Which Religion?
ڈاکٹر فیصل احمد سرفراز
مذکورہ کتاب (Which Religion?)(کونسا مذہب) ڈاکٹر انصاری رحمۃ اللہ علیہ ایک فی البدیہہ تقریر ہے
جو آپ نے اکتوبر ۱۹۶۰ء میں جاپان کی ٹوکیو مسجد میں دی تھی۔ دراصل اس تحریر میں ڈاکٹر صاحب نے پانچ مختلف مذاہب کا آپس میں
موازنہ کیا ہے جن میں ان مذاہب کی جس میں عیسائیت ، یہودیت ، ہندو مت ، سکھ مت اور
دین اسلام شامل ہیں تعلیمات کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔
عیسائیت کا تعاقب
کرتے ہوئے اپ لکھتے ہیں کہ عیسائی علماء عیسائیت کو وحدانی مذہب
قرار دیتے ہیں جو کہ
حقیقت کے برخلاف ہے۔ کیونکہ وہ دراصل تثلیث کرتے ہیں جن میں تین خدا ہیں۔
۱۔ خداجو باپ ہے۔
۲۔ خدا جو بیٹا ہے۔
۳۔ خدا جو روح القدس
ہے اور دوسرے نظریئے کے مطابق خدا جو ماں ہے۔(معاذ اللہ)
اسی طرح عیسائی
تعلیمات کے مطابق یہ دنیا برائی کی جڑ ہے جب کہ انسانی روح مقدس ہے اورانسانی جسم ایک برائی ہے جو
شیطان کا ذریعہ کھل ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر انصاری لکھتے ہیں:
‘‘اسلام کے مطابق
خدامکمل طور پر اچھا ہے لہذا اس کے تمام احکامات بھی اچھائی پر مبنی ہیں۔ نتیجتاً
اس کی تمام مخلوق اچھی ہے جس کا مطلب ہے کہ دنیا اچھی ہے ، انسانی شخصیت اچھی
ہے اور معاشرتی تعلقات بھی اچھے ہیں ۔ اسی
لئے تمام بنی نوع انسان گناہوں سے پاک پیدا ہوتے ہیں اور یہاں اسلام عیسائیت کے
خلاف کھڑاہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ انسان گناہ کے ساتھ پیدا ہوتاہے’’۔
‘‘یہودیت کا تصور خدا بہت کمزور بلکہ یہاں تک کہ گستاخانہ
ہے وہ خدا جو اپنی طاقت اور علم میں تھکن سے متاثر ہو اور جس میں قوت رحم نہ ہو
اصل میں خدا بالکل نہیں ہے۔’’
ڈاکٹر انصاری یہودیت میں تصور انسانی زندگی اور اخلاقی
اقدار کو سراہتے ہوئے منطقی اور عمدہ زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
جبکہ ہندومت کا تعارف کرتےہوئے ڈاکٹر انصاری ہندومت کے تصور
خدا ، تصور نجات اور تصور مساوات کو غیر منطقی اور ناقابل قبول قرار دیتے ہیں۔
جیسا کہ آپ لکھتے ہیں:
ہندومت دنیا کا سب سے زیادہ مبہم مذہب ہے۔ بلکہ مذہب کے
مقابلے میں وہ ایک سماجی نظام کا نام ہے۔ ایک شخص جو ایک خدا پر ایمان رکھتاہو وہ
بھی ہندو ہوسکتا ہے ، اور جو تین خداؤں پر یقین رکھتا ہے وہ بھی ہندو ہوسکتاہے اور
وہ شخص بھی ہندو ہوسکتاہے جو کسی بھی خدا پر یقین نہیں رکھتا۔
ڈاکٹر انصاری بدھ مت کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے
لکھتے ہیں کہ دراصل بدھ مت ہندومت کے اصولوں اور تعلیمات کے خلاف وجود میں آئی تھی
اسی آج بھی کچھ لوگ بدھ مت کو ہندومت کے کئی فرقوں میں سے ایک فرقہ قرار دیتے ہیں۔
گاتما جو کہ بدھ مت کے بانی تھے ، انہیں انسانی تکالیف کا کافی احساس ہوتاتھا اسی
لئے انسانوں کے غم کا علاج ڈھونڈنے کے لئے آپ نے اپناگھر چھوڑا اورکئی سال یکسوئی
کے ساتھ پوجاکرکے اس نتیجہ پر پہنچے کہ انسانوں کی پریشانیوں کا صرف ایک ہی حل ہے
اور وہ یہ کہ انسان اپنی تمام خواہشات کا گلادبادے ، ہر چیز کو نظرانداز کردے،
کیونکہ یہ دنیا غیر حقیقی ہے اور ایک دھوکہ ہے۔ جیسا کہ آپ لکھتے ہیں:
گاتما بدھ اپنی تگ و دو کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے وہ یہ
تھا کہ پریشانیوں پر غلبہ حاصل کرنے کا طریقہ صرف تمام خواہشات کا انکار کرنا تھا۔
اس عقیدہ کو دنیاوی زندگی سے انکار کہاجاتاہے۔
اس عقیدے کے تحت یہ دنیا غیر حقیقی ہے، یہ ایک دھوکہ ہے ،
یہ ایک جال ہے ، اسی لئے اس کو نظرانداز کرناچاہئے۔ تمام مصیبتیں دنیاوی چیزوں کو
حاصل کرنے کی خواہشات کی وجہ سے آتی ہیں۔
ڈاکٹرانصاری مذکورہ کتاب کے صفحہ ۱۴ پر بدھ مت کے تین اہم
فرقوں کا بھی تذکرہ کرتے ہیں جن میں مہیانا، ھنیانا اور زین شامل ہیں۔ جب کہ آخری صفحات (۱۶۔۲۰) میں دین اسلام کی
جامعیت اور انفرادیت پر گفتگو کی ہے۔ جس میں ارکانِ ایمان اورارکان اسلام کو بیان
کرتے ہوئے اسلام کو بحیثیت دین متعارف کرایا ہے اور نہ صرف ارکان کے ان مجموعوں کو
دین قراردیا ہے بلکہ دین اسلام کی معاشرتی ، معاشی، سیاسی، انفرادی اور اجتماعی
خصوصیات کو واضح کرتے ہوئے انسانی حقوق کا سب سے پہلا دستور قرار دیا۔ جیسا کہ آپ
کہتے ہیں:
‘‘بلا شبہ یہ اسلام تھا جس نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ
دنیا کو انسانی حقوق کا بنیادی دستور فراہم کیا’’۔
مذکورہ کتاب ۲۰ صفحات پر مشتمل ہے اور حیران کن بات یہ ہے
کہ صرف ایک قرآنی آیت کے علاوہ کسی حوالہ یا ماخذ کو موضوع بحث نہیں بنایا گیا
باوجود یکہ آپ کی یہ کتاب چاروں مذاہب پر ایک جامع گفتگو ہے۔
Post a Comment