القول النجیح فی حکم الحُقۃ
والتُتن القبیح
حقہ ،نسوار، سگریٹ ،گٹکااور تمباکو نوشی
کا شرعی حکم
تالیف
مفتی سید محمد منورشاہ سواتی مدظلہ العالی
مفتی و شیخ الحدیث
الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ
کراچی پاکستان
فہرست عنوانات
تقریظ:حضرت اقدس فقیہ امت علامہ پیر سید احمد علی شاہ نقشبندی سیفی.......................
حقہ، تمباکو، گٹکا اور سگریٹ کیا ہے؟..............................................................
تمباکو، حقہ اور سگریٹ کی ا یجاد..................................................................
تتن کی تحقیق.....................................................................................
تمباکو نوشی وغیرہ کا شرعی حکم......................................................................
حرام سے کیا مراد ہے؟..........................................................................
راقم الحروف کا تمباکو نوشی کے بارے میں موقف..............................................
تمباکو نوشی، حقہ کشی اور سگریٹ وغیرہ حرام اور مکروہ ہے.......................................
تمباکو نوشی سے وضو ٹوٹ جاتاہے............................................................
خلاصہ بحث....................................................................................
عزیز قارئین: زیر نظر رسالہ اگر چہ خاص طور پر دور حاضر کے ان مہلک ،مسکر ومفتر چیزوں کی تحقیق اور شرعی حکم پر لکھا گیا ہے جو تمباکو نوشی ،سگریٹ، حقہ،نسوار اور گٹکا وغیرہ کے نام سے پہچانی جاتی ہیں ،لیکن ضمناً دیگر ان اشیاء کا بھی مختصراً ذکر کیا جاتا ہے جو بالاتفاق علماء اسلام کے نزدیک حرام اور ناجائز ہیں،مثلاً بھنگ،حشیش،افیون،چرس اور ہیروئن وغیرہ ۔
بھنگ،حشیش،افیون،چرس اور ہیروئن وغیرہ کا شرعی حکم:
علامہ حصکفی الحنفی لکھتے ہیں:
ویحرم اکل البنج والحشیشۃ والافیون لانہ مفسد للعقل ویصد عن ذِکراللہ وعن الصلوٰۃ.........ونقل عن الجامع وغیرہ ان من قال بحل البنج والحشیشۃ فھو زندیق مبتدع بل قال نجم الدین الزاھدی :انہ یکفر ویباح قتلہ۔
(الدر المختار،ص٤٥٧،٤٥٨،ج٦،کتاب الاشربہ،ایچ ایم سعید کراچی)
بھنگ اور حشیش (ایک نشہ آور پودا) (افیون اور چرس وغیرہ) حرام ہیں، کیونکہ یہ چیزیں عقل کو فاسد کرتی ہیں اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے ذِکر اور نماز پڑھنے سے روکتی ہیں ۔ جس نے بھنگ اور حشیش کو حلال کہا وہ بدعتی اور زندیق ہے،بلکہ امام نجم الدین زا ہدی نے لکھا کہ یہ شخص کافر ہوجائے گا۔
علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں:
نقل ابن حجر عن بعض العلماء ان فی اکل الحشیشۃ مائۃ وعشرین مضرۃ دینیۃ و دنیویۃ ۔
(شامی،ص٤٥٨،ج٦ ،کتاب الاشربہ،ایچ ایم سعید کراچی)
امام ابن حجر نے بعض علماء سے نقل فرمایا ہے:بیشک حشیش (بھنگ، افیون، چرس اور ہیروئن وغیرہ)میں دینی اور دنیاوی ایک سو بیس(١٢٠)نقصانات ہیں۔
علامہ شامی دوسری جگہ لکھتے ہیں:
لکن رأیت فی الزواجر لابن حجر ما نصہ:وحکی القرافی وابن تیمیۃ الاجماع علیٰ تحریم الحشیشۃ ۔قال:ومن استحلھا فقد کفر ۔قال:وانما لم یتکلم فیھا الائمۃ الاربعۃ لانھا لم تکن فی زمنھم ،وانما ظھر فی آخر المائۃ السادسۃ وأول المائۃ السابعۃ حین ظھرت دولۃ التتار،
(شامی،ص٤٥٩،ج٦ ،کتاب الاشربہ،ایچ ایم سعید کراچی)
لیکن میں نے دیکھا ابن حجر کی زواجر میں کہ جس میں امام قرافی اور شیخ ابن تیمیہ نے حشیش(بھنگ، افیون، چرس اور ہیروئن وغیرہ نشہ آور اشیائ)کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے، اور فرمایا:جس نے ان چیزوں کو حلال جانا وہ کافر ہوجائے گا،اور فرمایا:ان اشیاء کے بارے میں ائمہ اربعہ نے کچھ نہیں فرمایا کیونکہ یہ اشیاء ان کے زمانے میں نہیں تھیں،بلکہ یہ چھٹی صدی کے آخر اور ساتویں صدی کے شروع میں اس وقت ظاہر ہوئیں جب تاتاریوں کی حکومت شروع ہوئی۔
علامہ ابوبکر بن الحداد الیمنی لکھتے ہیں:
ولا یجوز اکل البنج والحشیشۃ والافیون و ذالک کلہ حرام۔
(الجوہرۃالنیرۃ ،ص٢٥٧،ج٢،کتاب الاشربہ قدیمی کراچی)
بھنگ،حشیش اور افیون( چرس اور ہیروئن وغیرہ نشہ آور اشیائ)کا استعمال جائز نہیں،اور یہ تمام اشیاء حرام ہیں۔
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی لکھتے ہیں:
گانجااور بھنگ پینا ناجائز اور حرام ہے کہ گانجا مفتر اور بھنگ مسکر ہے، حدیث میں ہے:نھی النبی ﷺ عن کل مسکر ومفتر..........پینے والوں کے ہاتھ ان کو فروخت کرنا درست نہیں کہ اعانت علی الاثم ہے اور قرآن میں اس کی ممانعت موجود۔وہو تعالیٰ اعلم
(فتاویٰ امجدیہ ،ص٣٠٧،ج٤،کتاب الحظر والاباحۃ،مکتبہ رضویہ کراچی)
مفتی وقارالدین رضوی لکھتے ہیں:
شراب،گانجا،بھنگ،چرس،اسپرٹ،مٹی کا تیل،ہیروئن یا اس کی مثل کوئی اور شئی اور افیون کھانا سب حرام ہیں۔ (وقار الفتاویٰ،ص٣٣٧،ج١)
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:
افیون نشہ آور ہے اور اعضاء کو سست اور اعصاب کو ڈھیلا کر دیتی ہے، اور ہر وہ چیز جو نشہ آور ہو اور اعضاء کو سست اور ڈھیلا کردے (مثلاًبھنگ، چرس اور ہیروئن وغیرہ،راقم سواتی)اس کو کھانا یا پینا حرام ہے۔
(شرح صحیح مسلم،ص٢١٠،ج٦،کتاب الاشربہ،فرید بک سٹال لاہور)
الحاصل یہ کہ مذکورہ (بھنگ، افیون، چرس اور ہیروئن وغیرہ دیگر جدید نشہ آور ) اشیاء کا استعمال تمام مکاتب فکر کے علماء کے نزدیک بالاتفاق نقصان دہ،مضر،مہلک اور حرام اور ناجائز ہیں،اور ان اشیاء سے بچنا ہر مسلمان پر فرض اور لازم ہے۔
حقہ ،تمباکو،گٹکا اور سگریٹ کیا ہے؟
دور حاضر کا ایسامن پسند ،مرغوب اور ہر دلعزیز زہر ہے جس کوعوام ،جہلاء اور غریب طبقہ تو کیا بڑے بڑے اہل علم ،دانشور،ڈاکٹرز حضرات،مربیان علم ومعرفت اور خواص بھی استعمال کرکے محظوظ ہوتے رہتے ہیں،اور پی کر لطف اٹھا تے ہیں،(نعوذ باللہ من ذلک) لیکن ان لطف اٹھانے والوں کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ جس چیز کو ہم تریاق اور لطف اندوزی سمجھ رہے ہیں یہ اصل میں ہمارے ظاہر اور باطن کے لئے زہرقاتل ہے، اور اسی میں ہماری جان ومال کی تباہی اور ہلاکت ہے،ہاں ہاں یہ بظاہر وہی مرغوبات ہیں کہ جن کے استعمال سے نفیس الفطرت لوگ ایسے خبیث الفطرت ہوجاتے ہیں کہ لوگ ان کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارانہیں کرتے ،بلکہ ایسے لوگوں کو دیکھ کر فطرت سلیمہ والے لوگ دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:جو شخص کچا پیاز اور لہسن وغیرہ بدبو دار چیز کھائے تو وہ ہماری مسجدوں میں نہ آئے کیونکہ ان کی بدبو سے فرشتوں اور مسلمانوں کو اذیت اور تکلیف ہوتی ہے۔
آپ خود اندازہ لگائےں کہ پیاز اور لہسن جو کہ اسلام میں حلال ہے اسکی بدبو سے مسلمانوں اور فرشتوں کو تکلیف ملتی ہے ،کیا ان لوگوں نے کبھی یہ سوچا کہ جس بدبو کی وجہ سے ہم سے ا نسان اتنی نفرت کرتے ہیں اور ان کو ہم سے تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے مقرب ونورانی اور پاک فرشتوں کو کتنی تکلیف پہنچتی ہوگی؟نہیں جناب سوچنے کی کیا ضرورت ہے، انہیں تو عارضی طور پر اپنی شہوت(خواہش)پوری کرنی ہے،خواہ اس میں ان کی جان ومال کیوں نہ ضائع ہوجائےں۔ایسے بے ضمیر لوگ جو آج تو سوچتے تک نہیں لیکن جب ان کی یہ مرغوب اور پسندیدہ اشیاء زہربن کر اثر کرنا شروع کردےں تو پھرعلاج کے لئے در در مارے پھرتے ہیں۔ (افسوس صد افسوس)
اگر علاج کرکے وقتی طور پر اس بیماری کو کنٹرول کر بھی لیا جائے لیکن جو نقصان ان مہلک اشیاء کے استعمال سے ہوا وہ تو برقرار ہی رہتا ہے ،کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جو حضرات گٹکا استعمال کرتے ہیں تو ان کو خاص طور پر منہ کی ایک ایسی بیماری لگ جاتی ہے کہ اس سے ان کا منہ بھی صحیح طور پر بھی نہیں کھلتا ،بیچاروں کوکھانے میں تکلیف اپنی جگہ لیکن کسی معزز حضرات کی مجلس میں بیٹھ کر وہ شرم کے مارے ان کے ساتھ کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔
میرے عزیز دوستو: جب بعد میں پچھتانا ہے تو ابھی سے کیوںنہ اس مضر، فضول، گندی اور باعث نفرت چیز کو چھوڑدیا جائے،کیونکہ اس میں ہماری جان اور مال کی حفاظت بھی ہے اور اسلامی معاشرے میں عزت وآبرو بھی ہے،اور مسلمانوں کا آپس میں قریب رہنے کا سبب بھی ہے ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں ہدایت اور صراط مستقیم پر استقامت نصیب فرمائے۔(آمین)
بندہ ناچیز:
سید محمد منورشاہ سواتی
خادم الافتاء والحدیث
المرکز الاسلامی کراچی
رمضان المبارک:١٤٢٨ھ
ستمبر٢٠٠٧ئ
تمباکو،حقہ اور سگریٹ کی ایجاد
علامہ حصکفی لکھتے ہیں:
والتتن الذی حدث وکان حدوثہ بدمشق فی سنۃ خمسۃ عشر بعد الالف یدعی شاربہ انہ لا یسکر وان سلم لہ فانہ مفتر وھو حرام لحدیث احمد عن ام سلمۃ قالت ''نھی رسول اللہ ﷺ عن کل مسکر ومفتر.
(الدر المختار،ص٤٥٩،٤٦٠،ج٦،کتاب الاشربہ،ایچ ایم سعید کراچی)
تتن(سگریٹ،تمباکو)کی ایجاد دمشق میں ١٠١٥ء کو ہوئی،اس کے پینے والے یہ کہتے ہیں کہ اس میں نشہ نہیں،اگر اس کو تسلیم بھی کیا جائے(کہ نشہ نہیں)لیکن پھر بھی اس سے سستی (دماغ میں فتور)آتا ہے،حالانکہ ہر سستی اور فتور لانے والی چیز حرام ہے،جیسا کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ہر نشہ آور اور سستی و فتور پیدا کرنے والی اشیاء سے منع فرمایا ہے۔
شیخ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
یہ حقہ قریب تین سو برس ہوئے کہ کفار نے نکالا ہے،پھر سب میں شائع ہوگیا۔
(امداد الفتاویٰ،ص٩٧،جلد ٤،مکتبہ دارالعلوم کراچی)
مفتی محمود حسن گنگوہی لکھتے ہیں:
فی مخزن الادویہ للطبیب محمد حسن ان تنباکو بفتح التاء وسکون النون و فتح الباء والالف وضم الکاف وسکون الواو یقال لہ بالترکیۃ التتن ھو من الادویۃ الجدیدۃ وجد من نحو ثلث مائۃ سنۃ وشاع من نحو مائتی سنۃ قالوا فی باعث شھرتہ فی بلاد الایران والتوران والھند ان طائفۃ من النصاریٰ اخرجتہ من الارض الجدیدۃ واتی بورقۃ وبذرہ فی بلاد الھند وغیرہ فشاع حیث لم یبق بلد وقریۃ لا یستعملونہ فیھا بشرب دخانہ واکل جرمہ او السعوط بہ.(فتاویٰ محمودیہ ،ص٢٠٢،ج٥، کتب خانہ مظہری،کراچی)
طبیب محمد حسن کی کتاب مخزن الادویہ میں ہے،کہ تنباکو(تمباکو) جس کو ترکی زبان میں تتن کہتے ہیں،یہ جدید ادویہ (دوا ،علاج)میں سے ہے،یہ تقریباً تین سو سال سے پایا گیا اور تقریباً دو سو سال سے اس نے شہرت حاصل کی،اس کی شہرت ایران ،توران اور ہندوستان کے شہروں میں یوں ہوئی کہ عیسائیوں کی ایک جماعت نے اس کو نئی زمین سے نکال کر ہند وغیرہ کے شہروں میں کاشت کیا جس سے یہ پھیل گیا ،اب کوئی ایسا شہر یا قریہ (گاؤں)نہیں کہ جہاں اس کا استعمال نہ ہوتا ہو،بعض لوگ اس کا دھواں پیتے ہیں ،بعض اس کے پتے کھاتے ہیں،اور بعض اس کو ناک میں ڈال کر استعمال کرتے ہیں۔
شیخ مفتی محمد یوسف القرضاوی لکھتے ہیں:
سگریٹ یا تمباکو دسویں صدی ہجری کے آخر میں دریافت ہوا،اس کے بعد سے یہ مسلسل عام اور مقبول ہوتا چلا گیا ۔
(فتاویٰ،یوسف القرضاوی،ص٣١٠،ج١،دارالنوادر لاہور)
لفظ تتن کی تحقیق:
التتن: تمباکو(یہ لفظ ترکی الاصل ہے،اس کے معنی دھوئیں کے ہیں)۔
(المنجد عربی اردو،ص٨١،خزینہ علم وادب لاہور)
التتن: التبغ و معناہ بالترکیۃ دخان .
(المنجد فی اللغۃ،ص٥٩،المکتبۃ الشرقیۃ،بیروت)
تتن کا معنی تبغ ہے، جس کو ترکی میں دھواں کہتے ہیں۔
التبغ:ما ھو یعرف بالتتن او الدخان ،جنس من النباتات الامیرکیۃ المھد، فیہ مادۃ سامۃ، ماخوذ من لفظۃ تاباغو وھی اسم جزیرۃ فی خلیج المکسیک وجد فیھا ونقل منھا.
(المنجد فی ا للغۃ،ص ٥٩،المکتبۃ الشرقیۃ،بیروت)
تبغ وہ ہے جو تتن یا دخان سے پہچانا جاتا ہے،یہ امریکی پودوں کی جنس سے ہے،اس میں زہریلے اثرات پائے جاتے ہیں،یہ لفظ تاباغو سے ماخوذ ہے،جو خلیج میکسیکو کے ایک جزیرے کا نام ہے،جہاں یہ تمباکو پایا گیا اور پھر وہاں سے منتقل کیا گیا۔
التبغ:تمباکو۔خشک تمباکو(ترکی سے ماخوذ)۔
(معجم الاعظمی،ص١٥٨،مکتبہ اعظمیہ کراچی)
التتن:تمباکو(ترکی سے ماخوذ اور یہ لفظ عربی میں دو صدی سے مستعمل ہے۔
(معجم الاعظمی،ص١٥٨،مکتبہ اعظمیہ کراچی)
التبغ:تمباکو۔ (مصباح اللغات،ص٥٨،مکتبہ برہان دہلی)
التتن:تمباکو۔ (یہ لفظ ترکی الاصل ہے اس کے معنی دھوئیں کے ہیں۔
(مصباح اللغات،ص٥٨،مکتبہ برہان دہلی)
شیخ العصر علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:
کولمبس نے صرف امریکہ ہی نہیں دریافت کیا اس نے تمباکو بھی دریافت کی،انڈین لوگ اسے چبا تے بھی تھے،نسوار کی طرح پھانکتے بھی تھے،انہیں اس کی کاشت کا طریقہ بھی آتا تھا،یہ طریقہ نوواردوں نے بھی سیکھ لیا،مشکل سے چالیس سال بعدہی اس کی کاشت ویسٹ انڈیز میں ہونے لگی،١٥٦٠ئ میں یہ یورپ میں بھی اگائی جانے لگی،١٦٠٠ئ میں یہ پود ا برازیل میں بھی پہنچ گیا ،١٦٠٠ئ میں ہی وائر ریلے نے تمباکو نوشی کو انگلینڈ میں عام کردیا،یہاں سے یہ پیرس میں بھی اگایا جانے لگا اور پھر یہ اتنا مقبول ہوگیا کہ مقبولیت کاشت سے بھی بڑھ گئی،اٹھارویں صدی تک اس کی بڑی تعداد ورجینیا اور میری لینڈ سے بر آمد ہورہی
تھی،سگریٹ سترھویں صدی میں متعارف ہوا،١٩٠٠ء تک یہ زیادہ مقبول نہ تھا،تاہم پہلی جنگ عظیم میں اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھی ،حتی کہ عورتوں نے بھی سگریٹ پینا شروع کردیا۔ (شرح صحیح مسلم ،ص٢١١،ج٦،فرید بکسٹال لاہور)
تمباکو نوشی وغیرہ کا شرعی حکم:
علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
(قولہ والتتن الخ) اقول قد اضطربت آراء العلماء فیہ ،فبعضھم قال بکراھتہ ،وبعضھم قال بحرمتہ، وبعضھم باباحتہ،وافردوہ بالتألیف:وفی شرح الوھبانیۃ للشرنبلالی :
ویمنع من بیع الدخان وشربہ....وشاربہ فی الصوم لا شک یفطر.
(شامی،ص٤٥٩،ج٦،کتاب الاشربہ،ایچ ایم سعید)
میں(شامی) کہتا ہوں تتن ( تمباکو نوشی) کے بارے میں علماء کی مختلف آراء (رائے) ہیں۔بعض نے اس کو مکروہ ، بعض نے حرام اور بعض نے مباح قرار دیا ہے اور اس پر تالیفات بھی کیں، علامہ شرنبلالی کی شرح الوہبانیۃ میں ہے، دخان (تمباکو نوشی) کے بیچنے اور پینے سے ( لوگوںکو) منع کیا جائیگا۔ اور روزے میں پینے والے شخص کا روزہ بے شک ٹوٹ جائیگا۔
شیخ مفتی محمد یوسف القرضاوی لکھتے ہیں:
چونکہ حضور ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے زمانے میں اس کا وجود نہیں تھا اس لئے علماء کرام اس کے حکم کے سلسلہ میں مختلف رائے رکھتے ہیں ، بعض اسے حرام قرار دیتے ہیں۔ بعض کے نزدیک مکروہ ہے، اور بعض کے نزدیک مباح اور بعض علماء اس سلسلے میں خاموش ہیں، اور کوئی رائے نہیں رکھتے۔
( فتاویٰ یوسف القرضاوی، ص٣١٠، حصہ اول، دارالنوادر لاہور)
حرام سے کیا مراد ہے:
عزیز قارئین: درج بالا سطور میں جو یہ ثابت ہوا کہ بعض علماء اس ( تمباکو نوشی وغیرہ ) کو حرام قرار دیتے ہیں ، اس سے مراد وہ حرام نہیں جس طرح زنا، شراب نوشی وغیرہ حرام ہے۔ کیونکہ حرام کے بھی درجے ہیں۔
علامہ مفتی محمد یوسف القرضاوی لکھتے ہیں :
وہ حرام چیز جس کی حرمت میں اختلاف ہو، اس حرام چیزکے برابر نہیں ہو سکتی جس کی حرمت پر اتفاق ہو، اس لئے سگریٹ پینے والے کو فاسق کہنا یا اس کی گواہی کو کالعدم قرار دینا، اس کو امامت کے حق سے محروم کرنا صحیح نہیں ہے۔
( فتاویٰ یوسف القرضاوی، ص٣١٤، ج١)
راقم الحروف کا تمباکو (سگریٹ)نوشی کے بارے میں مؤقف:
حقہ کشی، سگریٹ اور تمباکو نوشی کے بارے میں اگرچہ علماء کی مختلف رائے ہیں ، (جس کا تذکرہ ماقبل سطور میں ہو چکا ہے) لیکن ان میں بندہ نا چیز کا رحجان چونکہ عدم جواز(حرمت یا کراہت) کی طرف ہے ،اس لئے ہم ان دلائل اور تحقیقات کو ہدیہ قارئین کریں گے جن سے ہمارے موقف کو تقویت ملتی ہے، چونکہ مجوزین ( جائز ماننے والے) علماء نے بھی بعض صورتوں میں اس ( تمباکو نوشی) کو جواز کے باوجود ناجائز اور حرام، مکروہ قرار دیا ہے، اس لئے ہم ان کی تحقیق میں عدم جواز کے علل و اسباب کو بھی اپنے دلا ئل میں شامل کر کے ہدیہ ناظرین کریں گے۔(انشاء اللہ)
تمباکو نوشی، حقہ کشی اور سگریٹ وغیرہ حرام اور مکروہ ہے:
امام شاہ عبد العزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں:
اور روایت کی ہے احمد نے اپنے مسند میں اور ابو داؤد نے سنن ابی داؤد میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے کہ کہا انہوں نے:نھی رسول اللہ ﷺ عن کل مسکر و مفتر.یعنی منع فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ہر مسکر اور مفتر سے۔اور قسطلانی نے مواہب میں لکھا ہے:قال العلماء المفتر کل ما یورث الفتور والخدر فی الاطراف.علماء کرام نے کہا ہے کہ مفتر ہر وہ چیز ہے کہ اس سے فتور اور خدر اطراف میں پیدا ہو۔
یہ حدیث اعلیٰ درجہ کہ دلیل ہے حشیش یعنی تمباکو وغیرہ مخدرات کے حرام ہونے کے لئے اس واسطے کہ یہ اشیاء اگر چہ مسکر نہیں ،لیکن مفتر اور مخدر ضرور ہیں ،اور اسی وجہ سے جو لوگ یہ اشیاء استعمال کرتے ہیں ،ان لوگوں کو نیند زیادہ آتی ہے،اور سر میں گرانی معلوم ہوتی ہے،اس واسطے کہ اس کے ابخرہ دماغ پر پہنچتے ہیں۔ (فتاویٰ عزیزی،کامل،مترجم،ص٥٩١،ایچ ایم سعید کراچی)
امام شاہ عبد العزیز محدث دہلوی دوسری جگہ لکھتے ہیں:
حقہ کی حلت اور حرمت میں اختلاف ہے،زیادہ صحیح یہ ہے کہ مکروہ تحریمی ہے،اس وجہ سے کہ حقہ پینے والے کے منہ سے بدبو آتی ہے،جیسا کہ پیاز خام اور لہسن خام کے کھانے کے بارے میں احکام ہیں،اور حقہ پینے میں دوزخیوں کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے اس واسطے کہ ان کے شکم سے بھی دھواں نکلے گا۔۔۔۔۔۔۔۔(تمباکو) کے استعمال کا جو طریقہ ہے کہ وہ اس کا دھواں پیتے ہیں،تو اس میں تین وجوہ کراہت کی جمع ہو جا تی ہے:
١۔ پہلی وجہ وہ بدبو جو حقہ پینے والے کے منہ سے نکلتی ہے۔
٢۔ دوسری وجہ دوزخیوں کے ساتھ مشابہت کا ہونا ،چنانچہ تھیگاہ پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہونا مکروہ ہے،اور ایسا ہی لوہے کی انگوٹھی پہننا بھی منع ہے۔
٣۔تیسری وجہ یہ کہ اس میں آگ کے ساتھ ملابست لازم آتی ہے،یہ مکروہ ہے اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ آگ کے ذریعے سے عذاب کرے گا،اسی وجہ سے بدن کو داغنا منع ہے، اگر چہ منجملہ ان وجوہ کے ہر وجہ سے صرف کراہت تنزیہی ثابت ہوتی ہے لیکن یہ تینوں جمع ہوجانے کی وجہ سے کراہت تحریمی ثابت ہوئی۔ (فتاویٰ عزیزی،کامل،مترجم،ص٥٩٧،ایچ ایم سعید کراچی)
مفسر قرآن علامہ شیخ اسماعیل حقی البروسوی سورہ الفتح کی آیت:٢،کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
یقول الفقیر یدخل فیہ الدخان الشائع شربہ فی ھذاالزمان بل رائحتہ اکرہ من رائحۃ الثوم والبصل فاذا کان دخول المسجد ممنوعاً مع رائحتھما دفعاً لاذی الناس والملائکۃ فمع رائحۃ الدخان اولیٰ وظاھر ان الثوم والبصل من جنس الاغذ یۃ ولا کذلک الدخان ومحافظۃ المزاج بشربہ انما عرفت بعد الادمان المولد للامراض الھائلۃ فلیس لشاربہ دلیل فی ذالک اصلاً فکما ان شرب الخمر ممنوع اولاً وآخراً حتی لو تاب منھا ومرض لایجوز ان یشربھا ولو مات من ذالک المرض یؤجر ولا یأثم فکذا شرب الدخان ولیس استطابتہ الامن خباثۃ الطبع فان الطباع السلیمۃ تستقذرہ لامحالۃ ،فتب الی اللہ وعد حتی لایراک حیث نھاک۔
(تفسیر روح البیان ،ص٣٩،الجزء التاسع،بیروت)
مفسر قرآن علامہ فیض احمد اویسی درج بالا عبارت کا ترجمہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
فقیر(صاحب روح البیان رحمہ اللہ) کہتا ہے کہ اس حکم میں حقہ وسگریٹ نوشی بھی ہے،جو ہمارے دور میں مروج ہے بلکہ اس کی بدبو تھوم اور پیاز کی بدبو سے مکروہ تر ہے،ان کی بدبو سے مسجد میں داخلہ ممنوع ہے تاکہ لوگ اور ملائکہ کو ایذاء نہ ہو،تو حقہ اور سگریٹ کی بدبو سے انہیں بچانا زیادہ بہتر ہے،کیونکہ پیاز اور تھوم تو غذاؤں میں ہیں بخلاف تمباکو کہ وہ غذاؤں میں سے نہیں بلکہ امراض کی جڑ ہے،کیونکہ حقہ اور سگریٹ مسلسل استعمال کرنے سے جو خطرناک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں وہ صرف وہی جانتے ہیں جو حقہ وسگریٹ نوشی کی وجہ سے مبتلا ہوتے ہیں ،اسی لئے مزاج کو اس کی خباثت سے بچانا نہایت لازم ہے، اورحقہ وسگریٹ نوش لوگوں کے پاس جواز کی کوئی دلیل نہیں تو جیسے شراب ہر لحاظ سے حرام اور ممنوع ہے ،یہاں تک کہ توبہ کے بعد بیمار ہوجائے تو بھی بیماری کے دفع کرنے کی نیت سے بھی نہ پئے،اگر وہ اس حالت میں مر جائے تو اس پر اسے اجر وثواب ملے گا،گناہ نہ ہوگا،ایسے ہی حقہ نوش ا ور سگریٹ والے کا حکم ہے،حقہ وسگریٹ میںتو کوئی خوبی نہیں سوائے اس کے کہ خبیث طبیعت لوگ اسے استعمال کرتے ہیں،ورنہ سلیم طبع والے تو اس سے نفرت کرتے ہیں۔
سبق: اے حقہ ا ورسگریٹ نوش بھائی اس سے توبہ کر اور اس کے ساتھ وعدہ کر کہ پھر تجھ سے ایسا فعل نہ دیکھے۔
(فیوض الرحمن ،ترجمہ روح البیان،ص٢٩٤،٢٩٥،پارہ ٢٦،مکتبہ اویسیہ بہاولپور)
مفسر قرآن علامہ شیخ اسماعیل حقی البروسوی سورۃالواقعہ کی آیت:٤٢،٤٣کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
یقول الفقیر فیہ تحذیرعن شرب الدخان الشائع فی ھذہ الاعصار فانہ یرتفع حین شربہ ویکون کالظل فوق شاربہ مع ما لشربہ من الغوائل الکثیرۃ لیس ھذا موضع ذکرھا فنسأل اللہ العافیۃ لمن ابتلی بہ اذ ھو مما یستخبثہ الطباع السلیمۃ وھو حرام کما عرف فی التفاسیر۔
(تفسیر روح البیان ،ص٣٢٨،الجزء التاسع،بیروت)
مفسر قرآن علامہ فیض احمد اویسی درج بالا عبارت کا ترجمہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
حقہ نوشی ا ور سگریٹ نوشی حرام:
فقیر(صاحب روح البیان رحمہ اللہ)کہتا ہے اس میں تحذیر (ڈراؤ)ہے حقہ (وسگریٹ نوشی)سے جو ہمارے دور میں عام شائع ہے کیونکہ اس کے پینے والے کے سر پر حقہ وسگریٹ نوشی کے وقت دھواں سایہ کی طرح (خصوصاً)چھا جاتا ہے ،اس کے علاوہ حقہ نوشی وسگریٹ نوشی اور تمباکو نوشی میں بہت بڑی بری اور گندی بیماریاں اور تباہ کاریاں ہیں جن کا ذکر یہاں نہیں ہوسکتا ،ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی عافیت کا سوال کرتے ہیں جو اس میں مبتلا ہے۔اس لئے کہ طبائع سلیمہ تو اس سے نفرت کرتی ہیں ۔
مسئلہ: (بدبو دار )حقہ نوشی وغیرہ حرام ہے جیسے بعض تفاسیر میں بیان کیا گیا۔
(فیوض الرحمن ،ترجمہ روح البیان،ص٤٥٤،پارہ٢٧،مکتبہ اویسیہ بہاولپور)
علامہ عبد الحئی لکھنوی لکھتے ہیں :
پیچیدہ تنباک خشک یعنی چرٹ را نوشیدن مثل حقہ نوشیدن مکروہ تحریمی است بلاریب وبلا شک ،ودر پیچیدہ تنباک خشک بسبب مشابہت نصاریٰ زیادہ تر کراہت است۔
(مجموعۃ الفتاویٰ علیٰ خلاصۃ الفتاویٰ،ص٣٦٨،ج٤،کتاب الکراھیۃ،امجد اکیڈمی لاہور)
سگریٹ پینا حقہ نوشی کی طرح یقیناً مکروہ تحریمی ہے،اور سگریٹ نوشی میں نصاریٰ (عیسائیوں)کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے زیادہ کراہت ہے۔
علامہ عبد الحئی لکھنوی لکھتے ہیں :
وھذا ید ل علیٰ ان علۃ النھی ھو الرائحۃ الکریھۃ الموذیۃ لاھل المسجد من بنی آدم والملائکۃ وبہ استد ل علیٰ کراھۃ کل ما لہ رائحۃ کریھۃ کالبصل والفجل والکراث ونحو ذلک ومثلہ شرب الد خان المتداول فی ھذھ الازمان.
(التعلیق الممجد علیٰ مؤطا امام محمد،ص٣٨٥،باب ما یکرہ من اکل الثوم،نور محمد کراچی)
لہسن کھانے کی ممانعت کی وجہ اور علت اس کی بدبو ہے،جس سے مسجد میں حاضر مسلمانوں اور فرشتوں کو اذیت(تکلیف) ہوتی ہے،اور اس میں ہر اس چیز کو کھانے کی کراہت کی دلیل ہے کہ جس میں بدبو ہو،مثلاً پیاز،مولی اور گندنا(پیاز اور لہسن کے مشابہ ایک بدبو دار ترکاری) وغیرہ،اور اس کی مثل وہ دھواں(سگریٹ و تمباکو نوشی) بھی(مکروہ)ہے جو اس زمانے میں عام ہوچکاہے۔
مصنف فتاویٰ نور الھدیٰ المکتوبہ ١١٦٩ھ لکھتے ہیں:
تحقیق یہ ہے کہ دھواں (سگریٹ)پینا اور اس کو پیٹ میں داخل کرنا حرام ہوناچاہئے یا مکروہ تحریمی،کیونکہ اس میں کئی وجوہات ہیں ،جب بھی علماء ا ن میں سے کسی ایک وجہ کو دیکھ لیں تو ان کو حرمت کا فتویٰ (حکم )لگانا چاہئے۔
پہلی وجہ:سگریٹ نوشی بدعت سیئہ ہے،اور بعض سنت کو ختم کرنے والی ہے،اور لوگوں کو حرام اور مکروہات میں واقع کرنے والی ہے،اور جو بھی بدعت ایسی ہو تو وہ حرام ہوتی ہے،اور اس کے بدعت سیئہ ہونے میں کسی عاقل کے لئے کوئی شک نہیں،کیونکہ بدعت سیئہ وہ ہے جس کو آپ ﷺ کے بعدفاسق و فاجر لوگوں نے ایجاد کی ہو،اور اس کے ذریعے سنن ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ذریعے عطر لگانے کی سنت ختم ہوگئی۔
حضرت ابو ایوب نے آپ ﷺ سے روایت کی آپ ﷺ نے فرمایا:چار چیزیں انبیاء کی سنت ہیں،حیائ،اور ایک روایت میں ختنہ کرنا، عطر لگانا،مسواک کرنا اور نکاح کرنا (رواہ الترمذی،کذا فی المشکوٰۃ،ص ٤٤)اور یہ تمباکو نوشی اس مسواک کی سنت کو ختم کرنے والی ہے کہ جس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسواک کرکے نماز پڑھنے والے کو بغیر مسواک کئے نماز کے ستر گنا ثواب ملے گا۔(رواہ البیھقی،کذا فی المشکوٰۃ،٤٥)اس تمباکو نوشی سے یہ سنت ختم ہوئی کیونکہ مسواک منہ سے بدبو ختم کرنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مشروع کردیا گیا اور اس بدعت (تمباکو نوشی)سے منہ بد ترین بد بو سے گندہ ہوجاتاہے۔۔۔۔۔۔ اس حدیث میں دیکھئے کہ مسواک اللہ تعالیٰ کی رضا کا سبب ہے اور یہ بدعت ( تمباکو نوشی) یقینا اللہ تعالیٰ کا غضب واجب کرتا ہے اس لئے یہ حرام ہے۔
رہی یہ بات کہ اس تمباکو نوشی کے ذریعے لوگ حرام اور مکروہات میں واقع ہوتے ہیں تو یہ اس لئے کہ اس کے ذریعے لوگ حرام اسراف میں واقع ہوتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:ولا تسرفوا( اسراف نہ کرو) اور اس تمباکو نوشی کے ذریعے لوگ عقل و ذہن کے نقصان میں واقع ہوتے ہیںاور عبث(فضول) کاموں میں لگ جاتے ہیں۔
دوسری وجہ:تمباکو نوشی عبث ہے اور عبث ( فضول) کام حرام ہے۔
تیسری وجہ:تمباکو نوشی خبیث ہے اور خبیث حرام ہوتا ہے ،اس کی خباثت کی وجہ یہ ہے کہ طبیعت سلیمہ رکھنے والے لوگ اس کو خبیث و قبیح سمجھتے ہیں۔
چوتھی وجہ:تمباکو نوشی کرنے والے اکثر فساق ( فاسق و فاجر) لوگ ہوتے ہیں جیسا کہ تمام حرام کام کرنے والے اکثر فساق ہوتے ہیں۔
پانچویں وجہ: اس سے عقل فاسد ہو جاتی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے منع کرنے والی چیز ہے، اور جس چیز کی حیثیت ایسی ہو تو وہ یقینا حرام ہوتی ہے، پہلی بات کا مشاہدہ تو یہ ہے کہ جب یہ خبیث دھواں دل تک پہنچتا ہے تو وہاں سے دماغ تک جاتا ہے تو اس سے عقل فاسد ہو جاتی ہے۔ اور دوسری بات تو وہ بھی بدیہی ہے کہ اکثر سگریٹ پینے والے بہت کم ہی ذکر اور نماز ادا کرتے ہیں، بلکہ اکثر تو تمباکو نوشی میں مشغول رہتے ہیں اور ذکر اور نماز کو چھوڑ دیتے ہیں، اور اگر تمباکو ( سگریٹ) نوشی والا ذکر کرے یا نمازپڑھے تو ان کی نماز یںاورا ذکار کیسے قبول ہونگے، کیونکہ نماز کے آداب میں سے یہ ہے کہ خوشبو لگائی جائے، مسواک کیا جائے تاکہ بدبو منہ سے زائل ہو جائے کیونکہ یہ وقت اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کے حاضر ہونے کا وقت ہے۔ حالانکہ تمباکو نوشی کرنے والے کے منہ سے ایسی بدبو آتی ہے جیسا کہ پاخانہ کرنے کے بعد اس مقام سے بدبو آتی ہے۔
چھٹی وجہ:یہ ( تمباکو نوشی) عذاب کا آلہ ہے، اور دوزخیوں کا زیور ہے، اور جو چیز اس طرح موصوف ہو کہ اس کی ہیئت عذاب کی ہیئت کی طرح ہو ،اور دوزخیوں کا زیور ہو،تو وہ حرام ہوتی ہے۔
ساتویں وجہ:یہ( تمباکو نوشی) مضر ہے، اور مضر حرام ہے۔ تمباکو نوشی کا مضر (تکلیف دہ) ہونا تو تمباکو نوشی بنفسہ ( خود) مضر ہے اور خاص کر جب یہ بدبودار بھی ہو تو وہ اور بھی (تکلیف دہ) مضر ہوتا ہے۔
آٹھویں وجہ:تمباکو نوشی سے لوگوں کو تکلیف ( اذیت) پہنچتی ہے۔ کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ جو لوگ اس کو استعمال نہیں کرتے وہ اس کی بدبو سے اذیت پاتے ہیں۔ اور جس چیزسے لوگوں کو اذیت(تکلیف) پہنچتی ہے، وہ حرام ہے۔
واعلم۔ جان لیں کہ جب آپ کو سگریٹ (تمباکو ) نوشی کی حرمت دلائل سے معلوم ہو گئی تو اب یہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک مطلقاً جائز نہ ہوگی نہ علاج کیلئے اور نہ غیر علاج کے لئے....... اور اگر کسی مریض کیلئے ڈاکٹر اجازت دے اوروہ سگریٹ (تمباکو) پی لے تو پینے والے کے لئے جائز نہیں کہ وہ مسجد میں آئے بلکہ وہ اپنا منہ خوب دھو لے تاکہ یہ خبیث بدبو ختم ہو جائے اور سب سے بڑاحرام کام یہ ہے کہ مساجد یا مجالس میں سگریٹ نوشی ہو۔
(فتاویٰ نور الھدیٰ،ص٤١٧،میر محمد کراچی)
علامہ حصکفی لکھتے ہیں :
والتتن الذی حدث............... یدعی شاربہ انہ لا یسکر وان سلم لہ فانہ مفتر وھو حرام لحدیث احمد عن ام سلمۃ قالت : نہی رسول اللہ ﷺ عن کل مسکر و مفتر قال و لیس من الکبائر تناولہ المرۃ والمرتین، و مع نہی ولی الامر عنہ حرم قطعا، علی ان استعمالہ ربما اضر بالابدان، نعم الاصرارعلیہ کبیرۃ کسائر الصغائر. قلت : فیفھم منہ حکم النبات الذی شاع فی زماننا المسمی بالتتن فتنبہ، و قد کرہہ شیخنا العمادی فی ھدیتہ الحاقالہ بالثوم والبصل بالاولی فتدبر.( الدرالمختار، ص٤٥٩، ٤٦٠، جلد ٦، کتاب الاشربہ، ایچ ایم سعید)
تمباکوجو نیا ایجاد ہو، اس کے پینے والے کہتے ہیں کہ اس میں نشہ نہیں ، اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو یہ یقینی بات ہے کہ اس سے بدن میں سستی پیدا ہوتی ہے اور یہ حرام ہے جیسا کہ أم المومنین حضرت ام سلمہ ؓ نے فرمایا: آپ ﷺ نے ہر نشہ آور اور بدن میں سستی (اور دماغ میں فتور)پیدا کرنے والی چیزوں سے منع فرمایا،تمباکو کا استعمال ایک آدھ مرتبہ گناہ کبیرہ نہیں لیکن اگر خلیفہ المسلمین ( اولواالامر) منع کر ے تو پھر قطعی حرام ہو جائیگا۔ کیونکہ اس کا استعمال بدن کو ضرر( نقصان) پہنچاتا ہے، ہاں تمباکو نوشی پر اصرار( دوام اور ہمیشگی) گناہ کبیرہ ہے جیسا کہ ہر صغیرہ پر دوام کبیرہ بن جاتا ہے۔ میں (حصکفی) کہتا ہوں کہ اس سے اس تمباکو نوشی کا حکم معلوم ہوا جو ہمارے دور میںشائع ہوا ہے، تحقیق اس کو ہمارے شیخ عمادی نے لہسن اور پیاز کے ساتھ ملا کر مکروہ قرار دیا ہے۔
علامہ شامی لکھتے ہیں :
( قولہ و قد کرہہ شیخنا العمادی فی ھدیتہ) اقول: ظاہر کلام العمادی انہ مکروہ تحریما و یفسق متعاطیہ، فانہ قال فی فصل الجماعۃ: و یکرہ الاقتد اء بالمعروف باکل الربا او شئی من المحرمات، او یداوم الاسرار علی شئی من البدع المکروہات کالدخان المبتدع فی ھذا الزمان ولا سیما بعد صدور منع السلطان. ( شامی، ص٦٠ ٤، جلد٦، ایچ ایم سعید )
میں (شامی) کہتا ہوں: شیخ عمادی کے کلام سے یہ ظاہر ہے کہ تمباکو نوشی مکروہ تحریمی ہے اور پینے والا فاسق ہے، کیونکہ شیخ عمادی نے فصل الجماعۃ میں کہا ہے: معروف سود خور یا حرام خور کی اقتداء مکروہ ہے، اور اس شخص کی اقتداء بھی مکروہ ہے جو چھپ کر مکروہ بدعات پر دوام کرتا ہے مثلا تمباکو نوشی جو اس دور میں ایجاد ہوا، پر دوام ( ہمیشگی) کرتا ہے، خاص کر سلطان ( بادشاہ وقت ) کے منع کرنے کے بعداگر استعمال کرتا ہے۔
علماء اہل حدیث(غیر مقلدین) اور تمباکو ( سگریٹ )نوشی:
شیخ مفتی محمد یوسف القرضاوی لکھتے ہیں :
١ اس میں نشہ کا پایا جانا اگرچہ یہ نشہ بہت قلیل مقدار میں ہوتا ہے اور اس کا احساس اس شخص کو کم از کم ضرور ہوتا ہے جس نے ابھی سگریٹ پینے کی ابتداء کی ہو، اور یہ ایک شرعی قاعدہ ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے،اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے، اس قاعدہ کی بنیاد پر سگریٹ بھی حرام ہے کیونکہ اس میں قلیل مقدار میں نشہ موجود ہوتا ہے،یا کم از کم اس میں ذہن کو مدہوش کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
٢ اس میں مالی اور جسمانی دونوں قسم کے نقصان کا پایا جانا، اس بات سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ سگریٹ انسانی صحت کیلئے کس قدر مہلک ہے، اس کے نقصان کا اندازہ ان رپورٹوں سے لگایا جا سکتاہے جو وقتاً فوقتا مغربی ممالک کے محققین نشرکرتے ہیں کہ سگریٹ نوشی کی وجہ سے کتنے لوگ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے اور کتنے لوگ موت کے منہ میں چلے گئے، اسلامی شریعت کا یہ اصول ہے کہ ہر وہ چیز جس میں انسانی جسم و جان کیلئے نقصان کا عنصر نمایاں ہو ، وہ چیز حرام ہوتی ہے، شراب کو جب اللہ نے حرام کیا تو اس کی حرمت کی وجہ یہی بتائی کہ اس میں نقصان کا عنصر اس کے فائدے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اسی طرح اس میں مالی نقصان بھی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ سگریٹ نوشی سراسر فضول خرچی ہے، سگریٹ پینے والا ہر دن نہ جانے کتنے روپے کا سگریٹ پھونک ڈالتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فضول خرچی سے منع فرمایا ہے۔ فضول خرچ کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:ولا تبذر تبذیرا، ان المبذ رین کانوا اخوان الشیاطین. ( بنی اسرائیل٢٧) فضول خرچی نہ کرو، فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔
٣سگریٹ نوشی جسم انسانی کیلئے مضر بھی ہے اور مہلک بھی ہے۔
٤ اگر یہ فضول خرچی نہیں تو کم از کم مال کی بربادی ضرورہے، اس مال کو کسی اچھے کام میں خرچ کیاجا سکتاہے۔
٥ اس کی بوان لوگوں کیلئے تکلیف دہ ہوتی ہے جو سگریٹ نہیں پیتے۔
٦ سگریٹ نوشی بہ ہر حال شرافت اور اخلاق حمیدہ کے خلاف ہے۔
٧ سگریٹ نوشی بہتر عبادات کی ادائیگی میں مانع ہے۔
٨ سگریٹ کے عادی کو کچھ دنوں کیلئے سگریٹ نہ ملے تو وہ ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے، ایک حنفی عالم دین الشیخ ابو سہل محمد الواعظ فرماتے ہیں کہ ان سب دلیلوں کی بنیاد پر سگریٹ نوشی کو حرام قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ حرام نہ بھی ہو تو اس کے مکروہ ہونے سے انکار نہیں کیاجا سکتا۔
شیخ موصوف القرضاوی سگریٹ کو جائز ماننے والے علماء کے دلائل میں عدم جواز کی علتیں ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
اگر سگریٹ نوشی کی وجہ سے کسی کو نقصان ہو رہا ہو تو اس کیلئے سگریٹ حرام ہے۔
علماء کرام کی مختلف رائیوں اور ان کی دلیلوں کو سننے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تمام علماء کرام کااس بات پر اتفاق ہے کہ ہر وہ چیز جس میں جسمانی یا مالی نقصا نات ہوں وہ شرعا نا جائز ہے، البتہ ان علماء کے درمیان اختلاف اس بات پر ہے کہ سگریٹ کے اندر جسمانی اور مالی نقصانات ہیں یا نہیں ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ تحقیق و جستجو کے بعد اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ سگریٹ کے اندر جسمانی اور مالی نقصانات موجود ہیں تو تمام علماء اس پر متفق ہو جائیں گے کہ سگریٹ شرعا جائز نہیں ہے۔
( فتاویٰ یوسف القرضاوی، ص٣١٠ تا٣١٢، جلد اول، دارالنوادرلاہور)
مفتی موصوف القرضاوی لکھتے ہیں:
اسلامی شریعت کا عام قاعدہ یہ ہے کہ مسلمان کے لئے کسی ایسی چیز کا کھانا پینا جائز نہیں جو اسے فوراً یا آہستہ آہستہ ہلاک کر دے، مثلا ہر قسم کا زہریا اور کوئی مضر چیز، اسی طرح بکثرت کھانا پینا بھی جائز نہیں کہ بسیار خوری کے نتیجہ میں بیمار پڑ جائے ،مسلمان کی تحویل میں صرف اس کا نفس ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کا دین ، اس کی ملت ، اس کی زندگی ، اس کی صحت، اس کا مال اور اللہ کی ساری نعمتیں اس کے پاس امانت ہوتی ہے، لہذا ان کو ضائع کرنا جائز نہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ولا تقتلوا انفسکم، ان اللہ کان بکم رحیما.( النسائ: ٢٩)
اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقینا اللہ تم پر مہربان ہے ۔اور فرمایا: ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ.( البقرۃ ١٩٠) اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا ضرر ولا ضرار. ( سنن ابن ماجہ ، کتاب الاحکام، باب من بنی فی حقہ ما یضر بجارہ) ضرر پہنچانا اپنی تمام صورتوں کے ساتھ نا جائز ہے۔
اس اصول کی مناسبت سے ہم کہتے ہیں کہ تمباکو اگر استعمال کرنے والے کیلئے مضر ثابت ہو رہا ہو تو حرام ہے ، خاص طور سے جبکہ ڈاکٹر کسی خاص شخص کے بارے میں یہ بتلائے کہ تمباکو کا استعمال اس کیلئے نقصان دہ ہے۔
( اسلام میں حلال و حرام، ص٩٩،١٠٠، مکتبہ اسلامیہ لاہور)
درج بالا عبارت کے حاشیہ پر محشی رقم طراز ہے :
ہم کہتے ہیں کہ تمباکو نوشی حرام ہے، نامور محقق نے کئی وجوہات و مفاسد اور مختلف دلائل کے تناظر میں اس کی حرمت ثابت کی ہے۔ دیکھئے اعلام بنقد کتاب الحلال والحرام للفوزان، ص١٥،١٦،
( اسلام میںحلال و حرام، ص١٠٠،مکتبہ اسلامیہ لاہور)
شیخ ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:
ایک حدیث میں آیا ہے،نھی رسول اللہ ﷺ عن کل مسکر و مفتر'' یعنی نشہ آور اور دماغ میں فتور لانے والی چیزوں سے آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا ہے،تمباکو میں سکر نہیں مگر فتور ضرور ہے،جو شخص اس کو پیتا ہو وہ پہلی دفعہ کھائے پئے تو اس کے دماغ میں ضرور چکر آتا ہے،پس اگر یہ حدیث صحیح ہے تو کچھ شک نہیں کہ تمباکو اس میں داخل ہے،............تاڑی ،بھنگ ، افیون وتمباک مسکر ومفتر کے حکم داخل ہیں،کیونکہ اصول کا مسئلہ ہے، ان الحکم یدور مع العلۃ والعلۃ فی تحریم الخمر الاسکار فمھما وجد الاسکار وجد التحریم.
(فتاویٰ ثنائیہ،ص١١٢،١١٥،ج٢، باب ہفتم،مکتبہ ثنائیہ سرگودھا)
شیخ ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد لکھتے ہیں :
واضح رہے کہ تمباکو نوشی کے متعلق قرآن و حدیث میں صراحت کے ساتھ کوئی نص وارد نہیں ہے، کیونکہ یہ عہد نبوت سے بہت بعد کی دریافت ہے، البتہ شریعت اسلامیہ میں حلال و حرام کے متعلق جو عام اصول بیان ہوئے ہیں ان کے پیش نظر تمباکو کا استعمال حرمت کی زد میں آتا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلا م نے ہر اس چیز کو حرام قرار دیا ہے جو انسان کی صحت کے لئے نقصان دہ ہو یا پڑوسی کے لئے اذیت رساں یا اپنے مال کے ضیاع کا باعث ہو، تمباکو نوشی میں یہ تمام چیزیں پائی جاتی ہیں۔ اس بنا پر اس کا استعمال حرام اور نا جائز ہے، خواہ سگریٹ ، سگار یا پائپ کی شکل میں ہو یا حقہ، پان اور بیڑی کی شکل میں ہو............. تمباکو نوشی کے مذکورہ بالا مفاسد کے پیش نظر اکثر علماء نے اس کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے، بعض اہل علم نے اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی تالیف کی ہیں ، ان علماء میں مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز، شیخ محمد ابراہیم، شیخ عبدالرحمن بن ناصر السعدی، شیخ عبدالرزاق عفیفی اور شیخ ابو الجزائری سرفہرست ہیں ، مختصر یہ ہے کہ تمباکو نوشی سے جو جسمانی، مالی، اخلاقی اور معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں ان کے پیش نظر اس کا استعمال ہر طرح سے نا جائز اور حرام ہے، عقل مند اور صاحب بصیرت انسان کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔
.( فتاویٰ اصحاب الحدیث ،ص٤٢٧،٤٢٩، مکتبہ اسلامیہ لاہور)
الدکتور الشیخ وھبۃ الزحیلی لکھتے ہیں :
والواقع، لا تقل مرتبۃ التدخین عن الکراہۃ اوالکراہۃ التحریمیۃ، و قد یصبح التدخین حراما اذا ثبت ضررہ بالنفس أو المال أو کان المدخن محتاجا الی المال لا نفاقہ علی قوتہ او قوت اہلہ او ملبسہ او ملبس اہلہ و عیالہ۔و قد حرم الاباضیۃ التبغ، لانہ من الخبائث، و اصدرت دولۃ ایران عام ١٩٩١م امراً بمنعہ و تحریمہ و منع توظیف المدخنین، و قد ذکر الشیخ محمد بن جعفر الکتانی فی کتابہ: حکم التدخین عند الائمۃ الاربعۃ و غیرہم سبعۃ عشر دلیلا علی تحریم الدخان، و ابان المفاسد الکثیرۃ المرتبۃ علی الدخان، و اورد فتاویٰ علماء المذ اہب الاسلامیۃ بالتحریم، و ناقش ادلۃ المبیحین بالتحریم، منھا:
١۔ الدخان من الخبائث المحرمۃ بنص الکتاب، والخبائث: کل ما تستکرھہ النفوس و تنفر منہ،
٢۔ الدخان مضر بالابدان ضرراً بینا لا شک فیہ، ولا شبھۃ الآن عند الحکماء و ھو من اھم اسباب سرطان الرئۃ والقلب وغیر ذالک من الامراض الخطیرۃ او المنتنۃ۔
٣۔ الدخان مؤذ بدخانہ الخبیث و رائحتہ المنتنۃ لمن لا یتعاطاہ من زوجۃ او زوج و صاحب۔
٤۔ الدخان مؤذ برائحتہ و نتنہ للحفظۃ الکرام الکاتبین وغیرہم من الملائکۃ المکرمین۔
٥۔ الدخان مضر بدین صاحبہ، شاغل لہ عن سلوک المسالک التی یرتقی بھا۔
٦۔ الدخان فیہ افساد للجسم والبدن و تخد یر لہ و تفتیر
بالتجربۃ والمشاہدۃ۔
٧۔ الدخان مع کونہ مفترا، ای مخد راً للجفون والاطراف، قد یحصل الأسکار منہ لبعض الناس فی ابتداء التعاطی، و قد نہی النبی ﷺ عن کل مسکر و مفتر۔
٨۔ فیہ اسراف و تبذیر، وھو اضاعۃ المال من أی نوع کان بأتلافہ و أنفاقہ فی غیر فائدۃ دینیۃ ولا مصلحۃ دنیویۃ۔
٩۔ فیہ عبث ولھو، وھو حرام عند الحنفیۃ.
( الفقہ الاسلامی و ادلتہ ، ص٥٥٠٦ ،جلد ٧، رشیدیہ کوئٹہ)
خلاصہ یہ ہے کہ سگریٹ ( تمباکو) نوشی کا مرتبہ کراہت یا کراہت تحریمی سے کم نہیں ، اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ تمباکو ( سگریٹ) نوشی سے کسی کے نفس یا مال کو نقصان پہنچتا ہے، یا پینے والا خود مال کا محتاج ہے کہ جسے وہ اپنے کھانے پینے یا اہل و عیال کے کھانے پینے میں خرچ کرے یا اسے خود یا اہل و عیال کو کپڑوں کی حاجت ہو تو اس صورت میں تمباکو (سگریٹ) نوشی حرا م ہو جاتی ہے۔
فرقہ اباضیہ نے تمباکو کو حرام قرارد یا ہے، کیونکہ یہ خبیث ہے، اور حکومت ایران نے ١٩٩١ئ میں تمباکو (سگریٹ) نوشی کو حرام قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی تھی اور پینے والے کی تنخواہ روک دی تھی، شیخ محمد بن جعفر الکتانی نے اپنی کتاب میں آئمہ اربعہ وغیرہ کے اقوال سے سگریٹ نوشی کی حرمت پر سترہ دلائل ذکر کئے ہیں، اور اس کے تمام مفاسد بھی ذکر کئے ہیں، اور مذاہب اسلامیہ کے علماء کی طرف سے حرمت کا فتویٰ بھی پیش کیا، اور جائز ماننے والوں کے دلائل کا حرمت سے مقابلہ کیا، ان دلائل میں سے چند یہ ہیں:
١۔ سگریٹ نوشی ان خبیث اشیاء میں سے ہے جن کی حرمت بنص قرآن ثابت ہے،خبائث ہران چیزوں کو کہا جا تا ہے جن کو نفوس (طبیعت)مکروہ (نا پسندیدہ)سمجھتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں۔
٢۔ سگریٹ نوشی سے بدن کو ضرر(نقصان) پہنچتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں،اور اب تو کوئی شک و شبہ ہی نہ رہا کیونکہ حکمائ(ڈاکٹر حضرات)نے اب یہ ثابت کردیاہے کہ سگریٹ نوشی دل اور پھیپھڑوں کے مرض سرطان کا سبب ہے،(اس مرض سے دل اور پھیپھڑے بہت جلدی ختم ہوجاتے ہیں) اس کے علاوہ بھی بہت سے خطرناک اور بدبودار امراض کا سبب ہے۔
٣۔ سگریٹ نوشی کے خبیث اوربدبو دار دھویں سے پینے والوںاور نہ پینے والوں خواہ اس کی بیوی ہو یا شوہر یا ساتھ بیٹھنے والا کوئی ساتھی کو تکلیف ہوتی ہے۔
٤۔سگریٹ کے بدبو سے کراماً کاتبین اور دیگر مکرم فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
٥۔ سگریٹ پینے سے پینے والے کے دین کو نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ تمباکو نوشی اسے اس راہ سلوک سے غافل کردیتا ہے جس کے ذریعے وہ ولایت کے مقامات طے کر سکتا ہے۔
٦۔ مشاھدہ اور تجربہ سے ثابت ہے کہ تمباکو نوشی جسم میں فساد اور دماغ میں فتور(سستی)لاتا ہے۔
٧۔ سگریٹ(تمباکو)نوشی مفترہے،یعنی آنکھوں اور دیگر اعضاء کو سن کردیتا ہے،اور ابتدائی مراحل میں اس کو استعمال کرنے والے پر نشہ آتا ہے، حالانکہ آپ ﷺ نے ہر نشہ آور اور فتور(سستی) لانے والے اشیاء سے منع فرمایا۔
٨۔ سگریٹ( تمباکو) نوشی میں فضول خرچی اور اسراف ہے، جو اپنے کسی بھی مال کو ضائع کرنا اور بے جا خرچ کرنا ہے جس میں نہ دنیاوی فائدہ ہوتا ہے نہ اخروی۔
٩۔ تمباکو(سگریٹ) نوشی لہو و لعب (فضول کام) ہے، جو احناف کے نزدیک حرا م ہے۔
شیخ سید نذیر حسین محدث دہلوی لکھتے ہیں:
حقہ نوشی ایک مضر چیز ہے،اور اس کا ضرر ظاہر ہے،جو شخص حقہ کا عادی نہ ہے،وہ پانچ چھ کش اچھی طرح کھینچ کر دیکھ لے دماغ چکر کھانے لگتا ہے، آسمان اور زمین اور ساری چیزیں گھومتی نظر آنے لگتی ہے، نفسانی اور جسمانی قویٰ اور افعال میں خلل پیدا ہو جاتا ہے، اس حالت میں حقہ کش بجز اس کے کہ اپنے سر کو تھام کر چپ بیٹھ جائے یا زمین پر پڑ جائے، کوئی اور کام کرنے کے قابل نہیں رہتا،اور یہی حالت تمباکو کھانے میں بھی ہوتی ہے،پس ایسی مضر چیز کو شریعت کب جائز رکھ سکتی ہے، اور حقہ کشی اور تمباکو خوری کی عادت ہوجانے سے اس کا اصلی ضرر اور اس کا اثر مرتفع نہیں ہوتا ہے،بلکہ اس کا ضرر محسوس نہیں ہوتا، دیکھو جب لوگ افیون کی زیادہ مقدار کھانے کے عادی ہوجاتے ہیں،ان کو افیون کا ضرر محسوس نہیں ہوتا،مگرکیا افیون کا جو ضرر ہے ،وہ ان سے مرتفع ہوجاتا ہے،ہم نے مانا کہ تمباکو جیسی مضر چیز کی عادت کر لینے سے اس کا ضرر مرتفع ہو جا تا ہے، لیکن شریعت نے اس کی کہاں اجازت دی ہے کہ ایسی مضر چیز کو استعمال کرکے اس کے عادی بنو،اور اپنے تئیں اس کا ایسا محتاج بنا کر رکھو کہ بغیر اس کے راحت اور چین میں خلل واقع ہو،وقت پر نہ ملنے سے پیٹ پھول جائے، پائخانہ نہ آئے ،کسل وکاہلی اور بدمزگی پیدا ہو، علاوہ بریں حقہ پینے میں بجز اس کے کہ منہ سے بدبو آوے،اور کچھ مال اور وقت ضائع ہو...................اور یہ مسئلہ کہ ہر شے میں اصل اباحت ہے علی الاطلاق نہیں ہے،بلکہ ان اشیاء میں اصل اباحت ہے جو مضر نہیں ہیں،اور جو اشیاء مضر ہیں ان میں اصل اباحت نہیں،فتح البیان کی عبارت میں لفظ'' من غیر ضرر'' اس مدعی پر صاف دلالت کرتا ہے اور معلوم ہوا کہ تمباکو ایک مضر شے ہے، پس تمباکو اس مسئلہ کے تحت میں داخل ہوکر مباح نہیں ہو سکتا۔ہذا من عندی واللہ اعلم
(فتاویٰ نذیریہ ،ص٣٢٤،٣٢٥،ج٣،کتاب الاطعمہ والصید،مکتبۃ المعارف الاسلامیہ گوجرانوالہ)
علماء دیوبند اور تمباکو(سگریٹ )نوشی:
مفتی رشید احمد محدث گنگوہی لکھتے ہیں:
حقہ اور تمباکو کی بدبو سے مسجد میں آنا حرام.................حقہ پینے والے کے منہ میں بدبو ہو اور درود شریف پڑھے تو گنہگار ہوگا۔فقط رشید احمد
(فتاویٰ رشیدیہ،ص١٣٠،حصہ دوم،میر محمد کراچی)
مفتی موصوف دوسری جگہ لکھتے ہیں:
تماکو فروخت کرنا مکروہ ہے،گو مال ہونے کی وجہ سے قیمت حرام نہیں مگر کراہت کی وجہ سے اعانت مکروہ کی ہے۔
(تذکرۃ الرشید،ص١٨٨،ج١،مکتبہ بحر العلوم کراچی)
شیخ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
تیز تمباکو کہ پیتے پیتے نشہ ہوجاتا ہے اور شراب کی سی مدہوشی ہو جاتی ہے،اس کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں،حاصل یہ کہ کوئی حقہ زیادہ مکروہ ،کوئی کم مکروہ ،کوئی حرام ...............بہرحال پینے والا اس کا گناہ سے خالی نہیں اور اصرار گناہ پر سخت گناہ ہے،اور اکثر اہل کشف ورویائے صادقہ کے اقوال سے معلوم ہوا کہ اس کا پینے والا محفل مبارک نبوی ﷺ میں دخل نہیں پاتا، اور بعضوں نے اس کے پینے والوں کو معذب بھی دیکھا ہے، اعاذنا اللہ منہ،
(امداد الفتاویٰ،ص٩٨،٩٩،ج٤،مکتبہ دارالعلوم کراچی)
شیخ محمد شاہ انور شاہ کشمیری محدث دیوبند لکھتے ہیں:
وقع فی بعض الکتب من حرمۃ التتن او التمباک فالوجہ فیہ انھم صرحوا ان المباح فی نفسہ قد یصیرحراماً من حکم الامیر من جھۃ ان اللہ امر بطاعتھم فقال اطیعوااللہ و اطیعواالرسول و اولی الامر منکم .فحینئذ لو رأی الامیر ان یمنع الناس عن اکل شئی لمصلحۃ بد ت لہ یجب علیھم ان لایأکلوہ و یحرم علیھم الا ان تلک الحرمۃ تقتصر علیٰ مد ۃ امارتہ فقط ولا یتجاوزھا فھی حرمۃ مؤقتۃ ومن ھذ ا الباب تحریم التمباک.
(فیض الباری ،ص٣٢٠،ج٢،باب ما جاء فی الثوم النئی،حقانیہ پشاور)
بعض کتابوں میں تمباکو نوشی کی حرمت آئی ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء نے تصریح کی ہے کہ مباح(جائز )چیز امیر(بادشاہ)وقت کے حکم پرکبھی کبھی حرام ہو جاتی ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان (امرائ)کی اطاعت کا امر(حکم ) دیا ہے، جیسا کہ فرمایا:اللہ تعالیٰ ،رسول اللہ اور امیر وقت کی اطاعت کرو،اس لئے اگر امیر (بادشاہ) وقت کسی چیز میں مصلحت دیکھتے ہوئے لوگوں کو اس کے کھانے سے منع کریں تو لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اس چیز کو نہ کھائے،اور وہ چیز ان پر حرام ہوجائے گی،مگر یہ کہ یہ حرمت اس بادشاہ(امیر)وقت کی امارت تک محدود ہوگی ،اس سے آگے نہ بڑھے گی،اسی طرح تمباکو کی حرمت ہے۔
مفتی محمود لکھتے ہیں:
حقہ نوشی اگر چہ صغیرہ گناہ ہے، لیکن اس پر اصرار کرنا اور ہمیشہ اس کا ارتکاب کرنا صغیرہ نہیں بلکہ اس سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے۔
(فتاویٰ مفتی محمود،ص٢١٢،ج٢،باب الامامت،جمعیت پبلیکیشنز لاہور)
مفتی محمود حسن گنگوہی لکھتے ہیں:
اسی طرح شوقیہ بغیر دواء کے استعمال ناجائز ہے،اس کے علاوہ کوئی دوسری دوا جائز کارآمد ہو سکتی ہو تب بھی ناجائز ہے۔
قال الشرنبلالی وعلی ھذا البدعۃ التی ظھرت الآن وھو الدخان اھ قال وھوالذی فی الاشباہ فی قاعدۃ الاصل الاباحہ او التوقف ویظھر اثرہ فیما اشکل حالہ کالحیوان المشکل امرہ والنبات المجھول اسمہ اھ قلت فیفھم منہ حکم النبات الذی شاع فی زماننا المسمیٰ بالتتن فتنبہ.
(فتاویٰ محمودیہ ،ص٢٩٨،ج٨،کتب خانہ مظہری کراچی)
مفتی موصوف دوسری جگہ لکھتے ہیں:
جس تمباکوسے نشہ ہوتاہے ا سکاکھانا(پان میںہویااورطرح سے)پینا(حقہ، بیڑی، سگریٹ کسی طرح ہو)ناجائز ہے،نسوار سے اگر نشہ ہوتا ہے تو وہ بھی ناجائز ہے۔
(فتاویٰ محمودیہ ،ص٨٧،ج٥،کتب خانہ مظہری کراچی)
مفتی موصوف دوسری جگہ لکھتے ہیں:
بلا ضرورت (سگریٹ)شوقیہ پینا مکروہ ہے۔
(فتاویٰ محمودیہ ،ص١٢٢،ج٥،کتب خانہ مظہری کراچی)
مفتی محمد انور لکھتے ہیں:
حقہ و سگریٹ کا بلا ضرورت پینا مکروہ ہے۔
(خیر الفتاویٰ،ص٧٤،ج٢ ،امدادیہ ملتان)
شیخ محمد عاشق الہی میرٹھی لکھتے ہیں:
ایک مرتبہ حقہ نوشی کا مسئلہ چھڑا ،آپ(شیخ گنگوہی)نے فرمایا:حقہ پینا مکروہ ہے۔ (تذکرۃ الرشید،ص٧٩،ج٢،مکتبہ بحرالعلوم جونا مارکیٹ کراچی)
مفتی رشید احمد لدھیانوی لکھتے ہیں:
ایسی بدبو دار چیزوں کو مسجد میں لانا یا نماز کی حالت میں جیب میں رکھنا جائز نہیں۔ (احسن الفتاویٰ،ص٤١٤،ج٣،ایچ ایم سعید کراچی)
مفتی محمد یوسف لدھیانوی لکھتے ہیں:
سگریٹ،نسوار ،تمباکو بلا ضرورت مکروہ ہے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل،ص١٨٢،ج٧،مکتبہ لدھیانوی)
مفتی موصوف دوسری جگہ لکھتے ہیں:
بندہ کے نزدیک عام حالت میں سگریٹ مکروہ تحریمی ہے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل،ص٢٨٠،ج٨،مکتبہ لدھیانوی)
مولانا مفتی خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں:
اسی طرح تمباکو نوشی اور تمباکو خوری بھی کراھت سے خالی نہیں،گو بعض علماء نے اس کی حرمت اور بعض نے اس کی اباحت کا فتویٰ دیا ہے، علامہ عمادی نے تمباکو نوشی کرنے والے کی امامت کو مکروہ قرار دیا ہے، اور مسجد میں تو اس کا استعمال مکروہ ہے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔تمباکو کی ممانعت کی وجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کی وہ وایت ہے ''نھی عن کل مسکر و مفتر'' مفترسے مراد ہر ایسی چیز ہے جو جسم کوضعف و نقصان پہنچانے والی ہے، غرض تمباکو ، زردہ ،سگریٹ، بیڑی اور حقہ کی عادت کراہت سے خالی نہیں۔
(حلال و حرام،ص١٧٠،١٧١،زمزم پبلشرز)
شیخ غلام المصطفیٰ اخند زادہ حقانی لکھتے ہیں:
پیچیدہ تمباک خشک (سگریٹ)را نوشیدن مثل حقہ نوشیدن مکروہ تحریمی است بلا ریب بلا شک،ودر پیچیدہ تمباک خشک بسبب مشابہت نصاریٰ شیادہ تر کراہیت است۔ (مفتاح الفتاویٰ،ص٢٠٥،دینی کتب خانہ لورا لائی)
الشیخ ابو عبد الرحمٰن حاجی ملا غلام حیدر الحنفی لکھتے ہیں:
حقہ نوشی و استعمال سگریٹ ونسوار در شریعت محمدی بوجہ بد بوئی وفضول خرچی
مکروہ تحریمی است،عالمگیری،فتاویٰ شہابیہ،ص١٠٥،.............پیچیدہ تنباک خشک یعنی چرٹ را نوشیدن مثل حقہ نوشیدن مکروہ تحریمی است ،بلا ریب و بلا شک در پیچیدہ تنباک خشک بسبب مشابہت نصاریٰ زیادہ تر کراہت است۔ (درر الفرائد،ص٢١٤)
حقہ نوشی اور استعمال سگریٹ ونسوار فضول خرچی اور بد بو کی وجہ سے شریعت محمدی میں مکروہ تحریمی ہے،اور سگریٹ پینا حقہ کی طرح یقیناً مکروہ تحریمی ہے اور سگریٹ میں نصاریٰ (عیسائیوں)کے ساتھ مشابہت ہے اس لئے اس میں کراہت زیادہ ہے۔
علماء بریلوی اور تمباکو (سگریٹ)نوشی:
مسلک بریلوی کے امام اعلیٰ حضرت محدث بریلوی لکھتے ہیں:
وہ حقہ جو بعض جہال بعض بلاد ہند ماہ رمضان مبارک شریف میں وقت افطار پیتے اور دم لگاتے اور حواس و دماغ میں فتور لاتے اور دیدہ ودل کی عجب حالت بناتے ہیں بیشک ممنوع وناجائز وگناہ ہے،اور وہ بھی معاذاللہ ماہ مبارک میں،اللہ عزوجل ہدایت بخشے،رسول اللہ ﷺ نے ہر مفتر چیز سے نہی فرمائی ،اور اس حالت کے حالت تفتیر ہونے میں کچھ کلام نہیں ،احمد وابوداؤدبسند صحیح،عن ام سلمۃ رضی اللہ عنھا قالت نھی رسول اللہ ﷺ عن کل مسکر ومفتر۔واللہ تعالیٰ اعلم۔رسول اللہ ﷺ نے ہر نشہ کرنیوالی اور دماغ میں خلل ڈالنے والی چیز سے منع فرمایا۔
(احکام شریعت،ص٢٨٥،شبیر برادرز لاہور)
فقیہ الہند حضرت شاہ محمد مسعود محدث دہلوی لکھتے ہیں:
واما ضرر تمباکو کہ مضر دل ودماغ ،حار یابس ومحرور المزاج و سوداوی ومورث سدہ و خفقان وتکسر حواس اند، پس بنظر بہ علت ضرر نوشیدن حقہ حرام لغیرہ اعنی مکروہ تحریمی است۔
ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا(الاعراف:٥٦) ھذہ الآیۃ تدل علیٰ ان الاصل فی المضار الحرمۃ والمنع علی الاطلاق(تفسیرکبیر،سورۃالاعراف،زیرآیت،٥٦،ص٢٤٥،ج٤)۔۔۔
ولیکن بوقت ضرر مکروہ تحریمی خواہد شد۔
(فتاویٰ مسعودی،ص٥٩٥،٥٩٦،سرہند پبلی کیشنز کراچی)
چونکہ تمباکو نوشی سے دل ودماغ اور بعض خشک مزاج کو ضرر(تکلیف)پہنچتی ہے ، اور اس سے حواس پر فتور (سستی)آتی ہے،اس لئے ضرر کی علت کو دیکھتے ہوئے حقہ (سگریٹ)نوشی حرام لغیرہ یعنی مکروہ تحریمی ہے۔
ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا.کی تفسیر میں امام رازی لکھتے ہیں:اس آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ ضرر دینا حرام ہے اور اس (ضرر)سے مطلقاً منع کیا جائے گا۔اور تمباکو نوشی ضرر کی وجہ سے مکروہ تحریمی قرار دیا جا ئے گا۔
مفتی عبد الواجد قادری لکھتے ہیں:
اگر تمباکو نوشی اور تمباکو خوردنی وغیرہ سے جسمانی ضرر کا ظن غالب ہو تو اس کا استعمال مکروہ تحریمی ہے، قال اللہ تعالیٰ:ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ۔ (فتاویٰ یورپ ،ص٤٩٥،شبیر برادرز لاہور)
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:
تمباکو نوشی کو عادت بنا لینا اور مستقل تمباکوپینا جائز نہیں،کیونکہ اب جدید میڈیکل سائنس کی اس تحقیق کو تمام دنیا میں تسلیم کر لیا گیا ہے کہ تمباکو نوشی انسانی صحت کے لئے مضر ہے، تمباکو پینے سے بالعموم لوگوں کو کھانسی ہو جاتی ہے، یہ ایک عام مشاھدہ ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ،تمباکو سے پھیپھڑوں کی بیماریاں پیدا ہوتی ہے،خون کی شریانیں تنگ ہوجاتی ہے،بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے،کینسر ہوجاتا ہے،اور بہت امراض پیدا ہوتے ہیں،ہمارے پاس یہ جسم اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، ہمیں اس جسم کو نقصان پہنچانے کا کوئی حق نہیں ہے، اور ہر وہ چیز جس سے اس جسم کو نقصان پہنچے، اس سے احتراز لازم ہے ، اوراس کا ارتکاب ممنوع ہے۔
(تفسیرتبیان القرآن ،ص٣٠٦،ج٣،فرید بک اسٹال لاہور)
سگریٹ (تمباکو)نوشی سے وضو ٹوٹ جاتا ہے:
عزیز قارئین :گزشتہ سطور سے یہ معلوم ہوا کہ سگریٹ اور تمباکو نوشی سے بعض دفعہ اتنا نشہ آجاتا ہے کہ انسان چکرا کر گر جا تا ہے،اور اس کے چلنے کی رفتار میں تمایل آجاتاہے،یعنی چلتے وقت وہ عام حالت کی طرح نہیں چل سکتا،بلکہ کبھی راستے کے ایک طرف گرتا ہے اور کبھی دوسری طرف،اس لئے اگر کسی پر تمباکو ،سگریٹ نوشی کی وجہ سے اس طرح کی کیفیت آجائے تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا،کیونکہ فقہاء کرام (احناف) فرماتے ہیں کہ اگر کسی پر مذکورہ کیفیت طاری ہوجائے تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔
علامہ سدید الدین الکاشغری لکھتے ہیں:
وکذا السکر.........وقال فی المحیط انہ اذا دخل فی بعض مشیہ تحرک فھو سکران.(منیۃ المصلی،ص ٦٢،مکتبۃالحرم لاہور)
اور اسی طرح نشہ (بھی ناقض وضوء ہے) ،اور محیط میں ہے جب کسی کے چلنے میں تحرک (لڑکھڑاہٹ) آجائے تو یہ (ا نسان) نشہ ہے۔
شیخ ابراہیم الحلبی لکھتے ہیں:
والصحیح فی حدہ فی النقض ما قال فی المحیط انہ اذا دخل فی مشیتہ بکسر المیم تحرک ای غیر اختیاری فھو سکران بالاتفاق یحکم بنقض وضوئہ .
(کبیری شرح المنیہ،ص١٢٣،فصل فی نواقض الوضوء ،نعمانیہ کوئٹہ)
وضوء توڑنے کے سلسلے میں نشے کی حد میں صحیح ترین قول وہ ہے جو محیط میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب کسی کے چلنے میں غیر اختیاری لڑکھڑاہٹ آجائے تو وہ شخص بالاتفاق نشہ ہے اور اس کے وضوء کے ٹوٹ جانے کا حکم لگا دیا جائے گا۔
علامہ شرنبلالی لکھتے ہیں:
وینقضہ (سکر)وھو خفۃ تعتری الانسان ،ویظھر اثرھا فی مشیتہ بالتمایل.
(امداد الفتاح،ص٩٥، فصل فی نواقض الوضوئ،صدیقی پبلشرز کراچی)
اور نشہ وضوء کو توڑ دیتا ہے ،اور (نشہ) یہ ہے کہ انسان پر سستی چھا جائے ،اور اس کا اثر اس کے چلنے میں لڑکھڑاہٹ کے ذریعے ظاہر ہوجائے۔
علامہ طحطاوی لکھتے ہیں:
وینبغی النقض بأکل الحشیشۃ اذ دخل فی مشیتہ اختلال .
(طحطاوی،ص٩١،فصل فی نواقض الوضوئ،قدیمی کراچی)
تمباکو کے استعمال سے جب کسی کے چلنے کی رفتار میں خلل واقع ہوجائے تو تمباکو پینے سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔
خلاصہ بحث :
عزیز قارئین:چونکہ شراب، ہیروئن،پاؤڈر،افیون ،بھنگ اور چرس وغیرہ وہ نشہ آور اور مہلک اشیاء ہیں کہ جن کے نقصانات اور حرمت یقینی ہے،لیکن تمباکو نوشی ،حقہ کشی، نسوار ،گٹکااور سگریٹ ایسی اشیاء کہ جن کے بارے میں دور حاضر کے علماء کی آراء مختلف تھیں (اگر چہ ان مذکورہ اشیاء کے نقصانات کسی اہل علم پر مخفی نہیں لیکن افسوس ہے کہ بعض علماء جوکہ تحقیقی سوچ کے بجائے لکیر کے فقیر بننے ہی میں سعادت سمجھ رہے ہیں اس لئے انہوں نے ان کے نقصانات پر باخبر ہونے کے باوجود ان کومباح ہی قرار دیا ہے،حالانکہ جن فقہاء نے ان کو مباح لکھا ہے اگر وہ ان کے ان نقصانات جو آج کی تحقیق سے منظر عام پر آگئے ہیں کو دیکھتے تو وہ ان اشیاء پر حرمت ہی کا حکم لگاتے)اس لئے بندہ ناچیز نے ان ہی اشیاء پر تحقیق کرکے ہدیہ قارئین کردیا کہ حقہ،نسوار، تمباکو (سگریٹ) نوشی اگر حرام نہیں تو مکروہ تحریمی ضرور ہے،اس لئے مسلمانوں کو اس ضرر رساں اور مہلک اشیاء سے بچنا چاہئے ۔
ھذا من عندی واللہ اعلم بالصواب
سید محمد منور شاہ سواتی
رمضان المبارک ١٤٢٨ھ
ستمبر ٢٠٠٧ئ
Post a Comment