موت کیا ہے؟ہزاروں نے اس پر گفتگو کی ہوگی، اپنی آرائیں پیش کی ہوں گی۔

سقراط نے کہا

Separation of a soul from the body either for long sleep or travelling to another world that is heaven.

کسی نے کہا یہ اختتام زندگی ہے، کسی نے کہا ظاہری شکل وہیئت میں   مادہ کا قالب(تبدیل ہونا) ہے۔ کسی نے  کہاکہ  زندگی عناصرمیں ترتیب کا نام ہے جب یہ نظم ٹوٹ جائے یہ ترتیب بکھرجائے تو یہ انسان کا اختتام ہے۔بقول  چکبت برج نارائن

زندگی کیا  ہے عناصرمیں ظہورترتیب

موت کیاہے انہی اجزا کاپریشاں ہونا

جب عناصر ترتیب پاجائیں عناصر اربعہ توزندگی ، ویسے تو سائنسی ترقی نے انسانی جسم میں عناصر اور بھی دریافت کئے ہیں  اب جدید تحقیق نے اور بھی عناصر کا مسلمہ ثبوت دیا ہے لیکن یہی ترتیب یافتہ وجود جب منتشر ہوجائے تو اسی کا نام موت ہے جب ترتیب میں ہوں تو زندگی ہے اور بکھر جائیں تو موت۔اجزائے منتشر،آنکھ،ناک،کان، پوراجسم بکھرگیا۔

 اے چلنے والے اگر توکسی پرانے قبرستان سے گزرے تو آہستہ پاؤں رکھ کیوں کہ تیری انہی پاؤں کے نیچے پیارے پیارے لب،رخسار،چہرے ہیں لیکن آج زمین نے ان کو منتشرکردیئے،اس لئے تو عاجزی سے آہستہ آہستہ چل،


میرے نزدیک

1۔ موت حکمنامہ کی واپسی ہے۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم واپس لے لیا وہ اور حکم کیا تھا وہ روح تھی۔ انسان کی روح کے جسم سے نکلنے کے بعد اگروہ جسم  صحیح سالم ہی کیوں نہ ہو لیکن حکمنامہ واپس لے لیاگیا تو پھر یہ بے جان لاشہ میں تبدیل ہوجائے گا۔

2۔دوست  کا پیغام ہے (لیکن اگر نافرمان ہوگا تو اس کے لئے منتقم  کا پیغام ہے)

دل  کو  سکون ،  روح  کو  آرام آگیا

موت آگئی کہ دوست کا پیغام  آگیا                                (جگر)

واقعی یہ موت نہیں دوست کا پیغام تھا ۔یہ جدائی نہیں دوست سے  وصال  کا وقت تھا ۔

3۔یہ دنیاوی  زندگی کی شام ہے اور اخروی زندگی کی صبح ہے

دنیا میں دو قسم کے افرادپائے جاتے ہیں ۔ ایک وہ جووقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور ، ناتواں اور بے قیمت ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ارذل العمر کو پہنچ جاتے ہیں اور موت ان کو  اپنی گرفت میں لے کرگمنامی کی وادی میں پھینک دیتی ہے جس کے بعد ان کا اس دنیا سے نام و نشان مٹ جاتاہے۔دوسرا  گروہ ان افراد پر مشتمل ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دانائی، حکمت ، علم، فہم ، فراست اور تدبر میں اضافہ ہوتارہتا ہے یہاں تک وہ اس دنیا سے رحلت (سفر) کرنے کے باوجود مثلِ آفتاب و ماہتاب نمایاں، چمکدار اور روشن رہتے ہیں ۔ جن کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی۔یعنی کہ موت بھی ان کی شہرت کو کم نہ کرسکی بلکہ ان کو دوام اور ابدیت عطاکرجاتی ہے۔بقول شاعر

موت کو سمجھے ہے غافل اختتام زندگی

ہے  یہ  شامِ  زندگی  صبحِ  دوام زندگی

 موت کیا ہے؟ایک مکالمہ

جابر بن حیان (فادر آف کیمسٹری) نے حضرت امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا: ” اے استاد مُکرم ، اے فرزندِ رسولؑ ، یہ تو بتائیے کے موت کیا ہے؟

امام ؑ نے فرمایا: جابر سمجھ سکتا ہے؟

جابر نے کہا جی مولا ؑ اگر آپ اہل سمجھیں تو سمجھائیں ،

امام ؑ نے فرمایا :

"جابر غور سے سُن اور سمجھ جب تو شکمِ مادر میں تھا تو تاریک پردوں میں رہتا تھا وہ بہت چھوٹا سا جہاں تھا تب جابر تو نے اِس جہاں کی وسعت اور روشنی دیکھی نہیں تھی

لیکن تو اُس تاریک جہاں میں بہت خوش تھا تب تو اُس جہاں سے کسی اور جگہ جانا نہیں چاہتا تھا کیوں کہ تو نے اُس سے بڑا جہاں دیکھا نہیں تھا یہی سبب ہے کہ تو نے اِس جہاں میں آتے ہی رونا شروع کر دیا تھا

کیوں کہ تو سمجھ رہا تھا کہ میں مر رہا ہوں لیکن یہاں والے خوش تھے کے تو اُس جہاں میں پیدا ہو رہا ہے۔ یہی ہوگا جب تو یہ جہاں چھوڑ کر اگلے جہاں جائے گا وہاں والے خوش ہوں گے کہ جابر پیدا ہو رہا ہے یہاں والے رو رہے ہوں گے کے جابر مر رہا ہے ،

امامؑ نے فرمایا جابر جِسے دنیا پیدائش کہتی ہے وہ اصل میں موت ہے اور جسے دنیا موت کہتی ہے وہ اصل میں پیدائش ہے ۔





4۔ یہ ایک دروازہ ہے

یہ ایک ایسا دروازہ ہے جس سے ہر ایک نے گزرنا ہے۔ ناگواری ، ناراضگی، افسردگی وغیرہ اس سے بچا نہیں سکتی۔ہر شخص لمحہ بہ لمحہ اس کی جانب بڑھ رہا ہے۔   آو خوشی خوشی اس کی طرف بڑھیں اور جب اسے گلے لگانے کا وقت ہو تو یہ صدا سنائی دے۔

يَآ اَيَّتُـهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّـةُ (27) اِرْجِعِىٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً (28) فَادْخُلِىْ فِىْ عِبَادِيْ (29) وَادْخُلِىْ جَنَّتِيْ (30)(سورۃ الفجر)

(ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح۔ اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے بندوں میں شامل ہو۔ اور میری جنت میں داخل ہو۔

قابل غور:کیا مرنے کے بعد انسان کا قرابت داروں سے تعلق رہتاہے

جی ہاں، اس روح کے جسم سے نکلنے کے بعد اپنے تعلق والوں (اہل قرابت ،متعلقین) سے تعلق رہتاہے۔وہ ان کے بارے میں فکرمند بھی ہوتی ہے۔

قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ط قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ۔ بِمَا غَفَرَلِيْ رَبِّيْ وَجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُکْرَمِيْنَ۔

حکم ہوا کہ بہشت میں داخل ہوجا،بولا کاش میری قوم کومعلوم ہوجاتا(کہ مجھے ایمان کا کیاحسین صلہ ملا) کہ میرے رب نے مجھے بخش دیااورمجھے عزت دی والوں میں شامل فرمایا(مومن زندگی میں بھی لوگوں کا خیرخواہ ہوتاہے اپنے رب پاس پہنچ کر اس کی خیرخواہی اوربڑھ جاتی ہے۔( سورہ یٰس:26،27،ترجمہ فیوض القرآن،ڈاکٹرسید حامد حسن بلگرامی)

جیسا کہ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اس کی صراحت موجود ہے کہ مرنے کے بعد بھی انسان(نیکوکارمومن)  اپنے متعلقین کی نجات اورہدایت کامتمنی ہوتاہے۔

اور اسی لئے تو ان سے کہا جارہاہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰۤئِکَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ۔ نَحْنُ اَوْلِيَاؤُکُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ  وَلَکُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْۤ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلاً مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ ۔(سورۃ حم السجدہ:30-32)

جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا ہی ہے  پھر وہ اس پر قائم رہے( ایمان اورنیک اعمال صالحہ پر قائم رہے) ان پر فرشتے اتریں گے (موت کے وقت اورکہیں گے) نہ خوف کرو(موت اس کے بعد پیش آنے والے واقعات پر) نہ غمناک ہو (جو دنیا میں تم پیچھے چھوڑ کر جارہے ہو اولاد ،مال  ودیگر اشیاء ان کی فکر نہ کرو بے شک اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے ان کی حفاظت کرے گا) اوربہشت کی جس کا تم سے  وعدہ کیاجاتاہے خوشی مناؤ، ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے (تمہاری حفاظت اور تمام ضروریات کے کفیل تھے) اورآخرت میں بھی تمہارے رفیق ہیں(تمہارے ساتھ رہیں گے یہاں تک کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤاورجنت میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گے) اور وہاں جس نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گی (جنت میں جس نعمت کی انسان خواہش کرے گا وہ اسے فوراً مل جائے گی)اورجوچیز طلب کرو گے تمہارے لئے موجود ہوگی۔خدا غفور رحیم کی طرف سے مہمان نوازی ہوگی(یہ سب عنایات  اللہ عزوجل کی جانب سے، نیز ان پاکیزہ نفوس کومہمان نوازی کاشرف  بھی بخشاجارہاہے)۔

"یہ اللہ کے نیک بندے اس وقت بھی اپنے مقصد ،اصلاح احوال اورپیچھے رہ جانے والے افراد(امت مسلمہ) کے ایمان اورجان کی حفاظت،اپنے قائم کئے گئے اداروں ،مساجد اوردیگر متعلقہ چیزوں کی فکر میں مبتلاء ہوں گے لیکن اللہ رب العزت کی طرف سے انہیں خوشخبری دی گئی ہے کہ تمہیں ان تمام امور پر فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اللہ رب العزت  کی ذات ہمیشہ  باقی رہنے والی ہے۔ اوروہ  ان تمام کی تمام ضروریات کی کفیل اورمحافظ ہے۔اس سے وہ شخص شاداں وفرحاں اپنی جان جان آفریں کے سپردکردیتاہے۔"(مفہوماً:دلیل الفالحین،علامہ محمد بن علان الصدیقی الشافعی،ج2،ص37)

آخر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک قول پیش ہے:

''اس شخص کو کبھی موت نہیں آتی جو علم کو زندگی بخشتاہے''۔

بحیثیت مسلمان ہم یہ تو مانتے ہیں کہ موت ضرور آئے گی تو کیوں نہ اس سے فرار کے بجائے اس کے لئے تیاری کریں، اپنی زندگی کو قیمتی بنائیں  تاکہ یہ موت کے دروازے سے شاداں و فرحاں گزرجائے اوراسے کبھی فنا نہ ہو۔ 


یہاں موت سے متعلق کچھ مزید سوالات و جواب پیش خدمت ہیں

موت ایک اٹل حقیقت ہے ۔ قرآن کریم میں موت کے حوالے سے اللہ ر العزت کے کیا ارشادات ہیں؟

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اس دارِفانی میں انسان کی زندگی بہت مختصر اور اس کے مال واسباب سے لطف اندوزی محض ایک مقررہ مدت تک کے لیے ہے۔ اسے ایک نہ ایک دن موت سے دوچار ہونا، یعنی اس دنیا سے رخصت ہوناہے ۔ اللہ رب العزت نے اولین انسان حضرت آدمؑ  و حضرت حوا ؑ کو زمین پر اتارتے ہی یہ اٹل حقیقت ان کے سامنے واضح کردی تھی اور گویا ان کے واسطے سے پوری بنی نوع انسان کو اس سے با خبر کر دیا تھا ۔ارشادِ الٰہی ہے :

وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُّسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ ( البقرۃ۲:۳۶)

اور تمھارے لیے زمین میں ٹھکانا اور ( یہاں کے) متاع سے نفع اٹھانا ہے ایک خاص مدت تک کے لیے۔

 یعنی آدم و حوّا علیہما السلام کو یہ بھی ارشاد ہوا کہ تم کو زمین پر کچھ عرصہ ٹھیرنا ہے اور ایک میعاد معین تک کام چلانا ہے،یعنی زمین پر جاکر دوام نہ ملے گا ، کچھ مدت کے بعد یہ گھر چھوڑنا ہوگا۔

اس مسلّمہ حقیقت پر روزمرہ کی واقعاتی شہادتوں کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ موت کا آنا اس قدر یقینی ہے کہ قرآن نے اسے ’ الیقین‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ربّانی ہے:

 وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ (الحجر۱۵:۹۹)

اور امر یقینی( یعنی موت ) کے آنے تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو۔

یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ انسان کو روزانہ نیند کی صورت میں موت یاد دلائی جاتی ہے۔ رات میں سونے کو اس پہلو سے موت سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس حالت میں اللہ رب العزت کے حکم سے انسان کے ہوش و حواس،فہم و ادراک عارضی طور پر معطل کر دیے جاتے ہیں اور ظاہری طور پر اس پر موت طاری کردی جاتی ہے ۔ غالباً اسی وجہ سے بعض علما نے نیند کے لیے ’ وفاتِ صغریٰ‘ اور موت کے لیے ’ وفاتِ کبریٰ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ اس باب میں سب سے اہم رہنمائی قرآن کریم سے ملتی ہے جس میں نیند اور موت کے تعلق کو اور روز انہ موت کی یادہانی کو اس طور پر بیان کیا گیا ہے :

اَللہُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِہَا ۰ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْہَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ(الزمر۳۹: ۴۲)

 اللہ ہی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی ہے ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں، تو جن کی موت کا فیصلہ کر چکا ہو تا ہے ا ن کو تو روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک وقت ِ مقرر تک کے لیے رہائی دے دیتا ہے۔ بے شک اس کے اندر بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیےجو غور کرتے ہیں۔

اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ ہر انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ موت او رزیست کس طرح اس کےدستِ قدرت میں ہے۔ کوئی شخص یہ ضمانت نہیں رکھتا کہ رات کو جب وہ سوئے گا تو صبح کو لازماً زندہ ہی اٹھے گا۔کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ اس پر کیا آفت آسکتی ہے اور دوسرا لمحہ اس پر زندگی کا ہوتا ہے یاموت کا۔ہر وقت سوتے میں یا جاگتے میں،گھر بیٹھے یا کہیں چلتے پھرتے آدمی کے جسم کے اندر کوئی اندرونی خرابی یا باہر سے کوئی نامعلوم آفت یکایک وہ شکل اختیار کرسکتی ہے جو اس کے لیے پیامِ موت ثابت ہو۔

نیزاس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ بتلایا ہے کہ جان داروں کی اَرواح ہر حال، ہر وقت اللہ تعالیٰ کے زیرِتصرف ہیں۔وہ جب چاہے ان کو قبض کرسکتا ہے اور واپس لے سکتا ہے اور اس تصرفِ خداوندی کا ایک مظاہرہ تو ہر جان دار روزانہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ نیند کے وقت اس کی روح ایک حیثیت سے قبض ہو جاتی ہے،پھر بیداری کے بعد واپس مل جاتی ہے، اور آخر کار ایک وقت ایسا بھی آئے گاکہ بالکل قبض ہوجائے گی،پھر واپس نہ ملے گی۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهَى(النجم : 42)

 اور بیشک تیرے رب کی طرف ہی (ہر چیز کی)انتہا ہے۔

 پاک ہے وہ ذات جس نے تمام دلوں کےلیے مصروفیات، ہر ایک کے دل میں تمنائیں اور سب کے لیے عزم و ارادہ پیدا کیا، وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرتا اور جو چاہے نہیں کرتا ، اللہ تعالی کی مرضی اور ارادہ سب پر بھاری ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

فرمانِ باری تعالی ہے:

كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ(الرحمن: 26- 27)

 اس دھرتی پر موجود ہر چیز فنا ہو جائے گی (26) صرف تیرے پروردگار کی ذات ِ ذوالجلال و الاکرام باقی رہے گی۔

موت اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ، موت سے اللہ تعالی کی قدرت اور تمام مخلوقات پر اس کا مکمل تسلط عیاں ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ(الأنعام: 61)

اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تمھارے کسی ایک کو موت آتی ہے اسے ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔

موت اللہ تعالی کی طرف سے عدل پر مبنی ہے، چنانچہ تمام مخلوقات کو موت ضرور آئے گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ(العنكبوت: 57)

 ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، پھر ہماری طرف ہی تمھیں لوٹایا جائے گا۔

موت کو کوئی دربان روک نہیں سکتا، کوئی پردہ اس کے درمیان حائل نہیں ہو سکتا، موت کے سامنے مال، اولاد، دوست احباب سب بے بس ہوتے ہیں، موت سے کوئی چھوٹا، بڑا، امیر، غریب، با رعب یا بے رعب کوئی بھی نہیں بچ سکتا، فرمانِ باری تعالی ہے:

أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ(النساء: 78)

 تم جہاں بھی ہو گے تمہیں موت پا لے گی چاہے تم پختہ قلعوں میں ہی کیوں نہ ہو 

انسان دنیاوی زندگی کی گہماگہمی اورمصروفیات میں موت کو بھول جاتاہے ۔ وہ کون سے عوامل ہیں جو موت کی یاد کو پختہ کرنے میں مفید ثابت ہوتے ہیں؟

 حقیقت یہ کہ موت کسی کی بھی ہو وہ باعث عبرت و سبق آموز ہوتی ہے ۔موت کو ہمیشہ یاد کرنے والا انسان دنیا وآخرت دونوں میں کامیاب ہوتا ہے۔موت کی یاد نفسانی خواہشات کو ختم کر دیتی ہے،غفلت کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک دیتی ہے،دل کو اللہ کے وعدے کے ذریعہ طاقت بخشتی ہے،انسان کے مزاج کو نرم کرتی ہے،حرص کی آگ کو بجھا دیتی ہے،اور دنیا کو حقیر دکھاتی ہے۔     ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کا ایک مجلس سے گزر ہوا جہاں سے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھی سرکار دوعالم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ!     اپنے مجالس میں لذتوں کو ختم کر نے والی چیز کا تذکرہ شامل کر لیا کرو:صحابۂکرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ! یا رسول اللہ !لذتوں کو ختم کرنے والی چیز کیا ہے؟آپ نے فرمایا!لذتوں کو توڑنے والی چیز موت ہے اس کو یاد کر لیا کرو۔(ترمذی شریف)

موت کی یاد میں حکمت:

موت کی یاد دنیوی زندگی کے عارضی و فانی ہونے کے علاوہ ایک دو نہیں، بہت سے دیگر حقائق کی یاد دہانی کا ذریعہ بنتی ہے ، بعد کے مراحل یاد دلاتی ہے اور نہایت قیمتی اسباق ساتھ لاتی ہے ۔ قرآن کریم و حدیث دونوں میں یہ حقائق انسان کی عبرت کے لیے بڑی تفصیل سے واضح کیے گئے ہیں ۔ قرآن کی نظر میں موت کو یاد کرنا کس قدر اہم ہے،  اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ صرف لفظ ’ موت‘ ۵۰ سے زائد آیات میں مذکور ہے اور اس سے ماخوذ یا اس پر مبنی الفاظ (افعال و اسماء) اس کے علاوہ ہیں جو سیکڑوں بار قرآن میں آئے ہیں۔ یہاں اس نکتے کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں موت کے ذکر کے ساتھ ا س کے بعد کے مراحل بھی یاد دلائے گئے ہیں۔ ا ن میں اہم ترین و قابلِ تذکیر یہ ہیں: بعث بعد الموت، اللہ رب العزت کے حضور حاضری، اعمال کے بارے میں باز پرس ، نتیجہ یااعمال نامہ کا ہاتھ میں آنا اور اسی کے مطابق جزا کا نصیب ہونا یا سزا سے دوچار ہونا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ’’ہر شخص کو ایک نہ ایک دن موت کا مزا چکھنا ہے‘‘۔ اس حقیقت کو قرآن مجید کی تین آیات (اٰل عمرٰن۳:۱۸۵، الانبیاء۲۱:۳۵، العنکبوت۲۹: ۵۷) میں یاد دلایا گیا ہے ۔ یہ آیات ملاحظہ ہو ں ۔ ارشاد ِالٰہی ہے:

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ ۰ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ ۰ۭ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ (اٰل عمرٰن:۱۸۵) ہرشخص کو موت کا مزا چکھنا ہے اور یقین (کرلو کہ) تم سب یومِ قیامت پورا پورا اجر پائو گے، پس جوشخص جہنم کی آگ سے بچالیا گیا اورجنت میں داخل کیا گیا وہ در اصل کامیاب ہوا ۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ ۰ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَۃً ۰ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ (الانبیاء ۲۱:۳۵)

ہر شخص کو موت سے دوچار ہونا ہے اور ہم تم کو برے و اچھے حالات سے آزماتے ہیں،آخر کار ہمارے ہی پاس تم سب کو لوٹ کر آنا ہے۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ ۣ ثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ ۔ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّہُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۰ۭ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ ۤۖ (العنکبوت:۵۷-۵۸) ہر شخص کو موت کا مزا چکھنا ہے، پھر تم سب ہماری طرف لوٹائے جائو گے، اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارت میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوںگی، اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔کیا ہی عمدہ اجر ہے (نیک) عمل کرنے والوں کے لیے ۔

موت کو کثرت سے یاد کرو:

اس میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں کہ موت کی یاد انسان کو غفلت سے بیدار کرتی ہے اور آخرت کی تیاری کی زبردست تحریک پیدا کرتی ہے۔ موت کی یاد انسان کو فخر و مباہات، تکبر و غرور اور عیش و عشرت سے بھری زندگی سے دور رکھتی ہے اور اس کے اندر یہ احساس بیدار کرتی ہے کہ آخر کار اس دارِ فانی سے کوچ کرتے ہوئے سب کچھ ( آل و اولاد، مال و دولت، ساز وسامان، عہدہ و منصب) چھوڑ کر جانا ہے تو ان فانی چیزوں پر فخر و غرور اور اترانے کے کیا معنی؟ دنیا کے لوگوں اور دنیا کے ساز وسامان پر بھروسا کس کام کا ہے؟

موت کی یاد کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے اسے محض یاد کرنے کی نہیں،بلکہ کثرت سے یاد کرنے کی ہدایت دی ہے اور اسے دنیا کی لذّات کو ختم کرنے والی، یعنی ان کے غلط اثرات سے انسان کو محفوظ رکھنے والی شے سے تعبیر کیا ہے۔

 ارشادِ نبویؐ ہے:

اَکْثِرُوْا ذِکْرَھَا ذِمِ اللذَّاتِ یَعْنِی الْمَوْتِ (سنن ابن ماجہ ،باب الزہد،باب ذکر الموت ، حدیث:۴۲۵۶)

 لذتوں کو ختم کرنے والی، یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو۔

جنازہ وتدفین میں شرکت کی تاکید:

 موت کو یاد کرنے کے علاوہ وفات پانے والوں کے اولین مسکن ( قبر) پر حاضری اور ان کے ذکر ِ خیر میں بھی بڑی عبرت و نصیحت ہے۔ کسی کی وفات پر جنازہ و تدفین میں شرکت کے علاوہ عام حالات میں بھی قبروں کی زیارت یا قبرستان میں حاضری کے فضائل و برکات احادیث میں بیان کیے گئے ہیں۔ ایک حدیث میں حضرت براء ابن عازبؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع کیا ہے۔ جن سات کاموں کا حکم دیا گیا ان میں دوسرا حکم ہے: جنازہ کے ساتھ پیچھے پیچھے جانا۔

اَمَرَنَا النَّبِیُّ بِسَبْعٍ وَنَھَانَا عَنْ سَبْعٍ۔ اَمَرَنَا بِاتِّبَاعِ الْجَنَازَۃِ وَعِیَادَۃِ الْمَرِیْضِ وَ اِجَابَۃِ الدَّاعِیْ وَ نَصْرِ الْمَظْلُوْمِ وَ اِبْرَارِ الْقَسَمِ وَ رَدّ السَّلَامِ وَ تَشْمِیْتِ الْعَاطِسِ (بخاری،کتاب الجنائز، باب الامر باتباع الجنائز )

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں بھی کسی مسلم کے جنازہ کے پیچھے چلنے اور نمازِ جنازہ میں شرکت کی بڑی فضیلت و برکت بیان کی گئی ہے۔۷ اس میں شبہہ نہیں کہ جنازہ میں شرکت ، قبرستان میں حاضری اور وفات پانے والوں کے لیے دعاے مغفرت اہلِ ایمان کے باہمی حقوق میں شامل ہے اور باہمی اخوت و قرابت اور انسانی رشتوں کی پاس داری کے تقاضوں میں سے بھی ہے ۔ یہ اعمالِ حسنہ بھی نبی کریم ﷺ کے معمولات میں سے تھے، بلکہ یہاں تک روایت ہے کہ ایک دفعہ کسی وجہ سے آپؐ کو ایک شخص کی وفات کی اطلاع نہیں دی گئی، بعد میں لوگوں سے ان کا حال معلوم کرنے پر جب ان کی وفات کی خبر ملی تو آپؐ نے ان کی قبر دریافت کی، وہاں تشریف لے گئے اور نماز جنازہ ادا کی۔۸ اس کے علاوہ متعدد احادیث میں جنازہ و تدفین میں شرکت کی ترغیب دی گئی ہے۔

زیارتِ قبور اور تذکیر موت:

، قبر ستان میں داخل ہونے، نمازِ جنازہ ادا کرنے اور قبر میں مٹّی ڈالنے کے وقت کی جو دعائیں مسنون ہیں ان سب کے الفاظ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ ان سب سے کسی نہ کسی صورت میں موت کی تذکیر بھی مقصودہوتی ہے۔

حقیقت یہ کہ قبرستان میں حاضری ، کچھ دیر قبروں کے پاس کھڑے رہنے اور اہلِ قبور کو یاد کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ اس سے ذاتی تذکیر ہوتی ہے ۔ قبرستان میں حاضری اور قبروں کی زیارت اس لحاظ سے بھی باعثِ عبرت ہے کہ قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے۔

کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَـارَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَاِنَّہَا تُزَہِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَکِّـرُ الآخِرَۃَ (سنن ابن ماجہ، ابواب الجنائز،باب ماجاء فی زیارۃ القبور)

میں نے تمھیں ( پہلے) قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا،پس (اب) قبروں کی زیارت کرو، اس لیے کہ یہ دنیا میں زہد کی صفت پیدا کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔

 وقتاً فوقتاً قبروں کی زیارت آپؐ کا معمول رہاہے۔اس موقعے پر خاص طور آپؐ یہ دعا پڑھتے تھے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ ، اَنْتُمْ سَلَفَنَا وَنَحْنُ بِالْاثَرِ (جامع ترمذی، ابواب الجنائز، باب ما یقول الرجل اذا دخل المقابر،حدیث: ۱۰۰۹)

اے اہلِ قبور آپ سب پر سلامتی ہو، اللہ ہماری اور آپ سب کی مغفرت فرمائے، آپ لوگ ( ہم سے )پہلے جا چکے اور ہم بس آپ کے پیچھے ہیں ۔

سونے ،جاگنے كی مسنون دعائیں و تذكیر موت:

سونے اور بیدار ہونے، سواری پر بیٹھنے وغیرہ  کی دعائیں بھی موت کی یاددہانی کا باعث ہیں ۔ ان دعاؤں کی عادت بنالینی چاہئے۔

تنہا سفر:

اس فانی دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ کر یکا و تنہا راہیِ ملکِ عدم ہوتا ہے ، قبر میں خالی ہاتھ پہنچتا ہے اور اللہ رب العزت کے حضور  اکیلاتنہا حاضر ہوگا ۔

اس سفر كے لئے انسان بغرض مشق ، تذكیر یکہ و تنہا سفر كرے ۔حضور ﷺ كا غار حرا كا سفر اور وہاں قیام ہمارے لئے اس امر كی دلیل ہے۔ قرآن نے اس حقیقت سے بھی صاف طور پر انسان کو باخبر کردیا ہے سب کے سب روزِ قیامت یکّا و تنہا اس کے سامنے آئیں گے۔۔ ارشادِ ربّانی ہے:

وَكُلُّہُمْ اٰتِيْہِ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فَرْدًا  (مریم۱۹: ۹۵) اور سب کے سب روزِ قیامت یکّا و تنہا اس کے سامنے آئیں گے۔

وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ( الانعام۶: ۹۴) لو! اب تم ویسے ہی تنِ تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا کہ ہم نے تم کو پہلی مرتبہ( اکیلا) پیدا کیا تھا۔

 اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس:

اللہ کے ہاں جوابدہی کا احساس بھی موت کی یاد کا باعث بنتاہے۔یہ حقیقت ہے کہ موت کی یاد ، دوبارہ زندہ کیے جانے کا تصور ،اللہ رب العزت کے حضور حاضری اور اعمال کے لیے باز پرس کا احساس اور اس کا یقین انسان کو نیک عمل کی راہ پر ڈالتا ہے، اور بظاہر بعض مشکل عبادات کو بخوشی بجا لانے کے لیے تیار کرتا ہے اور اسے غلط حرکتوں ،گناہوں اور بد دیانتی،بد عنوانی اور فریب دہی وغیرہ سے دُور رکھتا ہے ۔ ان حقائق کو خود قرآن نے متعدد مقامات پر بیان کیا ہے اور انسان کو انھیں صدقِ دل سے قبول کرنے کی دعوت دی ہے ، جیسا کہ یہ نکتہ سورئہ بقرہ میں واضح کیا گیا ہے:

الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ ( البقرہ ۲: ۴۶) اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ آخر کا ر وہ (ایک نہ ایک دن) اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور اس کی طرف پلٹ کر جانےوالے ہیں۔

موت کا وقت اور مقام متعین ہیں ۔موت پر انسان کے اعمال کا رجسٹر اورتوبہ کا دروازہ بند اور جزا اورسزا کا وقت شروع ہوجاتاہے ۔ کیا کہیں گی اس بارے میں۔

یہ حقیقت ہے کہ موت پر انسان کے اعمال کا رجسٹر اورتوبہ کا دروازہ بند اور جزا اورسزا کا وقت شروع ہوجاتاہے ۔ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے، جب تک وہ نزاع کی حالت کو نہ پہنچ جائے۔ (ترمذی) یعنی جب انسان کا آخری وقت آجاتا ہے تو پھر اس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا۔ موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کسی کو معلوم نہیں۔ چنانچہ بعض بچپن میں، توبعض عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جبکہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تندرست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں، لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔ یہی دنیاوی فانی وقتی زندگی‘ اخروی ابدی زندگی کی تیاری کے لئے پہلا اور آخری موقع ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم افسوس کرنے سے قبل‘ اس دنیاوی فانی زندگی میں ہی اپنے گناہوں سے توبہ کرکے ا پنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہماری روح ہمارے بدن سے اس حال میں جُدا ہو کہ ہمارا خالق و مالک و رازق ہم سے راضی ہو۔لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں لیکن آخرت کو بھول جاتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو گل چھڑے اڑاتے ہیں اور ڈنگروں کی طرح کھاتے ہیں ، ان کا ٹھکانا آگ ہے۔

پاک ہے وہ ذات جس نے تمام دلوں کےلیے مصروفیات، ہر ایک کے دل میں تمنائیں اور سب کے لیے عزم و ارادہ پیدا کیا، وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرتا اور جو چاہے نہیں کرتا ، اللہ تعالی کی مرضی اور ارادہ سب پر بھاری ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ

 اور اللہ رب العالمین کی مرضی کے بغیر تمہاری کوئی مرضی نہیں ہے۔(التكوير : 29)

لہذا جو اللہ تعالی چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔

موت اس دھرتی پر تمام مخلوقات کا آخری انجام ہے،موت دنیاوی زندگی کی انتہا اور اخروی زندگی کی ابتدا ہے؛ موت کے ساتھ ہی دنیاوی آسائشیں ختم ہو جاتی ہیں اور میت مرنے کے بعد یا تو عظیم نعمتیں دیکھتی ہے یا پھر درد ناک عذاب ۔موت کی وجہ سے لذتیں ختم ، اور پیاروں سے دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

موت لازمی طور پر آ کر رہے گی اس سے خلاصی کا کوئی ذریعہ نہیں، موت کی شدید تکلیف کوئی بھی بیان کرنے کی سکت نہیں رکھتا؛ کیونکہ روح کو رگوں، پٹھوں اور گوشت کے ایک ایک انگ سے کھینچا جاتا ہے، درد کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو لیکن وہ موت کے درد سے کم ہی ہوتا ہے۔

لیکن جو شخص موت کو بھول جائے، دنیا میں مگن ہو، بد عملی میں مبتلا ہو، خواہشات کا انبار ذہن میں ہو ، تو ایسے شخص کے لیے موت سب سے بڑی نصیحت ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لذتوں کو پاش پاش کر دینے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو( ترمذی)

اللہ رب العالمین کی وحدانیت کا اقرار، صرف ایک اللہ کی عبادت اور شرک سے بیزاری موت کی تیاری کے لیے از بس ضروری ہے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: (اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم! اگر توں مجھے زمین بھر گناہوں کے ساتھ ملے لیکن تم نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو میں تمھیں اتنی ہی مقدار میں مغفرت دے دوں گا) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا۔

موت کی تیاری کے لیے کبیرہ گناہوں سے باز رہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا

 اگر تم منع کردہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو تو ہم تمہارے گناہ مٹا دیں گے اور تمہیں عزت والی جگہ داخل کریں گے۔(النساء: 31)

یہ بد بختی کی بات ہے کہ انسان موت کو بھول جائے اور اس کے لیے تیاری کرنا چھوڑ دے، گناہوں میں مگن ہو جائے اور عقیدہ توحید پامال کر دے، ظلم و زیادتی کرتے ہوئے معصوم جانوں کا قتل کرے، حرام مال کمائے اور کھائے، مخلوقات کے حقوق غصب کرے، ہوس پرستی میں ڈوب جائے، اور آخری دم تک گناہوں کی دلدل میں پھنسا رہے، پھر موت کے وقت اسے کسی قسم کی پشیمانی کوئی فائدہ نہیں دے گی اور نہ ہی موت کا وقت ٹلے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ

 جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے (99) جو میں چھوڑ آیا ہوں امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا (اللہ فرمائے گا)"ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا" یہ بس ایک بات ہوگی جسے اس سے کہہ دیا۔ اور ان (مرنے والوں) کے درمیان دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ایک آڑ حائل ہوگی ۔(المؤمنون: 99- 100)

ایک حدیث میں ہے کہ: جو شخص کثرت کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ:

اَللَّهُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِيْ الْأُمُوْرِ كُلِّهَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْآخِرَةِ(مسند احمد بن حنبل)

یا اللہ! تمام معاملات کا انجام ہمارے لیے بہتر فرما، اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے پناہ عطا فرما

تو وہ آزمائش میں پڑنے سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔

تنبیہ:

 اور موت کے وقت خاتمہ بالسوء کے اسباب میں یہ شامل ہے کہ: حقوق اللہ اور حقوق العباد پامال کیے جائیں، کبیرہ گناہوں پر انسان مُصر رہے،شعائر اسلام کی تعظیم کی بجائے تحقیر کرے، انسان دنیا میں مگن ہو کر آخرت بالکل بھول جائے۔

در اصل انسان کو موت اور بعد کے احوال کی یاد دلا کر یہ سبق دینا ہے کہ آخری وقت کے آنے سے پہلے وہ اپنے آپ کو تیار کرلے اور اس گھڑی کے آنے سے پہلے پہلے نصیحت حاصل کرلے اور اپنی اصلاح کر لے کہ جب موت سامنے ہونے یا قیامت برپا ہونے اور اعمال نامہ ملنے پر وہ نصیحت پکڑے گا اور نیک عمل کرنے کی کچھ مہلت چاہے گا تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس کا وقت نکل چکا ہوگا۔ ارشاد الٰہی ہے:

يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَہُ الذِّكْرٰى  (الفجر:۲۳ ) اس دن انسان کی سمجھ میں آجائے گا اور اس وقت سمجھ میں آنے سے کیا حاصل ہوگا۔

حدیث میں اس شخص کو دانش مند کہا گیا ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کر تا رہے

 الکیّس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت(سنن ابن ماجہ ،ابواب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ)

عقل منده وه هے جو اپنے نفس كا محاسبه كرے اور موت كے بعد كی تیاری كرے۔

بس آخر میں ہماری خواہش یہ ہونی چاہئے کہ  پیر سید نصیرالدین علیہ الرحمۃ کے الفاظ میں

آرزو یہ ہے کہ جب لوگ مجھے دفن کریں

تم بھی موجود سرگورِ غریباں ہونا

Surety of Death

S. Qasim Hasany

 

Today, or the next day,

Or a decade after,

One has to die as sure,

As the life here after, 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post