کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے
کے بارے میں کہ پچھلے سال میری کمیٹی
نومبر کے مہینے میں کھلی اور مجھے پچاس ہزار
روپے ملے۔ اس کے بعد سے میں نے پیسے خود جمع کرنا شروع کئے اور اب تک
دو لاکھ بتّیس ہزار روپے جمع ہوچکے ہیں
لیکن اسی مہینے مجھے دو لاکھ روپے کا قرض لوٹانا ہے
جو میں نے تین سال
پہلے لیا تھا۔ کیا مجھ پر زکوٰۃ واجب
ہے؟
الجواب
باسمہ تعالیٰ
صورت مسئولہ کے مطابق
آپ پر زکوٰۃ واجب نہیں کیونکہ آپ
کے مال کو قرض نے گھیرا ہوا ہے اور قرض کی
ادائیگی کے بعد آپ کا بقیہ
مال نصاب کو نہیں پہنچتاکیونکہ آپ
کا کل مال دو لاکھ بتّیس ہزار ہے اور قرض دینے کے بعد فقط بتّیس ہزار رہ جائے
گا جو کہ ساڑھے باون تولے چاندی کی ملکیت کو نہیں
پہنچتا لہٰذا زکوٰۃ واجب نہیں کیونکہ آج کی تاریخ میں چاندی کے حساب سے نصاب چھتّیس ہزار
نو سو سات روپے ہے۔ ہاں اگر آپ کے
پاس اس کے علاوہ زیورات یا ضرورت سے زائد سازوسامان ہو اور وہ سب مل کر رقم ساڑھے
باون تولہ چاندی تک پہنچتی ہے تو زکوٰۃ دینا فرض ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ليس فيما دون خمس أواق صدقة، وليس فيما دون خمس ذود
صدقة، (صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ، ، باب ما
ادی زکوٰتہ فلیس بکنز، ج-2، ص: 107، حدیث:1405، مطبوعۃ: دار طوق النجاۃ، دمشق،
السوریۃ)
پانچ اوقیہ سے کم (چاندی) پر زکوٰۃ واجب نہیں
اور پانچ اونٹوں سے کم پر زکوٰۃ واجب
نہیں۔
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے امام بدرالدین عینی لکھتے ہیں:وفيه: بيان نصاب الفضة وهو خمسة أواق، وهي
مائتا درهم(عمدۃ القاری، کتاب الزکوٰۃ، باب ما ادی زکوٰتہ
فلیس بکنز، ج-8، ص: 259، مطبوعۃ: دار احیاء تراث العربی، بیروت، لبنان)
اس حدیث میں چاندی کے نصاب کو بیان کیا گیا ہے
جو کہ پانچ اوقیہ ہے اور پانچ اوقیہ دو سو درھم کے برابر ہے۔ (آج کے دور کے اعتبار
سے یہ ساڑھے باون تولہ چاندی ہے)
فتاویٰ عالمگیری میں
لکھا ہے:
(ومنها الفراغ عن الدين) قال أصحابنا - رحمهم الله تعالى
-: كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة (الفتاوى الهندية،
کتاب الزکاۃ، باب الاول، ج-1، ص: 172، مطبوعۃ، دار الفکر، بیروت، لبنان)
اور زکوٰۃ کی فرضیت کے
شرائط میں سے ہے کہ مال قرض سےخالی ہو۔ علماء
احناف نے فرمایا کہ ہر وہ قرض جس کا مطالبہ لوگوں کی طرف سے ہو ساقط کردیتا ہے زکاۃ
کے وجوب کو۔
امام اکمل الدین
فرماتے ہیں:و من کان علیہ دین
یحیط بمالہ فلا زکاۃ علیہ(العنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب الزکاۃ، ج-2، ص:160، مطبوعۃ:
دار الفکر، بیروت، لبنان)
وہ شخص جس پر ایسا قرضہ ہو جو اس کے مال کو
گھیرلے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں۔
الحاصل یہ کہ صورت مسئولہ میں آپ کے مال کو
قرض نے گھیرا ہوا ہے لہٰذآپ
پر زکوٰۃ واجب نہیں۔ اللہ و
رسولہ اعلم
Post a Comment