اسلام کا نظریہ احترامِ انسانیت ایک مطالعہ 

محمد اسامہ حسین کشمیری


 مقدمہ                                                   

حمد و ثنا ء اس ذاتِ پاک کی جس نے ہمیں اپنی جمیع مخلوقات میں سب سے افضل و منفرد مقام بخشا اور صلوۃ و سلام آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس پر کہ جن کو سب افضل الخلق بنایا ۔انسان اللہ تعالیٰ کا بنایا گیا ایک عظیم شاہکار ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین پر امور کے نفوذ  کے سلسلے میں خلیفہ بنا کر بھیجا تاکہ وہ اللہ کی عبادت بھی بجا لائے اور اس کی صفات کا  کامل مظہر بن کر دوسری تمام کائنات سے مستفید ہو۔اس مقصد میں ہدایت و معاونت کے لئے اسکو اپنی جناب سے خاص راہنمائی عطا کی اور انبیاء و رسل نیز کتبِ مقدسہ کے ذریعے سے ہمیں  ہمارے ادوارِ تخلیق اور مقصدِ خلقت سے آگاہ کیا نیز ہماری منزل کا تعین بھی کر دیا۔اس منزل تک پہنچانے والا راستہ اسلام ہے۔جو صراطِ مستقیم ہے۔اسلام ایک عالمگیر اور آفاقی مذہب ہے۔ اس کی ہمہ گیریت کوہرچند فطری مظاہر، دلائل اور شواہد سے ثابت ہوئے عرصہ گذرگیا اس کی ہمہ گیریت ہی ایک ایسا وسیع تر باب ہے جہاں سے ہر عام و خاص کو راہِ پناہ ملتی ہے۔یہ ہمہ گیریت اسلام کا ایک خاص امتیازی وصف ہے اوراسی انفرادی و امتیازی وصف کی بناء پر اسلام ایک عالمگیر مذہب سمجھا جاتا ہے جس میں نہ علاقہ کا حصار ہے اور نہ سلطنت کی تحدید نہ قومیت کی تقیید ہے نہ نسل پرستی کا جراثیم نہ اس کا کوئی سرحد ہے اور نہ کوئی مخصوص گھیرابندی دراصل مذہب اسلام اپنی ذات میں بے پناہ وسعت، گہرائی و گیرائی اور ہمہ جہتی رکھتا ہے۔تاریخ کے گنجلک صفحات میں ایسے سیکڑوں واقعات کی کثرت ہے جس کی منفی تشہیر صرف اس غرض سے ہوئی تاکہ اسلام کو بدنام کیا جاسکے، اسلام دشمنی کا یہ سلسلہ چلتا رہا تاآنکہ ان اسلام دشمنوں کے ہاتھ ”دہشت گردی اور اسلام“ کا ایک فتنہ خیز عنوان آگیا اس عنوان کے سہارے اسلام کی جتنی تحقیر کی گئی اوراس کے بنیادی عقائد ونظریات کو جس قدر نشانہ بنایاگیا وہ ہر مسلم فرد کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں تھا اس صورت حال سے پوری امت تڑپ اٹھی۔ دراصل آج اسلام اور دہشت گردی بین الاقوامی سطح پر ایک ایسا معروضی عنوان بن گیا ہے جو سراسر حقائق مخالف ہونے کے باوجود، طاقتور اور تیز ترین ترسیلی ذرائع کی بناء پر ایک سچا اورحقیقی بلکہ مشہور زمانہ معروضہ بن گیا اور شاید اسلام دشمن یہ چاہتے بھی تھے کہ اسلام کی امن پسند شبیہ مجروح ہوجائے اور یقینا اس غیرواقعی الزام سے انکا ناپاک مقصد پورا ہوگیا ۔اسلام دین فطرت ہے، امن و امان کی پاسداری اوراسے اولین ترجیح قرار دینے والا آفاقی مذہب ہے ایک ایسا دین ہے جہاں انسانیت نوازی کا درس دیا جاتا ہے اور اخلاقیات کا سبق پڑھایا جاتا ہے انسانیت کے احترام کی ہدایات دی جاتی ہیں۔اس مقالے میں قرآن وحدیث کے تناظر میں احترام انسانیت کی تشریح کو محور بناکر ان گوشوں کو واضح اور نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بدیہی اور عام ہونے کے باوجود غیرمسلم طبقات کے لئے ناقابل فہم اور ملت اسلامیہ کے لئے ناقابل تشریح بن چکے ہیں۔

 

 قرآن میں تصورِ تکریمِ انسانیت

احسن تقویم

قرآن کریم میں انسان کی کرامت ، فضیلت و اہمیت کے مختلف حوالے ملتے ہیں جن میں اس کی دوسری مخلوقات کے مقابلے میں اعلی درجہ کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو عطا کئے جانے کا تذکرہ کیا گیا ہے ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی پیدائش ، فطرت اور وجود کے اعتبار سے اشرف و اکرم ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ،ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِیْن  ۔ [1]

’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے پھر اسے سب سے نچلے درجے میں گرا دیا‘‘۔

 اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد بہترین شکل و صورت میں اس کا پیدا کیا جانا ہے ۔موجودہ دور میں نظریہ ڈارون تھیورپیش کنندہ اور اس  کے قائلین نے انسان کو درجہ انسانیت سے گراکر اس کا شجرہ نسب بندر سے ملا دیا ہے ۔یہ تحقیق اس نام نہاد تہذیب کے فرد کی ہے جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔  مگر قرآن مجید نے انسان کو انسان ہی کی حیثیت سے پیدا کرنے کا ٹھوس ثبوت فراہم کیا ہے ۔ قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں تکریم بنی آدم کے حوالے سے اس کو پاکیزہ روزی عطا کئے جانے اور بحر و بر میں سوار کیے جانے کا تذکرہ آیا ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاھُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاھُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاھُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلا۔[2]

’’یہ تو ہمارا فضل ہے کہ بنی آدم کو بزرگی عطا کی اور انہیں خشکی وتری میں تک رسائی عطا کی اور ان کو پاکیزہ اشیاء سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر واضح  فضیلت بخشی‘‘ ۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں کہ انسان کے لیے کائنات کی بہت سی چیزوں کو مسخر کردیا گیا ہے ، خشکی میں سواری کے لیے جانور وں اور حیوانوں کو اس کے تابع کردیا گیا ہے اور سمندر میں سواری کے لیے کشتی اور جہاز بنانے کا اس کو ہنر عطا کیا گیا ہے مزید اس کو ہر طرح سے پاکیزہ ، حلال اور لذیذ غذا فراہم کی ہے اور ان مذکوراعتبارات سے اس کو دوسری بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے ۔

خلافت فی الارض

قرآن مجید کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو خلافت ارضی عطا کی ہے اور جب اس کی تخلیق عمل میں آئی تو ملائکہ (فرشتوں)  کو اس کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ، انسان کی تخلیق کے وقت فرشتوں نے یہ تعجب سے یہ سوال  کیا تھا کہ یہ مخلوق زمین میں خون خرابہ اور فتنہ و فساد مچائے گی ، کیونکہ اس سے قبل وہ جنات کا مشاہدہ کر چکے تھے۔انہوں نے کہا کہ  تسبیح و تحمید کے لیے ہم کافی ہیں اور اللہ کی عبادت و اطاعت کے لیے ہر وقت حاضر ہیں مگر اللہ تعالی نے جواب میں اپنے لامحدود علم و حکمت اور فرشتوں کی کم علمی کا حوالہ دیا اللہ تعالی کا ارشا دہے ۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء  وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء  کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَۃِ فَقَالَ أَنبِئُونِیْ بِأَسْمَاء  ہَـؤُلاء  إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ ۔قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ ۔قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیْ أَعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ ۔وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْن  [3]

’’اور( اے پیغمبر اس حقیقت پر غور کرو )جب ایسا ہوا تھا کہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا : میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ فرشتوں نے عرض کی کیا ایسی ہستی کو خلیفہ بنایا جارہاہے جو زمین میں خرابی پھیلائے گی اور خون ریزی کر ے گی ؟حالاںکہ ہم تیری حمد و ثنا کرتے ہوئے تیری پاکی و قدوسی کا اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے کہا میری نظر جس حقیقت پر ہے تمہیں اس کی خبر نہیں ۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے نظام بگڑ جائے گا )تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ انہوں نے عرض کیا ’’نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں عطا کیا ہے ۔ حقیقت میں سب کوجاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ۔ پھر اللہ نے آدم سے کہا تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاؤ ۔ جب اس نے ان کو ان سب کے نام بتادیے تو اللہ نے فرمایا میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں ۔ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی مجھے معلوم ہے ۔ اور جو کچھ تم چھپائے ہو اسے بھی میں جانتا ہوں ۔ پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور انکار کرنے والا بن گیا‘‘ ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو خلیفہ بنانے کا کیا مطلب ہے ۔ کیا اللہ تعالی نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا یا ہے یا زمین میں آباد کسی پیش رو مخلوق کا خلیفہ بنایا ہے یا انسان کا انسان کی جانشینی مراد ہے ۔ مفسرین نے تینوں باتیں کہی ہیں ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ انسان سے پہلے زمین پر جنوں کی آبادی تھیں ۔ جب انہوں نے فتنہ فساد مچایا تو انہیں سمندروں ، پہاڑوں اور جنگلات میں منتشر کردیا گیا اور ان کی خلافت بنی نوع انسان کو عطا کی گئی ہے ۔ دوسرا مفہوم یہ ہے اللہ تعالی نے اپنے احکام کے نفاذ و اجراء کے لیے انسان کو اپنا خلیفہ بنا یا ہے ۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ انسان خود ایک دوسرے کی جانشینی کریں گے اور زمین کی خلافت ادا کریں گے جیساکہ عملا دیکھا جارہا ہے ہر آنے والی قوم سابقہ قوم کا جانشین اور اس کا خلیفہ ہوتا ہے۔اللہ تعا لی کا ارشاد ہے ۔

ثُمَّ جَعَلْنَاکُمْ خَلاَئِفَ فِیْ الأَرْضِ مِن بَعْدِھُم لِنَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُون [4]

’’پھر ہم نے تم لوگوں کو ان کے بعد زمین کا خلیفہ بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم لوگ کیسے اعمال انجام دیتے ہو ‘‘۔

تعلیم اسماء کی تفسیر میں مختلف اقوال منقول ہیں جن میں روئے زمین پر آئندہ آنے والے تمام انسانوں ، جانوروں اور تما م چیزوں کا علم عطا کیا گیا تھا ، بعض اقوال کے مطابق جملہ انبیاء و رسل اور صالحین کے نام بتائے گئے تھے غرض اس سے جو بھی مراد ہو مفسرین نے لکھا ہے کہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی شرف و عزت کا بیان ہو اہے ۔مسجود ملائکہ ہونا ، اس بارے میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ انسان کی اللہ تعالی کی طرف سے عظیم کرامت و فضیلت ہے جس کا ذکر آیت مذکورہ میں ہوا ہے ۔ احادیث میں بھی مسجود ملائکہ کے ضمن میں حضرت آدم علیہ السلام کی شرف و عزت کا حوالہ دیا گیا ہے اور یہ واقعہ تعلیم اسماء سے پہلے کا ہے ۔ جیساکہ مفسرین نے اس کی وضاحت کی ہے ۔ مفسرین نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ فرشتوں کا سجدہ کرنا بطور عبادت کے نہیں تھا بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کے اظہار کے لیے تھا۔

افضلیت کا معیارِ خداوندی کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے بطورِ انسان سب کو یکساں شرفِ احسنِ تقویم بخشا ہے اور سب کو اعلیٰ وہبی صلاحیتوں سے بھی نوازا جن میں شعور بھی ہے۔اللہ کے ہاں کسی خاص رنگ و نسل کا انسان قابلِ ستائش نہیں ہے مگر جو اللہ کا ہو جائے اور اسی کی عبودیت اختیار کرے۔ آپ علیہ السلام  نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر انسانی حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ [أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى]۔

ترجمہ: خبر دار رہو کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہےاور کسی  سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل ہے مگر تقویٰ کی بنیاد پر ۔ مسند امام احمد بن حنبل[5]

آپ ﷺ نے انسانی قائم کردہ ان ظالمانہ امتیازات کو اپنے اس آخری خطبے میں اپنے پیروں تلے روند ڈالا اور معیارِ شرف و فضیلت تقویٰ کو قرار دیا۔اسی چیز کو قرآنِ کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوں بیان کیا کہ

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ

ترجمہ: اے لوگو! بے شک میں نے تمہیں مذکر اور مؤنث بنایا اور تمہیں شعوب و قبائل میں منقسم کیا تاکہ وہ تمہاری پہچان بن سکیں ،بے شک تم میں افضل ترین وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔[6]

آج اس جہالت زدہ معاشرے میں دیکھا جاتا ہے کہ کوئی اپنے رنگ و نسل کا امتیاز پیدا کر کے فساد کے مواقع پیدا کرتا ہے اور کوئی لسانیات کی بنیادیں تراشتا ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ انسانیت کے لئے ایک  دھبہ ثابت ہوئے ہیں۔جاہلیت کے دور میں لوگ قبیلوں اور قوموں کے تعصبانہ سلسلہ میں بندھے ہوئے تھے اور ہمہ وقت ایک دوسرے پر ظلم کیا کرتے تھے۔ان کے سردار بھی ایسے ہی نظام کے خواہاں تھے جس سے ان کی سرداری برقرار رہے۔چنانچہ اسلام ایک عالمگیر دین ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح کرتا ہے۔اسلام نے یہاں بھی سیاست و حکومت کے نمایاں اصول بتائے اور ساری انسانیت کی  جس سے دنیا نے فاروقِ اعظم کے عدل کا مشاہدہ کیا ۔ایک ایسی ریاست جس میں انسان تو انسان کوئی بھوکےجانور کے مرنے سے بھی حکمران  خود کو اس کا قصوروار ٹھہراتا نظر آتا ہے۔

انسانی جان کی حرمت

دنیا کی ساری آبادی ، اس کی بہاریں اور سرگرمیاں انسانوں کے دم سے ہیں ۔ اور انسان کی زندگی کی بقا کا انحصار اس پر ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی جان کے درپے نہ ہوں ورنہ یہ دنیا ویران ہوجائے گی اور یہاں کی سب بہاریں جاتی رہیں گی ۔ اسلام میں اسی لیے ایک آدمی کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص نا حق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل حیات انسانی کے احترام سے خالی ہے لہذا وہ ایسے ہی ہے جیسے پوری انسانیت کا گویا اس نے قتل کردیا ہو اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

مِنْ أَجْلِ ذَلِکَ کَتَبْنَا عَلَی بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ أَنَّہُ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاس جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا   [7]

’’اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ ’’ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘.

انسانی جان کی صرف یہی قدر و قیمت نہیں ہے کہ اس سے دنیا کی آبادی ہے بلکہ وہ ارض پر انسان کا وجود قدرت کا انمول تحفہ بھی ہے۔ اس لیے اس کی حفاظت ہونی چاہیے اسلام میں اس لیے خودکشی حرام ہے کیوں کہ اس سے خالق کی اس گراں قدر نعمت کی انتہا ئی درجہ بے قدری ہوتی ہے چناں چہ خود آدمی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی جان کو ہلاک کرلے ۔ یہ بھی اللہ تعالی کی نظر میں ایسا جرم ہے جیسا کہ دوسرے فرد کو قتل کرنا ۔ ارشاد ہے :

وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً۔ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ عُدْوَاناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَاراً وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللّہِ یَسِیْرا۔ [8]

’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقین جانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہر بان ہے جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ تعالی کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے ‘‘۔

انسانی جان کی حفاظت اور اس کے احترام کی یہی وہ مصلحت ہے جس کی وجہ سے اسلام میں قتل کی سزا سخت ترین رکھی گئی ہے یعنی جو شخص کسی کو ناحق قتل کرے گا تو اس کو بھی بدلے میں قتل کردیا جائے گا ۔ کیوں کہ اس نے جس طرح انسانی جان کی حرمت پامال کیا ہے اب اسے جینے کا حق نہیں پہنچتا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاص [9]

’’ہم نے ان پر لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کا برابر بدلہ ‘‘۔

آیت بالا پر گہرائی سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانی جان کی حرمت کا دائرہ محض جان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ تمام انسانی اعضاء تک وسیع ہے یعنی اگر کسی انسان کے کسی عضو کو بھی تلف کیا جائے یا نقصان پہنچایا جا ئے تو اس کے بقدر اس سے قصاص لیا جائے گا ۔ مزید یہ کہ انسانی جان کی حرمت میں عزت و آبرو اور مال اور عقل کی حفاظت بھی شامل ہے اسی وجہ سے ان چیزوں پر دست درازی پر سزائیں مقرر کی گئی ہیں ۔

انسانی مال کی حرمت

اللہ تعالیٰ نےجس طرح نسلی،رنگی اور لسانی بنیادوں کی بیخ کنی کی  اور انسانوں کو جانی تحفظ کی یقین دہانی کروائی اسی طرح سے انسان کے اموال و املاک کو بھی اس کی طرح مستٔمن قرار دیا اور اس میں مداخلت کو حرام ٹھہرایا۔کسی انسان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بغیر اجازت کے کسی دوسرے انسان کی کسی چیز خواہ مال یا املاک میں کوئی کمی بیشی کرے یا اس کو استعمال کرے۔اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے اموال کو باطل طریقے سے حاصل کرنے کے تمام طریقے مسدود کر دئے جن سے اموال میں استیصالِ انسانی لازم آتا تھا ۔

ان میں سے بعضِ نمایاں یہ ہیں۔

رِبا(سود )

انسانی مال کو باطل طریقے سے ہڑپنے کا سب سے بدترین حربہ سود ہے جو سرمایہ داری اور ذخیرہ اندوزی کو فروغ دیتا ہے۔اسلام  دولت کمانے پر قد غن نہیں لگاتا  مگر یہ ایسی مالی نحوست ہے جس سے دیگر انسایت کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے ۔اس سے امیر آدمی کو امیر تر ہونے اور غریب کو غریب ترہونے کےسوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔اس بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ     [10]

ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہوپھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کرلو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا۔

اس حکمِ  قرآنی پر اگر غور کریں تو اس میں کس قدر سخت وعید وارد ہے کہ سود سے باز رہو اور اگر تم اس سے نہ رکو گے تو پھر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مد مقابل یعنی دشمنانِ اسلام کی صف میں شامل ہو جاؤ۔سودی دراصل دوسروں سے لی جانے والی بلا معاوضہ رقم ہے جس میں فریقِ ثانی کا بہردو صورت استیصال ہی ہوتا ہے۔یہ صریح ظلم ہے جو معاشرے میں احساس کو مار دیتا ہے اور دولت کی بھوک و ہوس کو جوش دیتا ہے۔قومِ یہود کا یہ ہمیشہ سے پیشہ رہا ہے اور اس دور میں بھی انہوں نے اسی نظامِ ظلم سےبینکوں کی بنیادیں قائم کر کے سودی کاروبار کو فروغ دیا اور مسلمانوں کو اپنے جال میں پھانس کر محتاج بنا دیا۔علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ جو لوگ سود لینے کو ترک  نہ کریں تو ان سے اسی طرح سے جنگ کی جائے جس طرح مرتدین اور باغیوں سے کی جاتی ہے۔اور جمہور مفسرین کایہی مختار ہے۔ [11]

سود کے متعلق احادیث میں وعیدیں:

عن جابر ، قال: " لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء "

حضرتِ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے،سود کھلانے والے،سود پر  گواہی دینے والے،اور سود کے لکھنے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا :یہ سب برابر ہیں۔۔ [12]

امام  طبرانی نے معجم الاوسط میں حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:انسان سود کا جو ایک درہم وصول کرتا ہے وہ اللہ کے نزدیک اسلام میں تینتیس بار زنا کرنے سے زیادہ  سخت ہے۔

عن عبدالله عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال الربا ثلاثة وسبعون بابا أیسرها مثل أن ینکح الرجل أمه۔

 

حضرت عبداللہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سود کے وبال تہتر (73) قسم کے ہیں۔ سب سے ادنی قسم ایسی ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے بدکاری کرے۔ [13]

امام ابو داؤد ،امام ابنِ ماجہ اور امام بیھقی اپنی سنن میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ کسی شخص کے سود کھانے سے اس شخص پر بھی سود کا غبار آئے گا جو سود نہیں کھاتا۔۔ [14]

سرقہ

چوری کرنا انسانی مال کو باطل طریقے سے گزند پہنچانے کا دوسرا ظالمانہ عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سود کی طرح اس پر بھی سخت وعید نازل فرمائی اور اس کے فاعل کی سزا و عقوبت کو بھی قابلِ عبرت بنایا۔قرآن مجید میں اس متعلق ارشاد ہوا۔

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَكَ عَلٰۤى اَنْ لَّا یُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَسْرِقْنَ وَ لَا یَزْنِیْنَ وَ لَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ۔

ترجمہ: اے نبی! جب مسلمان عورتیں تمہارے حضور اس بات پر بیعت کرنے کیلئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی۔۔ [15]

اس آیت میں اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ چوری کرنا کبیرہ گناہ ہے جیسا کہ اس کو شرک کے بعد گنوایا گیاہے۔اس لئے کہ یہ حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے اور اللہ کا معاملہ حقوق العباد میں انتہائی سخت گیر ہے۔دوسری جگہ ارشاد ہوا

وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِؕ                 

ترجمہ:اور جو مرد یا عورت چور ہو تواللہ کی طرف سے سزا کے طور پران کے عمل کے بدلے میں ان کے ہاتھ کاٹ دو ۔[16]

درج بالا آیت میں چوری جیسے برے جرم کی سزا ہاتھ کاٹنابتائی گئی ہے اس سے اس جرم کی تباہی کا اندازہ کریں،اس میں فقھائے کرام نے بیان کیا ہے کہ کیسے ہاتھ کاٹا جائے؟آیا کہ دونوں ہاتھ پہلے موقع پر کاٹے جائیں یا نہیں۔اور امت  کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ پہلی چوری پر سیدھا ہاتھ کاٹا جائے گا۔امام ابو حنیفہ ؒ کے ہاں نصابِ سرقہ دس درہم ،امام مالک اور امام شافعی  اور امام احمد کے ہاں  چوتھائی دینار ہے۔کئی استثنائی صورتیں ہیں جن میں قطعِ ید کا حکم نہیں ہوتا بلکہ تادیبا اس کا بدل کوئی حد ہوتی ہے۔مگر مطلقا چوری کی سزا یہی ہے۔اسلام نے انسان کے مال کو یوں تحفظ فراہم کیاہے۔نیز حربہ و غصب و ڈاکہ وغیرہ کی تفصیلات اس سے اگرچہ جدا ہیں اور وہ اس سے شدید تر فعل ہیں مگر نوع ایک ہونے کی وجہ سے فرع ہو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ڈاکے  کی سزا کی ایک قسم میں قتل بھی شامل ہے۔

مالِ یتیم کی حفاظت

اس سلسلے میں بھی قرآنی حکم نازل ہوا کیونکہ جن کا کوئی پرسان ِ حال نہ ہو تو ان کا انتظام و انصرام اللہ اور اس کے نیک بندوں کا ذمہ ہے۔قرآن میں ارشادہوا۔

وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗۚ-وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِۚ

ترجمہ: اور یتیموں کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر بہت اچھے طریقہ سے حتّٰی کہ وہ اپنی جوانی (کی عمر )کو پہنچ جائے اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو۔۔ [17]

فرمایا کہ ان کے بالغ ہونے سے پہلے ناجائز طریقے سے ان کے اموال میں تصرف نہ کرنا اگر چہ ان کا مذہب ،مسلک کچھ بھی ہو،یہاں مطلقا یتیم کا حکم ہے اور اسلام نے اس کو بھی اپنی پناہِ رحمت میں نظام اور اصول کے زیرِ سایہ جگہ دی۔

ان لوگوں کے متعلق حکم جو خرچ کرنے پر قادر نہیں ہیں:

وہ لوگ جو کسی عذر کی وجہ سے اپنا مال خود خرچ کرنے سے قاصر ہیں کہ اگر خود خرچ کر بیٹھیں تو نقصان کر دیں گے ۔ان میں وہ شخص بھی شامل ہے جو مجنون و کم عقل ہو اور وہ بھی جو فضول خرچ ہو۔قرآن نے وہ نظام دیا جس سے اس کا مال بھی بچا رہےاور وہ اس سے استفادہ بھی کرتا رہے۔اس میں بھی کوئی قیدِ اسلام نہیں لگائی بلکہ رب العالمین نے وہی مطلق انداز اپنایا اور ارشاد ہوا

وَ  لَا  تُؤْتُوا  السُّفَهَآءَ  اَمْوَالَكُمُ  الَّتِیْ  جَعَلَ  اللّٰهُ  لَكُمْ  قِیٰمًا  وَّ  ارْزُقُوْهُمْ  فِیْهَا  وَ  اكْسُوْهُمْ  وَ  قُوْلُوْا  لَهُمْ  قَوْلًا  مَّعْرُوْفًا

ترجمہ: اور بے عقلوں کو ان کے مال نہ دو جو تمہارے پاس ہیں جن کو اللہ نے تمہاری بسر اوقات کیا ہے اور انہیں اس میں سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہو۔[18]

انسانی عزت آبرو کی اہمیت

اللہ تعالیٰ نے جب شرف و تکریم میں سب کو یکساں رکھا ہے جو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کے قانون کے مقابل کوئی تفریق و امتیاز  پیدا کرےاور عزت و وقار کے الگ پیمانے گھڑ لے۔انسان بطورِ انسان بھی لائقِ تحسین ہے مگر جب وہ احسن تقویم کے درجے میں رہے اور فساد فی الارض کا مرتکب نہ ہو،اگر وہ ایسا کرتا پایا گیا تو اس کو اسفل السافلین میں شمار کیا جاوے گا۔کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کی اس عظیم مخلوق کی ہتک و توہین کرے۔تکریمِ انسانیت کا درس اسلام کا اولین درس ہے۔اسلام نے ان برائیوں کو سخت شد و مد کے ساتھ منع کیا جو کسی کی عزت و آبرو کو پامال کریں۔ان میں  چند نمایاں یہ ہیں۔

زنا

زنا کا شمار اسلام کے کبائر گناہوں میں ہونا ہے ۔زنا انسان کو حیوان کے درجے سے بھی گرا دیتا ہے۔اس کی سزا بھی اسی مناسبت سے اسلام نے سخت رکھی تاکہ کوئی اس فعلِ قبیح کو کرنا تو دور اس سے قربت بھی نہ رکھے نہ ہی مائل ہو۔قرآن کریم میں ارشاد ہوا

وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا

ترجمہ: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔[19]

(زنا کے قریب نہ بھٹکو) اس حکم کے مخاطب افرا د بھی ہیں اور معاشرہ بحیثیتِ مجموعی بھی،افراد کے لئے اس حکم کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ محض فعلِ زنا ہی سے بچنے پر نہ اکتفا کریں بلکہ زنا کے مقدمات اور ان کے ابتدائی محرکات سے بھی دور رہیں  یعنی جو اس طرف لے جاتے ہیں۔رہا معاشرہ تو اس حکم کی رو سے اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں زنا،اور محرکاتِ زنا،اور اسبابِ زنا کا سد باب کرے،اور اس غرض کے لئے قانون بنائے ،تعلیم و تربیت سے،اجتماعی ماحول کی اصلاح سے،معاشرتی زندگی کی مناسب تشکیل سے،اور دوسری مؤثر تدابیر سے کام لے کر۔فعلِ زنا ہی سے بچنے پر ن

مزید ارشاد ہوا کہ

اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۪-وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِۚ-وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔

ترجمہ: جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو۔ [20]

درج بالا آیت میں اس گھناؤنے فعل کی کس قدر مذمت کی گئی ہے جس کا پتہ اس کی سزا سے چلتا ہے اور اس پر لوگوں رحمت یا ترس کھانے سے بھی منع کیا نیز یہ کہ ان کے اس قدر ذلت آمیز عذاب پر لوگوں کو بطورِ عبرت گواہ رہنے کا حکم دیا۔شادی شدہ زانی کی سزا سنگسار اور کنواروں کی اسّی کوڑےہے۔

 

قذف

قذف کا لغوی معنیٰ:

علامہ سید مرتضیٰ زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ قذف کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قذف بالحجارۃ کا معنی ہے پتھر پھینکنا اور قذف المحصنۃ کا معنی ہے پاک دامن عورت کو زنا کی تہمت لگانا اور یہ مجاز ہے اور ایک قول یہ ہے کہ قذف کا معنی ہے گالی دینا اور حدیث میں ہے کہ ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی کو شریک کے ساتھ تہمت لگائی، اصل میں قذف کا معنی ہے پھینکنا پھر یہ لفظ گالی دینے اور زنا کی تہمت میں استعمال ہوا۔[21]

قذف کی اصطلاحی تعریف:

علامہ زین الدین ابن نجیم متوفی ٩٧٠ ھ قذف کا اصلاحی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قذف کا شرعی معنی ہے کسی محصن (مسلمان پاک دامن) کو زنا کی تہمت لگانا اور فتح القدیر میں ہے : اس پر اجماع ہے کہ حد کا تعلق اس کے ساتھ ہے کیونکہ قرآن مجید ہے :” جو لوگ محصنات (مسلمان اور پاک دامن) عورتوں کو زنا کی تہمگ لگائیں اور پھر اس پر چر مرد گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی (٨٠) کوڑے مارو۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوا

وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًاۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ

ترجمہ: اور جو پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ لائیں تو انہیں اَسّی کوڑے لگاؤ اور ان کی گواہی کبھی نہ مانو اور وہی فاسق ہیں) [22]

دوسرے مقام پر فرمایا کہ

اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ

ترجمہ: بےشک وہ جو عیب لگاتے ہیں انجان پارسا ایمان والیوں کو ان پر لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اُن کے لیے بڑا عذاب ہے[23]

احادیث کی روشنی میں قذف کا حکم:

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، جس شخص کے قتل کو حق کے سوا اللہ نے حرام کیا ہے اس کو ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ موڑنا اور پاک دامن مسلمان بےخبر عورت کو زنا کی تہمت لگانا۔

                                                                                                                                                                                                     [24]

امام ابو داؤد روایت کرتے ہیں۔ :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب میری برأت نازل ہوگئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر کھڑے ہوئے اور قرآن مجید کی تلاوت کی اور منبر سے اترنے کے بعد آپ نے دو مردوں اور ایک عورت پر حد لگانے کا حکم دیا سو ان کو حد لگائی گئی۔[25]

احصان کی شرائط میں مذاہب فقہاء :

علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں : فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جب کوئی مکلف شخص محصن کو زنا کی تہمت لگائے تو اس پر حد قذف واجب ہوتی ہے اور احصان کی پانچ شرائط ہیں :

(١) عقل (٢) حریت (٣) اسلام (٤) زنا سے پاک دان ہونا (٥) وہ شخص اتنا بڑا ہو کہ جماعت کرسکتا ہو یا اس سے جماع کیا جاسکتا ہو۔

تمام متقدمین اور متاخرین علماء نے احصان میں ان شرائط کا اعتبار کیا ہے۔[26]

برے ناموں سے پکارنا اور مذاق اڑانا

کسی بھی انسان کے ادنیٰ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا جو نام اس کے ماں باپ سے رکھاہے اور اس کی شناخت قرار پا گیا ہے تو اس کو بجائے کسی برے نا م سے مخاطب کرنے اور مذاق کرنے کے اسے اس کے اپنے نام سے پکارنا چاہیئے۔یہ لوگوں کی ہتکِ عزت اور دل آزاری کا باعث ہوتا ہے۔مومن اپنی لسان سے بھی دوسروں کو سالم و مسلم رکھتا ہے۔اور ان کو کوئی اذیت نہیںیہ لوگوں کی ہتکِ عزت اور دل آزاری کا باعث ہوتا ہے۔مومن اپنی لسان سے بھی دوسروں کو سالم و مس پہنچاتا ہے۔ہم کسی کا مذاق  اڑا کر اور ٹھٹھہ کر کے اس پر خوش ہوں تو کوئی دوسرا اس وجہ سے دکھ پاتا ہے۔

قرآنِ پاک میں ارشاد ہوا

لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ

ترجمہ:  آپس میں کسی کو طعنہ نہ دو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو، مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے۔[27]

اہل ایمان کو یہ احساس دلایا گیا تھا کہ دین کے مقدس ترین رشتے کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کو خدا سے ڈرتے ہوئے اپنے آپس کے تعلقات کو درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ان بڑی بڑی برائیوں کے سد باب کا حکم دیا جا رہا ہے جو بالعموم ایک معاشرے میں لوگوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت پر حملہ، ایک دوسرے کی دل آزاری، ایک دوسرے سے بد گمانی، اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس، در حقیقت یہی وہ اسباب ہیں جن سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے رو نما ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو احکام آگے کی آیتوں میں دیے گئے ہیں اور ان کی جو تشریحات احادیث میں ملتی ہیں ان کی بنا پر ایک مفصل قانون ہتک عزت ((Law of libel مرتب کیا جاسکتا ہے۔ مغربی قوانین ہتک عزت اس معاملے میں اتنے ناقص ہیں کہ ایک شخص ان کے تحت دعویٰ کر کے اپنی عزت کچھ اور کھو آتا ہے۔ اسلامی قانون اس کے بر عکس ہر شخص کی ایک بنیادی عزت کا قائل ہے جس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ حملہ واقعیت پر مبنی ہو یا نہ ہو، اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کی کوئی " حیثیت عرفی " ہو یا نہ ہو۔ مجرد یہ بات کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تذلیل کی ہے اسے مجرم بنا دینے کے لیے کافی ہے، الا یہ کہ اس تذلیل کا کوئی شرعی جواز ثابت کردیا جائے۔مذاق اڑانے سے مراد محض زبان ہی سے کسی کا مذاق اڑانا نہیں ہے، بلکہ کسی کی نقل اتارنا، اس کی طرف اشارے کرنا، اس کی بات پر یا اس کے کام یا اس کی صورت یا اس کے لباس پر ہنسنا، یا اس کے کسی نقص یا عیب کی طرف لوگوں کو اس طرح توجہ دلانا کہ دوسرے اس پر ہنسیں، یہ سب بھی مذاق اڑانے میں داخل ہیں۔اصل میں لفظ لمزْ استعمال ہوا ہے جس کے اندر طعن وتشنیع کے علاوہ متعدد دوسرے مفہومات بھی شامل ہیں، مثلاً چوٹیں کرنا، پھبتیاں کسنا، الزام دھرنا، اعتراض جڑنا، عیب چینی کرنا، اور کھلم کھلا یا زیر لب یا اشاروں سے کسی کو نشانہ ملامت بنانا۔ یہ سب افعال بھی چونکہ آپس کے تعلقات کو بگاڑتے اور معاشرے میں فساد برپا کرتے ہیں اس لیے ان کو حرام کردیا گیا ہے۔اس حکم کا منشا یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسے نام سے نہ پکارا جائے یا ایسا لقب نہ دیا جائے جو اس کو ناگوار ہو اور جس سے اس کی تحقیر و تنقیص ہوتی ہو۔ مثلاً کسی کو فاسق یا منافق کہنا۔ کسی کو لنگڑا یا اندھا یا کانا کہنا۔ کسی کو اس کے اپنے یا اس کی ماں یا باپ یا خاندان کے کسی عیب یا نقص سے ملّقب کرنا۔ کسی کو مسلمان ہوجانے کے بعد اس کے سابق مذہب کی بنا پر یہودی یا نصرانی کہنا۔ کسی شخص یا خاندان یا برادری یا گروہ کا ایسا نام رکھ دینا جو اس کی مذمت اور تذلیل کا پہلو رکھتا ہو۔یعنی ایک مومن کے لیے یہ بات سخت شرمناک ہے کہ مومن ہونے کے باوجود وہ بد زبانی اور شہد پن میں نام پیدا کرے۔ ایک کافر اگر اس لحاظ سے مشہور ہو کہ وہ لوگوں کا مذاق خوب اڑاتا ہے، یا پھبتیاں خوب کستا ہے، یا برے برے نام خوب تجویز کرتا ہے، تو یہ انسانیت کے لحاظ سے خواہ اچھی شہرت نہ ہو کم از کم اس کے کفر کو تو زیب دیتی ہے۔ مگر ایک آدمی اللہ اور اس کے رسول اور آخرت پر ایمان لانے کے بعد ایسے ذلیل اوصاف میں شہرت حاصل کرے تو یہ ڈوب مرنے کے لائق بات ہے۔

بد ظنی،تجسس اور غیبت

بدظنی انسان کو دوسرے کے بارے میں غلط رائے قائم کرنے کی طرف لے جاتی ہے جس سےعموما دوسرے کو نقصان دینے کی روش پیدا ہوتی ہے۔تجسس سے انسان دوسروں کے ان معاملات میں مداخلت کرنا ہے جن میں حائل ہونا لوگ گوارا نہ کریں۔غیبت انسانی عزت پر حملہ کرنے کا ایک خفیہ راستہ ہے جس سے دوسرے انسان کو دل آزاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔غیبت یہ ہے کہ آپ کسی سے متعلقہ کوئی ایسی بات اس کے پیٹھ پیچھےکہیں کہ جو اگر اس کے سامنے کہیں تو وہ برا مان جائے اور ایسی بات کو سامنے کہنا بھی گناہ ہے کیونکہ اس سے بھی دل آزاری ہی ہوتی ہے۔قرآن مجید میں غیبت کو مردار بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔اس سے انسانوں کے مابین فساد کا عنصر پھیلتا ہے۔

قرانِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ

ترجمہ: اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور (پوشیدہ باتوں کی) جستجو نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں ناپسند ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔ [28]

کسی کے بارے میں خواہ مخواہ کوئی بات فرض کر کے یا کسی سنی سنائی بات کو بنیاد بنا کر کوئی برا گمان اپنے دل میں بٹھا لینا اور منفی رائے قائم کرلینا جبکہ متعلقہ شخص نے نہ تو ویسا کوئی اقدام کیا ہو اور نہ ہی اس کے عملی رویے سے ویسی کسی بات کی تصدیق ہوتی ہو ‘ یہ ہے اس گمان کی نوعیت جس سے یہاں منع کیا جا رہا ہے۔ ایسے گمان کو بدگمانی یا سوئے ظن کہا جاتا ہے اور یہ بہتان اور تہمت کے زمرے میں آتا ہے۔{ وَّلَا تَجَسَّسُوْا } ”اور ایک دوسرے کے حالات کی ٹوہ میں نہ رہا کرو“عام طور پر ریاستی اور حکومتی سطح پر جاسوسی کے باقاعدہ محکمے بھی ہوتے ہیں اور ظاہر ہے ضرورت کے تحت ایسا کوئی محکمہ ایک اسلامی حکومت کے تحت بھی قائم ہوسکتا ہے ‘ لیکن اس حوالے سے جو بات معیوب اور ممنوع ہے وہ افراد کی سطح پر ایک دوسرے کے حالات کے بارے میں خواہ مخواہ کا تجسس ّہے۔ جیسے بعض لوگ عادتاً دوسروں کے معاملات کی ٹوہ میں رہتے ہیں اور ُ کرید کرید کر جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ فلاں گھر کے اندر کیا ہو رہا ہے ؟ فلاں دو بھائیوں کے معاملات کیا ہیں ؟ اور کیا وجہ ہے کہ ابھی تک ان میں کوئی جھگڑاوغیرہ نہیں ہوا ؟۔

{ وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا } ”اور تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔“

 اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی غیر حاضری میں اس کی برائی بیان نہ کرے ‘ خواہ وہ برائی اس شخص میں بالفعل پائی بھی جاتی ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے غیبت کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی ہے : ذِکْرُکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ ”تمہارا اپنے بھائی کا ذکر اس انداز سے کرنا جسے وہ ناپسند کرے“۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا : ”دیکھئے ‘ اگر میرے بھائی میں وہ برائی واقعتا پائی جاتی ہو جس کا میں ذکر کرتا ہوں پھر بھی یہ غیبت ہے ؟“ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اِنْ کَانَ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَہٗ ‘ وَاِنْ لَمْ یَکُنْ فِیْہِ فَقَدْ بَھَتَّہُ”اگر وہ برائی اس میں موجود ہے جس کا تم ذکر کر رہے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی ہے ‘ اور اگر وہ برائی اس میں موجود ہی نہیں تب تو تم نے اس پر بہتان لگا دیا۔“

{ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ } ”کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ اپنے ُ مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ یہ تو تمہیں بہت ناگوار لگا !“

 یعنی مردہ بھائی کے گوشت کھانے والی بات یا مثال سے تو تمہیں بہت گھن محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھو ! اگر تم اپنے کسی مسلمان بھائی کی غیبت کرتے ہو تو اخلاقی سطح پر یہ حرکت اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے ہی مترادف ہے۔ کیونکہ ایسی حرکت کا ارتکاب کر کے آپ اپنے بھائی کی عزت پر ایسی حالت میں حملہ کرتے ہیں جب وہ اس کا دفاع بھی نہیں کرسکتا۔ اگر تم اس کے سامنے اس کی برائی بیان کرتے تو وہ تمہارے الزامات کا ضرور جواب دیتا اور سو طرح سے اپنا دفاع کرتا۔ بہر حال کسی کی عدم موجودگی میں اسے برا بھلا کہنا ایسے ہے جیسے اس کی لاش آپ کے سامنے ہو اور آپ اس کی بوٹیاں نوچ رہے ہوں۔

انسانی جان کا تحفظ

دین اسلام کے پیش نظر کیونکہ پوری انسایت ہے ، اس لیے وہ اپنے پیروکاروں کو صرف رشتہ داروں یا مسلمانوں کے حقوق تک محدود نہیں رکھتا ، بلکہ تمام انسانوں تک اس دائرہ کو وسیع کر تا ہے ۔ ایسے عام حقوق میں جان کی حفاظت اہم ہے ۔ یعنی جان چاہے مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی حتی الوسع اس کا تحفظ لازم ہے ۔ در اصل انسانی جان کی اللہ کے نزدیک بڑی قد ر وقیمت ہے ، پھر انسا ن کی تخلیق محض اللہ تعالی نے کی ہے ، اس لیے کسی دوسرے شخص کو  ہرگز اس بات کی اجاز ت نہیں دی گئی کہ وہ کسی انسان کی جان لے ۔یہاں تک کہ خود انسان کواپنی جان لینے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔  انسانی جان کی قدر وقیمت کا انداز ہ قرآن مجید کی اس آیت سے لگا یا جاسکتا ہے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: '' جو شخص کسی ایسی جان کو قتل کر ے ، جس نے کسی کو قتل نہ کیا اور نہ اس نے فساد بر پا کیا تو گو یا اس نے تمام لوگوں کا خون کیا ''۔ غور کیجئے کہ آیت مذکورہ میں ایک جان کے قتل کو تمام جانوں کے قتل سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ جس کا مطلب ہے کہ کسی انسان کا قتل کر نا گویا پوری انسانیت کو قتل کر نے کے برابر ہے ۔

کسی انسان کی جان لینا اسلام کے نزدیک کتنا قابل گرفت عمل ہے ، اس کا اندازہ نبی علیہ الصلوة والسلام کی اس حدیث سے ہوتا ہے ، آپ نے فرمایا '' قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا ، وہ نماز ہے جس کے بارے میں باز پر س کی جائے گی اور حقوق العباد میں سب سے پہلے قتل کے دعووں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔ کسی انسان جان کی ہلاکت کو عظیم گناہ کے ساتھ ایک اور حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا کہ '' بڑے گناہوں میںسب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک ٹھہرانا ہے ، پھر کسی انسان کو ہلا ک کر نا ہے ، پھر ماں باپ کی نافرمانی کر نا ہے ، پھر جھوٹ بولنا ہے '' اس حدیث میں قتل کے گناہ کو شرک کے بعد بیان کیا گیا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ عظیم گناہوں میں شرک تو سب سے بڑا گناہ ہے ہی ، مگر شرک کے بعد جو بڑے گناہ ہیں ، ان میں کسی انسانی جان کو ہلا ک کرنا سر فہرست ہے ۔

انسانی جان کے اس قدر اہم ہونے کے سبب اسلام نے اس کی حفاظت کی پوری کو شش کی ہے ۔ چنانچہ یہ قانو ن بنا دیا گیا کہ اگر حکومت مسلمانوں کی ہے تو اس بات کا پورا نظم و نسق کیا جائے گا کہ انسانی جان برباد نہ ہوپائے ۔ چاہے وہ مسلم کی جان ہو یا کافر کی جان ۔ اسلامی تعلیم ہے کہ انسانی جان کی حفاظت کی جائے اور کسی کو قتل نہ کیا جائے ۔ارشاد باری ہے :وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہ'' انسانی جان کو ہلاک نہ کرو ، جسے خدانے حرام قرار دیا ہے '' [29]  علماء نے اس متعلق وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ '' ہر امن پسند غیر مسلم کے خون کی قیمت مسلمانوں کے خون کے برابر ہے ، اس لیے اگر کوئی مسلمان کسی پُرامن غیر مسلم کو قتل کر دیتا ہے تو اس کا قصاص اس طرح لیا جائے گا، جس طرح ایک مسلمان کے قتل کا لیا جاتا ہے '' گویا کہ جان کے تحفظ کے معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلمان دونوں برابر ہیں ، جس طرح ایک مسلمان کی حفاظت ضروری ہے ، اسی طرح ایک غیر مسلم کی جان کی حفاظت بھی ضروری ہے ۔

قتل و قتال سے دین اسلام نے ہرحال میںروکنے کی کوشش کی ہے ۔ کیونکہ اس کے ذریعہ بد امنی اور خوں ریزی کا سلسلہ طویل ہوجاتا ہے ۔ عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص قتل کر دیا جا تا ہے تو مقتول کے خاندان والے بھی اسی طرح کے انتقام کے لیے آمادہ دکھائی دیتے ہیں ، یہاں تک کہ کبھی کبھی کچھ وقت کے بعد سننے کو ملتا ہے کہ قاتل کو مقتول کے خاندان والوں نے قتل کر ڈالا ۔ اس پر دوسرے مقتول کے ورثاء بھی سکون سے نہیں بیٹھتے ، وہ بھی اسی طرح کا معاملہ کر نے کے لیے عام طور سے تیار رہتے ہیں ، نتیجہ یہ کہ لمبے وقت تک خاندانوں کے مابین خوں ریزی کا سلسلہ چلتا رہتاہے ۔ اس خوں ریزی سے نہ صرف جانوں کا اتلاف ہوتا ہے ، بلکہ سکون بھی غارت ہوجاتا ہے ، دونوں خاندان کے لوگوں کو خدشہ لگا رہتا ہے کہ جانے کب کس کو ہلاک کر دیا جائے ۔ اس کشمش اور خوف کے ساتھ ان کی زندگی بسر ہوتی رہتی ہے ۔ معلوم ہوا کہ قتل کا انجام تباہ کن ہوتا ہے اور اسلام نہیں چاہتا کہ کوئی اس طرح کے حالات کا سامنا کر ے۔ اس لیے وہ قتل وقتال سے سختی کے ساتھ منع کر تا ہے ۔

انسانی جان کی حفاظت کے لیے اسلام فقط اخلاقی طریقہ ہی اختیار نہیں کرتا، بلکہ سزا کے ذریعہ بھی اس کو دبانے کی کوشش کرتا ہے ۔ چنانچہ انسان قتل کی سخت سزا متعین کی گئی ہے ۔ اسلامی قانون کے مطابق قاتل کی سزا قتل ہے ، بشرطیکہ مقتول کے ورثا ء کے کچھ لے کر معاف نہ کردیں ۔یعنی اگر کسی نے انسان کو قتل کیا تو بدلہ میں اسے بھی قتل کر دیا جائے گا ۔ بظاہر یہ انتہائی سخت سزا ہے جس پر بعض اسلام سے عصبیت رکھنے والے لوگ اعتراض بھی کر تے ہیں ، مگر نتیجہ کے لحاظ سے یہ سزا در اصل نوع انساں کے لیے مفید ہے اور ان کی جانوں کے تحفظ اور امن وسکون کی بقاء کی ضامن ہے ۔ دیکھنے میں آرہا ہے کہ وہ مقام و ممالک جہاں پر قتل کی سزا قتل نہیں ہے ، وہاں قتل کی وارداتوں میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ، اس کے برعکس جن مقامات پر قاتل کی سزا اسلامی قانوں کے مطابق ہے ، وہاں قتل کے واقعات کی تعداد نا کے برابر ہے ۔ گویا کہ اس سخت سزامیں انسان کے تحفظ کا راز مضمر ہے ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے اس قدر کوششوں کے باوجود بھی فی زمانہ اسلام کو تاریک اور شدت پسند کہاجا رہا ہے ، جب کہ اس کی تعلیمات امن کے قیام کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔

ناحق قتل کا وبال

اللہ رب العزت تمام انسانوں کا واحد خالق و مالک ہے اور وہی یہ حق رکھتا ہے کہ کسی کی جان لے یا اس کو زندگی سے فائدہ اٹھانے دے۔جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے کہ جب سیدنا ابراھیم علیہ السلام کا مناظرہ نمرود سے ہو رہا تھا تو اس ملعون  نے کہا کہ تمہارے رب کا تعارف کیا ہے تو سیدنا ابراھیم علیہ السلام نے فرمایا

رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُۙ

ترجمہ: میرے رب وہ ہے جو موت و حیات عطا کرتا ہے۔[30] 

یعنی یہ صرف میرے رب کی ہی صفت ہے کہ جس نے زندگی کو اس وقت پیدا کیا جب کہ وہ کالعدم تھی،اور بغیر مثالِ سابق کے پیدا کیا۔اس نے زندہ و جاوید رہنے کے بھی قائدے بتا دیئے ہیں اور مردہ و فنا ہو جانے کے بھی،جان باقی رہنے کا تصور بھی دے دیا ہے اور کالموتیٰ کا بھی۔اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کے قتلِ ناحق کو پوری انسانیت کے قتل اور فساد فی الارض سے تشبیہ دی ہے۔اگر ایک  انسان جری ہو کر کسی کو قتل کر دیتا ہے اور اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے تو وہ کل کسی اور کو بھی مارسکتا ہے اس طرح ساری دنیا اس مفسد کے ظلم سے نہیں بچ پائے گی۔جیسا کہ بادشاہوں اور سفاک حکام کا شیوہ رہا ہے کہ جو بھی ان کے مقابل آیا تو اس کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ

ترجمہ: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جِلالیا (بچایا) اس نے سب لوگوں کو جِلالیا۔[31] 

انسان کو اس کا مقام بطورِ انسان بھی لائقِ تکریم بناتا ہے مگر جب ایمان ساتھ شامل ہو جائے تو نور علی نور والا معاملہ ہوتا ہے اور خلیفہ اپنی اصل حقیقت میں دکھائی دیتاہے۔اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ جس نے بغیر قصاص یا بغیر زمین میں فساد کے قتل کیا ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ قتل کرنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک وجہ قصاص ہے ‘ دوسری وجہ کسی کافر کا مسلمان سے جنگ کرنا ہے ‘ تیسری وجہ ارتداد ہے ‘ چوتھی وجہ شادی شدہ کا زنا کرنا ہے ‘ اور پانچویں وجہ زمین میں ڈاکہ ڈالنا ہے۔ پہلی وجہ کا اس آیت میں صراحتا ذکر ہے اور پانچویں وجہ یعنی ڈاکہ کا اس آیت کے بعد والے حصہ میں تفصیلی بیان آرہا ہے۔ باقی ماندہ تین وجوہات زمین میں فساد پھیلانے کے ضمن میں آگئیں۔ اس لیے فرمایا : جس نے بغیر قصاص یا بغیر زمین میں فساد پھیلانے کے قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔ اس آیت میں یہ سوال ہے کہ ایک انسان کو قتل کرنا تمام انسانوں کو قتل کرنے کے کیسے مساوی ہوسکتا ہے ؟ حتی کہ اس آیت میں ایک انسان کے قتل کو تمام انسانوں کے قتل کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے یہ مقصود ہے کہ ایک بےقصور انسان کو عمدا قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا بڑا جرم ہے ‘ جتنا تمام انسانوں کو قتل کردینا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کو عمدا قتل کرنے کی سزا جہنم مقرر کی۔ اس پر اپنا غضب نازل کیا اور لعنت کی اور اس کے لیے عذاب عظیم تیار کیا اور اگر کوئی شخص تمام انسانوں کو قتل کردیتا ‘ تب بھی اس کی یہی سزا ہوتی۔ نیز اگر تمام انسان کسی ایک بےقصور انسان کے قتل میں عمدا شریک ہوں تو ان سب کو قصاص میں قتل کردیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی ایک بےقصور انسان کو عمدا قتل کرنا اتنا سنگین جرم ہے تو تمام انسانوں کو قتل کرنے کے برابر ہے۔

پھر فرمایا : جس شخص نے ایک انسان کو مرنے سے بچا لیا ‘ اس نے گویا تمام انسانوں کو بچا لیا۔ مثلا کوئی شخص آگ میں جل رہا تھا ‘ یا دریا میں ڈوب رہا تھا ‘ یا بھوک سے مر رہا تھا ‘ یا شدید سردی میں ٹھٹھر کر مرنے والا تھا اور کسی انسان نے اس کو اس مصیبت سے نکال کر اس کی جان بچالی ‘ تو اللہ کے نزدیک اس کی یہ نیکی اتنی عظیم ہے جیسے کسی شخص نے تمام انسانوں کو موت کے چنگل سے آزاد کرا لیا ہو۔

اسی لئے دوسری جگہ فرمایا

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا 

ترجمہ:  اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کابدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب[32] 

قتلِ ناحق کی مذمت احادیث میں:

حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بروزِ قیامت قاتل کو ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا ۔ عاصم بن اَبِی النَّجُوْدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا :’’اے ابو زُرعہ ہزار مرتبہ ؟‘‘ ابو زُرعہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا:’’جس آلہ سے اس نے قتل کیا اس کی ہزار ضربیں۔‘‘[33] 

حضرتِ سَیِّدُنا عَبْدُ اللہ بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ عَنْہم اسے مروی ہے کہ رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (ترمذی،کتاب الدیات، باب ماجاء فی تشدید قتل مؤمن،۳/۹۸، حدیث:۱۴۰۰)

حضرتِ سَیِّدُناابن مسعود رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاں ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے ۔
 [34] 

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل کی بنسبت پوری دنیا کا زوال زیادہ آسان ہے۔[35] 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان کے پاس کر آ کر کہا یہ بتائیے کہ ایک آدمی نے کسی شخص کو عمدا قتل کیا اس کی سزا کیا ہوگی ؟ انہوں نے کہا اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا ‘ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اللہ نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے ‘ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا یہ وہ آتی ہے جو سب سے آخر میں نازل ہوئی (النساء : ٩٣) حتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا سے تشریف لے گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد وحی نازل نہیں ہوئی ‘ اس نے کہا یہ بتائیے اگر وہ توبہ کرلے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے ‘ پھر وہ ہدایت یافتہ ہوجائے گا ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس کی توبہ کیسے ہوگی ؟ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے : اس شخص کی ماں اس پر روئے جس نے کسی مسلمان کو عمدا قتل کردیا وہ مقتول اپنے قاتل کو دائیں یا بائیں جانب سے پکڑے ہوئے آئے گا اور دائیں یا بائیں ہاتھ سے اس نے اپنا سر پکڑا ہوا ہوگا اور عرش کے سامنے اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور وہ شخص کہے گا اے میرے رب اپنے اس بندہ سے پوچھ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا۔[36] 

ایک حدیث میں قتل کرنے کی نیت سے مقاتلہ کرنے والے دونوں کو جہنمی کہا گیا ہے۔

عَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ نُفَیْعِ بْنِ الْحَارِثِ الثَّقَفِیْ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا الْتَقَی الْمُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْہم ا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ فِی النَّارِ۔ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ ہَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُوْلِ؟ قَالَ إِنَّہُ کَانَ حَرِیْصًا عَلَی قَتْلِ صَاحِبِہٖ.

ترجمہ: ضرتِ سَیِّدُنا ابو بکرہ نُفَیْع بن حَارِث ثَقَفِی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’جب دو مسلمان تلواریں لئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں توقاتل ومقتول دونوں آگ میں ہیں۔‘‘ (راوی فرماتے ہیں ) میں نے عرض کی :’’یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قاتل تو واقعی اس کاحق دار ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟ ‘‘ ارشاد فر مایا:’’ وہ بھی تواپنے مُقابِل کو قتل کرنا چاہتا تھا۔[37] 

مُفَسِّر شہِیرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ:جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ناحق قتل کرنے کے ارادے سے کسی بھی ہتھیارمثلاََتلوار، خنجر بندوق وغیرہ سے حملہ آور ہوں اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو قتل کردے توقاتل و مقتول دونوں کی سزا جہنم ہے ،قاتل تو ناحق قتل کرنے کی وجہ سے اور مقتول قتل کے پختہ ارادے کی وجہ سے کیونکہ اگرپہلے اس کا وار چل جاتا تویہ اسے قتل کر دیتا ،لہٰذا اسے بھی قتل ہی کا گناہ ملے گا،لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب دونوں باطل پر ہوں اگر کوئی ایک حق پر ہو تو صرف باطل والاہی گناہ گار ہوگا ، جیسے کوئی مسلمان اپنا مال ،عزت یا جان بچانے کے لئے کسی چور ، ڈاکو سے مزاحمت ومقابلہ کرتے ہوئے قتل ہوجائے تو چور ،ڈاکو ہی جہنمی ہونگے جبکہ یہ قتل ہونے والاشہید کا مرتبہ پائے گا ۔

[38] 

قتل کے فعل میں اللہ تعالیٰ کی شدید نافرمانی اور اس کی ناراضگی ہے۔قتل کرنے والا دوزخی ہے۔ نقصان اٹھانے والا ہے اور پچھتانے والا ہے ‘ تو چونکہ قتل کرنا ان خرابیوں کا سبب ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر قتل میں قصاص (بدلہ لینے) کو واجب کردیا ‘ تاکہ لوگ قتل کرنے سے باز رہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں نوع انسانی کی زندگی کا بقا منحصر ہے اس پر کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کی جان کا احترام موجود ہو اور ہر ایک دوسرے کی زندگی کے بقاء و تحفظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل حیات انسانی کے احترام سے اور ہمدردی نوع کے جذبہ سے خالی ہے، لہٰذا وہ پوری انسانیت کا دشمن ہے، کیونکہ اس کے اندر وہ صفت پائی جاتی ہے جو اگر تمام افراد انسانی میں پائی جائے تو پوری نوع کا خاتمہ ہوجائے۔ اس کے برعکس جو شخص انسان کی زندگی کے قیام میں مدد کرتا ہے وہ درحقیقت انسانیت کا حامی ہے، کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے جس پر انسانیت کے بقاء کا انحصار ہے۔یعنی اگر کسی نے قتل کیا ہے اور وہ اس کے قصاص میں قتل کیا جائے تو یہ قتل ناحق نہیں ہے۔اگر کوئی شخص ملک میں فساد پھیلانے کا مجرم ہے اور اسے اس جرم کی سزا کے طور پر قتل کردیا جائے تو اس کا قتل بھی قتل ناحق نہیں۔ لیکن ان صورتوں کے علاوہ اگر کسی نے کسی بےقصور انسان کا قتل کردیا۔ ارسکتا ہے اس طرح ساری دنیا اس مفسد کے ظلم سے نہیں بچ پائے گی۔جیسا کہ بادشاہوں اور سفاک حکام کا شیوہ رہا ہے کہ جو

 

قتل کی اقسام

قتل نسلِ انسانی میں بعد از شرک ظلم کی بدترین شکل ہے۔ کسی ناحق کے خون بہانے کو احادیث میں دنیا و مافیھا کے زوال سے تعبیر کیا گیا ہے۔

1)قتلِ عمد:

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ

وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِیْهَا وَغَضِبَ اﷲُ عَلَیْهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا

ترجمہ: اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اسکی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے۔ [39] 

 

نیز دوسری جگہ ارشاد ہوا

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰیط اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰیط فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍط ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَةٌط فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ

ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کیے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہیے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔[40] 

احادیثِ مبارکہ میں بھی قتلِ عمد پر بہت سخت وعیدیں مذکور ہیں۔قتلِ عمد کی تعریف میں علامہ مرغینانی صاحبِ ہدایہ یوں رقم طراز ہیں کہ

الْعَمْدُ مَا تَعَمَّدَ ضَرْبَهُ بِسِلَاحٍ أَوْ مَا أُجْرِیَ مَجْرَی السِّلَاحِ کَالْمُحَدَّدِ مِنْ الْخَشَبِ وَلِیطَةِ الْقَصَبِ وَالْمَرْوَةِ الْمُحَدَّدَةِ وَالنَّارِ، لِأَنَّ الْعَمْدَ هُوَ الْقَصْدُ وَلَا یُوقَفُ عَلَیْهِ إلَّا بِدَلِیلِهِ وَهُوَ اسْتِعْمَالُ الْآلَةِ الْقَاتِلَةِ.

قتل عمد وہ قتل ہے (جس میں) ہتھیار سے یا ہتھیار کے قائم مقام کسی چیز سے مقتول کو مارنے کا قصد کیا جائے جیسے دھار دار لکڑی، بانس کا چھلکا، دھار دار تیز پتھر اور آگ، کیونکہ عمد ارادہ ہے جس پر اُس کی دلیل کے بغیر واقفیت نہیں ہو سکے گی اور وہ دلیل جان مارنے والے آلے کو استعمال کرنا ہے۔[41] 

قتل عمد وہ ہے جس میں نیت قتل ہو، دھار دار لوہے سے، جیسے تلوار، چھری، نیزہ، سُوا وغیرہ۔ یونہی بندوق، پستول، ریوالور، گن وغیرہ، آگ، شیشہ یا کسی دھات سے بنا ہوا کوئی ہتھیار۔

اس طرز کا قتل بالاطلاق گناہِ کبیرہ ہے ۔اس کا فاعلِ مستحقِ لعنت ہے اور لائقِ قصاص بھی،نیز اگر ورثاء سے صلح کا معاملہ ہو جائے تو دیتِ یعنی خون بہا دے گا۔

2) شبہِ عمد

ارادتا ایسے کسی آلے سے مارنا جس سے عادتا کسی کی موت واقعہ نہیں ہوتی مگر انتہائی درجہ پر یا پھر ایسی طریقے سے مارنا جس سے موت آنی متوقع نہ ہو مثلا مکا مارنا وغیرہ ۔علامہ مرغینانی لکھتے ہیں،

الشِبْهُ الْعَمْدِ أَنْ یَتَعَمَّدَ الضَّرْبَ بِمَا لَیْسَ بِسِلَاحٍ وَلَا مَا أُجْرِیَ مَجْرَی السِّلَاحِ، اَیْ بِحَجَرٍ عَظِیمٍ أَوْ بِخَشَبَةٍ عَظِیمَةٍ

شبہ عمد یہ ہے کہ قاتل ایسی چیز سے مارنے کا قصد کرے جو نہ تو ہتھیار ہو اور نہ ہی ہتھیار کے قائم مقام ہو، یعنی بھاری پتھر یا لکڑی سے مارنا۔[42] 

اس کا معنی یہ ہے کہ انسان کوئی ایسا کام کرے جو صورت وشکل میں اس کام کى مانند ہو جو جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال قتلِ شبہِ العَمد ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ آدمی قصدا کسی شخص پر تادیب کى غرض سے یا ظلم وتعدی کرتے ہوئے ایسی کسی چیز سے وار کرے جو عموما موت کا باعث نہیں بنتى جیسے لاٹھی اور کوڑا وغیرہ لیکن اس وار کے سبب اس شخص کی موت واقع ہو جائے۔حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک شبہ عمد کی تعریف یہ ہے کہ وہ قتل جو کسی غیر دھار دار چیز سے واقع ہوا ہو اگرچہ وہ کوئی ایسی چیز سے نہ ہو جس سے اکثر ہلاکت واقع ہوجاتی ہو لیکن صاحبین اور حضرت امام شافعی کے نزدیک شبہ عمد کی تعریف یہ ہے کہ وہ قتل جو باارادہ قتل کسی ایسی چیز سے ہوا ہو جس سے اکثر ہلاکت واقع نہ ہوتی ہو اور جو قتل کسی ایسی چیز سے ہوا جس سے اکثر ہلاکت واقع ہوجاتی ہو قتل عمد میں داخل ہوگا، لہٰذا حدیث میں مذکورہ چیزیں یعنی پتھر اور لاٹھی، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک تو اپنے مطلق معنی پر محمول ہیں کہ خواہ وہ ہلکی ہوں یا بھاری جب کہ صاحبین اور حضرت امام شافعی کے نزدیک یہ چیزیں ہلکی ( غیر مثقل) ہونے پر محمول ہیں گویا خلاصہ یہ نکلا کہ جو قتل مثقل (بھاری) چیز کے ذریعہ ہوا اس میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک قصاص واجب نہیں ہوگا اور صاحبین اور حضرت امام شافعی کے نزدیک مذکورہ بالا تفصیل کا اعتبار کیا جائے گا۔

حدیثِ پاک میں شبہ عمد کے حوالے سے یوں آیا ہے کہ

عَقْلُ شِبْهِ الْعَمْدِ مُغَلَّظٌ مِثْلُ عَقْلِ الْعَمْدِ وَلَا یُقْتَلُ صَاحِبُه

قتل عمد سے مشابہ کی دیت بھی قتل عمد کی طرح سخت ہے لیکن اس میں قاتل کو قتل نہیں کیا جاتا۔[43] 

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: الْعَمْدُ قَوَدُ الْیَدِ، وَالْخَطَأُ عَقْلٌ لَا قَوَدَ فِیهِ، وَمَنْ قُتِلَ فِي عِمِّیَّةٍ بِحَجَرٍ أَوْ عَصًا أَوْ سَوْطٍ فَهُوَ دِیَةٌ مُغَلَّظَةٌ فِي أَسْنَانِ الْإِبِلِ.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جان بوجھ کر قتل پر قصاص ہوتا ہے، غلطی کے قتل پر ہرجانہ دینا ہوتا ہے، قصاص نہیں ہوتا اور جو اندھا دھند پتھر، عصا اور ڈنڈے برسنے سے قتل ہو جائے تو اس پر وہ پورا ہر جانہ لازم ہوتا ہے جو اونٹ کے دانت توڑنے پر ہوتا ہے۔[44] 

یہ بھی چونکہ عمد کی بھی شبہ ہے سو اس میں بھی قصاص و کفارہ لازم آئے گا نیز یہ گناہِ کبیرہ ہے اور اس میں قاتل مقتول کی میراث سے مکمل محروم ہو گا۔

 

3)قتلِ خطاء

نیت کسی انسان کو مارنے کی نہ تھی مگر غلطی سے کوئی انسان مارا گیا۔ مثلاً شکار پر گولی چلائی اور آدمی قتل ہو گیا

قتلِ خطاء کی دو صورتیں ہیں:

 خَطَأٌ فِي الْقَصْدِ: وَهُوَ أَنْ یَرْمِیَ شَخْصًا یَظُنُّهُ صَیْدًا ، فَإِذَا هُوَ آدَمِیٌّ، أَوْ یَظُنُّهُ حَرْبِیًّا فَإِذَا هُوَ مُسْلِمٌ

ارادے میں خطا: یہ ہے کہ شکار سمجھ کر تیر مارا اور مرنے والا آدمی نکلے یا جنگ میں دشمن سمجھ کر مارا اور وہ مسلمان نکلا۔

خَطَأٌ فِي الْفِعْلِ: وَهُوَ أَنْ یَرْمِیَ غَرَضًا فَیُصِیبَ آدَمِیًّا

عمل میں خطا: یہ ہے کہ تیر انداز کسی نشانے پر تیر مارے، لیکن وہ کسی انسان کو جا لگے۔       

۔ [45] 

قرآنِ کریم میں ارشادِ رب العزت ہے کہ

وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَأًج وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓی اَهْلِہٖ اِلَّآ اَنْ یَّصَّدَّقُوْاط فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّلَّـکُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍط وَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍم بَیْنَکُمْ وَبَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓی اَهْلِہٖ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍج فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ تَوْبَةً مِّنَ اﷲِط وَکَانَ اﷲُ عَلِیْمًا حَکِیْمً

اور کسی مسلمان کے لیے (جائز) نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کر دے مگر غلطی سے، اور جس نے کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کر دیا تو (اس پر) ایک مسلمان غلام (یا باندی) کا آزاد کرنا اور خون بہا (کا ادا کرنا) جو مقتول کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے (لازم ہے) مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پھر اگر وہ (مقتول) تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مومن (بھی) ہو تو (صرف) ایک غلام (یا باندی) کا آزاد کرنا (ہی لازم) ہے اور اگر وہ (مقتول) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (بھی) جو اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان غلام (یا باندی) کا آزاد کرنا (بھی لازم) ہے۔ پھر جس شخص کو (غلام یا باندی) میسر نہ ہو تو (اس پر) پے در پے دو مہینے کے روزے (لازم) ہیں۔ اللہ کی طرف سے (یہ اس کی) توبہ ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔۔ [46] 

فتاویٰ عالمگیری میں اس کی اقسام بالتمثیل یوں درج ہیں

قتل خطاء کی دو صورتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ فعل میں خطاء ہوجائے مثلا انسان ایک ہرن کا نشانہ لے رہا تھا اور گولی کسی انسان کو لگ گئی ‘ اور دوسری صورت یہ ہے کہ قصد میں خطاء ہو ‘ قتل کرنے والے کا گمان یہ تھا کہ وہ شخص کافر ہے اور وہ درحقیقت مسلمان تھا ‘ قتل خطا کی دوسری قسم قتل قائم مقام خطاء ہے ‘ مثلا ایک انسان کے ہاتھ سے اینٹ یا لکڑی گرگئی جس سے دوسرا شخص ہلاک ہوگیا ‘ اس کا حکم بھی قتل خطاء کی طرح ہے۔ اس میں مقتول کے ورثاء کو دیت ادا کی جائے گی اور ایک غلام یا باندی کو آزاد کیا جائے گا ‘ اور ایک قتل بالسبب ہے، مثلا ایک شخص نے دوسرے کی ملکیت میں کنواں کھودا جس میں کوئی شخص گر کر ہلاک ہوگیا یا کوئی کسی سواری پر سوار تھا اور اس سواری نے کسی شخص کو ہلاک کردیا ‘ اس میں صرف عاقلہ پر دیت ہے۔ (آج کل ٹریفک کے حادثات میں کار ‘ ٹرک یا بس کے نیچے آکر جو لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں وہ بھی قتل بالسبب ہیں)۔ [47] 

قتلِ خطاء کا کفارہ:

کسی مسلمان نے کسی مسلمان کو دارالاسلام میں خطاء قتل کیا ہو یا کسی مسلمان کو دارالحرب میں خطاء قتل کیا ہو یا کسی ذمی کو دارالاسلام میں قتل کیا ہو تینوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان قاتل پر کفارہ لازم کیا ہے اور وہ ایک مسلمان گردن (باندی یا غلام) کو آزاد کرنا ہے ‘ اب اگر کسی شخص کی قدرت میں غلام آزاد کرنا نہ ہو یا غلام کا رواج ہی ختم ہوگیا ہو جیسا کہ آج کل ہے تو وہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے گا ‘ بایں طور کہ یہ روزے رمضان کے علاوہ کسی اور ماہ میں اس ترتیب سے رکھے جائیں کہ عیدین اور ایام کے دن ان میں حائل نہ ہوں ‘ اس لیے یہ روزے ایام تشریق کے بعد رکھنے چاہئیں اور جو شخص نادم ہو کر خطاء قائم مقام خطاء قتل شبہ عمد اور قتل بالسبب میں دیت اور کفارہ ادا کر دے گا تو اللہ کے نزدیک اس کی توبہ قبول ہوجائے گی۔

4) قتلِ قائم مقام خطاء یا جاری مجریٰ خطاء

مَا أُجْرِیَ مَجْرَی الْخَطَأِ مِثْلُ النَّائِمِ یَنْقَلِبُ عَلَی رَجُلٍ فَیَقْتُلُهُ فَحُکْمُهُ حُکْمُ الْخَطَأِ فِی الشَّرْعِ

وہ قتل جو قتل خطا کے قائم مقام ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے سونے والا کسی شخص پر پلٹ جائے اور اسے قتل کردے تو شریعت میں اسکا حکم قتل خطا کا حکم ہے۔[48] 

جیسے سویا ہوا شخص پہلو بدلے اور دوسرا اس کے نیچے آ کر مر جائے، قتل خطاء و قائم مقام خطاء کا حکم ایک جیسا ہے۔

اس کی سزا اور قتلِ خطاء کی سزا ایک سی ہی ہے یعنی کہ مقتول کے ورثاء کو دیت دی جائے اور کفارہ ادا کرے۔

 

5) قتل بالسبب

یہ براہِ راست قتل نہیں ہے بلکہ کسی خارجی یا داخلی سبب کی وجہ سے صادر ہونے والا قتل ہے جس میں قاتل مقتول کے ترکہ سے میراث بھی پاتا ہے۔صاحبِ ہدایہ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ

الْقَتْلُ بِسَبَبٍ کَحَافِرِ الْبِئْرِ وَوَاضِعِ الْحَجَرِ فِی غَیْرِ مِلْکِهِ وَمُوجِبُهُ إذَا تَلِفَ فِیهِ آدَمِیٌّ

قتل سبب ایسے ہے جیسے کسی نے کنواں کھدوایا اور (اسے مکمل کرنے کے لیے) دوسرے کی ملکیت میں پتھر رکھے۔ اس کے سبب (گر کر) کوئی آدمی مرجائے۔[49] 

 

اس کی سزا صرف یہی ہے کہ مقتول کے ورثاء کو دیت دینی ہوگی بہرحال یہ بھی اسلام کی احتیاط ہے ورنہ اس شخص کا کسی بھی طرح سے قتل کا مجرم ہونے کا کھلا ثبوت موجود نہیں ہے لیکن چونکہ اس میں شدید نقصان کا شائبہ رہتا ہے سو اس پہلو کا سد باب کیا گیا۔

 

قتلِ برحق کی صورتیں

اسلام نے کسی بھی نفس کے قتل سے مطلق منع کیا ہے مگر جب انسان خود کو انسانیت کے  شرف سے گرا دے اور اپنے لئے ذلالت کو چن لے اور فساد فی الارض کو اپنا شعار بنا رکھے تو اسلام اس کی جان کو مباح الدم قرار دیتا ہے ۔

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ

وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ

اور جس جان کی اللہ نے حرمت رکھی ہے اسے ناحق قتل نہ کرو۔(سورۃ الاسراء،آیت ۳۳) [50] 

یعنی جو اس حرمت کو خود پامال کرے اور اس سے دست بردار  ہو جائے تو اس کو قتل کرنا روا ہو گا۔

آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  
لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ‘ یَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ 

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار نے ارشاد فرمایا کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ہے جو گواہی دیتا ہو کہ کوئی خدا نہیں مگر اللہ اور میں اس کا رسول ہوں ۔

نیز ایک اور حدیث میں جو چیزیں دمِ مسلم کو بھی مباح کرتی ہیں ان کا ذکر کیا کہ

عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يحل دم امرئ مسلم يشهد ان لا إله إلا الله واني رسول الله، إلا بإحدى ثلاث الثيب الزاني، والنفس بالنفس، والتارك لدينه المفارق للجماعة "

ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسلمان کو جو گواہی دیتا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی سچا معبود نہیں ہے اور میں اس کا پیغمبر ہوں، مارنا درست نہیں مگر تین میں سے کسی ایک بات پر یا اس کا نکاح ہو چکا ہو اور وہ زنا کرے، یا جان کے بدلے جان (یعنی کسی کا خون کرے) یا جو اپنے دین سے پھر جائے مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جائے۔۔ [51] 

مندرجہ بالا حدیث سے درج ذیل حالات میں قتل مباح قرار پاتا ہے ۔

رجم:

آپ نے فرمایااِلاَّ بِاِحْدٰی ثَلَاثٍ ’’مگر تین میں سے ایک شکل (میں قتل کا جواز ہے‘‘.(۱الثَّــیِّبُ الزَّانِیْ )’’شادی شدہ زانی‘‘. یعنی کوئی شادی شدہ شخص اگر زنا کا مرتکب ہوا تو اسے رجم کیا جائے گا اور رجم بھی قتل ہی کی ایک شکل ہے. الہامی شریعتوں میں رجم کی یہ سزا ہمیشہ سے رہی ہے اور تورات میں اس کا ذکر موجود ہے . قرآن مجید میں اگرچہ اس کا ذکر نہیں ہے‘ لیکن نبی اکرم نے اپنے دور میں رجم کیا اور رجم کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: ’’اے اللہ! میں نے تیری سنت کو زندہ کر دیا.‘‘آپ کے بعد خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی شادی شدہ زانیوں کو رجم کیا.

احادیث میں رجم

عن عبادة بن الصامت قال: قال رسول اﷲﷺ (خذوا عني،خذوا عني،خذوا عني فقد جعل اﷲ لہن سبیلا،البکر بالبکر جلد مائة ونفي سنة والثیب بالثیب جلد مائة والرجم)

'' مجھ سے حکم لے لو، مجھ سے حکم لے لو، مجھ سے حکم لے لو۔ بدکار عوتوں کے لیے اب اللہ نے راستہ بنا دیا۔(یعنی حکم نازل فرما دیا) اور وہ یہ ہے کہ غیر شادی شدہ کوسو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ کو کوڑے اور رجم کی سزا دی جائے گی۔'' [52] 

قال زید سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول:(الشیخ والشیخة إذا زنیا فارجموها البتة)

'' زید بن ثابت کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ کہتے تھے کہ شادی شدہ مرد(i) اور عورت زنا کا ارتکاب کریں تو اُنہیں لازماً رجم کر دو۔''[53] 

عن عبداﷲ قال: قال رسول اﷲ ﷺ (لا یحل دم امرئ مسلم یشھد أن لا إله إلا اﷲ وأني رسول اﷲ إلا بإحدی ثلاث: النفس بالنفس والثیب الزاني والمفارق لدینه التارك للجماعة)

''حضرت عبداللہ (بن مسعودؓ) سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کسی مسلمان کا خون جائز نہیں جب کہ وہ یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں مگر تین حالتوں میں اس کا خون مباح ہوگا۔ پہلی یہ کہ قصاص کی حالت میں ، دوسری یہ کہ شادی شدہ زانی ہونے کی صورت میں اور تیسری یہ کہ دین کو چھوڑنے اور جماعت ِمسلمین سے الگ ہونے کی شکل میں ۔''۔[54] 

عن عائشة قالت: قال رسول اﷲ ﷺ (لا یحل دم امرئ مسلم یشھد أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدًا رسول اﷲ إلا في إحدٰی ثلاث: رجل زنیٰ بعد إحصان فإنه یرجم ورجل خرج محاربًا باﷲ ورسوله فإنه یقتل أو یصلب أو ینفی من الأرض أو یَقتل نفسا فیُقتل بھا)۔

''حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''کسی مسلمان کا خون بہاناجائز نہیں ہے جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ، مگر تین صورتوں میں اس کا خون مباح ہوجاتا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ وہ شادی کے بعد زنا کا ارتکاب کرے، اس جرم پر اسے سنگسار کیا جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت کرے تو (اس جرم کی پاداش میں ) اسے قتل کیا جائے گایا اسے سولی دی جائے گی یا اسے جلاوطن کردیا جائے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی کو قتل کردے تو اس پر اسے بھی (قصاص کے طور پر) قتل کردیا جائے گا۔''۔[55] 

عن جابر بن عبد اﷲ أن رجلا من أسلم جاء إلی رسول اﷲ ﷺ فاعترف بالزنا فأعرض عنہ ثم اعترف عنہ، حتی شھد علی نفسہ أربع شہادات فقال لہ النبي: (أبك جنون؟) قال: ''لا'' قال:(أحصنت)قال: ''نعم'' قال: فأمر به النبي ﷺ فرُجم في المُصلّٰی، فلمّا أذلقته الحجارة فَرَّ،فأدرك فرُجم حتی مات۔

''حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ اَسلم کا ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جرمِ زنا کا اعتراف کیا، آپؐ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا، اس نے پھراقرار کیا اور جب چار دفعہ قسم کھا چکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا:کیاتو پاگل ہے؟'' اُس نے جواب دیا:'نہیں ' آپؐ نے پوچھا: ''کیا تو شادی شدہ ہے؟''وہ بولا: 'جی ہاں ' پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔لوگ اسے عیدگاہ کی طرف لے گئے اور رجم کرنے لگے۔جب اسے پر پتھر پڑے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، لوگوں نے تعاقب کرکے اسے پھر جالیا اور سنگسار کردیا۔''[56] 

دراصل یہ دو سزائیں (۱)رجم اور (۲) قتل مرتد ‘اسلام میں ہیں‘ لیکن ان دونوں کا ذکر قرآن میں نہیں ہے. یہ دونوں سزائیں سابق الٰہی قانون ’’شریعت موسوی‘‘ میں موجود تھیں اور ان کا ذکرسابقہ آسمانی کتاب تورات میں بھی موجودہے. ظاہر بات ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ‘ عیسیٰ علیہ السلام اور محمدﷺایک ہی سلسلۃ الذہب (سنہری زنجیر) کی کڑیاں ہیں‘ اور بنیادی طور پر دین توایک ہی ہے. چنانچہ ہماری شریعت میں یہ جو دو قتل ہیں: (۱) قتل مرتد‘ یعنی کوئی مسلمان مرتدہو جائے تواس کو قتل کردیا جائے گا ‘اور (۲) رجم‘ یعنی جو زانی ہو اور ہو شادی شدہ‘ تو ان دونوں سزاؤں کی اصل شریعت موسوی ہے اور شریعت محمدی میں بھی اسے برقرار رکھا گیا ہے۔غیر شادی شدہ کے لیے زنا کی سزا سورۃ النور کی ابتدائی آیات میں مذکور ہے کہ زانی اور زانیہ دونوں کو سو سو کوڑے مارو‘ اور وہ کوڑے بھی برسرعام لگائے جائیں تاکہ مسلمانوں کی ایک جماعت انہیں دیکھے. اسی طریقے سے رجم بھی سرعام ہوتا ہے۔

 

جان کے بدلے جان

دوسری صورت یہ ہے کہ اَلنَّفْسُ بِالنَّفْسِ ’’جان کے بدلے جان‘‘ یعنی جس نے قتل عمد کیا ہے تو اس کے جواب میں اسے قتل کیا جائے گا‘ اِلا یہ کہ مقتول کے ورثاء خون بہا لینے پر آمادہ ہو جائیں یا اسے معاف کر دیں. یہ اختیار مقتول کے ورثاء کو ہے کسی اور کو نہیں.ہمارے ہاں جو یہ قانون ہے کہ صدرِ مملکت کو معاف کرنے کا حق حاصل ہے یہ خلافِ اسلام اور سراسر غلط ہے دیکھئے ایک شخص پر قتل کا مقدمہ ہے‘سیشن کورٹ نے اسے پھانسی کی سزا دی‘ ہائی کورٹ میں اپیل ہوئی تو ہائی کورٹ نے بھی وہ سزا بحال رکھی ‘پھر سپریم کورٹ میں اپیل ہوئی تو اس نے بھی وہ سزا بحال رکھی‘ اب وہ صدر کے سامنے رحم کی اپیل دائر کرے گااور چاہے گا کہ صدر معاف کر دے یہ قطعاً غلط اور خلافِ اسلام ہے. کسی کے پاس قاتل کو معاف کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے. ہاں مقتول کے ورثاء کے پاس یہ حق موجود ہے اور اس میں بہت بڑی حکمت ہے. آپ سوچئے! جیساکہ ہمارے ہاں‘ خاص طو رپر دیہات میں‘ اب بھی ہوتا ہے کہ قتل کے بدلے قتل‘ پھر قتل‘ پھر قتل اور اس طرح قتل در قتل کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے جو کئی نسلوں تک چلتا ہے. اور اگر کبھی ایسا ہو جائے کہ ایک قاتل کو مقتول کے ورثاء معاف کر دیں تو یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا کہ نہیں؟یعنی مقتول کے ورثاء نے قاتل کے اوپر اتنا بڑا کرم اور احسان کیا کہ اس کی جان بخشی کردی‘ لہٰذا اب اس کے جواب میں کوئی قتل نہیں ہو گااور اس طرح قتل کا یہ سلسلہ ختم ہو جائے گاواضح رہے کہ یہ قتل عمد کی صورت میں ہے ‘جبکہ قتل خطا میں جان کے بدلے جان نہیں بلکہ دیت ہوتی ہے اور اگر اس ضمن میں کسی سرکاری یا حکومتی قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو اس کی سزا الگ ہو گی.

 

ارتداد

جوازِ قتل کی تیسری صورت یہ ہے : وَالتَّارِکُ لِدِیْنِہِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَۃِ ’’جو اپنے دین کو چھوڑ دے اور مسلمانوں کی جماعت سے نکل جائے‘‘. اس سے مراد مرتد ہے اورمرتد کی سزا بھی قتل ہے ‘مگر اس دور میں بعض جدید دانشوروں اور اس وقت دنیا کے اندر رائج جدید فکر کے مطابق ہر انسان کو مذہب بدلنے کی اجازت ہونی چاہیے. اہل مغرب جو ہماری بہت سی چیزوں پر اعتراض کرتے ہیں‘ ان کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اگر کوئی عیسائی مسلمان ہو جائے تو آپ اسے سینے سے لگاتے ہیں اور اگر کوئی مسلمان عیسائی ہو جائے تو آپ اس کے قتل کے درپے ہو جاتے ہیں. اسی طرح آزادی ٔخیال اور آزادی ٔاظہارِ رائے جدید تہذیب کے د ونمایاں مندرجات ہیں اور جن کی گھٹی میں اس جدید تہذیب کے جراثیم پڑ گئے ہیں تو اسلام کے یہ احکام ان کی سمجھ میں آنے والے نہیں ہیں‘ لیکن بہرحال اسلام کا قانون یہی ہے.کیونکہ مرتد  جب ایک جگہ سے الگ ہوتا ہے تو دوسرے لوگوں کے لئے بھی اعلانیہ خرابی کا باعث بنتا ہے۔

مرتد کی سزا پر احادیث

عن انس ان علیا اتی بناس من الزط یعبدون وثناً فاحرقہم، فقال ابن عباسؓ انما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من بدل دینہ فاقتلوہ“․[57] 

ترجمہ: ”حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت علی کے پاس زط (سوڈان) کے کچھ لوگ لائے گئے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے، آپ نے ان کو آگ میں جلادیا، اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”جو شخص اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائے، اس کو قتل کردو۔“

”عن حارثة بن مضرب انہ اتی عبداللہ فقال: ما بینی و بین احد من العرب حنة، وانی مررت بمسجد لبنی حنیفة، فاذا ہم یومنون بمسیلمة، فارسل الیہم عبداللہ فجیٴ بہم فاستتابہم، غیر ابن النواحة، قال لہ: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: لو لا انک رسول لضربت عنقک، فانت الیوم لست برسول، فامر قرظة بن کعب․ فضرب عنقہ فی السوق، ثم قال: من اراد ان ینظر الی ابن النواحة قتیلا بالسوق“۔[58] 

ترجمہ: ”حارثہ بن مضرب سے مروی ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا، (اورآپ نے فرمایا کہ) میرے اور عرب کے درمیان کوئی عداوت نہیں ہے، پھر فرمایا: میں مسجد بنوحنیفہ کے پاس سے گزرا، وہ لوگ مسیلمہ کذاب کے ماننے والے تھے، حضرت عبداللہ نے ان کی طرف قاصد بھیجا، تاکہ ان سے توبہ کا مطالبہ کرے، پس سب سے توبہ کا مطالبہ کیاگیا، سوائے ابن نواحہ کے، آپ نے اس سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اگر تو قاصد نہ ہوتا تو میں تمہیں قتل کردیتا، (اس لئے کہ وہ مرتد ہونے کے علاوہ مرتد مسیلمہ کا قاصد تھا، ناقل) پس آج تم قاصد نہیں ہو، اس کے بعد آپ نے (حاکم کوفہ) قرظہ بن کعب کو حکم دیا کہ اس کو قتل کردیا جائے، چنانچہ بازار ہی میں اس کو قتل کردیاگیا، اور فرمایا: جو ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے، وہ بازار میں قتل شدہ موجود ہے۔“

”عن بہز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ معاویة بن حیدہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ، ان اللہ لایقبل توبة عبد کفر بعد اسلامہ“[59] 

ترجمہ: ”حضرت معاویہ بن حیدہ سے روایت ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا دین تبدیل کرے، اس کو قتل کردو، بے شک اللہ تعالیٰ اس بندے کی توبہ قبول نہیں کرتے، جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجائے۔“

”عن معاذ بن جبل ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ حین بعثہ الی الیمن: ایما رجل ارتد عن الاسلام فادعہ، فان تاب، فاقبل منہ، وان لم یتب، فاضرب عنقہ، وایما امرأة ارتدت عن الاسلام فادعہا، فان تابت، فاقبل منہا، وان ابت فاستتبہا“۔[60] 

ترجمہ: ”حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ جب آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن بھیجا تو فرمایا: جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہوجائے، اسے اسلام کی دعوت دو، اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلو، اوراگر توبہ نہ کرے تو اس کی گردن اڑادو، اور جونسی عورت اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے، اسے بھی دعوت دو، اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلو، اگر توبہ سے انکار کرے تو برابر توبہ کامطالبہ کرتے رہو (یعنی اس کو قتل نہ کرو)“۔

”عن الحسن رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ“۔[61] 

ترجمہ: ”حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اسلام چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلے، اس کو قتل کردو۔“

امام ترمذی مرتد کی سزا کے بارے فقہائے امت کا مذہب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”والعمل علی ہذا عند اہل العلم فی المرتد، واختلفوا فی المرأة اذا ارتدت عن الاسلام، فقالت طائفة من اہل العلم تقتل، وہو قول الاوزاعی واحمد واسحق، وقالت طائفة منہم تحبس ولا تقتل، وہو قول سفیان الثوری وغیرہ من اہل الکوفة“[62] 

ترجمہ: ”مرتد مرد کے بارے میں اہل علم کا یہی موقف ہے کہ اسے قتل کردیا جائے، ہاں اگر کوئی خاتون مرتد ہوجائے تو امام اوزاعی، احمد اوراسحق کا موقف یہ ہے کہ اسے بھی قتل کیا جائے، لیکن ایک جماعت کا خیال ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے، بلکہ قید کردیا جائے، اگر توبہ کرلے تو فبہا، ورنہ زندگی بھر اسے جیل میں رکھاجائے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی یہی مسلک ہے۔“

چنانچہ ائمہ اربعہ: امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اورامام احمد بن حنبل بالاتفاق اس کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص مرتد ہوجائے تو مستحب یہ ہے کہ اس کو تین دن کی مہلت دی جائے، اس کے شبہات دور کئے جائیں، اس کو توبہ کی تلقین کی جائے اور دوبارہ اسلام کی دعوت دی جائے، اگر اسلام لے آئے تو فبہا، ورنہ اسے قتل کردیاجائے۔

قتلِ نفس کے جواز کی  چندمزید صورتیں:

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ کہنے لگیں لا الہ الا اللہ پس جس نے کہا : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں تو اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو محفوظ کرلیا مگر اس کے حق کے ساتھ اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے“. [63] 

اس حق میں کئی امور ہیں ؛ ان میں سے زکوٰۃ کا انکار کرنا اور نماز کو ترک کرنا بھی ہے۔ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے منکرین زکوٰۃ کے ساتھ قتال کیا۔ اور قرآن کریم میں ہے : آیت : فان تابوا واقاموا الصلوٰۃ واتوا الزکوٰۃ فخلوا سبیلھم (التوبہ : 5) (پھر اگار یہ توبہ کرلیں اور قائم کریں نماز اور ادا کریں زکوٰۃ تو چھوڑ دو ان کا راستہ) اور یہ بالکل بین اور واضح ہے۔

اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ولا یحل دم امری مسلم الا باحدی ثلاث الثیب الزانی والنفس بالنفس والتارک لدینہ المفارق للجماعۃ[64]  (مسلم آدمی کا خون حلال نہیں ہوتا مگر تین میں سے کسی ایک سبب سے ثیبہ عورت جو زنا کرے، نفس کو نفس کے بدلے (ایک آدمی کسی کو قتل کرے تو اس کے بدلے قاتل کو قتل کیا جائے گا) اور جماعت سے الگ ہو کر اپنے دین کو ترک کرنے والا (یعنی مرتد ہونے کے سبب وہ واجب القتل ہوجائے گا)۔

اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اذا بویع لخلیفتین فاقتلوا الآخر منھما[65]  (جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو ان میں سے دوسرے کو قتل کر دو) اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور ابو داؤدنے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : من وجد تم وہ یعمل عمل قوط لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ  [66]  (جسے تم پاؤ کہ وہ قوم لوط کا عمل کرتا ہے تو تم فاعل اور مفعول بہ کو قتل کردو) عنقریب اس کا بیان سورة اعراف میں آئے گا۔ اور قرآن کریم میں ہے : آیت : انما جزؤا الذین یحاربہوں اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان یقتوا الآیہ  [67]  (بلا شبہ سزا ان لوگوں کی جو جنگ کرتے ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور کوشش کرتے زمین میں فساد برپا کرنے کی یہ ہے کہ کہ انہیں (چن چن کر) قتل کیا جائے)۔

اور مزید فرمایا : آیت : وان طآئفتن من المؤمنین اقتلوا الآیہ  [68]  (اور اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو) اور اسی طرح وہ آدمی جس نے مسلمانوں کا عصا توڑا اور ان میں سے کسی جماعت کے امام کی مخالفت کی اور ان کے کلمہ (قول) کو متفرق کردیا اور اہل و مال کو اچک کر زمین میں فساد برپا کردیا اور حاکم وقت کے خلاف بغاوت کردی اور اس کا حکم ماننے سے انکار کیا تو اسے بھی قتل کردیا جائے گا، پس رب کریم کے ارشاد الا بالحق کا یہی معنی ہے۔

اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : المؤمنون تتکافا دماؤھم ویسعی بذمتھم ادناھم لا یقتل مسلم بکافر ولا ذوعھد فی عھدہ ولا یتوارث اھل ملتین[69]  (مومنین کے خون کا بدلہ لیا جائے گا اور ان کے ادنی اپنی ذمہ داری کے لیے کوشش کریں گے کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کسی ذمی کو اس کے عہد کے دوران قتل کیا جائے گا اور علیحدہ علیحدہ دو دین رکھنے والے ایک دوسرے کے وراث نہیں بنیں گے)۔ ابو داؤد اور نسائی نے ابو بکرہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : من قتل معاھدا فی غیر کنھہ حرم اللہ علیہ الجنۃ (جس نے کسی ذمی کو بلا وجہ قتل کیا اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی۔

حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمان ذوالنورین ؓ نے اپنے ساتھیوں پر اوپر سے جھانک کر دیکھا اور فرمایا : تم کس بنا پر مجھے قتل کرتے ہو ؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ”کسی مسلمان آدمی کا خون حلال نہیں ہوتا مگر تین میں سے کسی ایک سبب سے وہ آدمی جس نے محصن ہونے کے بعد زنا کیا تو اس پر رجم کی سزا ہے یا جس نے عمدا کسی کو قتل کیا تو اس پر قصاص ہے یا جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا تو اس پر قتل کی سزا ہے“[70]  ۔ تو اقسم بخدا ! نہ میں نے زنا کیا ہے زمانہ جاہلیت میں اور نہ زمانہ اسلام میں اور میں نے کسی کو قتل نہیں کیا کہ اس کے بدلے میری جان لی جائے (یعنی مجھے قصاصا قتل کیا جائے) اور نہ میں مرتد ہوا ہوں جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے، بلاشبہ میں شہادت دیتا ہوں لا الہ الا اللہ وان محمدا عبداہ ورسولہ، یہ جو میں نے تمہارے لیے ذکر کیا ہے اسی کے بارے اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم (حقیقت کو) سمجھو [71]  .

حرابہ یعنی ڈاکہ

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا کہ

اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ

جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کو دوڑتے پھریں انکی یہی سزا ہے کہ قتل کردیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں یا ملک سے نکال دیے جائیں۔

حرابہ کا لغوی معنیٰ: 

علامہ زبیدی لکھتے ہیں ‘ حرب کا معنی ہے جنگ۔ صلح کی ضد ‘ اور حرب کا معنی ہے کسی انسان کا سارا مال لوٹ لینا اور اس کو بالکل تہی دست چھوڑ دینا۔  [72] 

ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں ‘ باغیوں اور محاربین (ڈاکوؤں) میں فرق یہ ہے کہ باغی کسی تاویل سے حکومت کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور ڈاکو بغیر کسی تاویل کے قتل اور غارت گری کرتے ہیں۔

فقہاء احناف نے حرابہ (ڈاکہ) کی تعریف کو سرقہ (چوری) کی تعریف کے ساتھ لاحق کردیا ہے۔ کیونکہ ڈاکہ بڑی چوری ہے ‘ مگر یہ مطلقا چوری نہیں ہے ‘ کیونکہ خفیہ طریقہ سے کسی چیز کو لینا چوری کہلاتا ہے۔ چور ‘ محافظ ‘ امام یا مالک سے چھپ کر کوئی چیز لیتا ہے اور ڈاکو اعلانیہ مار دھاڑ کر کے لوٹتا ہے ‘ اس لیے ڈاکہ کا ضرر چوری سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ سے کہ ڈاکہ کی سزا بھی چوری سے زیادہ رکھی گئی ہے۔

ڈاکو (قاطع الطریق یا محارب) ہر وہ مسلمان یا ذمی شخص ہے جس کی جان ڈاکہ ڈالنے سے پہلے محفوظ اور مامون ہو اور فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جس شخص نے قتل کیا اور مال لوٹا اس پر حد قائم کرنا واجب ہے اور ولی مقتول کے معاف کردینے اور لوٹا ہوا مال واپس کردینے سے اس کی حدساقط نہیں ہوگی اور ڈاکہ ہر اس فعل کو کہتے ہیں ‘ جس میں اس طریقہ سے مال کو لوٹا جائے کہ عادتا اس مال کو بچانا مشکل ہو۔ ۔ [73] 

مذاہب اربعہ کی روشنی میں ڈاکو کے صرف ڈرانے کی سزا :

جب ڈاکو صرف ڈرائے اور دھمکائے ‘ نہ مال لوٹے اور نہ قتل کرے تو امام احمد وغیرہ کے نزدیک اس کی سزا شہر بدر کرنا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (آیت) ” اوینفوا من الارض “ یا ان کو شہر بدر کردیا جائے “۔علامہ موفق الدین ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں جب ڈاکو راستہ میں ڈرائیں اور دھمکائیں نہ قتل کریں اور نہ مال لوٹیں تو ان کو زمین سے نکال دیا جائے گا ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (آیت) ” اوینفوا من الارض[74]  اس حالت میں جلا وطن کرنا حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اور یہی نخعی ‘ قتادہ اور عطاء خراسانی کا قول ہے اور زمین سے نکالنے کا معنی یہ ہے کہ ان کو تمام شہروں اور قصبوں سے نکال دیا جائے اور ان کے لیے کسی شہر میں رہنے کا ٹھکانا نہ ہو ‘ اس طرح کی تفسیر حسن اور زہری سے مروی ہے اور حضرت ابن عباس ؓ یہ اس کو ایک شہر سے دوسرے شہر میں بھیج دیا جائے جس طرح زانی کو شہر بدر کیا جاتا ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول یہ ہے کہ جس شہر میں اس کو بھیجا جائے ‘ اس میں اس کو قید کردیا جائے۔ جس طرح زانی کے متعلق ان کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا اس کو زمین سے نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو قید کرلیا جائے حتی کہ وہ توبہ کرے۔ امام شافعی کا بھی اسی قسم کا قول ہے۔ کیونکہ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں امام اس کو تعزیز لگائے اور اگر اس کی رائے ڈاکو کو قید کرنا ہو تو اس کو قید کر دے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ نفی کا معنی یہ ہے کہ امام ڈاکوؤں پر حدود جاری کرنے کے لیے ان کو طلب کرے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے۔ ابن شریح نے کہا ڈاکوؤں کو ان کے شہر کے علاوہ کسی اور شہر میں قید کر دے۔ یہ قول امام مالک کے قول کی مثل ہے اور یہ زیادہ بہتر ہے ‘ کیونکہ اگر ان کو کسی اور شہر میں بھیجیں گے تو وہ وہاں جاکر ڈاکہ ڈالیں گے اور لوگوں کو ایذاء پہنچائیں گے۔ ان لیے ان کو قید کرنا بہتر ہے۔

نیز علامہ موفق الدین ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں ” ہماری دلیل ظاہر آیت ہے کیونکہ نفی کا معنی نکالنا ‘ دور کرنا اور بھگانا ہے اور قید کا معنی روکنا ہے۔ اگر ان کو کسی غیر معین جگہ کی طرف نکال دیا جائے تو اس کی دلیل ‘(آیت) ” اوینفوا من الارض “[75]  کیونکہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ان کو تمام زمینوں سے نکال دیا جائے ‘ باقی ہمارے اصحاب نے یہ نہیں لکھا کہ اسے کتنی مدت کے لیے شہر بدر کیا جائے ؟ تاہم اس کو اتنی مدت کے شہر بدر کرنا چاہیے جس میں اس کی توبہ ظاہر ہوجائے اور اس کا چال چلن ٹھیک ہوجائے اور یہ بھی احتمال ہے کہ ایک سال کے لے شہر بدر کیا جائے۔ ۔ [76] 

علامہ یحی بن شرف نووی شافعی لکھتے ہیں اگر ڈاکو نے قتل کیا اور مال لیا تو اس کو قتل کیا جائے گا اور اس کو سولی دی جائے گی اور یہ اس وقت ہے جب مال نصار کے برابر ہو اور مذہب یہی ہے۔ ابن سلمہ کا قول یہ ہے کہ اس کا ہاتھ اور پیر کاٹا جائے گا اور قتل کیا جائے اور اس کو سولی دی جائے گی اور صاحب تقریب نے کہا کہ اس کا ہاتھ اور پیر کاٹا جائے گا اور قتل کیا جائے گا اور سولی نہیں دی جائے گی۔[77] 

علامہ ابو القاسم خرقی حنبلی لکھتے ہیں : جس ڈاکو نے قتل کیا اور مال لیا اس کو قتل کیا جائے گا۔ خواہ صاحب مال معاف کر دے اور اس کو سولی دی جائے گی ‘ حتی کہ اس کی شہرت ہوجائے اور اس کی لاش ڈاکوؤں کے حوالے کردی جائے گی۔ ۔ [78] 

ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (یحاربون اللہ) مجازی معنی پر محمول ہے۔ حقیقی معنی پر نہیں اس لئے کہ اللہ سے لڑنا امر محال ہے۔ اس میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ ایک یہ کہ جو لوگ طاقت پکڑ کر کھلم کھلا اسلحہ استعمال کرنے اور لوٹ مار کے لئے نکل آئیں انہیں محاربین کے نام سے موسوم کیا گیا اس لئے کہ ان کی حیثیت اس شخص جیسی ہے جو دوسرے لوگوں سے لڑنے بھڑنے پر کمربستہ ہوجانے اور ان کے لئے رکاوٹیں پیدا کردے۔

 

قصاص اور احکامِ قصاص

قصاص اسلامی قوانین میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے ۔اس کی اہمیت نصِ قرآنی سے عیاں ہے ۔اللہ رب العزت نے اس کو فرض قرار دیا اور اسے حیوٰۃ کہا۔کیونکہ جب ایک قاتل سے قصاص لیا جائے گا تو باقی سب یقینا ًاس سے عبرت حاصل کریں گے۔ارشاد ہوتا ہے کہ اے عقلمندو قصاص میں نسل انسان کی بقاء ہے اس میں حکمت عظیمہ ہے گو بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک کے بدلے ایک قتل ہوا تو دو مرے لیکن دراصل اگر سوچو تو پتہ چلے گا کہ یہ سبب زندگی ہے، قاتل کو خود خیال ہوگا کہ میں اسے قتل نہ کروں ورنہ خود بھی قتل کردیا جاؤں گا تو وہ اس فعل بد سے رک جائے گا تو دو آدمی قتل وخون سے بچ گئے۔ اگلی کتابوں میں بھی یہ بات تو بیان فرمائی تھی کہ آیت (القتل انفی للقتل) قتل قتل کو روک دیتا ہے لیکن قرآن پاک میں بہت ہی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اس مضمون کو بیان کیا گیا۔ پھر فرمایا یہ تمہارے بچاؤ کا سبب ہے کہ ایک تو اللہ کی نافرمانی سے محفوظ رہو گے دوسرے نہ کوئی کسی کو قتل کرے گا نہ کہ وہ قتل کیا جائے گا زمین پر امن وامان سکون وسلام رہے گا، تقوی نیکیوں کے کرنے اور کل برائیوں کے چھوڑنے کا نام ہے۔

قرآن پاک میں قصاص کا ذکر یوں ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰىؕ-اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىؕ-فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍؕ-ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ

اے ایمان والو تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ [79] 

قصاص تم پر یہ فرض کردیا گیا ہے ‘ اس معاملے میں سہل انگاری صحیح نہیں ہے۔ جب کسی معاشرے میں انسان کا خون بہانا عام ہوجائے تو تمدن کی جڑ کٹ جائے گی ‘ لہٰذا قصاص تم پر واجب ہے۔قصاص و دیت کے معاملے میں اسلام سے پہلے عرب میں مختلف معیارات قائم تھے۔ مثلاً اگر اوسی خزرجی کو قتل کر دے تو تین گنا خون بہا وصول کیا جائے گا اور خزرجی اوسی کو قتل کرے تو ایک تہائی خون بہا ادا کیا جائے گا۔ یہ ان کا قانون تھا۔ اسی طرح آزاد اور غلام میں بھی فرق روا رکھا جاتا تھا۔ لیکن شریعت اسلامی نے اس ضمن میں کامل مساوات قائم کی اور زمانۂ جاہلیت کی ہر طرح کی عدم مساوات کا خاتمہ کردیا۔ اس بارے میں امام ابوحنیفہ رض کا قول یہی ہے کہ تمام مسلمان آپس میں کفو برابر ہیں ‘ لہٰذا قتل کے مقدمات میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔اَلْحُرُّ بالْحُرِّ آزاد آزاد کے بدلے ۔اگر کسی آزاد آدمی نے قتل کیا ہے تو قصاص میں وہ آزاد ہی قتل ہوگا۔ یہ نہیں کہ وہ کہہ دے کہ میرا غلام لے جاؤ ‘ یا میری جگہ میرے دو غلام لے جا کر قتل کر دو۔ وَالْعَبْدُ بالْعَبْدِ ۔اگر غلام قاتل ہے تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے گا۔وَالْاُنْثٰی بالْاُنْثٰی ۔ اگر قتل کرنے والی عورت ہے تو وہ عورت ہی قتل ہوگی۔فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ۔یعنی مقتول کے ورثاء اگر قاتل کو کچھ رعایت دے دیں کہ ہم اس کی جان بخشی کرنے کو تیار ہیں ‘ چاہے وہ خون بہا لے لیں ‘ چاہے ویسے ہی معاف کردیں ‘ تو جو بھی خون بہا طے ہوا ہو اس کے بارے میں ارشاد ہوا :فَاتِّبَاعٌم بالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ط ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ ۔ اس کا رحمت ہونا بہت واضح ہے۔اگر یہ شکل نہ ہو تو پھر قتل در قتل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لیکن اگر قاتل کو لا کر مقتول کے ورثاء کے سامنے کھڑا کردیا جائے کہ اب تمہارے ہاتھ میں اس کی جان ہے ‘ تم چاہو تو اس کو قتل کردیا جائے گا ‘ اور اگر تم احسان کرنا چاہو ‘ اس کی جان بخشی کرنا چاہو تو تمہیں اختیار حاصل ہے۔ چاہو تو ویسے ہی بخش دو ‘ چاہو تو خون بہا لے لو۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ دشمنیوں کا دائرہ سمٹ جاتا ہے ‘ بڑھتا نہیں ہے۔ اس میں اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہے۔ ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس امت محمدیہ ﷺ پر بڑی رحمت ہے کہ ان کو دیت کا مال حلال فرما دیا پہلے کسی کے لیے حلال نہیں فرمایا یہود کے ذمہ قصاص تھا یا خون معاف کرنا دیت نہ تھی اور اہل انجیل کو خون معاف کردینے کا حکم تھا۔ قصاص بھی نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اس امت پر کیسی تخفیف اور سہولت فرمائی کہ ان کے لیے قصاص اور معاف کردینا اور دیت لینا تینوں امر مشروع فرما دیئے۔اسلامی معاشرے میں قاتل کی گرفتاری اور قصاص کی تنفیذ حکومت کیّ ذمہ داری ہوتی ہے ‘ لیکن اس میں مدعی ریاست نہیں ہوتی۔ آج کل ہمارے نظام میں غلطی یہ ہے کہ ریاست ہی مدعی بن جاتی ہے ‘ حالانکہ مدعی تو مقتول کے ورثاء ہیں۔ اسلامی نظام میں کسی صدر یا وزیراعظم کو اختیار نہیں ہے کہ کسی قاتل کو معاف کر دے۔ قاتل کو معاف کرنے کا اختیار صرف مقتول کے ورثاء کو ہے۔ لیکن ہمارے ملکی دستور کی رو سے صدر مملکت کو سزائے موت معاف کرنے کا حق دیا گیا ہے۔فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔ یعنی جو لوگ اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کے بعد ظلم و زیادتی کا وطیرہ اپنائیں گے ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب ہے۔

غلام اور ذمی کے خون کا قصاص نہ لینے کے حق میں ائمہ ثلاثہ کے دلائل :

امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک مسلمان کو کافر کے بدلہ میں اور آزاد کو غلام کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ [80]  ۔ قاضی بیضاوی شافعی لکھتے ہیں : امام مالک اور امام شافعی (رح) نے آزاد شخص کو غلام کے بدلہ میں قتل کرنے سے منع کیا ہے خواہ وہ غلام اس قاتل کا ہو یا اس کے غیر کا ‘ کیونکہ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے غلام کو قتل کردیا ‘ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو کوڑے مارے ‘ اس کو ایک سال کے لیے شہر بدر کردیا ‘ اور اس سے اس کے غلام کا قصاص نہیں لیا۔ [81]  ۔ حضرت علی نے فرمایا : سنت یہ ہے کہ مسلمان کو ذمی کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے اور نہ آزاد کو غلام کے بدلہ میں قتل کیا جائے [82]  ۔ حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) محضر صحابہ میں آزاد کو غلام کے بدلہ میں قتل نہیں کرتے تھے ‘ اس پر کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔ [83]  اس پر اتفاق ہے کہ غلام کے اعضاء کے بدلہ میں آزاد کے اعضاء نہیں کاٹے جاتے ‘ اور قرآن مجید میں جو ہے : ” النفس بالنفس “ جان کا بدلہ جان ہے “ خواہ غلام کی جان ہو یا آزاد کی ہو ‘ اس سے معارضہ نہیں کیا جاسکتا ‘ کیونکہ یہ تورات کا حکم ہے اور تورات کا حکم قرآن کے اس حکم کے لیے ناسخ نہیں ہوسکتا کہ آزاد کو آزاد کے بدلہ میں قتل کیا جائے۔ [84] ۔ ائمہ ثلاثہ کے مؤقف پر یہ حدیث بھی دلیل ہے ‘ امام بخاری روایت کرتے ہیں : حضرت ابوجحیفہ (رض) نے حضرت علی (رض) سے پوچھا : اس صحیفہ میں کیا مرقوم ہے ؟ فرمایا دیت اور قیدی کو چھڑانے کے احکام ہیں اور یہ کہ مسلمان کو کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ [85]

غلام اور ذمی کے قصاص کے متعلق امام ابوحنفیہ کا مذہب :

علامہ عبداللہ بن محمود موصلی لکھتے ہیں : آزاد کو آزاد اور غلام کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا ‘ مرد کو عورت کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا ‘ چھوٹے کو بڑے کے بدلہ میں اور مسلمان کو ذمی کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا اور مسلمان اور ذمی کو مستامن کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا اور مستامن کو مستامن کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا اور صحیح الاعضاء کو اپاہج ‘ اندھے ‘ مجنون اور ناقص الاعضاء کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا اور کسی شخص کو اس کے بیٹے ‘ اس کے غلام اس کے بیٹے کے غلام ‘ اور اس کے مکاتب کے بدلہ میں نہیں قتل کیا جائے گا ۔ [86]

آزاد سے غلام کا قصاص لینے کے ثبوت میں قرآن اور سنت سے دلائل :

ائمہ ثلاثہ نے امام ابوحنیفہ سے دو صورتوں میں اختلاف کیا ہے ‘ پہلا اختلاف یہ ہے کہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک غلام کے بدلہ میں آزاد کو قتل کرنا جائز نہیں ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک جائز ہے امام ابوحنیفہ (رح) کی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں مجید میں ہے : (آیت) ” یایھا الذین امنوا کتب علیکم القصاص فی القتلی “۔[87]۔ ترجمہ : اے ایمان والو ! تم پر مقتولین کے خون (ناحق) کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے : اس آیت میں مقتول کا لفظ عام ہے ‘ یہ ہر مقتول کو شامل ہے ‘ خواہ آزاد ہو یا غلام ‘ مسلمان ہو یا ذمی ‘ اس کا بدلہ اس کے قتل کرنے والے سے لیا جائے گا ‘ خواہ وہ آزاد ہو یا غلام ‘ لہذا اگر آزاد شخص نے کسی کے غلام کو قتل کردیا تو اس غلام کا قصاص اس آزاد سے لیا جائے گا۔دوسری دلیل یہ ہے : (آیت) ” ان النفس بالنفس “۔ [88] ترجمہ : بیشک جان کا بدلہ جان ہے۔ اس آیت میں بھی مطلقا فرمایا ہے کہ جان کا بدلہ جان ہے اور آزاد یا غلام کا فرق نہیں کیا گیا اور اس پر علامہ بیضاوی کا یہ اعتراض صحیح نہیں ہے کہ قرآن مجید نے یہ تورات کا حکم بیان کیا ہے ‘ یہ اعتراض اس وقت صحیح ہوتا جب اللہ تعالیٰ نے اس حکم کا رد کیا ہوتا ‘ اور سابقہ شریعتوں کے جو احکام قرآن اور سنت میں بلا نکیر بیان کیے گئے ہیں وہ ہم پر حجت ہیں۔ اس آیت کے ہمارے حق میں حجت ہونے پر دلیل یہ حدیث ہے ‘ امام بخاری روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مسلمان شخص اس کی شہادت دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ‘ اس کا خون صرف تین وجہوں میں سے کسی ایک وجہ سے بہانا جائز ہے : جان کا بدلہ جان ‘ شادی شدہ زانی اور دین سے مرتد ہونے والا اور جماعت کو ترک کرنے والا۔ [89] ۔اس حدیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ [90] ۔اس حدیث میں بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مطلقا فرمایا : جان کا بدلہ جان ہے اور اس سے واضح ہوگیا کہ سورة مائدہ کی مذکور الصدر آیت ہمارے لیے بیان کی گئی ہے اور وہ تورات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔نیز ہماری دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے ۔(آیت) ” ولکم فی القصاص حیوۃ، [91]  ترجمہ : اور قصاص کے حکم میں تمہارے لیے زندگی ہے۔اس آیت میں برسبیل عموم فرمایا ہے کہ قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے اور اس کو آزاد یا غلام کے ساتھ خاص نہیں کیا ‘ قصاص کی وجہ سے مسلمان کسی کو قتل کرنے سے باز رہیں گے ‘ آزاد غلام کو قتل کرے گا نہ غلام آزاد کو۔امام ابوحنیفہ (رح) کے مؤقف کے ثبوت پر یہ حدیث دلالت کرتی ہے ‘ حافظ الہیثمی بیان کرتے ہیں : حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان ‘ مسلمان کا بھائی ہے ‘ اس سے خیانت کرے نہ اس کو ذلیل کرے ‘ ان کا خون ایک دوسرے (کے کفو) کی مثل ہے ‘ الحدیث۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ” معجم اوسط “ میں روایت کیا ہے ‘ اس کی سند میں ایک راوی کا نام قاسم بن ابی الزناد لکھا ہے حالانکہ اس کا نام ابوالقاسم بن ابی الزناد ہے ‘ اس کے علاوہ حافظ الہیثمی نے اس حدیث پر اور کوئی جرح نہیں کی۔ [92]  

آزاد سے غلام کا قصاص نہ لینے کے متعلق ائمہ ثلاثہ کے دلائل کا جواب :

قاضی بیضاوی نے ائمہ ثلاثہ کے موقف پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو قتل کردیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو کوڑے مارے اور اس سے قصاص نہیں لیا۔ [93]  اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث امام ابوحنیفہ (رح) کے مؤقف کے خلاف نہیں ہے کیونکہ امام اعظم کا مذہب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کو قتل کردے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا ‘ اختلاف اس صورت میں ہے جب کوئی آزاد شخص کسی دوسرے شخص کے غلام کو قتل کر دے۔وسری حدیث میں جس سے قاضی بیضاوی نے استدلال کیا ہے اس کو امام بیہقی نے ” سنن کبری “ میں از جابر از عامر حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ سنت یہ ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلہ میں نہ قتل کیا جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ امام بیہقی (رح) نے خود ” کتاب المعرفۃ “ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث ثابت نہیں ہے کیونکہ اس روایت میں جابر جعفی متفرد ہے اور اس کے معارض حضرت علی (رض) سے دو روایتیں ذکر کی ہیں کہ جب آزاد غلام کو قتل کردے تو اس میں قصاص ہے ہرچند کہ ان روایتوں کو بھی انہوں نے منقطع لکھا ہے۔[94]   ۔ قاضی بیضاوی نے تیسری دلیل یہ قائم کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) غلام کے بدلہ میں آزاد کو قتل نہیں کرتے تھے اور اس پر کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے نزدیک یہ اس صورت پر محمول ہے جب کوئی آزاد شخص اپنے غلام کو قتل کردے کیونکہ اسی صورت میں قصاص نہ لینے پر اتفاق ہے ‘ حافظ الہیثمی نے امام طبرانی کی ” معجم اوسط “ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک شخص سے کہا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ نہ سنا ہوتا کہ مملوک کا قصاص مالک سے نہیں لیا جائے گا اور نہ بیٹے کا باپ سے تو میں تم سے قصاص لیتا۔ [95]   ۔ نیز متعدد صحابہ اور تابعین کا یہ مؤقف ہے کہ اگر آزاد کسی کے غلام کو قتل کردے تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ امام ابن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں : حضرت علی (رض) اور حضرت ابن مسعود (رض) نے کہا کہ جب آزاد غلام کو قتل کردے تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ ابراہیم نے کہا کہ آزاد کو غلام کے بدلہ میں اور غلام کو آزاد کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا۔ سعید بن المسیب نے کہا کہ اگر آزاد غلام کو قتل کردے تو اس کو قتل کیا جائے گا ‘ پھر کہا : بہ خدا ! اگر تمام یمن والے مل کر ایک غلام کو قتل کریں تو میں ان سب کو قتل کر دوں گا۔ شعبی نے کہا : آزاد کو غلام کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا۔ سفیان نے کہا : اگر کوئی شخص دوسرے کے غلام کو قتل کر دے تو اس کو قتل کیا جائے گا اور اگر اپنے غلام کو قتل کرے تو پھر اس کو قتل نہیں کیا جائے گا جیسے کوئی شخص اپنے بیٹے کو قتل کردے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ [96]   ۔ان روایات سے قطع نظر امام اعظم ابوحنفیہ (رح) کا مذہب قرآن مجید کی صریح آیات پر مبنی ہے اور امام اعظم کے مذہب میں انسانیت کی تکریم ہے کیونکہ آپ نے آزاد اور غلام مسلمانوں کے خون میں کوئی فرق نہیں کیا۔

مسلمان سے ذمی کا قصاص لینے کے متعلق قرآن اور سنت سے دلائل :

مسلمان کو ذمی کے بدلہ میں قتل نہ کیے جانے کے متعلق ائمہ ثلاثہ کی طرف سے ” صحیح بخاری “ کی یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ مسلمان کو کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا ‘ امام ابوحنیفہ (رح) کی طرف سے اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث کافر حربی پر محمول ہے ‘ اور امام ابوحنیفہ (رح) کی دلیل سورة بقرہ کی یہ آیت ہے : ایمان والو ! تم پر قتل (مقتول) میں قصاص فرض کیا گیا ہے ‘ مقتول کا لفظ عام ہے مسلمان اور ذمی دونوں کو شامل ہے ‘ اور حربی کافر ‘ قرآن مجید کی ان آیتوں سے مستثنی ہے جن میں کفار اور مشرکین کو قتل کرنے حکم دیا گیا ہے ‘ اسی طرح سورة مائدہ میں ہے : جان کا بدلہ جان ہے اور ” صحیح بخاری “ اور صحیح مسلم “ میں یہ حدیث ہے کہ جان کا بدلہ جان ہے۔نیز امام ابوداؤد روایت کرتے ہیں : عبدالرحمان سلیمانی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مسلمان شخص کو لایا گیا جس نے ایک ذمی شخص کو قتل کردیا تھا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی گردن ماری دی اور فرمایا : میں ذمی کا ذمہ پورا کرنے کا زیادہ حق دار ہو۔عبداللہ بن عبدالعزیز بن صالح حضرمی بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مسلمان کو قتل کردیا جس نے ایک کافر کو دھوکے سے قتل کردیا تھا اور فرمایا : میں اس کا ذمہ پورا کرنے کا زیادہ حق دار ہوں۔ [97]   ۔ امام بیہقی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔[98]    ۔ نیز امام بیہقی روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک مسلمان شخص نے ایک ذمی کو عمدا قتل کردیا ‘ یہ مقدمہ حضرت عثمان (رض) کے پاس پیش کیا گیا ‘ حضرت عثمان (رض) نے اس کو قتل نہیں کیا اور اس پر بھاری دیت مقرر کی جیسے مسلمان کے قتل ناحق پر مقرر کی جاتی ہے۔ امام بیہقی نے کہا : یہ حدیث متصل ہے۔ [99]    یہ حدیث بھی امام ابوحنیفہ (رح) کی دلیل ہے کیونکہ دیت قصاص کی فرع ہے ‘ فریقین میں صلح یا کسی اور وجہ سے قصاص کی جگہ دیت فرض کی گئی۔ انسانیت کی تکریم اور عدل و انصاف کے قریب امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب ہے کہ جب ذمی سے اس کی جان اور مال کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا اور اس سے اس کی جان اور مال کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا اور اس سے اس کے بدلہ میں جزیہ لیا گیا تو اس کا یہی تقاضا ہے کہ اگر ذمی کو مسلمان بھی قتل کردے تو اس سے قصاص لیا جائے ‘ اس سے اسلام میں اخلاق کی بلندی ‘ اصول کی برتری اور تکریم انسانیت کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

متعدد لوگوں کی جماعت سے ایک شخص کے قصاص لینے کا بیان :

ظاہریہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر چند آدمیوں کی جماعت مل کر ایک شخص کو قتل کر دے تو ان سے قصاص نہیں لیا جائے گا ‘ کیونکہ ظاہر آیت نے قصاص اور مساوات کی شرط لگائی ہے اور واحد اور جماعت میں مساوات نہیں ہے لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ آیت کا معنی یہ ہے کہ قاتل کو قصاص میں قتل کردیا جائے گا خواہ قاتل واحد ہو یا متعدد۔امام بخاری روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک لڑکے کو دھوکے سے قتل کردیا گیا ‘ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر اس کے قتل میں (تمام) اہل صنعاء شریک ہوتے تو میں ان سب کو قتل کردیتا ‘ اور مغیرہ بن حکیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ چار آدمیوں نے مل کر ایک بچے کو قتل کیا تو حضرت عمر نے اس کی مثل فرمایا [100]    ۔ ایسی صورت میں کہ جماعت میں سے ہر شخص نے ایسا زخمی کیا ہو کہ ہلاکت کے قریب کردینے والا ہو تو ان سے قصاص لیا جائے گا بخلاف قطاع طریق کے کیونکہ قطاع الطریق پر قتل بوجہ اعانت کے آتا ہے اور یہاں ہر ایک سے زخم کا ہونا شرط ہے۔

مسند اور چلپی میں ہے کہ ایسی حالت میں کہ جماعت قاتلین میں سے ہر ایک سے زخمی کرنا ثابت ہو سب سے قصاص لیا جائے گا اور اگر بعض سے صادر ہو اور بعض سے نہ ہو تو اس شخص سے قصاص لیا جائے گا جس نے زخم لگایا اور جس نے زخم نہیں لگایا۔۔ اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا خواہ اس نے اعانت کی ہو یا نہ کی ہو بخلاف قطاع طریق کے کہ وہاں سب پر قتل واجب ہوگا سب کو قتل کیا جائے گا اور داوٗد کہتے ہیں کہ ایک روایت امام احمد سے بھی یہی ہے کہ قتل نہ کیے جائیں بلکہ دیت لی جاوے۔

سلاطین اور حکام سے قصاص لینے کے متعلق احادیث اور آثار :

علماء کا اس پر اجماع ہے کہ سلطان اگر اپنی رعیت میں سے کسی شخص پر زیادتی کرے تو وہ خود اپنی ذات سے قصاص لے گا ‘ کیونکہ سلطان اللہ تعالیٰ کے احکام سے مستثنی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے مقتول کے سبب سے تمام مسلمانوں پر قصاص کو فرض کیا ہے اگر سلطان کسی شخص کو بےقصور قتل کردیتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ خود کو قصاص کے لیے پیش کرے۔امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے کہ اس کے چہرہ پر زخم لگ گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آؤ مجھ سے بدلہ لے لو ‘ اس نے کہا : میں نے معاف کردیا۔ [101]    ۔ امام نسائی روایت کرتے ہیں : حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا ہے۔ [102]    ۔اس حدیث کو امام احمد نے بھی روایت کیا ہے۔ [103]    

قصاص لینا حکومت کا کام ہے :

تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ از خود قصاص لے ‘ قصاص لینے کے لیے ضروری ہے کہ حاکم کے پاس مرافعہ کیا جائے ‘ پھر حاکم خود قصاص لے گا یا کسی شخص کو قصاص لینے کے لیے مقرر کرے گا ‘ قانون پر عمل کرنے کا منصب صرف حکومت کا ہے ‘ ہر شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے ‘ اسی طرح جادوگر اور مرتد کو قتل کرنا اور حدود اور تعزیرات کو جاری کرنا حکومت کا منصب ہے۔

کیفیت قصاص اور آلہ قتل میں ائمہ مذاہب کی آراء اور ان کے دلائل :

امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد کا راجح مذہب یہ ہے کہ جس طرح اور جس کیفیت سے قاتل نے مقتول کو قتل کیا ہے اسی طرح اور اسی کیفیت سے قاتل کو قتل کیا جائے اور یہی قصاص کا تقاضا ہے کیونکہ قصاص کا معنی ہے : بدلہ ‘ اور بدلہ اسی صورت میں ہوگا ‘ نیز حدیث میں ہے کہ ایک یہودی نے پتھر مار کر ایک باندی کو قتل کیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس یہودی کا پتھر سے سرپھاڑ کر اس کا بدلہ لیا۔امام بخاری روایت کرتے ہیں : حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے دو پتھروں کے درمیان ایک باندی کا سرپھاڑ دیا ‘ اس باندی سے پوچھا گیا : کس نے تمہارا سرپھاڑا ہے ‘ کیا فلاں نے ‘ یافلاں نے حتی کہ اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس باندی نے سرہلایا ‘ اس یہودی کو بلایا گیا ‘ اس نے قتل کرنے کا اقرار کرلیا تو اس کا سر بھی پتھر سے پھاڑ دیا گیا۔ [104]    ۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ایک قول کے مطابق امام احمد کے نزدیک قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا اور اس حدیث میں مثلہ کرنے کی ممانعت سے پہلے کے واقعہ کا بیان ہے جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مثلہ کرنے سے منع فرمادیا تو پھر اس کیفیت سے قصاص لینا منسوخ ہوگیا ‘ امام ابوحنیفہ اور امام احمد کی دلیل یہ حدیث ہے ‘ امام ابن ماجہ روایت کرتے ہیں ؛ حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تلوار کے سوا کسی چیز سے قصاص لینا (جائز) نہیں ہے۔[105]    ۔ علامہ المرغینانی الحنفی لکھتے ہیں : قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا کیونکہ حدیث میں ہے : تلوار کے بغیر قصاص لینا جائز نہیں ہے [106]    ۔ امام ابوحنیفہ (رح) کی دلیل یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی آدمی کو مثلہ کرکے قتل کیا یعنی اس کے جسم کے مختلف اعضاء کاٹ ڈالے اور اگر پھر قاتل سے اسی کیفیت سے قصاص لیا جائے تو لازم آئے گا کہ اس قاتل کو مثلہ کیا جائے حالانکہ احادیث صحیحہ میں مثلہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔امام مسلم روایت کرتے ہیں :حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کا نام لے کر اللہ کے راستہ میں جہاد کرو ‘ جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اس کے ساتھ قتال کرو خیانت نہ کرو ‘ عہد شکنی نہ کرو ‘ مثلہ نہ کرو (کسی شخص کے اعضاء کاٹ کر اس کے جسم کو نہ بگاڑو) ۔ الحدیث [107]    

ولی مقتول کے معاف کرنے کی تفصیل :

یعنی مقتول کے ولی نے قاتل کو معاف کردیا ‘ قاتل کو مقتول کے بھائی سے تعبیر فرمایا ہے تاکہ ولی کی مقتول کو معاف کرنے میں رغبت ہو اور وہ قصاص کا مطالبہ ترک کر دے اور دستور کے مطابق دیت کا مطالبہ کیا جائے یعنی شریعت میں جو دیت کی مقدارمقرر کی گئی ہے ولی مقتول اس سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے اور قاتل کے عصبات دیت کی ادائیگی کی مدت میں تاخیر اور مقدار میں کمی نہ کریں اور معاف کرنے اور دیت ادا کرنے کا حکم تمہارے رب کی طرف سے تخفیف ہے اور اس میں تم پر رحمت ہے کیون کی یہود کی شریعت میں صرف قصاص واجب تھا اور نصاری کی شریعت میں صرف دیت واجب تھی ‘ اور تمہارے لیے یہ آسانی ہے کہ مقتول کا ولی قاتل سے قصاص لے ‘ یا دیت لے یا بالکل معاف کردے۔ تمہیں ہر طرح اختیار کی وسعت دی گئی اور کوئی شق واجب نہیں کی گئی اور جس نے اس کے بعد حد سے تجاوز کیا یعنی اگر ولی مقتول نے معاف کرنے کے بعد قاتل کو قتل کیا تو اس کو دنیا اور آخرت میں عذاب ہوگا ‘ دنیا میں اس کو قتل کیا جائے گا اور آخرت کا عذاب الگ ہوگا۔

دیت کے احکام:

دیت کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ مال جو مقتول کے ورثاء کو مقتول کی جان کے عوض میں دیا جاتا ہے۔اگر مسلمان مقتول کے قرابت دار کافر ہوں تو ان کو دیت نہیں دی جائے گی کیونکہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا ‘ مسلمان مقتول کے جو وارث مسلمان ہوں ان کو دیت ادا کی جائے گی۔علامہ فیروز آبادی متوفی ٨١٧ ھ نے لکھا ہے کہ دیت کا معنی ہے مقتول کا حق ( القاموس ج ٤ ص ٥٧٩)ہے۔اور اس کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ کسی مسلمان یا ذمی کو ناحق قتل کرنے یا اس کے کسی عضو کو ناحق تلف کرنے کی وجہ سے جو شرعا مالی تاوان لازم آتا ہے اس کو دیت کہتے ہیں ‘ اور بعض اوقات جان کے تاوان کو دیت اور عضو کے تاوان کو ارش کہتے ہیں۔

قتل خطاء قتل شبہ عمد اور عقل عمد میں دیت کی مقدار :

امام ابوحنیفہ کے نزدیک قتل خطاء کی دیت اسی طرح ہے جس طرح اس حدیث میں بیان کی گئی ہے اور قتل شبہ عمد (کسی شخص کو ایسے آلہ سے ضرب لگائی جائے جس سے قتل نہیں کیا جاتا اور اس کو قصد صرف ضرب لگانا ہو قتل کرنا نہ ہو لیکن اس ضرب کے نتیجہ میں مضروب مرجائے) کی دیت امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ ہے کہ پچیس ایک سال کی اونٹنیاں ‘ پچیس دو سال کی اونٹنیاں ‘ پچیس تین سال کی اونٹنیاں اور پچیس چار سال کی اونٹنیاں[108]    ۔ امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی مومن کو عمدا قتل کیا اس کو مقتول کے ورثا کے حوالے کردیا جائے گا اگر وہ چاہیں تو اس کو قتل کردیں اور اگر وہ چاہیں تو اس سے دیت وصول کرلیں ‘ قتل عمد کی دیت یہ ہے : تیس تین سال کی اونٹنیاں ‘ تیس چار سال کی اونٹنیاں اور چالیس پانچ سال کی اونٹنیاں اس کے علاوہ جس مقدار پر وہ صلح کرلیں[109]    ۔امام ابوحنیفہ کے نزدیک قتل خطاء کی دیت میں ایک ہزار دینار یادس ہزار درہم بھی دیئے جاسکتے ہیں [110]    ۔ ایک ہزار دینار (٣٧٤ ء ٤) چار اعشاریہ تین سات چار کلو گرام سونے کے برابر ہے اور دس ہزار درہم ‘ (٦١٨ ء ٣٠) تیس اعشاریہ چھ ایک آٹھ کلو گرام چاندی کے برابر ہے۔

دیت کی ادائیگی کی مدت اور جن لوگوں کے ذمہ دیت کی ادائیگی ہے۔

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : تمام اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ دیت تین سال میں لی جائے گی ہر سال میں تہائی (٣، ١) دیت وصول کی جائے گی اور قتل خطاء کی دیت عاقلہ پر ہے ‘ باپ کی طرف سے جو رشتہ دار ہیں وہ عاقلہ ہیں ‘ یہ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے ‘ بعض ائمہ نے کہا دیت صرف ان مردوں پر ہے جو عصبات ہوں عورتوں اور بچوں پر دیت نہیں ہے ‘ اور ہر شخص پر چوتھائی (٤۔ ١) دینار دیت لازم کی جائے گی۔ بعض ائمہ نے کہا کہ نصف دینار تک دیت لازم کی جائے گی اگر ان رشتہ داروں سے دیت پوری ہوجائے تو فبہا ورنہ جو قریب ترین قبیلہ کے لوگ ہیں ان پر دیت لازم کی جائے گی [111]   ۔امام ابوحنیفہ کے نزدیک عمد ‘ شبہ العمد اور خطاتینوں کے دیت کی ادائیگی کی مدت تین سال ہے اور جمہور فقہاء کے نزدیک دیت العمد معجل ہے اور باقی دیت تین سال میں ادا کی جائے گی [112]   ۔ علامہ محمد بن اثیر الجزری متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

عاقلہ عصبات کو کہتے ہیں یعنی باپ کی طرف سے رشتہ دار جو قتل خطاء میں قاتل کی جانب سے مقتول کی دیت ادا کرتے ہیں اور اسی معنی میں حدیث ہے ” دیت عاقلہ پر ہے۔

ذمی کافر کی دیت میں مذاہب ائمہ :

جس کافر قوم سے مسلمانوں نے معاہدہ کیا ہو اس کے کسی فرد کو اگر کسی مسلمان نے خطاء قتل کردیا یا مسلمان ملک میں کسی ذمی کافر کو مسلمان نے خطاء قتل کردیا تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ حکم بیان فرمایا ہے کہ اس کے ورثاء کو بھی دیت ادا کی جائے گی ‘ اور کفارہ میں ایک مسلمان غلام کو آزاد کیا جائے گا ‘ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ذمی کافر اور مسلمان کی دیت میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیت کو کسی خاص مقدار میں سے معین نہیں فرمایا اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کے ورثاء کو پوری دیت ادا کی جائے گی ‘ نیز اہل عرب میں دیت کا لفظ سو اونٹوں میں معروف تھا اور اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد مقتول کی دیت سو اونٹ ادا کرنے کا تعامل تھا ‘ اس لیے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ معاہد اور ذمی کو اگر خطاء قتل کردیا جائے تو اس کی دیت ادا کی جائے گی تو اس کو متعارف معنی پر محمول کیا جائے گا اور اس کا معنی ہوگا کہ ذمی مقتول کے ورثاء کو پوری دیت ادا کی جائے گی ‘ نیز اس آیت کے نزول سے پہلے مسلم اور کافر کی دیت میں فرق نہیں تھا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ذمی کی دیت کو مسلم کی دیت کے ذکر کے بعد بغیر کسی فرق کے ذکر کیا لہذا اس آیت میں بھی دیت کو متعارف معنی پر محمول کیا جائے گا اور ذمی کافر کی بھی پوری دیت ادا کی جائے گی۔یہودی اور نصرانی کی دیت میں اہل علم کا اختلاف ہے ‘ بعض اہل علم کا مذہب اس مسئلہ میں اس حدیث کے مطابق ہے ‘ اور عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ یہودی اور نصرانی کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے ‘ امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے ‘ اور حضرت عمر بن الخطاب (رض) سے مروی ہے کہ یہودی اور نصرانی کی دیت چار ہزار درہم ہے ‘ اور مجوسی کی دیت اٹھ سو درہم ہے ‘ امام مالک بن انس ‘ امام شافعی اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے ‘ اور بعض اہل علم نے کہا کہ یہودی اور نصرانی کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر ہے ‘ یہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے۔[113]   ۔

عورت کی نصف دیت کی تحقیق :

عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے ‘ یہ حضرت علی (رض) سے موقوفا روایت ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعا مروی ہے ‘ کیونکہ عورت کا حال اور اس کی منفعت مرد سے کم ہے ‘ عورت کے اعضاء اور اطراف کی دیت بھی مرد کی دیت کا نصف ہے [114]   ۔ امام محمد بن حسن شیبانی متوفی ١٨٩ ھ لکھتے ہیں : امام ابوحنیفہ از حماد از ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ عورت کے تمام زخموں کی دیت مردوں کے زخموں کی دیت کا نصف ہے۔ [115]   ۔ علامہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ نے لکھا ہے کہ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے۔ [116]   ۔ خلاصہ یہ ہے کہ حدیث میں بھی ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے اور ائمہ اربعہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اس پر تمام ائمہ مذاہب کا اجماع ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اور جس نے کسی مسلمان کو خطاء (بلاقصد) قتل کردیا تو اس پر ایک مسلمان گردن (غلام یا باندی) کو آزاد کرنا لازم ہے اور اس کے وارثوں کو دیت ادا کی جائے ماسوا اس کے کہ وہ معاف کردیں۔[117]   

مسلمان کے جان و مال کا حترام:

اللہ رب العزت نے انسانیت کو ایمان کی نعمت دے کر شرفِ انسانیت کو دہرا کر دیا اور اگر ایک انسان ایمان لے آتا ہے تو وہ دوسروں کی نسبت اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب اور محبوب ہوتا ہے اور اس کی قدر و قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔اسی لئے اسلام میں تکریمِ انسانیت بالاطلاق سے زیادہ تکریمِ شرفِ ایمان یعنی تکریمِ مسلم کا ذکر ہے۔مومن ہی دراصل لائقِ عزت و تکریم ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے

لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ 

 عزّت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے۔[118]   

یعنی عزت و  تکریم کا معیار ایمان و تقویٰ ہے۔اور مومن کی حرمت و عزت خانہ خدا سے بھی زیادہ ہے ۔جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ : مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا۔

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔[119]   ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومن کی حفاظتِ ناموس کا بڑا اہتمام کیا گیا اور اس کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرنے سے بھی منع کیا گیا  اور سبابۃ المسلم کو فسق قرار دیا گیا جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے کہ سِبابُ المسلم فسوق, وقتاله كفر  مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کو قتل کرنا صریح کفر۔[120]   ۔نیز احادیثِ مبارکہ میں مسلمان یا مومن کی طرف ہتھیاراستعمال کرنا تو دور اس کو اٹھانے اور اس سے اشارہ کرنے کی بھی ممانعت وارد ہے۔جیسا کہ مذکور ہے۔

لاَيُشِيرُ أَحَدُکُمْ إِلَی أَخِيهِ بِالسِّلَاحِ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَحَدُکُمْ لَعَلَّ الشَّيْطَانَ يَنْزِعُ فِي يَدِهِ، فَيَقَعُ فِي حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ

ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔[121]   ۔آپ علیہ السلام نے اپنے قول و فعل سے تکریمِ مسلم کا درس دیا اور بتا دیا کہ مومن من اللہ مامون ہوتا ہے ۔حدیثِ پاک میں ارشاد ہے کہ المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ  مسلمان وہ ہے کہ جس کےہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔[122]   یعنی مومن نہ ہی کسی کو نقصان دیتا ہے اور نہ نقصان پاتا ہے۔ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا کہ لا ضَرَرَ ولا ضِرَارَ۔نہ نقصان دو اور نہ ہی نقصان اٹھاؤ[123]   ۔ اِحترامِ مسلم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر حال میں ہر مسلمان کے تمام حقوق کا لحاظ رکھا جائے اور بلا اجازتِ شرعی کسی بھی مسلمان کی دِل شِکنی نہ کی جائے۔مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا اور ان کا احترام کرنا بہت فضیلت کی بات ہے، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ اسلامی رشتہ ہے جس کی وجہ سے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا اکرام کرے اور اس کی عزت کی حفاظت کرے اور ہمیشہ اس کی بے حرمتی سے بچتا رہے اور اگر کوئی دوسرا شخص مسلمان کی بےعزتی کرے یا اُسے تکلیف پہنچائے تو مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرے اور اس کی عزت پامال نہ ہونے دے۔ حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی حفاظت کی اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن اس سے جہنم کا عذاب دور فرما دے گا۔‘‘مسلمان کی بے عزتی کرنا بہت بُرا فعل ہے اور اُس کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے۔ بےعزتی کرنے کی مختلف صورتیں ہیں: مسلمان کا مذاق اُڑانا، گالی دینا، چغلی لگانا، بہتان تراشی کرنا، جہاں اس کی عزت کی جاتی ہو وہاں اسے ذلیل کرنا، غیبت کرنا یا اس کی غیبت ہورہی ہو تو قدرت کے باوجود نہ روکنا بھی بے عزتی میں شامل ہے۔ اگر کسی مسلمان کو ذلیل و رُسوا کیا جارہا ہو تو دوسرے مسلمان پر لازم ہے کہ اس کا دفاع کرے اگر قدرت کے باوجود اس کی حمایت نہیں کرے گا تو خود بھی گناہ گار ہوگا۔حُسن اخلاق ایسی صفت ہے کہ جو اِحترامِ مسلم کی اصل ہے کیونکہ حسن اخلاق اچھائیوں کی جامع ہے، حسن اخلاق سے متصف انسان ایثار، دل جوئی، سخاوت، بُردباری، تحمل مزاجی، ہمدردی، اخوت و رواداری جیسی اعلیٰ صفات سے متصف ہوتا ہے اور یہ ہی وہ صفات ہیں جن سے انسان میں اِحترامِ مسلم کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ خود بھی ستار العیوب ہے اور وہ اپنے نیک بندوں سے بھی یہی تقاضا کرتا ہے کہ عیوب پرپردہ ڈالا کریں چنانچہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ

من نفس عن اخيه كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة، ومن ستر مسلما ستره الله في الدنيا والآخرة، ومن يسر على معسر يسر الله عليه في الدنيا والآخرة، والله في عون العبد ما كان العبد في عون اخيه

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے اپنے بھائی کی کوئی دنیاوی مصیبت دور کی تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کوئی نہ کوئی مصیبت دور فرمائے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی۔ تو اللہ اس کی دنیا و آخرت میں پردہ پوشی کرے گا، اور جس نے کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کی، تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا۔ اللہ اپنے بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔[124]   

اللہ تعالیٰ نے مسلمان کی جان کی طرح اس کے مال اور عزت و آبرو کی بھی تکریم رکھی ۔اس کے لئے نازیبا کلمات اور لعن طعن یا  سب و شتم کو ممنوع قرار دیا اور اس کے مال میں بے جا تصرف کو بھی اس کی اجازت کے بغیر حرام رکھا۔ے لئے نازیبا کلمات اور لعن طعن یا  سب و شتم کو مقرآنِ کریم میں ارشاد ہوا کہ

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا

ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ البتہ یہ (ہو) کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔ بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔[125]   

پس یہ آیت واضح الفاظ میں تقاضا کر رہی ہے کہ مومن کے مال کو بھی باطل طریقے سے ہڑپنے کی کوشش نہ کی جائے اور نہ ہی اس کی جان کی حرمت پامال کی جائی اور چونکہ مذکورہ آیت میں مومنوں کو خطاب ہے اور بَیْنَکُمْ کا لفظ استعمال ہوا ہے تو تخصیص و شرف اس ضمن میں مومن کو من وجہ الاخص ہے۔اسی لئے وہ برائیاں یا گناہ جن کاتعلق حقوق العباد سے ہے ان کے معاملے میں نرمی نہیں برتی گئی بلکہ سخت رویہ اختیار کیا گیا ہے کیونکہ حقوق اللہ تو توبہ سے معاف ہو سکتے ہیں مگر حقوق العباد اللہ کے بندوں سے رجوع پر ہی معاف ہوں گے۔لہٰذا شہید اگرقرض خواہ ہو تو اس وقت تک جنت میں نہیں جائے گا جب تک کہ قرض ادا نہ کیا جائے۔نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے رحم کو بھی بندوں کے بندوں پر رحم کےساتھ متعلق کیا اور اپنی طرف سے نفع کو بھی اس کے لئے مختص کیا جودنیا کے لئے باعثِ نفع ہو۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ

عَنْ ابْنِ عُمَرَ - رضي الله عنهما - قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ , أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إلى اللهِ؟ , وَأَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إلى اللهِ؟ فَقَالَ: " أَحَبُّ النَّاسِ إلى اللهِ , أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ يَكْشِفُ عَنْهُ كُرْبَةً، أَوْ يَقْضِي عَنْهُ دَيْنًا، أَوْ يَطْرُدُ عَنْهُ جُوعًا، وَلَأَنْ أَمْشِي مَعَ أَخٍ لِي فِي حَاجَةٍ , أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ - مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ - شَهْرًا "

ترجمہ: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کی، اے اللہ کے رسول ، اللہ کے ہاں محبوب ترین کون ہے؟ اور کون سے اعمال اللہ کو زیادہ پسند ہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہے، مشکل دور کرتاہے ، قرض ادا کردیتاہے، بھوک مٹاتاہے۔ اور کسی شخص کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلنا، مجھے مسجد نبوی میں ایک ماہ کے اعتکاف سے بھی زیادہ پسند ہے۔[126]   

دوسری حدیث میں فرمایا کہ

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من لا يرحم الناس لا يرحمه الله "

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو شخص لوگوں پر مہربانی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس پر مہربانی نہیں کرے گا۔[127]   

نیز مومن کی حرمتِ جان مال و عزت و آبرو کے جتنے تقاضے ملحوظِ خاطر رکھے جا سکتے تھے ان سب کو اللہ تعالیٰ نے شرعِ متین میں رکھ دیا اور جو قرآنِ پاک میں وارد نہ ہوا اس کو بزبانِ نبی ﷺ بیان کر دیا۔اسی طرح آپﷺ نےبھی ماں باپ،بچوں ،بہن بھائیوں ،رشتہ داروں،پڑوسیوں ،غلاموں،اساتذہ،چھوٹوں اور بڑوں کے حقوق و آداب مفصل ذکر کر دیئے تاکہکسی کے لئے کوئی حرج باقی نہ رہ سکے۔

خودکشی کا حکم:

انسان کی حیات و موت کا خالق ہے۔اللہ تعالیٰ نے موتِ انسانی کو طبعی و دیگر اسباب سے معلق فرما کر ایک مقرر وقت پر رکھ دیا ہے۔یہ موت و حیات میں بسبب دعا طول و اختصار بھی ممکن ہے کیونکہ یہ تقدیرِ معلق ہے۔دعا اور اعمالِ خیر طولِ عمر کا باعث ہے اور بدبختی کی وجہ سے عذاب متوقع ہوتا ہے جس سے موت جلد واقع ہو جاتی ہے اور بعض اوقات اس کے برعکس ہوتا ہےیعنی سرکشی میں ڈھیل دے دی جاتی ہے۔بہرحال یہ شان صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ جب چاہے موت دے اور زندہ کرے۔وہ کسی قاعدے کلیے کا محتاج نہیں ہے۔یہ سب کچھ ہماری  تفھیم کےواسطے ہےورنہ ہم عقول کومتحیرہ انداز میں لئے گھتم گھتا ہو رہے ہوتے۔اللہ تعالیٰ نے سب قاعدے بیان کر دیئےہیں کہ دنیا میں اطاعت و بندگی پر رہو گے تو  عزت و جان کی امان پاؤ گےمگر اگر فساد پھیلاتے پائے گئے تو جان مباح قرار دی جاتی ہے کیونکہ ایسی جان دوسرے کے لئےضرر کا باعث ہوتی ہے۔نیز خودکشی اکثر وبیشتر مواقع میں ناامیدی اور مایوسی کی وجہ سے کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ نےمایوسی کو کفار کاشیوہ قرار دیا نیز اس سے منع فرمایا۔ارشاد ہوا

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ

ترجمہ: تم فرماؤ :اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ،بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔[128]   

دوسری آیت میں فرمایا کہ

لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ

ترجمہ: اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہوبےشک اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتے مگر کافر لوگ۔(سورۃ یوسف،آیت ۸۷)

اللہ اکبر اندازہ کریں کہ کس طرح سے اللہ رب العزت نے مایوسی کو کفر قرار دیا کیونکہ تمام امیدوں کا مرجع وہی ذات ہےاور اگر وہیں سے مایوس ہوئے تو کسی در سے کچھ نہیں مل سکتا۔خودکشی کا دوسرا سبب تمام خواہشات و مقاصد کا پورا ہوجانا ہے۔اکثر و بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں دیکھا جاتا ہے کہ خودکشی کی شرح کافی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ان کے اپنے تہہ کردہ تعیش سے متعلقہ دیگر مقاصد زرائع ہونے کی وجہ سے پورے ہو جاتے ہیں بعد ازاں زندگی ان کے لئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتی اور وہ اس سےاکتانے اور بیزار ہونے لگتے ہیں۔یہ حال جاپان میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں زندگی کا معیار اسی نہج پر ہے۔مگر اسلام اس مسئلہ کا بھی حل دیتا ہے ۔وہ یہ کہ اسلام بلند مقصدعطا کرتا ہے جس کی تکمیل میں لطف بھی ہے اور ابدی ذوق بھی اور جس پر ثابت قدمی اور استقامت کا مظہرہ کرنے سے عارضی زندگی بآسانی کٹ جاتی ہے۔نیز اس سے زندگی میں حسن کی رعنائیاں جنم لیتی ہیں اور اس عظیم مقصد میں اپنے لئے جینے سے زیادہ دوسروں کے لئے جینے کو ترجیح دی جاتی ہے جس سےحیات کا مقصد علو پاتا ہے۔خودکشی کی حرمت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا

وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡـفُسَكُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمۡ رَحِيۡمًا

ترجمہ: اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ‘ بیشک اللہ تم پر رحم فرمانے والا ہے۔ [129]   

اپنے آپ کو قتل کرنے کی ممانعت کے تین محمل :

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو بیشک اللہ تم پر بہت رحم فرمانے والا ہے۔[130]   

اس آیت کے تین معنی ہیں ایک معنی یہ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو قتل نہ کریں کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں[131]    اس لئے اگر ایک مسلمان نے دوسرے مسلمان کو قتل کیا تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے اپنے آپ کو قتل کیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کرو جس کے نتیجہ میں تم ہلاک ہوجاؤ اس کی مثال یہ حدیث ہے : امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عمرو بن العاص (رض) ایک سرد رات میں جنبی ہوگئے تو انہوں نے تیمم کیا اور یہ آیت پڑھی ” ولا تقتلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیما “۔ تم اپنے نفسوں کو قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر بےحد رحم فرمانے والا ہے “ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے (ان کو) ملامت نہیں کی۔ [132]    ۔اس آیت کا تیسرا معنی یہ ہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے خود کشی کرنے سے منع فرمایا ہے اور اسی آیت کی بناء پر خود کشی کرنا حرام ہے۔

خود کشی کرنے والے کے عذاب کا بیان :

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص ہتھیار سے خود کشی کرے گا تو دوزخ میں وہ ہتھیار اس شخص کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ شخص جہنم میں اس ہتھیار سے ہمیشہ خود کو زخمی کرتا رہے گا ‘ اور جو شخص زہر سے خود کشی کرے گا وہ جہنم میں ہمیشہ زہر کھاتا رہے گا اور جو شخص پہاڑ سے گر کر خود کشی کرے گا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ گرتا رہے گا۔ [133]    ۔اس حدیث پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ خود کشی کرنا گناہ کبیرہ ہے اور گناہ کبیرہ کفر نہیں ہے اور اس کے ارتکاب سے انسان دائمی عذاب کا مستحق نہیں ہوتا پھر خود کشی کرنے والا دائمی عذاب میں کیوں مبتلا ہوگا ؟ اس اعتراض کے دو جواب ہیں۔ اول : یہ کہ یہ حدیث اس شخص کے متعلق ہے جس کو خود کشی کے حرام ہونے کا علم تھا اس کے باوجود اس نے حلال اور جائز سمجھ کر خود کشی کی ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں خلود کا استحقاق بیان کیا گیا ہے اور یہ جائز ہے کہ مستحق خلود ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے یا پھر خلود مکث طویل کے معنی میں ہے۔ نیز خودکشی کا مرتکب شخص جنت سے ابدی محروم ہو جاتا ہے۔جیسا کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا

کَانَ فِيْمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ رَجُلٌ بِهِ جُرْحٌ، فَجَزِعَ فَأَخَذَ سِکِّيْنًا، فَحَزَّ بِهَا يَدَهُ فَمَا رَقَأَ الدَّمُ حَتَّی مَاتَ. قَالَ اللهُ تَعَالَی: بَادَرَنِي عَبْدِي بِنَفْسِهِ حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.

ترجمہ: تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی زخمی ہو گیا۔ اس نے بے قرار ہوکر چھری لی اور اپنا زخمی ہاتھ کاٹ ڈالا۔ جس سے اس کا اتنا خون بہا کہ وہ مرگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے خود فیصلہ کر کے میرے حکم پر سبقت کی ہے، لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔ [134]    

خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھنے کا شرعی حکم :

علامہ علاء الدین محمد بن علی بن محمد حصکفی حنفی متوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں : جس نے خود کو قتل کرلیا خواہ عمدا اس کو غسل دیا جائے گا اور اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اسی پر فتوی ہے اگرچہ دوسرے مسلمان کو قتل کرنے کی بہ نسبت یہ زیادہ بڑا گناہ ہے ‘ امام ابن ہمام نے امام ابویوسف کے قول کو ترجیح دی ہے، کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے خود کشی کی تھی آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ [135]    ۔خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے۔ اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔ قرآن و حدیث کے دلائل پر بحث سے قبل آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اسے اتنا بڑا جرم کیوں قرار دیا۔درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور کسبی نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا کردہ امانت ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کریں۔ اسلام نے ان اسباب اور موانعات کے تدارک پر مبنی تعلیمات بھی اسی لیے دی ہیں تاکہ انسانی زندگی پوری حفاظت و توانائی کے ساتھ کارخانہِ قدرت کے لیے کار آمد رہے۔ یہی وجہ ہے اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔ اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگزاجازت نہیں دیتا۔

اقلیتوں کے حقوق:

مسلم ریاست میں نسبتاً قلیل تعداد میں موجود دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو اقلیتیں کہتے ہیں۔ اقلیتوں کو کسی بھی مسلم ریاست میں شہری ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلام ایک کامل دین ہے اور ریاست میں موجود اقلیتوں کے حوالے سے واضح قواعد و ضوابط رکھتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اقلیتوں (ذمیوں) اور دیگر غیر مسلم مذاہب کے لیے مناسب اور موثر حقوق کا تعین کیا گیا ہے۔ کسی بھی مسلم ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے لیے شریعت کی اصطلاح میں ذمی کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا لغوی معنی ’’صاحب‘‘، ’’عزت دار مالک‘‘ کے ہیں۔اسلام میں جس طرح سے مومن کی جان کی حرمت بیان ہوئی ہے اسی ضمن میں مومن کی امان میں یا ماتحت امن سے رہنے والے ذمی کافر کو بھی مکمل تحفظ و حقوق حاصل ہیں اگر وہ صاغرین بن کر رہیں اور جزیہ ادا کرتے رہیں،ان سے یہ سلوک  معاہدہ کی پابندی کے تحت آتا ہے اور حب اللہ جو کہ مقسطین سے متعلق ہے اسی تناظر میں ہے۔ان ذمیوں کے حقوق بطور معاہدین اور ذمیین قرآن میں بھی مندرج ہیں اور ہمارے آقائے دوجہاں ﷺ نے اپنے قول و فعل سے بھی ان کے حقوق بتلائے۔انسانی حقوق کا عالمگیر چارٹر آپﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع ہیں جس میں آپ ﷺ نے تمام انسانیت کے حقوق و فرائض بیان کردیئے۔اسلام شرف انسانیت کا علمبردار دین ہے۔ ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرفِ انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقات معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کر کے فراہم کی گئی، فرمایا گیا :

لَآ اِکْرَاهَ فِيْ الدِّيْنِ

ترجمہ: ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘[136]    

اسلامی معاشرے میں مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں سے نیکی، انصاف اور حسن سلوک پر مبنی رویہ اختیار کریں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔

لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ

ترجمہ: اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ [137]    

اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتا ہے :

ألاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أو انْتَقَصَهُ أوْ کَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أوْ أخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيْبِ نَفْسٍ فَأنَا حَجِيْجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ: خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو روزِ قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔[138]    

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بیرونی علاقوں سے آنے والے غیر مسلم وفود کی میزبانی فرماتے۔ جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور فرمایا :

اِنَّهُمْ کَانُوْا لأصحاب مکرمين، فإنی أحب أن أکافئهم

ترجمہ: یہ لوگ ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے میں نے پسند کیا کہ میں خود ان کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کروں۔ [139]    

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا : أنا أحق من وفی بالذمة۔غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔[140]    ۔ اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی عطا کی گئی تعلیمات اور دور نبوت و دور خلافت راشدہ میں اقلیتوں کے حقوق کے احترام و تحفظ کے ان روشن نظائر سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مسلم ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کو وہ حقوق اور تحفظ حاصل ہے جن کا تصور بھی کسی دوسرے معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا۔اسلامی ریاست میں جملہ غیر مذاہب کے پیروکاروں کو کھلے عام اپنی عبادت گاہوں میں مذہبی آزادی کے ساتھ اپنی عبادت کی اجازت ہے بلکہ اسلامی ریاست کے قانونی تقاضے ہیں کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے۔اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو قانونی لحاظ سے اہلِ اسلام کے ساتھ مساوات اور برابری حاصل ہے۔ بیہقی کی روایت کے مطابق دور نبوی ﷺ میں ایک مسلمان نے اہلِ کتاب کے فرد کو قتل کیا تو سید عالم ﷺ نے قصاص میں اس مسلمان کے قتل کا حکم صادر فرمایا اور بدلے میں قتل کی سزا دی گئی۔اسلامی ریاست کی باقاعدہ بنیاد میثاق مدینہ کے تحت قیام پذیر ہوئی جو کلیتاً قرآنی نظریات اور اسلامی اصولوں کے تابع مرتب شدہ قواعد و ضوابط کا مجموعہ ہے اور اسلامی ریاست میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی اجازت نہ ہوگی۔ قانون کے نفاذ میں کسی سفارش یا منصب کو رکاوٹ نہیں بننے دیا۔اسلامی ریاست میں ہر شہری کی جان کے تحفظ کو ممکن بنایا گیا خواہ شہری مسلم ہو یا کسی دیگر مذہب کا ذمی ہو۔مسلم اور غیر مسلم کو قتل کرنا سنگین جرم قرار دیا گیا۔غیر مسلم کے خون کی حرمت کو بھی تسلیم کیا اور غیر مسلم کے قتلِ ناحق کو جرم قرار دیا۔اسلامی ریاست میں غیر مسلم کی جائیداد اور ملکیت کو تحفظ فراہم کیا۔اسلامی ریاست میں تعزیرات میں ذمی اور مسلمان کا درجہ مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی وہی ذمی کو بھی دی جائے گی۔ ذمی کا مال مسلمان چرائے یا مسلمان کا مال ذمی چرائے دونوں صورتوں میں سزا یکساں ہوگی۔[141]    ۔ دیوانی قانون میں بھی ذمی اور مسلمان کے درمیان کامل مساوات ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد اموالھم کاموالنا (1) کے معنی ہی یہ ہیں کہ ان کے مال کی ویسی ہی حفاظت ہونی چاہیے جیسی مسلمانوں کے مال کی ہوتی ہے۔ اس باب میں ذمیوں کے حقوق کا اتنا لحاظ رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا ان کے خنزیر کو بھی تلف کر دے تو اس پر ضمان لازم آئے گا۔ در المختار میں ہے:

يضمن المسلم قيمة خمره و خنزيره اذا اتلفه

ترجمہ: مسلمان اس کی شراب اور اس کے سور کی قیمت ادا کرے گا اگر وہ اسے تلف کر دے۔[142]  

اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی نجی زندگی اور شخصی رازداری کا حق اسی طرح حاصل ہے جس طرح مسلمانوں کو؛ اس لیے کہ اسلامی قانون نے ان کے لیے یہ اُصول طے کیا ہے کہ جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ ان کو بھی حاصل ہوں گے اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر ڈالی گئی ہیں وہ ان پر بھی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بقول ان سے جزیہ اس لیے لیا جاتا ہے تاکہ ان کے جان و مال کی اسی طرح حفاظت کی جاسکے جس طرح ہمارے جان و مال کی حفاظت ہوتی ہے۔

غیر مسلموں کے قتلِ عام اور ایذارسانی کی ممانعت:

قرآن و حدیث سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اِسلام دینِ اَمن ہے اور یہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو - خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور رنگ و نسل سے ہو - جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت عطا کرتا ہے حتیٰ کہ ایک اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر بالعموم اور اسلامی ریاست پر بالخصوص فرض ہے.

اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں. اُن حقوق میں سے پہلا حق جو اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ کی طرف سے انہیں حاصل ہے وہ حقِ حفاظت ہے، جو انہیں ہر قسم کے خارجی اور داخلی ظلم و زیادتی کے خلاف میسر ہوگا تاکہ وہ مکمل طور پر امن و سکون کی زندگی بسر کر سکیں.حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر پوری نسل انسانی کو عزت، جان اور مال کا تحفظ فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إِنَّ دِمَاءَ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هَذَا، فِی شَهْرِکُمْ هَذَا، فِی بَلَدِکُمْ هَذَا، إِلَی يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ.

ترجمہ:’’بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں (مقرر کی گئی) ہے. یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے.‘‘ ۔ [143]  

لہٰذا کسی بھی اِنسان اور کسی بھی مذہب کے پیروکار کو ناحق قتل کرنا، اُس کا مال لوٹنا، اس کی عزت پر حملہ کرنا یا اس کی تذلیل کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ اس کے مرتکب شخص کو الم ناک سزا کی وعید سنائی گئی ہے. ذیل میں ہم قرآن و حدیث سے متعدد دلائل و براہین پیش کریں گے جس سے یہ حقیقت عیاں ہوجائے گی کہ اسلام نے کس طرح غیر مسلم شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی تلقین کی ہے.اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم شہری کو قتل کرنا حرام ہے. کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو قتل کرے. قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا.

ترجمہ:’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا.‘‘ [144]  

اس آیہ کریمہ میں نَفْسًا کا لفظ عام ہے، لہٰذا اس کا اطلاق بھی عموم پر ہوگا. یعنی کسی ایک انسانی جان کا قتلِ ناحق - خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، کوئی بھی زبان بولتا ہو اور دنیا کے کسی بھی ملک یا علاقے کا رہنے والا ہو - قطعاً حرام ہے اور اس کا گناہ اتنا ہی ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کرنے کا ہے. لہٰذا مسلم ریاست میں آباد غیر مسلم شہریوں کا قتل بھی اسی زمرے میں آئے گا. اس کی تصریح آگے آنے والی احادیث سے بھی ہوتی ہے.حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ کُنْهِهِ، حَرَّمَ اﷲُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.

ترجمہ:’’جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (معاہد)(2) کو ناحق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر جنت حرام فرما دے گا.‘‘ [145]  

حدیث میں معاہد کا لفظ استعمال کیا گیا جس سے مراد ایسے شہری ہیں جو معاہدے کے تحت اِسلامی ریاست کے باسی ہوں، یا ایسے گروہ اور قوم کے افراد ہیں جنہوں نے اسلامی ریاست کے ساتھ معاہدئہ امن کیا ہو۔ اسی طرح جدید دور میں کسی بھی مسلم ریاست کے شہری - جو اُس ریاست کے قانون کی پابندی کرتے ہوں اور آئین کو مانتے ہوں - مُعاہد کے زمرے میں آئیں گے۔ جیسے پاکستان کی غیر مسلم اقلیتیں جو آئین پاکستان کے تحت باقاعدہ شہری اور رجسٹرڈ ووٹر ہیں، پاکستان کے آئین و قانون کو پاکستان کی مسلم اکثریت کی طرح تسلیم کرتے ہیں یہ سب معاہد ہیں۔ پاکستان میں موجود دیگر غیر مسلم اقلیتیں تو مسلمان شہریوں کی طرح تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے وقت سے ہی اس مملکت کے شہری تھے اور ہیں۔ اس لیے جدید تناظر میں معاہد کا ترجمہ ہم نے غیر مسلم شہری کیا ہے۔(فیض المناوی،جلد ۴صفحہ۱۵۳)۔اسلام قومی اور بین الاقوامی معاملات میں امن و رواداری کا درس دیتا ہے. قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق بدترین دشمن قوم کا سفارت کار بھی اگر سفارت کاری کے لیے آئے تو اس کا قتل حرام ہے. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کئی مواقع پر غیر مسلموں کے نمائندے آئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ہمیشہ خود بھی حسنِ سلوک فرمایا اور صحابہ کرام ث کو بھی یہی تعلیم دی. حتیٰ کہ نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب کے نمائندے آئے جنہوں نے صریحاً اعترافِ اِرتداد کیا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے سفارت کار ہونے کے باعث ان سے حسنِ سلوک سے پیش آئے.

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

إِنِّي کُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم جَالِساً إِذْ دَخَلَ هَذَا (عَبْدُ اﷲِ بْنُ نُوَاحَةَ) وَرَجُلٌ وَافِدَيْنِ مِنْ عِنْدِ مُسَيْلَمَةَ. فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَتَشْهَدَانِ اَنِّي رَسُولُ اﷲِ؟ فَقَالاَ لَهُ: نَشْهَدُ أَنَّ مُسَيْلَمَةَ رَسُولُ اﷲِ، فَقَالَ: آمَنْتُ بِاﷲِ وَرُسُلِهِ، لَوْ کُنْتُ قَاتِلاً وَافِداً لَقَتَلْتُکُمَا

ترجمہ: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب یہ شخص (عبد اللہ بن نواحہ) اور ایک اور آدمی مسیلمہ (کذاب) کی طرف سے سفارت کار بن کر آئے تو انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ انہوں نے (اپنے کفر و ارتداد پر اصرار کرتے ہوئے) کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے (معاذ اﷲ). حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (کمال برداشت اور تحمل کی مثال قائم فرماتے ہوئے ارشاد) فرمایا: میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں. اگر میں سفارت کاروں کو قتل کرنے والا ہوتا تو تم دونوں کو قتل کر دیتا (مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا نہ کیا اور انہیں جان کی سلامتی دی۔[146] ۔ غور کیجئے کہ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کے اعلانیہ کفر و ارتداد کے باوجود تحمل سے کام لیا گیا، کسی قسم کی سزا نہیں دی گئی، نہ ہی انہیں قید کیا گیا اور نہ ہی انہیں قتل کرنے کا حکم فرمایا گیا. صرف اس لیے کہ وہ سفارت کار تھے۔ گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس جملے نے سفارت کاروں کے احترام کا بین الاقوامی قانون وضع فرما دیا. اس حکم سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ تمام عملہ جو کسی میں سفارت کاری پر تعینات ہو اِسی حسن سلوک کا حق دار ہے اور اس کا قتل بھی از روئے حدیث حرام ہے. گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں غیر ملکی سفارت کاروں اور انجینئرز کے اغوا اور قتل کے متعدد واقعات رُونما ہو چکے ہیں جن کی ذمہ داری دہشت گرد قبول کرتے رہے ہیں. کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تعلیمات سے صریحاً انحراف برتنے کے باوجود خود کو ’’مجاہدینِ اسلام‘‘ سمجھتے ہیں!۔

غیر مسلموں کا مال لوٹنے کی ممانعت:

اسلام نے دوسروں کا مال لوٹنا بھی حرام قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

ترجمہ: اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالاں کہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے[147]

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی دوسروں کے مال کو لوٹنا حرام قرار دیا ہے.

إِنَّ دِمَاءَ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ.

ترجمہ:’’بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں.‘‘[148]

غیر مسلم شہریوں کی جانوں کی طرح ان کے اموال کی حفاطت بھی اسلامی ریاست پر لازم ہے. ہر دور میں جمیع مسلمانوں کا اس پر اجماع رہا ہے۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے کہ ان کے اموال کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی مسلمانوں کے اموال کی حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا خنزیر کو تلف کر دے تو اس پر بھی جرمانہ لازم آئے گا.

فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’الدر المختار‘‘ میں ہے:

وَيَضْمَنُ الْمُسْلِمُ قِيْمَةَ خَمْرِهِ وَخِنْزِيْرِهِ إِذَا أَتْلَفَهُ

ترجمہ: غیر مسلم شہری کی شراب اور اس کے خنزیر کو تلف کرنے کی صورت میں مسلمان اس کی قیمت بطور تاوان ادا کرے گا۔۔ [149]

غیر مسلم شہری کا مال چرانے والے پر بھی اسلامی حد کا نفاذ ہوگا۔اسلام نے مال کی چوری کو حرام قرار دیا ہے اور اس پر نہایت سخت سزا مقرر کی ہے. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قریش کی ایک مخزومی عورت نے چوری کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم فرمایا. لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی سفارش کرنا چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اُس پر بھی حد جاری کی جاتی۔[150] ۔ مال کے حکمِ حفاظت میں بھی مسلم اور غیر مسلم شہری برابر ہیں. اگر کسی مسلمان نے غیر مسلم شہری کا مال چوری کیا تو اس پر حد نافذ ہوگی اور اگر کسی نے غیر مسلم شہری کا مال غصب کیا تو اس پر تعزیر نافذ ہوگی. اسلام میں غیر مسلم شہریوں کے اَموال کی حفاظت کا اس قدر لحاظ رکھا گیا ہے کہ غیر مسلم شہریوں کی ہر اس چیز کی حفاظت کی جائے گی جسے وہ مال میں شمار کرتے ہوں اگرچہ مسلمانوں کے نزدیک وہ مال کے زمرے میں نہ آتی ہو. جیسا کہ شراب اور خنزیر مسلمانوں کے لیے قابلِ حیثیت مال نہیں. لہٰذا اگر کوئی شخص مسلمان کی شراب ضائع کر دے تو اس پر کوئی سزا اور تعزیر نہیں ہے. اس کے برعکس اگر کسی مسلمان نے غیر مسلم کی شراب اور خنزیر کو نقصان پہنچایا تو اس سے ان کی قیمت تاوان کے طور پر لی جائے گی کیونکہ یہ دونوں چیزیں اس غیر مسلم کے نزدیک مال متصور ہوتی ہیں۔

غیر مسلم شہریوں کی تذلیل کی ممانعت:

اسلام میں جیسے مسلمان کی عزت و آبرو کی حرمت کو پامال کرنا حرام ہے ویسے ہی غیر مسلم شہری کی عزت کو پامال کرنا بھی جائز نہیں ہے. کسی مسلمان کو اجازت نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو گالی گلوچ کرے، اس پر تہمت لگائے، اس کی طرف جھوٹی بات منسوب کرے یا اس کی غیبت کرے. اسلام کسی مسلمان کو اس امر کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کے ایسے عیب کا تذکرہ کرے جس کا تعلق اس کی ذات، اس کے حسب و نسب یا اس کے جسمانی و اخلاقی عیب سے ہو.ایک دفعہ گورنرِ مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی. خلیفہ وقت امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت کی گئی تو اُنہوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی وہ تاریخی جملہ ادا فرمایا جو بعض محققین کے نزدیک انقلابِ فرانس کی جد و جہد میں روحِ رواں بنا. آپ نے گورنر مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے فرمایا:

مَتَی اسْتَعْبَدْتُمُ النَّاسَ وَقَدْ وَلَدَتْهُمْ أُمَّهَاتُهُمْ أَحْرَارًا؟

ترجمہ: تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا؟۔ [151]

غیر مسلم شہری کو زبان یا ہاتھ پاؤں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز اور حرام ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز اور حرام ہے. ’’الدر المختار‘‘ میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ:

وَيَجِبُ کَفُّ الْاَذَی عَنْهُ وَتَحْرُمُ غِيبَتُهُ کَالْمُسْلِمِ.

’’غیر مسلم کو اذیت سے محفوظ رکھنا واجب ہے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی غیبت کرنا.‘‘  ۔[152]

 

خاتمہ:

            اسلام اپنے پیروکاروں کی زندگی کو صرف عبادات مثلاًنماز، روزہ ، حج ،زکوٰة،جہاد،اور دعوت و تبلیغ تک محدود نہیں رکھتا؛ بلکہ یہ ہمیں اُس راستے پر گامزن ہونے کی ہدایت دیتا ہے جس پر انسانیت کے سب سے عظیم محسن حضرت محمد… تھے ؛ جن کی مبارک زندگی ساری انسانیت کے لیے نمونہ اور اسوہ ہے۔نبی کریم … کی حیات طیبہ کا روشن اور مثالی پہلویہی ہے کہ آپ نے صرف نماز و روزے کی تلقین نہیں کی ؛بل کہ حقوق انسانی کا جامع تصور پیش کیا،اس حوالے سے امت کو پیغام دینے کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں خود بھی کام کیا اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔

            اسلام میں نیکی کا جو جامع تصور پیش کیا گیا ہے ؛ اس میں خدمت خلق ، حقوق انسانیت ،رہن سہن اور معاشرت بھی ایک لازمی حصہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں؛ بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے ، اللہ کی محبت میں اپنامال قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والے(حقیقی ضرورت مندوں)، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوة دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی ہیں۔[153]

            پرسکون اور اطمینان بخش زندگی گزارنے کے لیے اسلام نے انسانوں کے جذبات و احساسات کی قدردانی اور باہمی احترام و رواداری کو قائم کرنے کی قدم قدم پر تاکید کی ہے،نیز ہر ایسے عمل سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے ،جس سے انسانی جذبات مجروح ہوتے ہوں اور انسانوں کومعمولی اذیت پہنچتی ہو۔ دین اسلام میں انسانیت کو کتنا بڑا مقام دیا گیا ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں پر تمام انسانوں کے حقوق متعین کیے ہیں، والدین کے حقوق، اولاد کے حقو ق، میاں بیوی کے حقوق، یتیموں کے حقوق، غیر مسلموں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، مہمانوں کے حقوق، مسافروں کے حقوق․․․․․․․ غرض سبھی کے جملہ حقوق کا تعین کیا ہے اور ان کو پورا کرنے کی وصیت کی ہے۔

            اگر انسان آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کرے تودنیا میں فساد ضرور برپا ہوگا، مثلاً بادشاہ اور حاکم اپنے حقوق ادا نہ کریں تو رعایا کی زندگی تکالیف ومشکلات کا شکار ہوجائے گی۔ شوہر بیوی کے حقوق ادا نہ کرے تو بیوی کی زندگی دنیا ہی میں جہنم بن جائے گی، بیوی شوہر کے حقوق ادا نہ کرے تو شوہر کی زندگی کا سکون غارت ہوجائے گا، پڑوسی ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کریں تومحبت و امن کی فضا مکدر ہوجائے گی۔اسی طرح مسلم غیر مسلموں کے حقوق ادا نہ کریں تو دنیا تعصب و عناد اور فتنہ وفساد کے جنگل میں تبدیل ہوجائے گی، امیر لوگ غریبوں کے حقوق ادا نہ کریں تو غریبوں کی زندگی فاقہ کشی کا شکار ہوجائے گی، بالکل اسی طرح ماں باپ اولاد کے حقوق ادا نہ کریں تو اولاد نافرمان، باغی، دین سے دور اور والدین کے لیے مصیبت و وبال بن جائے گی اور اولاد ماں باپ کے حقوق ادا نہ کرے تو ماں باپ کو بڑھاپے میں سہارا اور سکون نہیں ملے گا؛غرضے کہ دنیا میں فساد ہی فساد برپا ہوجائے گااور امن قائم نہ رہ سکے گا، پس امن کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے کے وہ تمام حقوق جو اللہ تعالیٰ نے لازم کیے ہیں ادا کرتے رہیں۔یہی اسلام کی اولین تعلیم اور نبی پاک… کامقصدِ بعثت ہے،حالی #مرحوم نے اس حوالے سے کیا ہی خوب کہا ہے۔ 

            دوسری عالمی جنگ کی بدترین تباہ کاریوں اور اس میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے پیش نظرلیگ آف نیشن کو ختم کرکے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے چارٹر میں انسانی حقوق کی حفاظت کی شق پہلے ہی سے شامل تھی؛ تاہم سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 1993ء کو آسٹریا کے شہر ویانا میں ہونے والے عالمی کانفرنس میں انسانی حقوق کے حوالے سے پروگرام آف ایکشن تیار کیا گیا جسے ویانا ڈکلیریشن اینڈ پروگرام آف ایکشن کا نام دیا گیا ، کانفرنس میں 171 ممالک اور آٹھ سو غیر سرکاری تنظیموں کے تقریباً سات ہزار مندوبین نے شرکت کی، اسی مناسبت سے ہرسال 10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

            اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور قرارداد کی رو سے دنیا بھر کے انسانوں کو ہر طرح کے حقوق جن میں جینے کا حق، امتیازسے پاک مساوات یا برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق جن میں روزگار، سماجی تحفظ، تعلیم، صحت، ترقی اور حق خودارادیت اور دیگر حقوق شامل ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد ، انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اوربہتر ین زندگی گزارنے کے لیے اچھے ماحول کو یقینی بنانا،نیز ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرناہے۔

      جب کبھی اسلامی ممالک میں کوئی معمولی ساواقعہ دانستہ یا نادانستہ رونما ہوجاتا ہے تو انسانی حقوق کے نام نہاد علم بردار اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دنیا سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ فلاں اسلامی ملک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی گئی،انسانی اقدار و روایات کی سرعام پامالی ہوئی اور فلاں عمل کے ذریعہ مذہبی تنگ نظری کا ثبوت پیش کیا گیا وغیرہ،بعدازاں اقوام متحدہ سمیت تمام یورپی ممالک کے ذریعہ اس اسلامی ملک پر دباو ڈالا جاتا ہے کہ فوری طور پرعملی کارروائی کی جائے اور فلاں فلاں مجرم یا جماعت کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے؛لیکن انہی امریکہ و یورپ کے ہاتھوں آئے روز انسانی حقوق کی جس طرح پامالی ہوتی ہے اس پر نہ تو اقوام متحدہ کے ناخداوٴوں کو اپنا فرض یاد آتا ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے ٹھیکے دار چیں بہ جبیں ہوتے ہیں۔سوچنے والی بات ہے کہ کیا انسانی حقوق کے علم برداروں کوبرما کے مظلوم مسلمانوں کا خون نظر نہیں آتا؟کیا فلسطین کے مسلمان ظلم وبربریت کی چکی میں پستے دکھائی نہیں دیتے؟کیا کشمیر کے مسلمان برسوں سے ستم زدہ نہیں ہیں؟وزیرستان میں بے گناہ اور معصوم لوگوں کا قتل عام انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کہلاتی؟اگر دنیا کی نظر میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی جانی والی یہ ہولی ظلم ہے تو پھر وہ کونسی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے علم بردار مہر بہ لب ہیں۔

      فی زماننامشرق ومغرب کے مابین جو تہذیبی جنگ چھڑی ہوئی ہے ، اس میں اہل مشرق کے غالب اورساکنان یورپ کے مغلوب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ ایک نے اسلام کی آفاقی وابدی ہدایات واحکام کو سینے سے لگائے رکھا ہے؛جب کہ دوسرے نے انسانیت کا جامہ اتارکر حیوانیت کا لبادہ اوڑھ لیاہے۔ مغربی تہذیب رشتوں کے تقدس کو کب کا خیر باد کہہ چکی ہے۔ وہاں انسانیت تو درکنار ماں باپ ،بہن بھائی، چچا ماموں،خالہ پھوپھی کا تصورتک عنقاہے۔مغرب اپنی خاندانی قدروں اور معاشرتی اکائیوں کو پامال کرنے کے بعد ،اب یہ چاہتاہے کہ پوری دنیا میں اس کی دجالی تہذیب کا ڈنکا بجے۔اس طاغوتی مقصد اورمشن کو پورا کرنے کے لیے قدیم وجدید ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا جارہاہے۔ نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ ہماری نئی نسل بڑی تیزی سے اس دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے ؛مگر اس حقیقت سے کوئی ہوش مندانکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے آج کے اسلامی معاشرے میں رشتوں کا ادب واحترام اورعظمت ومحبت بری طرح پامال ہورہی ہے۔ اولاد ماں باپ کی نافرمان بن چکی ہے۔ بہن بھائی باہمی حسد وبغض میں مبتلاہیں۔ رشتہ دار ایک دوسرے کوکاٹ کھانے کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سب کچھ احکام دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم ابھی اور اسی وقت یہ عزم وارادہ کرلیں کہ شریعت مطہرہ کے ہرہر حکم پر دل وجان سے عمل کریں گے ،اللہ رب العالمین کاڈر وخوف پیدا کرکے اس کے بتائے ہوئے احکام پر عمل پیراہوں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ذہنی اضطراب اورنفسیاتی ہیجان میں کمی واقع نہ ہواور ہم طاغوتی کھائی میں گرنے سے بچ جائیں، ضرورت ہے صرف پختہ نیت اورعزم و حوصلے کی۔

دنيا ميں ہر انسان كے حقوق بهى ہوتے ہيں اور واجبات بهى، وه ليتا ہے، لينا جانتا ہے اور اسى طرح دستورِ الہى اور انسانى  كو مدِّ نظر ركهتے ہوئے اس كو دينا بهى آنا چاہيے ،  ہم جانتے ہيں كہ اسلام صرف ايك مذہب نہيں بلكہ ايك مكمل ضابطہ حيات ہے۔ اسى لئے قرآن اور سنت نے انسان كے حقوق اور واجبات كو صاف  صاف واضح كيا ہے ، اور بلا شك ان حقوق وواجبات كو جاننے والا ہر شخص دنيا ميں آرام وراحت سے زندگى بسر كرنے كے قابل ہوگا. اسلام احترام انسانيت  اور انسانى حقوق كا علم بردار  ہے۔ اسلام کا فلسفہء انسانی حقوق دیگر مذاہب سے ممتاز ہے۔ حضرت محمد ؐنے انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو کے حوالے سے ایسی سنہری تعلیمات عطا کی ہیں جو زندگی میں حسن اور توازن پیدا کرنے کی ضمانت دیتی ہیں۔ اسلام میں انسانی حقوق کی بنیاد توحیدی فکر و سوچ پر استوار ہے۔ اسلام انسانی حقوق کو انسانی عزت و کرامت کا لازمہ سمجھتا ہے کیونکہ دینی نظریے کے مطابق انسان زمین ميں اللہ کا جانشین ہے اور اس لحاظ سے عزت و تکریم کا لائق ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر فرد بلاتفریق مذہب و ملت عزت و احترام اور آزادی کا مستحق ہے۔اسلام نے انسانى حقوق كى عطائيگى ميں ہر طرح كے جنسى، نسلى، اور طبقاتى امتيازات كى نفى كى ہے۔قرآن حكيم نے بنى نوع انسان كے مابين مساوات كى اصولى بنياد بيان كرتے ہوئے ارشاد فرمايا: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا" (لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔ اور خدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت بر آری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے) ۔[154]

                      اور ہر اس سبب كى بھى نفى كردى جو كسى طور پر بھى انسانى مساوات كى پامالى كا باعث  بن سكتى تھى، بلكہ وجہ شرف وفضيلت صرف  تقوى كو قرار ديا، ارشاد بارى  ہے: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ" (لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے) ۔ [155]

                       اسلام نے انسانى حقوق كے باب ميں ہر طرح كے امتيازات كى نفى كرتے ہوئے صرف دنياوى معاملات ميں  ہى مساوات كے اصول پر مبنى حقوق عطا نہيں كيے، بلكہ نيك اعمال كى بجا آورى پر آخرت كا اجر وثواب بھى اس اصول كے تحت قرار ديا ہے۔ارشاد ربانى ہے: "فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ۖ " (تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا) ۔[156]

             

فوائد و نتائج البحث:

      يہ بات صاف واضح  ہے كہ اسلام نے حقوق كى عطائيگى، احترام اور نفاذ كو ہر طرح كے جنسى ، نسلى، طبقاتى امتياز سے بالاتر قرار ديا، اور" ولقد كرمنا   بنى آدم" كے آفاقى ضابطے كے تحت احترام آدميت كو ہى اولين بنياد بنايا ہے جس كى مثال بھى دوسرى تہذيب يا قوم كے ہاں نہيں مل سكتى۔اسلام  زندگى ميں اعتدال كا درس ديتا ہے۔ اس نے  حقوق ِانسان   كا ايسا جامع تصور عطا كيا جس ميں  حقوق وفرائض ميں باہمى توازن پايا جاتا ہے۔آج ہر طرف انسانى حقوق كے موضوع  پر ہر شخص كى توجہ مركوز   ہے. ہميں يہ جاننا چاہيئے كہ انسانى حقوق  كے جس تصور  تك   آج كى اين جى اوز پہنچى ہے  اس سے كہيں زياده جامع اور واضح  تصور  حضور ؐنے آج سے چودہ سوسال قبل پیش کردیا تھا۔ خطبہٴ حجۃ الوداع میں آپ ؐنے بڑی تاکید کے ساتھ حقوق انسانی کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ خطبہٴ حجۃ الوداع كى خاصيت يہ  ہے كہ اس ميں حضور نبى اكرم ؐ نے محض مسلمانوں   كو نہيں بلكہ  پورى انسانيت  كو مخاطب كيا۔ نبى كريم ؐ نے خطبہٴ حجۃ الوداع ميں "مسلم" كا لفظ   استعمال   نہيں كىا۔بلكہ آپ ؐ نے  كئى بار "أيها الناس""اے لوگو!" كى اصطلاح استعمال  فرمائى ۔آپ ؐ كے عطا كرده انسانى حقوق كا عظيم تصور انسانى زندگى كے مختلف پہلوؤ كا اس احاطہ كرتا ہے:

 (1) انفرادى حقوق:

                    فرد معاشرے كى اكائى ہے۔جب تك  كسى بھى معاشرے ميں فرد كى حيثيت كا تعين اور اس كے حقوق كا تحفظ نہيں كيا جائے گا اس معاشرے ميں "من حيث المجموع" حقوق كے تحفظ كى ضمانت نہيں دى جا سكتى۔ اسلام  نے نہ صرف فرد كو باوقار مقام عطا كيا، بلكہ اسے  وه تمام حقوق بھى عطا كيے جو  اس كے ارتقا وبہبود كے ليے ضرورى ہيں۔

(2) سماجى حقوق:

                      اسلام نے  معاشرے كے مختلف افراد كومعاشرتى وسماجى حقوق  وفرائض كى تعليم  دے كر وه تمام مثبت بنياديں  فراہم كردى ہيں جو ايك متوازن ،معتدل اور انسانى حقوق كا احترام كرنے والے  معاشرے كے قيام كے ليے ضرورى ہيں۔

(3) سياسى حقوق:ايك مثالى سياسى نظام كاقيام سياسى حقوق وفرائض كے واضح تعين كے بغير ممكن نہيں،  اس ليے رسول اللہ ؐ نے اسلامى رياست كے تمام شہريوں كے حقوق كا واضح تعين فرمايا اور اس كى عملى توضيح وتشريح  ہجرت كے بعد پہلى اسلامى رياست قائم كر كے فرما دى۔

(4)اقتصادى  (معاشى) حقوق:رسول اللہ ؐ كے عطا كرده اقتصادى اور معاشى حقوق  معاشرے ميں مساويانہ معاشى نظام كے قيام كى ضمانت عطا كرتے ہيں۔ ان حقوق كى بنياد قرآن كا ديا ہوا وه انقلابى معاشى نقطہ نظر ہے جو اسلام كى معاشى تعليمات كو دنيا كے تمام ديگر معاشى نظاموں سے منفرد كرتا ہے۔خطبہٴ حجۃ الوداع ميں آپ ؐ نے انسانيت كى عظمت ، احترام اور حقوق پر مبنى ابدى تعليمات اور اصول بيان  كيے مگر سيرت نبوى ميں  حقوق انسانى سے متعلق يہ واحد دستاويز نہيں،آپ ؐ كى پورى زندگى انسانيت نوازى اور تكريم انسانيت كى  تعليمات سے عبارت ہے۔ الغرض رسول اللہ ؐ كے عطا كرده حقوق اللہ وحقوق العباد كے فلسفہ وحكمت سے يہ امر واضح ہے كہ يہى نظام، عدل، وانصاف كا حامل ہے جو معاشرے كو امن وآشتى كا گہواره  بناتے ہوئے ايك فلاحى مملكت كى حقيقى بنياد فراہم كرتا ہے۔در حقيقت رسول اللہ ؐكے نظام حقوق وفرائض، انسانى حقوق كا ايك بے مثال عالمى چارٹر ہے۔ اور جسے انسانى حقوق كى پہلى دستاويز يا منشور  ہونے كا شرف  بھى حاصل ہے۔بہرحال اسلام میں انسانی حقوق کو جو اہمیت حاصل ہے اس کی مثال کسی مذہب و ملت ‘ تہذیب و تمدن‘ اور نظام و دستور میں نہیں ملتی۔ اسلامی تاریخ ایسے حقائق و مشاہد سے بھری پڑی ہے۔

انہیں چشم روشن اور دل زندہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مصادر و مراجع

1.     القرآن الحکیم

2.      بخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔ 256ھ / 810۔ 870ء)۔ الصحیح۔ بیروت، لبنان + دمشق، شام : دار القلم، 1401ھ / 1981ء۔

3.     بزار، ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق بصری (210۔ 292ھ / 825۔ 905ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان : 1409ھ۔

4.      بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔ 458ھ / 994۔ 1066ء)۔ دلائل النبوہ۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ، 1405ھ / 1985ء۔

5.     جصاص، ابو بکر احمد بن علی رازی حنفی (305۔ 370ھ)۔ احکام القرآن۔ بیروت، لبنان : دار اِحیاء التراث العربی، 1405ھ۔

6.      حصکفی۔ الدر المختار۔ بیروت، لبنان : دار الفکر، 1386ھ۔

(1     ابو داؤد، سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد ازدی سبحستانی (202۔ 275ھ / 817۔ 889ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان : دار الفکر، 1414ھ / 1994ء۔

7.      دار قطنی، ابو الحسن علی بن عمر بن احمد بن مہدی بن مسعود بن نعمان (306۔ 385ھ / 918۔ 995ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان : دار المعرفہ، 1386ھ / 1966ء۔

8.     ابن رجب حنبلی، ابو الفرج عبد الرحمن بن احمد (736۔ 795ھ)۔ جامع العلوم و الحکم فی شرح خمسین حدیثا من جوامع الکلم۔ بیروت، لبنان : دارالمعرفہ، 1408ھ۔

9.      ابن رُشد، ابو ولید محمد بن احمد بن محمد قرطبی (م 595ھ)۔ بدایۃ المجتہد۔ قاہرہ، مصر : مکتبۃ الکلیات الازہریہ، 1974ء۔

10. سرخسی، شمس الدین ابو بکر محمد بن اسماعیل۔ المبسوط۔ بیروت، لبنان : دار المعرفہ للطباعہ و النشر، 1406ھ۔

11. شافعی، ابو عبد اللہ محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان قرشی (150۔ 204ھ / 767۔ 819ء)۔ اَلاُمّ۔ بیروت، لبنان : دار المعرفہ، 1393ھ۔

12. شامی، محمد بن محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین دمشقی (1244۔ 1306ھ)۔ رد المحتار علی الدرالمختار۔ کوئٹہ، پاکستان : مکتبہ ماجدیہ : 1399ھ۔

13. شوکانی، محمد بن علی بن محمد (1173۔ 1250ھ / 1760۔ 1834ء)۔ فتح القدیر۔ مصر : مطبع مصطفی البابی الحلبی و اولادہ، 1383ھ / 1964ء۔

14. ابن ابی شیبہ، ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم بن عثمان کوفی (159۔ 235ھ / 776۔ 849ء)۔ المصنف۔ ریاض، سعودی عرب : مکتبۃ الرشد، 1409ھ۔

15. طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر اللخمی(260۔ 360ھ / 873۔ 971ء)۔ المعجم الاوسط۔ ریاض، سعودی عرب : مکتبۃ المعارف، 1405ھ / 1985ء۔

16. طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر اللخمی(260۔ 360ھ / 873۔ 971ء)۔ المعجم الصغیر۔ بیروت، لبنان : دار الفکر، 1418ھ / 1997ء۔

17. طحاوی، ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامہ بن سلمہ بن عبد الملک بن سلمہ (229۔ 321ھ / 853۔ 933ء)۔ شرح معانی الآثار۔ بیروت، لبنان : دارالکتب العلمیہ، 1399ھ۔

18. ابن قدامہ، ابو محمد عبداﷲ بن احمد مقدسی (م620ھ)۔ المغنی فی فقہ الامام احمد بن حنبل الشیبانی۔ بیروت، لبنان : دارالفکر، 1405ھ۔

19. قرطبی، ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن محمد بن یحییٰ بن مفرج اُموی (284۔ 380ھ / 897۔ 990ء)۔ الجامع لاحکام القرآن۔ بیروت، لبنان : دار احیاء التراث العربی۔

20.  کاسانی، علاؤ الدین ابو بکر (م 587ھ)۔ بدائع الصنائع۔ بیروت، لبنان : دار الکتاب العربی، 1982ء۔

21. ابن ماجہ، ابو عبد اﷲ محمد بن یزید قزوینی (209۔ 273ھ / 824۔ 887ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان : دار الکتب العلمیہ، 1419ھ / 1998ء۔

22.  مسلم، ابو الحسین ابن الحجاج بن مسلم بن ورد قشیری نیشاپوری (206۔ 261ھ / 821۔ 875ء)۔ الصحیح۔ بیروت، لبنان : دار احیاء التراث العربی۔

23. ابو نعیم، احمد بن عبد اﷲ بن احمد بن اسحاق بن موسیٰ بن مہران اصبہانی (336۔ 430ھ / 948۔

24.  ہندی، علاء الدین علی متقی حسام الدین (م 975ھ)۔ کنز العمال۔ بیروت، لبنان : مؤسسۃ الرسالہ، 1399ھ / 1979ء۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مشرف کی تصدیق

تصدیق کی جاتی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے یہ کام اپنی لگن،محنت اور کاوش سے سرانجام دیا ہے۔

 

                                                                        دستخطِ مشرفارح آپﷺ نےبھی ماں باپ،بچوں ،بہن بھائیوں ،رشتہ داروں،پڑوسیوں ،غ



[1] (التین:۴۔۵)

[2] (الاسراء: ۷۰۔)

[3] (  البقرۃ :۳۰۔۳۶۔)

[4] (یونس:۱۴۔)

[5] (حدیث رقم ،۲۳۴۸۹)

[6] (سورۃ الحجرات آیت ۱۳)

[7] (المائدۃ:۳۲)

[8] (النساء:۲۹۔۳۰)

[9] (المائدۃ: ۴۵)

[10] (سورۃ بقرہ آیت۔177.178))

[11] (روح المعانی،ج۳،ص۵۳،مطبوعہ حیاء التراث العربی،بیروت)

[12] (صحیح مسلم،حدیث رقم ۴۰۹۳)

[13] (حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2 : 43، رقم : 2259)

[14] (الدر المنثور،ج۱،ص۳۶۷)

[15] (سورۃ الممتحنہ،آیت ۱۲)

[16] (سورۃ المائدہ،آیت ۳۸)

[17] (سورۃ الانعام۔آیت ۱۵۲)

[18] (سورۃ النساء،آیت ۵)

[19] (سورۃ الاسراء،آیت ۳۲)

[20] (سورۃ النور،آیت ۲)

[21] (تاج العروس ٦ ص ٢١٧، مصر)

[22] (سورۃ النور،آیت ۴)

[23] (سورۃ النور،آیت ۲۳)

[24] (صحیح البخاری رقمِ حدیث : ٢٧٦٦، صحیح مسلم رقمِ حدیث: ٨٩(

[25] سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٤٧٤

[26] (المغنی مع الشرح الکبیر ج ١٠ ص ١٩٤، دار الفکر بیروت، ، ١٤٠٤ ھ)

[27] (سورۃ الحجرات،آیت ۱۱)

[28] (سورۃ الحجرات،آیت ۱۲)

[29] ( بنی اسرائیل : ٣٣)

[30] (سورۃ بقرہ ،آیت ۲۵۸)

[31] (سورۃ مائدہ ۔آیت ۳۲)

[32] ۔(سورۃ النساء،آیت ۹۳)

[33] (مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الفتن، باب من کرہ الخروج فی الفتنۃ وتعوذ عنھا، ۸/۶۴۴، حدیث:۳۳۰)

[34] (شعب الإیمان، باب فی تحریم النفوس والجنایات علیہا، ۴/۳۴۴، حدیث:۵۳۴۱)

[35] (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٤٠٢‘ المستدرک ج ٤ ص ٣٥٢‘ کنزالعمال ‘ رقم الحدیث : ٣٩٩٥٤)

[36] (مسند احمد ج ١ رقم الحدیث : ٢١٤٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٤ ھ)

[37] (بخاری ، کتاب العلم ، باب وان طائفتان من المؤمنین … الخ ، ا/۲۳، حدیث:۳۱ ‘‘)

[38] (ملخص ازمراٰۃ المناجیح ، ۵/۲۶۵)

[39] (سورۃ النساء۔آیت۹۳)

[40] (سورۃ البقرہ،آیت ۱۷۸)

[41] (الھدایہ شرح بدایہ للمرغینانی،جلد ۴ ،صفحہ ۴۴۲)

[42] (الھدایہ شرح البدایہ،للمرغینانی،کتاب الجنایات،جلد ۴ صفحہ ۴۴۳)

[43] (الھدایہ شرح البدایہ،للمرغینانی،کتاب الجنایات،جلد ۴ صفحہ ۴۴۳)

[44] (سنن دار قطنی،جلد ۳ صفحہ۹۴،حدیث ۴۷)

[45] (ھدایہ البدایہ، کتاب شرح الجنایات، جلد4: صفحہ443)

[46] (سورۃ النساء،آیت ۹۲)

[47] (عالم گیری ج ٦ ص ٣)

[48] (الھدایہ شرح البدایہ،جلد ۴ صفحہ ۱۵۹)

[49] (الھدایہ شرح البدایہ،جلد ۴ صفحہ ۴۴۳)

[50] (الھدایہ شرح البدایہ،جلد ۴ صفحہ ۴۴۳)

[51] (صحیح مسلم،حدیث رقم ۴۳۷۵)

[52] (صحیح مسلم،۱۶۹۰)

[53] (مسند احمدبشرح احمد الزین :16؍34)

[54] (صحیح البخاری،حدیث رقم ۶۸۷۸)

[55] (سنن ابو داؤد،حدیث رقم ۴۳۵۳)

[56] ۔(سنن ابو داؤد،حدیث رقم ۴۴۳۰)

[57] (سنن نسائی ص:۱۶۹، ج:۲، مسند احمد ص:۳۲۳، ج:۱)

[58] (ابوداؤد ص:۲۴، ج:۲)

[59] (مجمع الزوائد، ص:۲۶۱، ج:۶)

[60] (مجمع الزوائد: ۲۶۳، ج:۶)

[61] (نسائی ص:۱۶۹، ج:۲)

[62] (ترمذی ابواب الحدود باب ما جاء فی المرتد، ص:۱۷۰، ج:۱)

[63] (دار قطنی، کتاب الزکوٰۃ، جلد 2، صفحہ 89)

[64] (مسند امام احمد، حدیث نمبر 3621)

[65] (صحیح مسلم، کتاب المارہ، جلد 2، صفحہ 128)

[66] (سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، جلد 2، صفحہ 257)

[67] (المائدہ : 32)

[68] (الحجرات : 9)

[69] (سنن ابی داؤد، کتاب الدیات، کتاب الفرائض، حدیث، 2523۔ سنن ابن ماجہ، کتاب الفرائض، حدیث 2720، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

[70] (جامع ترمذی کتاب الفتن، جلد 2، صفحہ 485)

[71] (سنن ابی داؤد، کتاب الحدیود باب الاما یامر بالعفول الدم، حدیث نمبر 3903، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، سنن ابن ماجہ۔ کتاب الحدیود باب لا عحلل دم امری مسلم الافی ثلاث۔ حدیث نمبر 2523، ایضا)

[72] (تاج العروس ‘ ج 3‘ ص 396)

[73] (الفقہ الاسلامی واداتہ ‘ ج 6 ص 129۔ 128)

[74] (مائدہ : 36)

[75] (مائدہ : 36)

[76] (المغنی مع الشرح الکبیر ‘ ج 10 ص 308۔ 307)

[77] (روضۃ الطالبین ‘ ج 10‘ ص 157۔ 156)۔

[78] (المقنع مع المغنی والشرح ‘ ج 0 ا ‘ ص 299)

[79] (سورۃ البقرہ،آیت ۱۷۸)

[80] (الجامع الاحکام القرآن ج ٢ ص ٢٤٦ المغنی ج ٨ ص ٢٤١ )

[81] (مصنف ابن ابی شیبہ ج ١ ص ٣٠٤)

[82] (سنن کبری ج ٨ ص ٣٤‘ مطبوعہ ملتان)

[83] (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٩ ص ٣٠٥)۔

[84] (انوار التنزیل ص ٣٧۔ ٣٦ مطبوعہ دارفراس للنشر والتوزیع ‘ بیروت)

[85] (صحیح بخاری ج ١ ص ٢١‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)۔

[86] (الاختیار ج ٤ ص ٢٧۔ ٢٦۔ مطبوعہ دارفراس للنشر والتوزیع ‘ مصر)

[87] (البقرہ : ١٧٨)

[88] (المائدہ : ٤٥)

[89] (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ١٠١٤ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

[90] (صحیح مسلم ج ٢ ص ٥٩‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

[91] (البقرہ : ١٧٩)

[92] (مجمع الزوائد ج ١ ص ٢٨٣‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

[93] (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٩ ص ٣٠٤)

[94] (معرفتہ السنن والآثار ج ٩٨ ص ١٥٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

[95] (مجمع الزوائد ج ٦ ص ‘ ٢٨٨ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

[96] (المصنف ج ٩ ص ٣٠٧۔ ٣٠٦ مطبوعہ ادارۃ القرآن ‘ کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ)

[97] (مراسیل ابوداؤد ص ١٢‘ مطبوعہ ولی محمد اینڈ سنز ‘ کراچی)

[98] (سنن کبری ج ٨ ص ٣٠‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)

[99] (سنن کبری ج ٨ ص ٣٣‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)

[100] (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ١٠١٨ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

[101] (سنن نسائی ج ٢ ص ٢٦٨ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

[102] (سنن نسائی ج ٢ ص ٢٤٤ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

[103] (مسند احمد ج ١ ص ‘ ٤١ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

[104] (صحیح بخاری ج ٢ ص ١٠١٦۔ ١٠١٥‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

[105] (سنن ابن ماجہ ص ‘ ١٩١ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

[106] (ہدایہ اخیرین ص ٥٦٣‘ مطبوعہ مکتبہ علمیہ ‘ ملتان)

[107] (صحیح مسلم ج ٢ ص ٨٢‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)۔

[108] (عالم گیری ج ٦ ص ٢٤ مطبوعہ مصر ‘ ١٣١٠ ھ)

[109] (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٣٩٢‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٤٥٠٦‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٢٦٢٦)۔

[110] (ہدایہ اخیرین ص ٥٨٥۔ ٥٨٤‘ مطبوعہ شرکت علمیہ ملتان)

[111] (سنن ترمذی ج ٣ ص ٩٥‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت)

[112] (بدایۃ المجتہد ج ٢ ص ٣٠٧)

[113] (سنن ترمذی ج ٣ ص ١٠٨۔ ١٠٧ مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١٤ ھ)

[114] (ہدایہ اخیرین ص ٥٨٥‘ مطبوعہ شرکت علمیہ ملتان)

[115] (کتاب الآثار ص ١٢٦‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ‘ ١٤٠٧ ھ)

[116] (الجامع الاحکام القرآن ج ٥ ص ٣٢٥)

[117] (النساء : ٩٢)۔

[118](سورۃ المنافقون،آیت ۸)

[119](سنن ابن ماجہ، حدیث رقم ۳۹۳۲)

[120](صحیح مسلم،حدیث رقم ۲۲۱)

[121](صحیح مسلم،حدیث رقم ۲۶۱۷)

[122](صحیح البخاری،حدیث رقم ۱۰)

[123](مسند احمد،حدیث رقم ۶۰۹۳)۔

[124](سنن الترمذی،حدیث رقم ۲۹۴۵)۔

[125](سورۃ النساء،آیت ۲۹)

[126](الترغیب والترھیب،حدیث رقم ۲۶۲۳)

[127](سنن الترمذی،حدیث رقم ۱۹۲۲)

[128](سورۃ الزمر،آیت ۵۳)

[129](سورۃ النساء،آیت ۲۹)

[130](النساء : ٢٩)

[131](صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٢٥٨٦)

[132](صحیح البخاری : کتاب التیمم باب ٧ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٣٤)

[133](صحیح مسلم : رقم الحدیث : ١٠٩)

[134](صحیح بخاری،حدیث رقم ۳۲۷۶)

[135](الدرالمختار ج ١ ص ٥٨٤‘ علی ہامش ردالمختار)

[136](سورۃ البقرہ،آیت ۲۵۶)

[137](سورۃ الممتحنہ،آیت ۸)

[138](سنن ابو داؤد،حدیث رقم ۳۰۵۲)

[139](شعب الایمان،حدیث رقم ۹۱۲۵)

[140](مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث رقم ۲۷۴۵)

[141](کتاب الخراج،صفحہ ۱۰۸)

[142](المغنی۹۔۲۸۹)

[143](صحیح البخاری،حدیث رقم ۱۴۵۴)

[144](سورۃ مائدہ،آیت ۳۲)

[145](المستدرک علی الصحیحین،حدیث رقم ۲۴۳۱)

[146](مسند احمد،حدیث رقم ۳۸۳۷)

[147](سورۃ البقرہ،آیت ۱۸۸)

[148](صحیح بخاری،حدیث رقم ۱۴۵۴)

[149](الدر المختار،جلد ۲ ،صفحہ ۲۳۲)

[150](صحیح البخاری،حدیث رقم ۳۲۸۸)

[151]( کنز العمال، 2: 455)

[152]( الدر المختار، 2: 223)

[153](البقرة 2:177)

[154][سورۂنساء:1]

[155][سورۂ حجرات:13]

[156][سورۂ آل عمران:195]

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post