اسلام کا فلسفہ امن
جارج برنارڈ شا:
مجھے بہت افسوس ہے کہ کچھ مصروفیت کی
وجہ سے گزشتہ رات آپکا لیکچرسننے سے میں
قاصر رہا اور شرکت نہ کرسکا ۔ آپ نے اپنے خطاب میں اسلام کے " فلسفہ
امن " پر گفتگو فرمائی جبکہ ایک مسلمان ہوتے ہوئے یہ زیادہ بہترہوتا اگر آپ اسلام کے " فلسفہ جنگ
پر"گفتگو فرماتے ،کیوں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام تلوار کی زور پر پھیلا ہے ۔
عبد العلیم صدیقی :
اسلام کے متعلق یہ عام غلط فہمی ہے جسکو میں گزشتہ شب سے سلجھانے میں مصروف ہوں اور میں
واقعی حیران ہوں کہ یہ خیالی افسانہ جو کہ پوری طرح پھٹ کے اب سامنے آچکا ہے ۔
آپ جیسی علمی شخصیت کی توجہ خاص میں تو ضرور آنا چاہیے ،پھر بھی میں آپ کو
مختصراً بتادوں کے لفظ "اسلام" کا ہی لغوی معنی ہی "امن " ہے
اسلام کی تعلیمات کا مستند رکارڈ اپنی اصل پاکیزہ حالت میں بعینہ قرآن و حدیث میں محفوظ ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اسلام نے تلوار کی اجازت
بھی دی ہے مگر یہ اجازت صرف اسی وقت دی ہے جب اسلام بلاوجہ مظلوم ہوکر دشمنوں کی
زد میں آجائے اور اپنا دفاع کرنے کے لیے مجبور ہوجائے وگرنہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا
یہ حکم بالکل واضح ہے۔
"لا
اکراہ فی الدین " ترجمہ: اسلام میں کوئی جبر نہیں ۔
دین کے معاملے میں واضح طور پر جبر کو منع فرما دیا گیا ہے اور میں بتقاضائے حق اصل عیساییت کی
تعلیمات کے تعلق سے یہی ثبوت پیش کرتا ہوں ۔ہمارے شعور اور قوت استدلال سے پتہ
چلتا ہے کہ اگر ان تعلیمات کی آیات ،آیات الہیہ ہیں اور ان کا ظہور آسمانی ہے
تو یہ مذھب کی خاطر کسی بھی طرح کے تشدد کے بل پر تھوپی نہیں سکتیں
بلکہ دلائل اور عقلی مباحث (جو انکا خاصہ ہے) سے اپنی طرف مدعو کرتی ہیں۔
جہاں تک دین اسلام کا تعلق ہے تو قرآن
واضح فرماتا ہے۔
"لِّيَهۡلِكَ مَنۡ هَلَكَ عَنۡۢ بَيِّنَةٍ
وَّيَحۡيٰى مَنۡ حَىَّ عَنۡۢ بَيِّنَةٍ"
ترجمہ: تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل سے ہلاک
ہو اور جو جیے وہ دلیل سے جیے۔
اسلام نے اپنی تبلیغ کے لیے ایک خاص طریقے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے اور یہ وہی طریقہ تھا جس سے اس قدر مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔پوری دنیا میں جو اسلام پھیلا ہے اور تمام ذی شعور طبقات نے اسے جس طرح قبول کیا ہے یہ صرف اور صرف
قرآن کریم کے ارشاد پر مسلمانوں کی استقامت کا ہی ثمر ہے ۔اور وہ ارشاد قرآنی یہ
ہے
اُدۡعُ اِلٰى سَبِيۡلِ رَبِّكَ بِالۡحِكۡمَةِ وَالۡمَوۡعِظَةِ الۡحَسَنَةِ وَجَادِلۡهُمۡ
بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُؕ
ترجمہ : دعوت
دو لوگوں کو اللہ کی راہ کی طرف حکمت اور شاندار نصیحت کے ساتھ اور ان سے اس طریقے
سے بحث کرو جو سب سے زیادہ بہتر ہو
تاریخ اس حقیقت کی گواہی دے رہی ہے کہ سن ۳۲۵عیسوی میں قسطنطین کے بادشاہ
نیقیہ نے کونسل منعقد کروائی تھی ،اس کونسل میں حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کی عین ذات قرار دیا گیا تھا
اور مسیح کی الوہیت پر ایمان لانے کے لیے
پر زور طریقے سے کوشش کی گئی تھی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صرف یورپ کے ہی نہیں بلکہ مقدس یروشلم کے عیسائیوں نے بھی اس عقیدے
کو ماننے سے انکار کردیا تھا ۔جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہوں کا نہایت ہی
بھیانک اور غیر انسانی طریقے سے قتل عام ہوا تھا ۔
لیکن بایں ہمہ مشاہدات میں کبھی بھی عیسائیت کی اصل روح کو اسکا ذمہ دار نہیں ٹھہراونگا اس کے بر عکس
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ چرچ کے نمائدہ حضرات تھے جو اپنی عظمت اور قوت کے زور پر لوگوں کے دلوں
کو مسخر کرکے اپنے پادریانا اقتدار کو زندہ رکھنا چاہتے تھے ۔
ان کا یہ خواب پوری طرح شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ، اس طرح صلیبی جنگوں کے نام سے
مشہور یہ خون خوار جنگیں باقاعدہ انہی دلچسپ
کلیسائی گروہوں کی دو رخی شاطرانہ سازشوں کا نتیجہ تھیں ۔انہوں نے
محسوس کرلیا تھا کہ اسلام کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت والی غیر مصلحانہ
تبلیغ ان کے راستے میں ایک عظیم رکاوٹ بن چکی ہے ۔ اور ان کا خود ساختہ ربانی
اقتدار خطرے میں آچکا ہے اس کے لیے انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک بے
باق مہم کا آغاز کیا ۔مسلمانوں کے ہاتھوں عیسائیوں پر مظالم کی غیر حقیقی کہانیاں سناسنا کر قرون وسطی کے ضعیف
الاعتقاد یورپ کو اسلام اور مسمانوں کے خلاف نام نہاد "مقدس جنگ"چھیڑنے
کے لیے اکسا دیا تھا ،مسمانوں کو کافر اور عیسائی مذہب اس کے پیرو کاروں اور ان کی جائداد کا کٹر دشمن
بناکر پیش کیا ۔اس لیے ظاہر ہے کہ کلیساؤں کی واحد یہی معزز ترین شخصیات ان
خوں ریز طویل اور لا حاصل جنگوں کی زمے دار ہوسکتی ہیں ۔یہ الزام نہیں لگایا جاسکتا کہ ایسا کرنے میں
مذہب عیسائیت یا اسلام کی اصل
تعلیمات کا ر فرما ہیں ۔اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں نے ایسا کیا مزید برآں اگر ہم یہ
کہیں کہ بعض مسلم حکمران اور مسلم قبائل فتوحات کی ہوس میں لت ہوکر حرکت میں آئےاور حملہ آور بن گئے ۔
پھر اسلام کی بعثت کے بعد ایک لمبی مدت تک اپنی عظمت اور ترقی کی سر بلندی و سرفرازی کے لیے برسر پیکار رہے ۔تو ہم بتقاضہ انصاف ان
افراد کی قابل ملامت کاروائیوں کی مذمت کرتے ہیں اور حق بجانب
ہوکر کہتے ہیں کہ یقینا یہ اسلام نہیں ہے ۔ حال ہی میں ڈربن میں ایک تقریر کے
دوران میں نے اس موضوع پر کچھ تبصرہ کیا
چوں کہ وہ براہ راست اس موضوع سے متعلق ہے اس لیے آپ کے لیے میں اسے
دہرادینا چاہتا ہوں "یہ کہتے ہی حضرت نے ایک کتابچہ کا مندرجہ ذیل اقتباس
پڑھا"
اگرتوہمات اور مظاہر پرستی میں ڈوبی ہوئی مذہبی تعلیمات سے
یکسر نابلد بعض قومیں مذہب کے نام پر میدان کارزار میں اتر آتی ہیں ،تو یہ ان
قوموں کا جرم ہے اور مذہب اس الزام سے بالکل بری ہے کیا جنگ عظیم میں امن وانصاف
اور کمزور قوموں کے تحفظ کے حقوق جسے خوبصورت مقصد کے نام پر لاکھوں انسانوں کا
قتل عام نہیں ہوا تھا ؟ تو کیا جن بعض سیاستدانوں نے اپنے خودغرض مقاصد کے حصول کے
لیے ان اصطلاحات کا غلط استعمال کرتے ہوئے نہایت ہی انسانیت سوز قتل عام کا ارتقاب کیا۔کیا
ان کی وجہ سے دوسرے نرم خو، رحم دل،
انسانوں اور ان کے کریمانہ اخلاق کا رد کردینا چاہیے؟
وضاحت و تشریح
اسلام
کا فلسفہ امن
لفظِ اِسلام سَلَمَ یا سَلِمَ سے ماخوذ ہے،
جس کے معنی اَمن و سلامتی اور خیر و عافیت کے ہیں۔ اپنے پيرو كاروں كو
بھى امن وعافيت كى تلقين كرتا ہے۔جو معاشرے (Society) کی اس حالت کا نام ہے جہاں تمام معاملات معمول کے ساتھ بغیر
کسی پر تشدد اختلافات کے چل رہے ہوں۔
مسلمانوں کے لیے امن محض جنگ
یا منظم تشدد کی عدم موجودگی کا نام نہیں ہے۔بلکہ
انصاف کی موجودگی اور ایسے حالات کی تخلیق ہے جہاں انسان اپنی پوری صلاحیتوں کا ادراک
کر سکتے ہیں۔
ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: یا رسول
اﷲ! کون سا اِسلام اَفضل ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا:
مَنْ
سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِّسَانِهِ وَيَدِهِ.
ترجمہ: (اُس شخص کا اِسلام سب سے بہتر ہے) جس کی زبان اور
ہاتھ سے تمام لوگ محفوظ رہیں۔
احمد بن حنبل، المسند، 2: 187، رقم: 6753
امن کے بنیادی عناصر درج ذیل ہیں۔
صداقت اور
ایمانداری:
اسلام میں امن کی بنیاد صداقت اور ایمانداری پر قائم ہے۔ جھوٹ بولنے یا دھوکہ دینے کا عمل نفرت اور جنگ کا باعث بنتا
ہے۔
عدالت:
امن
کی بنیاد انصاف کا فروغ ہوتا ہے۔ جب لوگ اپنے حقوق کی حفاظت کرنے اور انصاف کے اصولوں کا احترام کرنے کے حق
میں یقین رکھتے ہیں تو انفرادی و ماجتماعی ترقی ہوتی ہے۔
تعلیم:
تعلیم معاشرے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے جس
سے افراد میں شعور پیدا ہوتا ہے جو معاشرتی امن اور سکون کا باعث بنتا ہے۔
تشدد کی مخالفت:
اسلام
میں تشدد کی مخالفت کی جاتی ہے اور لوگوں کو بھرپور امن اور تعاون کے لئے مل کر
کام کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
اخلاقیت:
امن کی
بنیاد اخلاقی اصولوں پر رکھی جاتی ہے، اور قرآن میں لوگوں کو اخلاقی اصولوں کا پاس
رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
فلسفہ امن کو محبت، احترام، انصاف، اور تعاون کی روشنی
میں فروغ دینا چاہئے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ امن و سلامتی سے رہیں اور سماجی
ترقی کو ممکن بنایا جا سکے۔
فلسفہ
امن کے معاشرتی نتائج
معاشرتی امن: Social peace
فلسفہ امن کی
تطبیق سے معاشرتی سطح پر امن اور مستقل سلامتی کی حفاظت ممکن ہوتی ہے۔ امن معاشرت
میں تشدد، جرائم اور جنگ کو کم کرتا ہے اور افراد کو باہمی محبت اور احترام کے ساتھ رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اقتصادی ترقی: Economic
development
امن کے موجود ہونے پر اقتصادی ترقی حاصل ہوتی ہے
کیونکہ بلا امن معاشرت میں سرمایہ کاری اور تجارت کا امکان کم ہوتا ہے۔
تعلیم: Education
فلسفہ امن کی
تطبیق سے تعلیم کی روشنی میں ترقی حاصل ہوتی ہے۔ امن میسر ہونے سے تعلیمی ادارے بہترین طریقے سے کام کرتے ہیں اور افراد
تعلیم سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے
معاشرہ کا مفید فرد بننے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سماجی ترقی: Social Development
امن مختلف طبقات
اور معاشروں کے لئے سماجی ترقی کا موجب ہے اور مختلف لوگوں کو ایک ساتھ مل کر کام کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
Post a Comment