محمد شاہد خان (جامعہ علیمیہ اسلامیہ)


 اس وقت پوری دنیا کے لوگ ملالہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ملالہ پر طالبان نے حملہ کیا ہے۔ کیونکہ ملالہ تعلیم کے حق میں گفتگو کرتی تھی۔ وہ یہ کہتی ہے کہ جس طرح تعلیم حاصل کرنا لڑکوں کا حق ہے اسی طرح تعلیم حاصل کرنا لڑکیوں کا بھی حق ہے۔ اور اس حق کو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا ہے۔ لہذا تعلیم کے فروغ کے لیے پوری دنیا کی طرف سے ملالہ پر انعام و اکرام کی مسلسل بارش ہورہی ہے۔

جرمنی کے نشریاتی ادارے "Deutsche Welle"نے ملالہ کو "The Most Famous Teenager in the World" قرار دیا ہے۔ Time Magazineنے اپنی 29 اپریل 2013 کی اشاعت میں اپنی صفحہئ اول کی اسٹوری (کہانی) کو ملالہ کے حوالے سے شائع کیا ہے۔ "سخاروف ہیومن رائیٹس" نامی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ اور یہ وہ ایوارڈ ہے جو کہ ٥٠ ہزار یورو مالیت کا یورپ میں حقوق انسانی کا سب سے بڑا ایوارڈ مانا جاتاہے۔ اس کے علاوہ'' دختر پاکستان'' کے لقب سے بھی ملقب کیا گیا ہے۔ ملالہ دنیا کی کمسن ترین شخصیات میں بھی شمار ہوئی جب اس کا نام قابل فخر (Nobel Prize) کے لیے نامزد ہوا۔ لیکن وہ حاصل نہ کرسکی۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ ملالہ کو سینکڑوں نہیں ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں انعام و اکرام اور ایوارڈ عطا فرمائے۔ عزت دینے والا بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت ہے اور ذلت دینے ولابھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت ہے۔ بقول شاعر:
؎ آنکھ رکھتا ہے تو دریاؤں کو طغیانی پہ جا

 ہم نے دریاؤں کو چڑھ چڑھ کے اترتے دیکھا

جب ملالہ نے تعلیم کے فروغ کی بات کی تو بہت خوب بات کی تھی۔ لیکن جب سے ملالہ سے منسوب کتاب "I am Malala"
منصہ شہود پر آئی ہے۔ اس میں بعض نازیبا کلمات و خیالات کے سبب ملالہ نے خود لوگوں کو تنقید و تنقیص کرنے کا موقع دیاہے۔ اور جو لوگ ملالہ کی فکر اور اس کے خیالات و نظریات پر تنقید کیا کرتے تھے تو لوگ ان پر لعن و طعن اور تبرا بازی کیا کرتے تھے۔ ان کو شدت پسند، بنیاد پرست، تنگ نظر ، جاہل و گنوار پکارا کرتے تھے۔ لیکن جب سے ملالہ کی کتاب سامنے آئی ہے اس وقت سے روشن خیال ، وسعتِ نظری کے پیکر، اہلِ دانش و بینش اور امن پرست شخصیات کو سانپ سونگھ گیا ہے کہ وہ اس موضوع سخن پر لب کشائی ، گل افشانی اور خامہ فرسائی کی جرأت و جسارت کریں۔
ملالہ کی ہماری نگاہوں میں بدرجہ اتم قدر و منزلت تھی۔ لیکن جب سے اس کتاب میں توہین آمیز کلمات کا مطالعہ کیا ہے تو اس وقت سے ملالہ نے عزت و اہمیت کھودی ہے۔

قارئین کرام کی خدمتِ سامیہ میں اس کتاب کے توہین آمیز اقتباسات پیش کیے جائیں گے تاکہ ہم لوگ حق و باطل میں تفریق کرسکیں۔ نور و ظلمت میں تمیز کرسکیں۔ تاکہ گمراہیت و ضلالت کے عمیق گڑھے میں گر نہ جائیں۔ ہم یہ توہین آمیز اقتباسات دعوتِ فکر کے طور پر پیش کررہے ہیں تاکہ ہم غور و فکر کریں کہ مستقبل قریب وبعید میں کس طرح کے تباہ کن فتنے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔

ملالہ نے اپنی کتاب میں بدنام زمانہ Satanic Verses نامی کتاب کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اور یہ وہ کتاب ہے جس کو مغرب نے انگریزی ادب کا شاہکار قرار دیا ہے۔ اس کے مصنف سلمان رشدی کو ''Sir''اور ''Knighthood'' کا خطاب دیا ہے۔ مصنف آج تک زندہ ہے۔ اس کتاب میں محمد رسول اللہ ؐ کے حوالے سے گستاخانہ کلمات استعمال کیے گئے ہیں۔ وہ گستاخانہ کلمات ایک مسلمان تو کیا ایک سلیم الفطرت شخص بھی سننے اور پڑھنے کی سکت و ہمت نہیں رکھتا ہے۔ یہ کتاب جب منظر عام پر آئی تھی تو پوری دنیا کے مسلمانوں نے صدائے احتجاج بلند کی تھی۔ لیکن افسوس صد افسوس ملالہ لکھتی ہے کہ جب یہ کتاب آئی تو ملالہ کے والد ضیاء الدین صاحب کے کالج میں اس کتاب کے حوالے سے بحث و مباحثہ ہوا۔ تمام طلبہ نے مصنف کو قتل کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس گستاخ کو اب جینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ملالہ لکھتی ہے:

" My Father also saw the book as offensive to Islam but believes strongly in freedom of speech" I am Malala,The orion Publishing Group Ltd. London page,37

ترجمہ:" میرے والد نے بھی وہ کتاب دیکھی ہے جو کہ اسلام مخالف ہے لیکن میرے والد آزادیئ اظہار رائے پر پختہ و مضبوط یقین رکھتے ہیں"۔
مطلب صاف ظاہر ہے کہ ملالہ کے نزدیک اگر کوئی شخص حضرت محمد ؐ کی شان میں نازیبا لفظ یا جملہ ادا کرتاہے تو وہ آزادیئ اظہارِ رائے کا حق استعمال کررہاہے۔ اگر کوئی گستاخانہ اور توہین آمیز لفظ یا جملہ کہتا ہے تو ملالہ کو اس پر کوئی "ملال" نہیں ہوگا۔

ملالہ سے پوچھا جائے کہ اگر کوئی شخص آپ کے والد محترم و مکرم ضیاء الدین صاحب جن کو آپ "ابا" کہتی ہیں ان کے بارے میں اگر کوئی گستاخانہ او ر توہین آمیز لفظ یا جملہ ادا کرے تو کیا آپ اس کو بھی آزادیئ اظہار رائے کا حق دینگی۔ اگر کوئی آپ کی والدہ محترمہ طیبہ و طاہرہ جن کو آپ "بھابھی" کہتی ہیں اور وہ آپ کو پیار سے پشو کہتی ہیں (پشو پشتو میں بلی کو کہتے ہیں) اگر کوئی ان کی شان میں گستاخی کرے تو آپ کا کیا رد عمل ہوگا؟؟؟
ملالہ!
افسوس صد افسوس جو نبی رحمت للعالمین ؐ بنا کر مبعوث کیے گئے تھے ان کی ذات والا صفات کو یکسر فراموش کردیا۔
بقول شاعر

؎ کتنا کم ظرف تھا جو مجھ کو بھلا بیٹھا ندیم

 میں تو مخلص تھا کسی ماں کی دعاؤں کی طرح

گستاخانہ کلمات اور توہین آمیز خیالات ونظریات پر آزادیئ اظہار رائے کی بات کرنا ایک سلیم الفطرت انسان کو زیب نہیں دیتا ہے۔ یہ بات تو مغرب و یورپ کے لوگ کرتے ہیں۔ ملالہ کو وہ بات کرنی چاہیے جو قرآن وسنن میں لکھی ہے نہ کہ وہ بات جو CNNکے ذریے بیان کی جاتی ہے۔
؎ لگائی ہے لو جب سے امریکیوں سے

 سْنن کی جگہ سی این این دیکھتے ہیں

اس کے علاوہ ملالہ لکھتی ہے کہ

"Two million Ahmadis, who say they are Muslims though our government says they are not"

 I am Malala,The orion Publishing Group Ltd. London page, 75

ترجمہ:" ٢٠ لاکھ احمدی (قادیانی) جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جب کہ ہماری حکومت ان کو غیر مسلم قرارد یتی ہے"۔
یہ بات نہ صرف اسلام کے تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ پاکستان کے آئین (
Constitution)کے بھی خلاف ہے۔ کیونکہ قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کو آخری نبی مانتے ہیں وہ آپ کو آخری نبی نہیں مانتے ہیں۔آئینِ پاکستان نے قادیانیوں کو غیر مسلم قراردیا ہے۔ جو حضور اکرم ؐ کو خاتم النبیین نہ مانے وہ مسلمان نہیں ہے۔

اس کے بعد لکھتی ہے:

"Jinnah had lived in London as a young man and trained as barrister. He wanted a land of tolerance. Our people often quote the famous speech. He made a few days before independence".
"
You are free to go to your temples, You are free to go to your mosque or to any other place of worship in this state of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed. That has nothing to do with the business of the state""My father says the problem is that Jinnah negotiated a piece of real estate for us but not a state"I am Malala,The orion Publishing Group Ltd. London page, 75
ترجمہ:
"جناح لندن میں ایک نوجوان شخص کے طور پر رہے اور بحیثیت بیرسٹر تربیت حاصل کی۔ وہ تحمل و برداشت کی زمین کے خواہاں تھے۔ ہمارے لوگ اکثر ان کی مشہور و معروف تقریر کا حوالہ دیتے ہیں جو آزادی سے کچھ عرصہ قبل فرمائی تھی۔


"آپ لوگ اپنے مندرجانے میں آزاد ہیں۔ آپ لوگ اپنی مساجد میں جانے میں آزاد ہیں۔ اور پاکستان کی ریاست میں آپ کسی بھی عبادت خانے میں جاسکتے ہیں۔ آپ کسی بھی مذہب ، نسل اور عقیدے سے تعلق رکھ سکتے ہیں۔ اس میں ریاست کا عمل دخل نہیں ہوگا"۔
میرے والد کہتے ہیں کہ اصل اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جناح نے ہمارے لیے حقیقی طور پر ایک "خودمختار ریاست" (
Estate) کا مطالبہ کیا تھا نہ کہ ایک ریاست (State) کا۔

جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اس وقت سے بعض عناصر مملکت خداداد پاکستان کو لادین اور سیکولر ریاست قراردینے پر تلے ہوئے ہیں۔ اور قائد اعظم محمد علی جناح علیہ رحمۃ الفتاح کی تقریر کو بغیر سیاق و سباق کے پیش کرکے لادین اور سیکولر ریاست ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے اس کی بقاء و سلامتی اور استحکام بھی صرف و صرف اسلام ہی کے سائے تلے ہے۔
ملالہ اپنی کتاب میں لکھتی ہے کہ

"Many of our Madaris or religious schools were opened at that time, and in all schools religious studies, what we call "Deeniyat" was replaced by "Islamiyat" or Islamic Studies, which children in Pakistan still have to do today. Our History text books were rewritten to describe "Pakistan as a fortress of Islam" , which made it seem as if we had existed for longer than since 1947, denounced Hindus and Jews".I am Malala,The orion Publishing Group Ltd. London page, 24
ترجمہ:'' ہمارے بیشتر مدارس اور مذہبی اسکولز اس زمانے میں کھلے تھے اور تمام اسکولز میں مذہبی تعلیمات جس کو ہم دینیات کہتے ہیں۔ اس کو " اسلامیات" سے بدل دیا گیا ہے۔ اور اسلامی تعلیمات آج تک پاکستان میں بچوں کو دی جاتی ہے۔ہماری تاریخ کی نصابی کتب کو از سر نو لکھا گیا تاکہ بیان کیا جائے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ جو ایسا ظاہر کیا گیا ہے کہ جیسے وہ ہمارے ١٩٤٧ء میں معرض وجود میں آنے سے پہلے کا ہو۔ یہودیوں اور ہندوؤں کو برابھلا کہا گیا ہے"


مذکورہ بالا اقتباس میں ملالہ یہ کہنا چاہتی ہے کہ مدارس اور اسکولز میں اسلامیات پڑھائی جارہی ہے نہ کہ دینیات اور دینیات سے مراد یہ ہے کہ دنیا کے موجودہ اور ماقبل ادیان و مذاہب کی بھی تعلیم دینی چاہیے۔ یعنی طلبہ و طالبات کو عیسائیت، یہودیت، ہندومت، بدھ مت، سکھ مت، وغیرہ بھی پڑھانے چاہیے۔ نہ کہ صرف اسلامیات ہی پڑھائی جائے۔ بلکہ دیگر ادیان و مذاہب کی بھی تعلیم دینی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ترین دین دینِ اسلام ہے۔ تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں کے لیے دین اسلام کی تعلیمات اور ہدایات میں حق شناسی کی روشنی ہے۔ تمام ادیان و مذاہب باطل ہوچکے ہیں۔ تمام انسانیت کی فلاح و صلاح دینِ اسلام کے سایہئ عاطفت میں ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں ایک فکرا ور نظریہ پیش کیا جارہاہے کہ تمام ادیان و مذاہب حق پر ہیں اگر کوئی مندر میں جاکر بت کو سجدہ کرتاہے تو اس کا عمل بالکل صحیح ہے۔ اگر کوئی مسجد میں جاکر عبادت کرتا ہے تو اس کا عمل بالکل صحیح ہے۔ اگر کوئی ایک خدا کو مانے ، تین خداؤں کو مانے ، کائنات کی ہر مخلوق کو خدا مانے یا خدا کو ہی نہ مانے تو وہ اس انسان کا حق ہے۔ تو وہ اپنا حق استعمال کر رہاہے۔ بندہ آزاد ہے۔ اس کو آزاد رہنا چاہیے۔ مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ مذہب سے کوسوں دور رہا جائے۔ الغرض اس طرح کے خیالات ونظریات اور جذبات و احساسات آج کل کی دنیا میں پیش کیے جارہے ہیں کہ تمام ادیان و مذاہب حق اور برحق ہیں۔ اور مختلف قسم کی اصطلاحات بھی استعمال کی جارہی ہیں۔ مثلاً:
1. بین المذاہب ہم آہنگی (
Interfaith Harmony )

2. بین المذاہب مذاکرہ و مکالمہ (Interfaith Dialogue )

3. وحدت ادیان (Pluralism)

وحدت ادیان (Pluralism) کا مطلب ہی یہی ہے کہ تمام ادیان ایک ہیں۔ سب کے سب برابر ہیں۔ آپ "رام " کہیں یا "رحیم" ، "بھگوان" کہیں یا "رحمٰن" "قرآن" پڑھیں" یا "پْران" اس سے ایمان و ایقان میں رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا ہے۔ حیران کن اور حیرت انگیز تصویر جب راقم الحروف نے ملالہ کی کتاب میں دیکھی جو ملالہ نے اپنے اسکول میں تصویری مقابلے میں نمائش میں پیش کی تھی۔ اس تصویر کے تحت لکھا ہے کہ

"A picture I painted when I was twelve, just after we came back to Swat from being IDPS. It shows the dream of Interfaith Harmony"

ترجمہ: ایک تصویر جو میں نے بارہ سال کی عمر میں بنائی تھی۔ جب ہم IDPS سے سوات واپس آئے۔ یہ تصویر بین المذاہب ہم آہنگی کے خواب کو اجاگر کرتی ہے۔

 مذکورہ بالا عبارت سے بھی ثابت ہوتاہے کہ موصوفہ بھی بین المذاہب ہم آہنگی کو تسلیم کرتی ہے۔ کفار و مشرکین نے خاتم النبیین محمد ؐ سے کہا کہ ایک سال آپ ہمارے بتوں کی پوجا کریں اور ایک سال ہم آپ کے بت کی پوجا کریں گے۔ تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ جلال سے پوری سورت مبارکہ "سورۃ الکافرون" کے نام سے نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے حتمی و قطعی حکم نازل فرمادیا۔
قُلْ ٰۤیاَ یُّھَا الْکٰفِرُوْنَ ہلا ١ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ ہلا٢ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدْ ہج ٣ وَلَآ اَنَا عَابِد'' مَّا عَبَدْتُّمْ ہلا ٤ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ ہط ٥ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ ہع ٦ (٥) (٥) سورۃ الکافرون( ١٠٩: ١۔٦)

ترجمہ:''آپ فرمادیجیے ! اے کافرو! میں پرستش اور پوجا نہیں کرتا (ان بتوں کی جن کی تم پرستش و پوجا کرتے ہو۔ اور نہ ہی تم عبادت کرنے والے اس (خدا) کی جس کی میں عبادت کیا کرتاہوں۔ اور نہ ہی میں کبھی عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم پرستش و پوجا کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کیا کرتاہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دینـ''۔
لہذا دینی عقائد و نظریات اور اساسِ دین پر مفاہمت
Reconciliation اور Compromise ناقابل قبول ہے۔

راقم الحروف نے ملالہ کی کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے۔ ایک افسوس اس عمل پر بھی ہوا ہے کہ پوری کتاب میں جب خاتم النبیین محمد ؐ کا نام نامی اسم گرامی آیا ہے تو اس پر درود و سلام یعنی ؐ نہیں لکھا گیا ہے۔ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ جب بھی آپﷺ کا اسم شریف آئے تو درود سلام یعنیﷺ کہنا یا لکھنا چاہیے۔ لیکن کتاب میں جب آپﷺ کا اسم گرامی آیا ہے تو درود و سلام لکھا ہوا نہیں ہے۔ اسی طرح چند انبیاء کرام اور صحابہ کرام کے نام کے بعد بھی ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دعایہ کلمات لکھنے چاہیے جو نہیں لکھا گیا۔

1. حضرت محمدﷺ

  I am Malala,The orion Publishing Group Ltd. London page, 173

2. حضرت ابراہیم علیہ السلام

  I am Malala,The orion Publishing Group Ltd. London page, 47

3. حضرت اسماعیل علیہ السلام

 I am Malala,The orion Publishing Group Ltd. London page, 47

4. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

  I am Malala,The orion Publishing Group Ltd. London page, 76

5. اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ

I am Malala,The orion Publishing Group Ltd. London page, 76

دین ادب کا نام ہے۔ دین ادب و احترام کا درس دیتاہے۔ عربی زبان میں کہا جاتاہے کہ الادب مال و استعمالہ کمال۔ ادب مال ہے اور اس ادب کا استعمال کمال ہے۔

پہلے کے مقابلہ میں ملالہ کو اب زیادہ سے زیادہ قرآن پاک ، آپﷺ کی سیرت مبارکہ ، صحابہ کرام، صحابیات اور متقی و پرہیز گار مستورات کے ایمان افروز واقعات و حکایات سے اپنے ایمان و ایقان کو ہر ہر لحظہ تروتازہ رکھنے کے لیے مطالعہ اشد ترین ضروری ہے۔ اور دنیا کے سامنے ببانگِ دہل اعلان کرنا چاہیے کہ

I am "Muslim Malala" not "Westernized Malala"

پوری کتاب میں ملالہ کے بجائے ملالہ کے والد محترم ضیاء الدین صاحب کا سایہ عاطفت چھایا رہا۔ ملالہ معصوم ہے۔ لیکن اس معصوم بچی کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔ ملالہ پوری کتاب میں کئی مقام پر اپنے والد صاحب کی باتوں کو نقل کرتی ہے۔ لہذا اس کتاب میں موجود خیالات و نظریات ، جذبات و احساسات ملالہ کی بنسبت اس کے والد محترم کے زیادہ ہیں۔ ملالہ کے والد صاحب اپنی بچی کے نازک کندھوں پر بندوق رکھ کر گولی چلارہے ہیں۔ اگر گولی چلانی ہے تو اپنے کندھے پر رکھ کر چلانی چاہیے۔ مردوں کا یہی شیوہ ہوتاہے۔ پشتو زبان میں کہا جاتاہے کہ
دہ بل پلاس مار مہ و جنئی

"دوسرے کے ہاتھ سے تو سانپ بھی نہیں مارنا چاہیے "۔

انسان کو اپنی غیرت و حمیت اور عزت و خودی کا جنازہ نہیں نکالنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ قبیح ترین عمل ناپسند ہے۔ انسان کو اپنے "دنیاوی رب" کو راضی کرنے کی خاطر "رب الارباب" کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ اس ناقابل قبول اور قبیح ترین عمل سے انسان کو جنت نہیں ملتی ہے۔
ہاں ! دنیا جنت نظیر بن جاتی ہے۔ لیکن آخرت میں اس کے لیے صرف و صرف "عذابِ الیم" کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ حضرت عبدالرحمان بابا علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

جنتو نہ پہ عمل دی پہ لباس نہ دی رحمانہؔ

منم لاس کنبے دے تسبیح دی خو نظردے پہ کمسودے

"اے رحمان!جنت دکھاوے سے نہیں، خالص عمل سے ملے گی ، مانا یہ ہاتھ میں تیرے تسبیح ہے مگر نظر تو زلفِ یار پر ہے"۔
واقعات میں آتاہے کہ ہارون الرشید کی ایک کنیز تھی جس سے وہ شدید ترین اور بدرجہ اتم محبت و مودت کیا کرتا تھا۔ وہ سیاہ فام تھی اور اس کا نام خالصہ تھا۔ ایک دن خالصہ ہارون الرشید کے پہلو میں رونق افروز تھی۔ اور اس کے گلے میں نہایت گراں قدر اور دیدہ زیب ہار تھا جو وہ شب و روز پہنی رہتی تھی۔
ایک مرتبہ ابو نواس شاعر دربار میں داخل ہوا اور بادشاہ کی خدمت سامیہ میں اپنا محبت بھرا قصید ہ پیش کرنے کا شرف حاصل کیا۔۔ لیکن ہارون الرشید نے قطعاً توجہ نہ دی تو ابو نواس دربار سے دلبرداشتہ ہوکر باہر آیا اور دربار کے دروازے پر شعر لکھ دیا:

 لقد ضاع شعری علی بابکم

کما ضاع عقد علی خالصۃ


"تحقیق جس طرح میرا شعر آپ کے دروازے پر ضائع ہوگیا ہے بالکل اسی طرح وہ (گراں قدر) ہار خالصہ کے گلے میں ضائع ہوگیا ہے"۔
بعد میں ہارون الرشید کے حاشیہ نشینوں نے ابو نواس کے دروازے پر لکھے ہوئے اس شعر سے آگاہ کیا تو بادشاہ نے ابو نواس کو دربار میں حاضر ہونے کو کہا۔ جب ابو نواس دربار میں داخل ہورہا تھا تو اس نے دروازے پر لکھے ہوئے شعر میں معمولی سی ترمیم اور تبدیلی کردی۔

 لقد ضاء شعری علی بابکم
 کما ضاء عقد علی خالصۃ

" جس طرح خالصہ کے گلے میں وہ (گراں قدر ) ہار چمک دمک گیا ہے تحقیق اسی طرح میرا شعر آپ کے دروازے پر چمک دمک گیا ہے"۔
ہارون الرشید نے شعر سماعت فرمانے کے بعد فرط مسرت و انبساط میں ابو نواس کو انعام و اکرام سے نوازنا شروع کردیا۔ (١١)(١١) نفحۃ الیمن، شیخ احمد بن محمد یمنی شروانی،ص٩،قدیمی کتب خانہ کراچی

قارئین کرام!

افسوس صد افسوس ملالہ کے والد محترم نے اپنی غیرت و حمیت اور عزت و خودی کا جنازہ نکال دیا ہے۔ کتاب میں اسلام، محمد رسول اللہﷺ کے حوالے سے توہین آمیز کلمات کو آزادی اظہار رائے کا نام دیاہے۔ اسلامی تعلیمات کو حقیر اور کمتر جانا گیاہے۔ جگہ جگہ مغرب و یورپ کے باطل خیالات و نظریات کی حمایت وتائید کی ہے۔

لہذا اب ضیاء الدین صاحب "ضیاء الدین" نہیں رہے بلکہ وہ اب "ضیاع الدین" بن گئے ہیں۔

اپنی عزت و آبرو ، مقام و مرتبہ ، دین ، نسبت اورمحبت رسول ؐ کو بیچ دیا ہے۔ مغرب و یورپ کے ہاتھوں بک گئے ہیں۔ ملالہ ، اہل و عیال اور اپنی ذات کو فروخت کردیا ہے۔ آنے والا دور اس صورتِ حال کو مزید واضح کردیگا۔

بقول شاعر

 ایک بار بکے دوباربکے کہتے ہیں کہ سو سو بار بکے بکے

کچھ لوگ سربازار بکے اور کچھ لوگ پس دیوار بکے

ملالہ تعلیم کے فروغ کی بات کررہی ہے کہ نہ صرف تعلیم کا حق لڑکوں کو دینا چاہے بلکہ یہ لڑکیوں کا بھی حق ہے کہ ان کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کیا جائے۔ اس فکر اور اس مقصدِ وحید کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ قابل تحسین عمل ہے۔
راقم الحروف ملالہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہے لیکن۔۔۔لیکن۔۔ لیکن جو باتیں اسلام ، خاتم النبیین محمد ؐ اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے کہیں گئیں ہیں وہ قابل افسوس ، قابل تنقید ، و تنقیص اور قابل مذمت ہے۔ ملالہ کی شخصیت و حیثیت کے فوائد و ثمرات کم ، نقصانات اور تباہ کاریاں زیادہ ہیں۔ لہذا ملالہ کی مثال شراب کی طرح ہے کہ اس کے فوائد و ثمرات کم اور نقصانات و تباہ کاریاں زیادہ ہیں۔

اس پورے مضمون کا خلاصہ ، لب لباب اور نچوڑ صرف و صرف مندرجہ ذیل دو جملوں میں ہے۔

بمثل شراب ہے ملالہ

بمثل ابونواس ہے ابوملالہ

بقولِ غالب

؎ ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا

صِلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے

 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post