہ الصلوۃ والسلام ان ھذہ الصدقات انما ھی اوساخ الناس و انہا لاتحل لمحمد ولا آل محمد ( ﷺ ).

 (مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر ص ٢٢٤ جلد اول۔ دارالطباعۃ العامرۃ)

سادات کو یعنی آل علی ،عباس، جعفر، عقیل اور حارث بن عبدالمطلب کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی اگرچہ زکوٰۃ کے مال پر ڈیوٹی ہو کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا بے شک یہ زکوٰۃ لوگوں کا میل کچیل ہے اور یہ محمد ﷺ اور آپ کی اولاد کیلئے حلال (جائز) نہیں۔

علامہ حصکفی لکھتے ہیں:

و عن الامام جواز دفع الہاشمی زکاتہ لمثلہ و عنہ الجواز فی زماننا مطلقا قال الطحاوی و بہ ناخذ واقرہ القھستانی وغیرہ الاان ظاہر الروایۃ اطلاق المنع کما فی البحر۔

 (درالمنتقی شرح الملتقی الابحر ص ٢٢٤ جلد اول)

امام ابو حنیفہ سے روایت ہے کہ سادات ایک دوسرے کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اور اس زمانے میں مطلقا سادات کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ امام طحاوی کہتے ہیں ہمارا اس پر عمل ہے مگر ظاہر الروایۃ یہ ہے کہ سادات کو مطلقا زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔

علامہ سراج الدین عمر بن اسحاق غزنوی لکھتے ہیں:

لوادی الی ہاشمی لا یجوز و ذلک ان یکون من آل علی ابن ابی طالب او آل عباس بن عبدالمطلب او آل جعفر او آل عقیل او آل الحارث بن عبدالمطلب و کذا لوادی الی معتقھم۔ (فتاویٰ سراجیہ ص ٢٨۔ میر محمد کراچی)

اگر کسی نے ہاشمی (سادات) کو زکوٰۃ دی تو جائز نہیں اسی طرح سادات کے آزاد کردہ غلاموں کو بھی زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔

شیخ عبدالرحمن الجزیری لکھتے ہیں:

الحنفیۃ قالوا: ولا تحل لبنی ہاشم بخلاف صدقات التطوع والوقف۔

(کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ ص ٦٢٢ جلد اول۔ دارالکتب العلمیہ بیروت)

فقہاء احناف فرماتے ہیں بنی ہاشم (سادات) کیلئے زکوٰۃ حلال(جائز) نہیں ہے نفلی صدقات اور وقف اموال لینا جائز ہے۔

علامہ عالم بن العلاء الدھلوی لکھتے ہیں:

ولا یجوز ان یعطی من الزکاۃ و فی الخانیۃ والعشر فقراء بنی ہاشم ولا موالیھم ......... فانما یحرم علی ھولاء الصدقۃ''الولوالجیۃ'' من العشور والنذور والکفارات و فی الخانیۃ و جزاء الصید، فاما الصدقۃ علی وجہ الصلۃ والتطوع فلا باس بہ۔

(الفتاویٰ التاتار خانیہ، ص ٢٠٧، ج٢، کتاب الزکوۃ فصل فی المسائل المتعلقۃ بمن توضع فیہ الزکوۃ ، قدیمی کراچی)

فقراء سادات کو زکوٰۃ ، عشر دینا جائز نہیں کیونکہ ان حضرات (سادات) پر زکوٰۃ عشر، نذر، کفارات اور شکار کے بدلے رقم وغیرہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے البتہ صلہ رحمی کی وجہ سے یا نفلی صدقہ دینا جائز ہے۔

ملک العلماء علامہ کاسانی کتاب الزکوۃ باب مصارف الزکوۃ میں لکھتے ہیں:

ومنھا ان لا یکون من بنی ہاشم لما روی عن رسول اللہ ﷺ انہ قال:'' یامعشر بنی ہاشم ان اللہ کرہ لکم غسالۃ الناس و عوضکم منھا بخمس الخمس من الغنیمۃ وروی عنہ ﷺ انہ قال ان الصدقۃ محرمۃ علی بنی ہاشم وروی انہ رای فی الطریق تمرۃ فقال لو لا انی اخاف ان تکون من الصدقۃ لاکلتھا ثم قال ان اللہ حرم علیکم یا بنی ہاشم غسالۃ ایدی الناس والمعنی ما اشار الیہ انھا من غسالۃ الناس فیتمکن فیھا الخبث فصان اللہ تعالیٰ بنی ہاشم عن ذلک تشریفا لھم و اکراما و تعظیما لرسول اللہ ﷺ الی ان قال و بنو ہاشم الذین تحرم علیھم الصدقات آل العباس و آل علی و آل جعفر و آل عقیل وولد الحارث بن عبدالمطلب کذا ذکرہ الکرخی۔

 (بدائع الصنائع ص ١٦٢ جلد دوم ۔ رشیدیہ کوئٹہ)

جن کو زکوٰۃ دی جاتی ہے وہ بنی ہاشم(سادات ) نہ ہو کیونکہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے بنی ہاشم (سادات) بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لوگوں کے میل کچیل کو مکروہ (ناپسند ) فرمایا ہے اور اس کے عوض(بدلے) میں آپ لوگوں کو خمس الخمس دیا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا بیشک بنی ہاشم (سادات) کیلئے زکوٰۃ حرام ہے۔ اور آپ ﷺ نے راستے میں کھجور دیکھا تو فرمایا کہ اگر اس کھجور کے زکوٰۃ میں سے ہونے کا خوف(شک) نہ ہوتا تو میں اسے تناول فرما لیتا پھر آپ نے فرمایابیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اے بنی ہاشم (سادات) لوگوں کے ہاتھوں کا میل کچیل حرام فرمایا ہے اور حضور ﷺ کا یہ فرمانا کہ یہ زکوٰۃ لوگوں کا میل کچیل اور دھوون ہے تو اسمیں خبث (گندگی) ضرور ہوگی اس لئے اللہ تعالیٰ نے بنی ہاشم (سادات) کو ان کی شرافت، اکرام اور حضور ﷺ کی تعظیم کی وجہ سے پاک و صاف اور بچائے رکھا۔ اوروہ بنی ہاشم (سادات) جن پر زکوٰۃ وغیرہ صدقات واجبہ حرام ہیں وہ آل عباس، آل علی، آل جعفر ، آل عقیل اور حارث بن عبدالمطلب کی اولاد ہیں،جیساکہ امام کرخی نے ذکر فرمایا۔

امام ابو البرکات النسفی لکھتے ہیں:

 وبنی ہاشم و موالیھم .

 (کنز الدقائق ص ٦٥ باب المصرف ۔ حقانیہ ملتان)

 بنی ہاشم (سادات) اور ان کے غلاموں کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی۔

امام عمر بن ابراہیم بن نجیم الحنفی کنز الدقائق کی مذکورہ عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں :

ولا الی بنی ہاشم لخبر البخاری'' نحن اہل بیت لا تحل لنا الصدقۃ'' و کلامہ ظاہر فی ان المراد اقرباء ہ علیہ الصلوۃ والسلام الی ان قال و اطلاقہ یفید انہ لا فرق بین دفع غیرھم لھم و دفعھم لبعضم بعضا و جوز الثانی دفع بعضھم لبعض وھو روایۃ عن الامام و قول العینی والھاشمی یجوز لہ ان یدفع زکاتہ الی ہاشمی مثلہ عند ابی حنیفۃ خلافا لابی یوسف صوابہ لا یجوز الی ان قال وروی ابو عصمۃ جواز اعطائھم الواجبۃ فی زماننا لمنعھم من خمس الخمس قال الطحاوی و بہ ناخذ الا ان ظاہر الروایۃ اطلاق المنع۔

 (النھر الفائق ص ٤٦٥، ٤٦٦، ٤٦٧ جلد اول۔ قدیمی کراچی)

بنی ہاشم (سادات) کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی کیونکہ بخاری میں ہے''ہم اہل بیت کیلئے زکوٰۃ حلال نہیں اور ظاہر کلام یہ ہے کہ اس سے مراد آپ ﷺ کے اقرباء ہیںاور مصنف(کنز الدقائق) کا مطلق حکم ذکر کرنا یہ فائدہ دیتا ہے کہ سادات کو تو نہ سادات زکوٰۃ دے سکتے ہیں اور نہ غیر سادات۔ بعض نے کہا کہ سادات اگر ایک دوسرے کو زکوٰۃ دیں تو جائز ہے اور علامہ عینی نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک سادات ایک دوسرے کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اور امام ابو یوسف نے اس کا خلاف کیا ہے۔ لیکن صحیح بات (احناف کے نزدیک) یہ ہے کہ (کسی بھی صورت میں سادات کو زکوٰۃ دینا) جائز نہیں ہے۔ اور حضرت ابو عصمہ کے قول پر فتویٰ دیتے ہوئے امام طحاوی نے فرمایا کہ چونکہ سادات کو خمس الخمس نہیں دیا جاتا اس لئے اب ان کو زکوٰۃ وغیرہ دینا جائز ہے لیکن ظاہر الروایۃ یہی ہے کہ مطلقاً سادات کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔

علامہ شیخ زین الدین بن ابراہیم بن محمد المعروف بن نجیم کی درج بالا عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں:

قولہ (و بنی ہاشم و موالیھم) ای لایجوز الدفع لھم لحدیث البخاری ''نحن اہل البیت لا تحل لنا الصدقۃ و لحدیث ابی داؤد ''مولی القوم من انفسھم و انا لا تحل لنا الصدقۃ'' ... . ... لان حرمۃ الصدقۃ لبنی ہاشم کرامۃ من اللہ تعالیٰ لھم و لذریتھم حیث نصروہ علیہ الصلوٰۃ والسلام فی جاھلیتھم واسلامھم۔....... و قال المصنف فی الکافی و ھذا فی الواجباب کالزکوۃ والنذر والعشر والکفارۃ اما التطوع والوقف فیجوز الصرف الیھم....... ان النفل جائزلھم بالاجماع کا لنفل للغنی........ واطلق الحکم فی بنی ہاشم ولم یقید بزمان ولا بشخص لاشارۃ الی رد روایۃ ابی عصمۃ عن الامام انہ یجوز الدفع الی بنی ہاشم فی زمانہ لان عوضھا وھو خمس الخمس لم یصل الیھم لاھمال الناس امر الغنائم و ایصالھا الی مستحقھا و اذا لم یصل الیھم العوض عادوا الی المعوض و للاشارۃ الی رد الروایۃ بان الھاشمی یجوز لہ ان یدفع زکاتہ الی ہاشمی مثلہ لان ظاہر الروایۃ المنع مطلقا۔

 (البحر الرائق ص ٤٢٩ تا ٤٣١ جلد دوم باب المصرف۔ رشیدیہ کوئٹہ)

بنی ہاشم اور ان کے غلاموں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں کیونکہ بخاری شریف میں ہے ''ہم اہل بیت (سادات) کیلئے زکوٰۃ جائز(حلال) نہیں اور ابو داؤد شریف کی حدیث میں ہے کہ قوم کا غلام ان ہی میں سے ہوتا ہے اور ہمارے لئے زکوٰۃ حلال نہیں۔ سادات پر زکوٰۃ کی حرمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے اکرام اور تعظیم کی وجہ سے ہے کیونکہ انہوں نے آپ ﷺ کی دور جاھلیت اور اسلام میں مدد کی ہے۔ اور مصنف نے کافی میں لکھا ہے کہ سادات پر صدقات کی حرمت صدقات واجبہ یعنی زکوۃ، نذر، عشر اور کفارہ میں ہے۔ نفلی صدقات اور وقف سادات کیلئے جائز ہے۔ نفلی صدقات سادات کیلئے اسی طرح جائز ہے جس طرح مالدار کیلئے جائز ہے۔ اور مصنف نے سادات پر زکوٰۃ کی حرمت جو مطلقاً بیان کی اور کسی زمانے یا شخص کے ساتھ مقید نہ کیا تو اس میں اس روایت کا رد کیا گیاجو حضرت ابو عصمہ نے امام ابو حنیفہ سے روایت کی کہ اس زمانے میں سادات کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں کیونکہ لوگوں کی لا پرواہی کی وجہ سے مال غنیمت کا خمس الخمس جو زکوٰۃ کے عوض میں دیا جاتا تھا اب سادات کو نہیں مل رہا۔ اور اس روایت کا بھی رد کیا گیا جس میں ہے کہ سادات ایک دوسرے کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔ کیونکہ ظاہر الروایۃ یہ ہے کہ سادات کو مطلقاً زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔

امام عبید اللہ بن مسعود بن تاج الشریعۃ لکھتے ہیں:

و بنی ھاشم و ھم آل علی و عباس و جعفر و عقیل والحارث بن عبدالمطلب و موالیھم ای معتقی ھولائ۔

 (شرح الوقایہ ص ٢٩٩ جلد اول ۔ باب المصارف ۔ رشید یہ کوئٹہ)

بنی ہاشم (سادات) یعنی آل علی و عباس و جعفر و عقیل اور آل حارث بن عبدالمطلب اور ان کے آزاد کردہ غلاموں کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی۔

امام قدوری لکھتے ہیں:

ولا یدفع الی بنی ہاشم و ھم آل علی و آل عباس و آل جعفر و آل عقیل و آل حارث بن عبدالمطلب و موالیھم۔

 (المختصر القدوری ص ٤٣۔ آفتاب عالم پریس لاہور)

بنی ہاشم (سادات) یعنی حضرت علی، حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل اور حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم کی اولاد اور ان کے آزاد کردہ غلاموں کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی۔

علامہ مرغینانی درج بالا عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں:

ولا تدفع الی بنی ہاشم لقولہ علیہ السلام یا بنی ہاشم ان اللہ حرم علیکم غسالۃ الناس واوساخھم و عوضکم منھا بخمس الخمس بخلاف التطوع۔(ھدایہ ،ص ٢٠٦، ج١، شرکت علمیہ ملتان)

بنی ہاشم کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی کیونکہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے بنی ہاشم اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں پر لوگوں کا دھوون اور میل کچیل حرام فرمایا ہے اور اسکی جگہ خمس الخمس عطا فرمایا، نفلی صدقات دینا جائز ہے۔

الشیخ عبدالغنی الغنیمی المیدانی، امام قدوری کی عبارت کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

ولا تدفع الی بنی ہاشم لان اللہ تعالیٰ حرم علیھم اوساخ الناس الی قولہ لان حرمۃ الصدقۃ علی بنی ہاشم کرامۃ من اللہ تعالیٰ لھم و لذریتھم حیث نصروہ ﷺ فی جاھلیتھم و اسلامھم۔ (اللباب فی شرح الکتاب ص ١٥٠ جلد اول ۔ قدیمی کراچی)

بنی ہاشم (سادات) کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر لوگوں کے میل کچیل کو حرام فرمایا ہے اور سادات پر زکوٰۃ کی حرمت کی وجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی اور ان کی اولاد کی عزت اور کرامت ہے کہ انہوںنے حضور ﷺ کی مدد کی تھی دور جاہلیت اوراسلام میں۔

شیخ الاسلام ابو بکر بن علی الحداد الیمنی لکھتے ہیں:

(قولہ ولا یدفع الی بنی ہاشم) یعنی اجنبی لا یدفع الیھم بالاجماع و ھل یجوز ان یدفع بعضھم الی بعض عندھما لایجوز و قال ابو یوسف یجوز الی قولہ ولا یجوزلھم النذور والکفارات ولا صدقۃ الفطر ولاجزاء الصید لانھا صدقۃ واجبۃ کذا عن ابی یوسف۔(الجوہرۃ النیرۃ ص١٥٧ جلد اول۔ قدیمی کراچی)

سادات کو غیر سادات زکوٰۃ نہیں دے سکتے اور اس پر اجماع ہے ۔ آیاسادات ایک دوسرے کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں یا نہیں تو طرفین(امام ابوحنیفہ اور امام محمد علیہما الرحمۃ) کے نزدیک جائز نہیں اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک جائز ہے۔ سادات کیلئے نذر ، کفارہ، صدقہ فطر اور شکار کے بدلے رقم وغیرہ لینا جائز نہیں کیونکہ یہ تمام صدقات واجبہ ہیں اسی طرح امام ابو یوسف سے بھی روایت ہے۔

علامہ ابن الھمام ہدایہ کی عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں:

قولہ(ولا یدفع الی بنی ہاشم)ھذا ظاہر الروایۃ۔

 (فتح القدیر ص ٢١١ جلد دوم۔ حقانیہ پشاور)

ففی شرح الکنز لا فرق بین الصدقۃ الواجبۃ والتطوع ثم قال و قال بعض یحل لھم التطوع اھ فقد اثبت الخلاف علی وجہ یشعر بترجیح حرمۃ النافلۃ وھو الموفق للعمومات فوجب اعتبارہ فلا یدفع الیھم النافلۃ الاعلی وجہ الھبۃ مع الادب و خفض الجناح تکرمۃ لاہل بیت رسول اللہ ﷺ الخ۔

 ( فتح القدیر ص ٢١٢ جلد دوم۔ حقانیہ پشاور)

سادات کو زکوٰۃ نہ دی جائے اور یہی ظاہر الروایۃ ہے۔ کنز الدقائق کی شرح میں ہے کہ (سادات پر) صدقات واجبہ اور نافلہ (کی حرمت) میں کوئی فرق نہیں۔ پھر فرمایا بعض علماء سادات کیلئے نفلی صدقات جائز کہتے ہیں۔ یقینا شارح کنز الدقائق نے ایسا خلاف ثابت کیا جس سے سادات کیلئے نفلی صدقات کی حرمت ثابت ہوتی ہے اور یہی عمومات کے موافق بھی ہے اس لئے سادات کوجب صدقات نافلہ دینا چاہیں تو نہایت ہی ادب و احترام اور ہبہ کی نیت سے دئیے جائیں اور حضور ﷺ کی اہل بیت کی عزت کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی نرمی کا سلوک کرنا چاہیے۔

الشیخ المحدث الفقیہ العلامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں:

(ولا یدفع الی بنی ہاشم) ای ولا یدفع الزکوۃ الی بنی ہاشم و فی الایضاح الصدقات الواجبات کلہا علیہم لا تجوز باجماع الأئمۃ الاربعۃ۔ (البنایہ شرح الہدایہ ص ٢٠٣ جلد ٤ حقانیہ ملتان)

بنی ہاشم (سادات) کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی اور ایضاح میں ہے کہ تمام صدقات واجبہ سادات پر ناجائز ہےں اور اس پر آئمہ اربعہ (احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکیہ) کا اجماع ہے۔

شیخ ابو عبداللہ محمد بن عبدالرحمن الدمشقی لکھتے ہیں:

واجمعوا علی تحریم الصدقۃ المفروضۃ علی بنی ہاشم و ھم خمس بطون آل علی و آل عباس و آل جعفر و آل عقیل و آل الحارث بن عبدالمطلب واختلفوا فی بنی عبدالمطلب فحرمھا مالک والشافعی و احمد فی اظہر روایتیہ وجوزھا ابو حنیفۃ و حرمھا ابو حنیفۃ و احمد علی موالی بنی ہاشم وہو الاصح من مذہب مالک و الشافعی۔

 (رحمۃ الامۃ فی اختلاف الائمۃ ص ١١٥۔ امیر دولۃ قطر)

بنی ہاشم (سادات) یعنی آل علی،آل عباس، آل جعفر، آل عقیل اور آل الحارث بن عبدالمطلب پر زکوٰۃ کی حرمت پر اجماع ہے اور بنی عبدالمطلب پر زکوٰۃ کے جواز و عدم جواز میں اختلاف ہے امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کی اظہر روایت کے مطابق حرام ہے اور امام حنیفہ نے جائز مانا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد نے سادات کے غلاموں پر زکوٰۃ کو حرام فرمایا ہے اور یہی امام مالک اور امام شافعی کا بھی صحیح مذہب ہے۔

شیخ الاسلام ابن قدامہ المقدسی حنبلی لکھتے ہیں:

بنو ہاشم لا یعطون منھا الا لغزو اوحمالۃ لان النبی ﷺ قال انما الصدقۃ اوساخ الناس و انھا لاتحل لمحمد و آل محمد و سواء اعطوا حقھم من الخمس او منعوہ لعموم الخبر ولان منعھم لشرفھم و شرفھم باق ینبغی المنع۔

 (الکافی فی الفقہ الحنبلی ص ٤٥٤،٤٥٥ جلد اول المکتب الاسلامی دمشق)

سادات (بنی ہاشم) کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی مگر جہاد یا کسی کے قرض کا بوجھ اٹھانے کی صورت میں کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا بیشک زکوٰۃ لوگوں کا میل کچیل ہے جومحمد ﷺ اور آپ کی اولاد کیلئے حلال نہیں، چاہے ان کو ان کا حق خمس ملتا ہو یا نہ ملتا ہو کیونکہ روایت (حکم) عام ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ان پر زکوٰۃ کی حرمت ان کی شرافت (نسبی) کی وجہ سے ہے اور ان کی شرافت (نسبی) اب بھی باقی ہے اس لئے ہر حالت میں (ان کو زکوٰۃ دینا) منع ہے۔

شیخ العرب شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز لکھتے ہیں:

کل من عرف انہ من بنی ہاشم لا یجوز ان تدفع الیہ الزکاۃ لقول النبی ﷺ انھا لا تنبغی لمحمد ولا لآل محمد والاحادیث اخری وردت فی ذلک ثابتۃ عن النبی ﷺ ۔

(مجموع فتاویٰ ص ١٢٨ فتاویٰ الزکاۃ والصیام۔ مکتبہ امام الدعوۃ العلمیۃ مکۃ المکرمۃ)

جو شخص (زکوۃ دینے والا) بنی ہاشم (سادات) کو جانتا ہے تو ان (سادات) کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا یہ زکوٰۃ محمد ﷺ اور آپ کی اولاد کیلئے مناسب نہیں۔ اس سلسلے میں کئی اور احادیث مبارکہ بھی آپ ﷺ سے ثابت (وارد) ہیں۔

شیخ وھبۃ الزحیلی لکھتے ہیں:

ان لا یکون المستحق من بنی ھاشم لان آل البیت تحرم علیھم الزکاۃ لانھا اوساخ الناس و لھم من خمس الخمس فی البیت ما یکفیھم بدلیل قولہ ﷺ ان ھذہ الصدقات انما ھی اوساخ الناس و انھا لا تحل لمحمد ولا لآل محمد۔

 (الفقہ الاسلامی و ادلتہ، ص ١٩٦٧ ،جلد سوم۔ رشیدیہ کوئٹہ)

جس مستحق کو زکوٰۃ دیجاتی ہو وہ بنی ہاشم (سادات) میں سے نہ ہو کیونکہ آل رسول(سادات) پر زکوۃحرام ہے کیونکہ یہ زکوٰۃ لوگوں کامیل کچیل ہے اور ان کیلئے بیت المال میں سے خمس الخمس کافی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ زکوٰۃ لوگوں کا میل کچیل ہے اور یہ آپ ﷺ اور آپ کی اولاد کیلئے حلال نہیں ہے۔

امام شاہ ولی اللہ محدث دھلوی لکھتے ہیں:

الصدقات اوساخ مال الناس: قولہ ﷺ ان ھذہ الصدقات انما ھی من اوساخ الناس و انھا لا تحل لمحمد و لا لآل محمد'' اقول: انما کانت اوساخا لانھا تکفر الخطایا و تدفع البلاء الی ان قال مال الزکاۃ فیہ مھانۃ لآل محمد ﷺ وایضا فان المال الذی یاخذہ الانسان من غیر مبادلۃ عین او نفع ولا یراد بہ احترام وجہہ فیہ ذلۃ و مھانۃ۔

 (حجۃ اللہ البالغۃ ص ١١٧جلد اول ''المصارف'' قدیمی کراچی)

زکوٰۃ لوگوں کے مال کا میل کچیل ہے آپ ﷺ نے فرمایا بیشک یہ زکوٰۃ لوگوں کا میل کچیل ہے اور یہ آپ ﷺ اور آپ کی اولاد کیلئے جائز (حلال) نہیں۔

(امام شاہ ولی اللہ کہتے ہیں) میں کہتا ہوں کہ یہ زکوٰۃ وغیرہ میل کچیل ہے اس لئے کہ یہ گناہوں کا کفارہ اور مصیبت کے ٹالنے کیلئے ہے۔ زکوٰۃ کے مال لینے میں آل رسول (سادات) کی توہین ہے کیونکہ ایسا مال جو کوئی شخص بغیر کسی تجارت یا نفع دئیے بغیر لیتاہے اسمیں لینے والے کیلئے ذلت اور توہین ہوتی ہے۔

شیخ الاسلام امام شمس الدین السرخسی لکھتے ہیں:

و کذلک لو صرفھا الی ھاشمی او مولی ہاشمی و ھو یعلم بحالہ لا یجوز لقولہ ﷺ لا تحل الصدقۃ لمحمد ولا لآل محمد و عن ابن عباس رضی اللہ عنھما ان النبی ﷺ استعمل الارقم بن ابی الارقم علی الصدقات فاستتبع ابارافع فجاء معہ فقال النبی ﷺ یا ابارافع ان اللہ تعالیٰ کرہ لبنی ہاشم غسالۃ الناس و ان مولی القوم من انفسھم و ھذا فی الواجبات فاما فی التطوعات والاوقاف فیجوز الصرف الیھم۔

 (مبسوط امام سرخسی ص ١٢۔ الجزء الثالث۔ طبع مطبعۃ السعادۃ مصر)

اگر کسی نے کسی سید یا ان کے غلاموں کو جانتے ہوئے زکوٰۃ دی تو جائز نہیں کیونکہ آپ ﷺ نے ارشادفرمایا زکوٰۃ محمد ﷺ اور آپ کی اولاد کیلئے حلال نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت ارقم بن ابی الارقم کو زکوٰۃ پر مقرر فرمایا تو حضرت ابو رافع بھی ان کے پیچھے چلے تو آپ ﷺ نے فرمایا اے ابو رافع بیشک اللہ نے بنی ہاشم (سادات) کیلئے لوگوں کے میل کچیل (دھوون) کو ناپسند فرمایا ۔ اور بیشک کسی قوم کا غلام اسی قوم میں سے ہوتا ہے اور یہ( حرمت ) صدقات واجبہ میں ہے۔ صدقات نافلہ اوراوقاف (وقف شدہ اشیائ) سادات کیلئے جائز ہیں۔

علامہ عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں:

ظاہر الروایۃ اور ظاہر المذہب اور قول مفتیٰ بہ کے موافق بنی ہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں البتہ غیر ظاہر الروایۃ میں بروایت نوادر ابو عصمہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اسکا جواز نقل کرتے ہیں اور دوسری روایت میں امام ابو یوسف اور امام ابو حنیفہ رحمھما اللہ سے ہاشمی کا ہاشمی کو زکوٰۃ دینا وارد ہے لیکن یہ دونوں روایتیں ظاہر الروایۃ اور ظاہر المذہب کے خلاف ہیں اور مفتیٰ بہ قول کے موافق عدم جواز کی دلیل یہ ہے کہ تمام متون فقہیہ میں عدم جواز مذکور ہے اور فتویٰ متون کے قول پر ہوتا ہے اور بھی معتبر کتب فقہ میں عدم جواز کو ظاہر الروایۃ اور جواز کو خلاف ظاہر الروایۃ بلکہ خلاف صواب لکھا ہے۔

 (مجموعۃ الفتاویٰ ص ٤٧٣ جلد اول ، شہزاد پبلشرز لاہور)

شیخ عبداللہ بن محمود بن مودود الموصلی الحنفی لکھتے ہیں:

ولا الی ہاشمی ولا الی مولی ہاشمی۔

 (الاختیار لتعلیل المختار ص١٢٠۔ ١٢١ جلد اول مطبعہ مصطفی البابی مصر)

سادات اور ان کے غلاموں کو زکوٰۃ نہیں دی جائیگی۔

عیون المذہب میں ہے:

 لا الی بنی ہاشم بالاجماع۔

 ١س پر اجماع ہے کہ سادات کو زکوٰۃ نہ دی جائیگی۔

برہان شرح مواھب الرحمن میں ہے:

 ولا تدفع الزکوٰۃ و سائر الواجبات الی بنی ہاشم.....الخ

 زکوٰۃ اور صدقات واجبہ سادات کو نہیں دئیے جائینگے۔

احمد بن عبدالسلام الشرقاوی الحنفی من علماء الازھر الشریف لکھتے ہیں:

تصرف زکوٰۃ وما فی معناہ لغیر ھاشمی لما روی عن النبی ﷺ انہ قال یا معشر بنی ہاشم ان اللہ تعالیٰ کرہ لکم غسالۃ الناس۔ (کتاب التبیان شرح نور البیان ص١٩٦ مطبعہ البر قاہرہ مصر)

زکوٰۃ اور صدقات واجبہ سادات کے علاوہ مستحقین کو دئیے جائیں کیونکہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے سادات (بنی ہاشم) بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لوگوں کے میل کچیل (دھوون) کو ناپسند فرمایا۔

 عزیز قارئین! رسول اللہ ﷺ کے فرمودات اور انکی تشریحات اور اقوال مفسرین و فقہاء اور محدثین سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آل رسول (سادات) کیلئے صدقات واجبہ ناجائز و حرام ہےں۔

سادات پر زکوٰۃ کی حرمت احناف کا مفتی ٰبہ اور معمول بھا قول اور ظاہر الروایت ہے:

 سادات پر زکوٰۃ کا حرام اور ناجائز ہونا جس طرح کہ خود رسول اللہ ﷺ کے فرامین مبارکہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ بنی ہاشم(سادات) چاہے فقیر اور غریب ہو، ان کو خمس مل رہا ہو یا نہ بہر صورت ان کو صبر کرنا چاہئے اور لوگوں کے مال و دولت کا میل کچیل اور دھوون نہیں لینا چاہئے کیونکہ یہ سادات کیلئے حلال اور جائز نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے آل رسول(سادات) کیلئے ناجائز، حرام اور ناپسند فرمایا ہے ۔ اسی طرح فقہاء احناف کثرھم اللہ تعالیٰ کے اقوال و عبارات سے بھی ان صدقات واجبہ کا سادات پر حرام ہونا ثابت ہور ہا ہے اور یہی احناف کا مفتیٰ بہ اور معمول بہا قول اور ظاہر الروایت ہے جیساکہ منھاج السنن، مرقات شرح مشکوۃ، الدرالمختار، غنیۃ ذوی الاحکام فی بغیۃ دررالحکام، درالمنتقیٰ شرح الملتقیٰ، النھر الفائق، البحر الرائق شرح کنز الدقائق ، مجموعہ الفتاویٰ، فتح القدیر شرح الہدایہ کے حوالے سے ہدیہ قارئین کر دیا گیا ہے۔

احناف کے نزدیک فتویٰ ظاہر الروایت ہی پر دیا جائیگا:

علامہ شامی اصول افتاء میں لکھتے ہیں:

اعلم بان الواجب اتباع ما ترجیحہ عن اہلہ قد علما

اوکان ظاہر الروایۃ ولم یرجحوا خلاف ذاک فاعلم

ای ان الواجب علی من اراد ان یعمل لنفسہ او یفتی غیرہ ان یتبع القول الذی رجحہ علماء مذھبہ فلا یجوز لہ العمل او الافتاء بالمرجوح.......... وقد نقلوا الاجماع علی ذلک............ ان المجتہد والمقلد لا یحل لھما الحکم والافتاء بغیر الراجح لانہ اتباع للھوی وہو حرام اجماعا۔

 (شرح عقود رسم المفتی ص٣۔ قدیمی کراچی)

جو شخص کسی مسئلہ شرعیہ پر خود عمل کرنا چاہے یا کسی اور کو فتویٰ دینا چاہے تو اس پر واجب ہے کہ ا س قول کی اتباع کرے جسکو مذہب کے علماء نے راجح قرار دیا ہو اور غیر راجح(مرجوح) قول پر عمل کرنا اور فتویٰ دینا جائز نہیں..... اس پر علماء نے اجماع نقل کیا ہے (کہ راجح قول ہی پر عمل اور فتویٰ ہے).... بیشک مجتہد اور مقلد کیلئے راجح قول کے علاوہ کسی اور قول پر فتویٰ دینا حلال(جائز) نہیں کیونکہ یہ (غیر راجح قول پر فتویٰ)نفسانی خواہشات کی پیروی ہے جو بالاجماع حرام ہے۔

علامہ شامی دوسری جگہ لکھتے ہیں:

و قولی او کان ظاہر الروایۃ الخ معناہ ان ما کان من المسائل فی الکتب التی رویت عن محمد بن الحسن روایۃ ظاہرۃ یفتی بہ و ان لم یصرحوا بتصحیحہ نعم لو صححوا روایۃ اخری من غیر کتب ظاہر الروایۃ یتبع ما صححوہ قال العلامۃ الطرسوسی فی انفع الوسائل فی مسئلۃ الکفالۃ الی شہر ان القاضی المقلد لا یجوز لہ ان یحکم الا بما ھو ظاہر الروایۃ لا بالروایۃ الشاذۃ الا ان ینصوا علی ا ن الفتویٰ علیھا۔ (شرح عقود رسم المفتی ص ٩)

میرا قول '' یا وہ ظاہر الروایۃ ہو'' اسکا معنی یہ ہے کہ وہ مسائل جو امام محمد بن حسن کی کتابوںمیں روایت کئے گئے وہ ظاہر الروایۃ ہے اور اسی پر فتویٰ دیاجائیگا اگرچہ ان مسائل کی لفظ ''تصحیح''سے تصریح نہ کی گئی ہو۔ ہاں اگر علماء نے ظاہر الروایۃ کے خلاف کسی اور مسئلے کی تصحیح کی تو پھر ان (علماء کی تصحیح شدہ مسائل) کی اتباع کی جائے گی۔ علامہ طرسوسی انفع الوسائل میںلکھتے ہیں کہ قاضی مقلد کیلئے ظاہر الروایۃ کے علاوہ کسی اور شاذ روایت کے مطابق فتویٰ(حکم) دینا جائز نہیںہاں اگر علماء نے اس شاذ روایت پر فتویٰ دینے کی صراحت کر دی ہے تو پھر اس پر فتویٰ دیا جا سکتا ہے۔

 عزیزان گرامی! اصول افتاء سے معلوم ہوا کہ ظاہر الروایت ہی پر فتویٰ دیا جاتا ہے اور مسئلہ مذکورہ یعنی سادات پر زکوٰۃ کی حرمت ظاہر الروایۃ ہے۔ فقہاء احناف نے اس حرمت کے خلاف کسی اور قول کو نہ ترجیح دی اور نہ تصحیح کی بلکہ اس کی حرمت پر فقہاء احناف کے وہ حضرات بھی متفق ہیں جو اہل ترجیح اور اصحاب متون معتبرہ ہے جن کے متون نقل مذہب کیلئے وضع کئے گئے ہیں۔

مجتہدین فی المسائل، اہل ترجیح اور متون معتبرہ کے فقہاء کے نزدیک بھی سادات پر زکوۃ(صدقات واجبہ) حرام ہے:

 مذکورہ تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ سادات پر زکوٰۃ کی حرمت کے قائلین میں مجتہدین فی المسائل میں سے امام کرخی (بدائع الصنائع) شمس الائمہ السرخسی، فخر الدین قاضی خان، اور اصحاب الترجیح میں سے امام قدوری، علامہ مرغینانی، اور معتبر متون کے فقہاء میں سے امام ابو البرکات النسفی، تاج الشریعۃ محمد بن صدر الشریعۃ ہیں:

علامہ شامی طبقات الفقہاء کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

الطبقۃ الثالثۃ، طبقۃ المجتہدین فی المسائل...... کالخصاف و ابی جعفر الطحاوی، و ابی الحسن الکرخی و شمس الائمۃ الحلوانی و شمس الائمۃ السرخسی و فخر الاسلام البزدوی و فخر الدین قاضی خان۔ والطبقۃ الخامسۃ طبقۃ اصحاب الترجیح من المقلدین کابی الحسن القدوری و صاحب الہدایۃ۔والطبقۃ السادسۃ طبقۃ المقلدین القادرین علی التمییز بین الاقوی والقوی والضعیف و ظاہر الروایۃ و ظاہر المذہب والروایۃ النادرۃ کاصحاب المتون المعتبرۃ کصاحب الکنز و صاحب المختار و صاحب الوقایۃ و صاحب المجمع و شانھم ان لا ینقلوا فی کتبھم الاقوال المردودۃ والروایات الضعیفۃ۔ (شرح عقود رسم المفتی ص٥ قدیمی کراچی)

تیسرا طبقہ۔ مجتہدین فی المسائل کا طبقہ ہے جیسے امام خصاف، ابو جعفر طحاوی، ابو الحسن کرخی، شمس الائمہ الحلوانی، شمس الائمہ سرخسی، فخر الاسلام بزدوی اور فخر الدین قاضی خان۔

پانچواںطبقہ۔ مقلدین میں اصحاب الترجیح کاطبقہ ہے جیسے ابو الحسن قدوری، صاحب الہدایہ۔

چھٹا طبقہ: ان مقلدین کاطبقہ ہے جو اقوی، قوی اور ضعیف، ظاہر الروایۃ، ظاہر المذہب اور روایات نادرہ میں تمیز کر سکتے ہیں مثلاً معتبر متون کے مصنفین جیسے صاحب کنز، صاحب مختار، صاحب وقایہ، صاحب المجمع ۔ انکی شان علمی یہ ہے کہ یہ حضرات اپنی کتابوں میں ضعیف اور مردود اقوال و روایات ضعیفہ نقل نہیں فرماتے۔

علامہ شامی دوسری جگہ لکھتے ہیں:

المتون المعتبرۃ کالبدایۃ و مختصر القدوری والمختار والنقایہ والوقایۃ والکنز والملتقی فانھا الموضوعۃ لنقل المذھب مما ہو ظاہر الروایۃ۔ (شرح عقود رسم المفتی ص ٢٩)

متون معتبرہ سے مراد بدایہ، مختصر القدوری، المختار، نقایہ، وقایہ، کنز الدقائق، ملتقی الابحر ہے یہ کتب مذہب کے ظاہر الروایۃ کے نقل کرنے کیلئے تصنیف کی گئی ہیں۔

سادات پر زکوٰۃ کی حرمت پر اجماع ہے:

 مذکورہ دلائل میں شرح صحیح مسلم شریف، معارف السنن شرح ترمذی، درس ترمذی، منھاج السنن شرح ترمذی، انوار المحمود شرح ابی داؤد، الجوہرۃ النیرۃ شرح القدوری، البنایہ شرح الہدایۃ، عیون المذہب، میزان شعرانی اور رحمۃ الامۃ کے مصنفین نے اس پر آئمہ اربعہ کااجماع اور اتفاق نقل فرمایا ہے کہ سادات حضرت کو زکوٰۃ دینا حرام اور ناجائز ہے۔

 عزیز قارئین! اب ہم ذیل میں صورت مسؤلہ یعنی سادات پر زکوٰۃ کی حرمت کی مزید وضاحت کیلئے دور حاضر کے متعدد مسالک کے علماء و مفتیان کے اقوال بطور تائید پیش کر رہے ہیں تاکہ دور حاضر میں کسی عالم یا مفتی کواس مسئلے میں تردد یا تشنگی باقی نہ رہے۔

سادات پر زکوٰۃ کے عدم جواز میں علماء دیوبند کے اقوال:

مفتی رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں:

 سید کو زکوٰۃ دینی درست نہیں فقط ۔

 (فتاویٰ رشیدیہ، ص ٤٣٠،محمد علی کارخانہ اسلامی کتب کراچی)

مفتی کفایت اللہ دہلوی لکھتے ہیں:

راجح اور قوی مذہب یہی ہے کہ بنی ہاشم کو زکوٰۃ دینی جائز نہیں۔ ابو عصمہ کی وہ روایت جو انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے کی ہے مفتیٰ بہ نہیں ہے۔ پس سید کوزکوۃ نہ دینی چاہئے۔ (کفایت المفتی ص ٢٥٧ جلد ٤ ۔ حقانیہ ملتان)

مفتی موصوف دوسری جگہ لکھتے ہیں:

سید صاحب کا یہ جانتے ہوئے کہ سید کو زکوٰۃ لینا حرام ہے زکوٰۃ مانگنا اور لینا سخت گناہ ہے اور جو شخص یہ جان کرکہ یہ سید ہیں انہیں زکوٰۃ دے گا تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی اس شخص کو دوبارہ زکوٰۃ دینا پڑیگی ھکذا فی کتب الفقہ واللہ اعلم۔

 (کفایت المفتی ،ص ٢٥٨، جلد چہارم،حقانیہ ملتان)

مفتی دیو بند مفتی عزیز الرحمن عثمانی لکھتے ہیں:

ظاہر مذہب اور مفتی بہ مذہب حنفیہ کا یہی ہے کہ سادات کو زکوٰۃ دینا ناجائز ہے درمختار میں ہے ثم ظاہر المذہب اطلاق المنع قولہ اطلاق المنع یعنی سواء فی ذلک کل الا زمان و سواء فی ذلک دفع بعضھم لبعض و دفع غیرھم لھم.

 (عزیز الفتاویٰ ص٣٦١۔ دارالاشاعت کراچی)

مفتی محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں:

ظاہر الروایات اور عامہ متون کااختیار کردہ مسلک یہی ہے کہ بنی ہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کو لینا بھی جائز نہ ہوگا اور کسی نے دے دی تو ظاہر مذہب کی بناء پر زکوٰۃ ادا نہ ہوگی لیکن اس صورت میں کہ لاعلمی میں دے دی تھی۔ (امداد المفتین ص ٤٦٥۔ دارالاشاعت کراچی)

مفتی عزیز الرحمن عثمانی لکھتے ہیں:

حنفیہ کے نزدیک صحیح قول کے مطابق اور ظاہر الروایۃ کے مطابق سید کو کسی حال میں زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے کما فی الدرالمختار ثم ظاہر المذہب اطلاق المنع۔

 (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ص ٢١٢ جلد ششم ۔ دارالاشاعت کراچی)

مفتیان دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک لکھتے ہیں:

رسول اللہ ﷺ کے مبارک خاندان کی طرف منسوب سادات حضرات بذات خود ہر وقت تعظیم و احترام کے قابل ہیں اور حضور نبی کریم ﷺ کی وجہ سے ان کوعظمت و عزت کی نگاہ سے دیکھنا ایمانی جذبہ کا تقاضا ہے رسول اللہ ﷺ نے ان کو زکوٰۃ نہ دینے کا حکم ان کی عظمت و احترام کی وجہ سے دیا تھا اس لئے ان کا

حکم مرور زمانہ یاخمس الخمس نہ رہنے کی وجہ سے متاثر نہیں ہوتا تاہم ارباب استطاعت کیلئے ضروری ہے کہ نفلی صدقات اور عطیات سے ان کے ساتھ تعاون کریں تاکہ ان کی حالت بہتر رہے اور صدقات واجبہ (زکوۃ، صدقہ فطر وغیرہ) نہ دیا کریں اگرچہ امام طحاوی سے جواز کا قول مروی ہے۔

 (فتاویٰ حقانیہ ص ٥٥ جلد چہارم۔ دارالعلوم حقانیہ نوشہرہ)

شیخ شفیق الرحمن الندوی لکھتے ہیں:

 سادات اور ان کے غلاموں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیںہے۔

 (الفقہ المیسر، قسم العبادات ص٢٥٦)

مفتی محمد یوسف لدھیانوی لکھتے ہیں:

ہاشمی آنحضرت ﷺ کا خاندان ہے آنحضرت ﷺ نے اپنے لئے اور اپنے متعلقین کیلئے زکوٰۃ کو ممنوع قرار دیا ہے۔یہ حضرات اگر ضرورت مند ہوں تو غیر زکوٰۃ فنڈ سے ان کی خدمت کرنی چاہئے اور آنحضرت ﷺ کی قرابت کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کی خدمت کرنا بڑے اجر کا موجب ہے۔ زکوٰۃ لوگوں کے مال کامیل ہے اور حضور ﷺ کی آل کو اس سے ملوث کرنا مناسب نہ تھا وہ اگر ضرورت مند ہوں تو پاک مال سے ان کی مدد کیجائے نیز اگر آپ ﷺ کی آل کو زکوٰۃ دینے کاحکم ہوتا تو ایک ناواقف کو وسوسہ ہو سکتا تھا کہ یہ خوبصورت نظام اپنی اولاد ہی کیلئے تو معاذ اللہ جاری نہیں فرما گئے؟ نیز اسکا ایک نفسیاتی پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ ﷺ کی آل کو زکوٰۃ دینا جائز ہوتا تو لوگ آپ ﷺ کی قرابت کی بناء پر انہی کو ترجیح دیتے غیر سید کو زکوٰۃ دینے پر ان کا دل مطمئن نہ ہوتا اس سے دوسرے فقراء کو شکایت پیدا ہوتی۔

 (آپ کے مسائل اور ان کا حل ص ٥١٠،٥١١ جلد سوم، مکتبہ لدھیانوی کراچی)

مولانا اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں:

سیدوں کو اورعلویوں کواسی طرح جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی یا حضرت جعفر کی یا حضرت عقیل یا حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنھم کی اولاد میں ہوں ان کو زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست نہیں اسی طرح جو صدقہ شریعت سے واجب ہو اسکا دینا بھی درست نہیں جیسے نذر کفارہ، عشر ، صدقہ فطر اوراسکے سوا اور کسی صدقہ خیرات کا دینا درست ہے۔

 (مدنی اصلی بہشتی زیور ص ١٥٨ حصہ سوم۔ مدینہ پبلشنگ کراچی)

سادات پر زکوٰۃ کی حرمت میں علماء بریلوی کے اقوال:

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی لکھتے ہیں:

بنی ہاشم (سادات) کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے نہ غیر انہیں دے سکے نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔ (بہار شریعت ص ٥٣ حصہ پنجم۔ شیخ غلام علی کراچی)

سید کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اور دینگے تو ادا نہ ہوگی حدیث میں فرمایا ''انما الصدقات اوساخ الناس لا تحل لمحمد ولا لآل محمد ﷺ '' اگر وہ حاجت مند ہوں تو اور اموال سے خدمت کریں اور زکوٰۃ ہی کا پیسہ دینا چاہیں تو کسی مستحق زکوٰۃ کو دیں اور مالک کر دیں اور اس سے کہدیں کہ تو اپنی طرف سے فلاں کو دیدے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

 (فتاویٰ امجدیہ ص ٣٩٠ کتاب الزکوۃ۔ مکتبہ رضویہ)

مفتی محمد وقار الدین قادری لکھتے ہیں:

سادات کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی بنی کریم ﷺ نے اس سے منع فرما دیا ہے امام حسن رضی اللہ عنہ، کے منہ مبارک سے صدقہ کی کھجور نکال کر پھینک دی جو انہوںنے بچہ ہونے کی وجہ سے اٹھا کر منہ میں رکھ لی تھی اور فرمایا یہ گندہ مال ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ نبی کی قرابت کوباعث عزت قرار دیکر زکوٰۃ کی رقم کے علاوہ اپنے ان مالوں سے امداد کریں جو اپنی اولاد پرخرچ کرتے ہیں۔

 (وقار الفتاویٰ ص ٣٩٧ جلد دوم۔بزم وقار الدین کراچی)

مولانا شمس الدین احمد رضوی لکھتے ہیں:

 بنی ہاشم کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ (قانون شریعت ص ١٩٩ حصہ اول)

مفتی محمد حبیب اللہ نعیمی اشرفی لکھتے ہیں:

صدقات واجبہ یعنی زکوۃ، نذر شرعی اور عشر اور کفارہ صوم و یمین و ظہار اور فدیہ صوم و صلوٰۃ و فدیہ جنایت حج اور صدقہ فطر سادات کرام کو دینا جائز نہیں۔ ان کے علاوہ صدقات نافلہ حضرات سادات کرام کو دینا جائز و درست ہے۔

 (حبیب الفتاویٰ ص ٦٦٦ جلد اول شبیر برادرز لاہور)

مفتی منیب الرحمن ہزاروی لکھتے ہیں:

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے'' ہمارے لئے صدقہ جائز نہیں'' آئمہ اربعہ کے نزدیک بنو ہاشم کیلئے زکوٰۃ جائز نہیںہے الی قولہ بنو ہاشم کی اپنی زکوٰۃ بھی بنو ہاشم کیلئے جائز نہیں۔(تفہیم المسائل ص ١٨٤ جلد دوم۔ ضیاء القرآن کراچی)

 اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی نے سادات پر زکوٰۃ کی حرمت پر مستقل رسالہ بنام ''رسالہ الزہر الباسم فی حرمۃ الزکوۃ علی بنی ہاشم'' تصنیف فرمایا۔

اعلیٰ حضرت موصوف لکھتے ہیں:

'' بنی ہاشم کو زکوٰۃ و صدقات واجبات جائز نہیں نہ ا نہیں لینا حلال ۔ سیدعالم ﷺ سے متواترحدیثیںاس تحریم میں آئیں اور علت تحریم ان کی عزت و کرامت ہے.........(رسالہ کے آخر میں موصوف لکھتے ہیں) بے شک بنی ہاشم پرزکوہ حرام ہے اور بے شک اسی پر افتاء واجب اور بے شک اس سے عدول ناجائز اور بے شک وہ روایت روایۃ مرجوح اور درایۃ مجروح اور بے شک امام طحاوی اس کے خلاف پر قاطع اور بے شک ان کی تصحیح جانب ظاہر الروایۃ راجح ،و الی اللہ الرجعی و الیہ متاب۔

 (فتاویٰ رضویہ (قدیمہ) ص ٤٧٨ تا ٤٨٤ جلد چہارم۔ مکتبہ رضویہ کراچی)

فقیہ اعظم محمد نور اللہ نعیمی لکھتے ہیں:

یہ مسئلہ صحیح ہے کہ بنی ہاشم کیلئے زکوٰۃ جائز نہیں ظاہر الروایۃ فقہ حنفی کی یہی ہے کسی ضعیف روایت سے حرام، حلال نہیں ہو سکتا۔ حضور پر نور محمد مصطفی ﷺ کے سامنے اور حضور کے فرمان کے برخلاف کس کی بات معتبر ہوسکتی ہے؟ الی ان قال اس مسئلہ میں آئمہ مذاہب حقہ اربعہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا اتفاق و اجماع ہے میزان شعرانی ص ١٤ جلد دوم، رحمۃ الامہ ص ١٢٨ جلد اول میں ہے : واجمعوا علی تحریم الصدقۃ المفروضۃ علی بنی ہاشم الخ۔

 (فتاویٰ نوریہ ص ١١٥، ١١٦ جلد دوم۔ مطبع شرکت پرنٹنگ پریس لاہور )

 عزیز قارئین! احادیث مبارکہ اور اقوال فقہاء و محدثین سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ سادات کو کسی بھی زمانے میں اور کسی بھی حالت میں زکوٰۃ نہیں دی سکتی اور یہی مفتیٰ بہ قول اور ظاہر الروایت ہے۔

 اللہ تعالیٰ ہمیں سادات سے دلی وابستگی اور ان کی خدمت کی سعادت نصیب فرمائے ۔آمین!

و صلی اللہ تعالیٰ علی سیدنا و مولانا و شفیعنا محمد صلی اللہ تعالی علیہ و علی آلہ و اصحابہ اجمعین۔

 العبد

 سید محمد منور شاہ السواتی النقشبندی

 خادم الافتاء والحدیث

 الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیہ کراچی

 محرم الحرام ١٤٢٨ھ بمطابق جنوری٢٠٠٧ء

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post