محمد شاہد خان

استاذ تقابل ادیان:الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ(کراچی(

اللہ تعالیٰ نے اس بے مثال کائنات کواپنی قدرتِ کاملہ اورحکمتِ بالغہ سے تخلیق فرمایا اور اس شاہکار کائنات کی تخلیق کے بعد انسان کو اس دنیائے فانی میں بھیجا اورا س کی رشد وہدایت کے لئے متعددد انبیاء ورسل علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اوراپنے برگزیدہ انبیاء و رسل کرام علیہم السلام پر کتب و صحائف نازل فرمائے تاکہ ان کی امت اس کتابِ ہدایت سے رہنمائی حاصل کرکے رب کی معرفت حاصل کرسکیں اورجس وقت حضرت آدم علیہ السلام کا اس دنیا میں ہبوط ہوا تو اسی وقت رب تعالیٰ نے اولادِ آدم کے لیے جامع ومانع قاعدہ وکلیہ بیان فرمایا:

''پھر اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے (پیغام) ہدایت تو جس نے پیروی کی میری ہدایت کی انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اورنہ وہ غمگین ہوں گے۔'' (القرآن :سورۃ البقرۃ:٣٨(

یعنی اس آیت مبارکہ میں واضح ترین اشارہ اور حکم صادر فرمایا کہ میری طرف سے جو بھی پیغامِ ہدایت موصول ہو تو اس کی اتباع اور پیروی لازمی کی جائے لہذا اللہ تعالیٰ نے مختلف اوقات میں مختلف اقوام وملل کے پاس اپنے گوناگوں خصوصیات کے حامل انبیاء ورسل کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تاکہ یہ برگزیدہ نفوسِ قدسیہ اللہ کے بندوں کواللہ سے ملانے کا عظیم کام سرانجام دیں پائیں کیونکہ جب ہم تاریخِ ادیان ومذاہب کا بنظرِ غائر مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس دنیا ئے عالم میں مختلف النوع عقائد ونظریات رکھنے والے لوگ نظرآتے ہیں جو کہ وہ مختلف ''پرستشوں'' میں ملوث ہوتے ہیں۔ مذہبی علمِ بشریات کے نقطہ نظر

 (Religious Anthropological view) سے ہر معاشرے میں لوگ اپنے علاقائی خدوخال اورتہذیب وتمدن کے مطابق مظاہر پرستی (Nature Worship) میں گرفتار ہوتے ہیں۔

کوئی قوم سورج کو سب سے بڑادیوتا تسلیم کرتی ہے تو کوئی قوم چاند کو سب سے بڑا خدا مانتی ہے۔ کوئی قوم ستاروں وسیاروں کو خدائی درجہ دے بیٹھے ہیں تو کوئی شجر وحجر ،بحرو بر ،پہاڑوں ،جانوروں،پرندوں ،درندوں،چرندوں یعنی ہر شے میں خدا کے حلول (Incarnation) کو تصور کرتے ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی کامل رہنمائی کے لئے اپنے پسندیدہ بندوں کو منتخب فرمایا تاکہ ان لوگوں کو ''صراطِ سقیم''سے نکال کر''صراطِ مستقیم'' کی طرف رہنمائی کی جائے اور مجموعی پر ''ظلمات '' سے نکال کر اصل''نور'' کی طرف مائل وقائل کیا جائے جس کے بارے میں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے:

''الف ۔لام ۔میم۔را۔ یہ (عظیم الشان) کتاب ہے ہم نے اتارا ہے اسے آپ کی طرف تاکہ آپ نکالیں لوگوں کو (ہر قسم کی) تاریکیوں سے نورِ(ہدایت و عرفاں) کی طرف۔ ان کے رب کے اذن سے (یعنی) عزیزوحمید کے راستے کی طرف۔'' (القرآن :سورۃالحجر:١)

ایک اورمقام پراللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:''دکھاتاہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ انہیں جو پیروی کرتے ہیں اس کی خوشنودی کی، سلامتی کی راہیں،اورنکالتا ہے انہیں تاریکیوں سے اجالے کی طر ف اپنی توفیق سے اوردکھاتا ہے انہیں راہِ راست۔'' (القرآن :سورۃ المائدۃ:١٦)

یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے اور دیگر بے راہ روی کی چیزوں سے منہ موڑ کر راہ درست پر آیاجائے اورتاریکیوں کے چنگل سے نکل کر روشنی کی شاہراہ پر قدم رکھاجائے تاکہ انسان منزلِ مقصود کوپاسکے۔اللہ تعالیٰ نے اس انسان کی ہدایت کے لئے متعدد انبیاء کرام مبعوث فرمائے اوراس دور کی امت کی رہنمائی اورہدایت کے لئے الہامی کتب وصحائف نازل فرمائے جو صرف اسی دور کی امت کے لئے خاص تھے۔ یعنی توریت ،زبور، انجیل جو نبیوں پر نازل کی گئی تو صرف اسی خاص دور کے لئے ہدایت کا سرچشمہ تصور کی جاتی ہےں۔ پھر رب تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب بنام قرآن پاک نازل فرمایا جو حضرت محمد ؐ پر نازل ہوا آپ ؐ جو کہ خاتم النبیین کے تاج سے سرفراز کیے گئے لہذا آپ پر نازل ہونے والی کتاب بھی قیامت تک آنے والی تمام قوموں اورلوگوں کے لئے ہے۔ اس میں امتِ دعوت کے لئے ہدایت ہے اورامتِ اجابت کے لئے بھی ہدایت کا خزینہ ہے اورماضی میں ترقی وفلاح وبہبود پانے والی قوموں کا بھی ذکر خیر ہے اوران کے زوال کے اصل اسباب بھی وضاحت سے بیان کئے گئے ہیں۔ یعنی عروج وزوال کا فلسفہ واضح طور پر ذکر کیاگیاہے کہ جو قومیں اپنے خالقِ کائنات کی اطاعت کرتی ہےں وہ فلاح پاجاتی ہےں ورنہ ان کو عبرت ناک انجام کا سامنا کرناپڑتاہے۔ دین اسلام انسانیت کو راہ راست پرلانے اور ان کے مسائل حل کرنے کا داعی ہے لہذا قرآن پاک ایک ایسی غیر محرف ،ترمیم واضافہ سے پاک کتاب ہے کہ جس طرح یہ کتاب نازل ہوئی تھی اسی طرح اپنی اصل حالت میں موجودہے اور نوعِ انسانیت کے گھمبیر مسائل کا کافی و شافی حل پیش کرتاہے اللہ تعالیٰ اس بے مثال خوبیوں کی حامل کتاب کے بارے میں فرماتاہے:

اے لوگو! آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے پروردگار کی طرف سے اور(آگئی ہے)شفا ء ان لوگوں کے لئے جو سینوں میں ہیں اور(آگئی ہے) ہدایت و رحمت اہل ایمان کے لئے۔ (القرآن :سورۃ یونس:٥٧)

اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یہ ایک بیان ہے لوگوں (کے سمجھانے) کے لئے اور ہدایت اور نصیحت ہے پرہیزگاروں کے واسطے۔(القرآن :سورۃ آل عمران:١٣٨)

بلاشبہ پہلی قوموں (کے عروج و زوال کی داستانوں میں (درس) عبرت ہے سمجھ داروں کے لئے۔ نہیں ہے یہ قرآن ایسی بات جو کہ (یونہی) گھڑلی گئی ہو بلکہ یہ تصدیق کرتی ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں اور یہ (قرآن) ہر چیزکی تفصیل ہے اورسراپا ہدایت و رحمت ہے اس قوم کے لئے جو ایمان لاتے ہیں۔ (القرآن :سورۃ یوسف:١١١)

قرآن پاک رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں نازل فرمایا گیا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

ماہ رمضان (المبارک) جس میں اتاراگیا قرآن اس حال میں کہ یہ راہ حق دکھاتا ہے لوگوں کو اور (اس میں) روشن دلیلیں ہیں ہدایت کی اورحق و باطل میں تمیز کرنے کی۔ (القرآن :سورۃ البقرۃ:١٨٥)

اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں قرآن پاک کی نہ صرف زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنی چاہئے بلکہ اس کتاب ہدایت ورحمت سے اپنے شب و روز اسلامی تعلیمات واحکامات کے مطابق ڈھالنے کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہئے۔ اس کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ دین اسلام تمام تر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق جامع رہنمائی فرماتاہے۔ مذہبی، جسمانی ، روحانی ،اخلاقی،تعلیمی ،معاشی ،معاشرتی ،سیاسی ،سماجی ،سفارتی،عسکری اورجمالیاتی حس (Aesthetical Sense) کے بارے میں ہدایت اورلائحہ عمل (Line of Action) فراہم کرنے کی بھرپور صلاحت رکھتاہے اورہر شے کا ذکرِ خیر قرآن پاک میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اورہم نے اتاری ہے آپ پر یہ کتاب اس میں تفصیلی بیان ہے ہر چیز کا اور یہ سراپاہدایت ورحمت ہے اور یہ مژدہ ہے مسلمانوں کے لئے (القرآن :سورۃ النحل:٨٩)

لہذا قرآن پاک کا زیادہ سے زیادہ فہم حاصل کیاجائے۔ اس کی شب وروز تلاوت کی جائے تاکہ دین وآخرت میں کامیابی و کامرانی ہمارا مقدر بنے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بروز قیامت حضرمحمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ خاتم النبیین ؐ رب کی بارگاہ میں عرض کریں گے۔

اور رسول عرض کرے گا میرے رب! بلاشبہ میری قوم نے اس قرآن کو بالکل نظرانداز کردیاہے۔ (القرآن :سورۃ الفرقان:٣٠)

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن پاک کی تلاوت اوراس کا فہم حاصل کرنے کے بعد شاہراہ زندگی پر لاگوکیاجائے۔یہی قرآن پاک کا اولین مقصد ہے ۔ بقول شخصے

Holy Quran is for self, not for shelf.

 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post