ذکر اللہ کی فضیلت و اہمیت

ذِکرکے معنی یاد کرنا،یاد رکھنا،چرچا کرنا،خیرخواہی اورعزت و شرف کے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ذِکر اِن تمام معانی  میں آیا ہوا ہے۔ اللہ رب العزت  کو یادکرنا، اسے یاد رکھنا، اس کا چرچا کرنا اور اس کا نام لیناذِکراللہ کہلاتا ہے۔قرآن مجید کے بیشتر مقامات میں ذکر الٰہی کا تذکرہ اور اس سے غفلت پر وعیدیں موجود ہیں  اور ذکر کرنے والوں کی فلاح کا مدار ذکر اللہ کی کثرت کو قرار دیا گیا ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : یَقُوْلُ اللهُ تَعَالَی : أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَکَرَنِي فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَکَرَنِي فِي مَـلَإٍ ذَکَرْتُهُ فِي مَـلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔)

حضرت ابو ہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا گمان رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (ذکر خفی) کرے تو میں بھی(اپنے شایان شان) خفیہ اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔(اللہ  رب العزت وہاں فرشتوں کی مجلس میں یاد فرماتے ہیں اور اپنے آپ کے ساتھ یاد رکھتے ہیں۔دوسرا یہ کہ اللہ کا یاد کرنا اور یاد رکھنا یہ ہے ، کہ اس کو مخلوق سے یاد کروا دیتے ہیں)

سبحان اللہ کیا عجیب شان ہے ذکر کی اگر تم اللہ کو مجلس میں یاد کرو گے ، تو اللہ تعالیٰ اس مجلس سے بہتر مجلس یعنی فرشتوں کی مجلس میں تمہیں یاد کرے گا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اگر تم اللہ پاک کو دل میں یاد کرو گے تو اللہ تعالیٰ اپنے آپ کے ساتھ تمہیں یاد کرے گا ۔

اس ہی مفہوم کی یہ آیت بھی قرآن مجید میں ہے ۔ یعنی یہ حدیث اس آیت قرآنیہ کی تفسیر ہے ۔

فَاذْکُرُوْنِيْٓ اَذْکُرْکُمْ (البقرۃ، 2 : 152)

پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔

دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ قاعدہ یہ ہے جو چیز جتنی زیادہ ضروری اورناگزیر ہے اسے اللہ رب العزت نے اس قدر عام کردیا۔ مثلا آکسیجن کی ضرورت سب سے زیادہ ہے اسے ہرلحظہ و لمحہ  ہر ایک لئے عام کردیا  کہ کسی شخص کو بھی آکسیجن کے حصول کے لئے کوئی مشقت نہیں کرنی پڑتی، پانی کی اس کے بعد زیادہ ضرورت ہے اس کے لئے کچھ مشقت کرنی پڑتی ہے علی ھذ  القیاس۔

یہی معاملہ اللہ  رب العزت نے ذکر کے لئے کیا اس کی اہمیت و ضرورت کے پیش نظراس پر کوئی خاص پابندی یا شرائط بھی نہیں لگائیں ، وضو کی شرط ، وقت کی پابندی ،جگہ کی پابندی وغیرہ ۔ یعنی  ہر طرح سے اللہ کاذکر لیا جاسکتا ہے۔ لیٹے ، کھڑے بیٹھے ہر طرح سے کیا جاسکتا ہے۔

فَاذْکُرُوا اللهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ۔(النساء، 4 : 103)

اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو۔ 

ذکر کی فضیلت پر چند آیات قرآنیہ

وَاذْکُرُوا اللهَ کَثِيْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(الجمعۃ، 62 : 10)

اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللهِ ط اَلاَ بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ(الرعد، 13 : 28)

جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔

 فَاذْکُرُوْنِيْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ(البقرۃ، 2 : 152)

سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔

 فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْکُرُوا اللهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ۔(النساء، 4 : 103)

پھر اے (مسلمانو!) جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو۔

 یٰـٓاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللهَ کَثِيْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(الأنفال، 8 : 45)

اے ایمان والو! جب (دشمن کی) کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہا کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔

وَلَذِکْرُ اللهِ اَکْبَرُ ط وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ(العنکبوت، 29 : 45)

اور واقعی اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اللہ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

 یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللهَ ذِکْرًا کَثِيْرًا۔ وَّسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِيْلًا(الأحزاب، 33 : 41)

اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو۔ اور صبح و شام اسکی تسبیح کیا کرو۔

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللهِ ج وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(المنفقون، 63 : 9)

اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کہیں) تمہیں اللہ کی یاد سے ہی غافل نہ کردیں، اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں

ذکر کی اہمیت پر چند احادیث مبارکہ

عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ عَلَی أَحَدٍ یَقُوْلُ : اللهُ، اللهُ۔ (رَوَاهُ مُسْلِمٌ)

حضرت انس ﷜ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اللہ کہنے والے کسی شخص پر قیامت نہ آئے گی ۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ رضي الله عنه أَنَّ رَجُلًا قَالَ : یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ کَثُرَتْ عَلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِشَيْئٍ أَتَشَبَّثُ بِهِ۔ قَالَ : لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللهِ۔ (رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ )

حضرت عبد اللہ بن بسر ﷜سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! احکام اسلام مجھ پر غالب آگئے ہیں مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جسے میں انہماک سے کرتا رہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تیری زبان ہر وقت ذکر الٰہی سے تر رہنی چاہیے۔

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : لَیَذْکُرَنَّ اللهَ قَوْمٌ فِي الدُّنْیَا عَلَی الْفُرُشِ الْمُمَهَّدَةِ یُدْخِلُهُمُ الدَّرَجَاتِ الْعُلَی۔ (رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ )

حضرت ابو سعید خدری ﷜ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کچھ لوگ دنیا میں بچھے ہوئے پلنگوں پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں گے اور وہ انہیں (جنت کے) بلند درجات میں داخل کر دے گا۔ (شرح:یعنی تم نرم نرم بستروں پر ذکر کرنے والوں کو ذکر سے نہ روکو۔ بعض لوگ مالدار ہوتے ہیں ،اللہ نے ان کو مال دیا ہوتا ہے ، اب جن کو مالدار پیدا کیا ہے تو ظاہر ہے ان کے پاس  قیمتی اشیاء  ہونگی  اور ان پر وہ استراحت کررہے ہوں گے۔ لیکن اگر وہ اللہ کو نہیں بھولتے ، اللہ کو یاد رکھتے ہیں تو یہ چیزیں ما شاء اللہ ان کے لئے خیر کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ مثلاًایک ذاکر و شاکر شخص ہے۔ اللہ پاک نے اس کو گاڑی دی ہے۔ گاڑی میں بیٹھتا ہے توسواری کی دعا پڑھتا ہے اور کہتا ہے اے اللہ تیرا بڑا شکر تو نے میرے لئے بڑی آسانی پیدا فرمائی ہے ، تو بیٹھتے ہی اس نے کما لیا۔ اگر کوئی اس کی عزت کرتا ہے توکہتا ہے اے اللہ تیرا بڑا شکر کہ تو نے مجھے عزت دی ہے  ۔ کھانا کھاتا ہے تو  الحمد اللہ  کہتاہے، کھانا بھی اس کا ذکر بن گیا ۔ بازار  جاتاہے، چوتھا کلمہ پڑھ لیتا ہے۔ ڈھیروں نیکیاں اس کو مل گئیں ، اس کے لئے بازار جانا خیر کا ذریعہ بن گیا۔ )

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ : مَنْ قَعَدَ مَقْعَدًا لَمْ یَذْکُرِ اللهَ فِيْهِ کَانَتْ عَلَيْهِ مِنَ اللهِ تِرَةٌ وَمَنِ اضْطَجَعَ مُضْطِجَعًا لَا یَذْکُرُ اللهَ فِيْهِ کَانَتْ عَلَيْهِ مِنَ اللهِ تِرَةٌ۔( رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ)

حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنے بیٹھنے کی جگہ سے اُٹھ گیا اور اس مجلس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر ندامت وارد ہو گی اور جو بستر میں لیٹے اور اس میں اللہ تعالی کا ذکر نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بھی ندامت ہو گی۔(یعنی محفل برخاست ہونے سے پہلے   علی الاقل وہ ضروراللہ کا  ذکر کرے ، اسی طرح  بسترمیں کم ازکم سوتے جاگتے کی دعا ہی پڑھ لے  تو وہ اس ندامت سے محفوظ رہے گا۔)

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنھما : أَنَّھُمَا شَھِدَا عَلَی النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ : لَا یَقْعُدُ قَوْمٌ یَذْکَرُوْنَ اللهَ عزوجل إِلَّا حَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَةُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْھِمُ السَّکِيْنَةُ، وَذَکَرَھُمُ اللهُ فِيْمَنْ عِنْدَهُ۔(رَوَاهُ مُسْلِمٌ و)

حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید خدری ﷠ دونوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں گواہی دی کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جب بھی لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے بیٹھتے ہیں انہیں فرشتے ڈھانپ لیتے ہیں اور رحمت انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ (سکون و طمانیت) کا نزول ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنی بارگاہ کے حاضرین میں کرتا ہے۔‘‘

 أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالِکُمْ وَأَزْکَاھَا عِنْدَ مَلِیْکُمُ وَأَرْفَعِھَا فِيْ دَرَجَاتِکُمْ وَخَیْرٍ لَّکُمْ مِنْ أَنْفَاقِ الذَّھَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَیْرٍ لَّکُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَھُمْ وَیَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ؟  قَالُوْا: بَلیٰ، قَالَ:  ذِکْرُ اللّٰہِ۔ قَالَ مَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رضی اللہ عنہ : مَا شَيْئٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ، مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ (رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ )

  کیا میں تم کو بہتر عمل نہ بتاؤں جو تمہارے رب کے ہاں بڑا ہی پاکیزہ اور تمہارے درجات میں سب سے زیادہ بلند درجے والا ہے اور تمہارے لیے سونے اور چاندی کے خرچ کرنے سے بھی بہتر ہے اور تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم دشمن سے ملو اور تم ان کی گردنیں اڑاؤ اور وہ تمہاری گردنیں اڑائیں؟ ﷡عرض کیا: جی ضرور بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ حضرت معاذ بن جبل ﷜نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کوئی چیز اللہ کے عذاب سے نجات نہیں دیتی۔

عَنْ أُمِّ أَنَسٍ رضي الله عنها أَنَّهَا قَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَوْصِنِي۔ قَالَ : اهْجُرِي الْمَعَاصِي فَإِنَّهَا أَفْضَلُ الْهِجْرَةِ وَحَافِظِي عَلَی الْفَرَائِضِ فَإِنَّهَا أَفْضَلُ الْجِهَادِ وَأَکْثِرِي ذِکْرَ اللهِ فَإِنَّکِ لَا تَأْتِيْنَ اللهَ بِشَيْئٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ کَثْرَةِ ذِکْرِهِ۔(رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ )

ضرت اُم انس ﷝سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے کوئی وصیت فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : گناہوں کو چھوڑ دے یہ سب سے افضل ہجرت ہے اور فرائض کی پابندی کر یہ سب سے افضل جہاد ہے۔ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کر۔ تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کثرتِ ذکر سے زیادہ پسندیدہ کوئی چیز پیش نہیں کر سکتیں۔‘‘

 عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : أَکْثِرُوْا ذِکرَ اللهِ حَتَّی یَقُوْلُوْا : مَجْنُوْنٌ۔ (رَوَاهُ أَحْمَدُ )

حضرت ابو سعید خدری ﷜ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہیں۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ عَجَزَ مِنْکُمْ عَنِ اللَّيْلِ أَنْ یُکَابِدَهُ وَبَخِلَ بِالْمَالِ أَنْ یُنْفِقَهُ وَجَبُنَ عَنِ الْعَدُوِّ أَنْ یُجَاهِدَهُ فَلْیُکْثِرْ ذِکْرَ اللهِ۔( رَوَاهُ الطَّبَرَانِیُّ )

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جو شخص پوری رات (عبادت کرنے کی) مشقت سے عاجز ہے، دولت خرچ کرنے میں بخیل ہے اور دشمن کے ساتھ جہاد کرنے میں بزدل ہے، اُسے زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔‘‘

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه قَالَ : إِنَّ آخِرَ کَـلَامٍ فَارَقْتُ عَلَيْهِ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَنْ قُلْتُ : أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَی اللهِ؟ قَالَ : أَنْ تَمُوْتَ وَلِسَانُکَ رَطْبٌ مِنْ ذِکْرِ اللهِ۔ (رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ )

حضرت معاذ بن جبل﷜ نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے جدا ہوتے ہوئے جو آخری بات کی وہ یہ تھی : میں نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ جب تیری موت کا وقت  ہو تو تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو۔

عَنْ مُعَاذٍ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ : أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ فَقَالَ : أَيُّ الْجِهَادِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ : أَکْثَرُهُمْ ِللهِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی ذِکْرًا۔ قَالَ : فَأَيُّ الصَّائِمِيْنَ أَعْظَمُ أجْرًا؟ قَالَ : أَکْثَرُهُمْ ِللهِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی ذِکْرًا۔ ثُمَّ ذَکَرَ لَنَا الصَّلَاةَ وَالزَّکَاةَ وَالْحَجَّ وَالصَّدَقَةَ کُلُّ ذَلِکَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : أَکْثَرُهُمْ ِللهِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی ذِکْرًا۔ فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ لِعُمَرَ رضي الله عنهما : یَا أَبَا حَفْصٍ، ذَهَبَ الذَّاکِرُوْنَ بِکُلِّ خَيْرٍ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَجَلْ۔ (رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ)

حضرت معاذ ﷜ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : کون سے مجاہد کا ثواب زیادہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اُن میں سے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔ اس نے دوبارہ عرض کیا : روزہ داروں میں سے کس کا ثواب زیادہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اُن میں سے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔ پھر اُس نے ہمارے لیے نماز، زکوٰۃ، حج اور صدقے کا ذکر کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ ہر بار فرماتے رہے : جو اُن میں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر زیادہ کرتا ہے۔ حضرت ابو بکر ﷜نے حضرت عمر ﷜سے کہا : اے ابو حفص! اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے تمام نیکیاں لے گئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بالکل(درست ہے)۔‘‘

 کونسا ذکر افضل ہے؟ اس سلسلے میں کیا روایات ملتی ہیں؟

اللہ کے ذکر میں نماز، تلاوت ِ قرآن حکیم، دُعا اور استغفار سب شامل ہیں۔ ذکر اللہ کی بڑی عظمت، اہمیت اور برکات ہیں۔ ذکر اللہ سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے اور انسان کی روحانی ترقی ہوتی ہے۔ ذکر ِ اللہ سے قلوب منور ہو جاتے ہیں۔ ذکرِ اللہ ہی وہ راستہ اور دروازہ ہے جس کے ذریعے ایک بندہ بارگاہ الٰہی تک پہنچ سکتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

اَفْضَلُ الذِّكْرِ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللَّهُ وَاَفْضَلُ الدُّعَاءِ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ

سب سے افضل ذکر لَا اِلٰهَ اِلَّا اللَّهُ اور سب سے بہترین دعا اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ہے۔“ (ابن ماجہ،ج 4،ص247،حدیث:3800)

لَا اِلٰهَ اِلَّا اللَّهُ سے مراد  پورا کلمہ شریف ہے یعنی مع مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اﷲ کے، ورنہ صرف لَا اِلٰهَ اِلَّا اللَّهُ تو بہت سے مُوَحِّد کفار بلکہ ابلیس بھی پڑھتا ہے، وہ مشرک نہیں مُوَحِّد ہے۔ جس چیز سے مؤمن بنتے ہیں وہ ہے مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اﷲ ،چونکہ کلمہ شریف سے کفر کی گندگی دور ہوتی ہے،اسے پڑھ کر کافر مؤمن ہوتا ہے، اس سے دل کی زنگ دور ہوتی ہے،اس سے غفلت جاتی ہے،دل میں بیداری آتی ہے، یہ حمدِ الٰہی و نعتِ مُصْطفوی کا مجموعہ ہے، اس لیے یہ اَفْضَلُ الذِّکْر ہوا۔ صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ صفائی دل کے لیے کلمۂ طیبہ اِکْسِیر ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج3 ،ص342)

کلمۂ طیبہ کے ذریعے ذِکراللہ کیجئے: اَحادیث مبارکہ میں اس کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں، چند فضائل یہ ہیں:’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ‘‘پڑھنے والے کو قبروحشر میں کوئی وحشت نہ ہوگی۔جو شخص کامل وضو کرکے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر کہے: ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ‘‘تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں جس سے چاہے داخل ہو جائے۔جو شخص روزانہ 100بار یہ کلمات پڑھتا ہے: ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ‘‘تو اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے، اس کے نامۂ اعمال میں100نیکیاں لکھی جاتی اور 100گناہ مٹادیے جاتے ہیں، وہ اس دن شام تک شیطان سے محفوظ رہتا ہے اور اس سے بڑھ کر کسی اور کا عمل نہیں ہوتا مگر یہ کہ کوئی شخص اس سے زیادہ کلمات پڑھے۔سچے دل سے ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ‘‘پڑھنے والا اگر زمین بھر گناہ لے کر آئے پھر بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی مغفرت فرمادے گا۔جس نے اخلاص کے ساتھ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ‘‘کہا وہ داخل جنت ہوا۔(احیاء العلوم، ۱ / ۸۹۳، ۸۹۴ملخصا)

 سُبْحٰنَ اللہ، اَلْحَمْدُلِلّٰہ اور اَللہُ اَکْبَر وغیرہ اذکار پڑھیے: ان کے بھی احادیث میں بہت فضائل وارد ہوئے ہیں۔چند فضائل یہ ہیں:جس نے ہرنماز کے بعد 33بار سُبْحٰنَ اللہ، 33بار اَلْحَمْدُلِلّٰہ، 33بار اَللہُ اَکْبَر کہا، پھر 100کا عدد پورا کرنے کے لیے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ لَاشَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٍ کہا تو اس کے گناہ معاف کردیے جائیں گے، اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔جو ایک دِن میں 100بار سُبْحٰنَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ پڑھتا ہے اس کے گناہ مٹادیے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔جب بندہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہتا ہے تو یہ کلمہ زمین وآسمان کے درمیان کو بھردیتا ہے، جب دوسری مرتبہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہتا ہے تو ساتویں آسمان سے لے کر تحت الثریٰ کو بھردیتا ہے اور جب تیسری مرتبہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: ’’سوال کر تجھے عطا کیا جائے گا۔‘‘(احیاء العلوم، ۱ / ۸۹۶ملخصا)

تلاوتِ قرآن کیجئے: تلاوت قرآن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا بہترین ذِکر ہے، تلاوت کے بے شمار فضائل قرآن واَحادیث میں بیان فرمائے گئے ہیں، چند فضائل یہ ہیں: اس اُمت کی افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے: جسے تلاوت قرآن نے مجھ سے مانگنے اور سوال کرنے سے مشغول رکھا میں اسے شکر گزاروں کے ثواب سے افضل عطا فرماؤں گا۔دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے، دلوں کی صفائی تلاوت قرآن اور موت کی یاد سے ہوگی۔ قرآنِ پاک پڑھو بے شک تمہیں اس کے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں دی جائیں گی میں یہ نہیں کہتا کہ ’’ الٓمّٓ‘‘ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔قرآنِ پاک کی ہر آیت مبارکہ، جنت کا ایک درجہ اور تمہارے گھروں کا چراغ ہے۔۔احیاء العلوم،۱ / ۸۲۳تا۸۲۵ ماخوذا۔

ان کے علاوہ

 سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ

لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّٰہِ،

 بِسْمِ اللّٰہِ، حَسْبِیَ اللّٰہ ُ

 استغفار وغیرہ پڑھنا اور دنیا اور آخرت کی بھلائی کی دعا بھی ذکر اللہ میں شامل ہے۔

اگر بنظرعمیق دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام نے ہر ، لمحہ ہر گھڑی  ہرمقام پر ذکر الٰہی  ہی کی ترغیب دی ہے ۔ گھر سے نکلیں تو دعا ،بازار جائیں تو دعا ، سواری پر سوار ہوں تو دعا ، پانی پئیں تو دعا ، کھانا کھانے سے پہلے اوربعد میں دعا ، مسجد میں داخل ہوں تو دعا اور نماز تو ہے ہی دعاؤ ں کا مجموعہ۔ مسجد سے باہر نکلیں تو دعا ،لباس پہنیں تو دعا ۔

 الغرض دین اسلام نے انسان کو کسی بھی موڑ پر تنہا نہیں چھوڑا ہر مقام پر ذکر الٰہی کی تلقین کی ہے ۔ لہٰذا ہمیں چاہئیے ہم ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مشغول و مصروف رہیں اسی میں کامیابی ہے ۔

نیز  ذکر کی دوقسمیں ہیں

 ذکر قلبی

 ذکر لسانی

اور پھر ذکر قلبی کی دو اقسام ہیں

اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی میں اس کی بادشاہت میں اور آسمان و زمین میں اس کی نشانیوں میں غورو فکر کرنا۔ اسی کے متعلق حدیث ہے کہ ذکر خفی بہترین ذکر ہے۔ذکر خفی سے مراد مذکورہ اشیاء ہی ہیں۔ ذکر قلبی کی یہ قسم اذکار میں سے سب سے زیادہ بلند و بالا اہمیت کی حامل ہے۔

امر اور نہی کے وقت ذکر قلبی یعنی جس کا حکم ہوا اسے کر گزرنا اور جس سے روکا گیا اس سے رک جانا اور شبہ والی اشیاء سے توقف کرنا ہے۔


 

وہ گھر یا محفل جس میں اللہ کا ذکر ہو  اور جو اللہ کے ذکر سے خالی ہو۔۔ا ن دونوں میں کیا فرق ہے؟

اپنے گھروں کو تلاوت ِ قرآن سے  روشن ومنور کرو اور انھیں قبر نہ بناؤجس طرح سے یہودی اور عیسائی لوگ کیا کرتے تھے کہ اپنے کلیسا اور گرجا گھروں میں تو عبادت کرتے تھے اور گھروں میں غافل رہتے تھے ۔جس گھر میں کثر ت سے قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے تو اس گھر کی برکت میں اضافہ ہو تا ہے اور اس کے اہل میں فراخی ہوتی ہے ۔نیز اللہ کا ذکر وتلاوت قرآن کا گھر میں اہتمام کرنا اسلام کی ترویج واشاعت کا سبب بھی ہے۔ اس لئے کہ انسان جب اپنے گھر میں قرآن پڑھے گا تو فطری طور پر اس کے اہل و عیال کو بھی قرآن خو انی کا شوق پیدا ہوگا اور اس طرح سے معاشرے میں قرآن پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا ۔ نیزایسا گھر زندگی کی علامت ہے۔حدیث مبارکہ ہے:

   عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-:لا تجعلوا بيوتكم قبورا۔(ابوداؤد)

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔

قبرموت کی علامت ہے۔ نبی نے اس بات سے منع فرمایا کہ گھروں کو نفل نمازوں، دعا اور قرآن کریم کی تلاوت سے خالی رکھا جائے اور اس طرح سے یہ گویا قبریں بن جائیں گی۔

حضرت ابی موسیٰ﷜سے روایت ہے رسول اکرم نے فرمایا:

مَثَلُ البَيْتِ الَّذِي يُذْكَرُ اللهُ فِيهِ، والبَيْتِ الذي لا يُذْكَرُ اللهُ فِيهِ، مَثَلُ الحَيِّ والميِّتِ(رواہ مسلم).

اس گھر کی مثال جس میں اللہ عزوجل کو یاد کیا جاتا اور اس گھر کی مثال جس میں اللہ عزوجل کو یادنہیں کیا جاتا زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ (صحیح مسلم )

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «ما قعد قوم مقعداً لم يذكروا الله, ولم يصلوا على النبي -صلى الله عليه وسلم- إلا كان عليهم حسرة يوم القيامة۔(رواه الترمذي)

ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”جس محفل میں لوگ نہ اللہ کا ذکر کریں اور نہ نبی پر درود بھیجیں، وہ مجلس قیامت کے دن اِن لوگوں کے لیے باعثِ حسرت ہو گی۔

یہ حدیث ان لوگوں کی ندامت اور خسارے پر دلالت کرتی ہے، جو کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں اور وہاں سے اس طرح اٹھ جاتے ہیں کہ ان کے دلوں اور زبانوں پر نہ تو اللہ کا ذکر آیا ہوتا ہے، نہ اس کے رسول کا اور نہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ پر درود ہی بھیجا ہوتا ہے۔ اس قسم کی مجلسیں قیامت کے دن اہل مجلس کے لیے حسرت کا باعث ہوں گی؛ کیوں کہ انھوں نے ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔

دیگر اعضاء انسانی یاجاندار اشیاء کی طرح  قلب انسانی  کو بھی غذا کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی قوت حاصل ہو۔جس کے نہ ملنے سے  دل کمزور اور زنگ آلود ہو جاتاہے ۔جیسے کھیتی کو پیاس لگتی تو اسے سیراب کرنے سے وہ لہلانے لگتی ہے، اسی طرح دل کے زنگ وپیاس کو دور کرنے کے لئے ذکراللہ کی ضرورت ہے ۔ انسان اس زندگی میں ہر جانب سے دشمنوں کے گھیرے میں ہے۔ان میں انسان کا  سب سے بڑا کھلادشمن  شیطان ہے۔ جب انسان اللہ کی یاد سے غافل ہوجاتاہے تو ایسے شخص پر شیطان غالب آجاتاہے۔ لیکن اللہ کے ذکر کرنے والے سے شیطان بھاگ جاتاہے۔ حدیث مبارکہ ہے:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مالِکٍ رضي الله عنه قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ الشَّيْطَانَ وَاضِعٌ خُطُمَهُ عَلَی قَلْبِ ابْنِ آدَمَ فَإنْ ذَکَرَ اللهَ خَنَسَ وَإِنْ نَسِيَ الْتَقَمَ قَلْبَهُ فَذَلِکَ الْوَسْوَاسُ الْخَنَّاسُ۔( رَوَاهُ أَبُو یَعْلَی)

حضرت انس ﷜ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : شیطان نے ابن آدم کے دل پر اپنی رسیاں ڈالی ہوئی ہیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو وہ بھاگ جاتا ہے اور اگر وہ بھول جائے تو وہ اُس کے دل میں داخل ہو جاتا ہے اور یہی وسوسہ ڈالنے والا خناس ہے۔‘‘

اورانسان کے نفس کو ابھارتا  ہے  اوربرائی کی رہنمائی کرنے والا اس کا نفس ِ امّارہ اسے ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔ چنانچہ انسان بہت زیادہ محتاج ہے ایسی چیز کا جو اسے بچائے، اطمینان دلائےخوف والی باتوں سے، اسے سکون بخشے اور اس کے دل کو مطمئن کردے۔ جو چیز سب سے زیادہ ان بیماریوں کو دور کرتی ہے اور دشمنوں سے محفوظ رکھتی ہے، وہ اللہ کی یاد اور اس کی یاد میں زیادہ سے زیادہ مشغول رہنا ہے۔ کیونکہ اللہ کی یاد دلوں کو روشن اور صیقل کرتی رہتی ہے ۔ بلکہ وہ دلوں کی دوا ہے۔ جب انہیں کوئی بیماری لاحق ہو۔

إذا ترک العارف الذکر علی وجه الغفلۃ نفساً أو نفسین قیض الله تعالی له شیطاناً فهو له قرین۔(الطبقات الکبری : 306)

شیخ ابو الحسن شاذلی ؒ نے فرمایا : عارف جب غفلت کی وجہ سے ایک یا دو سانسوں کے لئے ذکر چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک شیطان مسلط فرما دیتا ہے جو کہ اس کا ساتھی ہوتا ہے۔

آپ ﷺ کا مبارک ارشادہے کہ جو ذکر کرنے والے اور جو نہیں کرنے والا ہے۔ اس کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔ یعنی ذکر کرنے والا زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے۔ ذاکر آدمی زندہ ہوتا ہے۔ اور جو ذاکر نہیں وہ مردہ ہے۔ اس سے اندازہ کرلیں کہ اللہ جل شانہ نے اس کو ہماری روحانی حیات کے لئے کتنا ضروری قرار دیا۔

حیاۃ القلوب التي تموت بذکر الحي الذي لا یموت۔( الطبقات الکبری: 119)

حضرت سہل بن عبد اللہ تستری ؒنے فرمایا : مردہ دلوںکی حیات، اس ہستی کے ذکر سے ہے جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔

گھر میں داخل ہوتے ہوئے اللہ کا ذکر کرنا اس گھر کو سکون و امن کا گہوارہ اورمحفوظ بنادیتاہے۔ حدیث مبارکہ ہے:

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- مرفوعاً: إِذَا دَخَل الرَّجُل بَيتَه، فَذَكَرَ اللهَ -تَعَالَى- عِندَ دُخُولِهِ، وَعِندَ طَعَامِهِ، قَالَ الشَّيطَانُ لِأَصْحَابِهِ: لاَ مَبِيتَ لَكُم وَلاَ عَشَاءَ، وَإِذَا دَخَلَ فَلَم يَذْكُر الله -تَعَالَى- عِندَ دُخُولِهِ، قَالَ الشَّيطَان: أَدْرَكْتُمُ المَبِيت؛ وَإِذا لَمْ يَذْكُرِ اللهَ -تَعَالَى- عِندَ طَعَامِه، قالَ: أَدرَكتُم المَبِيتَ وَالعَشَاءَ(صحيح مسلم)

جابر بن عبد اللہ ﷠سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جب آدمی اپنے گھر داخل ہوتا ہے اور داخل ہوتے اور کھانا کھانے کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو شیطان اپنے ساتھی شیطانوں سے کہتا ہے کہ تمہارے لیے یہاں رات گزارنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ رات کا کھانا ہے۔ اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت آدمی اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تم نے رات گزارنےکی جگہ پالی۔ اور جب کھانا کھاتے ہوئے بھی اللہ کا نام نہیں لیتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رات گزارنے کی جگہ بھی مل گئی اور رات کا کھانا بھی۔

گھر میں داخلے ہوتے وقت اللہ کا ذکر یہ ہے کہ یوں کہے: الَّلہْمَّ انّی اسئَلْکَ خَیرَ المَولِجِ وخَیرَ المَخرَجِ بسمِ اللہِ ولَجنَا وبسمِ اللہ خَرَجنَا وعلی اللہِ ربِّنَا تَوَکَّلنَا (ابوداؤد)

ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کا خیر مانگتا ہوں (یعنی میرا گھر میں داخل ہونا اور باہر نکلنا میرے واسطے خیر اور بھلائی کا وسیلہ بنے)

 یعنی اللہ کا ذکر کرنے کے بعد شیطان اس کے ساتھ سونے کی جگہ اور کھانے میں شریک نہیں  ہوتا  یوں وہ اللہ کا ذکر اسے شیطان کے شر سے  محفوظ کردیتاہے ۔ اس حدیث میں اس بات کی ترغیب ہے کہ انسان جب اپنے گھرمیں داخل ہو اور جب کھانا کھائے تو اللہ کا نام لے۔

اِس تعلیمِ ہدایت کی روح یہی ہے کہ گھر میں آنے اور گھر سے نکلتے وقت بھی بندے کے دل کی نگاہ اللہ تعالیٰ پر ہو، زبان پر اْس کا بابرکت نام ہو اور یہ یقین کرتے ہوئے کہ ہر خیر وبرکت اْسی کے قبضۂ قدرت میں ہے، اس سے دعا اور سوال ہو اور اس کی کریمی وکارسازی کا بھروسا اور اعتماد ہو۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه؛ أنَّ رسولَ الله صلّى الله عليه وسلّم قالَ: لا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقابِرَ. إنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ البَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فيهِ سُورَةُ البَقَرَةِ(رواہ مسلم).

حضرت ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا کہ اپنے گھروں کو مقبرہ نہ بناؤ۔ بیشک شیطان جس گھر میں سورہ البقرہ کی تلاوت کی جائے وہاں سے بھاگ جاتاہے۔

اس حدیث کی شرح میں یہ تحفہ احوذی میں یہ خوبصورت بات تحریر ہے کہ :

لا تجعلوا بيوتكم «خاليةً عن الذِّكر والطَّاعة فتكون كالمقابر، وتكونون كالموتى فيها»[ تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي (8 /146)].

اپنے گھروں کو اللہ کے ذکر اوراس کی اطاعت سے خالی نہ رکھوتو وہ مقبرہ بن جائیں گے اور تم ان میں رہنے والے مردوں کی مثل ہوجاؤگے۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post