کلمہ دجال کی مکمل وضاحت

علامہ محمد شاہد خان

اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ اس کی بے مثال تعلیمات و ہدایات دنیائے انسانیت کے لئے ہر غم کا مداوا کرتی ہیں۔ اس کے آغوشِ لطف و کرم میں سکون واطمینان کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ اسلام انسانی زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگوں کی رہنمائی کرتاہے۔ انسان کے جان ، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے کوشاں رہتاہے۔کوئی بھی عمل جو انسان کی مذہبی ، روحانی ، جسمانی، معاشرتی ، اخلاقی، سیاسی، سماجی، اعتبار سے ہونے والے خطرات سے بچاؤ کا طریقہ کار بھی مرحمت فرماتا ہے۔ انسان کی حفاظت اور ہدایت کے لئے اپنے انبیاء و رسل کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ انسان کے سب سے بڑے دشمن شیطان کے حربوں سے بچیں۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ شیطان اور نفس کے علاوہ انسان کے بے شمار دشمن ہیں۔ جو انسان کے عقیدے اور ایمان کے دشمن ہوتے ہیں۔ زندگی بھر انسان نفس اور شیطان کے خلاف جنگ کرتارہتاہے۔ قرب قیامت سے قبل انسان کے ایمان و ایقان کے بے شمار دشمن اور لٹیرے آئینگے۔ اور وہ مختلف حربوں اور چالوں سے دولت ایمان جو قیامت سے قبل ظاہر ہوگا۔ اس کے دھوکہ و فریب سے ہر نبی نے اپنی امت کو آگاہ کیا ہے۔ اس کے جھوٹ اور دھوکہ دہی سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اس کے بارے میں رحمۃ اللعالمین ﷺ  اور فلعلک باخع نفسک کی ذات والا صفات نے اپنی امت کو اس کے شر سے محفوظ و مامون رہنے کا طریقہ اور راستے کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اس عظیم تر فتنے کا نام ہے ''دجّال''۔

سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عربی زبان میں دجّال کا معنی و مطلب کیا ہیں۔

امام خلیل بن احمد رحمۃ اللہ علیہ کلمہ دجّال کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ :

الدجل: شدۃ طلی الجرب بالقطران۔( کتاب العین، امام خلیل بن احمد الفراہیدی، ج١، ص ٥٥٤، ناشر انتشارات اسوہ التابعۃ لمنظمۃ الاوقاف والامور الخیریۃ(

ترجمہ:'' عیب و برائی کو سختی سے تارکول کے ساتھ باندھ کر روکنے کے ہیں''۔

امام خلیل بن احمد رحمۃ اللہ علیہ لفظ دجّال پر مزید لکھتے ہیں کہ :

الدجال المسیح الکذاب و دجلہ سحرہ و کذبہ لأنہ یدجل الحق باالباطل ای یخلطہ و ھو رجل من الیہود یخرج فی آخر ہذہ الأمۃ۔( کتاب العین، امام خلیل بن احمد الفراہیدی، ج١، ص ٥٥٤، ناشر انتشارات اسوہ التابعۃ لمنظمۃ الاوقاف والامور الخیریۃ)

ترجمہ:'' دجال جھوٹا مسیح ہے۔ اس کا ''دجل'' جادوگری اور جھوٹ ہے۔ کیونکہ وہ حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کردے گا۔ وہ یہودیوں میں سے ہے۔ جو اس امت کے آخری زمانے میں ظاہر ہوگا''۔

امام احمد بن فارس علیہ الرحمۃ کلمہئ دجّال کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ :

الدجل: یدل علی التغطیہ والستر۔ قال اہل اللغۃ الدَّجْل تمویۃ الشیئ۔ وسمی الکذاب دَجَّالاً۔(معجم مقیس اللغۃ، احمد بن فارس ، ج١، ص ٤٣٣، ناشر دارالکتب العلمیۃ بیروت(

ترجمہ:''الدجل: پوشیدگی اور چھپانے پر دلالت کردیتاہے۔ اہل لغت لکھتے ہیں کہ الدجل : کسی چیز کے ملانے کو کہتے ہیں۔ اور اسی لیے جھوٹے کو ''دجال'' کہا جاتاہے''۔

قال ابن درید علیہ الرحمۃ کل شی غطیتہ دجَّلتہ وسمیت دِجلَۃٌ لأنہا تغطی الأرض بالجمع الکثیر۔ ویقال رُفقۃٌ دجالۃٌ اذا غطت الارض بزحمتہا۔(معجم مقیس اللغۃ، احمد بن فارس ، ج١، ص ٤٣٣، ناشر دارالکتب العلمیۃ بیروت(

ترجمہ:ابن درید علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ:

''ہر اس شے کو میں نے ڈھانپ دیا یعنی اس کو چھپادیا ۔ دجلہ نہر کا نام ہے اس لیے ہے کہ وہ زمین کو بہت زیادہ چھپادیتی ہے۔ اور اُفقۃ دجالۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب وہ زمین کو اپنی تنگی میں چھپادیتی ہے''۔

امام ابن منظورالافریقی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیںکہ:

دجلۃ اسم نہر من ذلک لأنہا غطت الأرض بمائہا حین فاضت۔( لسان العرب ، محمد بن مکرم مصری، ج١١، ص ٢٣٦، ناشر دار بیروت للطباعۃ والنشر(

ترجمہ: ''دجلہ ایک نہر کا نام ہے۔ دجلہ اس لیے کہا جاتاہے کیونکہ جب پانی بہتا ہے تو وہ زمین کو چھپادیتی ہے''

ابن خالویہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ:

لیس احد فسر الدّجال احسن من تفسیر ابن عمرو قال۔ الدجّال :'' المُمَوَّہُ( لسان العرب ، محمد بن مکرم مصری، ج١١، ص ٢٣٦، ناشر دار بیروت للطباعۃ والنشر(

ترجمہ: ''کسی نے بھی سب سے عمدہ دجال کی وہ تفسیر نہیں کی ہے جو تفسیر ابو عمرو نے کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ دجال ملمع سازی کرنے والے کو کہتے ہیں''۔

امام ابن منظورالافریقی علیہ الرحمۃ کلمہئ دجّال کے حوالے سے مزید تشریح فرماتے ہیںکہ:

سمی دجالاً لتمویہہ علی الناس و تلبیسہ وتزنینہ الباطل۔( لسان العرب ، محمد بن مکرم مصری، ج١١، ص ٢٣٧، ناشر دار بیروت للطباعۃ والنشر(

ترجمہ: ''دجال کو دجال اس لیے کہا جاتاہے کہ وہ لوگوں کے لیے باطل کو خلط ملط اور آراستہ و پیراستہ کرے گا۔''آپ لکھتے ہیں کہ:

فعَّال من ابنیۃ المبالغۃ ای یکثر فیہ الکذب والتلبیس۔ دجل الشی بالذھب۔ یقال لماء الذھب دجّال۔وبہ شبہ الدجال دجالاً لأنہ یظہر خلاف ما یضمر۔( لسان العرب ، محمد بن مکرم مصری، ج١١، ص ٢٣٧، ناشر دار بیروت للطباعۃ والنشر(

ترجمہ: دجّال فعَّال مبالغہ آرائی کے باب سے ہے ۔ جو کہ جھوٹ اور عیب و برائی کو کثرت سے چھپانے کے ہیں۔ کسی چیز کو سونے کے پانی کے ذریعے سے دھوکہ و فریب دینے کو دجال کہا جاتاہے۔ اور دجا ل کو دجال سے اس لیے تشبیہ دی ہے کیونکہ وہ چیز کو خلاف باطن ظاہر کرتاہے۔''

اس لغوی بحث کا حاصل کلام یہ ہے کہ دجال دھوکہ دہی، جھوٹ اور فریب کو کہتے ہیں۔اس میں حق کو باطل کے ساتھ نہ صرف خلط ملط کردیا جاتاہے بلکہ آراستہ و پیراستہ اور مزین کرکے پیش کیا جاتاہے۔ جب کسی چیز پر سونے کا پانی چڑھایا جاتاہے تو اس ملمع سازی کے ذریعہ سے دھوکہ دہی کو بھی دجال کہا جاتاہے۔

اس کے معنی یہ بھی ہے کہ : اس میں عیب اور برائی کو چھپادیا جاتاہے۔ جو چیز خلافِ باطن ہو اس کو ظاہر کرتاہے۔ اس کے باطن کو چھپادیتاہے۔ الغرض دجال حق کو باطل کے ساتھ ملادے گا۔ عیب و برائی کو پوشیدہ کردے گا۔ برائی اور نقص کو آراستہ و پیراستہ اور مزین کرکے پیش کرے گا۔ اس کے اس عمل ہی کی وجہ سے اس کو دجال کہا جاتاہے۔ اور دجال باب فعّال سے ہے جو کہ مبالغہ آرائی پر دلالت کرتاہے۔ یعنی وہ بدرجہ اتم اور ناقابل تصور طریقے سے جھوٹ اور دھوکہ وفریب دے گا۔ حق کو باطل کے ساتھ ملادے گا۔ اور وہ برائی اور نقص کو اس طرح مزین کرکے پیش کرے گا۔ کہ اس کے شر میں ہر خاص و عام جکڑجائیں گے اس کا پھینکا ہوا تیر خطا نہیں ہوگا۔ اس کے تیر پھینکنے میں بھرپور طاقت و قوت کا اظہار کیا جائے گا۔ اس کے خطا اور رائیگاں ہونے کا بھی اندیشہ نہیں ہوگا۔

علاوہ ازیں عربی زبان بے شمار خصوصیات سے مالا مال ہے۔ اس کے چمکتے ہوئے تاج میں ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی اور گراں قدر نگینہ ہے۔ جس کی تابانی اور درخشاں روشنی حیرت و استعجاب کی وادی میں گم کردیتی ہے۔ اور انسان اس کی عظمت و رفعت کے سامنے سر تسلیم خم کردیتاہے۔ گویا کہ عربی زبان کی بے شمار خصوصیات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ عربی زبان کے ایک ایک حرف کی ایک جداگانہ اور نمایاں خصوصیت ہے۔ جس خاصیت اور صفت کا اثر اس کے معنی پر بھی پڑتاہے۔ اگر کسی حرف کی صفت میں قوت و طاقت کا پہلو ہے تو اس طاقت و قوت کا اثر اس کے معنی پر بھی پڑے گا۔ اور اگر کسی حرف کی صفت میں نرمی اور رخاوت پائی جاتی ہے تو اس نرمی اور رخاوت کا اثر اس کے معنی پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر کسی حرف کی صفت میں کمزوری اور ضعف پایاجاتاہے تو اس کمزوری اور ضعف کا اثر اس کے معنی پر بھی ہوتاہے۔

اسی طرح اگر کسی لفظ میں ''حرف تفشی'' آجائے تو اس کے معنی میں وسعت اور پھیلاؤ کا عنصر غالب نظر آئے گا۔ اس کے معنی کا دائرہ کار وسیع و عریض ہوجائے گا۔ مثلاً جب کس لفظ میں حرف ''تفشی آجائے تو اس کی مثال یہ ہے جیسے کہ ''شر'' شر میں حرف شین آیا ہے تو اس کے معنی میں بھی وسعت اور پھیلاؤ کا پہلو نمایاں رہے گا ۔ شر کا اثر بہت وسیع ہوتا۔ اس میں کتنی وسعت اور پراگندگی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس کا تصور بھی نہیںکیا جاسکتاہے۔

''شحم'' چربی کو کہا جاتا ہے ۔ چربی کا پھیلنا اور بڑھنا محتاج بیا ں نہیں ہے۔ شجر درخت کو کہا جاتاہے اس کے پھیلاؤ اور وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ درخت پھیلتا ہی پھیلتا چلاجاتاہے۔ الغرض عربی زبان کے کسی بھی لفظ میں شین آجائے تو اس کے معنی میں وسعت اور پھیلاؤ کا عنصر نظرآتاہے۔ جب ہم اس پر غوروفکر کرتے چلے جائینگے تو ہمیں ''شرح صدر'' ہوتاچلاجائے گا۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ کلمہئ ''دجّال'' کے حروف کی کیا کیا صفات ہیں کہ جن صفات اور خصوصیات کا اثر اس کے معنی پر ہورہاہے۔

کلمہ دجل کے حروف کی صفات مرقوم الذیل ہیں۔

د: مجہورہ، مشددہ، مستفلہ، منفتحہ، مصمتہ، قلقلہ۔

ج: مجہورہ، مشددہ، مستفلہ، منفتحہ، مصمتہ، قلقلہ۔

ل:مجہورہ، متوسطہ، مستفلہ، منفتحہ،مذلقہ، منحرفہ۔

اس کلمہ کے حروف اصلیہ د۔ج۔ل۔ہیں ۔ اس سہ حرفی کلمے میں ہر حرف کی اک جداگانہ خصوصیت ہے۔ کہ جس خصوصیت کا اثر اس کے معنی پر بھی ہوتاہے۔ اس سہ حرفی کلمہ میں سب سے مرکزی اور کلیدی کردار عین کلمہ کا ہوتاہے۔ اگر عین کلمہ قوی ہے تو اس کی وجہ سے دوسرے حروف کو تقویت ملتی ہے۔ اور اگر عین کلمہ میں کمزوری اور ضعف کا پہلو ہے تو اس کا اثر دیگر حروف پر بھی پڑتاہے۔ کیونکہ ابن جِنّی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ:

العین أقوی من اللفاء واللام۔( ابو الفتح عثمان بن جنی، کتاب الخصائس، ج١م ص ٥٠٧، ناشر دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان(

ترجمہ: ''عین کلمہ فاء اور لام کلمے سے زیادہ قوی ہوتاہے''۔

ہر حرف اپنی جگہ قوی ہوتاہے لیکن عین کلمہ ''أقوی'' یعنی سب سے زیادہ قوی ہوتاہے۔ لہذا اس سہ حرفی کلمہ کا عین کلمہ ''ج'' ہے۔ جس کی صفت مجہورہ، مشددہ، قلقلہ ہے۔ان صفات کی وجہ سے اس کے معنی میں بہت ہی طاقت و قوت اور دشت و حدت کا پہلو اجاگر رہے گا۔ اس کی ادائیگی کے وقت مخرج میں جنبش پیدا ہوجائے گی۔ اس میں قوت و طاقت اور صلابت کا جوہر ظاہر ہوگا۔

عین کلمہ کا دایاں بازو فاء کلمہ ''ل'' ہے۔ جس کی صفت مجہورہ، مشددہ، قلقلہ ہے۔یعنی ان صفات کی وجہ سے اس کے معنی میں طاقت و قوت ہے۔ اس قوت و طاقت میں مزید اضافہ کرنے کے لیے فاء کلمہ ''ڈ'' اس کا معاون و مددگار ثابت ہورہاہے۔ اسکے تعاون سے اس کی قوت و شدت میں زیادتی ہوگئی ہے۔ گویا کہ اس کی قوت و طاقت دوآتشہ ہوگئی ہے۔

اس عین کلمہ کا بایاں بازو ''ل'' ہے۔ جس کی صفت مجہورہ، اور متوسطہ ہے۔اس لام کلمے نے اپنی مجہورہ، والی صفت میں عین کلمہ کا ساتھ دیا ہے۔ لیکن اس کی دوسری صفت ''متوسطہ''ہے۔ یعنی اس کے معنی میں نہ تو دشت وحدت پائی جاتی ہے اور نہ ہی رخاوت وملائمت کا پہلو پایا جاتاہے۔ بلکہ اس میں اعتدال اور توازن کی صفت کارفرما ہے۔

دَجَلَ کا مطلب جھوٹ بولنے کے ہیں اور دَجَّلَ دھوکہ فریب اور ملمع سازی کو کہتے ہیں۔ یعنی جھوٹ، دھوکہ و فریب اور ملمع سازی کو قوت و طاقت اور شدت وحدت سے پیش کیا جائے گا۔ اس کو پیش کرنے کے لئے بدرجہ اتم طاقت و قوت کا استعمال عمل میں لایا جائے گا۔ ''دجل'' میں مجہورہ کی صفات قدر مشترک ہے۔ لیکن لام کلمہ کی ایک صفت متوسطہ بھی ہے کہ اس میں نہ تو طاقت و قوت پائی جاتی ہے اور نہ ہی رخاوت و ملائمت کا عنصر غالب رہتاہے۔ بلکہ اس میں توازن اور اعتدال پسندی پائی جاتی ہے۔

لہذا جھوٹ ، دھوکہ و فریب اور ملمع سازی میں بھرپور طریقے سے قوت و طاقت استعمال کی جاتی ہے ۔ لیکن اس طاقت و قوت میں توازن اور اعتدال پسندی کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر بے اعتدالی اور غیر متوازن طریقے سے جھوٹ اور دھوکہ دیاجائے گا تو لوگ بیدار ہوجائےں گے اور شکاری کے شکار سے بچ جائیں گے۔لہذا اس میں بھرپور قوت و طاقت کے ساتھ ساتھ اعتدال اور توازن بھی شامل حال ہوتاہے۔

کلمہئ دجل کے تمام حروف کی صفات مستفلہ اور منفتحہ بھی ہے۔ اول الذکر صفت اس کی یہ ہے کہ اس کا اثر نچلے نچلے سے طبقے تک جائے گا۔ ثانی الذکر صفت یہ ہے کہ واضھ اور کھلا ہوا ہوگا۔ یعنی اہل علم اور سلیم الفطرت لوگ اس دھوکہ و فریب سے باخبر ہونگے۔

علاوہ ازیں عین کلمہ ''ج'' اورفاء کلمہ ''د'' کی صفت'' مصمتہ'' ہے۔ کیونکہ اثر پذیری کا کردار عین کلمہ ''ج'] ادا کررہاہے اور اس صفت میں فاء کلمہ ''د'' بھی اس کا معاون و مددگار ہے۔ اس صفت مصمتہ کا خاصہ یہ ہے کہ دھوکہ و فریب انتہائی سست رفتاری سے دیا جاتاہے اور عمل کو انتہائی خفیہ رکھا جاتاہے تاکہ دیگر لوگ اس خفیہ کارکردگی سے آگاہ نہ ہوسکیں۔ یہ دونوں صفات اپنی اس خاموش کاروائی میں مصروف عمل ہوتی ہیں۔ لیکن اس کا مقابلہ کرنے کے لیے لام کلمہ ''ل'' کہ جس کی صفت ''مذلقہ'' ہے اس کی آمیزش اور حاضری موجبِ کسر و انکسار ہوتی ہے۔ فاء اور عین کلمے کی دونوں صفات اپنی خفیہ کاروائی کریں گے۔ لیکن اس خفیہ کاروائی کی تیزی کو لام کلمہ یکسر ختم کرنے سے قاصر ہے لیکن پھر بھی وہ اس عمل میں کمی واقع کرتاہے۔ کیونکہ صفت ''مصمتہ'' اور''مذلقہ'' دونوں صفات ایک دوسرے کی مغائر اور ضد ہیں۔ خفیہ کاروائی جاری و ساری رہتی ہے لیکن کسی ایک جگہ وہ خفیہ کاروائی روک دیتاہے۔ اس کا اثر ختم کردیاہے۔ جس سے اس کا دجل و فریب اور ملمع سازی آشکار اور وہ واضح ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس سہ حرفی کلمہ کی صفت منفتحہ بھی ہے اس کا دھوکہ و فریب اور جھوٹ بھی واضح اور ظاہر ہوجاتاہے۔ بالفاظ دیگرے اس سست رفتاری کے عمل سے آگاہی حاصل نہیں ہوتی ہے لیکن صفت ''مذلقہ'' کے کسر و انکسار اور ٹکراؤ کے باعث اس کا عیب اور دھوکہ پوشیدہ نہیں رہتا ہے۔ جیسے کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ عین کلمہ ''ج'' کی صفات مجہورہ، مشددہ اور قلقلہ ہے۔ اس کے معنی میں طاقت و قوت اور شدت و حدت کا استعمال کیا جاتاہے۔ اور اس کی ادائیگی میں سختی پیداکی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے معنی میں بھی یہی قوت و طاقت اور شدت بڑی شدّو مد سے نظر آتی ہے۔اس عین کلمہ''ج'' کا دایاں بازو فاء کلمہ ''د'' بھی اس قوت و طاقت میں اس کا مددگار ہے۔ اس کو تعاون فراہم کررہاہے۔ لیکن عین کلمہ کا بایاں بازو لام کلمہ''ل'' ہے جس کی صفت ''منحرفہ'' ہے۔ اس کی ادائیگی میں زبان پلٹی ہے اور وہ انحراف کرتی ہے۔ گویا جب عین اور فاء کلمے کو ادا کیا جاتاہے تو بھرپور قوت و طاقت استعمال کی جاتی ہے۔ تو اس وقت لام کلمہ''ل'' اس طاقت اور قوت کے خلاف کھڑی ہوتی ہے لیکن کیونکہ وہ کمزور اور ناتواں ہوتی ہے تو اس جذبہ سے منحرف ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے اس عمل سے سچ و جھوٹ عیاں ہوجاتاہے۔ اور اس کے ''فریب'' میں کسی بھی قسم کا شک و شبہ اور ''ریب '' باقی نہیں رہتاہے۔ اس کے اس انحراف سے لوگ باخبر ہوجاتے ہیں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ کلمہئ ''دجل'' کے حروف کی صفات سے ظاہر ہوا ہے کہ اس میں قوت و طاقت اور شدت و حدت کی صفات پائی جاتی ہےں اس میں بدرجہ اتم طاقت و قوت کا استعمال کیا جاتاہے۔ اور اس قوت و طاقت میں دیگر حروف دامے، درمے ،سخنے اس سے ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں۔ جس تعاون اورا مداد کی وجہ سے اس کی قوت و طاقت میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔

اس سہ حرفی کلمے میں لام کلمہ''ل'' ہے اس کی صفت متوسطہ، منفتحہ، مذلقہ اور منحرفہ ہے۔ اس کلمہ میں نہ تو شدت و قوت پائی جاتی ہے اور نہ ہی رخاوت و ملائمت پائی جاتی ہے ۔ بلکہ اس میں اعتدال اور میانہ روی نظر آتی ہے۔ جب دیگر حروف کی صفات قوت و طاقت اور سختی کا اظہار کرتے ہیں تو یہ لام کلمہ ان کے خلاف کھڑا ہوجاتاہے لیکن کیونکہ وہ کمزور اور ضعیف و نزار ہوتاہے تو وہ اپنے جذبے سے منحرف ہوجاتاہے ۔ اور صفت منحرفہ کا اظہار کرتاہے۔ اس اظہار سے اہل علم باخبر ہوجاتے ہیں۔ اور ہوشیاری کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

الغرض دجَّال جب اس امت کے آخری زمانے میں ظاہر ہوگا تو اپنے دجل و فریب اور دھوکہ دہی کو بزور طاقت و قوت اور بڑی ہی شدو مد سے پیش کرے گا۔ اس قوت و طاقت میں ساتھ دینے کے لئے کثرت سے لوگ اس کے معاون و مددگار اور رضاکارانہ طور پر اپنا کردار ادا کریں گے۔ اس کے پیغام میں دجل و فریب اور دھوکہ دہی ہوگی لیکن صرف و صرف صاحب تقویٰ اور اہل نور ہی اس دجل و فریب اور ملمع سازی سے آگاہ اور باخبر ہونگے۔ جو ان کا ساتھ اور ہم نشینی اختیار کرے گا وہ فلاح پاجائے گا۔ اور اس کے دجل و فریب اور جھوٹ سے محفوظ و مامون ہوجائے گا۔ ورنہ اس کے دجل و فریب اور دھوکہ دہی سے کوئی بھی طبقہ محفوظ نہیں رہے گا۔ اس کے جھوٹ کا اثر نچلے سے نچلے طبقے تک پہنچ جائے گا۔ اس کا پھینکا ہوا تیر کبھی بھی خطا نہیں ہوگا۔

''دَجَّال'' کے ڈالے ہوئے ''جال'' میں ہر طبقہ پھنس جائے گا۔

؎    مجھے جو بھی دشمن جاں ملا

وہی پختہ کارِ جفا ملا

نہ کسی کی ضرب غلط پڑی

نہ کسی کا تیر خطا ہوا

اس کے علاوہ دجّال باب فعّال سے ہے۔ جو کہ مبالغہ آرائی پر دلالت کرتاہے۔ اور کثرت حروف کثرت معنیٰ پر شہادت دیتے ہیں۔ دجّال کی ذات میں دجل و فریب ، جھوٹ و دھوکہ دہی اور ملمع سازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوگی وہ دجل و فریب اور دجّالیت کا مجسمہ ہوگا۔ صرف و صرف صاحب تقویٰ اور اہل نور ہی اس کے دجل و فریب سے محفوظ اور مامون رہیں گے۔ اس تقویٰ اور نور کی بدولت ان میں حق و باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت پیداہوجائے گی۔ وہ سچ و جھوٹ میں تمیز کرینگے۔ اور کھرے اورکھوٹے سکے کی پہچان کرسکےں گے۔ وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردینگے۔

اس عظیم تر فتنے سے بچاؤ کے لیے وہ ذات والا صفات کہ جن کو رحمت للعالمین ﷺ  کے تاج سے سرفراز فرمایاہے۔ جو کہ فلعلک باخع نفسک علی اثارہم کی منہ بولتی تفسیر ہیں۔آپ نے اپنی تعلیمات وہدایات کے ذریعے سے اس امت کو دجل و فریب ، جھوٹ اور دھوکہ دہی کے سمندر میں غرق ہونے سے بچاؤ کے طریقہ کار بیان فرمائے ہیں تاکہ ان کا ہر ہر امتی دجّال سے محفوظ و مامون رہ سکے۔ اب دجّال کے حوالے سے چند احادیث پیش کی جارہی ہیں۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:

ما بین خلق آدم الی قیام الساعۃ امر اکبر من الدجّال۔

''تخلیق آدم علیہ السلام سے قیام قیامت تک دجّال سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ہے''۔ (مسلم شریف)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا :

ألا أحدثکم حدیثا عن الدجّال ما حدّث بہ نبی قومہ إنہ أعور وإنہ یجی معہ بمثل الجنۃ والنار فالتی یقول إنہا الجنۃ ہی النار وأنی أنذرکم کما أنذر بہ نوح قومہ۔( متفق علیہ)

کیا میں تمہیں دجّال کے متعلق ایک ایسی بات نہ بتاؤں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتائی۔ بے شک وہ کانا ہے اور اپنے ساتھ جنت و دوزخ جیسی چیزیں لے کر آئے گا۔ اور میں تمہیں ڈراتاہوں جیسے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا ہے کہ

إن اللہ لا یخفی علیکم أن اللہ تعالیٰ لیس بأعور وأن المسیح الدجّال أعورُ عین الیمنیٰ کان عینہ عِنَبۃٌ طافیۃٌ۔( متفق علیہ)

''بے شک اللہ تعالیٰ نے یہ بات تم سے پوشیدہ نہیں رکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے۔ جب کہ دجّال داہنی آنکھ سے کاناہے۔ اس کی آنکھ گویا پھولے ہوئے انگور کی طرح ہوگی''۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ:

ما من نبی إلا قد أنذر أمتہ الأعور الکذاب ا۔ألا إنہ أعور وأن ربکم لیس بأعور مکتوب بین عینیہ ک۔ف۔ر۔( متفق علیہ)

ترجمہ: ''کوئی نبی نہیں ہوا مگر اس نے اپنی امت کو کانے کذاب سے ڈرایا ہے ۔آگاہ رہو کہ وہ کانا ہے ۔ جب کہ تمہارا رب کانان ہیں ہے۔ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک ۔ف ۔ر لکھا ہوا ہے''۔

دوسری روایت میں آتاہے کہ آپ ﷺ  نے فرمایا ہے کہ:

مکتوب بین عینیہ کافر یقرأ کل مومن کاتب وغیر کاتب۔(مسلم)

اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ''کافر'' لکھا ہوا ہے جس کو ہر مومن پڑھے گا خواہ وہ لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتاہو۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا ہے کہ:

إنی حدثتکم عن الدّجال حتی خشیت أن لا تعقلوا أن المسیح الدجّال قصیر أفحج جَعْدٌ أعور مطموس العین لیست بناتیۃ ولا جحراأ فِن ألبس علیکم فاعلموا أن ربکم لیس بأعور۔( ابو داؤد)

میں نے تمہیں دجّال کے متعلق بتادیا اور مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہاری سمجھ میں نہ آئے سنو! دجّال پست قد، ٹیڑھے پیروں والا، گھتے ہوئے بالوں والا، کانا ہے جس کی آنکھ مٹی ہوئی ہے جو ابھری ہوئی ہے اور نہ اندر دھنسی ہوئی ہے۔ اگر تمہیں اس کے متعلق شک واقع ہو تو جان لو کہ تمہارا رب کانانہیں ہے۔

    حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ:

    فاذا نظر الیہ الدجال ذاب کما یذوب الملح فی الماء وینطلق ہارباً۔ ویقول عیسیٰ علیہ السلام ان لی فیک ضربہ لن تسمقنی بھا فیُدرکہ عند باب اللّدِّ الشرقی فیقتلہ( سنن ابن ماجہ)

    ترجمہ: جب یہ دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کو دیکھے گا تو اس طرح پگھل جائے گا جس طرح پانی میں نمک پگھل جاتا ہے اور آپ کو دیکھ بھاگے گا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے فرمائیں گے تجھے میرے ہاتھ سے ضرب کھانی ہے تو بھاگ کر کہاں جائے گا ۔ آخر کار حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے باب لُد کے پاس پکڑیں گے اور قتل کردیں گے۔

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا ہے کہ:

من حفظ عشر آیات من أول سورۃ الکہف عُصِم من الدجّال۔( مسلم)

''جس نے سورہئ کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرکے تلاوت کیں وہ فتنہئ دجّال سے محفوظ رہے گا۔''

امام قرطبی علیہ الرحمۃ سورۃ الکہف کے حوالے سے ایک حدیث نقل فرماتے ہیں کہ:

الا أدلکم علی سورۃ شیّعہا سبعون الف ملک ملأ عظمہا ما بین السماء والارض لتالیہا مثل ذلک ۔ قالوا بلی یا رسول اللہ ﷺ  قال سورۃ اصحاب الکہف من قرأہا یوم الجمعۃ غفرلہ الی الجمعۃ الاخری وزیادۃ ثلاثۃ ایام وأعطی نوراً یبلغ السماء ووفی فتنۃ الدجال۔ ( الجامع لاحکام القرآن ، علامہ قرطبی)

آپ ﷺ  نے صحابہ کرام سے سوال کیا کہ کیا میں تمہیں ایسی سورت کے بارے میں نہ بتاؤں کہ جس کے برابر چیز کو حاصل کرنے کے لیے ہزار فرشتے جاتے ہیں۔ اس کی عظمت سے جو کچھ زمین و آسمان کے درمیان ہے وہ اس میں پھیلی ہوئی ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کی جی ہاں۔ اے اللہ کے رسول ﷺ  ۔

فرمایا جس نے جمعۃ المبارک کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت کی تو اگلے جمعہ تک اور مزید تین دن تک اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ اور ایسا نور عطا کیا جاتا ہے جو آسمان تک پہنچ جاتاہے۔ اور وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہتا ہے۔

خلاصہ کلا م یہ ہے کہ دجّال جو کہ اسم بامسمیٰ ہے۔ وہ دجل و فریب ، جھوٹ اور ملمع سازی میں ید طولیٰ رکھتا ہے۔ وہ لوگوں کے ایمان کا دشمن ہوگا۔ اس کے دجل و فریب سے ادنی و اعلیٰ کوئی بھی طبقہ محفوظ نہیں رہے گا۔ اس کے شرکاادراک کرنا محال ہوگا۔ لیکن خاتم النبیین اور رحمت اللعالمین ﷺ  نے اپنی امت کو اس کے دجل و فریب سے آگاہ فرمایاہے۔ کہ وہ کس طرح لوگوں کے ایمان و ایقان کو لوٹے گا۔ کس طرح چیزوں کو خلط ملط کردے گا۔ وہ جنت کو دوزخ اور دوزخ کو جنت بنا کر پیش کرے گا ۔ ظاہر پرست ''دجّال'' کے ''جال'' میں پھنس جائیں گے۔

لیکن آپ ﷺ  نے دجَّال کا حلیہ تک بیان فرمایا ہے اور بنیادی بات یہ فرمائی ہے کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ کیونکہ دجّال اپنی وحدانیت اور الوہیت و ربوبیت کا بھی اعلان کرے گا۔ تو اس سے بھی آگاہ فرمایا دوسرا اس کی پیشانی پر ک۔ ف۔ ر اور دوسری روایت کے مطابق کافر لکھا ہوگا۔ ہر شخص اس کو پڑھ کر اس کے دجل و فریب سے آگاہ ہوجائے گا۔ اپنے ایمان کو بچانے کی تگ و دو کرے گا۔

     ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایاہے کہ:

    لا تزال طائفۃ من رضی علی الحق ظاہرین لا یضرہم من خالفہم حتی یاتی امر اللہ۔( ترمذی)

    میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ غلبہ کے ساتھ حق پر رہے گا۔ ان کے مخالف قیامت کے آنے تک انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکیں گے۔

اس حدیث سے یہ بھی مستفاد و معلوم ہوتاہے کہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ کے کچھ منتخب و چنیدہ بندے ہوتے ہیں جو حق و صداقت کا پیکر ہوتے ہیں ۔ وہ امت مسلمہ کی ہرلحظہ ہر آن رہنمائی کرتے ہیں۔ اور عوام الناس کو چاہیے کہ ان کی صحبت کو لازم رکھیں تاکہ وہ بھی ان

کی رہنمائی سے اپنے ایمان و یقین کو محفوظ و مامون کریں اور فلاح دارین حاصل کریں۔

     دجّال کی دجّالیت سے صرف و صرف صاحب تقویٰ اور اہل نور ہی محفوظ اور مامون رہینگے۔ وہ نہ صرف خود محفوظ رہیں گے۔ بلکہ اوروں کو بھی اپنی آغوشِ لطف وکرم میں لے لینگے۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ  نے اپنی امت کو تعلیم دی ہے کہ وہ سورۃ کہف کی دس ابتدائی آیات کی تلاوت کریں ۔ اس کی برکت سے باطن منور ہوجائے گا۔ جس نور کی مدد سے انسان حق اور باطل میں فرق کرسکے گا۔ سچ و جھوٹ میں تفریق کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔

    اللہ تعالیٰ ہمیں ہر فتنہ سے محفوظ و مامون فرمائے۔آمین

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:

دجّال نکلے گا تو مسلمانوں میں سے ایک شخص اُس کی طرف متوجہ ہوکر بڑھے گا۔ اُسے دجال کے گماشتے ملیں گے اور کہیں گے کہ کہاں کا ارادہ ہے۔ وہ کہے گا کہ اُس کی طرف جارہا ہوں جس نے خُروج کیا ہے فرمایا وہ کہیں گے: کیا تمہارا ہمارے رب پر ایمان نہیں؟ وہ فرمائے گا کہ ہمارے رب کی ربوبیت مخفی نہیں۔ وہ کہیں گے کہ اِسے قتل کردو۔ پس اُن کے بعض دوسرے بعض سے کہیں گے کہ کیا تمہارے رب نے منع نہیں کیا کہ میری اجازت کے بغیر کسی کو قتل نہ کرنا؟

پس وہ اُسے دجّال کے پاس لے جائیں گے ۔ جب مردِ مؤمن اس کو دیکھے گا تو کہے گا اے لوگو! یہی دجّال ہے جس کا رسول اللہ ﷺ  نے ذکر فرمایا تھا۔ دجّال حکم دے گا کہ اِسے پکڑ کر چت لٹاؤ اور اس کا سر کُچل دو۔ وہ اتنا ماریں گے کہ اُس کی کمر اور پیٹ پھول جائے گا۔ پھر کہے گا: کیا تو مجھ پر ایمان نہیں لاتا؟ وہ فرمائے گا: تُو بہت بڑا کذّاب ہے۔ وہ حکم دے گا تو اُس کے سر پر آرا رکھا جائے گا جو چیرتا ہُوا دونوں ٹانگوں کے درمیان سے نکل جائے گا ۔ پھر دجّال دونوں ٹکڑوں کے درمیان چلے گا۔ پھر اُس سے کھڑا ہونے کے لیے کہے گا تو وہ سیدھا کھڑا ہوجائے گا۔ پھر کہے گا: کیا تُو مجھ پر ایمان نہیں لاتا؟ وہ فرمائے گا کہ تیرے متعلق میری بصیرت میں اور میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پھر فرمائے گا: اے لوگو! میرے بعد یہ کسی شخص کے ساتھ ایسا نہیں کرسکے گا۔ پس دجّال اُسے ذبح کرنے کے لئے پکڑے گا تو اس کی گردن کو حلق تک تانبے جیسی کردیا جائے گا، لہذا وہ کچھ نہیں کرسکے گا۔ پس وہ اُس کے ہاتھوں اور پیروں سے پکڑ کر پھینک دے گا۔ لو گ سمجھیں گے کہ وہ دوزخ میں پھینکا گیا ہے لیکن وہ جنت میں ڈالا گیا ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا کہ رب العالمین کے نزدیک وہ تمام انسانوں میں شہید اعظم ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ دجّال اپنی الوہیت اور ربوبیت کا اعلان کرے گا۔ اور لوگوں سے کہے گا کیا مجھ پر ایمان لاتے ہو یا نہیں؟ جب وہ کسی مومن بندے سے کہے گا کہ تو مجھ پر ایمان لاتاہے یا نہیں؟ وہ مومن بندہ اس پر ایمان لانے سے انکار کردے گا۔ یہ سن کر اس کو قتل کرنے کا حکم صادر کرے گا۔ اس کو زدو کوب کرے گا۔ اس کے سر پر آرا رکھا جائے گا پھر وہ آرا چیرتا ہوا اس کی دونوں ٹانگوں کو الگ الگ کردے گا۔ دجال اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان چلے گا۔ پھر اس کو سیدھے کھڑے ہونے کا حکم صادر کرے گا۔ تو وہ مومن بندہ سیدھا کھڑا ہو جائے گا۔ پھر اس سے دوبارہ کہے گا کہ مجھ پر ایمان لاؤ وہ مومن دوبارہ انکار کردے گا یہ سن کر دجال اس کی گردن پر وار کرے گا لیکن اس کا وار اس کی گردن پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس مومن کی گردن حلق تک تانبے کی طرح ہوجائے گی۔

اس حدیث میں کلمہئ دجل کی دو صفات کا اظہار ہوا ہے۔ ایک صفت مصمۃ اور صفت مذلقہ ہے۔ صفت مصمۃ یہ ہے کہ اس میں کام آہستہ آہستہ ہوتاہے۔ تاکہ اس خفیہ کاروائی کا لوگوں کو علم نہ ہوسکے۔ دجّال اپنی قوت و طاقت استعمال کرتاہے۔ اس پر ظلم و زیادتی کرتاہے۔ تاکہ وہ مجھ پر ایمان لائے۔ وہ آہستہ آہستہ کاروائی کرتارہتا ہے۔ لیکن اس کلمہئ دجل میں ایک صفت مذلقہ کی بھی ہے۔ جو صفت مصمۃ کی ضد ہے۔ کہ صفت مذلقہ میں کسی چیز کے اثر کو روکنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس کے اثر کو یکسر ختم کرنے سے قاصر ہوتی ہے لیکن اس کے اثر کو روک دینے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اور اس حدیث میں کلمہئ دجل کی صفت مذلقہ کا بھی اظہار ہوا ہے کہ اس مومن بندے کی گردن حلق تک تانبے کی طرح ہوگئی ہے کہ جس سے دجّال اس کا سر قلم کرنے سے عاجز ہوجاتاہے۔

وعن انس عن رسول اللہ ﷺ  قال یتبع الدجال من یھود اصفہان سبعون الفاً علیہم الطیالسۃ۔(رواہ مسلم)

حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا: اصفہان کے ستّر ہزار یہودی دجّال کی پیروی کریں گے جن کے اوپر طیالسی چادریں ہوں گی۔ (مسلم)

کیونکہ دجّال بڑی ہی قوت و طاقت سے لوگوں کو دھوکہ اور فریب دے گا۔ اس جھوٹ اور دھوکہ و فریب دینے کے لیے بدرجہ اتم قوت و طاقت استعمال کرے گا کہ لوگ اس سے متاثر ہوکر اس کی اتباع کرنا شروع کردیں گے۔ کیونکہ دجّال جھوٹ اور دھوکہ دہی بڑے ہی منظم طریقے سے کرے گا۔ تو لو اس کے شکار ہوجائیں گے اورا س کے اس جھوٹ اور دھوکہ دہی میں لوگ اس کا تعاون بھی کریں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ کثرت سے لوگ اس کے جھوٹ و فریب کو تسلیم کرکے اس کی اتباع کریں گے۔ اس حدیث سے کلمہئ دجل کے عین کلمہ اور فاء کلمہ کی صفت کا اظہار ہوا ہے جس کی صفت مجہورہ ، مشددہ اور قلقلہ ہے۔ اس صفت میں قوت و طاقت پائی جاتی ہے۔۔ اور یہی صفت کا اثر اس کے معنی پر بھی پڑتاہے۔ اوراس کے معنی کے اثرپذیری کا اظہار اس حدیث سے ہوتاہے کہ لوگوں کی کثیر تعداد اس کے ساتھ ہوگی ۔ اس کے مددگار اور معاون کے طور پر اپنا کردار ادا کریں گے۔

جس طرح کلمہ دجل کا مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس میں دجل و فریب، جھوٹ اور دھوکہ دہیی کی جاتی ہے نہ صرف اس میں حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کردیا جاتاہے بلکہ اس کی آرائش و زیبائش بھی کی جاتی ہے ۔ اس حدیث میں واضح طور پر بتایاجارہاہے کہ اس کے ساتھ پانی اور آگ ہونگے۔ جو لوگوں کو پانی نظر آئے گا تو وہ ہرگز پانی نہیں ہوگا بلکہ وہ جلانے والی آگ ہوگی۔ اور جو لوگوں کو آگ نظر آئے گی تو وہ ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہوگا۔ اس طرح حقائق کو مسخ کردیاجائے گا۔ ظاہر پرست اور ظاہری صورتِ حال کو دیکھنے اور ماننے والے لوگ اس دھوکہ دہی کا شکار ہوجائیں گے۔ اور نقصان کا سامنا کریں گے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

دجّال آئے گا اور اس پر مدینہ منورہ کے راستوں میں داخل ہونا حرام ہوگا۔ پس وہ مدینہ منورہ کے نزدیک ایک نشیبی جگہ شور والی میں اترے گا۔ اس کی طرف ایک آدمی نکلے گا جو لوگوں سے بہتر ہوگا یا بہتر لوگوں سے ہوگا اور کہے گا: میں گواہی دیتاہوں کہ تو دجّال ہے، جس کا رسول اللہ ﷺ  نے ہم سے ذکر فرمایاتھا۔ دجّال کہے گا بتاؤ اگر میں اِسے قتل کرکے پھر زندہ کردوں تو کیا میرے معاملے میں تمہیں کوئی شک ہوگا؟ وہ کہیں گے ، نہیں۔ پس وہ قتل کر کے پھر زندہ کردے گا۔ وہ شخص کہے گا: خدا کی قسم ، آج تیرے متعلق مجھے اور زیادہ بصیرت حاصل ہوئی ۔ پس دجّال اُسے قتل کرنا چاہے گا لیکن اب اُس پر قابو نہیں پاسکے گا۔ (متفق علیہ)

ان تمام احادیث مبارکہ میں آپ ﷺ  نے دجال کے عیوب و نقائص کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ وہ کانا ہوگا۔ اس کی آنکھ پھولے ہوئے انگور کی طرح ہوگی۔ اس کی پیشانی پر واضح طور پر کافر لکھا ہوگا۔ کہ ہر شخص اس کو پڑھ کر اس سے عیوب و نقائص کو یاد کرکے اس سے پناہ طلب کرے گا۔

اس احادیث مبارکہ میں کلمہئ دل کی ایک صفت منفتحہ ہے۔ کہ اس میں کسی چیزکے معاملہ کو واضح کردیا جاتاہے۔ وہ معاملہ واضح اور روشن ہوتاہے۔ اور وہ اظہر من الشمس بن جاتاہے۔

اس حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ  نے بیان فرمادیا ہے کہ دجال جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف دیکھے گا تو وہ فورا پگھلنا شروع کردے گا اور وہ اس طرح پگھلے گا کہ جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے۔ اور آپ کو دیکھ کر بھاگے گا۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کو آخر کار پکڑ کر لُد کے مقام پر قتل کردیں گے۔ اس حدیث مبارکہ میں کلمہ دجل کی ایک صفت منحرفہ کا اظہار ہواہے۔ اگرچہ وہ دجل و فریب اور ملمع سازی کرے گا لیکن وہ اپنے جھوٹ اور دھوکہ دہی سے بھاگے گا انحراف کا راستہ اختیار کرے گا تو اس میں صفت منحرفہ کا اظہار ہواہے۔

حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبی ﷺ  نے ان کلمات مبارکہ کے ذریعے سے دجال کے عظیم تر فتنے کے ہونے کا اظہار فرمایا ہے۔ کہ اس سے بڑھ کوئی فتنہ اور آزمائش نہیں ہوگی۔

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post