بہترین
معلم کی صفات
ایک اچھے
معلم اوراستاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاشرے
کا بہترین فردو اعلیٰ کردار کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ علم و فن میں ماہرو یکتاہو،صحت
مند مطالعہ کا ذوق رکھتاہو،پاکیزگئ بدن،دہن ،ذہن ،وطن، اورلباس پرعامل ہو،بلندئ فکرونظرکاحامل ہو،زمانہ
شناس(بصیراً لزمانہ) بلکہ زمانہ ساز ﴿عہدسازشخصیت﴾
ہو،معاشرے کے مسائل اورضروریات سے آگاہ ہو،علم دینے میں بخیل نہ ہو، کردارسازی کے فن
میں ماہر ہو، غوروفکرکرنے والا ہو،کام کی لگن رکھتا ہو،مشن کی تکمیل کےلئےتن من دھن
سب لٹانےوالاہو، (Time Management) وقت کا بہترین انتظام استعمال کرناجانتا ہو طالب علم سے مخلص ہو،
علم دینے کا فن جانتا ہو، طلبہ سے لگاؤ رکھتا ہو، طلبہ کی نفسیات اورفطرت کاعلم رکھتاہو،ان کی صلاحیتوں کو جانتا ہو، اوران
صلاحیتوں کو مثبت انداز میں اجاگر کرنے والا ہو اورطلبہ کی ذہنی سطح کے مطابق انہیں
تعلیم دیتا ہو(یعنی انہیں مشکل ،پیچیدہ اور
ادق نکات بھی آسان اورعام فہم انداز سے سکھاتاہو)،جو موضوع پڑھاتا ہو اس میں خود بھی
دلچسپی لیتا ہو اورطلبہ کے لئے بھی دلچسپ اندازمیں پیش کرتاہو، اپنے دیئے ہوئے سبق
پرپہلے خود عمل کرتا ہو اور عمل کی ترغیب بعد میں دیتا ہو، اپنےذاتی کردار کامحاسبہ
کرتاہو،ہمیشہ نئےعلوم اورنئی ٹیکنالوجی کواپنانے والا ہو، پراعتماد ہو
اور ابہام وتذبذب کا شکار نہ ہو کیونکہ پراعتماد استاد ہی طلبہ میں سوال کرنے
کی جرأت پیدا کرسکتا ہے، قوت برداشت کا حامل ہو اور منفی ردعمل کا اظہار نہ کرتا ہو،
عالی ظرف ہو یعنی معافی اور درگذر سے کام لیتاہو،پُروقار اوربارعب ہو،صابر اوربُردبار
ہو،والد کی طرح شفیق ہو، تعصب سے پاک ہو اور پسند و ناپسند کی پرواہ کیے بغیر حق گوئی
اور بیباکی کو اپناتا ہو، معاشرے کا ایک سرگرم کارکن ہواور امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا
داعی ہو،تعلیم وتعلم کے عمل پرکسی دنیاوی انعام
یا تحسین کا طالب نہ ہو، آسانیاں تقسیم کرنے والا اورمحبت بانٹنے والا ہو،وغیرہ
وغیرہ۔
مذکورہ
بالا صفات و خصوصیات کے حامل اچھے استاد پیدا کیے بغیر کوئی بھی نظام تعلیم اپنے مقاصد
حاصل نہیں کرسکتا۔ کھوکھلے اور زوال پذیر معاشرے میں استاد کو پہلے خودآشنا ہوکر اپنی
اصلاح کرنی ہے اس کے بعد ہی وہ تعمیر کردار کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ استاد خود کو
پیغمبروں کی میراث معلمی کے وارث کہتے ہیں لہٰذا انہیں معلم انسانیت و فخر انسانیتﷺ
کے اسوہ حسنہ سے راہنمائی حاصل کرکے کردار سازی کرنا ہے۔
استاذ کی
دوا ہم خوبیاں
پہلی خوبی :
ایک مدرس میں یہ صفت انتہائی ضروری ہے کہ وہ بے غرض انسان ہو، تعلیم دینے میں اس کے مد نظر صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہو دل میں شہرت دولت وغیرہ کی خواہش نہ ہو اور خوب دل جمعی کے ساتھ طلبہ کو تعلیم دے طلبا کوٹر خانے کی کوشش نہ کرے۔
دوسری خوبی: استاد میں یہ خوبی بھی ضروری ہے کہ اگر درس میں کوئی غلطی ہو جائے تو فوراً اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے اور اپنی غلط بات سے رجوع کرے اس طرح کرنے سے طلبہ کو اپنے استاذ پراعتما درہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے استاذ سے جو کچھ سنتا ہوں صحیح اور درست سنتا ہوں۔ اور اگر اپنی غلط بات سے باوجود مطلع ہونے کے رجوع نہ کیا گیا تو اس عمل کے چار نقصان ہوں گے۔
1۔ایک تو گناہ کا ارتکاب ہوگا
2۔ دوسرا جب طالب علم کو استاذ کی غلطی کا پتہ چلے گا تو اس کے دل میں استاد کے خلاف نفرت پیدا ہوگی ۔
3۔ تیسرا چونکہ استاد کا اپنے شاگرد پر اثر ہوتا ہے تو اس ہٹ دھرمی کا اثر اس کے شاگرد پر ہوگا اور استاد من سن سنة سيئة فعليه وزرها ووزرمن عمل بها (الحدیث) کا مصداق ہوگا۔
4۔ چہارم اور اس طرح
کرنے سے شاگردوں کے حقوق کی بھی حق تلفی ہوگی ۔
Post a Comment