سوال: حیض اور جنابت کی حالت میں کون کونسے اذکار اور  قرآنی دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں نیز کیا  سورة الکھف، سورة الملک وغیرہ بھی پڑھی جاسکتی ہے ؟

الجواب بعون الملک الوھاب


حیض و نفاس کی حالت میں عورت کے لئے ذکر و اذکار کرنا نیز درود پاک ، استغفار ،کلمہ طیبہ یا کوئی اور وظیفہ پڑھنا  یا قرآن مجید میں جو دعائیں آئی ہیں ان کو دعا یا وظیفہ کی نیت سے پڑھنا جائز ہے۔دوران حیض عورت کے لئے قرآن کی تلاوت ممنوع ہے خواہ مصحف سے پڑھے ،موبائل سے پڑھے یا زبانی پڑھے،  البتہ تعلیمی ضرورت کی وجہ سے ایک آیت کی مقدار سے کم سانس چھوڑنے کی حد تک فقہاء کرام نے جواز لکھا ہے؛

لہذا معلمہ طالبات کو پڑھائے یا خود طالبہ پڑھے ، کلمہ کلمہ، لفظ لفظ  الگ الگ کرکے پڑھے، یعنی ہجے کرکے پڑھے، مثلاً:

الحمد۔۔۔۔للہ۔۔۔۔رب۔۔۔۔العلمین۔

مخصوص ایام میں خواتین کے لئے ہجے کرکے پڑھنا جائز ہے۔ البتہ مکمل آیت کا پڑھنا جائز نہیں۔ نیز یہ حکم میں پڑھانے والی اور پڑھنے والی دونوں کے لئے ہے۔

یہ یاد رہے کہ قرآن مجید کو براہ راست بغیر غلاف کے ہاتھ لگانا اس حالت میں جائز نہیں۔ہاں قاعدہ اور نماز کی کتاب کو ہاتھ لگایا جاسکتاہے۔

اگر معلمہ ایام سے ہو وہ بچیوں سے سبق اور منزل وغیرہ زبانی سن سکتی ہے۔ اسی طرح مصحف بچی پکڑے اور معلمہ اس میں دیکھ کر سنے اس کی بھی گنجائش ہے۔ اسی طرح اگر حفظ بھولنے کا اندیشہ ہو تو فقہاء نے یہ صورت لکھی ہے کہ حافظہ کسی پاک کپڑے وغیرہ سے مصحف کو پکڑ کر اس میں دیکھ کر دل دل میں دہراتی جائے، زبان سے بالکل بھی تلفظ نہ کرے، اس کی بھی گنجائش ہے۔ اور اس سے حفظ کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔

"عن ابن عمر عن النبی ﷺ قال لا تقرا الجنب ولاالحائض ۔اخرجہ الامام الترمذی فی سننہ فی باب ماجائ فی الجنب والحائض انھما لا یقرئان القرآن،ج1ص236،رقم الحدیث 131

"ذھب الجمھور ابوحنیفۃ والشافعی واحمد واکثر العلماء والائمۃ : الی منع الحیض والجنب عن قراء ۃ القرآن قلیلھا او کثیرھا مع اختلاف العلماالحنفیۃ فی جواز ما دون آیۃ۔۔۔۔وحدیث الباب  حجۃ للجمھور"(معارف السنن: ابواب الطھارۃ،باب ماجاء فی الجنب والحائض انھما لا یقرئان القرآن،ج1،ص445-446)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"واذا حاضت المعلمۃ فینبغی لھا ان تعلم الصبیان کلمۃ کلمۃ،وتقطع بین الکلمتین ولا یکرہ لھا التھجی بالقرآن،کذا فی المحیط(الفصل الرابع، فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ،الاحکام التی یشترک فیھا الحیض والنفاس ثمانیۃ، ج1،ص38)

حاشیہ ردالمحتار علی در المختار جلد 1 صفحہ 293

"(وقرآئۃ قرآن ) ای ولودون آیۃ من المرکبات للمفردات؛ لانہ جوز للحائض المعلمۃ تعلیمہ کلمۃ کلمۃ،کما قدمناہ وکالقرآن التوراۃ والانجیل والزبور۔۔۔ (ومسہ ) ای القرآن ولو فی لوح اودرھم او حائط، لکن لایمنع الا من مس المکتوب، بخلاف المصحف؛ فلا یجوز مس الجلد وموضع البیاض منہ،وقال بعضھم یجوز وھذا اقرب الی القیاس، والمنع اقرب الی التعظیم،کما فی البحر ای والصحیح المنع کما نذکرہ ، ومثل القرآن سائر الکتب السماویۃ کما قدمناہ عن  القہستانی وغیرہ واللہ اعلم


 یا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا جنبی شخص اور حیض و نفاس والی عورت اذان کا جواب دے سکتی ہے؟

الجواب باسمہ تعالیٰ

 صورت مسئولہ میں اگر جنبی شخص آذان کو سنے تو اس پر واجب ہے کہ اس کا جواب دے لیکن حیض اور نفاس والی عورتوں پر اذان کا جواب نہیں ۔امام حصکفی فرماتے ہیں:

قال الحلواني یجیب ندبا،والواجب الاجابة بالقدم (من سمع الاذان) ولو جنبا لا حائضا ونفساء.(الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار، کتاب الصلاۃ، باب الاذان، ج-1، ص: 57، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)

 امام حلوانی فرماتے ہیں کہ جنبی شخص، اور حیض و نفاس والی عورت کے لئے اذان کا جواب دینا مستحب ہے لیکن قدم سے چل کر جواب دینا جنبی شخص پر واجب ہے اور حیض و نفاس والی عورت پر نہیں۔

الحاصل یہ کہ جنبی شخص اور حیض و نفاس والی عورت اگر چاہیں تو اذان کا جواب دے سکتے ہیں لیکن اگر نہ دیں تو کوئی قباحت نہیں۔ جنبی شخص پر قدم سے چل کر اذان کا جواب دینا واجب ہے لیکن حیض و نفاس والی خواتین پر نہیں۔ اللہ و رسولہ اعلم

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post