علامہ محمدسرفراز صابری صاحب
ڈاکٹرحافظ محمدفضل الرحمن الانصاری القادری علیہ الرحمۃ ایک
ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ بیک وقت ایک عظیم خطیب ونامور عالم دین، بلندپایہ
مقرر ومصنف ،مذاہبِ علم ومشرقی ومغربی علوم کے ماہر ، فلسفی ومنطقی، ماہر سیاسیات
واقتصادیات،واقف سماجیات وعمرانیات، مایہ ناز صوفی وبے مثال مبلغ اسلام ، ایک
بہترین سائنسدان اورماہر علوم جدیدہ وقدیمہ، پاکیزہ صورت ، شرع وضع قطع اور سنجیدہ
چال ڈھال کے مالک، متفرق عالمی زبانوں میں تحریر وتقریر پر ایسا عبور کہ تعلیم
یافتہ طبقہ آپ کی سحر انگیزعلمی وروحانی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں
سکتا، یہی وجہ ہے کہ نہ صرف برصغیر پاک وہند بلکہ افریقی ویورپی ممالک میں بسنے
والے کروڑوں مسلمان آج بھی ڈاکٹر صاحب کی اس عظیم وہمہ جہتی شخصیت کے سحرمیں
مسحورنظرآتے ہیں، ستائیس(27) سے زیادہ علوم پرمکمل دسترس ،آپ جسمانی امراض کے ماہر
ہومیوپیتھ ڈاکٹرہی نہیں بلکہ روحانی امراض کے بہترین معالج بھی ہیں۔
اس تحریر میں جناب ڈاکٹرحافظ محمدفضل الرحمن الانصاری
القادریؒ کی اس ہمہ شخصیت کے صرف دو پہلوؤں کوزیربحث لائیں گے لیکن اس سے پہلے کہ
حضرت صاحبؒ کی ایک آئیڈیل زندگی کے درج بالا پہلوؤں پر کچھ لکھنے کی
سعادت حاصل کی جائے ایک ضروری وضاحت اورآپ کے دورکے حالات پر ایک طائرانہ نظرضروری
ہوگی۔
تاریخ ہمیشہ ماضی کے تجربات ،حقائق وواقعات کا مجموعہ ہوتی
ہے جو حال کے مشاہدات اورمستقبل کے تجزیہ میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔ لیکن افسوس
کہ ہم مسلمانوں نے اس حقیقت سے چشم پوشی کی اورتاریخ کوافسانے کاروپ دے دیا جس کا
نتیجہ یہ نکلا کہ تاریخ اسلام میں وہ دلچسپی نہ رہی جو ہونی چاہئے تھی اوریوں تحقیق و جستجو کادامن ہمارے ہاتھ سے چھوٹ گیا
علامہ ابن خلدون نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تک مسلمان خود تحقیق
وجستجو کرتے رہے ان کا ستارہ بامِ عروج پر رہالیکن جب سے انہوں نے دوسروں کی نقالی
شروع کی زوال اورپستی کا شکار ہوگئے۔کچھ یہی حال ہم نے ان عظیم ہستیوں کے ساتھ کیا
جنہوں نے زمانے پر اپنے انمٹ اورگہرے اثرات
چھوڑے تھے ان کے مقاصد ومشن کو سمجھنے اورجاننے ، ان کی زندگیوں کامطالعہ کرنے
اوران کی شخصیت کا من حیث الکل مطالعہ کرنے کی بجائے ہم یاتوعقیدت وشخصیت پرستی کی
رو میں بہہ جاتے ہیں یا بغض وعداوت کی آگ میں جل کرراکھ ہوجاتے ہیں۔ نتیجۃً حقائق
ہم سے کوسوں دورہوجاتے ہیں ۔لہذا اگرڈاکٹرانصاری صاحب علیہ الرحمہ کوعقیدت
وعداوت کی افراط وتفریط سے بالاتر ہوکرصرف اورصرف حقائق کے تناظر میں دیکھاجائے
توڈاکٹر صاحب کی ہمہ گیرشخصیت ایسا بلند قامت مینارہ نور نظرآتی ہے جس کی روشنی سے
نہ صرف برصغیر پاک وہند بلکہ پورے عالم کی انسانیت مستفید ومستنیر ہوتی دکھائی
دیتی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ صلیبی جنگوں میں مسلمان مجاہدین نے دشمنان
اسلام کے دانت کھٹے کردیئے تھے اس ذلت ورسوائی کے باوجود دشمن اسلام خاموش ہوکربیٹھ نہ گیا بلکہ مسلمانوں کی طاقت
ویکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے مختلف دوررس
اوردیرپا نتائج کے حامل طویل المدت منصوبے ترتیب دینے لگا جس کے نتیجے میں مشرق
وسطیٰ میں سیاحوں کے روپ میں یہود ونصاریٰ کی جماعتوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا
جنہو ں نے سیروسیاحت کی آڑمیں نہ صرف مسلمانوں کی خوبیوں اورخامیوں کاجائزہ لیا
بلکہ انہیں مختلف النوع اکائیوں میں تقسیم کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف
مسلمانوں کا عقیدہ وحدانیت ورسالت متزلزل ہواتودوسری طرف خود مسلمان ایک دوسرے کے
خلاف صف آراء ہوگئے۔ یہ کشکمش ابھی جاری تھی کہ 28 جولائی 1914ء کوپہلی جنگ عظیم
کاطبل بج گیا جس نے وحدتِ اسلامی کی آخری ٹمٹاتی شمع کوبھی گل کردیا جس کے بعدلیگ
آف نیشنز بنی جس نے اپنی نگرانی میں دوسری جنگِ عظیم کی راہ ہموارکی جس کے بطن سے
اسرائیل نے جنم لیا اوراسی اقوام متحدہ نے اس کی حفاظت اورپروان چڑھانے کی ذمہ
داری سنبھالی۔ جب کہ عالمی سطح پر عیسائیت کے ساتھ ساتھ کفر والحاد کی دوسری
تحریکوں نے اسلامی عقائد ونظریات پر کاری ضرب لگائی تھی ان تحریکوں میں لادینیت
،اشتراکیت اورسرمایہ داریت وغیرہ شامل تھیں۔ یہ وہ حالات ومسائل تھے جو ڈاکٹرحافظ
محمدفضل الرحمن الانصاری القادری علیہ الرحمۃ کی اوائل عمری میں بام
عروج پرتھے ان احوال میں ڈاکٹرانصاری صاحب علیہ الرحمہ نے محسوس کیاکہ
اس وقت مسلمانوں میں دوسطحوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے یعنی اسلام کی تعلیم
وتبلیغ۔
نظام تعلیم میں تخریب کاری سقوطِ بغداد اورقرطبہ کے ساتھ ہی
شروع ہوئی جب علوم مغربی دنیا کی طرف منتقل ہونے لگے اورمسلمان علوم جدیدہ اور سائنسی
علوم سے دورہونے لگے حالانکہ یہ علوم خود مسلمانوں کی میراث تھے برصغیر میں جب
انگریز داخل ہوا تو ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت آہستہ آہستہ نظام تعلیم کی وحدت
کودوحصوں میں بانٹ دیا اورجدید وقدیم ،مدرسہ واسکول، دارالعلوم وکالج وغیرہ کی
اصطلاحات وضع کی گئیں جیسے ہی انگریز کوبرصغیر پرکنٹرول حاصل ہوا تو سب سے پہلے
نظام تعلیم کوبدلنے کااقدام اٹھایا اورلارڈ میکالے نے 1837ء میں ایک تعلیمی قانون
نافذ کیاجس پر علامہ اقبال بول اٹھے۔
اک مرد فرنگی نے کہا اپنے پسر سے
محکوم کوتیغوں سے نہیں کرتے زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہوجائے ملائم توجدھر چاہے اسے پھیر
تاثیرمیں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہوتومٹی کا ہے یہ ڈھیر
اس تعلیمی تخریب کاری نے جہاں عالم اسلام کو دوطبقوں میں تقسیم کردیا
ساتھ ہی ساتھ اس نے سنجیدہ طبقے
اوردانشوروں کوتشویش میں مبتلاکردیااوریوں بیسویں صدی کے اوائل ہی میں مسلم دنیا
غلامی کے شکنجے میں جکڑی جاچکی تھی۔ ڈاکٹرصاحب ؒاس غلامی کوچارحصوںمیں تقسیم
فرماتے ہیں۔
سیاسی غلامی:
جس نے مسلمانوں کواقتدار سے نہ صرف محروم بلکہ دورکردیا۔
اقتصادی غلامی:
جس کی وجہ سے تمام وسائل دشمن کے زیرِ تسلط چلے گئے۔
سماجی غلامی:
جس نے ہمارے اسلامی
معاشرے کی تمام روایات کو نہ صرف پامال کیا بلکہ اپنی تہذیب و تمدن اورروایات کا
ایسا رنگ بکھیرا کہ مسلمان اس رنگ میں خود کو ایسارنگتے چلے گئے کہ آج اسلامی
روایات ناپید ہوچکی ہیں۔
ذہنی وفکری غلامی:
ذہنی اورفکری غلامی نے ہماری سوچ وفکر کو اگرپوری طرح سلب نہیں کیا تو کم از
کم صحیح سمت اورراہِ راست سے الگ ضرور کردیا ۔ ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ تمام
خرابیوں کی جڑ اورتمام غلامیوں کی بنیاد اسی تعلیمی غلامی کو قراردیتے ہیں۔ کیونکہ
عمل علم کے تابع ہوتاہے اور سوچ وفکر بھی
علم سے ہی متاثر ہوتی ہے۔ لہذا حضرت صاحب علیہ الرحمہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے
زوال وانحطاط کااہم ترین سبب ہمارانظامِ تعلیم ہے۔ آپ ؒ پورے عالم اسلام کو اسلام
کی پہلی درسگاہ جامعہ صفہ کے نصاب کے تابع کرنا چاہتے تھے جس میں طبقاتی کشمکش نہ
ہو، بڑے چھوٹے کا فرق نہ ہو، امیر وغریب میں امتیاز نہ ہو، دینی ولادینی کاتصورنہ
ہو۔ آپ مسلمانوں کوایک ایسا تعلیمی منہاج دینا چاہتے تھے جو قرآن پاک کی اس آیت کے
تابع اورہم آہنگ ہو:
"
کَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ يَتْلُوْا عَلَيْکُمْ اٰيٰتِنَا
وَ يُزَکِّيْکُمْ وَ يُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَيُعَلِّمُکُمْ مَّا
لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ" (البقرۃ: 151)
1.
تلاوتِ آیات(يَتْلُوْا عَلَيْکُمْ اٰيٰتِنَا)
2.
تزکیۂ نفس (وَيُزَکِّيْکُمْ)
3.
تعلیم القرآن (وَيُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ)
4.
تعلیم وحکمت (وَالْحِکْمَةَ)
5.
علوم جدیدہ (وَيُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ)
مسلمان جب تک اس نصاب تعلیم پر عمل پیرارہے دنیا کی قیادت
ان کے ہاتھ میں رہی اورنت نئے علوم ایجاد کرتے رہے۔ لیکن افسوس کہ جب انہوں نے اس
قرآنی منہاج(منہاج القرآن) کوچھوڑ کر ایسی راہ اختیار کی جو ان کےعقائد ونظریات سے
ہرگز ہم آہنگ نہ تھی تو تذبذب کا شکار ہوگئے اورتصورِ وحدت کمزورہوتاچلاگیا۔
اس سلسلے میں ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ اپنے مشاہدات یوں
بیان کرتے ہیں:"اب جیسا کہ اسلام اپنے نظریۂ عبادت کی بنیاددینی ولادینی
نظریہ پر نہیں رکھتا اسی طرح وہ اپنے نظریۂ تعلیم میں بھی سیکولر کومذہبی تعلیم کے
نصاب سے خارج نہیں کرتا بلکہ دونوں کو ساتھ لے کر چلتاہے جیسا کہ یک طرفہ مذاہب
اوردوسری تہذیبوں میں ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب کے سنہر ی دور میں
دنیائے اسلام کے نظامِ تعلیم میں وحدت تھی جس کی بنیاد اسلامی عقیدہ توحید پر قائم
تھی۔"
یہ مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ نام نہاد سیکولر تعلیم کی
قدروقیمت اتنی بڑھی کہ دینی تعلیم کا
معیار اوراس کی وقعت گرنے لگی اور نوبت یہاں تک آگئی کہ آج دینی تعلیم حاصل کرنے
والے طلبہ اورعلماء کولوگ عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگے ہیں اورجو وارث انبیاء تھے
اس وراثت کو محراب ومنبر تک محدود کرکے مسجد ومکتب میں گوشہ نشین ہوگئے اورباقی
تمام امور لادین عناصر کے ہاتھوں چلے گئے نتیجہ یہ نکلا کہ دینی طبقہ سیاسی،
اقتصادی اورمعاشرتی امورچلانے والوں کو لادین کہہ کردین سے الگ کردیتا ہے جب کہ
دوسراطبقہ ان حضرات کودنیاوی امورچلانے کے لئے نااہل قراردے کر محراب ومنبر تک ہی
محدود کرتے ہیں اس ساری اندرونی کشمکش نے ہمیں کس موڑ پر لاکھڑا کیاہے وہ کسی سے
بھی ڈھکا چھپانہیں ہےکہ اعلیٰ طبقہ کے لئے دینی تعلیم میں کوئی کشش باقی نہ رہی جو
انہیں اپنی طرف مائل کرسکے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج دینی اداروں میں صرف پسماندہ
علاقوں کے طلبہ ہی داخلہ لیتے ہیں الاماشاء اللہ۔ اس صورت حال کی ڈاکٹرانصاری صاحب علیہ الرحمہ یوں منظرکشی فرماتے ہیں:
"اس کے ساتھ ساتھ ایک اورزیادہ تکلیف دہ صورت حال
سامنے آئی کہ مادی فوائد وترغیبات کو اتنی قیمت دی گئی کہ ہماری نظریاتی تعلیم کی قدراتنی گری کہ صفرپرآگئی
۔چنانچہ چند ایک ذہین وباحیثیت طلبہ کے علاوہ کسی کے لئے اس میں کوئی کشش نہ رہی
۔نتیجۃً وہ سب تعلیم جدیدہ کی طرف مائل ہوگئے یوں آہستہ آہستہ دینی ونظریاتی
درسگاہیں ایسے طلبہ سے بھرگئیں جن میں سے اکثریت پسماندہ اورغریب لوگوں کی
تھی۔"
اس صورت حال میں دونوں طبقوں میں تعصب کی ایسی ہوا چلی کہ
وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئے جس کا نجام یہ ہوا کہ ایک طرف جدید طبقہ نے
اسلام کو جدیدیت کارنگ دینا شروع کردیا تو دوسری طرف دینی طبقہ نے بالکل عیسائیت کی طرح علوم جدیدہ کے
حصول کو ہی کفر والحاد سے تعبیر کرنا شروع کردیا اور یوں ان دونوں طبقوں کے درمیان
خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی ۔بقول ڈاکٹرانصاری صاحب:"علماء کی تقریباً
پوری جماعت ہی جدید دور کے انسانوں کی قیادت کرنے کے قابل نہ رہی۔"
اس فکری جمود نے ہمارے قلوب واذہان کو مفلوج کرکے رکھ دیا
اورجب ہم نے ذہنی غلامی کو بسروچشم قبول کرلیا تو سیاسی اوراقتصادی غلامی قبول
کرنا کوئی مشکل نہ تھی ڈاکٹرانصاری صاحب ؒ
تو ذہنی اورفکری غلامی کو تمام غلامیوں کی جڑ اورماں قراردیتے ہیں اورآپؒ
کو یقین تھا کہ جب تک ہم اس صورت حال سے باہر نہیں آئیں گے اس وقت تک ہم اپنی
کھوئی ہوئی ساخت کو بحال نہیں کرسکتے۔ اسی بنیادی نقطہ کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر
انصاری صاحب تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیوں کے نہ صرف حامی بلکہ داعی ہیں
اورفرماتے ہیں کہ اس نظام کی خرابی اورتباہی کے ذمہ دار ہم سب ہیں لہذا اب اس کے
تدارک اورخرابیوں کودورکرنے کی ذمہ داری بھی ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ہمارے نظام تعلیم کی بوسیدگی نے
ہمیں یہ برے دن دکھائے ہیں تو صاف ظاہر ہے
کہ اس کاازالہ اسی وقت ہوگا جب ہمارا یہ نظام پورے عالم اسلام میں یکساں ہو یہی خواہش
ڈاکٹرانصاری ؒ کی تھی کیونکہ آپ اسلام کو وطن وعلاقائی سطح پر دیکھنے کے عادی نہ
تھے بلکہ آپ فرماتے ہیں کہ حقیقت پسندانہ راستہ صرف اورصرف یہ ہے کہ پورے عالم
اسلام میں یکساں نظامِ تعلیم ہوناچاہئے جس میں جدید وقدیم علوم ایک ساتھ شامل ہوں۔ تاہم یہ کوئی آسان کام
نہیں لہذا وقت کی ضرورت کوپوراکرنے کے لئے ڈاکٹر انصاری صاحبؒ یہ تجاویز پیش فرماتے ہیں:
پہلی تجویز:
ہمارے دینی اداروں کو چاہئے کہ وہ ایک وسیع ترتعلیمی کورس
شروع کریں جس میں اسلام کی اعلیٰ تعلیم دی جائے اوربالخصوص جدید علوم اوردیگرمذاہب
کے ساتھ اس کا تقابلی جائزہ لازماً شامل نصاب ہوتاکہ وہاں سے فارغ التحصیل ہونے
والے علماء جدید ددورمیں انسانیت کی صحیح رہنمائی کرسکیں اورحقیقت پسندانہ قیادت
ابھرسکے اس کی ضرورت کے لئے ڈاکٹر انصاری صاحب ؒ تین اسباب بیان کرتے ہیں:
پہلا سبب یہ کہ یہ علماء غیر مسلم قوموں میں اس وقت کامیابی
سے تبلیغی فرائض سرانجام نہیں دے سکتے جب تک وہ ان نظریات اورافکار پر مکمل آگاہی
اوران پر عبور نہ رکھتے ہوں جن نظریات وافکار کی وہ غیرمسلم اقوام پیروی کرتے ہیں:
دوسراسبب یہ کہ مبلغین اسلام جدید تعلیم یافتہ طبقہ پر
اسلام کی برتری وفوقیت دوسرے مذاہب افکار پرصرف یہ کہہ ثابت نہیں کرسکتے کہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا
دین ہے اورقرآن وحدیث کا حکم ہے بلکہ اس میں معقولات ومنقولات دونوں کا سہارا
درکارہوگا اورموازنہ کرکے ثابت کرناہوگا کہ اسلام باقی مذاہب وافکار سے فائق وبرتر
اوربالاہے۔
تیسرا اہم سبب جس کوڈاکٹرانصاری صاحبؒ بیان فرماتے ہیں وہ
علماء ومبلغین اسلام کے لئے جدید علوم سے واقفیت بذات خود قرآن وحدیث کوبہترطورپر
سمجھنے کاایک ذریعہ ہے۔
دوسری تجویز :
دوسری اہم ترین چیز جس کی ہمارے دینی اداروں کو شدید ضرورت ہے وہ روحانی تربیت،
نظم وضبط، تعمیر کردار اور خدمتِ خلق جیسے عظیم خصائل کو دینی اداروں میں اس طرح
جگہ دینی چاہئے جس طرح تعلیم کو حاصل ہے۔
تیسری تجویز:
ان علماء ومبلغین کے لئے جو ہمارے دینی اداروں سے فارغ
التحصیل ہوکر اپنے آپ کو تبلیغ کرنے کے لئے وقف کرنا چاہیں ان کے ایسے اداروں
کاقیام عمل میں لایاجائے جہاں وہ بآسانی اپنے معاش کا اہتمام کرسکیں اوراقتصادی
ومعاشی ذمہ داریوں سے بحسن وخوبی عہدہ برآں ہوسکیں اورکوئی معاشی واخلاقی اعتبار
سے ان پر انگلی نہ اٹھاسکے۔ یہی وہ ایک طریقہ ہے جس کے باعث علماء ایک طرف جدید
تعلیمی پسِ منظر رکھتے ہوں تودوسری طرف اعلیٰ
اخلاق وکردار کے مالک ہوں گے۔
جملہ معترضہ: ویسے اس ضرورت کو انگلش میڈیم اور او۔لیول /اے لیول اسکولز اوراسلام کے نام
پر جدید بیکنگ سسٹم نے کافی حد پورا کردیاہے۔
ڈاکٹرانصاری صاحبؒ صرف قول کے قائل نہیں بلکہ آپ علیہ
الرحمہ عمل پر یقین کامل رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ صرف یہ تجاویز دے کرخاموش
بیٹھ نہیں گئے بلکہ آپ نے اپنی تجاویز کے مطابق ابتداء اپنے گھر سے کی اورایک
ایساادارہ جہاں قرآن وحدیث وفقہ اور دوسرے تمام علوم اسلامیہ کی تعلیم وتربیت کے
ساتھ ساتھ علوم عصریہ جس میں ماسٹر لیول انگلش،تقابل ادیان، اکنامکس، لسانیات،
پولیٹکل سائنس،جدید فلاسفی ،سائکلوجی، جدید اخلاقیات،جغرافیہ،جدید مغربی تہذیب
اورکمپیوٹر وغیرہ جیسے وہ تمام مضامین جو معاشرے کے تمام تقاضوں سے ہم آہنگ
اورضرورتوں کوپوراکرنے والے ہوں کے لئے علیمیہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز جیسے
عظیم ادارے کو قائم فرمایا جہاں سے فارغ التحصیل علماء ومبلغین معاشرے میں ایک
نمایاں مقام اورحیثیت رکھتے ہیں ۔ایک ایسا ادارہ جو ایک عظیم وشاندار شجرِ سایہ
دار کی حیثیت اختیار کرچکاہے جس سے علم کی
نورانیت چہاردانگ عالم کو منور کررہی ہے ایک ایسا شجر سایہ دارکہ جس کے سایہ میں
دنیا بھر(غالباً 45 ممالک سے زائد) سے متلاشئ علم وحکمت اپنی پیاس بجھانے کے لئے
کچھ عرصہ رک کر نہ صرف اپنی پیاس بجھاتے ہیں بلکہ اس ادارے کا مکمل پرتوبن کر
دنیاکے مختلف علاقوں میں علم وحکمت کی شمع
روشن کرنے کے لئے اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کررہے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ اس شجرِ سایہ
دار کوتاابد سرسبزوشاداب اورہرابھرارکھے اوراس سے نکلنے والی نورکی کرنوں سے پورے
عالم کومستفید ومستنیرفرمائے۔آمین)
تبلیغ اسلام:
"تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو خیر کی دعوت
دے ، نیکی کا حکم دے اوربرائی سے روکے۔"(القرآن)
"میں تمہارے درمیان دوچیزیں ایسی چھوڑے جارہاہوں اگران
کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے توکبھی گمراہ نہ ہوگے اور وہ قرآن و سنت"(الحدیث)
لوٹ آؤ قرآن وسنت کی طرف " ڈاکٹرمحمدفضل الرحمن انصاری
ؒ کی پکار
ڈاکٹرمحمدفضل الرحمن انصاری ؒ کے نزدیک تبلیغ دین کا مطلب
صرف یہی نہیں ہے کہ دنیا کے مختلف ادیان ومذاہب،نظریات وافکار اورتہذیب وتمدن کے
خلاف چند کتب لکھ دیں اورسمجھ لیاکہ میں نے تبلیغ دین کافریضہ بحسن وخوبی
پوراکردیا بلکہ درحقیقت ڈاکٹرصاحبؒ کے سامنے جو اہم ترین مسئلہ تھا وہ جدیدیت کے
روپ میں مادیت تھی جس نے پوری انسانیت کوبالعموم اورمسلم دنیا کوبالخصوص
متاثرکیاتھا اورہماراپڑھالکھا طبقہ بھی اس کشمکش میں تھا کہ لادینیت اورمادیت کی
طرف سے ہونے والی یلغار کوکس طرح روکاجائے۔ اب اس کے دو ہی راستے تھے یا تو اسلام
کوجدت دی جائے یا پھرجدیدیت کواسلامی بنایاجائے۔بدقسمتی سے ہمارے مفکرین ودانشور پہلے
ہی دوطبقوں میں تقسیم تھے اورایک دوسرے کودشمن کو خیال کرتے تھے جس کے باعث قرآن
وحدیث سے واقف لوگ علوم جدیدہ سے ناآشنا تھے اورفکر جدید کی آڑمیں جو اسلام دشمنی ہورہی تھی اس سے
یکسربے خبر تھے جبکہ دوسراطبقہ جو فکرِ جدید سے
اوراس سے متاثربھی تھا بدقسمتی سے علوم اسلامیہ سے بے خبر رہا اورعلماء
ومشایخ کے سامنے جانا اپنی توہین تصور کرتاتھا۔ اوریوں ان دونوں طبقوں کے درمیان
حائل خلیج وسیع ترہوتی چلی گئی جس کا فائدہ اغیار نے اٹھاتے ہوئے ڈارون کے نظریہ
"ارتقاء" اورکارل مارکس کے نظریہ"ناخدا" جیسے نظریات کی صورت
میں اسلامی نظریات وعقائد پر شدید حملے کرناشروع کردیئے اورہمارے جدید طبقہ کے
دانشوروں کومتاثرکیا۔ اس گھمبیر صورتِ حال میں اہم سوالات یہ تھے کہ آخرمذہب کی
ضرورت کیاہے؟ اس کامقام ومرتبہ کیاہے؟ دیگرعلومِ جدیدہ سے اس کا تعلق کیاہے؟
انسانیت کے حوالے سے اس کا کردار کیاہے؟ اورکیا یہ انسانی زندگی کے لئے ناگزیر ہے؟
لہذا ضروری تھا کہ پہلے مذہب کا مقام وحیثیت کاتعین کیاجائے اورپھر اس میں اہم
ترین ذریعۂ علم اورمذہب کا ستون اعظم اوراعلیٰ ترین ذات کی موجودگی کے متعلق حقائق
واضح کئے جائیں۔
ڈاکٹرمحمدفضل الرحمن انصاریؒ کی تصانیف کااگرمطالعہ کیاجائے
تو معلوم ہوتاہے کہ مذکورہ بالاسوالوں کوڈاکٹرصاحب ؒ کی تحریر وتقریر میں ہمیشہ
اولیت اوراہمیت حاصل رہی ۔چنانچہ ڈاکٹر صاحبؒ Foundations of Faith میں اسلام کی دیگرمذاہب وافکار پر برتری ثابت کرنے کے بعدلکھتے
ہیں "ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وحی پرمبنی دینی تعلیم کو انسان کی کامیابی
کے لئے مرکزیت حاصل ہے بمقابلہ فلسفہ،آرٹس اورسائنس کے۔دینی تعلیم ہی انسانی سوچ و
فکر کوصحیح مقام ومنصب عطاکرتی ہے اوریہی ایک بہترین عنصر ہے جو علم کی تمام شاخوں
کے مسائل کی بہترخدمات انجام دے سکتاہے یہی وہ اعلیٰ وبرترعلم ہے۔"
اس طرح ڈاکٹر صاحبؒ نے ثابت کردیا کہ وحی کے بغیر سب ظن
وگمان ہے جب کہ مذہب حقائق سے پردہ اٹھاتاہے اورحقیقت کو بے نقاب کرتاہے اور یوں
مذہب ہماری زندگی میں ناگزیر اورلازمی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے اس کے بعد ڈاکٹر
صاحبؒ کی تحریروں کا اہم موضوع ایک اعلیٰ وبرتر ذات کا تصور واضح کرنا ہے جو آپ کی
اس تصنیف میں نمایاں ہے اس کے علاوہ ڈاکٹرصاحبؒ کی دیگرتصانیف "ایمان کی
بنیادیں،اسلام بمقابلہ مارکس ازم، اسلام وعیسائیت" موجودہ زمانے میں،مذہب
بذریعہ سائنس وفلسفہ،اسلام اوراشتراکیت،مسلم معاشرے کی تعمیر اوراس کی قرآنی
بنیادیں ،اسلام اورمغربی تہذیب ،ان کے علاوہ ڈاکٹر صاحبؒ کی دیگرتصانیف جنہیں
دیکھنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹرانصاری صاحبؒ کوکن حالات
کاسامناکرناپڑا اورکیسے نبردآزماہونا پڑا اورانہی حالات سے حاصل کردہ تجربات کی
بنیاد پر آپ نے یہ فیصلہ فرمایاکہ جب تک ہمارا تعلیمی تضاد ختم نہ ہوجائے اورایک
عام مسلمان سے لے کرمبلغِ اسلام تک جدید وقدیم علوم کے ہتھیار سے پوری طرح مسلح نہ
ہوجائیں اس وقت تک اس باطل یلغار کامقابلہ ممکن نہیں۔
ڈاکٹرانصاری صاحبؒ نے اس طرف عملی قدم اٹھایا اورعظیم نصابِ
تعلیم ترتیب دیا اورایک تبلیغی کالج کی بنیاد رکھی جو آج علیمیہ انسٹیٹیوٹ آف
اسلامک اسٹڈیز کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے ڈاکٹرانصاری صاحبؒ کے خیال میں
ایک مبلغ کو موجودہ سیاسیات،اقتصادیات ،لسانیات ، جدیدسائنسی علوم، عمرانیات،فلسفہ
اورفلسہ مذہب،علم النفس اوردیگر علوم کے ساتھ ساتھ موجودہ ادیان ومذاہب کا تقابلی
جائزہ اورعلم التصوف اورتزکیہ نفس جیسے مضامین پرمکمل دسترس ہونی چاہئے۔
اس سلسلے میں ڈاکٹرانصاری صاحبؒ یہ فرماتے ہیں کہ روحانی
حقائق وعمل کی بنیاد روحانی قدروں پرمبنی ہوتی ہے چناچہ مسلمانوں کااجتماعی
وانفرادی نظام دونوں روحانی افکار ونظریات اورروحانی قدروں پر مشتمل ہیں۔ آپ مزید
فرماتے ہیں کہ ایک انسان کو سب سے پہلے اپنے ظاہر وباطن میں اتحاد پیداکرناہوگا اس
کے بعد اتحاد امت کی طرف قدم اٹھائیے۔
علماء انبیاء علیہم
السلام کے وارث اورعوام الناس کے دلوں کی دھڑکن ہوتے ہیں اورعوام کے لئے
ایک نمونہ اوررول ماڈل بھی ہوتے ہیں لہذا ان کے قلب و نظر اورجسم وروح میں یکسانیت
لازمی ہے ڈاکٹرصاحب ؒ کے نزدیک مسلمانوں کی راہِ نجات صرف اورصرف اسلامی اصولوں
پرمکمل عمل کرنے میں مضمرہے۔
ڈاکٹرانصاری صاحبؒ نے اپنے مرشد کریم کی معیت میں
اورانفرادی طورپرپانچ مرتبہ عالمی تبلیغی دورے فرمائے اورقومی وبین الاقوامی سطح
پر40 تنظیموں کوملاکرورلڈفیڈریشن آف اسلامک مشنز کی بنیاد رکھی جو عالمی تحریک کی
جانب پہلا قدم تھا اس طرف آپ نے خود بھی اشارہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج
مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک وسیع اورعالمی تبلیغ تحریک قائم کریں تاکہ
منتشر مسائل کا مقابلہ اتحاد سے کیاجاسکے اس سلسلے میں آپ نے بنیادی طور پر تین
مقاصد کاتعین فرمایا۔
1.
موجودہ تبلیغی کوششوں کوتیزترکرناتاکہ مسلم وغیرمسلم دونوں کو اس کے
نتائج سے مستفید کیاجاسکے۔
2.
کفروالحاد کی تحریکوں کابھرپور مقابلہ کرنا جو اسلام پر ہرلحاظ سے حملہ آور
ہیں۔
3.
منتشر گروہوں میں اسلامی تعلیمات کوفروغ دینا اوراسلامی اخوت کی جڑیں مضبوط
کرنا خصوصا ایسے گروہوں میں جواسلامی معلومات نہ ہونے کے باعث اسلام سے دورہیں۔
ان مسائل کا تقاضا ہے کہ عالم اسلام متحد ہوجائے بالخصوص ہم
خیال(ہم مسلک) اسلامی ادارے یکجاہوکر ان مسائل کے خلاف اجتماعی جدوجہد کریں آخر
میں اس دعوت واپیل کے ساتھ اپنے الفاظ کواختتام دیتاہوں کہ آئیں اورعالمی اسلامی
تبلیغی تحریک کا ساتھ دیں اورورلڈفیڈریشن آف اسلامک مشنز کادست وبازو بن کر امتِ
مسلمہ کو جن چیلنجز کاسامناہے ان سے نبرد آزما ہونے میں اس عظیم تحریک کا ساتھ
دیں۔اسی میں ہماری نجات اوردارین کی کامیابی ہے۔
Post a Comment