مقصد حیات

 قرآن کریم کا مطالعہ ہم پر حقیقت آشکار کرتا ہے کہ موجودات عالم کا کوئی ذرہ ایسانہیں جسکی پیدائش عبث اور بے مقصدہو۔

یقینا اللہ رب العزت نے اس موجودات عالم میں کوئی چیز  بلکہ کوئی ذرہ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ اَلْحَکِیْمِ“ کی حکمت کا نتیجہ ہے کہ اس نے جو کچھ زمین و آسمانوں میں پیدا کیا ہے  اس کی تخلیق میں خالق کائنات کی حکمت ومصلحت کارفرما ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں میں کوئی ایک چیز بھی بے مقصد پیدا نہیں کی ہر چیز کو پیدا کرنے کے مجموعی طور پر دو مقصد ہیں۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ ہر چیز اپنے رب کو یاد کرے اور اس کے حکم کے مطابق کام کرے، دوسرا مقصدیہ ہے کہ وہ انسان کی خدمت کرتی رہے۔جس کی تصریح  قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ  سے ہوتی ہے۔

وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ لَوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَہْوًا لَّا تَّخَذْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّآ اِنْ کُنَّا فٰعِلِیْنَ) (الانبیاء : ١٦، ١٧)

 ” ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کھیل تماشا کرنا چاہتے تو یہ تماشا اپنے ہاں کرتے۔

اسی طرح انسان کی تخلیق بھی عبث نہیں ہے بلکہ اس کا ایک مقصد ہے ۔ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(المؤمنون، :۱۱۵)

تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں۔

 انسان کی زندگی کا مقصد بھی یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت اور اطاعت کرنے کے ساتھ دوسرے لوگوں کی خدمت کرتا رہے۔جس کی تصریح  قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ  سے ہوتی ہے۔اور جوانسان  اس قاعدہ پر عمل کرتا ہے اسے اللہ رب العزت دوام بخشتاہے۔

وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ( سورة الرعد :17)

اور جو لوگوں کو فائدہ دے وہ زمین میں ٹھہر جاتا ہے 

انسان جسم وروح سے مرکب ہے یعنی  جسم اور روح کا مجموعہ  ہے تو مقصد حیات صرف روحانی کیوں ہے جسمانی اور مادی کیوں نہیں؟

اس نکتہ کو ذہن نشیں کر لینا چاہئے  اصل اہمیت زیورات یا  خزانے کی ہوتی ہے نا کہ ان کے  خوبصورت ڈبےکی۔ اس ڈبے کی تمام تر حفاظت  و قدر اس میں موجود خزانے کی بناپر ہوتی ہے۔، بعینہ پرندے اور پنجرے کی مثال ہے ۔    یہی حال جسم و  روح کا ہے۔ رو ح اصل ہے جسم اسکا پنجرہ ہے جس میں وہ رہتی ہے جسم روح کے تابع فرمان ہے ۔ چونکہ عبادات میں جسم معاون ہوتا ہے کیونکہ جسم میں توانائی اس ظاہری دنیا کی ضرورت ہے۔ اسی لئے  ہم پر بھی جسم کی حفاظت  بھی فرض ہے  یہ اگرچہ مقصد حیات نہیں ۔ کوئی انسان جان بوجھ کر اپنے جسم کو اذیت کا شکار نہیں کرسکتا۔وہ اس جسم کا مالک نہیں ۔ بلکہ یہ تو اللہ رب العزت کی طرف سے اس کے لئے ایک  تحفہ جس کی معاونت سے وہ اپنے مقصد حقیقی یا مقصدحیات کی تکمیل کرسکتاہے۔

ہاں  ایک بار روح جب اس جسم سے جدا ہوجائے گی تو اس جسم کی تمام تر ضروریات اور خصوصیات اورپروٹوکول بالکل ختم ہوجائے گا۔ اس وقت ظاہر ہوگا کہ یہ واقعی ایک خوبصورت پنجرہ تھا جس میں موجود پرندہ اڑنے سے اس کی ضرورت وافادیت ختم ہوگئی ہے۔

مقصد حیات وہ بلند ترین مطمح نظر ہوتاہے جو کوئی انسان اپنے سامنے رکھ کر اس کے حصول کی جدوجہد کرتاہے۔ انسان کی تخلیق کا مقصد جو کچھ بھی ہو اس کا  فائده خود انسان ہی کی طرف پلٹتا ہے ۔اللہ رب العزت تونفع نقصان سے بے نیاز ہے۔

یا ایھا الناس انتم الفقراء الی الله و الله ھو الغنی الحمید( فاطر:15)

اے انسانوں! تم الله تعالی کے محتاج ہو، صرف الله کی ذات ہی ہے جو بے نیاز ہے اور ہر قسم کی حمد و ثنا صرف اس کے لئے مخصوص ہے

الله تعالی مخلوقات کو خلق کرتے وقت ان کی طاعت اور بندگی ،ان کے گناہوں اور ان کی نافرمانیوں سے کے نفع و نفقصان سے بے نیاز اور پاک ہے ۔کیونکہ اطاعت گزار کی اطاعت اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی اور نہ ہی گناہگاروں کے گناه اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے  ہیں بلکہ  اطاعت کرنے کا حکم اور معصیت سے منع کرنے کا مقصد بندوں کے  فائده کے لئے تھا۔

 مقصد حیات بلند ترین شے کا ہوتاہے نہ کہ پست کا۔ انسان  جسم  و روح کا مرکب ہونے کے باوجود جسم اسی دنیا کی مٹی سے تخلیق کیاگیاہے اور روح کلمۃ اللہ ہے جس کا مقام بلند ہے۔لہذا اعلی کو ادنی پر فوقیت دیتے ہوئے مقصد حیات روحانی کو فوقیت دی جائے گی۔ 

وہ کونسے امور ہیں جو ایک مسلمان کو مقصد حیات سے غافل کر دیتے ہیں اوربحیثیت مومن ہم کیسے ان رکاوٹوں کو دور کر کے اس مقصد حیات کو پا سکتے ہیں جو واقعتا ایک مسلمان مومن کا اثاثہ ہے؟

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالَانْعَامِ وَالْحَرْثِ ط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَاللهُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(آل عمران، 3: 14)

لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت  آراستہ کر دی گئی ہے ۔(جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہیں، اور اللہ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے۔

اس آیت کریمہ سے یہ ثابت ہوتا ہے ضروریات وذرائع حیات کو مقصد حیات نہیں بننا چاہئے۔اصل کو فرع پرا ہمیت  دینے سے بگاڑ پیدا ہوتاہے۔  جہاں  انسان ٹریک سے اترا اور اس نے ذرائع اور ضروریات کو مقصد حیات بنایا وہیں وہ گمراہی کا شکار ہوگیا۔بالفاظ دیگر یہی امور انسان کوبلندترین مقصد حیات سے غافل کرکے پست ترین مقصد  یعنی صرف جسم کی آبیاری اور اس کی تزئین و آرائش کی طرف راغب کردیتی ہے۔اس کا سدباب تقویٰ اورخداخوفی سے ہوسکتاہے۔ تقویٰ کی دوصورتیں ہیں۔

1:بندہ تقویٰ اختیار کرتا ہے اور وہ اپنے شعوری کیفیت میں ہر وقت اللہ کے حضور حاضر رہنے کا تصور رکھتا ہے کہ اللہ رب العزت سمیع بصیر ہے، جزا ور سزا دینے والا ہے۔ اُس بندے کا شعور ہر وقت بیدار رہتا ہے۔اور اجر و سزا اور گرفت و مواخذہ کے اعتبار سے دیکھتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔اس لیے وہ اس کی حکم عدولی سے باز رہتاہے۔

2: بندہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ نفس اللہ کی طرف جا تا ہے یا اللہ سے دور جاتا ہے؟ اللہ کا نافرمان ہوتا ہے یا اللہ کا فرمانبردار بنتا ہے۔

درحقیقت جہاں دونوں جمع ہو جاتے ہیں یعنی اللہ دیکھ رہا ہے اور بندہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خبردار! اللہ دیکھ رہا ہے۔ وہ خود کو اس دنیا کی محبت میں گرفتار ہونے سے بچاکر آخرت کی تیاری میں مصروف عمل رکھتا ہے۔جہاں رب کائنات نے ان تمام سے  زیادہ خوبصورت، زیادہ لبھانے والی، زیادہ پائیدار، زیادہ خوشگوار، زیادہ اعلیٰ اور ارفع محبتوں، رغبتوں، شہوتوں اور زینتوں کی خبر بھی اسے دی ہے تاکہ یہ لوگ موازنہ کرسکیں کہ کون سی محبت کو حاصل کیا جائے۔ ارشاد فرمایا:

قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰـرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ ﷲِ ط وَاللهُ بَصِیْرٌ م بِالْعِبَادِ(آل عمران، 3: 15)

آپ (ﷺ)فرما دیں: کیا میں تمہیں ان سب سے بہترین چیز کی خبر دوں؟ (ہاں) پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس (ایسی) جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (ان کے لیے) پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور (سب سے بڑی بات یہ کہ) اللہ کی طرف سے خوشنودی نصیب ہوگی، اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے دنیاوی لذتوں سے کئی گنا زیادہ بہتر چیز کی خبر دینے سے پہلے لِلَّذِینَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ کے الفاظ سے ایک شرط لگائی ہے کہ ان خوبصورت اور اعلیٰ و ارفع حقیقتوں سے وہ لوگ لطف اندوز ہوں گے جو اللہ کے حضور تقویٰ اختیار کریں گے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post