گستاخ اہلبیت و صحابہ سے امام ربانی کی نفرت و بیزاری

ایک جائزہ

ڈاکٹر محمد اسعد محمود خان (ٹیچینگ اسسٹنٹ   ڈپارٹمنٹ آف اسلامک لرننگ،جامعہ کراچی)

 

حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر

وہ خاک ہے کہ زیر فلک مطلع انوار

اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے

اس خاک میں پوشید ہے وہ صاحب اسرار

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفس کرم سے ہے گرمی احرار

وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان

اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

 

تمام تعریف و توصیف پروردگار عالم کے لئے جس نے  ایمان و اسلام  کی دولت ابدی سے سرفراز فرمایا۔ اور بے شمار درود و سلام حضور سرورکائنات رحمت عالمیان محمد رسواللہ  پر جن کی محبت جوہر ایمان اور حقیقت ایمان ہے۔

مقربین خداوندی کی صحبت زنگ آلود قلب و نظر کو جلا بخشتی ہے اور ان کی معیت و سنگت اختیار کرنے والا بموجب حدیث بدبخت نہیں ہوتا۔

تین سو سال سے ہیں ہند کے مے خانے بند

اب مناسب ہے تیرا فیض عام ہواے ساقی

حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے اہل ِسنت کے عقائد کی طرف توجہ مبذول فرمائی دین متین میں صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کا مقام و مرتبہ، صحابہ کی تعلیمات اور خلفائے راشدین کے مقام و عظمت اور اہلیت کے مقام و عظمت کا خظ وافرپرچار کیا۔

حضرت مجدد الف ثانی کی جدوجہد اور مساعی جمیلہ کو تاریخ اسلام میں بہت سراہا گیا۔ اسلام کی گذشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ میں تجدید دین کا جو کارنامہ شیخ مجدد نے انجام دیا۔ مجدد صاحب کے اسلوب دعوت کا  ایک اور پہلو جو دعوتی تحریکوں اور ان کے کارکنان کے لئے قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ صرف وہی داعی اپنے مشن میں کامیابی حاصل کرتا ہے جو اپنے دور کے وسائل دعوت کو اپنے  مشن کی کامیابی کے لئ احسن انداز میں استعمال کرتا ہے۔ حضرت مجدد نے ایک طرف اپنے ذآتی کردار سے دعوت کی طرف متوجہ کیا تو دوسری طرف دعوتی خطوط کو اپنی تبلیغ و تذکیر کے لئے ایک موثر ترین ذریعے کے طور پر اختیار  فرمایا۔ گویا کہ آپ نے اپنے دور کے میڈیا  وار میں دعوتی خطوط کو ہتھیار کے طور پر استعمال فرمایا۔

امام ربانی مجدد الف ثانی کے اقوال وکیفیات اور وقائع کا دقیق نظر سے مطالعہ کرنے سے یہ واشگاف انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ آپکی قدم رنجائی بھی کسی بہار جانفزاں سے کم نہیں ۔

برصغیر کے چمن رسیدہ ماحول میں آپ نے دل آویز خوشبو بکھیریں اور اپنے جلال و جمال  اور شریعت و طریقت کے دلکش جلوؤں  کی تابانیاں دکھائیں۔

 رشد و ہدایت کا فیضان جاری ہوا۔ شریعت و طریقت، فکر و خیال، سیرت و کردار، سیاست و ریاست اور تہذیب و تمدن  کا کون سا گوشہ تھا جس میں مجدد کی رہنمائی کا فیض نہ پہنچا ہو۔

 قوموں کی زندگی کی سمت کے تعین میں ان کے نظام ِ افکار بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی افکار تازہ قوموں کے زوال کو عروج میں بدل کر زندگی کی نئی جہتوں سے آشنا کرتے ہیں۔ قوموں کے افکار عالیہ ہی ذوق انقلاب پیدا کر کے ملت میں عروج و شباب  کی روح ڈالتے ہیں ۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف سب سے پہلا قدم حضرت مجدد الف ثانی نے اُٹھایا۔ اسلامی عقائد و نظریات میں صحابہ کرام علیھم الرضوان کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا  نہیں ہے ۔  صحابہ کرام وہ ذوات  قدسیہ ہیں جن کے علم و فضل ، سیرت و کردار ، تقویٰ و طہارت ، دیانت و امانت  پر دین متین کی بلند و بالا پرشکوہ عمارت کھڑی ہے ۔ صحابہ و اہلبیت کے بارے میں کسی قسم کی بد گمانی ، طعن و تشنیع دین میں نقصان و خسران کا باعث ہے دین متین کی صحیح معرفت کے لئے ضروری ہے کہ مرتبہ صحابیت سے پوری طرح جانکاری واقفیت ہو اور ان اصحاب و اہلبیت کی محبت و تعظیم و تکریم میں جس قدر اضافہ ہو گا آدمی اپنے دین پر اسی قدر پختہ اور یقین کامل ہوتا جائے گا۔

 بایں وجہ رسول اکرم نے اپنے صحابہ واہلبیت کے بارے میں چوکس و جوکنا رہنے اور انکے معاملات و مشاجرات  میں اللہ سے ڈرتے رہنے کی بار بار تلقین و موعظت فرمائی ہے۔ فکر مجدد الف ثانی کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کرنے کی از حد ضرورت ہے تاکہ بہت سی غلط فہمیاں دور ہوں۔ حضرت مجدد الف ثانی نے صحابہ کرام کی عظمت و محبت اور مراتب فضیلت کو اپنی مایہ ناز کتاب مکتوبات امام ربانی میں متعدد جگہ تحریر فرمایا ہے اور اسے صاحب ایمان کے لئے لازم و ضروری قرار دیا ہے۔

 امام ربانی مکتوبات شریف میں رقمطراز ہیں۔

صحابہ کرام سے مخالف طریقہ اختیار کر کے نجات کی مجال و گنجائش اور نجات کا امکان کہاں؟ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ صحابہ کرام کی اتباع کی پابند صرف اہل سنت و جماعت کا گروہ ہی ہے۔ لہذا  نجات پانے والا بھی یہی فرقہ ہے کیونکہ صحابہ کرام پر طعن و تشنیع کرنے والے فرقے صحابہ کرام کی اتباع سے محروم ہیں صحابہ کرام کی ذات میں عیب  نکالنا درحقیقت پیغمبر خدا کی ذات میں عیب لکالنے کے مترادف ہے۔ "ما اٰمن برسول اللہ من لم یؤقر اصحابہ" ترجمہ: "اس شخص کا رسول پاک پر کوئی ایمان نہیں جو صحابہ کرام کی تعظیم و توقیر کا منکر ہے"۔[i]

جیسا کی اعلٰحضرت امام احمد رضا خان اپنی مشہور زمانہ شاعری میں صحابہ و اہلبیت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور

نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

بد قسمتی سے اس امت نے اپنے نبی کے اصحاب  و اہلبیت کے حوالے سے بھی لوگوں میں اختلافات پیدا کر دیے اور ان کے مابین تفریق کرتے ہوئے بعض کو مانا اور بعض کو جھٹلایا۔ بلکہ نعوذ باللہ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ ان پر طعن و ملامت اور کفر کے فتوے لگائے۔ وہ قوم بھلا کیسے فلاح و کامیابی حاصل کر سکتی ہے جو اپنے نبی کہ اصحاب وآل کو برا بھلا کہتی ہو۔

 حضرت مجدد الف ثانی کے زمانہ میں جب  دشمنان صحابہ و اہلبیت نے وقت کی شہنشاہیت  کا سہارا لے کر اپنے ملعون مذہب اور یہودی نظریات کو فروغ دینا چاہا  اور اصحاب و اہلبیت پر سب و شتم کے دروازے کھولے ہیں  تو امام ربانی کی دینی غیرت و حمیت  اور غیوری کو یہ برداشت نہ ہوا اور میدان میں ڈٹ  گئے اور یہ ان کی غیرت ایمانی اور محیت کا تقاضا تھا کہ صحابہ واہلبیت کی عزت و حرمت،عفت و حیا، راست بازی، پاکدامنی کے دفاع  کا کوئی موقع تشنہ نہ رہا اور ہر فورم پر دشمنان صحابہ و اہلبیت کا دلائل عقلیہ ونقلیہ سے ردِ بلیغ کیا۔

 مزید براں امام ربانی فرماتے ہیں!

یہ فقیر اگرچہ ان دشمنان دین کا مختلف مجالس و معارک میں دلائل عقلیہ و نقلیہ کے ساتھ بالمشافہ رد کرتا رہتا ہے اور لوگوں کو ان کی صریح مذلات پر مطلع بھی کرتا رہتا ہے۔ لیکن میری دینی حمیت اور فاروقی رگ اسقدر  پر اکتفا نہیں کرتی۔[ii]

امام ربانی کی مکتوبات میں بعض ایسے مقامات ہیں جن میں آپ نے روافض و خوارج کے عقائد و نظریات کا دلائل و براہین سے ردِ بلیغ کیا اور صحابہ و اہلبیت کی بابت عقیدہ اہلسنت کی پوری ترجمانی  و تائید کی۔

مزید یہ کہ آپ نے اپنے مکتوب نمبر 15 میں اس حوالہ سے یوں بیان کرتے ہیں ۔ کہ اگرشیخین کی تقدیم و تفضیل میں متوقف ہے تو طریق اہلسنت کے مخالف ہے اور اگر حضرت حسین کی محبت میں متردد ہے تو بھی اہل حق سے خارج ہے۔ [iii]

 جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان الوہیت میں گستاخی کرنا کفر ہے اسی طرح رسول اللہ کی ذات اقدس  اور شان نبوت میں ذرہ بھر گستاخی دولت ایمانی سے محروم کر دیتی ہے اور ایسا کر نا کفر ہے۔

اور اسی طرح جن نفوس قدسیہ کا سرور عالم سے غلامی کا نیاز مندانہ رشتہ ہے ان سے کسی بھی طرح کی گستاخی کرنا بھی کفر ہے۔ خواہ وہ ازدواجِ مطہرات امہات المومنین ہوں۔ خواہ آل و اولاد ہو۔ خواہ صحابہ کرام ہوں۔

لہٰذا ان کی فضیلت و تقدیم کا مسئلہ یوں نہ لیا جائے کہ ایک کی تعریف و تحسین سے دوسرے کی تنقیص ہو۔ تعظیم و تکریم میں سب برابر ہیں۔ البتہ مرتبہ و فضیلت میں فرق مراتب ہے۔ اور اسی طرح ترتیب خلافت ہی درحقیقت ترتیب فضیلت ہے۔ لیکن بعض صحابہ جزوی کمالات بعض حیثیتوں میں زیادہ ہیں۔ لیکن فضیلتِ مطلقہ حضراتِ شیخین کو ہی حاصل ہے۔ کچھ وہ فضائل ہیں جن میں تمام صحابہ کرام شریک ہیں اور بعض فضائل خصوصی ہیں ایک میں ہیں دوسروں میں نہیں تاہم عزت و تکریم اور جنتی ہونے میں سب برابر ہیں۔[iv]

امام ربانی مجددالف ثانی کے دور میں بھی صحابہ کے حوالے سے فتنے برپا ہوئے بالخصوص حضرت امیر معاویہ کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا۔ لیکن بایں ہمہ  پھر حضرتِ مجدد الف ثانی نے حضرت امیرمعاویہ کے حوالے سے اور تمام اصحاب کی عدالت و امانت پر پہرہ دیتے ہوئے یوں تحریر کرتے ہیں۔ کہ حضرت امیر معاویہ کی محبت اہلسنت و جماعت کی شرط ہے۔ اور جو شخص یہ محبت نہیں رکھتا وہ اہلسنت سے خارج ہے۔

اور جو  حضور کے اصحاب کو سب و طعن  اور نقص نکالتا ہے اور صحابہ و تابعین اور سلف الصآلحین کے طریقے کے برخلاف چلتا ہے وہ رافضی ہے۔[v]

 اسی طرح علامہ سعدالدین تفتازانی رقمطرار ہیں!

کہ اہل حق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام امور میں حضرت علی حق پر تھے اور تمام صحابہ عادل ہیں اور ساری جنگیں اور اختلافات تاویل پر مبنی ہیں ان کے سبب کوئی بھی عدالت سے خارج نہیں اس لئے کہ وہ مجتہد ہیں اور مزید براں امام ربانی اپنا موقف  یوں زینت فرطاس کرتے ہیں!

امام ربانی کے مختلف مکتوبات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات متشرح ہوتی ہے کہ روافض کافر ہیں اور اس پر ایک رد روافض مستقل کتاب  لکھی ۔ اس میں لکھتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ ابو بکر و عمر صحابہ میں سب سے افضل ہیں پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے۔[vi]

حضرت امام ربانی مزید اپنے مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: وہ شخص بہت ہی بیوقوف ہے جو اپنے آپ کو حضرت خیر البشر کے اصحاب کے برابر سمجھے اور وہ شخص اخبار و آثار سے جاہل ہے جو اپنے آپ کو سابقین میں تصور کرے ۔ امام ربانی کا قلم مقام صحابیت و دفاع اہلبیت کا زندہ و پائندہ اور تابندہ ثبوت ہے۔ امام ربانی کی جملہ تحریر سے یہ  درس مل رہا ہے کہ علماء و مشائخ کو دین کا پیغام مخالفین و معاندین تک کس طرح علمی و عملی ، تحقیقی و تنقیدی اور تقابلی صورت میں پہنچایا جائے۔ بعض لوگ مقام صحابیت کے حوالے سے تساہل اور غفلت کے مرتکب نظر آتے ہیں اور ان مبارک و برگزیدہ اور چیدہ و چنیدہ ہستیوں کو اپنے اعتراضات و تنقیدات کا ہدف بنانے کی ناپاک جسارت کر رہے ہیں۔ بلکہ ان پاکیزہ ہستیوں کے سیرت و کردار، فکر و خیال، مشاجرات و منازعات میں خامیں تلاش کرنے کو علمی تحقیقی کاوش گردانتے ہیں جو کہ سراسر غلط روش ہے۔ ہمیں قرآنی شجر کی طرف ازسر نو بنیادوں کع مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ناپاک عزائم کی راہ مسدود ہو۔ امام ربانی صحابہ کرام کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کے حق میں طعن و تشنیع دین و ایمان کے لیے کس قدر خطرناک ہو سکتے ہیں۔ "ما اٰمن برسول اللہ من لم یؤقر اصحابہ" ترجمہ: "اس شخص کا رسول پاک پر کوئی ایمان نہیں جو صحابہ کرام کی تعظیم و توقیر کا منکر ہے"۔

جس نے اصحاب کی عزت و تعظیم نہیں کی وہ رسول اللہ پر ایمان نہیں لایا۔ ان اصحاب کا حسد ان کے صاحب کے حسد تک نوبت پہنچا دیتا ہے۔ نیز جو احکام قرآن و حدیث سے ہم تک پہنچتے ہیں وہ ان ہی کی نقل کے وسیلے سے ہیں۔ جب یہ مطعون ہوں گے تو انکی نقل بھی مطعون ہو گی ۔ پس ان میں سے کسی ایک کا طعن دین کے طعن کو مستلزم ہے۔

مذکورہ بالا مکتوب سے مقام صحابیت کے ادراک اور احساس کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ مجدد صاحب صحابہ و اہلبیت کی گستاخی کا ارتکاب کرنے والوں سے کس قدر نفرت و بیزاری کا معاملہ رکھتے ہیں۔ مجدد صاحب بالخصوص صحابہ و اہلبیت کی مقدس فیض بار بارگاہ میں ہرزہ سرائی کرنے والوں سے جابجا لاتعلقی و نفرت و بیزاری کا برملا اظہار و اقرار کرتے نظر آتے ہیں جو کہ  آپ کا اصحاب و اہلبیت سے محبت و عقیدت کی حقیقت ہے۔

صحابہ کرام اور ان مقبول و محفوظ ہستیوں کے حوالے سے حضرت مجدد صاحب نے جس بےباکی و خود آگہی اور بے خوف و خطر عقیدہ حق کا پرچار کیا اور طاغوتی و سامراجی ملحد و مستشرقین کا بڑی جانفشانی  سے مقابلہ کیا ہے یہ  ان ہی کا خاصہ ہے۔ بلکہ مسجد و محراب اور خانقاہ کے آنگن میں عقیدہ بیان کر دینا آسان و سہل کام نظر آتا ہے لیکن دشمنی کے ماحول میں اور بالخصوص جب دشمن تخت و تاج اور ملوکیت و شہنشاہیت سے منسلک ہو اور درباری اکبری کا مقرب بنا ہو تو ایسے ماحول میں احقاق حق اور ابطال باطل کا بیڑہ اٹھانا بڑے جگر گردے اور کلیجے کا کام ہے۔ کسی جابر و ظالم کے سامنے اعلاء کلمۃ الحق کہنے کو جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور امام ربانی نے یہ فریضہ احسن و اکمل انداز سے سر انجام دیکر دشمنوں کا ناطقہ بند کردیا۔ اکبری و سلاطین مغلیہ کے باب کو ہمیشہ کےلیے بند کر کے صحابہ و اہلبیت کی عظمت و شان کی چرچے و تذکرے ہر سو پھیلائے اور اس عقیدہ کو اہلسنت کا شعار بنایا۔ اور جو اس عقیدہ کے برخلاف ہوگا اس کا اہلسنت و جماعت سے کسی بھی طرح کا تعلق و تمسک تصور نہیں  کیا جائے گا۔

واللہ المستعان وعلیہ التکلان

مآخذ و مراجع



[i][i] مجدد الف ثانی،شیخ احمد سرہندی، مکتوبات امام ربانی ص 111 حصہ دوم مکتوب نمبر80۔مترجم قاضی عالم دین نقشبندی مجددی

 

[iii]مجدد الف ثانی،شیخ احمد سرہندی، مکتوبات امام ربانی ص 57 حصہ دوم مکتوب نمبر15۔ مترجم قاضی عالم دین نقشبندی مجددی

[v][v] مجدد الف ثانی،شیخ احمد سرہندی، مکتوبات امام ربانی ص 91 حصہ دوم مکتوب نمبر2۔ مترجم قاضی عالم دین نقشبندی مجددی

[vi] مجدد الف ثانی،شیخ احمد سرہندی، رد روافض صفحہ 31

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post