رفع القلق فی تحقیق الشفق

 

نماز عشاء کے ابتدائی وقت کے متعلق ایک

تحقیقی فتویٰ

 

 

تالیف

مفتی سید محمد منورشاہ سواتی

 

 

 

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

سبب تالیف

نحمدہ ونصلی ونسلم علی حبیبہ الکریم اما بعد

 ایک طرف ارکان اسلام میں سے وہ رکن عظیم جو بموجب حدیث ایمان کی علامت ہے،یعنی نماز کی اہمیت اور دو سری طرف بعض علماء اور عوام کی غفلت کہ سالہا سال نماز پڑھتے گزارتے ہیں لیکن نماز کی شرائط میں سے وقت کا خیال نہیں رکھتے، ان حضرات کو بس اس بات کا خیال رہتا ہے کہ ہم پر نماز فرض ہے، جب دل نے چاہا پڑھ لی ،چاہے وقت داخل ہوچکا ہو یا نہ۔ عوام کی اس غفلت اور سستی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آئمہ مساجد یا تو نیم خواندہ ہوتے ہیں اس لئے اپنے مذہب(حنفی) سے باخبر نہیں، اور اگر بعض آئمہ مساجد فارغ التحصیل عالم دین ہوتے ہیں تو اپنی اپنی مساجد کے متعلقین حضرات کی وجہ سے حق بیان کرنے سے جھجکتے ہیں۔ دوسری طرف نماز کی صحیح اوقات کی عدم رعایت کا سب سے بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک پاکستان کے مختلف صوبوں اور اضلاع میں بیک وقت اوقات نماز کے مختلف نقشہ جات پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ نقصان ہوجاتا ہے کہ ایک نقشہ میں اگر کسی ٹائم پر نماز ادا کرنا جائز ہے تو دوسرے نقشہ کے مطابق نماز جائز نہیں۔ جس سے نماز جیسی اہم عبادت ضائع ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے، یہی اختلاف ہمارے ضلع سوات میں بھی برسوں سے چلا آرہا ہے کہ ایک ہی محلہ یا گاؤں کے بعض مساجد میں نماز ہوچکی ہوتی ہے جبکہ بعض مساجد میں اس وقت تک اس مسجد کے نقشہ کے بموجب اذان دینا جائز نہیں ہوتا، اور خاص کر یہ اختلاف نماز عشاء کے بارے میں ہے، اس اختلاف کے پیش نظر کافی عرصہ سے دل میں تمنا تھی کہ انشاء اﷲ نماز عشاء کے وقت کے بارے میں چند سطور لکھونگا جس میں یہ وضاحت کی جائے گی کہ مغرب کاآخری اورعشاء کا ابتدائی وقت کب ہوتا ہے اور اس میں ہمارے آئمہ احناف رحمھم اﷲ کا جو اختلاف ہے اس کو انصاف سے بیان کیا جائے گاتاکہ مسلمان (عوام وخواص) اس کو پڑھ کر احوط اور احتیاط پر مبنی مذہب پر عمل کرکے اپنی نماز کو ضائع نہ کرے۔

 الحمدﷲوہ تمنا اب پوری ہوگئی۔ بفضلہ تعالیٰ وبکرم رسولہ بندہ ناچیز نے اس اہم مسئلہ پر قلم اٹھایا اور یہ چند سطور ہدیہ ناظرین کردیئے۔ اس سلسلے میں ضلع سوات کے مختلف مکاتب فکر کے علماء و مدارس سے فتوے اور تقاریظ بھی حاصل کئے گئے تاکہ اس مسئلہ کی توثیق و تصویب ہوجائے اور ضلع سوات کے تمام مکاتب فکر کے علماء وعوام اس کو معمول بناکر عمل کریں، اور پنی نمازوں کی حفاظت کرےں ۔

 تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ جن مساجد میں مغرب کی اذان ٧ بجکر٣٥ یا ٤٠ منٹ پر ہوتی ہے تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ اور صاحبین کے نزدیک ان مساجد میں عشاء کی اذان ٩ بجے سے پہلے جائز نہیں، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ضلع سوات کے احناف علماء و آئمہ مساجد انہی مذکورہ دنوں میں عشاء کی اذان ساڑھے آٹھ بجے یا پونے نو بجے دیتے ہیں بلکہ نماز بھی ٩ بجے یا اس سے پہلے پڑھتے ہیں۔

 یہ چند سطور بندہ ناچیز نے فتویٰ کی شکل میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کی رضا کے لئے اورمسلک حنفی کی خدمت کی نیت سے لکھے ہیں۔

 بندہ ناچیز بارگاہ ایزدی میں دست بدعا ہے کہ یا اﷲ اس خدمت کو شرف قبولیت عطا فرماکر متعلقین کتاب کی اخروی نجات کا سبب بنا ۔

 (آمین بجاہ طہ ویٰس )

 العبد سید محمد منور شاہ شموزوی سواتی

 

 

 کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عشاء کی نماز کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟( یعنی غروب شمس کے بعد عشاء کا وقت کب شروع ہوتا ہے) مغرب اور عشاء کے وقت میں موسم کے مطابق کتنا ٹائم فاصل ہے؟ وضاحت فرمائیے اور فقہ کی کتابوں میں شفق سے مراد بیاض ہے یا حمرۃ، اور کس قول کو ترجیح ہوگی؟ اور عبادات میں فتویٰ کس امام کے قول پر دیا جائیگا؟ امام ابو حنیفہ یا صاحبین رحمھم اﷲ کے قول پر؟ مندرجہ بالا مسائل کا جواب تفصیلی عنایت فرمائیے۔ کیونکہ ہمارے دیار کی مساجد میں جو دائمی نقشہ برائے اوقات نماز ہے اس کے مختلف ہونے کی وجہ سے عشاء کی نماز میں تقدیم و تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے نماز ضائع ہونے کا خوف و خطرہ ہے۔ فقط

 المستفتی:سعید اکبر پورن

 متعلم: دارالعلوم حنفیہ نقشبندیہ شموزیئ سوات

باسمہ تعالی الجواب ومنہ التوفیق والصواب

 صورت مسؤلہ میں سب سے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ عبادات میں فتویٰ مطلقاً امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر دیا جائیگا۔

علامہ حصکفی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:

والا صح کما فی السراجیۃ وغیرھا انہ یفتی بقول الامام علی الاطلاق ثم بقول الثانی الخ۔

 (الدرالمختار،ص ٥٢، جلد اول، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

اصح بات یہ ہے کہ فتویٰ مطلقا امام اعظم رحمہ اﷲ کے قول پر ہوگا ،اس کے بعد دوسرے کے قول پر جیسا کہ سراجیہ وغیرہ میں ہے۔

علامہ شامی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:

اقول عبارتھا ثم الفتوی علی الا طلاق علی قول ابی حنیفۃ ثم قول ابی یوسف ثم قول محمد ثم قول زفر والحسن بن زیاد وقیل اذا کان ابو حنیفۃ فی جانب وصاحباھ فی جانب فالمفتی بالخیار والاول اصح اذالم یکن المفتی مجتھد ا......... (قولہ بقول الامام) قال عبداﷲ بن المبارک لانہ رأی الصحابۃ وزاحم التابعین فی الفتویٰ فقولہ اشد واقوی۔

 (فتاویٰ شامی ص ٥٢ جلد اول مطبوعہ رشیدیہ کوئٹہ)

میں کہتا ہوں کہ سراجیہ کی عبارت یوں ہے: فتویٰ مطلقا امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر پھر امام ابو یوسف رحمہ اﷲ کے قول پر پھر امام محمد رحمہ اﷲ کے قول پر پھر امام زفر اور حسن بن زیاد رحمھما اﷲ کے قول پر ہوگا۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ جب امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ ایک طرف اور آپ کے شاگرد دو سری طرف ہو تو مفتی کو اختیار ہے، لیکن پہلا قول اصح ہے جب کہ مفتی مجتھدنہ ہو، امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر فتویٰ اس لئے ہوگا کہ عبدا ﷲ بن مبارک رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ نے صحابہ کرام کا دیدار فرمایا، اور فتویٰ کے سلسلے میں تابعین سے مزاحمت فرمائی، اس لئے آپ کا قول مضبوط اور قوی ہے۔

علامہ شامی رحمہ اﷲ دوسری جگہ لکھتے ہیں:

قد جعل العلماء الفتویٰ علی قول الامام الاعظم فی العبادات مطلقا وھو الواقع الا ستقرائ۔ (فتاویٰ شامی، ص ٥٣، جلد اول، رشیدیہ کوئٹہ)

 علماء کرام نے عبادات میں فتویٰ مطلقا امام اعظم رحمہ اﷲ کے قول پر متعین فرمایا ہے۔

علامہ سراج الدین عمر بن اسحاق غزنوی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:

ثم الفتویٰ علی الا طلاق علی قول ابی حنیفۃ ثم بقول صاحبیہ ثم بقول ابی یوسف ثم بقول محمد بن الحسن ثم بقول زفر ابن الھزیل ثم بقول حسن بن زیاد وقیل اذا کان ابوحنیفۃ بجانب وصاحباھ فی جانب فالمفتی بالخیار والاول اصح اذالم یکن المفتی مجتھد ا لانہ کان اعلم العلماء فی زمانہ حتی قال الشافعی الناس کلھم عیال ابی حنیفۃ فی الفقہ۔

 (فتاویٰ سراجیہ، ص ١٥٧ ،مطبوعہ: المطبع العالی نولکشور لکھنؤ)

فتویٰ مطلقا امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر ہوگا ،پھر امام ابو یوسف پھر امام محمد بن حسن پھر امام زفر بن ھزیل پھر امام حسن بن زیاد رحمھم اﷲ کے قول پر، یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ ایک طرف اور صاحبین دوسری طرف ہو تو مفتی کو اختیار ہے، لیکن جب مفتی مجتھد نہ ہو تو پہلی بات اصح ہے (یعنی فتویٰ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر دیا کرے) کیونکہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ اپنے دور کے علماء میں اعلم (زیادہ جاننے والے) ہیں، یہاں تک کہ امام شافعی رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کی اولاد ہیں۔

علامہ ابراہیم بن محمد حلبی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:

جعل العلماء الفتویٰ علی قولہ فی العبادات مطلقا وھو الواقع بالاستقرائ. (غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی، ص٦٤، مذھبی کتب خانہ کراچی)

علماء کرام نے عبادات کے سلسلے میں فتویٰ مطلقاً امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر دیا ہے۔

شیخ ملا نظام رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :

اذا اتفق اصحابنا فی شیء ابو حنیفۃ وابو یوسف ومحمد رحمھم اﷲ لاینبغی للقاضی ان یخالفھم برأیہ واذا اختلفوا فیما بینھم قال عبداﷲ بن المبارک رحمہ اﷲ یؤ خذ بقول ابی حنیفۃ لانہ کان من التابعین وزاحمھم فی الفتویٰ کذا فی محیط السرخسی۔ (عالمگیری ،ص ٢١٥، جلد سوم، مطبوعہ نو لکشور)

جب ہمارے اصحاب (آئمہ احناف) یعنی امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمھم اﷲ کسی مسئلہ پر متفق ہوجائیں تو قاضی (ومفتی) کو اپنی رائے سے ان کی مخالفت کرنا مناسب نہیں۔ اور جب آئمہ احناف (کے اقوال کسی مسئلہ میں) آپس میں مختلف ہو تو عبداﷲ بن مبارک رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کا قول لیا جائے گا،کیونکہ آپ تابعین میں سے ہیں اور تابعین کے ساتھ فتویٰ میں اختلاف (مزاحمت) فرمایا۔

علامہ ابن نجیم المصری رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:

وصحح فی السراجیۃ ان المفتی یفتی بقول ابی حنیفۃ علی الا طلاق ثم بقول ابی یوسف ثم بقول محمد ثم بقول زفر والحسن بن زیادرحمھم اﷲ ولا یخیر اذالم یکن مجتھدا۔

 (البحر الرائق، ص ٤٥٢، جلد ششم ،رشیدیہ کوئٹہ)

سراجیہ میں اس بات کو اصح فرمایا ہے کہ مفتی مطلقاً امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر فتویٰ دے گا،پھر امام ابو یوسف پھر امام محمد پھر امام زفر اور امام حسن بن زیاد رحمھم اﷲ کے قول پر، اور جب مفتی مجتھد نہ ہو تو اسے اختیار نہیں دیا جائیگا۔

علامہ عمر بن ابراہیم بن نجیم مصری رحمہ اﷲلکھتے ہیں:

ثم الفتویٰ مطلقا بقول الامام ثم بقول ابی یوسف ثم بقول محمد ثم بقول زفر ثم بقول الحسن بن زیاد۔

 (النھرالفائق ،ص٥٩٩،ج٣، قدیمی کراچی)

فتویٰ مطلقا امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر دیا جائیگا، پھر امام ابو یوسف پھر امام محمد پھر امام زفر پھر امام حسن بن زیاد رحمھم اﷲ کے قول پر۔

مولاناالشاہ احمد رضاخان محدث بریلوی نے اس مسئلہ پر مستقل رسالہ بنام ''رسالۃ اجلی الاعلام ان الفتویٰ مطلقا علی قول الامام'' تحریر فرمایا۔

 (فتاویٰ رضویہ ،ص ٩٥، جلد اول، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

مفتی حبیب اﷲ مظاھری برماوی لکھتے ہیں:

'' اگر اختلاف فی العبادات ہے تو بقول امام اعظم چونکہ وہ اتقاء میں سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہے اسی کے قول پر فتویٰ دیا جاوے۔''

 (فتاویٰ حبیبیہ ،ص ١٢، جلد اول ،جامعہ خلیلیہ کراچی )

 مندرجہ بالا عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آئمہ احناف کسی مسئلہ پر متفق ہو تو فتویٰ جمھور کے قول پر دیا جائیگا اس سے اعراض کرنا جائز نہیں ،اور اگر کسی مسئلہ میں آئمہ احناف کے درمیان اختلاف واقع ہوجائے تو اگر وہ مختلف فیھا مسئلہ عبادات کے ساتھ تعلق رکھتا ہو تواس صورت میں فتویٰ علی الا طلاق امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر دیا جائیگا، کیونکہ امام اعظم رحمہ اﷲنے صحابہ کرام کا دیدار فرمایا اور اپنے دور کے تابعین کےساتھ اس مسئلہ میں مزاحمت فرمائی اور آپ اپنے دور کے علماء میں اعلم اور متقی تھے۔

 قارئین حضرات :جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ عبادات میں فتویٰ امام اعظم رحمہ اﷲکے قول پر ہے ،تو اب ہم اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ مغرب کے بعد شفق سے امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ کیا مراد لیتے ہیں؟ اوران کے نزدیک مغرب کے بعد عشاء کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟

علامہ ابو البرکات النسفی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:

وقت المغرب من الغروب الی غروب الشفق وھوا لبیاض۔

 (کنزالد قائق، ص ٢١، مکتبہ ضیائیہ راولپنڈی)

مغرب کا وقت غروب آفتاب سے لیکر غروب شفق یعنی سفیدی ختم ہونے تک ہے۔

علامہ ابن نجیم مصر ی رحمہ اﷲلکھتے ہیں:

وھوا لبیاض ای الشفق ھوالبیاض عند الامام وھو مذھب ابی بکر الصدیق وعمر و معاذ و عائشہ رضی اﷲ عنھم ........... فثبت ان قول الامام ھوالاصح اھ وبھذا ظھر انہ لایفتی ولا یعمل الا بقول الا مام الاعظم ولا یعدل عنہ الی قولھما او قول احد ھما او غیر ھما۔

 (البحرالرائق ،ص ٤٢٧، جلد اول، رشیدیہ کوئٹہ)

امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے نزدیک شفق سے مراد سفیدی ہے، اور یہی مذہب حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت معاذ اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھم کا بھی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ امام اعظم رحمہ اﷲ کے قول کے علاوہ دوسرے قول پر نہ فتویٰ دیا جائیگا اور نہ عمل ہوگا ، اور امام اعظم رحمہ اﷲ کے قول سے صاحبین یا کسی اور کے قول کی طرف عدول نہ کیا جائیگا۔

شیخ ابراہیم بن محمدالقاری رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:

ثم الشفق ھوالبیاض الذی فی الا فق بعد الحمرۃ عندابی حنیفۃ ........ ولا بی حنیفۃ قولہ علیہ السلام واخروقت المغرب اذا اسود الافق۔ (مستخلص الحقائق ،ص ١٢٠،١٢١ ،مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ)

شفق سے مراد امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے نزدیک وہ سفیدی ہے جو سرخی کے بعد آسمان کے کنارے میں ہوتی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کی دلیل آپ ﷺ کا قول مبارک ہے کہ مغرب کا آخری وقت وہ ہے جب آسمان کے کنارے سیاہ ہوجائےں۔

علامہ برھان الدین مرغینانی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:

وقت المغرب اذا غربت الشمس واخروقتھا مالم یغب الشفق ......... ثم الشفق ھوالبیاض الذی فی الافق بعد الحمرۃ عند ابی حنیفۃ ۔ (ھدایہ ،ص ٨١، ٨٢، شرکت علمیہ)

مغرب کا وقت سورج غروب ہونے پر ہے، اور مغرب کا آخری وقت شفق غروب ہونے تک ہے۔ امام اعظم رحمہ اﷲ کے نزدیک شفق سے مراد وہ سفیدی ہے جو سرخی کے بعد آسمان کے کناروں پر ہوتی ہے۔

علامہ محمد سلیمان رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:

(ووقت المغرب من غروبھا الی مغیب الشفق وھوالبیاض الکائن فی الافق بعد الحمرۃ) لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام وآخروقتھا اذا اسود الافق ............ قال ابن نجیم ان الصحیح المفتیٰ بہ قول صاحب المذ ھب لاقول صاحبیہ واستفید منہ انہ لایفتی ولا یعمل الا بقول الامام ولا یعد ل عنہ الی قولھما.......... فاذا ظھر لنا مذ ھب الامام فی ھذ ین الوقتین ای وقت العصروالعشاء وظھر ایضا دلیلہ وصحتہ وانہ اقوی من دلیلھما وجب علینا اتباعہ والعمل بہ۔

 (مجمع الانھر، ص ٧٠، جلد اول، دارالطباعۃ العامرۃ )

مغرب کا وقت غروب شمس سے شفق یعنی ا س سفیدی کے غائب ہونے تک ہے جو سرخی کے بعد آسمان کے کناروں میں ہوتی ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: مغرب کا آخری وقت وہ ہے جب آسمان کے کنارے سیاہ پڑجائےں۔ ابن نجیم رحمہ اﷲ نے کہا کہ صحیح اور مفتیٰ بہ قول امام اعظم رحمہ اﷲ کا ہے نہ کہ صاحبین کا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام اعظم رحمہ اﷲ کے قول کے علاوہ کسی اور کے قول پر فتویٰ اور عمل نہ ہوگا، اور نہ امام اعظم رحمہ اﷲ کے قول سے صاحبین کے قول کی طرف رجوع کیا جائیگا۔ پس جب ہمیں عصر اورعشاء کے وقتوں کے سلسلے میں امام اعظم رحمہ اﷲ کا مذہب ظاہر ہوا، اور اسی طرح ان کی دلیل اور اس کی صحت معلوم ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امام اعظم رحمہ اﷲ کی دلیل صاحبین کی دلیل سے قوی ہے، تو ہم پر امام اعظم رحمہ اﷲ کی اتباع اور ان کی دلیل پر عمل کرنا واجب ہے۔

علامہ عالم بن العلاء رحمہ اﷲلکھتے ہیں:

وفی الخانیۃ حتی لوصلی العشاء بعد ماغابت الحمرۃ ولم یغب البیاض لایجوز عندہ۔

 ( فتاویٰ التاتار خانیہ، ص ٤٠٣، جلد اول، ادارۃ القرآن کراچی)

خانیہ میں ہے کہ اگر کسی نے سرخی غائب ہونے کے کے بعد نماز عشاء ادا کی، حالانکہ ابھی تک سفیدی غائب نہ ہوئی تھی تو امام اعظم رحمہ اﷲ کے نزدیک اس کی نماز جائز نہیں۔

علامہ شامی رحمہ اﷲلکھتے ہیں:

قال العلامۃ قاسم فثبت ان قول الامام ھوالاصح ومشی علیہ فی البحر مؤیدالہ بماقدمناہ عنہ من انہ لایعدل عن قول الامام۔

 (شامی، ص ٢٦٥، جلد اول، رشیدیہ کوئٹہ)

علامہ قاسم رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ امام اعظم رحمہ اﷲ کا قول اصح ہے ،اور بحر الرائق میں اس کی تائید اس طرح ہوئی ہے کہ امام اعظم رحمہ اﷲ کے قول سے عدول نہ کیا جائیگا۔

علامہ قاضی خان رحمہ اﷲلکھتے ہیں:

قال ابو حنیفۃ رحمہ اﷲ ھوالبیاض الذی یلی الحمرۃحتی لوصلی العشاء بعد ماغابت الحمرۃ ولم یغب البیاض المعترض الذی یکون بعد الحمرۃ لاتجوز عندہ۔

 ( فتاویٰ قاضی خان، ص ٧٣، جلد اول، رشیدیہ کوئٹہ)

امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ شفق سے مراد وہ سپیدی ہے جو سرخی کے بعد ہوتی ہے، پس اگر کسی نے نماز عشاء سرخی کے بعد ادا کی حالانکہ ابھی تک وہ سپیدی جو سرخی کے بعد چوڑائی میں پھیلی رہتی ہے غائب نہ ہوئی ہو تو امام اعظم رحمہ اﷲ کے نزدیک اسکی نماز جائز نہیں۔

شیخ ظفر احمد عثمانی تھانوی لکھتے ہیں:

وفی البحر الشفق ھوالبیاض عند الامام ............ فثبت ان قول الامام ھوالاصح وبھذ ا ظھرانہ لایفتی ولا یعمل الا بقول الا مام الاعظم ولا یعد ل عنہ الی قولھما او قول احدھما او غیرھما الخ۔ (اعلاء السنن ،ص ٩، جلد دوم، مطبوعہ الحجاز پرنٹنگ سینٹر کراچی)

بحر میں ہے کہ شفق سے مراد امام اعظم رحمہ اﷲ کے نزدیک سفیدی ہے اس سے ثابت ہوا کہ امام اعظم رضی اﷲ عنہ کا قول اصح ہے ،اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام اعظم رضی اﷲ عنہ کے قول کے بغیر نہ فتویٰ دیا جائیگا اور نہ عمل کیا جائیگا، اور نہ ان کے قول سے صاحبین یا کسی اور کے قول کی طرف رجوع کیا جائیگا۔

شیخ موصوف آگے لکھتے ہیں:

قولہ حین یسود الافق الخ قلت ھذا الحدیث ایضا یدل علی ماذھب الیہ الامام الا عظم من کون الشفق ھوالبیاض فان اسوداد الافق لا یکون الا بعد زوالہ۔

 (اعلاء السنن، ص ١٠، جلد دوم، مطبوعہ الحجاز پرنٹنگ سینٹر کراچی)

آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ جب آسمان کے کنارے سیاہ پڑ جائےں : میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث امام اعظم رحمہ اﷲ کے مذہب پر دلالت کرتی ہے کہ شفق سے مراد بیاض ہے، کیونکہ آسمان کے کنارے سفیدی غائب ہونے کے بعد سیاہ ہوجاتے ہیں۔

شیخ موصوف آگے لکھتے ہیں:

قولہ فی حدیث جابر ثم اذن للعشاء حین ذھب بیاض النھار وھوالشفق الخ قلت ھذا اصرح دلالۃ علی مذھب امامنا الاعظم رضی اﷲ عنہ. (اعلاء السنن ،ص ١١، جلددوم، الحجاز پرنٹنگ سینٹر کراچی)

حدیث جابر رضی اﷲ عنہ میں ہے '' پھر عشاء کی اذان اس وقت ہوئی جب دن کی سفیدی یعنی شفق غائب ہوا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث ہمارے امام اعظم رضی اﷲ عنہ کے مذہب پر صریح دلالت ہے۔

شیخ عبد الرحمن الجزیری رحمہ اﷲلکھتے ہیں:

ووقت العشاء یبتد یئ من مغیب الشفق الی طلوع الفجر الصادق.......... فالشفق عند ا بی حنیفۃ ھوالبیاض وغیبتہ ظھور السواد بعد ہ فمتی ظھر السواد خرج وقت المغرب ۔

 (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ، ص ١٨٤، جلد اول ،دارالکتب العلمیہ بیروت)

عشاء کا وقت شفق کے غائب ہونے سے فجر صادق کے طلوع تک ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے نزدیک شفق سے مراد سفیدی ہے، اور اس کا غائب ہونا تاریکی ہے۔ پس جب سیاہی ظاہر ہوجائے تو مغرب کا وقت ختم ہوجائیگا۔

علامہ طاھر بن عبدالرشید بخاری رحمہ اﷲلکھتے ہیں:

و اول وقت العشاء حین تغیب الشفق والخلاف فی الشفق عند ابی حنیفۃ البیاض الذی یلی الحمرۃ۔

 (خلاصۃ الفتاویٰ، ص ٦٧، ج ١، رشیدیہ کوئٹہ)

عشاء کا اول وقت شفق غائب ہونے کے بعد ہے۔ امام اعظم رحمہ اﷲ کے نزدیک شفق سے مراد وہ سفیدی ہے جو سرخی کے بعد ہوتی ہے۔

شیخ احمد طحطاوی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:

ھوالبیاض الذی بعد الحمرۃ وھو قول الصد یق والصد یقۃ وانس ومعاذ و ابی ھریرۃ وروایۃ عن ابن عباس رضی اﷲ عنھم وبہ قال عمر بن عبدالعزیز والاوزاعی و داؤد الظاھری وغیر ھم واختارہ من اھل اللغۃ المبردوثعلب ........ ورحج فی البحر قول الامام قال ولا یعد ل عنہ الی قولھما ولو بموجب من ضعف او ضرورۃ تعامل لانہ صاحب المذھب فیجب اتباعہ والعمل بمذھبہ حیث کان دلیلہ واضحا و مذھبہ ثابتا ولا یلتفت الی جعل بعض المشائخ الفتویٰ علی قولھما اھ وقوی الکمال قول الامام ایضا بماحاصلہ ان الشفق یطلق علی البیاض والحمرۃ واقرب الامرانہ اذا تردد فی انہ الحمرۃ او البیاض لا ینقضی الوقت بالشک ولا صحۃ لصلوٰۃ قبل وقتھا ....... قدعلمت ان مذھب الامام مروی عن اکبر الصحابۃ اجمعین نساء ورجالا....... قدعلمت ما اختارہ المبرد وثعلب وھما من اکبر اھلہ۔ (طحطاوی علی المراقی ،ص ٩٥، قدیمی کراچی)

وہ سفیدی جو سرخی کے بعد ہوتی ہے اور یہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عائشہ، حضرت انس، حضرت معاذ، حضرت ابوہریرۃ اور ایک روایت میں ابن عباس ، حضرت عمر بن عبدالعزیز، امام اوزاعی، داؤد ظاھری رضی اﷲ عنھم اجمعین کا قول ہے۔ اھل لغت میں سے امام مبرد و امام ثعلب نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔البحرالرائق میں امام اعظم رحمہ اﷲ کے قول کو ترجیح دی ہے ،فرمایا کہ: امام اعظم رحمہ اﷲ کے قول سے صاحبین کے قول کی طرف رجوع نہ کیا جائیگا۔ کیونکہ امام اعظم رحمہ اﷲ صاحب مذہب ہیں اور آپ کی دلیل واضح اور مذہب ثابت ہے۔ تو ہم پر ان کی اتباع اور ان کے مذہب پر عمل کرنا واجب ہے۔ اور بعض مشائخ نے جو فتویٰ صاحبین کے قول پر دیا ہے تو اس کی طرف التفات نہیں کیا جائیگا۔ اور امام اعظم رحمہ اﷲ کے قول کی قوت کمال اس سے بھی حاصل ہے کہ شفق کا اطلاق سفیدی اور سرخی دونوں پر ہوتا ہے اور اقرب ترین بات یہ ہے کہ جب سرخی اور سفیدی میں تردد (شک ) آجائے تو شک کی بناء پر نہ وقت ختم ہوتا ہے اور نہ وقت سے قبل نماز صحیح ہوتی ہے۔ آپ نے یہ بھی جاناکہ امام اعظم رحمہ اﷲ کا مذہب اکابرصحابہ و صحابیات رضی اﷲ عنھم اجمعین سے مروی ہے۔ اور آپ نے یہ بھی جانا کہ اسی مذہب کو مبرد و ثعلب نے بھی اختیار کیا ہے جو اھل لغت کے اکابر ہیں۔

شیخ محمد سلیمان الھندی رحمہ اﷲلکھتے ہیں:

قولہ ھوالبیاض الخ قال ابن النجیم ان الصحیح المفتی بہ قول صاحب المذھب دون صاحبیہ لان الشفق عبارۃ عن الرقۃ ومنہ الشفقۃ وھی رقۃ القلب والبیاض ارق من الحمرۃ وھو مذھب ابی بکر الصدیق و عائشۃ و معاذو ابن الزبیر وابی ھریرۃ رضی اﷲ عنھم وھو اختیار المبرد والفراء والمازنی وبہ قال زفرو حکی عن محمد انہ البیاض فی البنیان والحمرۃ فی الصحراء ولماروی عن انس انہ قال للنبی ﷺ متی اصلی العشاء فقال ﷺ متی اسود الافق وسوادہ لایکون الا بعد ذھاب البیاض وایضا اھل اللغۃ یطلقون الشفق علی البیاض کما یطلقونہ علی الحمرۃ واحمد بن یحی یحمل علی البیاض احتیاطا واختارہ محمد بن یحی وثعلب وعمر بن عبدالعزیز والمزنی داؤد ،الجوھرۃ والفاتح۔

 ( المعتصر الضروری علی مختصر القدوری، ص ١٤، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی)

ابن نجیم رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ صحیح اور مفتیٰ بہ مذہب صاحب مذہب کا ہے نہ کہ صاحبین کا، کیونکہ شفق رقۃ سے عبارت ہے اور اسی سے شفقت ہے جو رقۃ القلب ہے ،اور سفیدی سرخی سے نرم ہے، اور یہ مذہب ابوبکر صدیق، عائشہ، معاذ، ابن الزبیر اور ابوھریرہ رضی اﷲ عنھم اجمعین کا ہے۔ اور اسی کو مبرد و فراء اور مازنی نے اختیار کیا ہے یہ قول امام زفر رحمہ اﷲ کابھی ہے۔ امام محمد رحمہ اﷲ سے حکایت ہے کہ شفق سے مراد آبادی میں سفیدی اور صحراء میں سرخی ہے۔ کیونکہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ میں عشاء کب پڑھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب آسمان کے کنارے سیاہ ہوجائیں، اور سیاہی سفیدی کے بعد ہی ہوتی ہے ،اسی طرح اھل لغت نے شفق کا اطلاق سفیدی پر بھی کیا ہے جس طرح سرخی پر اطلاق کیا ہے۔ احمد بن یحیٰ نے احتیاطاً سفیدی پر حمل کیا ہے اسی کو محمد بن یحیٰ، ثعلب، عمر بن عبدالعزیز اور داؤد مزنی نے بھی اختیار کیا ہے۔

صاحب شرح الیاس رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:

وعند ابی حنیفہ الشفق۔ ''ھوالبیاض الذی بعد الحمرۃ'' .

 (شرح الیاس ،ص ٩١،جلد اول، مطبوعہ امرۃ پریس لاہور)

امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے نزدیک شفق سے مراد وہ سفیدی ہے جو سرخی کے بعد ہوتی ہے ۔

 مندرجہ بالا عبارات فقہاء کا خلاصہ یہ ہے کہ مغرب کا آخری وقت بیاض تک رہتا ہے۔ بیاض کے ختم ہونے کے بعد عشاء کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲکے قول کے مطابق اسی پر فتویٰ ہے۔ امام اعظم رحمہ اﷲکے قول کے مقابلے میں صاحبین یا کسی اور کے قول کی طرف عدول نہ کیا جائیگا۔ کیونکہ جب شفق کی تعریف میں اختلاف واقع ہو ا تو مغرب کا وقت شک کی بناء پر ختم نہیں ہوتا اور نہ شک کی وجہ سے عشاء کا وقت شروع ہوجاتا ہے، جبکہ اما م اعظم رحمہ اﷲ کا قول اکابر صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم اجمعین کے موافق ہے۔ اس لئے امام اعظم رحمہ اﷲ کے قول کی بناء پر بیاض کے ختم ہونے پہلے اگر عشاء کی نماز پڑھیںگے تو جائز نہ ہوگی۔

علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کی دلیل یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:آخر وقت المغرب اذا اسود الافق ''مغرب کا آخری وقت اس وقت ہوتا ہے جب افق سیاہ ہوجائے ،اور افق پر سیاہی سفیدی غائب ہونے کے بعد پھیلتی ہے، علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں:کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں:'رایت رسول اﷲ ﷺ یصلی ھذہ الصلوٰۃ حین یسود الا فق''میں نے رسول اﷲ ﷺ کو دیکھا کہ آپ سیاہی پھیلنے کے بعد عشاء کی نماز پڑھتے تھے۔ ایک اور دلیل یہ ہے: ''عن النعمان بن بشیر قال انا اعلم بھذہ الصلوٰۃ صلوٰۃ العشاء الاخرۃ کان رسول اﷲ ﷺ یصلیھا لسقوط القمر الثالثۃ '' حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں تمام لوگوں کی بنسبت عشاء کے وقت کو زیادہ جانتا ہوں۔ رسول ا ﷲ ﷺ عشاء کی نماز اس وقت پڑھا کرتے تھے جب تیسری رات کا چاند ڈوب جاتا تھا۔ اور تیسری رات کا چاند افق کی سفیدی غائب ہونے کے بعد غروب ہوتاہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ مغرب کا وقت سفیدی غائب ہونے تک رہتا ہے نیز کسی حدیث سے ثابت نہیں کہ آپ نے کبھی سفیدی کے وقت عشاء کی نماز پڑھی ہو ۔

 (شرح صحیح مسلم، ص٢٥٩، جلد دوم، فرید بک سٹال لاہور)

علامہ موصوف لکھتے ہیں:

مغرب کا وقت غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور سرخی کے بعد جو سفیدی ظاہر ہوتی ہے اس کے مکمل چھپنے تک رہتا ہے۔

 (تفسیر تبیان القرآن ،ص٧٨٤، جلد دوم، فرید بک سٹال لاہور)

فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی لکھتے ہیں:

امام اعظم رضی اﷲ عنہ کا قول یہ ہے کہ شفق اس سفیدی کو کہتے ہیں جو سرخی کے بعد افق پر اتر دکھن پھیلی رہتی ہے، اور یہی حضرت سیدنا صدیق اکبر، معاذ بن جبل، ابوہریرہ ، ابی بن کعب، حضرت عائشہ، عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنھم اور ایک روایت کی بناء پر ابن عباس کا بھی مذہب ہے۔ نیز عمر بن عبدالعزیز، عبداﷲ بن مبارک، امام زفر، امام اوزاعی (فی روایۃ) مزی بن منزر، ابوثور اور مبّرد، فراء اور ثعلب کا بھی قول ہے، اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جسے امام بن ھمام نے فتح القدیرمیں بحوالہ ترمذی بہ روایت حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ ذکر فرمایا ہے: کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: وان آخر وقت المغرب حین یغیب الافق وان اول وقت العشاء حین یغیب الافق''۔ بے شک مغرب کا آخر وقت وہ ہے جب افق غائب ہوجائے، اور عشاء کا اول وقت وہ ہے جب افق غائب ہوجائے ،اور یہ سب کو معلوم ہے کہ جب تک سپیدی رہے گی افق غائب نہ ہوگا، تو ثابت ہوا کہ سفیدی کے غروب ہونے تک مغرب کا وقت ہے ۔

 (نزھۃ القاری شرح بخاری، ص ٢٥٢،جلد دوم، مطبوعہ فرید بکسٹال لاہور)

مفتی امجد علی اعظمی لکھتے ہیں:

شفق ہمارے مذہب میں اس سپیدی کا نام ہے جو جانب مغرب میں سرخی ڈوبنے کے بعد جنوبا ًشمالا ًصبح صادق کی طرح پھیلی ہوئی رہتی ہے، اور یہ وقت ان شہروں میں کم از کم ایک گھنٹہ ١٨ منٹ ،اور زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ ٣٥ منٹ ہوتا ہے۔ (بہار شریعت، ص ١٣، حصہ سوم، مکتبہ اسلامیہ لاہور)

مفتی موصوف لکھتے ہیں:

مغرب کا وقت غروب آفتاب کے بعد شروع ہوتا ہے اور جب تک شفق ابیض غروب نہ کرے رہتا ہے، مگر ستاروں کے خوب نکل آنے پر مکروہ وقت ہوجاتا ہے، اور بعد شفق ابیض وقت عشاء شروع ہوتا ہے۔ اور طلوع فجر تک رہتا ہے۔

 (فتاویٰ امجدیہ، ص٤٧،جلد اول، مکتبہ رضویہ کراچی)

شیخ اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں:

احتیاط یہ ہے کہ جب سرخی کے بعد والی سفیدی سی بھی جاتی رہے تب عشاء کی نماز ادا کی جائے، اور مساجد میں مرد بھی اس سپیدی کے غروب پر ہی اذان کہیں۔ حاصل یہ ہے کہ احتیاط امام ابوحنیفہ کے قول میں ہے۔ قال العلامۃ قاسم فثبت ان قول الامام ھوالاصح۔

 (بھشتی زیور مع حاشیہ، ص١١، حصہ دوم، امدادیہ ملتان)

شیخ موصوف دوسری جگہ لکھتے ہیں:

غروب سے ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد عشاء کا وقت آجاتا ہے، عشاء کا اتفاقی وقت ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد ہوتا ہے، اس لئے عشاء کی نماز و اذان ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد مناسب ہے۔ (امداد الفتاویٰ، ص ٩٥، جلداول، مطبوعہ دارالعلوم کراچی)

مفتی عزیز الرحمن عثمانی لکھتے ہیں:

امام ابوحنیفہ کا مذہب دربارہئ عشاء کے یہ ہے کہ سفیدی غائب ہونے کے بعد عشاء کا وقت ہوتا ہے اور سفیدی بعد سرخی کے ہوتی ہے، سفیدی کا غائب ہونا آجکل قریب نو بجے کے ہے ،پس جبکہ مغرب کا وقت ساڑھے سات بجے ہو تو عشاء کا وقت نو بجے کے قریب ہوگا، کیونکہ آجکل فصل سرما میں وقت مغرب وعشاء قریب ڈیڑھ گھنٹہ کے ہے، پس جو صاحب کہتے ہیں کہ وقت عشاء کا نو بجے ہوتا ہے وہ صحیح ہے۔

 (عزیز الفتاویٰ، ص١٧٧،مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)

مفتی صاحب موصوف لکھتے ہیں:

١٩، ٢٠ جون کو مثلاً غروب آفتاب ٧بجکر ٢٧ منٹ پر ہے اور وقت عشاء موافق قول امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ ٩ بجکر ٤ منٹ پر ہے پس تفاوت مابین غروب آفتاب و غروب شفق ابیض یعنی وقت عشاء امام ابو حنیفہ کے نزدیک ایک گھنٹہ ٣٧ منٹ کا ہے۔ تاریخہائے مذکورہ پر ٩ بجے سے ماقبل اذان و نماز موافق قول امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲدرست نہیں الی قولہ شامی میں ہے کہ احتیاط یہ ہے کہ امام صاحب کے قول پر عمل کیا جائے اور شفق ابیض کے غروب سے پہلے عشاء کی نماز نہ پڑھی جائے اور عشاء کی اذان کسی کے نزدیک قبل از وقت صحیح نہیں ہے۔ (فتاویٰ دیوبند، ص٤٠، جلددوم، دارالاشاعت کراچی)

مفتی صاحب موصوف دوسری جگہ لکھتے ہیں:

غروب کے بعد عشاء کا وقت عند الامام ابی حنیفہ رحمہ اﷲ اس وقت ہوتا ہے کہ شفق ابیض غائب ہوجاوے، اس کی مقدار بعض موسموں میں ایک گھنٹہ چوبیس پچیس منٹ اور بعض موسموں میں ایک گھنٹہ ٢٧ منٹ اور بعض موسموں میں اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے، پس مغرب وعشاء میں ڈیڑھ گھنٹہ سے کم فاصلہ نہ کرنا چا ہیے ،بلکہ احتیاطاً پونے دو گھنٹہ کا فاصلہ کرنا چاہیے۔

 (فتاوٰی دیوبند، ص ٤٣ ،جلددوم، دارالاشاعت کراچی )

مفتی محمد کفایت اﷲ دھلوی لکھتے ہیں:

مغرب کا وقت غروب آفتاب سے ایک گھنٹہ بیس منٹ سے ایک گھنٹہ پینتیس منٹ تک مختلف موسموں کے لحاظ سے رہتا ہے، ایک گھنٹہ بیس منٹ سے کم نہیں اور ایک گھنٹہ پینتیس منٹ سے زیادہ نہیں ہے۔

 (کفایت المفتی، ص ٢٩، جلدسوم، حقانیہ ملتان)

مفتیان حقانیہ لکھتے ہیں:

عموماً مغرب اور عشاء کے درمیان ڈیڑھ گھنٹہ وقفہ ہونا چاہیے۔

 (فتاوٰی حقانیہ، ص٤٥، جلدسوم، دارالعلوم حقانیہ نوشہرہ)

مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:

امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ مبرد، فراء اور ثعلب کے نزدیک شفق کا اطلاق حمرۃ اور بیاض دونوں پر ہوتا ہے، لہٰذا غیبوبت شفق اس وقت متحقق ہوگی جبکہ دونوں غائب ہوجائیں، اس کی تائید حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایت سے ہوتی ہے جس میں فرمایا: ''ان اول وقت العشاء الا خیرۃحین یغیب الافق'' یہاں شفق کے بجائے افق کے غائب ہونے کاذکر ہے، اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے جبکہ بیاض غائب ہوجائے ،اور ابو داؤد کی ایک روایت میں مغرب کا آخری وقت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہے:''حین یسود الافق'' اور ظاہر ہے کہ بیاض کی موجودگی میں سواد افق متحقق نہ ہوگا، اور اس سے زیادہ صریح روایت طبرانی نے معجم اوسط میں سند حسن کے ساتھ حضرت

جابر رضی اﷲ عنہ سے نقل کی ہے:ثم اذن للعشاء حین ذھب بیاض النھار وھوالشفق۔

 (درس ترمذی، ص ٣٩٧،٣٩٨، جلددوم، دارالعلوم کراچی)

مولانا عبدالقیوم حقانی لکھتے ہیں:

امام ابو حنیفہ ، عبداﷲ بن مبارک، ابو العباد مبّرد اور ابوالحسن فراء وغیرہ کے نزدیک شفق ابیض پر مغرب کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔

 (توضیح السنن ،ص ٤٢٨، جلد اول، ادارۃ العلم والتحقیق نوشہرہ)

 الحاصل یہ کہ مذکورہ عبارات اصولیہ و فقہیہ سے یہ ثابت ہوا کہ شفق سے مراد امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے نزدیک بیاض ہے۔ اور عبادات میں فتویٰ مطلقاً امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر ہوتا ہے۔ اس لئے عشاء اور مغرب کے مابین موسم گرما میں تقریباً ایک گھنٹہ اور پینتیس منٹ کا وقفہ ہونا چاہیے، اس سے پہلے اذان و نماز ادا نہ کرے۔مثلاً جہاں مغرب کی اذان ٧ بجکر ٤٠ یا ٣٥ منٹ پر ہوتی ہے تو مذکورہ دلائل کی بناء پرعشاء کی اذان ٩ بجکر ١٥ منٹ یا ٩ بجکر ١٠ منٹ سے پہلے امام اعظم رحمہ اﷲ کے نزدیک جائز نہیں۔ اور صاحبین کے نزدیک انہی مذکورہ ایام میں ٩ بجے سے پہلے عشاء کی اذان و نماز صحیح نہیں ،کیونکہ سفیدی و سرخی کے مابین تین درجے کا فاصلہ ہے۔ اگر کسی نے ان مذکورہ ایام میں مذکورہ وقت سے پہلے نماز ادا کی تو وہ واجب الاعادہ ہے۔ آئمہ مساجد اپنی مساجد میں نماز کو دوبارہ پڑھنے کے لئے اپنے مقتدیوں کو اعلان کردےں تاکہ ان کا ذمہ بری ہوجائے۔واﷲ اعلم بالصواب

 راقم الحروف

 سیدمحمد منور شاہ نقشبندی شموزوی

 25جون 2004ئ

 ٦ جمادی الاولیٰ ١٤٢٥ ھ

الجواب صحیح

(شیخ الحدیث مولانا ) عبدالحق

خادم الاحادیث النبویہ علی صاحبھاالف الف تحیۃ وسلام

بجامعۃ اشرف المدارس دکوڑک سوات

 

 

الجواب حق والحق احق ان یتبع ھذا ھوالتحقیق عند العقل الصحیح

لاشئی حبیب اﷲ قادری رضوی سراج الحق اشاڑوی بقلم خود

مہتمم دارالعلوم قادریہ رضویہ استاذ الحدیث دارالعلوم قادریہ غفوریہ اسبنڑ (دیر) تندوڈاگ سوات

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post