کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک عورت حج پر گئی اور دس ذوالحج کو اس عورت کے حیض کے ایام شروع ہوگئے۔ اس عورت کی عادت چھ دن کی تھی اور اس کی وطن واپسی کا ٹکٹ چودہ ذوالحج کو تھا۔ کیا یہ عورت حالت حیض میں طواف الزیارہ کرسکتی ہے؟
الجواب
باسمہ تعالیٰ
صورت مسئولہ میں یہ عورت اور طواف الزیارہ کر کے اپنا حج مکمل کرے گی۔ طواف کرنے کے بعد اس عورت پر لازم ہے کہ ایک اونٹ کو
حرم کی حدود میں قربان کرے کیونکہ اس نے ناپاکی کی حالت میں یہ طواف کیا ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:ولو طاف طواف الزيارة محدثا فعليه شاة، وإن كان جنبا
فعليه بدنة(الفتاوى الهندية، کتاب
المناسک، الباب الثامن، الفصل الخامس، ج-1، ص: 245، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان)
اور اگر بے وضوء شخص طواف الزیارہ کرے تو اس پر
لازم ہے کہ بکری کی قربانی دے اور اگر
جنبی شخص طواف الزیارہ کرے تو اس پر لازم ہے کہ ایک اونٹ کی قربانی دے۔
جنبی شخص کی طرح حائضہ عورت بھی حکمی طور پر ناپاک ہوتی ہے لہٰذا
دونوں کا حکم ایک ہے۔ جیسے کہ امام زین الدین فرماتے ہیں:
كان على بدنه نجاسة
حكمية بأن كان محدثا أو جنبا أو حائضا أو نفساء (البحر الرائق شرح كنز الدقائق، کتاب الطھارۃ، احکام
المیاہ، الوضوء بالماء ولو خالطہ شئی طاھرفغیر احد
اوصافہ،ج-1، ص:74 مطبوعۃ: دار الکتاب الاسلامی، بیروت، لبنان)
کہ ہو اس شخص کے بدن
پر نجاست حکمیہ اس وجہ سے کہ ہو وہ محدث،
یا جنبی یا حائضہ یا نفساء میں سے
یہ اونٹ کی قربانی مکہ
میں حرم کی حدود میں کی جائےگی ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا
تَقْتُلُوا الصَّیۡدَ وَاَنۡتُمْ حُرُمٌ ؕ وَمَنۡ
قَتَلَہٗ مِنۡکُمۡ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ
یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنۡکُمْ ہَدْیًۢا بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ اَوْ کَفّٰرَۃٌ
طَعَامُ مَسٰکِیۡنَ اَوۡ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِّیَذُوۡقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ ؕ
عَفَا اللہُ عَمَّا سَلَفَ ؕ وَمَنْ عَادَ فَیَنۡتَقِمُ اللہُ مِنْہُ ؕ
وَاللہُ عَزِیۡزٌ ذُوانْتِقَامٍ ﴿۹۵﴾(القرآن، سورۃ المائدۃ، 5:95)
اے
ایمان والو! شکار کو نہ قتل کرو جب تم احرام میں ہو، اور تم میں سے جو کوئی اسے
جان بوجھ کر مارے تو پھر بدلے میں اس مارے ہوئے کے برابر مویشی لازم ہے جو تم میں
سے دو معتبر آدمی تجویز کریں بشرطیکہ قربانی کعبہ تک پہنچنے والی ہو یا کفارہ کا
کھانا مسکینوں کو کھلانا ہو یا اس کے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کام کا وبال چکھے،
اللہ نے اس چیز کو معاف کیا جو گزر چکی، اور جو کوئی پھر کرے گا اللہ اس سے بدلہ
لے گا، اور اللہ غالب بدلہ لینے والا ہے۔
اس
آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ غلام رسول سعیدی
لکھتے ہیں کہ قربانی کا جانور صرف مکہ میں ہی ذبح کیا جائےگااور مسکینوں کو
طعام کا صدقہ کسی بھی شہر میں دیا جاسکتا ہے۔ (تبیان القرآن، ج-3، ص: 322، مطبوعہ:
فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان)
الحاصل
یہ کہ حائضہ عورت طواف الزیارہ
کرکے اپنا حج مکمل کرے گی اور کفارے کے
طور پر ایک اونٹ حرم کی حدود میں ذبح کرے گی یاکروائےگی۔ اللہ و رسولہ اعلم
Post a Comment