ميرے والد صاحب بزرگ اور بیمار ہیں اور اتنے کمزور کہ قضائے حاجت بھی بستر پر کرتے ہیں۔ میرے دیگر بھائی گھر کے لئے کماتے ہیں جبکہ میں والد صاحب کی دن رات خدمت کرتا ہوں اور اس وجہ سے نماز جماعت سے نہیں ادا کرسکتا۔ کیا مجھ پر اس کا گناہ ہوگا؟
الجواب باسمہ تعالیٰ
صورت مسئولہ میں ایسا شخص جو کسی ایسی اضطراری
حالت میں مبتلا مریض کی تیمار داری میں
مصروف ہو کہ اور جس کے جانے سے مریض پر
کسی ایسی حالت کے طاری ہونے کا اندیشہ ہو کہ جس سے وہ فوت ہوسکتا ہو یا مرض و
بیماری مزید بڑھنے کا خوف تو اس شخص کا نماز چھوڑنے میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ ایسے شخص پر جماعت واجب نہیں۔
اللہ تعالیٰ
قرآن میں فرماتا ہے:
ہُوَ اجْتَبٰىکُمْ وَمَا جَعَلَ
عَلَیۡکُمْ فِی الدِّیۡنِ مِنْ حَرَجٍ(القرآن، سورۃ الحج، 22:78)
اللہ نے تمہیں پسند کیا اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
یُرِیۡدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا
یُرِیۡدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۫(القرآن، سورۃ البقرۃ، 2:185)
اللّٰہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم
پر دشواری نہیں چاہتا۔
امام علاء الدین سمرقندی لکھتے ہیں:
أن الجماعة إنما تجب على من قدر عليها من
غير حرج فأما من كان به عذر فإنها تسقط عنه(تحفة الفقهاء، كتاب الصلاة، باب
الإمامة، ج-1، ص: 227، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت،
لبنان)
بیشک
جماعت واجب ہے اس شخص پر جو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی قدرت رکھتا ہے بغیر کسی
حرج کے۔ پس اگر کسی شخص کے ساتھ کوئی شرعی عذر لاحق ہوجائے تو اس شخص سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا وجوب ساقط
ہوجائےگا۔
امام حصکفی
فرماتے ہیں:
فلا
تجب على مريض۔۔۔۔وقيامه بمريض،۔۔(الدر المختار ، کتاب
الصلاۃ، باب الامامۃ، ج-1، ص:76، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت لبنان)
پس
مریض اور اس کی تیمارداری کرنے والے پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب نہیں۔
الحاصل یہ کہ ایسا شخص مریض کے پاس گھر میں انفرادی نماز ادا کرسکتا ہے۔ اس جماعت میں شریک نہ ہونے پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ ایسے شخص پر شرعانماز باجماعت واجب نہیں ۔
اللہ و رسولہ اعلم
Post a Comment