The forgotten path of knowledge

ڈاکٹر فیصل احمد سرفراز

 ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز کی شائع کردہ “The forgotten path of knowledge”شاہ عبدالعلیم صدیقیؒ کے قلم سے رقم کی گئی ہے ۔ ابتداءً اس کتاب کو اردو زبان میں شائع کیا گیا بعد ازیں ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری نے اسے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔

اس کتاب میں علم کے مختلف ذرائع کے بارے میں ذکر کیاگیا ہے اور اس بات کو موضوع بحث بنایاگیا ہے کہ کبھی تو انسان دلائل و براہین سے کسی بات کو جانتا ہے اور کبھی اس کے بالکل برعکس فقط اپنے وجدان سے اشیاء کا ادراک کرتاہے۔ شاہ عبدالعلیم صدیقی اسی ضمن میں ایک انتہائی دلچسپ امر کا ذکر کرتے ہیں کہ شعور کی صفت فقط انسان میں ہی نہیں بلکہ کسی حد تک یہ صفت شعور جانوروں ، پودوں اور یہاں تک کہ پتھروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ جیسے مچھلی کے بچے کا پیداہوتے ہی تیرنا شروع کردینا، بکری کے بچے کا ماں کے تھنوں کو تلاش کرکے دودھ پی لینا وغیرہ۔

دوسرے تمام جانداروں میں سب سے زیادہ انسان وہ واحد مخلوق ہے جو شعور کی صفت کی وجہ ہی سے اشرف المخلوقات کے طورپر جانی جاتی ہے۔ انسان کا چھوٹا سا بچہ شروع میں تو اتنا  باشعور نہیں ہوتا جیسے کے دوسرے جانداروں میں ہوتاہے مگر اس کے اعضاء اس کے ماحول اور دیگر محرکات اسے شعور کی منازل طے کرواتے چلے جاتے ہیں۔ اور شاہ عبدالعلیم صدیقی ؒ  نے اسی بات کو اپنے سفری تجربے سے ثابت کیا ہے جب وہ ساؤتھ افریقہ کے ایک شہر کینڈی میں اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ سفر کررہے تھے اور ہمراہ موجود بچوں نے گلاب کے پھولوں کے مختلف رنگ اور خوشبواور اس سے حاصل ہونے والی معلومات میں اپنی دلچسپی کا اظہار خودبخود کیا۔

اشیاء کے ادراک اور ان  سے حاصل ہونے والے علم کے ذریعے ہم آخر کار اپنے خالق حقیقی تک پہنچ جاتے ہیں جس نے یہ تمام چیزیں پیداکیں ۔ گویا علم ہی رب کو پہچاننے کا واحد وآخری ذریعہ قرار پاتاہے۔

اپنے اس دعوے کو مزید تقویت دینے کے لئے آپ لکھتے ہیں کہ ارسطو نے اپنے مرنے سے پہلے اپنی درسگاہ کی دیواروں پر اس سطر کو تحریر کرنے کا حکم دیا تھا۔

“O Man know thyself”

اے انسان اپنے آپ کو پہچان!

اس لیے کہ جب انسان خود کو پہچاننے کی جدوجہد میں خود اپنی ذات اورا پنے ماحول پر نظر ڈالتا ہے توبالآخر اپنے رب کی بنائی ہوئی اس مکمل کائنات اور اس کی اپنی ذات اسے اپنے رب کی معرفت کا پتہ دیتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خود کو جانا کیسے جائے؟ کیا دنیا کی کوئی ایسی درسگاہ  ہے جو انسان کو ایسی تعلیم دے  سکے کہ وہ ایک دم خود کو پہچان لے؟ جواب یقیناً یہی ہے کہ کوئی ایسی درسگاہ نہیں۔ یونیورسٹی ، کالج ،اسکول صرف ایک خاص شعبے کی تعلیم دیتے ہیں ۔ جب کہ شاہ عبدالعلیم صدیقی اس بات کے بھرپورانداز سے جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فقط ہمارے دین کی درسگاہ سے ہمیں خود کو جاننے کی مکمل درست معلومات فراہم ہوتی ہے۔

راقم الحروف اس اہم بات پر بھی مکمل روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح ہم دین کی درسگاہ سے اپنا ناطہ جوڑتے ہوئے روحانی شعبے “Spiritual Faculty” میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب آپ نے تمام ظاہری اعضاء کو حرکت کرکے اپنے دین و قلب سے ہر شے نکال کر فقط اپنے رب کے بارے میں اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں اور یہ عمل بارباردہراتے ہیں یہاں تک کہ یہ آپ کی زندگی کا جزو لازم بن جاتاہے تو یہ تفکر آپ کی اندر کی دنیا میں تہلکا مچادیتی ہے اور ہمیں وہ طاقت مہیا کرتی ہے جس سے ہم تمام روحانی بیماریوں سے بچ کر انسانیت کی معراج حاصل کرتے ہیں۔ اور یہی علم  کا فراموش راستہ ہے جس سے اکثریت انسانی بھلاچکی ہے۔ یہ علم کا فراموش راستہ ہے ۔ اگر ہم اس راستے پر چلیں تو اصل علم کے دروازے کھل جائینگے اور ہم حقائق کا صحیح ادراک کرپائینگے۔اپنے عقائد کو مضبوط اور درست رکھو اور عمل کی رسی کو تھامے رکھو ، پانچ وقت صحیح انداز سے نماز پڑھو و دیگر ارکان اسلام اور ضروریات پر عمل کرتے جاؤ اور باطنی منازل کی سیڑھیاں چڑھتے جاؤ۔ یہ کتاب ۱۸ صفحات پر مشتمل ہے اور ایک قرآنی آیت سے استدلال کیاگیا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post