تنویر الصدر فی قضاء سنۃ الفجر
فجر کی سنتوں کی قضاء کیوں؟
از
مفتی سید محمد منورشاہ سواتی نقشبندی
مفتی و شیخ الحدیث
الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ
کراچی پاکستان
فجر کی دو رکعت سنت کے متعلق چونکہ متقدمین و متاخرین فقہاء احناف کی آراء مختلف ہیں اس لئے دور حاضر کے علماء احناف ( خاص کر آئمہ مساجد اس سلسلے میں ، یقینی اور احناف کے نزدیک مفتیٰ بہ قول کی وضاحت نہیں کر پاتے، بلکہ اس بارے میں پوچھنے والوں کو مختلف جواب اس انداز سے دیتے ہیں کہ اگر فجر کی دو رکعت چھوٹ جائے تو طلوع شمس کے بعد پڑھناسنت ہے، مستحب ہے، اچھی بات ہے، اولیٰ ہے، بہتر ہے، نہیں پڑھنے چاہئے، پڑھنا نہ پڑھنا برابر ہے۔
ان مختلف جوابات کو دیکھ کر عوام احناف الجھ کر رہ گئے ہیں کہ اگر فرض سمیت سنتیںقضاہو جائیں تو طلوع شمس سے پہلے یا بعد میں ہم کیسے نماز ادا کریں؟ اگر طلوع شمس کے بعد آنکھ کھلی تو سنت سمیت فرض کب تک پڑ ھ سکتے ہیں، زوال تک یا زوال کے بعد بھی؟ اور اگر فرض پڑھ لئے اور سنت رہ گئے تو آیا طلوع شمس سے پہلے پڑھیں یابعد میں ؟ اور بعد میں ہو تو کب تک پڑھ لیں، زوال تک یا کبھی بھی؟ یہ وہ الجھن ہے جس میں آج اکثر عوام پھنسے ہوئے ہیں۔
بندہ نا چیز نے اس اختلافی مسئلے پر قلم اٹھایا تاکہ عوام کے سامنے حنفی مذہب کی صحیح وضاحت ہو سکے، اور علماء و عوام کے سامنے قواعد افتاء کے تحت امام ابو حنیفہ کے مذہب کی صحیح ترجمانی ہو سکے۔ وما توفیقی الا باللہ۔
بندہ ناچیز
سید محمد منورشاہ سواتی،حال فرنٹیئر بنارس کراچی
شوال ١٤٢٨ھ بمطابق نومبر ٢٠٠٧ئ
عزیز قارئین: سب سے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ دن رات میں کتنی رکعتیں سنت کہلاتی ہیں، اور اس کے ادا کرنے میں کتنا ثواب اور فضیلت ہے۔
سنت رکعتوں کی تعداد:
عن عائشۃ ؓ قالت قال رسول اللہ ﷺ من ثابر علی ثنتی عشرۃ رکعۃ من السنۃ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنہ. اربع رکعات قبل الظہر و رکعتین بعدھا و رکعتین بعد المغرب و رکعتین بعد العشاء و رکعتین قبل الفجر.
( ترمذی شریف ،ص٥٥، ج١، باب ما جاء فی من صلی فی یوم و لیلۃثنتی عشرۃ رکعۃ من السنۃ مالہ من الفضل ، مجتبائی لاہور)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے بارہ رکعت سنتوں (کے پڑھنے)کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں گھر بنائیگا۔ چار رکعت ظہر سے پہلے ، دو رکعت ظھر کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت فجر سے پہلے۔
عن ام حبیبۃ قالت قال النبی ﷺ من صلی فی یوم ثنتی عشرۃ رکعۃ تطوعا بنی لہ بھن بیت فی الجنہ۔
( ابو داؤد شریف، ص١٧٨، ج١، باب تفریع ابواب التطوع و رکعات السنۃ، حقانیہ ملتان)
ام حبیبہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے دن میں بارہ رکعت سنت ادا کئے تو اس کیلئے ان کے بدلے میں جنت میں گھر بنایا جائے گا۔
امام قدوری لکھتے ہیں :
السنۃ فی الصلوۃ ان یصلی رکعتین بعد طلوع الفجر و اربعا قبل الظھر و رکعتین بعدھا واربعا قبل ا لعصر و ان شاء رکعتین و رکعتین بعد المغرب و اربعا قبل العشاء و اربعا بعدھا و ان شاء رکعتین.
( مختصر القدوری ،ص٢٣، باب النوافل، مجتبائی لاہور)
نماز میں سنت ( رکعتیں) یہ ہیں کہ دو رکعت طلوع فجر کے بعد پڑھے، اور چار ظہر کی نماز سے پہلے اور دو ظھر کی نماز کے بعد اور چار رکعت(نفل) عصر سے پہلے اور اگر چاہے تو دو رکعت پڑھے، اور دو رکعت مغرب کے بعد اور چار رکعت (نفل) عشاء سے پہلے اور چار رکعت ( نفل )عشاء کے بعد اور اگر چاہے تو دو رکعت سنت عشاء کے بعد پڑھے۔
دن رات میں سنت رکعتوں کی تعداد کے بعدا ب ہم اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ان بارہ رکعتوں میں بتدریج افضل سنت کون سے ہیں۔
افضلیت کے اعتبار سے سنن میں ترتیب
امام ابن الھمام لکھتے ہیں :
ثم اختلف فی ا لافضل بعد رکعتی الفجر قال الحلوانی رکعتا المغرب فانہ ﷺ لم یدعھما سفرا ولا حضرا ثم التی بعد الظھر لانھا سنۃ متفق علیہا بخلاف التی قبلھا لانہ قیل ھی للفصل بین الاذان والاقامۃ ثم التی بعد العشاء ثم التی قبل الظہر۔ ( فتح القدیر، ص٣٨٣ ، با ب النوافل، حقانیہ پشاور)
علماء احناف کا اس میں اختلاف ہے کہ فجر کی دو رکعت سنت کے بعدکون سی سنت افضل ہے، امام حلوانی لکھتے ہیں ( فجر کی سنت کے بعد) مغرب کی دو رکعت افضل ہے کیونکہ آپ ﷺ نے سفر و حضر (مقیم ہونے کی حالت ) میں اس کو ترک نہیں فرمایا۔ اس کے بعد ظہر کے بعد والی سنت افضل ہے کیونکہ ا س کے سنت ہونے پر اتفاق ہے جبکہ ظہر سے پہلے چار رکعت سنتوں کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ اذان و اقامت کے درمیان فصل ( جدائی) کیلئے لائی گئی، اس کے بعد عشاء کی دو رکعت سنت، اور اس کے بعد ظھر سے پہلے چار رکعت افضل ہے۔
شیخ ملا نظام لکھتے ہیں :
اقول السنن رکعتا الفجر ثم سنۃ المغرب ثم التی بعد الظھر ثم التی بعد العشاء ثم التی قبل الظھر۔
( الفتاویٰ الھندیۃ، ص١١٢ ، جلد ١، الباب التاسع فی النوافل، رشدیہ کوئٹہ)
سنن میں قوی ترین سنت فجر کی دو رکعت ، پھر مغرب کی دو رکعت ، پھر ظھر کے بعد دو رکعت، پھر عشاء کے بعد دو رکعت، پھر ظھر سے پہلے چار رکعت سنت ہے۔
عزیز قارئین: درج بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ دن رات کی بارہ رکعت سنتوں میں بالاتفاق سب سے افضل اور قوی فجر کی دو رکعت سنت ہے۔
امام ابن الھمام حنفی لکھتے ہیں :
ابتدأ بسنۃ الفجر لانھا اقویٰ السنن حتی روی الحسن عن ابی حنیفۃ لو صلاھا قاعدا بغیر عذر لا یجوز وقالو: العالم اذا صار مرجعا للفتویٰ جازلہ ترک سائر السنن لحاجۃ الناس الا سنۃ الفجر۔ ( فتح القدیر، ص٣٨٣، ج١، باب النوافل، حقانیہ پشاور)
علامہ حصکفی حنفی نے بھی اسی طرح تحقیق فرمائی۔
( الدر المختار ،ص١٤،١٥،ج٢، باب الوتر والنوافل، ایچ ایم سعید کراچی)
(علامہ قدوری نے) باب السنن میں فجر کی سنت سے ابتداء اس لئے فرمائی کہ ا فجر کی سنت دیگر سنن سے قوی ہے یہاں تک کہ امام حسن نے حضرت امام ابو حنیفہ سے روایت کی اگر کسی نے فجر کی سنتیں بغیر کسی عذر شرعی کے بیٹھ کر پڑھی تو جائز نہیں۔ اورعلماء فرماتے ہیں : اگر کوئی عالم مفتی حاجت کی بناء پر لوگوں کو فتویٰ دینے کی وجہ سے سنتیں ترک کرنا چاہے تو فجر کی سنتوں کے علاوہ سنتیں کو ترک کر سکتا ہے۔
فجر کی سنتوں کی فضیلت احادیث کی روشنی میں
عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ ﷺ رکعتا الفجر خیر من الدنیا و ما فیھا....... قال ابو عیسیٰ حدیث عائشۃ حدیث حسن صحیح۔
( ترمذی شریف ،ص٥٦ ، ج١، باب ما جاء فی رکعتی الفجر من الفضل، مجتبائی لاہور پاکستان)
أم المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: فجر کی دو رکعت (سنت) دنیا و وما فیھا ( دنیا اور اس میں جو کچھ ہے) سے بہتر ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
عن عائشۃ قالت ان رسول اللہ ﷺ لم یکن علی شئی من النوافل اشد معاھدۃ منہ علی الرکعتین قبل الصبح۔
( مسلم شریف، ص٢٥١، ج١، باب استحباب رکعتی سنۃ الفجر، قدیمی کراچی)
( سنن ابی داؤد ، ص١٧٨ ، ج١، باب رکعتی الفجر ، حقانیہ پشاور)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ سنت فجر کے علاوہ کسی اور نوافل کا زیادہ اہتمام نہیں فرماتے تھے۔
عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ لا تدعوھما وان طردتکم الخیل۔ ( سنن ابی داؤد، ص١٧٩ ، باب رکعتی الفجر، حقانیہ پشاور)
حضرت ا بو ہریرہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: فجر کی دو رکعت سنت کو کبھی نہ چھوڑنا، اگرچہ تمہیں گھوڑے روند ڈالےں۔
عن عائشۃ عن النبی ﷺ قال فی شان الرکعتین عند طلوع الفجر لھما احب الیّ من الدنیا جمیعا۔
(مسلم شریف،ص٢٥١،ج١ ،باب استحباب رکعتی سنۃ الفجر،قدیمی کراچی)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فجر کی دو رکعت سنتوں کے بارے میں فرمایا کہ: یہ دو رکعتیں مجھے تمام دنیا سے محبوب ہیں۔
درج بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ فجر کی دو رکعت سنتیں آپ ﷺ کو انتہائی محبوب اور پسند تھی۔
عبادات میں مطلقاً فتویٰ امام ابوحنیفہ کے قول پر ہوگا
اس سے پہلے کہ ہم سنت فجر کی قضا یا عدم قضا پر کچھ تحریر کریں ،ہم افتاء کے وہ اصول ہدیہ قارئین کرتے ہیں کہ جن سے معلوم ہو جائیگا کہ نماز ایک اہم عبادت ہے،اور عبادات سے متعلق فتویٰ امام اعظم ابو حنیفہ کے قول پر دیا جاتا ہے، اور پھر خاص کر جب امام اعظم کے ساتھ ان کے شاگردوں( امام ابو یو سف و امام محمد) میں سے کوئی ان کے ساتھ ہو تو پھر لا محالہ(ضرور) فتویٰ امام اعظم کے قول پر دیا جائیگا۔ اس حوالے سے فقہاء کرام کی عبارات حاضر خدمت ہیں۔
علامہ حصکفی حنفی فرماتے ہیں:
والا صح کما فی السراجیۃ وغیرھا انہ یفتی بقول الامام علی الاطلاق ثم بقول الثانی الخ۔ (الدرالمختار،ص ٥٢، جلد ١، رشیدیہ کوئٹہ)
اصح بات یہ ہے کہ فتویٰ مطلقا امام اعظم رحمہ اﷲ کے قول پر ہوگا ،اس کے بعد دوسرے کے قول پر جیسا کہ سراجیہ وغیرہ میں ہے۔
علامہ شامی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:
اقول عبارتھا ثم الفتوی علی الا طلاق علی قول ابی حنیفۃ ثم قول ابی یوسف ثم قول محمد ثم قول زفر والحسن بن زیاد وقیل اذا کان ابو حنیفۃ فی جانب وصاحباھ فی جانب فالمفتی بالخیار والاول اصح اذالم یکن المفتی مجتھد ا......... (قولہ بقول الامام) قال عبداﷲ بن المبارک لانہ رأی الصحابۃ وزاحم التابعین فی الفتویٰ فقولہ اشد واقوی۔
(فتاویٰ شامی ،ص ٥٢، جلد اول، مطبوعہ رشیدیہ کوئٹہ)
میں کہتا ہوں کہ سراجیہ کی عبارت یوں ہے: فتویٰ مطلقا امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر پھر امام ابو یوسف رحمہ اﷲ کے قول پر پھر امام محمد رحمہ اﷲ کے قول پر پھر امام زفر اور حسن بن زیاد رحمھما اﷲ کے قول پر ہوگا۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ جب امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ ایک طرف اور آپ کے شاگرد دو سری طرف ہو تو مفتی کو اختیار ہے، لیکن پہلا قول اصح ہے جب کہ مفتی مجتھدنہ ہو، امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر فتویٰ اس لئے ہوگا کہ عبدا ﷲ بن مبارک رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ نے صحابہ کرام کا دیدار فرمایا، اور فتویٰ کے سلسلے میں تابعین سے مزاحمت فرمائی، اس لئے آپ کا قول مضبوط اور قوی ہے۔
علامہ شامی رحمہ اﷲ دوسری جگہ لکھتے ہیں:
قد جعل العلماء الفتویٰ علی قول الامام الاعظم فی العبادات مطلقا وھو الواقع الا ستقرائ۔
(فتاویٰ شامی، ص ٥٣، جلد اول، رشیدیہ کوئٹہ)
علماء کرام نے عبادات میں فتویٰ مطلقا امام اعظم رحمہ اﷲ کے قول پر متعین فرمایا ہے۔
علامہ سراج الدین عمر بن اسحاق غزنوی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:
ثم الفتویٰ علی الا طلاق علی قول ابی حنیفۃ ثم بقول صاحبیہ ثم بقول ابی یوسف ثم بقول محمد بن الحسن ثم بقول زفر ابن الھزیل ثم بقول حسن بن زیاد وقیل اذا کان ابوحنیفۃ بجانب وصاحباھ فی جانب فالمفتی بالخیار والاول اصح اذالم یکن المفتی مجتھد ا لانہ کان اعلم العلماء فی زمانہ حتی قال الشافعی الناس کلھم عیال ابی حنیفۃ فی الفقہ۔
(فتاویٰ سراجیہ، ص ١٥٧ ،مطبوعہ: المطبع العالی نولکشور لکھنؤ)
فتویٰ مطلقا امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر ہوگا ،پھر امام ابو یوسف پھر امام محمد بن حسن پھر امام زفر بن ھزیل پھر امام حسن بن زیاد رحمھم اﷲ کے قول پر، یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ ایک طرف اور صاحبین دوسری طرف ہو تو مفتی کو اختیار ہے، لیکن جب مفتی مجتھد نہ ہو تو پہلی بات اصح ہے (یعنی فتویٰ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر دیا کرے) کیونکہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ اپنے دور کے علماء میں اعلم (زیادہ جاننے والے) ہیں، یہاں تک کہ امام شافعی رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کی اولاد ہیں۔
علامہ ابراہیم بن محمد حلبی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:
جعل العلماء الفتویٰ علی قولہ فی العبادات مطلقا وھو الواقع بالاستقرائ. (غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی، ص٦٤، مذھبی کتب خانہ کراچی)
علماء کرام نے عبادات کے سلسلے میں فتویٰ مطلقاً امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر دیا ہے۔
شیخ ملا نظام رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :
اذا اتفق اصحابنا فی شیء ابو حنیفۃ وابو یوسف ومحمد رحمھم اﷲ لاینبغی للقاضی ان یخالفھم برأیہ واذا اختلفوا فیما بینھم قال عبداﷲ بن المبارک رحمہ اﷲ یؤ خذ بقول ابی حنیفۃ لانہ کان من التابعین وزاحمھم فی الفتویٰ کذا فی محیط السرخسی۔ (عالمگیری ،ص ٢١٥، جلد سوم، مطبوعہ نو لکشور)
جب ہمارے اصحاب (آئمہ احناف) یعنی امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمھم اﷲ کسی مسئلہ پر متفق ہوجائیں تو قاضی (ومفتی) کو اپنی رائے سے ان کی مخالفت کرنا مناسب نہیں۔ اور جب آئمہ احناف (کے اقوال کسی مسئلہ میں) آپس میں مختلف ہو تو عبداﷲ بن مبارک رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کا قول لیا جائے گا،کیونکہ آپ تابعین میں سے ہیں اور تابعین کے ساتھ فتویٰ میں اختلاف (مزاحمت) فرمایا۔
علامہ ابن نجیم المصری رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
وصحح فی السراجیۃ ان المفتی یفتی بقول ابی حنیفۃ علی الاطلاق ثم بقول ابی یوسف ثم بقول محمد ثم بقول زفر والحسن بن زیادرحمھم اﷲ ولا یخیر اذالم یکن مجتھدا۔
(البحر الرائق، ص ٤٥٢، جلد ششم ،رشیدیہ کوئٹہ)
سراجیہ میں اس بات کو اصح فرمایا ہے کہ مفتی مطلقاً امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر فتویٰ دے گا،پھر امام ابو یوسف پھر امام محمد پھر امام زفر اور امام حسن بن زیاد رحمھم اﷲ کے قول پر، اور جب مفتی مجتھد نہ ہو تو اسے اختیار نہیں دیا جائیگا۔
علامہ عمر بن ابراہیم بن نجیم مصری رحمہ اﷲلکھتے ہیں:
ثم الفتویٰ مطلقا بقول الامام ثم بقول ابی یوسف ثم بقول محمد ثم بقول زفر ثم بقول الحسن بن زیاد۔
(النھرالفائق ،ص٥٩٩،ج٣، قدیمی کراچی)
فتویٰ مطلقا امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر دیا جائیگا، پھر امام ابو یوسف پھر امام محمد پھر امام زفر پھر امام حسن بن زیاد رحمھم اﷲ کے قول پر۔
علامہ شامی لکھتے ہیں:
واشرت ھنا الی انھم اذا اختلفوا یقدم ما اختارہ ابوحنیفۃ سواء وافقہ احد اصحابہ اولا.........ومتیٰ کان قول ابی یوسف و محمد موافق قولہ لا یتعدی عنہ ..........وکذا اذا کان احدھما معہ. (شرح عقود رسم المفتی،ص٣٥،٣٦)
میں نے اشعار میں اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب آئمہ میں کسی مسئلہ میں اختلاف آجائے تو اسی قول کولیا جائے گا جس کو امام ابوحنیفہ نے اختیار کیا ہو،خواہ ان کے شاگردوں میں سے کسی نے ان کے ساتھ اس مسئلے میں موافقت کی ہو یا نہ کی ہو۔۔۔۔۔۔اور جب امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول امام ابوحنیفہ کے موافق ہو تو اس سے عدول جائز نہیں۔۔۔۔اور اسی طرح جب ان میں سے کسی کا قول امام اعظم کے قول کے موافق تو(پھر بھی اس سے عدول جائز نہیں)۔
مولاناالشاہ احمد رضاخان محدث بریلوی نے اس مسئلہ پر مستقل رسالہ بنام ''رسالۃ اجلی الاعلام ان الفتویٰ مطلقا علی قول الامام'' تحریر فرمایا۔
(فتاویٰ رضویہ ،ص ٩٥، جلد اول، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
مفتی حبیب اﷲ مظاھری برماوی لکھتے ہیں:
'' اگر اختلاف فی العبادات ہے تو بقول امام اعظم چونکہ وہ اتقاء میں سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہے اسی کے قول پر فتویٰ دیا جاوے۔''
(فتاویٰ حبیبیہ ،ص ١٢، جلد اول ،جامعہ خلیلیہ کراچی )
ان دلائل و عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ عبادات میں مطلقاً فتویٰ امام ابوحنیفہ اور خاص کر جب شیخین کا قول ہو تو اس پر دیا جائے گا،اور اس سے عدو ل (کنارہ کشی )احناف کے ہاں جائز نہیں۔
فجر کی نماز طلوع شمس سے قضاء ہو جاتی ہے
قارئین حضرات: یہ بھی ذہن نشین فرما لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرنما زکو اس کے وقت میں فرض فرمایا ہے،جیسا کہ ارشاد وخداوندی ہے:
ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتابا موقاتا۔ ( النسائ:١٠٣)
اور آپ ﷺ نے نماز کے اوقات بھی باقاعدہ بتائے ہیں۔ جیساکہ ارشاد نبوی ہے:
عن عبداللہ بن عمرو عن النبی ﷺ قال وقت الظھر ما لم تحضر العصر ووقت العصر ما لم تصفر الشمس ووقت المغرب ما لم یسقط ثور الشفق ووقت العشاء الی نصف اللیل ووقت الفجر ما لم تطلع الشمس .
(مسلم شریف،ص٢٢٣،ج١، باب اوقات الصلوٰۃ الخمس،قدیمی کراچی)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ظہر کا وقت عصر تک ہے،اور عصر کا وقت سورج کے زرد ہونے تک ہے،اور مغرب کا وقت شفق ڈوبنے تک ہے،اور عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے،اور فجر کا وقت طلوع شمس تک ہے۔
نما زکے اوقات میں فجر کی نماز کے وقت کے سلسلے میں تمام فقہاء احناف کا اس پر اتفاق ہے کہ فجر کی نماز کاوقت طلوع فجر سے لیکر طلوع شمس تک ہے،(جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا) اس کے بعد فجر کی نماز قضاء ہوگی نہ کہ ادائ۔
ہم اس کے متعلق آئمہ و فقہاء احناف کی عبارات ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔
امام ابو الحسن قدوری لکھتے ہیں:
اول وقت الفجر اذا طلع الفجر الثانی وھو البیاض المعترض فی الافق وآخر وقتھا ما لم تطلع الشمس۔
(المختصر القدوری،ص ١٤،کتاب الصلوٰۃ،آفتاب عالم پریس لاہور)
(نماز)فجرکا وقت طلو ع فجر سے لے کر طلوع شمس تک ہے۔
امام ابو البرکات النسفی الحنفی لکھتے ہیں:
وقت الفجر من الصبح الصادق الی طلوع الشمس.
(کنز الدقائق،ص١٧،کتاب الصلوٰۃ،قدیمی کراچی)
(نماز)فجر کا وقت صبح صادق سے لے کر طلوع شمس تک ہے۔
امام برہان الشریعۃ محمود بن صدر الشریعۃلکھتے ہیں:
الوقت للفجر من الصبح المعترض الی طلوع ذکائ.
( شرح الوقایۃ،ص١٤٤،ج١،کتاب الصلوٰۃ،امدادیہ ملتان)
(نماز)فجر کا وقت صبح صادق سے لے کر طلوع شمس تک ہے۔
ان تمام عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ فجر کی نماز کاوقت طلوع فجر سے طلوع شمس تک ہے۔ اس کے بعد نماز فجر قضاء ہو جائیگی خواہ و ہ فرض ہو یا سنت۔
مذہب حنفی میں سنت کی قضاء نہیں
عزیز قارئین: جب یہ معلوم ہو اکہ طلوع شمس کے ہوتے ہی فجر کی نماز قضاء ہو جاتی ہے ،اورا سی طرح تمام نمازوں کے اوقات ختم ہوتے ہی ا ن اوقات کی نمازیں قضا ہو جاتی ہیں، تو اب اگر کسی شخص سے نماز قضا ہو جائے تو وہ صرف فرائض اور و تر ( واجب) کی قضاء کرے گا نہ کہ سنت کی، کیونکہ ا حناف کے ہاں سنت کی قضاء نہیں ،بلکہ قضاء کا تعلق فرض اور واجب کےساتھ ہے۔ اور سنت کی قضاء نہ کرنا ہی ظاہر الروایۃ ہے۔
امام سرخسی لکھتے ہیں :
اما سائر السنن اذا فاتت عن موضعھا لم تقض عندنا خلافا للشافعی ( ولنا) حد یث ام سلمۃ حین قالت لرسول اللہ ﷺ انقضیھا نحن فقال لا ، ولان السنۃ عبارۃ عن الاقتد اء برسول اللہ ﷺ فیما تطوع بہ و ھذا المقصود لا یحصل بالقضاء بعد الفوات،
( کتاب المبسوط، ص ٣١٥ ،جلد اول، باب مواقیت الصلوۃ، غفاریہ کوئٹہ)
ہمارے احناف کے نزدیک جب سنن( سنت نماز) اپنی جگہ (وقت) سے فوت ہو جائیں تواس کی قضاء نہیں کی جائیگی، جبکہ امام شافعی کے ہاں سنن کی قضاء ہے۔ ہماری (احناف کی)دلیل حضرت ام سلمہ کی وہ حدیث ہے کہ جب آپ نے آپ ﷺ سے پوچھاکہ ہم سنن کی قضاء کریں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ سنت آپ ﷺ کی نوافل میں اقتداء کا نام ہے جبکہ یہ مقصود نوافل کے فوت(قضاء ) ہونے کے بعد حاصل نہیں ہوتا۔
امام برہان ا لدین ابوا لمعالی محمود بن صدر الشریعۃ ابن مازۃ البخاری لکھتے ہیں :
و سائر النوافل اذا فاتت عن وقتھا لا تقضی بالاجماع، سواء فاتت مع الفرض او بدون ا لفرض، ھذا ھو المذکور فی ظاہر الروایۃ۔
( المحیط البرھانی، ص٢٣٥، ج٢، کتاب الصلوۃ ، الفصل الحادی عشر، التطوع قبل ا لفرض و بعدہ، ادارۃ القرآن کراچی)
تمام نوافل ( سنن) جب اپنے اوقات سے قضاء ( فوت) ہو جائیں تو بالاجماع (اجماع اس پر ہے کہ) ان کی قضاء نہیں ہوگی، خواہ سنن فرض سمیت قضاء ہو یا بغیر فرض کے، اور یہی ( سنن کی عدم قضاء ) ظاہر الروایت ہے۔
علامہ مرغینانی لکھتے ہیں :
ا ن الاصل فی ا لسنۃ ان لا تقضی لا ختصاص القضاء بالواجب۔
( ھدایہ، ص١٥٣، ج١، باب ادراک الفریضۃ، کلام کمپنی کراچی)
سنت کے بارے میں اصل ( قاعدہ اور قانون )یہ ہے کہ ان کی قضاء نہیں کی جائیگی، کیونکہ قضاء واجب کے ساتھ خاص ہے۔
اسی طرح عبارت علامہ ابن نجیم نے ( البحر الرائق ،ص١٣١، ج٢، باب ادراک الفریضۃ، رشیدیہ کوئٹہ)علامہ زیلعی نے ( تبیین الحقائق ،ص٤٥٣، ج١ ،باب ادراک الفریضۃ، ایچ ایم سعیدکراچی)امام عمر بن نجیم نے ( النھرالفائق ،ص٣١١، ج١، باب ادراک الفریضۃ، امدایہ ملتان) اور علامہ محقق ملا خسروا لحنفی نے ( الدرر الحکام ، ص١٢٢ ، ج١، باب ادراک الفریضۃ، میر محمد ) میں بھی لکھی ہے۔
عزیزان گرامی : درج بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ مطلق سنن ( فجر کی ہو یا دیگر اوقات کی) کی قضا نہ کرنا احناف کے نزدیک ظاہر الروایت اور اجماعی مسئلہ ہے، یعنی اس پر اجماع ہے کہ کسی بھی سنت کی قضاء نہیں ،خواہ فرض سمیت قضاء ہو جائےں یا بغیر فرض کے۔
احناف کے نزدیک فتویٰ اور عمل ظاہر الروایت ہی پر ہو گا
علامہ شامی اصول افتاء میں لکھتے ہیں:
اعلم بان الواجب اتباع ما ترجیحہ عن اہلہ قد علما
اوکان ظاہر الروایۃ ولم یرجحوا خلاف ذاک فاعلم
ای ان الواجب علی من اراد ان یعمل لنفسہ او یفتی غیرہ ان یتبع القول الذی رجحہ علماء مذھبہ فلا یجوز لہ العمل او الافتاء بالمرجوح.......... وقد نقلوا الاجماع علی ذلک............ ان المجتہد والمقلد لا یحل لھما الحکم والافتاء بغیر الراجح لانہ اتباع للھوی وہو حرام اجماعا۔
(شرح عقود رسم المفتی، ص٣، قدیمی کراچی)
جو شخص کسی مسئلہ شرعیہ پر خود عمل کرنا چاہے یا کسی اور کو فتویٰ دینا چاہے تو اس پر واجب ہے کہ ا س قول کی اتباع کرے جسکو مذہب کے علماء نے راجح قرار دیا ہو، اور غیر راجح(مرجوح) قول پر عمل کرنا اور فتویٰ دینا جائز نہیں..... اس پر علماء نے اجماع نقل کیا ہے (کہ راجح قول ہی پر عمل اور فتویٰ ہے).... بیشک مجتہد اور مقلد کیلئے راجح قول کے علاوہ کسی اور قول پر فتویٰ دینا حلال(جائز) نہیں، کیونکہ یہ (غیر راجح قول پر فتویٰ)نفسانی خواہشات کی پیروی ہے جو بالاجماع حرام ہے۔
علامہ شامی دوسری جگہ لکھتے ہیں:
و قولی او کان ظاہر الروایۃ الخ معناہ ان ما کان من المسائل فی الکتب التی رویت عن محمد بن الحسن روایۃ ظاہرۃ یفتی بہ و ان لم یصرحوا بتصحیحہ نعم لو صححوا روایۃ اخری من غیر کتب ظاہر الروایۃ یتبع ما صححوہ قال العلامۃ الطرسوسی فی انفع الوسائل فی مسئلۃ الکفالۃ الی شہر ان القاضی المقلد لا یجوز لہ ان یحکم الا بما ھو ظاہر الروایۃ لا بالروایۃ الشاذۃ الا ان ینصوا علی ا ن الفتویٰ علیھا۔ (شرح عقود رسم المفتی ص ٩)
میرا قول '' یا وہ ظاہر الروایۃ ہو'' اسکا معنی یہ ہے کہ وہ مسائل جو امام محمد بن حسن کی کتابوںمیں روایت کئے گئے وہ ظاہر الروایۃ ہے اور اسی پر فتویٰ دیاجائیگا اگرچہ ان مسائل کی لفظ ''تصحیح''سے تصریح نہ کی گئی ہو۔ ہاں اگر علماء نے ظاہر الروایۃ کے خلاف کسی اور مسئلے کی تصحیح کی تو پھر ان (علماء کی تصحیح شدہ مسائل) کی اتباع کی جائے گی۔ علامہ طرسوسی انفع الوسائل میںلکھتے ہیں کہ قاضی مقلد کیلئے ظاہر الروایۃ کے علاوہ کسی اور شاذ روایت کے مطابق فتویٰ(حکم) دینا جائز نہیںہاں اگر علماء نے اس شاذ روایت پر فتویٰ دینے کی صراحت کر دی ہے تو پھر اس پر فتویٰ دیا جا سکتا ہے۔
درج بالا تحقیق سے معلوم ہوا کہ سنن کی قضا نہ کرنا ظاہر الروایت ہے اور احناف کے ہاں فتویٰ ظاہر الروایت ہی پر دیا جائے گا۔
فجر کی نماز اگر قضا ہو جائے تو سنت سمیت زوال سے پہلے پڑھ سکتے ہیں
حدیث مبارک اور آئمہ و علماء احناف کے اقوال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب فجر کی نمازقضاء ہوجائے تو اس کو طلوع شمس کے بعد زوال سے پہلے سنت سمیت پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے:
عن عبداللہ بن ابی قتادۃ عن ابیہ قال سرنا مع النبی ﷺ لیلۃ
فقال بعض القوم لو عرست بنا یا رسول اللہ ﷺ قال اخاف ان تناموا عن الصلوہ قال بلال انا اوقظکم فاضطجعوا و اسند بلال ظھرہ الی راحلتہ فغلبتہ عیناہ فنام فاستیقظ النبی ﷺ وقد طلع حاجب الشمس فقال یا بلال این ما قلت قال ما القیت علی نومۃ مثلھا قط قال ان اللہ قبض ارواحکم حین شاء و ردھا علیکم حین شاء یا بلال قم فاذن بالناس بالصلوۃ فتوضأ فلما ارتفعت الشمس و ابیاضت قام فصلی۔
( بخاری شریف ،ص٨٣، ج١ ، باب الاذان بعد ذھاب الوقت، قدیمی کراچی)
راوی فرماتے ہیں کہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ ایک رات سفر کر رہے تھے کہ بعض صحابہ نے فرمایا: یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ آرام فرمائیں تو ( اچھی بات ہوگی) آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے خوف ہے کہ تم لوگ فجر کی نماز سے سوتے رہ جاؤ گے۔ حضرت بلال نے فرمایا: میں آپ لوگوں کو جگا دونگا۔ پس تمام صحابہ سو گئے اور حضرت بلال نے اپنی سواری سے ٹیک لگایا تو ان پر بھی نیند غالب آئی اور وہ سو گئے۔ آپ ﷺ جب بیدار ہوئے تو سورج طلوع ہو چکا تھا۔ آپ ﷺ نے بلال سے فرمایا: بلال آپ کی بات کہاں ہے؟ ( کہ میں آپ لوگوں کو بیدار کرونگا) تو بلال نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ مجھ پر ایسی نیند کبھی غالب نہیں آئی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ جب چاہے تمہاری روح قبض کر لیتا ہے اور جب چاہے واپس کر دیتا ہے۔ اے بلا ل : اٹھ اور اذان دو، پھر آپ ﷺ نے وضو فرمایا۔ جب سورج پورا طلوع ہوا تو آپ ﷺ نے نماز پڑھائی۔
عزیز قارئین: درج بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ سے سفر میں جب فجر کی نماز قضاہوئی تو آپ ﷺ نے سنت سمیت فجر کی نماز طلوع شمس کے بعد قضاء پڑھی لی، اور یہ زوال سے پہلے پہلے تھی، اس لئے فقہاء احناف فرماتے ہیں کہ اگر کسی سے فجر کی نماز قضا ہو جائے تو وہ ا س کو زوال سے پہلے سنت سمیت قضاء کر لے۔
امام برہان ا لدین ابو المعالی محمود د بن صدر الشریعۃ ابن مازہ البخاری لکھتے ہیں :
اذا فاتتا مع الفرض تقضی مع الفرض الی وقت الزوال، و اذا زالت الشمس یقضی الفرض ولا تقضی السنۃ۔
( المحیط البرھانی، ص٢٣٤،ج٢، کتاب الصلوۃ، الفصل الحادی عشر: التطوع قبل الفرض و بعدہ، ادارۃ القرآن، بیروت)
اگر فجر کی سنت فرض سمیت فوت ہو جائےں تو زوال تک پڑھ سکتے ہیں۔ اور زوا ل کے بعد صرف فرض کی قضاء ہوگی نہ کہ سنت کی ۔
امام سرخسی لکھتے ہیں :
فاما سنۃ الفجر لو فاتت مع الفرض قضاھا معہ استحسانا لحدیث لیلۃ التعریس کان النبی ﷺ صلی رکعتی الفجر ثم صلی الفجر۔
( کتاب المبسوط، ص ٣١٥ ،جلد١، باب مواقیت الصلوۃ، غفاریہ کوئٹہ)
اگر فجر کی سنت فرض سمیت فوت ہوجائےں تو استحسانا فرض سمیت قضاء کریں، کیونکہ آپ ﷺ نے لیلۃ التعریس کو پہلے سنتیں ادا کی پھر فر ض پڑھ لئے۔
علامہ ابو البرکات النسفی لکھتے ہیں :
ولم تقض الاتبعا.( کنز الدقائق، ص٣٧ ، باب ادراک الفریضۃ، قدیمی کراچی)
فجر کی سنتوں کی قضا فرض کےساتھ کی جائے۔
علامہ ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں :
قولہ ( ولم تقض الاتبعا) ای لم تقض سنۃ الفجر الا اذا فاتت مع الفرض فتقضی تبعا للفرض، سواء قضاھا مع الجماعۃ او وحدہ۔ ( البحر الرائق ص١٣١ ج٢، باب ادراک الفریضۃ، رشیدیہ کوئٹہ)
علامہ زیلعی لکھتے ہیں :
ای لم تقض سنۃ الفجر الاتبعا للفرض اذا فاتت مع الفرض و قضاھا مع الجماعۃ اووحدہ۔
( تبیین الحقائق ،ص٤٥٣ ج١، باب ادراک الفریضۃ، ایچ ایم سعید کراچی)
شیخ ملا نظام لکھتے ہیں :
اذا فاتتا مع الفرض یقضیھا بعد طلوع الشمس الی وقت الزوال ثم یسقط.
( فتاویٰ عالمگیری، ص١١٢، ج١ ، الباب التاسع فی النوافل، رشیدیہ کوئٹہ)
علامہ شامی لکھتے ہیں :
اذا فاتت مع الفجر فیقضیھا تبعا لقضائہ لو قبل الزوال۔
( شامی، ص ٥٧، ج٢، باب الوتر والنوافل، ایچ ایم سعید کراچی)
درج بالا عبارات فقہاء سے معلوم ہوا کہ اگر فجر کی نماز قضاء ہو جائے تو زوال سے پہلے پہلے سنت سمیت فجر کی نماز قضا پڑھ لے۔
ملک العلماء علامہ کاسانی لکھتے ہیں :
انا استحسنا القضاء اذ ا فاتتا مع الفرض لحد یث لیلۃ التعریس ........ و اما رکعتا الفجر اذا فاتتا مع الفرض فقد فعلھما النبی ﷺ مع الفرض لیلۃ التعریس فنحن نفعل ذالک لنکون علی طریقتہ۔
(بدائع الصنائع، ص٢٨٧، ج١، فصل واما بیان ان السنۃ اذا فاتت عن وقتھا ھل تقضی ام لا، رشیدیہ کوئٹہ)
لیلۃ التعریس کی وجہ سے ہم نے سنتوں کی قضا کا حکم استحسانا لگایا ہے ،جب وہ فرض سمیت فوت ہو جائےں .... جب کسی سے فرض سمیت فجر کی سنتیں فوت ہوجائےں تو ہم حضور ﷺ کے طریقے کی موافقت میں دونوں کی قضا کریں گے کیونکہ آپ نے لیلۃ التعریس کو فرض سمیت سنتوں کی قضا فرمائی۔
آپ ﷺ نے ظہر کی دو رکعت کی بھی قضاء فرمائی
عزیز قارئین: اگر کوئی مذکورہ حدیث اور عبارات فقہاء سے یہ ثابت کرے کہ ہم فجر کی سنتوں کی فرض سمیت قضا زوال سے پہلے درج بالا دلائل کی روشنی میں کرتے ہیں، اور ان ہی دلائل اور خاص کر فجر کی سنتوں کی اہمیت و فضیلت کی وجہ سے ہم فجر کی سنتوں کی قضا کا حکم لگاتے ہیں اوریہ فتویٰ دیتے ہیں کہ زوال تک اس کی قضا کرناآپ ﷺ کے عمل کی پیروی ( سنت) ہے، تو ہم ان حضرات سے یہ عرض کرتے ہیں کہ اگر صرف اس و جہ سے فجر کی سنتوں کی قضا کرنی ہے کہ آپ ﷺ نے پوری زندگی میں فجر کی سنتوں کی صرف ایک دفعہ قضا فرمائی ہے اور وہ بھی فرض سمیت، تو پھر ان حضرات کو چاہئے کہ وہ فجر کی سنتوں کے بجائے ظہر کی آخری دو رکعت سنتوں کی قضا کا بدرجہ اولیٰ حکم اور فتویٰ دیں، کیونکہ آپ ﷺ نے ظہر کی دو رکعت سنت کی بھی عصر کے بعدقضا فرمائی ہے حالانکہ آپ ﷺ نے ظہر کے فرض ادا فرمالئے تھے ۔ اس سلسلے میں احادیث اور دلائل پیش کئے جاتے ہیں :
عن ام سلمۃ قالت صلی النبی ﷺ بعد العصر رکعتین و قال شغلنی ناس من عبدالقیس عن الرکعتین بعد الظھر۔
( بخاری شریف ص ٨٣، ج١، باب مایصلی بعد لعصر من الفوائت و نحوھا، نور محمد کراچی)
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے عصر کے بعد دو رکعت پڑھی اور فرمایا کہ قبیلہ عبدالقیس کے لوگوں نے مجھے ظہر کی دو رکعتوں سے مشغول رکھا۔
فجر کی سنت کے علاوہ دیگر سنن و نوافل کی فضیلت
اب ہم اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ اگر فجر کی سنتیں صرف اس وجہ سے فرض سمیت زوال سے پہلے تک قضا پڑھ سکتے ہیں کہ فجر کی سنت کی تاکید اور فضیلت بہت زیادہ ہے تو فجر کی سنتوں کے علاوہ دیگر سنتوں کی بھی آپ ﷺ نے وہ تاکید اور فضیلت بیان فرمائی کہ جو فجر کی سنتوں کی بھی نہیں فرمائی تو پھر مناسب یہ ہے کہ تمام سنن کی فرض سمیت یا بغیر فرض کے قضا کرنی چاہئے تاکہ سنن میں کوئی فرق نہ آئے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
عن ام حبیبۃ قالت قال رسول اللہ ﷺ من حافظ علی اربع رکعات قبل الظھر و اربع بعدھا حرم علی النار ۔
( ابو داؤد، ص١٨٠، ج١، باب الاربع قبل اظھر و بعدھا، حقایہ پشاور)
( ترمذی، ص٥٧ ، ج١، مجتبائی لاہور)
حضرت ام حبیبہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے ظھر سے پہلے اور بعد میں دوام کے ساتھ چار رکعت ادا کئے تو وہ شخص دوزخ پر حرام ہے۔(یعنی دوزخ میں داخل نہیں ہوگا)
عن ابی ایوب عن النبی ﷺ قال اربع قبل الظھر لیس فیھن
تسلیم تفتح لھن ابواب السماء ۔
( ابو داؤد، ص١٨٠، ج١، باب الاربع قبل اظھر و بعدھا، حقایہ پشاور)
حضرت ابوا یوب فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر ظھر سے پہلے چار رکعت ایک ہی سلام سے ادا کئے جائیں تو ان کیلئے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔
عن سعید بن جبیر انہ قال: لو ترکت رکعتی المغرب لخشیت ان لا یغفرلی، ولانہ واظب علیہا رسول اللہ ﷺ فکان سنۃ ۔
( المحیط البرھانی، ص٢٣٣، ج٢ ، الفصل الحادی عشر فی التطوع قبل الفرض، ادارۃ القرآن کراچی)
حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں : اگرمیں مغرب کی دو رکعت چھوڑ دوں تو مجھے خوف ہے کہ میری بخشش نہ ہوگی اور یہ اس لئے کہ ا ۤپ ﷺ نے اس پر دوام ( ہمیشگی) فرمائی ہے۔اس لئے یہ سنت ہے۔
عزیز قارئین: درج بالا احادیث سے معلوم ہو اکہ آپ ﷺ نے صرف فجر کی سنتوں پر دوام نہیں فرمایا بلکہ دیگر سنتوں پر بھی دوام فرمایا ہے ،اور اس کی اہمیت اور فضیلت بھی بیان فرمائی، اور صرف فجر کی سنتوں کی قضاء نہیں فرمائی بلکہ ظھر کی دو رکعت سنت کی بھی قضا فرمائی ہے تو جو علماء صرف فجر کی سنتوں کے اور وہ بھی زوال سے پہلے قضا کے قائل ہیں اور دلیل میں فجر کی سنتوں کی فضیلت اور اس پر دوام کو پیش کرتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ وہ دیگر سنن کی قضا کا بھی حکم اور فتویٰ دیا کریںکیوںکہ آپ ﷺ سے دیگر سنت کی فضیلت اور قضاء بھی ثابت ہے۔
اگر فجر کے فرض پڑھ لئے اور سنتیں رہ گئی تواحناف کے مفتیٰ بہ قول کے
مطابق سنت نہ طلوع شمس سے پہلے پڑھ سکتے ہیں اور نہ بعد میں
اب ہم اس بارے میں کچھ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے فجر کے
فرض پڑھ لئے اور سنتیں رہ گئےں تو آیا وہ اس سنتوں کی قضا کریگا یا نہیں؟ اگرکرے گا تو طلوع شمس سے پہلے یا بعد میں، زوال تک یا زوال کے بعد بھی؟ اس سلسلے میں شیخین ( امام ابوحنیفہ و ابو یوسف ) کے ہاں صورت مذکورہ میں سنتوں کی قضا نہ طلوع شمس سے پہلے ہے نہ بعد میں ۔ (اور یہی احناف کا مفتیٰ بہ قول ہے جیسا کہ قوا عد افتاء سے آپ کو معلوم ہوا)
شیخ الاسلام امام سرخسی لکھتے ہیں :
ولو صلی الرجل الفجر ثم ذکر انہ لم یصل رکعتی الفجر لم یقضھافی قول ابی حنیفۃ و ابی یوسف.
( کتاب المبسوط ، ص٣١٥، جلد اول، باب مواقیت الصلوۃ، غفاریہ کوئٹہ)
امام ابن مازہ البخاری لکھتے ہیں :
اتفق اصحابنا علی ان رکعتی الفجر اذا فاتتا وحدھما بان جاء رجل ووجد الامام فی صلاۃ الفجر، و دخل مع الامام فی صلاتہ،ولم یشتغل برکعتی الفجر، انھا لاتقضی قبل طلوع الشمس،و اذا ارتفعت الشمس لا تقضی قیاسا، وھو قول ابی حنیفۃ و ابی یوسف..... و لھما ان السنۃ احیاء طریقۃ رسول اللہ ﷺ ، والنبی ﷺ قضاھما مع الفرض ضحی لیلۃ التعریس، لا بدون الفرض، فلا یکون فی قضاء ھما بدون الفرض احیاء طریقۃ رسول اللہ ﷺ ۔
( المحیط البرھانی، ص٢٣٤،٢٣٥، ج٢ ،ادارۃ القرآن)
ہمارے آئمہ احناف کا اس پر اتفاق ہے کہ جب کوئی شخص آئے اور امام فجر کی نما زمیں ہو اور یہ شخص سنتیں چھوڑ کر فرض میں امام کےساتھ شامل ہو جائے تو
طلوع شمس سے پہلے اس سنتوں کی قضا نہیں کر یگا۔ اور جب سورج طلوع ہو جائے تو شیخین ( امام بو حنیفہ اور امام ابویوسف) کے نزدیک سنت کی قضاء قیاسا نہیں کریگا۔ اور شیخین کی دلیل یہ ہے کہ سنت آپ ﷺ کے طریقے کو زندہ کرنے کا نام ہے، اور آپ ﷺ نے لیلۃ التعریس کو سنتوں کی فرض سمیت قضا فرمائی تھی نہ کہ بغیر فرض کے، اس لئے بغیر فرض کے فجر کی سنتوں کی قضاء میں آ پ ﷺ کے طریقے ( سنت ) کی احیاء (اتباع) نہیں ہے۔
علامہ مرغینانی لکھتے ہیں :
و اذا فاتتہ رکعتا الفجر لا یقضیھا قبل طلوع الشمس لانہ یبقی نفلا مطلقا وھو مکروہ بعد الصبح ولا بعد ارتفاعھا عند ابی حنیفۃ و ابی یوسف ۔
(ھدایہ، ص١٥٢، ج١، باب ادراک الفریضۃ، کلام کمپنی کراچی)
اگر کسی سے فجر کی سنتیں رہ جائےں تو طلوع شمس سے پہلے نہ پڑھے کیونکہ اب یہ مطلقا نفل بن گئے ،اور نفل فجر کی نماز کے بعد مکروہ ہے۔ اور اما م ابوحنیفہ و ابو یوسف (شیخین) کے نزدیک طلوع شمس کے بعد بھی نہ پڑھے۔
امام سرخسی لکھتے ہیں :
و ان انفردت بالفوات لم تقض عند ابی حنیفۃ و ابی یوسف لان موضعھا بین الاذان والاقامۃ و قد فات ذالک بالفراغ من الفرض،
( کتاب المبسوط، ص٣١٥، ٣١٦، ج١، باب مواقیت الصلوۃ ، غفاریہ کوئٹہ)
اگرکسی سے صرف فجر کی سنتیں رہ جائےں تو شیخین ( امام ابو حنیفہ و ابویوسف)
کے نزدیک اس کی قضاء نہیں ،کیونکہ اس کا مقام ( جگہ ) اذان واقامت کے درمیان میں ہے، اوروہ فرض کی ادائیگی کی وجہ سے فوت ہو چکا ہے۔
علامہ بدر ا لدین عینی لکھتے ہیں :
( قال) ای المصنف ( ولا بعد ارتفاعھا) ولا یقضی ابداً بعد ارتفاع الشمس عند ابی حنیفۃ و ابی یوسف۔
( البنایہ ،شرح الھدایہ، ص١٢٦، ج٣، باب ادراک الفریضۃ، حقانیہ ملتان)
مصنف نے فرمایا: ( نہ سورج کے طلوع ہونے کے بعد) یعنی طلوع شمس کے بعد کبھی بھی فجر کی سنتوں کی قضاء نہ کریگا ( امام ابو حنیفہ و ابویو سف کے نزدیک )
علامہ طاہر بن عبدالرشید لکھتے ہیں :
صلی الفجر وھو ذاکر انہ لم یصل رکعتی سنۃ الفجر لم یقضھما.
( خلاصۃ الفتاویٰ ،ص٦١، ج١،جنس اخر فی السنن والنوافل، امجد اکیڈمی لاہور)
علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں :
( قولہ و لم تقض الاتبعا) فافا د المصنف انھا لا تقضی قبل طلوع الشمس اصلا ولا بعد الطلوع اذا کان قد ادی الفرض۔
(البحر الرائق ،ص١٣١، ج٢، باب ادراک الفریضۃ، رشیدیہ کوئٹہ)
اگر کسی نے فجر کے فرض پڑھ لئے اور سنتیں نہ پڑھی تو طلوع شمس سے پہلے تو کبھی بھی نہیں پڑھ سکتے،اورطلوع شمس کے بعد بھی اس کی قضاء نہیںکریگا۔
اسی طرح کا مضمون امام سراج الدین الاوشی نے( فتاویٰ سراجیہ، ص٢٠ ، باب التطوع والسنن، ایچ ایم سعید کراچی) شیخ ملا نظام نے (فتاویٰ عالمگیری، ص١١٢ ، ج١، الباب التاسع فی النوافل، رشیدیہ کوئٹہ) ملک العلماء علامہ کاسانی نے (بدائع الصنائع ص٢٨٧،٢٨٨،
ج١، رشیدیہ کوئٹہ) علامہ محقق ملا خسر و حنفی نے( الدرر الحکام ، ص١٢٢، ج١، باب ادراک لفریضۃ، میر محمد کراچی) اور علامہ شامی نے فتاویٰ شامی ،ص٥٧ ،ج٢، باب الوتر والنوافل، ایچ ایم سعید کراچی) میں بھی لکھا ہے۔
ان تمام عبارات کا ماحصل یہ ہے کہ اگر سنتِ فجر نہ پڑھی ،اور فرض پڑھ لئے تو شیخین کے نزدیک طلوع شمس سے پہلے اور بعد میں اس کی قضاء نہیں اور یہی مفتیٰ بہ ہے۔ اگرچہ امام محمد نے طلوع شمس کے بعد پڑھنے کو اچھا اورمستحسن جانا ہے جو کہ احناف کے ہاں غیر مفتیٰ بہ قول ہے، جیسا کہ آپ کو معلوم ہو چکا ہے۔
فجر کی نماز کے بعد طلوع شمس سے پہلے سنتیں پڑھ سکتے ہیں
عزیز قارئین: اگر کوئی حنفی عالمِ دین احناف کے نزدیک غیر مفتیٰ بہ قول( جو امام محمد کا قول ہے) پر فتویٰ دیتے ہوئے یہ فرمائے کہ ہم طلوع شمس کے بعد سنتوں کی قضاکا حکم لیلۃ التعریس والی حدیث کی بناء پر لگاتے ہیں ( اگرچہ کہ یہ احناف کے ہاں مفتیٰ بہ نہیں ہے) تو ہم ایسے علماء احناف سے یہ عرض کر دیتے ہیں کہ اگر آپ حضرات بغیر کسی تحقیق کے صرف حدیث (لیلۃ التعریس )کی بناء پر حکم لگاتے ہیں تو پھر مسلک حنفی کے مقلدین کے سامنے اس بات کی بھی وضاحت فرما دیجئے کہ اگر کسی نے فجر کے فرض پڑھ لئے اور سنتیں نہیں پڑھی تو وہ فرض کے فوراً بعد طلوع شمس سے پہلے پہلے سنت ادا کرے ، اور طلوع شمس کا انتظا رنہ کرے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔
عن قیس بن عمر و قال رأی رسول اللہ ﷺ رجلا یصلی بعد صلوٰۃ الصبح رکعتین فقال رسول اللہ ﷺ صلوٰۃ الصبح رکعتان فقال الرجل انی لم اکن صلیت الرکعتین اللتین قبلھما
فصلیتھما الان فسکت رسول اللہ ﷺ ۔
( سنن ابی داؤد، ص١٨٠، ج١، باب من فا تتہ متی یقضیھا، حقانیہ پشاور)
قیس بن عمرو فرماتے ہیں : آپ ﷺ نے ایک شخص کو فجر کی نما زکے بعد دو رکعت پڑھتے ہوئے دیکھاتو آپ ﷺ نے فرمایا: فجر کی نماز دو رکعت ہے (اور آپ دو اور پڑھ رہے ہیں ) تو انہوں نے عرض کی ، میں نے فرض سے پہلے سنتیں ادا نہیں کئے تھے، اس کو ابھی پڑھ رہاہوں تو آپ ﷺ نے سکوت فرمایا۔
فجر کی نماز اگر زوال کے بعد یا کسی اور دن قضا کرنا چاہے تو
سنت بھی پڑھ سکتے ہیں
عزیز دوستو: دور حاضر کے بعض علماء احناف جو امام محمد کے قول پر فتویٰ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کسی نے فجر کی نماز طلوع شمس تک ادا نہ کی تو اب اس کو صرف اسی دن زوال سے پہلے سنتوں سمیت پڑھ سکتا ہے۔ اور زوال کے بعد صرف فرض پڑھے گا اور سنتیں نہیں پڑھے گا، تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ قانون یہ ہے کہ جب نماز اپنے وقت میں ادانہ کی جائے تو وہ قضا ہو جاتی ہے، اب اسی دن پڑھے یا سالہا سال بعد وہ قضا ہی کہلائے گی، تو جب طلوع شمس سے فجر کی نماز قضا ہو گئی تو وہ اس دن بھی قضاء ہے اور کسی اور دن بھی، پھر اس میں کیا تخصیص کہ اسی دن زوال سے پہلے سنت سمیت پڑھے اور زوال کے بعد یا کسی اور دن صرف فرض پڑھے۔حالانکہ قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر اسی دن زوال سے پہلے سنت سمیت فجر کی نماز ادا کریگا تو زوال کے بعد یاکبھی بھی سنت سمیت فرض کی نماز ادا کر سکتا ہے۔ اور اگرزوال کے بعد یا کسی اور دن صرف فجر کے فرض پڑھے گا اور سنتیں نہیں پڑھے گا تو اسی دن زوال سے پہلے اور طلوع شمس کے بعد بھی سنتیں نہیں پڑھے گا، کیونکہ یہ
دونوں قضاء ہونے میں برابر ہیں۔ ( اگرچہ احناف کا مفتی بہ قول یہ ہے کہ مطلقا سنت کی قضا نہیں ، اور خاص کر فجر کی سنتیں فرض پڑھنے کے بعد نہ طلوع شمس سے پہلے پڑھ سکتے ہیں اور نہ بعد میں )
علامہ طاہر بن عبدالرشید حنفی لکھتے ہیں :
و قال محمد احب الیّ ان یقضیھما مع الفجر قبل الزوال و بعد ہ فی ھذ الیوم و یوم آخر۔
( خلاصۃ الفتتاوی، ص٦١، ج١، فی السنن والتطوع، امجد اکیڈمی لاہور)
امام محمد فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک پسندیدہ ( مستحب ) ہے کہ فجر کی سنتیں فرض سمیت اسی دن یا کسی اور دن زوال سے پہلے اور بعد میں پڑھ سکتے ہیں ۔
علامہ عالم بن العلاء الدھلوی لکھتے ہیں :
رجل اراد ان یقضی الفوائت القدیمۃ ینبغی ان یقضی الفجر و رکعتی الفجر قبلھا و یقضی الاوتار.الخ
( الفتاوی التاتارخانیہ، ص٥٥٥ ج١، الفصل العشرون فی قضاء الفائتۃ، قدیمی کراچی)
اگر کوئی شخص اپنی قدیم فوت شدہ ( سالوں یا مہینوں پہلی قضاء شدہ ) نمازیں قضا کرنے کا ارادہ کرے تو اس کیلئے مستحب ( مناسب) ہے کہ وہ فجر کی نماز سنت سمیت قضا ء کرے، اور وتر بھی پڑھے۔
علامہ شرنبلالی لکھتے ہیں :
( قولہ و فیما بعد الزوال اختلا ف المشائخ) کذا فی الھدایۃ و قال فی العنایۃ ای مشائخ ماوراء النھر قال بعضھم یقضیھا تبعا ولا یقضیھا مقصودۃ.
( غنیۃ ذوی الاحکام فی بغیۃ درر الحکام ، ص١٢٢، ج١، باب ادراک الفریضۃ، میر محمد کراچی)
زوال کے بعد فجر کی نماز سنت سمیت قضاء کرنے میں مشائخ( احناف) کا اختلاف ہے۔ مشائخ ماوراء النھر میں بعض فرماتے ہیں کہ زوال کے بعد سنت سمیت فجر کی نماز کی قضاء کریگا، صرف سنتوں کی قضاء نہیں کریگا۔
امام عمر بن ابراہیم بن نجیم لکھتے ہیں :
انہ علیہ الصلوۃ والسلام قضاھا مع الفرض غداۃ لیلۃ التعریس
بعد ارتفاع الشمس وکلامہ یعطی انہ لا فرق بین ما اذا قضی الفرض قبل الزوال و بعدہ۔
( النھر الفائق ، ص٣١١ ج١، باب ادراک الفریضۃ، امدایہ ملتان)
آپ ﷺ نے فجر کی سنت فرض سمیت لیلۃ التعریس کو طلوع شمس کے بعد ادا فرمائے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میںکوئی فرق نہیں کہ فرض کی قضاء خواہ زوال سے پہلے ہو یا بعدمیں ( سنتیں بھی ساتھ پڑیگا)
علامہ عبیداللہ بن مسعود بن تاج الشریعۃ لکھتے ہیں:
یلزم من قضائھا بتبعیۃ الفرض قبل الزوال قضائھا بتبعیۃ الفرض بعد الزوال کما ھو مذ ھب بعض المشائخ لان اختصاصہ بتبعیۃ الفرض بکونہ قبل الزوال لا معنیٰ لہ.
(شرح الوقایہ،ص٢١٤،ج١،حکم قضاء سنۃ الفجر مع الفریضۃ،امدادیہ ملتان)
زوال سے پہلے فرض سمیت سنت پڑھنے سے یہ لازم آیاکہ فرض سمیت سنت زوال کے بعد بھی پڑھ سکتے ہیں جیسا بعض مشایخ کا مذہب ہے،کیونکہ فرض سمیت سنت کی قضاء کو زوال تک خاص کرنے کا کوئی (خاص اور معقول)معنیٰ
اور وجہ نہیں ہے۔
درج بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ امام محمد کا قول صرف زوال سے پہلے کا نہیں بلکہ زوال کے بعد اسی دن یا کسی اور دن کا بھی ہے کہ فجر کی نماز سنت سمیت طلوع شمس کے بعد کبھی بھی ادا کرنا مستحب ہے۔ لیکن دور حاضر کے علماء احناف کو امام محمد کے قول کی تفصیل و وضاحت تک بھی معلوم نہیں ا ور حنفی عوام کو اس بارے میں فتویٰ دیتے ہیں کہ زوال سے پہلے ہو، بعد میں نہ ہو، حالانکہ احناف کے ہاں اصولی طور پر فتویٰ شیخین کے قول پر ہے جیساکہ معلوم ہو چکا ہے۔
خلاصہ بحث:
تمام عبارات و بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ احناف کے مفتیٰ بہ قول کے مطابق فجر کی سنتیں جب چھوٹ جائے خواہ فرض سمیت ہو یا بلا فرض، اس کی قضاء نہیں ، نہ طلوع شمس سے پہلے، نہ طلوع شمس کے بعد، نہ زوال سے پہلے نہ زوال کے بعد، ہاں اگر کوئی طلوع شمس کے بعد نفل پڑھنا چاہتا ہے تو کوئی ممانعت نہیں ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
بندہ ناچیز
سید محمد منور شاہ سواتی شموزوی
حال فرنٹیئر بنارس کراچی
ذی القعدہ ١٤٢٨ھ
نومبر، ٢٠٠٧ئ
Post a Comment