ڈاکٹر فیصل احمد سرفراز
مذکورہ کتاب میں ڈاکٹر انصاری نے سائنس اور فلسفہ کی روشنی
میں دین اسلام اور ایمان کی اساس کو بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر انصاری نے درج
مضامین پر بحث کی ہے:
مذہب کیا ہے؟ تاریخ
میں مذہب کا کردار، اسلامی عقائد کی بنیاد، تاریخ انسانی میں آخری نبی ﷺ کا
کردار، وجودی باری تعالیٰ، دہریت، وحدانیت، تخلیق میں درجات، مقصد تخلیق، اور
مابعد الموت۔
ڈاکٹر صاحب اسلامی عقائد کی بنیاد کو درج ذیل امور پر مشتمل
قرار دیتے ہیں:
وحدانیت، وحی الٰہی، نبوت و رسالت، اخلاقی اقدار، حیات بعد
الموت، دنیا کی تباہی، یوم حشر، عدالت الٰہی، جنت اور جہنم۔
انسانی تاریخ میں نبی ﷺ کے کردار پر جامع بحث کرتے ہوئے
لکھتے ہیں کہ آپ نے انسانیت کو منطقی اصول فراہم کرکے اسے اپنے پیروں پر
چلناسکھایا جیسا کہ لکھتے ہیں:
ڈاکٹر انصاری کے نزدیک تخلیق کی ابتداء نور (Light) سے ہوئی جو کہ دراصل نورمحمدی تھا
اس کے بعد آگ (Fire) وجود میں آئی جس کا ایک حصہ یخ (Cool) ہونے کے بعد مٹی(Clay) میں تبدیل ہوا۔ چنانچہ اس بناپر زندگی کی تخلیق
تین اہم مراحل میں داخل ہوئی۔ پہلی زندگی فرشتوں کی صورت میں ،دوسری جن کی صورت
میں جب کہ تیسری انسان کی صورت میں۔
فرشتوں کے بارے میں آپ لکھتے ہیں کہ:
‘‘شخصیت کی پہلی قسم فرشتوں کی ہے جنہیں نور سے تخلیق کیا
گیا ہے اور جن کا کام کائنات میں خدا کے حکم کو بجالانا ہے۔ حضرت جبرائیل ان میں
سے ایک ہیں جنہیں خدا اور اس کے رسولوں کے درمیان وحی الٰہی کا ذریعہ بننے کا
اعزاز حاصل ہے’’۔
جبکہ جنوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
‘‘‘‘عالم نار’’ کی تخلیق کے بعد دوسری قسم ‘‘جن’’ کو پیدا
کیاگیا تھا جو کہ آگ سے بنے ہوئے ہیں۔جب زمین آگ کا گہوارہ تھی اس وقت جن زمین کے
اصل رہائشی تھی ۔ ان میں سے ایک ابلیس تھا جس نے غرور تکبر میں حضرت آدم علیہ
السلام کی عظمت کا نکارکیا تھا اور اپنی نفرت کے ساتھ اس نے اخلاقی اور روحانی
سلطنت میں حضرت آدم کے مخالف جماعت بنائی’’۔
انسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
‘‘انسان کی صورت میں تیسری قسم کی شخصیت کو پیداکیا گیا جب
زمین ٹھنڈی ہوئی اور جب اس اعلیٰ قسم کی حیات(انسان) کے لئے حالات سازگار
ہوئے انسانی نسل سب سے زیادہ ترقی یافتہ
اور تخلیق میں سب سے اعلیٰ درجہ میں ظاہر ہوئی۔
مذکورہ کتاب ۵۹ صفحات پر مشتمل ہے جس میں ۶ قرآنی آیات
مبارکہ ہیں جب کہ غیرمسلم مصنفین میں سے ایچ ۔جی۔ ویلز، میکڈوگکل، روبرٹ ریفالٹ،
جب کہ مسلم مصنفین میں ڈاکٹر بی۔ اے۔ فاروقی، ڈاکٹر سید ظفر الحسن اور علامہ اقبال
کے تاثرات بھی پیش کئے گئے ہیں۔
علم تاریخ
علم تاریخ ہماری زندگی میں ایک اہم کردار اداکرتی ہے۔ یہ
انسان کو اس کے اسلاف کے کارناموں اور قربانیوں سے واقف کراتی ہے اور انسان میں
وقار، عظمت اور خود اعتمادی پیداکرتی ہے درحقیقت جو قوم اپنی تاریخ سے ناواقف ہوتی
ہے وہ اپنے مستقبل سے بھی بے خبر ہوگی۔
ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ
انسانی اوربالخصوص اسلامی تاریخ کا گہرامطالع کرتے تھے۔ اور اپنی تحریر و
تقریر میں تاریخی شواہد کے ساتھ مسلم
تاریخ اور شخصیات کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہیں مسلم نوجوانوں کو ان کے
اسلاف کے کارناموں اورخدمات کو بیان کرکے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہیں تاکہ ان میں
عزم وقار پیداہو۔
ڈاکٹر انصاری ۱۹۵۳ء میں (The Voice of
Islam) رسالے میں انگلینڈ میں تاریخ اسلام پر جامع گفتگو كرتے ہوئے
لکھتے ہیں کہ کس طرح اسلام کی تعلیمات انگلینڈ میں عام ہوئی۔ اس کامیابی کا سہرا
ڈاکٹر انصاری ، ولیم ہینری ، قیولیم کے سرباندھتے ہیں جن کی وجہ سے دین اسلام کی
بنیاد انگلینڈ میں پڑی۔
قیولیم نے ترک اور افغان مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک اسلامی
ادارہ “Islamic Mission” ایک مسجد ، علمی درسگاہ، اسلامی جرنل “The Crescent
Weekly” اور “The Islamic
World Monthly”کی بنیاد رکھی تھی۔ اور بڑی حد تک کامیابی حاصل کی تھی
کیونکہ انگلینڈ کے ایک سروے کے مطابق ۱۹۰۷ء تک آپ کی بدولت ۲ ہزار تک لوگ حلقہ
بگوش اسلام ہوئے تھے۔ آپ کی اس کامیابی کی وجہ سے عیسائی مبلغین آپ کے دشمن بن چکے
تھے ۔ لہذا آپ کو انگلینڈ چھوڑنا پڑا اور اپنا نام تبدیل کرکے ڈاکٹر ہارون مصطفیٰ
لیون رکھا۔
ہینری قیولیم کے علاوہ ڈاکٹر انصاری دوسرے مسلم علماء کا
بھی تذکرہ کرتے ہیں جنہوں نے اپنی خدمات سے دین اسلام کی تعلیمات کو انگلینڈ میں
عام کیا۔ ان علماء میں ایک نام سر سُہراوردے کا بھی ہے جنہوں نے ۱۹۰۴ء میں لندن
میں ایک اسلامی جریدہ “The Light of the World" اور “The Pan Islamic Society” کی بنیاد رکھی
تھی۔
درحقیقت یہ قیولیم ہی کی مشعل کردہ چراغ کی روشنی تھی
جس سے چراغ جلتے گئے اور لندن میں جگہ جگہ اسلامی مراکز ،
تعلیمی ادارے اور مساجد کا فروغ بڑھتاگیا۔ ڈاکٹر انصاری لندن کے ایک اسکول، “The Education of
London’s Muslim Children” کا تذکرہ کرتے
ہیں جس کی بنیاد جامعہ ازھر کے پروفیسر ڈاکٹر علی حسن عبدالقدیر نے رکھی تھی تاکہ
مسلم بچوں کو اسلامی اور دیگر علوم سے آراستہ کرسکیں۔ مسلمانوں کی تعداد تیزی سے
بڑھتی جارہی تھی اور ان کے تعلیم و تربیت کا کوئی خاص انتظام نہ تھا اس لئے ڈاکٹر
عبدالقدیر کی یہ کوشش ایک اہم کارنامہ تھا۔ ڈاکٹر انصاری اس حوالہ سے ‘‘ڈان نیوز’’
کی ایک رپورٹ بھی شائع کرتے ہیں جس کے مطابق:
‘‘ڈاکٹر قدیر نے مستعدی کے ساتھ فوری طور بہترین ‘‘سُنی’’
اساتذہ کی ایک فوج (جماعت) تیار کی اور بچوں کو پڑھانے کے لئے نصاب کروایا، (ان
بچوں کے لئے) جنہیں فلاحی ادارے کے ذریعے ایسٹ لندن سے اسلامک کلچرل سینٹر میں بڑی
تعداد میں بلوایا گیا تھا، جنہوں نے ٹرانسپورٹ اور کلاس کے بعد چائے کی ذمہ داری
بھی اٹھائی ہوئی تھی۔ بچوں کو ان کی عمر
کے حساب سے مختلف جماعتوں میں تقسیم کیاگیا ہے اور فی الحال تین جماعتیں چل
رہی ہیں۔ اضافی جماعتیں جلدی شروع کی جائیں گی’’۔
ڈاکٹر انصاری U.S.A. میں فروغ اسلام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب سے یو ایس
کونسل جنرل ، محمد الیکسز ندر نے منالیہ میں اسلام قبول کرکے ایک مسلم مبلغ کی
حیثیت سے واپس لوٹے ہیں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہواہے۔
U.S.A. میں مسلم عوام
میں اسلامی روح برقرار رکھنے کے لئے واشنگٹن میں ایک شاندار مسجد کو تعمیر
کیاگیاتھا جس کی زمین کا رقبہ 30,000 اسکوائر فٹ تھا اور کل قیمت اس زمین کی 95,000 ڈالر تھی۔ اس مسجد کے افتتاحیہ میں جناب کامل عبدالرحمن
صاحب کہتے ہیں:
‘‘ اپنی مسجد کی بنیاد رکھتے ہوئے ، ہم اللہ سے دعا کرتے
ہیں کہ وہ ہمیں وقف کردے اس فائدہ مند تعارف کے فروغ کے لئے اور ہمارے ممالک کی
مستقل اتحاد اور تمام بنی نوع انسان کے امن اور انصاف کے فروغ کے لئے’’۔
ڈاکٹر انصاری کو اس مسجد کی فاؤنڈیشن دیکھنے کا اعزاز حاصل
ہے۔
علوم جدیدیہ اور دینیہ میں مہارت
ڈاکٹر انصاری علم کے ایک سچے متلاشی اور شیدائی تھے جنہوں
نے اپنی پوری زندگی علم نافعہ کی تحصیل و
ترویج میں گذاری، بلکہ یہ کہنا بجاہوگا کہ آپ کی پوری زندگی رسول اللہ ﷺ کی حدیث
مبارکہ ‘‘طلب العلم فریضۃ علی کلم مسلم’’ کی آئنہ دار تھی۔ اسی لئے علم و حکمت ہی
کو آپ نے اپنا نصب العین بنایا اور مومن کی گمشدہ میراث کو کھوجنے ہی کو اپنی
زندگی کا اہم فریضہ سمجھا۔
ڈاکٹر انصاری نہ صرف دینی علوم میں گہری دلچسپی رکھتے تھے،
بلکہ دیگر علوم بشمول سائنسی اور معاشرتی علوم (Social
Sciences) پر بھی مہارت رکھتے تھے۔ آ پ کی
تحریر و تقریر میں جابجا علوم جدیدہ کی
مثالیں نظر آتی ہیں جو کہ آپ کی شخصیت میں انفرادیت پیداکرتی ہیں۔ آپ کے نزدیک
سائنسی علوم کی تحصیل بھی ایک اہم دینی فریضہ ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف اللہ
کی رضا اور بنی نوع انسان کی خدمت ہونا چاہئے نہ کہ انسانیت کی تباہی ۔ جیسا کہ آپ
لکھتے ہیں:
ڈاکٹر انصاری کی علمی پیاس اور علم دوستی کا اندازہ اس بات
سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ اعلیٰ تعلیم کے لئے یورپ جانا چاہتے تھے تو ۱۹۳۱ء میں علامہ اقبال نے انہیں جواب دیا:
ڈاکٹر انصاری کی حیات
اور تقاریر و تحریرات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات عیاں ہوتی ہے
کہ اللہ رب العزت نے آپ کو مختلف علوم و فنون سے نوازاتھا۔ جناب حامد علی علیمیؔ
صاحب نے اپنی کتاب میں ڈاکٹر صاحب کے چند علوم و فنون کو گنوایا ہے جن کی تفصیل
کچھ اس طرح ہے:
ان علوم کے علاوہ ڈاکٹر انصاری نے علم طب کا بھی بڑی دلچسپی
سے مطالعہ کیا جس میں بالخصوص ہومیوپیتھی میں آپ نے مہارت حاصل کی۔ ہندوستان کے
مشہور ڈاکٹر چوہدری ہومیوپیتھی میں آپ کے
استاد تھے۔ ۲۹ ستمبر ۱۹۶۶ء میں کراچی میں آپ نے اپنے آپ کو باقاعدہ ایک معتمد
ہومیوپیتھی ڈاکٹر کے طورپر رجسٹرڈ کرایا۔ ذیل میں ان علوم کی قدرے وضاحت کے ساتھ
بحث کی جائیگی تاکہ ڈاکٹر انصاری صاحب کی علمی فضیلت کا اندازہ کیاجاسکے۔
کینیڈا کے حوالے سے ڈاکٹر انصاری لکھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں
کی قلیل آبادی والا ملک ہے۔
اس کے شہر Edmonton كی ‘‘الراشد مسجد’’ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ خوبصورت مسجد فلسطینی مہاجرین
مسلمانوں نے تعمیر کی تھی جس کی افتتاحیہ تقریب ایک بڑے مشہور عالم اور مترجم قرآن
کریم جناب عبداللہ یوسف علی کے ہاتھوں ہوئی۔
اس مسجد نے باقاعدہ تبلیغی
سرگرمیوں کا آغاز ۱۹۵۰ء میں کیا تھا جب حضرت مولانا محمد عبدالعلیم
صدیقی اور ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری نے Edmonton شہر کو قدم بوسی کا
شرف دیا اور ان کے ہاتھوں کئی کینیڈین نے اس مسجد میں اسلام قبول کیا۔
جاپان کے حوالے سے ڈاکٹر انصاری لکھتے ہیں کہ جاپان کے تین
شہروں کو مساجد کے ہونے پر اعزاز حاصل ہے۔ ان شہروں میں ٹوکیو، کو بے اور ناگویا
شامل ہیں۔ ان مساجد میں کوبے کی مسجد کو سب سے پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
جب کہ ناگویا مسجد کی بنیاد مبلغ اسلام حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی نے ۱۹۳۶ء میں
رکھی تھی۔
دینی علوم کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر انصاری سائنسی علوم میں بھی
گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کے نزدیک ، معاشرتی ، طبیعاتی اور سائنسی علوم کا حصول
بھی ایک دینی فریضہ ہے کیونکہ قرآن میں
جہاں ‘‘علم’’ کو واجب قرار دیا ہے وہاں صرف‘‘دینی علم’’ مراد نہیں ہے بلکہ اس
کائنات کو آشکار کرنا بھی ایک اہم فریضہ ہے ۔ جیسا کہ آپ لکھتے ہیں:
‘‘سوال یہ ہے کہ کیا قرآن حکیم نے جب‘‘علم’’ کو واجب
الاحترام قراردیا تو اس سے مراد محض ‘‘دینی علم’’ تھا؟ قرآن حکیم کو سمجھ کر پڑھنے
والے اس سے پوری طرح واقف ہیں کہ یہ حقیقت سے بہت دور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن
حکیم کائنات کے راز ہائے سربستہ کے علم کے حصول کو ملت اسلامیہ کا مشن قرار دیتا
ہے۔ اس پر دلیل وہ کثیر التعداد آیات ہیں جن میں ‘‘خلق
السموات والارض ومابینھما’’ کا ذکر ہے اور ان پر
فکر کی دعوت ہے’’۔
ڈاکٹر انصاری نہ صرف مسلمانوں کو سائنسی علوم کی ترغیب دیتے
ہوئے نظرآتے ہیں بلکہ خود بھی سائنسی علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ اور اکثر اپنی
تقریر و تحریر میں سائنسی مثالیں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر انصاری آئن سٹائن کے نظریہ برقیات اور نظریہ اضافیت
کی روشنی میں وجود باری تعالیٰ کو ثابت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
‘‘اللہ کی ذات ایک صفت ہے نہ کہ مقدار’’۔
اسی طرح کائنات کی تخلیق کے حوالے سے ڈاکٹرانصاری آئن سٹائن
کی مساوات E=M2 (توانائی کا
کمیت میں تبدیل ہونا) کی روشنی میں وضاحت کرتے ہیں کہ پوری کائنات صفت یعنی اللہ
کے امر سے مقدار یعنی طبیعی حالت میں وجود میں آئی ہے جسے آئن سٹائن نے توانائی
کہاہے۔
رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ڈاکٹر انصاری مادہ (Matter) کی خصوصیت کو
سمجھنا لازمی قرار دیتے ہیں۔ اور مادہ کے تجزیہ کے لئے آپ طبیعی تجزیہ (Physical Analysis) کرتے ہوئے لوہے
کے ٹکڑے کی مثال دیتے ہیں کہ جب اسے بند مرتبان میں زیادہ درجہ حرارت پر رکھاجاتا
ہے تو وہ ٹھوس مائع میں تبدیل ہوکر سالمے میں تبدیل ہوجاتاہے۔اورپھر وہ مالیکیول
تبدیل ہوکر جزو لایتجزی (Atom) کی شکل اختیار کرتاہے جو متوسط ذرہ میں تبدیل ہوکر ارتعاشی نور
میں تبدیل ہوتاہے جوبالآخر ضدّ مادہ(anti matter)کی شکل اختیار کرتاہے۔
جس کا نہ کوئی وزن ہوتا ہے ، نہ حجم اور نہ ہی رقبہ ۔ پس یہ
دنیا"صفت" سے "مقدر" میں وجود میں آئی یعنی عدم سے اللہ رب
العزت نے اس کائنات کو تخلیق فرمایا۔ اسی طرح ڈاکٹر انصاری اللہ نور السموٰت
والارض والی آیت مبارکہ میں نور کی مختلف قسمین جن میں ایلفا، بیٹا، گاما،
انفراریڈ، ایکس ریز، وغیرہ شامل ہیں پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں نور (Light) کی ہر قسم دوسری قسم سے مختلف ہوتی ہے۔ اس حوالے
سے ڈاکٹر انصاری امریکہ کے ایک سائنسدان ڈاکٹر جارج اینٹی مور (George Antimore) کا ایک تجربہ
بیان کرتے ہیں کہ ڈاکٹر جارج نے ایک بلی
کا آپریشن کرنے کے لیے اس کی ایک آنکھ کو نکالا اور ٹانگ کے ذریعے تنگ شگاف سے
کثیف سیسہ ڈال کر ضد مادہ تک اس کو ضائع کیا۔ دوسری آنکھ کو ضد مادہ کی ارتعاش سے
منسلک کیاگیا۔ تو جب بلی کی دوسری آنکھ پر ارتعاش ڈالی گئی تو بلی کا پورا دماغ
پھٹ گیا۔
پس اللہ بھی نورہے، رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ بھی نور ہے
بلکہ کائنات کی ہر چیز نور ہے مگر ہر نور کی الگ ساخت ، طاقت ، پہچان اور افعال
ہیں۔
ڈاکٹر انصاری کہتے ہیں:
"جدید سائنس کے مطابق ہر چیز روشنی یا نور کے ارتعاش
میں تبدیل ہونے کے قابل تخفیف ہے۔ ایسی روشنی جس کو دیکھا نہیں جاسکتا مگر اپنی
صفت میں اسے نور ہی کہاجاسکتا ہے ۔ اسی لئے اس کائنات کے خالق کو بھی نور کہنا
ضروری ہے کیونکہ نور صرف نور سے ہی تخلیق ہوتاہے نہ کہ اندھیرے سے"۔
ایک اور جگہ ڈاکٹر انصاری کہتے ہیں:
"قرآن کریم میں ہمیں تمام علوم حاصل کرنے کا حکم دیا
گیا ہے، صرف ایک مخصوص علم نہیں۔ اسلام میں ہر علم مقدس ہے اور اسے ہر مسلمان کو
حاصل کرنا چاہئے۔ اسلام تمام علوم کی حمایت کرتا ہے اور طبیعاتی علوم کی
تحصیل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت کی اعلیٰ ترین قسموں
میں سے ایک ہے"۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں ڈاکٹر انصاری علم سے متعلق درج
ذیل دواصول متعین کرتے ہیں:۱۔ تمام علوم کو انسانیت کا مشترکہ ورثہ سمجھنا چاہیے۔ کسی
علم کو عربی ، ہندوستانی، یا چینی کہنا ٹھیک نہیں ہے۔
۲۔ علم کے
میدان میں ایک مسلمان کو روشن خیال اور
کھلے دن کا ہونا چاہیے ۔ اسے ہر وہ علم جو اس کے راستے میں آئے سیکھنا چاہیے اور
بغیر کسی تعصب کے حق کو تسلیم کرناچاہیے۔
Post a Comment