احسان کیا ہے ؟

"احسان" باب افعال  کا مصدر ہے۔ اس كاماده،[ح،س،ن] ہے۔  امام راغب اصفہانی [حسن  ’ح،س،ن] معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ایسا حسین ہونا ہے، جو ہر لحاظ سے پسندیدہ اور عمدہ ہو اور اس کا عمدہ ہونا عقل کے پیمانے پر بھی پورا اترتا ہو، قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے بھی دل کو بھلا لگتا ہو اور یہ کہ حسی طور پر یعنی دیکھنے سننے اور پرکھنے کے اعتبار سے بھی پرکشش ہو۔( راغب اصفہانی، مفردات القرآن : 119)

امام نووی کا قول

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں بندہ اپنی عبادت کو پورے کمال کے ساتھ انجام دے گا اور اس کے ظاہری ارکان آداب کی بجا آوری اور باطنی خضوع و خشوع میں کسی چیز کی کمی نہیں کرے گا۔ الغرض عبادت کی اس اعلیٰ درجے کی حالت اور ایمان کی اس اعلیٰ کيفیت کو ’’احسان‘‘ کہتے ہیں۔[ نووی، شرح صحيح مسلم، 1 : 27، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی صلی الله عليه وآله وسلم عن الايمان و الاسلام و الاحسان]

احسان ایسا عمل ہے، جس میں حسن و جمال کی ایسی شان موجود ہو کہ ظاہر و باطن میں حسن ہی حسن ہو اس میں اور ناپسندیدگی کا  امکان تک نہ ہو۔ ایک ایسا حسین عمل ہے جس میں حسن کی کوئی حد اور مقدار مقرر نہیں ہوتی۔  دوسرے لفظوں میں نہایت عمدہ اور خوبصورت ترین حالت کا نام ’’احسان‘‘ ہے اور اس کا دوسرا قرآنی نام ’’تزکیہ‘‘ ہے ۔

قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنَّکَ إِنْ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ

اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول احسان کسے کہتے ہیں؟ فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو (کم از کم اتنا یقین رکھو) کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 100)

حضور نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے، جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہو جا ئے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزین ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔

1۔کانک تراہ (گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے)

پہلے درجے والے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت میں دے دیتے ہیں چونکہ ایسے لوگوں میں قربانی اور جانثاری کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے اس لیے وہ اپنی جان و مال کی بھی پرواہ نہیں کرتے گویا کہ وہ اپنی '' رضا '' کوخوشی سے فقط اللہ تعالیٰ کی '' رضا و قضا '' کے  تابع کردیتے ہیں ۔ وہ نیکی میں دوسروں  پر سبقت لے جاتے ہیں اور دوسروں کے لیے قابلِ اتباع بن جاتے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم وانعام کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔

2۔فانہ یراک ( پس بیشک وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے)

ہم نے پہلے حصے میں بتایا کہ عبادت کا سب سے اونچا معیار اور مقام تو یہی ہے کہ اپنے آپ کو ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دو اور اسی مقام کو حاصل کرنے کی تمہیں جدو جہد اور محنت کرنی چاہیے تاہم اگر تم اس معیار پر پورا نہیں اترتے اور دین کے ہر پہلو پر اگر عمل کرنا تم کو دشوار نظر آتا ہے اور طبیعت میں '' رضا '' کے عنصر کے ساتھ ساتھ '' جبر '' کی بھی آمیزش ہے تو فرائض کی پابندی اور محرمات کے ارتکاب سے اجتناب کرتے ہوئے کم از کم اس بات سے تو بے خبر اور بے نیاز نہ رہو کہ ایک باطن ہستی تم کو ہر آن اور ہر وقت تم پر نظر رکھے ہوئے ہے جس سے تمہاری کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ۔

ضمنا ً:ا یہاںس بات کا تذکرہ فائدہ سے خالی نہیں کہ  اس  حدیث جبریل میں ارشاد لفظ "احسان" کی روشنی میں اگر علم التصوف کوپرکھا جائے تو اس سے مراد علم التصوف والطریقت ہی قرارپائے گا۔طریقت درحقیقت شریعت ہی کا باطن ہے یعنی شریعت کی دل کی گہرائیوں میں اتارنے کا نام طریقت ہے۔بقول ڈاکٹرعلامہ محمداقبال  ؒ:

"حدود خودی کے تعین کا نام شریعت ہے اورشریعت کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔" تذکرہ اقبال،پروفیسرسعید راشد،ص336

لہذا شریعت جن اعمال و احکام کی تکمیل کا نام ہے ان اعمال و احکام کو حسن نیت اور حسن اخلاص  اور صدق مقال،مقام اوراحوال سے آراستہ وپیراستہ کرتے ہوئے درجہ احسان تک پہنچانے کی سعئ سعید علم الطریقت اور تصوف کی غرض و غایت ہے۔

قرآن كریم میں احسان كرنے والوں كا ذكر؟

قرآن مجیدکی چند آیات جن میں (ح،س،ن) کے مادہ سے آنے والے الفاظ  ہیں:

"إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لأَنفُسِكُمْ" اب تم نیک عمل کرو گے تو اپنے لئے ۔

"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ"، بیشک اللہ عدل ,احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنَوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا، وَاﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ

پھر پرہیز کرتے رہے اور ایمان لائے پھر صاحبان تقویٰ ہوئے (بالآخر) صاحبان احسان (یعنی اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکو کار بندے) بن گئے اور اللہ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔(القرآن، المائدہ، 5 : 93)

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا

تو یہی لوگ (روز قیامت) ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔(القرآن، النساء، 4 : 69)

ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا "وَاَحسِنُوا اِنَّ اللّهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ" احسان کرو بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

اہم  نکتہ: الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (سورۃ الملک:2)

آج کل مسلمانوں کا زور اعمال کی کثرت  اورطوالت  پر ہے۔جب کہیں بات نکلتی ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں نے سترہ حج کرلئے، وہ اتنے روزے رکھتا ہے، اس نے اتنا چندہ دیا۔ حالانکہ اللہ رب العزت نے قرآن میں کہیں بھی   اَکثرُ عملاً  نہیں فرمایا۔ قرآن مجید میں اعمال وافعال کے لئے جہاں بھی ذکر آیا ہے " احسن عملا"آیا ہے۔ جس سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت کو اعمال کی کثرت  اور طوالت مطلوب نہیں ہے دوسرے الفاظ میں اسلام Qurality مانگتا ہے Quantity نہیں اور اس حُسن کے ساتھ دوسری اہم چیز جو مطلوب ہے وہ مداومت ہے اگرچہ عمل قلیل ہی کیوں نہ ہو۔

 

اکثر بڑوں سے سنا گیا ہے کہ "کر بھلا ہو بھلا" یا پھر یہ "احسان کا بدلہ احسان کے  سوا اورکیا ہوسکتاہے" دونوں کی وضاحت:

احسان پر کی گئی  سابقہ گفتگو کو سامنے رکھا جائے تو اس عمل  کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا بدلہ ہمیں بہرحال مل کر رہے گا  خواہ اس  دنیا میں ملے یا آخرت میں اور خواہ احسان کا تعلق اللہ سے ہو(عبادات ) یا مخلوقات (بندوں کے حقوق و معاملات میں)سے۔

سورۃ الرحمٰن  میں اللہ رب العزت نے جنتیوں اور ان کو ملنے والی نعمتوں کے تذکرے کے بعد یہ آیت ذکر کی ہے:

 "ھَلْ جَزَاءُ الْاِحْسَانِ اِلاَّ الْاِحْسَان" یعنی احسان کا بدلہ احسان ہی ہے

احسان بندے کو لوگوں کے ساتھ ساتھ اللہ کی نظر میں بھی  پسندیدہ بنا دیتا ہے جیسا کہ اللہ  رب العزت کا ارشاد ہے :

"وَاَحسِنُوا اِنَّ اللّهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ" احسان کرو بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

نیز فرمایا:

 "وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ"(توبہ: 91)

اور یقینا اللہ حسن عمل والوں کے ساتھ ہے۔

نیز فرمایا:

مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ" نیک کردار لوگوں پر کوئی الزام نہیں ہوتا

نیز نیکی(احسن کام) کرنے والوں کے لئے اس دنیا میں بھی بہتری ہے۔

وَقِيْلَ لِلَّـذِيْنَ اتَّقَوْا مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۚ قَالُوْا خَيْـرًا ۗ لِّلَّـذِيْنَ اَحْسَنُـوْا فِىْ هٰذِهِ الـدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۚ وَلَـدَارُ الْاٰخِرَةِ خَيْـرٌ ۚ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِيْنَ (النحل: 30)

اور پرہیزگاروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے، تو کہتے ہیں اچھی چیز، جنہوں نے نیکی کی ہے (ان کے لیے) اس دنیا میں بھی بہتری ہے، اور البتہ آخرت کا گھر تو بہت ہی بہتر ہے، اور پرہیزگاروں کا کیا ہی اچھا گھر ہے۔

اللہ نے اس کے علاوہ  اور بھی دیگر مقامات پرارشاد فرمایا ہے کہ  محسنین کے عمل کسی بھی صورت میں ضائع نہیں ہونے دیں گے۔

 نیزہمارے یہاں احسان کا بدلہ احسان ہے اور ہم کسی کی نیکی کو برباد نہیں کرتے ہیں۔

اورحضور ﷺ نے  دنیا میں بھی   ہمیں  نیکی واحسان کے بدلہ دینے کا حکم دیا ہے؟

من اعطي عطاء فوجد فليجز به ومن لم يجد فليثن، فإن من اثنى فقد شكر ومن كتم فقد كفر، ومن تحلى بما لم يعطه كان كلابس ثوبي زور(مشکاۃ المصابیح)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی کو کوئی عطیہ دیا جائے اور وہ مالدار ہو تو اس کو چاہیئے کہ وہ بدلہ دے اور اگر اس کے پاس کچھ نہ ہو تو وہ تعریف کر دے، کیونکہ جس نے تعریف کی اس نے شکریہ ادا کر دیا اور جس نے بات چھپادی، اس نے ناشکری کی اور وہ آدمی دو جعلی کپڑے پہننے والے کی طرح ہے جو (‏‏‏‏تکلف کرتے ہوئے) ایسی چیز کا اظہار کرتا ہے، جو اسے عطا نہیں کی گئی۔“

 

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فی زمانہ نیکی اور بھلائی کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے اور جو نیک لوگ ہیں اگر ان کی زندگیوں کو دیکھا جائے تو وہ بیچارے پریشان ہیں (مظلوم) ہیں جب کہ برے ظالم اور دنیا دار لوگ خوشحال ہیں و مالدار اورکامیاب ہیں۔اس کی کیا وجہ ہے؟

آپ کے اس سوال کے دو حصے ہیں:

1.      نیکی کرنے والوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔

2.      نیک لوگوں کی زندگی پریشان اور ظالم خوشحال وکامیاب

پہلے سوال کی جواب تو یہ ہے کہ :

 اِنْ اَحْسَنْتُـمْ اَحْسَنْتُـمْ لِاَنْفُسِكُمْ ۖ وَاِنْ اَسَاْتُـمْ فَلَـهَا ۚ (بنی اسرائیل: 7)

اگر تم نے بھلائی کی تو اپنے ہی لیے کی، اور اگر برائی کی تو وہ بھی اپنے ہی لیے کی،

یعنی جو نیک اعمال کرے گا وہ اپنے لئے کرے ۔اللہ رب العزت اسے اجروانعام واخروی کامیابی سے نوازے گا۔

قابل غور نکتہ: اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جا ئے تو اس  دنیا  کا غالب حصہ زیادہ تر باطل ہی کے ہاتھوں میں رہا ہے۔ایسے لوگوں کے گروہ میں رہا ہے جو شیطان کے جال کا شکار ہوگئے ہیں اور اپنی عاقبت کو فراموش کرچکے ہیں۔اس وقت بھی اگر دیکھا جائے دنیا کا آبادی کا تقریبا پانچواں حصہ مسلمان ہیں یعنی ہر پانچ سے 4 تو یقینی باطل دین کے پیروکار ہیں۔

بہرحال  جنھوں نے اچھا کیا تو اپنے لئے اور برا کیا تو وہ خود اس کے ذمہ دار ہیں اور جواب دہ ہوں گے۔

 اِنْ اَحْسَنْتُـمْ اَحْسَنْتُـمْ لِاَنْفُسِكُمْ ۖ وَاِنْ اَسَاْتُـمْ فَلَـهَا ۚ (بنی اسرائیل: 7)

اگر تم نے بھلائی کی تو اپنے ہی لیے کی، اور اگر برائی کی تو وہ بھی اپنے ہی لیے کی،

رہا اس سوال کا دوسرا حصہ، میرے نزدیک یہ  جملہ(نیک لوگوں کی زندگی پریشان اور ظالم خوشحال وکامیاب) صحیح نہیں ہے؟

انسان اگر یہ نکتہ سمجھ جائے کہ یہ دنیا  دارالمحن  یعنی امتحان گاہ ے۔ یہاں ہم امتحان دینے آئے ہیں۔ نیز یہ دارالعمل ہے دارالجزاء نہیں۔ یعنی یہ "جہان" عمل کرنے کی جگہ ہے اور یہاں کئے گئے اعمال کا بدلہ آخرت میں دیا جائے گا۔اس کے نزدیک اس دنیا کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ وہ اس  دنیا کی خوشحالی و بدحالی سے کسی کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ نہیں کرے گا۔کیونکہ یہاں کی خوشحالی اس کی بات کی ضمانت نہیں ہے کہ رب اس سے راضی ہے۔

اس کی مثال  عالم خواب کی سے ہے ممکن ہے کوئی بدحال انسان خواب میں اپنی زندگی بہت آسودہ دیکھے اور اس کے برعکس ایک خوشحال انسان خود کو پریشان حال دیکھے لیکن نیند سے بیدار ہوتے ہی وہ اس خواب کی حقیقت سے آشکار ہوجائے گا اور اس پر کوئی قطعی حکم  نہیں لگائے گا۔


 

نبی کریم ﷺکی تعلیمات کے مطابق لوگ احسان و بھلائی کو اپنالیں تو ہمارے موجود معاشرے کی فضاء کیسی ہوجائے گی؟

کسی بھی معاملے کے تین درجات ہوتے ہیں

عدل(عدل سے مراد حق اداکرناہے)

احسان(احسان سے مراد حق سے زائد اداکرناہے، اس طرح کرنے سے انسان کی خودغرضانہ سوچ ختم ہوجاتی ہے)

 ظلم(ظلم ان دونوں کے برعکس کسی کاحق مارناہے)

احسان سے جہاں معاملات میں حسن پیدا ہوتا ہے وہاں معاشرے میں بھی انسانوں کے باہمی رویوں میں اعتماداور قربت کے جذبات پیداہوتے ہیں اوراستحصالی نظام کاقلع قمع ہوتاہے۔ احسان کا جو پیمانہ اسلام نے دیا ہے، دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسلام کی اساس احسان پر ہے اور یہ خودغرضی کا کاقلم قمع کرتا ہے ۔ خودغرضی ہی معاشرے میں انتشار ،بےچینی اور بدامنی کو فروغ دیتی ہے۔

حقیقت میں  یہ ایسا عالی وصف ہے جو کسی بھی قوم یا معاشرے کو استحکام عطا کرتا اور بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔یہ وہ وصف ہے جسے اپنانے والی اقوام سربلندی و سرفرازی سے ہم کنار ہوتی ہیں اور جب یہ کسی قوم کا مجموعی مزاج بن جائے تو آپس میں باہمی مودت ومحبت قائم ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں  انہیں دنیاوی لحاظ سے بھی عروج حاصل ہوتا اور آخرت کی کامیابی و کامرانی بھی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔


 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post